Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.17K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
جواب: اولاً: اہل شرک کے ممالک کا سفر کرنا جائز نہیں کیونکہ ان کی جانب سفر کرنا گمراہی ، دین سے پھر جانے، ان کے اسلام مخالف شبہات، گمراہیاں اور مکروفریب سننے کا سبب ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ان اسباب کی وجہ سے واقعی گمراہ ہوجائے اور وہ اس کے دل میں شبہ ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اہل شرک کے ملک کا سفر کرے نہ ہی ان کےپاس اقامت اختیار کرےکیونکہ ا س میں عظیم خطرات اور شبہات کا سامنا ہے۔ جب وہ انہيں عظیم فساد میں مبتلا دیکھے گا جیسے شرکیات، زنا، لواطت اور ہر قسم کی معاصی تو ہوسکتا ہے ان سے متاثر ہوجائے اور اس سبب سے اس کے دل میں ٹیڑھ پن پیدا ہوجائے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا:

’’أنا بريء من كل مسلم يقيم بين المشركين لا تراءى نارهما‘‘([1])

(میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہے، ان دونوں (یعنی مسلمان اور مشرکین) کی آگ ایک دوسرے کو دکھائی نہیں دینی چاہیے (یعنی گھر قریب نہ ہوں))۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بھی روایت کی جاتی ہے کہ:

’’من جامع مشرك أو سكن معه فهو مثله‘‘([2])

(جو مشرک کے ساتھ جمع ہوا یا اس کے ساتھ سکونت اختیار کی تو وہ اسی کے جیسا ہے)۔

پس ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اہل شرک کے ملک کا سفر کرنے، ان کے درمیان اقامت اختیار کرنے سے بچے نہ تجارت کے لیے نہ کسی اور وجہ سے۔ واجب ہے کہ اس سے بچا جائے خصوصاً اس دور میں جس میں شر وفساد کی کثرت ہوگئی ہے اور ان میں کفروالحاد اپنے عروج پر ہے۔ لہذا بچنا اشد ضروری ہے الا یہ کہ کوئی علم وبصیرت والا ہو جو دعوت الی اللہ کا کام کرے، لوگوں کو خیر کی تعلیم دے، اور انہیں حق کی جانب رہنمائی کرے تو یہ معذور ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہے اور اپنے دین کا اظہار کررہا ہے جو کہ وہاں نافع ہے ۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالی اس کے ہاتھوں ایک جم غفیر کو ہدایت دے۔ لیکن جو جاہل ہے جس کے پاس اپنے دین کے بارے میں کوئی بصیرت نہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ بچے اور وہاں کا سفر ہرگز نہ کرے۔

جہاں تک ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر فریب کھانے کی بات ہے تو یہ بھی منجملہ ان فسادات میں سے ہے جس کے بارے میں خدشہ ہوتا ہے۔ اور ہوسکتا ہے وہ اسے اپنی جدید مصنوعات، ایجادات اور دیگر اشیاء کے ذریعے فریب میں مبتلا کردیں۔ اس جاہل مسکین کو کہ جو اسلام اور احکام اسلام کے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں وہ تو بس بعض مسلمانوں کو ہی جانتا ہے ایسے مسلمان جن کے برے اخلاق ہیں، جھوٹ سے کام لیتے ہیں، سود کھاتے ہیں، زنا کرتے ہیں، نشہ کرتےہیں۔ ہر مسلمان اپنے نفس کی حفاظت کرنے والا نہیں ہوتا اور محرمات الہی کو ترک کرنے والا نہیں ہوتا۔ چناچہ جب یہ مسکین بلاد شرک کا سفر کرتا ہے تو ان کافروں میں سے بعض کے پاس اچھے دنیاوی ومعاشی اخلاق دیکھتا ہے اور اس سے فریب خوردہ ہوجاتاہے۔ لہذا ان کے پاس سفر کرنے اور اقامت اختیار کرنے سے بچنا ضروری ہے۔

ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین سے جڑے، اپنے دین سے تمسک اختیار کرے، اسے مضبوطی سے پکڑ لے۔اور باکثرت تلاوت قرآن اورتدبر قرآن کرے تاکہ وہ دین الہی کو سمجھ سکے۔ اسی طرح سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت صحابہ جو انبیاء کرام کے بعد بہترین لوگ ہیں سے بصیرت افروز ہو، تاکہ وہ ان کے پاک اعمال، سیرت حمیدہ اور جہاد صادق کو جانے،اور اسے یہ علم ہوجائے کہ وہ اہل خیر، بہترین نمونہ اور عظیم شخصیات تھے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی پیروی کرنی چاہیے اور ان کے منہج پر چلنا چاہیے۔ لہذا اگر بعد میں آنے والے کچھ مسلمان ان کے بعض اخلاق کی مخالفت کریں تو ملامت صرف ان پر ہونی چاہیے جو مخالفت کرتے ہیں اور ان کے طریقے سے انحراف کرتے ہیں۔ پس اے اللہ کے بندے آپ پر واجب ہے کہ اس معروف طریقے کی پیروی کریں جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اختیار کیا تھا اخلاق میں، اعمال وسیرت میں۔ اور ان مسلمانوں یا دوسروں کی وجہ سے دھوکہ مت کھائیں جو ان کے طریقے کی مخالفت کرتے ہیں۔ اللہ تعالی سے ہی سلامتی کی سوال ہے۔

(فتاوی نور علی الدرب 18150)

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ سے کافروں کو صدق، امانت اور حسنِ عمل کی صفات سے متصف کرنے کا حکم پوچھا گیا؟
اور یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی غور طلب ہے کہ فرمایا: : ’’الْمُسْلِمُ إِذَا كَانَ مُخَالِطًا النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنَ الْمُسْلِمِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ‘‘ (صحیح ترمذی 2507) (وہ مسلمان جو (مسلمان) لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ ان کے ساتھ مل کررہتا ہے اور نہ ہی ا ن کی طرف سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے) اور فرمایا: ’’الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ‘‘ (صحیح ابن ماجہ 3273) (وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے زیادہ عظیم اجر کا مستحق ہے اس مومن کی نسبت جو نہ ان کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور نہ ان کی طرف سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتاہے)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام) (توحید خالص ڈاٹ کام)
جواب : یہ اخلاقیات جو بیان ہوئے اگر صحیح بھی ہوں یعنی واقعی ان میں ہوں ، حالانکہ ان میں جھوٹ، جعلسازی،خیانت اورچوری چکاری بعض اسلامی ممالک سے بھی بہت زیادہ ہے اور یہ بات معلوم ہے، لیکن اگر یہ اخلاقیات واقعی ان میں ہوں بھی تب بھی یہ تو وہی اخلاق ہیں جن کی طرف اسلام دعوت دیتاہے۔ لہذا مسلمانوں کو تو زیادہ چاہیے کہ وہ انہیں اپنائیں اور حسن اخلاق کو پانے کے ساتھ ساتھ اجر وثواب بھی حاصل کریں۔ جبکہ کافر اس کے ذریعے محض مادی امور کے طالب ہوتے ہیں پس وہ معاملات میں سچائی سے کام لیتے ہیں تاکہ لوگ ان کی طرف مائل ہوں۔ لیکن اگر کوئی مسلمان ان اخلاقیات کو اپناتا ہے تو وہ مادی امور پر ایک اضافی چیز یعنی شرعی امر کے بھی طالب ہوتےہیں جو کہ ایمان کی تکمیل اور اللہ تعالی کی جانب سے ثواب کی چاہت ہوتی ہے۔ اور یہی ایک مسلمان اور کافر میں اصل فارق ہے۔

البتہ جو یہ گمان کرتا ہے کہ کافر ممالک میں بڑی سچائی ہے چاہے مغرب میں ہوں یا مشرق میں اگر یہ بات صحیح بھی ہو توبھی یہ محض خیر کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو کہ ان کے شر ِکثیر کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ اگر ان شر میں سے صرف ایک ہی ہوتا تو وہ بھی ان کے بدترین ہونے کے لیے کافی تھا اور وہ ہے ان کا تمام حقوق میں سے عظیم ترین حق کا انکار کرنا یعنی اللہ تعالی کے حق توحید کا، فرمان الہی ہے:

﴿اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾ (لقمان: 13)

(بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے)

پس یہ لوگ خواہ کتنے ہی خیر کے کام کرتے رہیں پھر بھی وہ ان کی برائیوں ، کفر وظلم کے سامنے کچھ نہیں اور وہ ان میں ڈھک جاتے ہیں۔ لہذا ان میں کوئی خیر نہیں۔

(مجموع الفتاوی والرسائل فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین ج 3، ص 23-24)

شیخ عبدالرزاق البدر حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: بعض لوگ اس قول میں مبتلاہیں کہ کافروں کے اخلاق مسلمانوں کے اخلاق سے بہتر ہیں، ایسے کہنے سوچنے پر کیا کچھ مرتب ہوتا ہے؟

جواب: یہ مقولہ بعض لوگ بنا غوروفکر کے اور اس کے وسیع تر اثرات کی پرواہ کیے بغیر ہی کہہ دیتے ہیں۔ اور ان کا یہ قول محض بعض ظاہری باتوں کی وجہ سے جو وہ دیکھتے ہیں یا بعض تجربات جو انہیں ہوئے ہوتے ہيں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ورنہ اگر ہم حقیقت کی نگاہ سے کافروں کے اخلاق کو دیکھیں تو کیا یہ اخلاق:

اولاً: کیا تقرب الہی اور آخرت کے ثواب کی چاہت کی بنیاد پر ہوتےہيں؟ کیا وہ ان اخلاق کو اس فرمان الہی کے تحت بجالاتےہیں؟

﴿اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَّلَا شُكُوْرًا﴾ (الدھر: 9)

(ہم تو صرف لوجہ اللہ تمہیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ)

کیا وہ حسن اخلاق سے اس لیے پیش آتے ہیں کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہو ، ثواب کی امید میں اور جنت میں بلندئ درجات پر فائز ہونے کے لیے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا:

’’بمَ يدخل الناس الجنة؟ قال: بتقوى الله وحسن الخُلُق‘‘([3])

(کن چیزوں کے سبب لوگ جنت میں جائیں گے؟ فرمایا: اللہ کے تقویٰ اور حسن اخلاق کی وجہ سے)۔

پس کیا وہ اخلاق سے ان بنیادوں کی بناء پر پیش آتے ہیں؟ جواب: نہیں۔ جبکہ ایک مومن اخلاق سے اس لیے پیش آتا ہے اگرچہ وہ اس میں کم ہو مگر وہ ثواب الہی کی امید رکھتاہے۔ ایک بات تو یہ ہوئی۔

دوسری بات: ان میں سے بہت سے کفار کے یہ اخلاق دراصل ان پابندیوں اور قوانین کی وجہ سے ہوتے ہیں جو ان کے ملکوں میں رائج ہوتےہیں جو ان پر اس قسم کے اخلاق کو لازم کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے پر سخت سزا دیتے ہیں۔ خصوصاً ان معاملات میں جو مصالحِ عامہ کو گزند پہنچائیں اور اس بارے میں وہ شدید قوانین ان کے خلاف بناتے ہیں جو ان کی مخالفت کرے۔ مثلاً ان کے اخلاق میں سے یہ ہے کہ لوگوں کے راستے میں کچرا نہ پھینکنا۔ پس بعض ممالک نے اس پر سخت جرمانہ مقرر کررکھا ہے اگر کوئی اپنے گاڑی کے شیشے سے باہر کوئی ٹشو یا کوئی بھی ایسی چیز پھینکتا ہے تو وہ اس پر بہت بڑا مالی جرمانہ عائد کرتے ہیں۔ لہذا آپ کسی کو اس عمل سے رکتا ہوا محض اس شدید سزا وجرمانے کی وجہ سے پائیں گے ۔ لیکن اس میں بہت فرق ہے کہ کوئی اس قسم کے جرمانے یا سزا سے بچنے کے لیے ایسا کام کرے اور کوئی تقرب الہی اور اللہ کے بندوں پر احسان کی نیت سے ایسا کرے۔

یہ بات بھی ہے کہ ان کا ان اچھے اخلاق سے معاملہ کرنا دنیاوی نفع ومصالح پر مبنی ہے اگر انہیں کوئی مصلحت وفائدہ نہ ملتا ہو تو وہ یہ معاملہ بھی نہ کریں۔ جب تک یہ مصلحت قائم رہے گی تو یہ معاملہ بھی بس اس وقت تک قائم رہے گا ۔ ایک جانب تو یہ ہوئی۔
دوسری جانب یہ کہ اگر آپ ان کے احوال کی صحیح معنوں میں تفتیش کریں تو پائیں گے ان کے ادیان کے فساد کی وجہ سے اخلاق میں بھی سوائے چند ایک عام مظاہر کے علاوہ فساد مرتب ہوتا ہے۔ ورنہ اگر آپ ان کے گھروں میں دیکھیں گے تو خاندانی نظام بالکل تباہ ہوچکا ہے۔ یہ لوگ خاندانی نظام کی تباہی کی بدترین صورتحال سے دوچار ہیں۔آپ ان کے یہاں حسن سلوک میں سے سب سے عظیم ترین حسن سلوک نہیں پائیں گے یعنی اولاد کا والدین کے ساتھ حسن سلوک، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا بس اسی حدود میں ان سےمعاملہ کرتےہیں جو ملکی قوانین اور ضوابط ان پر لاگو کرتے ہیں۔

ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ ان کے بہت سے گھروں میں جب نوجوان لڑکا یا لڑکی سولہ سال، یا سترہ سال، یا اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو گھر میں اس کے ساتھ کسی مہمان یا کرایے دار جیسا معاملہ کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ کہتےہیں بعض مائیں مہینے کے آخر میں اپنے ہی بیٹے یا بیٹی کو بل دیتی ہے ، یہ لانڈری کا بل، یہ کھانے کا بل یہ فلاں کا بل ادا کرو سب۔۔۔اس کے علاوہ بھی بہت سے معاملات ان کے گھروں میں ہے(اسی طرح سے بھوڑے والدین کو اولڈ ایج ہومز میں پھینک آنا)۔

لہذا یہ مقولہ کہنے والے نے محض چند عام مظاہر کو دیکھ کر یا بعض معاملات کا تجربہ کرکے یہ رائے قائم کرلی ہے جو کہ ان امور پر مبنی ہوتے ہیں جو میں نے ابھی بیان کیے۔ بعض اوقات اچھے برے تجربے انسان کو ایسا حکم لگادینے پر ابھارتے ہیں یعنی اگرکوئی انسان کسی غیر اسلامی ملک میں گیا اور کسی ٹیکسی ڈرائیور سے اس کا معاملہ ہوا تو اس نے بڑی خوش اخلاقی اور نرمی کا مظاہرہ کیا۔ پھر وہی شخص کسی اسلامی ملک میں گیا تو ایسے ڈرائیور سے پالا پڑا جو بڑا بدمزاج اور برا تھا۔ چناچہ ان تجربات کے بعد جب آپ اس سے پوچھیں گے کہ آپ کی ان دوممالک کے بارے میں کیارائےہے؟ تو بعض اوقات کچھ لوگ محض ایک دو تجربات کی بنیاد پر اپنا مستقل نظریہ بنالیتے ہیں تو وہ کہے گا فلاں ملک والوں نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہيں کیا محض ایک، دو یا تین لوگوں سے معاملہ کرنے کی وجہ سے اس نے پورے ملک پر ہی عام حکم لگا دیا اور یہ بات عدل وانصاف میں سے نہیں۔ اس قسم کی باتیں کوتاہ نظر قسم کے لوگوں سے ہی صادر ہوتی ہے۔

اگر ہم ان تمام باتوں کو چھوڑ بھی دیں اور محض اخلاق کی طرف ہی واپس سے کلام کریں تو اخلاق کے باب میں بھی جو سب سے عظیم اخلاق وادب ہے وہ تو رب العالمین کے ساتھ ہونا چاہیے تو جو کوئی اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرتاہے اس کا کوئی اخلاق نہیں۔ دنیا میں اس کے جو اچھے معاملات ہے اسے عنداللہ کوئی فائدہ نہيں پہنچاسکتے اگر وہ اللہ تعالی کےساتھ کفر کرتاہے:

﴿اِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ﴾ (النساء: 48)

(بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اوراس کے علاوہ جو ہے وہ جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا)([4])

(معرفۃ السنن والآثار ویب سائٹ سے آڈیو)

[1] صحیح ابی داود 2645 کے الفاظ ہیں: ’’أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ؟ قَالَ: لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)

[2] صحیح ابی داود 2787 کے الفاظ یہ ہیں : ’’مَنْ جَامَعَ المُشْرِكَ، وَسَكَنَ مَعَهُ فَإِنَّهُ مِثْلُهُ‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)

[3] صحیح ابن ماجہ 3443 کے الفاظ ہیں: ’’سُئِلَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: التَّقْوَى وَحُسْنُ الْخُلُقِ، وَسُئِلَ مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ النَّارَ؟ قَالَ: الْأَجْوَفَانِ: الْفَمُ وَالْفَرْجُ‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے زیادہ کن چیزوں کی وجہ سے جنت میں داخلہ ہوگا؟ فرمایا: تقویٰ اور حسن اخلاق۔ اور پوچھا گیا سب سے زیادہ جہنم میں داخلہ کن چیزوں کی وجہ سے ہوگا؟ فرمایا: جو کھوکھلی چیزیں: منہ اور شرمگاہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)

[4] اس قسم کا مقولہ کہنے والوں کو اس آیت سے بھی ڈرنا چاہیے: ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَيَقُوْلُوْنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا هٰٓؤُلَاۗءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَبِيْلًا، اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰهُ ۭ وَمَنْ يَّلْعَنِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ نَصِيْرًا﴾ (النساء: 51-52) (کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا، وہ بتوں اور باطل معبود پر ایمان لاتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ان سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں جو ایمان لائے ہیں، یہی لو گ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کرے پھر آپ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہر گز نہ پائیں گے)۔
[Article] Ruling regarding reading the Books of #AhlulKitaab? – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen

کتبِ #اہل_کتاب پڑھنے کا حکم؟

فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ

(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: فتاوی نور علی الدرب: متفرقہ۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/kutub_ahlekitab_parne_ka_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: احسن اللہ الیکم، سوال ہے کہ دیگر آسمانی کتابوں کو پڑھنے کا کیا حکم ہے جبکہ ہم ان کا تحریف شدہ ہونا جانتے بھی ہیں؟

جواب:

اولاً: ہم پر یہ جاننا واجب ہے کہ ایسی کوئی آسمانی کتاب نہیں جس کی قرأت یا پڑھنے سے ہم اللہ تعالی کی عبادت کا قصد کریں اور نہ ہی کوئی ایسی کتاب ہے جس کی شریعت کے مطابق انسان اللہ تعالی کی عبادت کرے سوائے ایک کتاب کے جو کہ قرآن مجید ہے۔ کسی کے لئے حلال نہیں کہ وہ انجیل وتوراۃ کا مطالعہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس توراۃ کا ایک صحیفہ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غضبناک ہوگئے اور فرمایا:

’’ أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ ‘‘

(اے خطاب کے بیٹے کیا تو شک میں ہے)

اگرچہ اس حدیث کی صحت میں کچھ نظر ہے([1]) لیکن یہ بات صحیح ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ کسی سے ہدایت نہیں۔

دوسری بات یہ کہ جو کتابیں نصاریٰ یا یہودیوں کے پاس آج ہیں کیا یہ آسمان سے نازل ہوئی ہیں؟ انہوں نے تو انہیں تحریف کردیا، بدل دیا اور تغییر کرلی چناچہ اس کی توثیق نہیں کی جاسکتی کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ ہے۔

تیسری بات یہ کہ تمام سابقہ نازل شدہ کتابیں قرآن کریم کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہیں جن کی مطلقاً کوئی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر ہم فرض کریں کہ کوئی دینی غیرت کا حامل اور دینی علم میں بصیرت رکھنے والا طالبعلم یہود ونصاریٰ کی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کتابوں میں سے ان کا رد کرسکے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ ان کا مطالعہ کرلے محض اس مصلحت کی خاطر۔

البتہ رہا معاملہ عوام الناس کا تو ہرگز نہیں بلکہ میں اسے واجب سمجھتا ہوں کہ جو کوئی بھی ان کتابوں میں سے کچھ پائے تو اسے جلا ڈالے۔ نصاریٰ (ان پر تاقیامِ قیامت اللہ تعالی کی لعنت ہو) آجکل لوگوں میں اپنی کتاب جس کے بارے میں وہ انجیل ہونے کا دعوی کرتے ہیں پھیلا رہے ہیں، جس کی شکل بھی بالکل مصحف ِقرآنی سے ملتی جلتی ہے اور صحیح اعراب کے ساتھ ہے، اس میں فواصل بھی ہیں جیسے قرآنی سورتوں کے فواصل ہوتے ہیں، پس جو شخص مصحف قرآنی کو نہیں جانتا جیسے ایک مسلمان آدمی جو پڑھنا نہیں جانتا جب وہ اسے (انجیل کو) دیکھتا ہے تو قرآن سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ سب ان کی خباثت و اسلام کے خلاف دسیسہ کاریاں ہیں۔ لہذا اے مسلمان بھائی! اگر آپ ایسا کچھ دیکھیں تو اس کے جلادینے میں جلدی کیجئے آپ کے لئے اجر ہوگا کیونکہ یہ اسلام کے دفاع میں شمار ہوگا۔

[1] البتہ اس مفہوم کی ایک حسن روایت موجود ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’’ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ كِتَابًا حَسَنًا مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ، قَالَ: فَغَضِبَ، وَقَالَ: أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَابْنَ الْخَطَّابِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً، لا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ، أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا الْيَوْمَ مَا وَسِعَهُ إِلا أَنْ يَتَّبِعَنِي‘‘ (اسے مصنف ابن ابی شیبہ 25834 اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا اور شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے) (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بعض اہل کتاب سے حاصل شدہ ایک کتاب(توراۃ کے کچھ صفحات) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے کر آئے،اور فرمایا: یا رسول اللہ ! مجھے بعض اہل کتاب کی طرف سے یہ اچھی سی کتاب ملی ہے۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت غصہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم ابھی تک ان کی بھول بھلیوں میں پڑے ہوئے ہو یا ابن خطاب!؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے پاس واضح وشفاف (شریعت) لے کر آیا ہوں۔اہل کتاب سے کسی چیز کی بابت نہ دریافت کرو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی سچی بات کی خبر دیں تو تم اسے جھٹلادو، یا پھر کسی باطل کی خبر دیں تو تم اس کی تصدیق کردو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےکہ اگر آج (صاحبِ توراۃ) سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام بھی خود زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ ہوتا)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Article] Ruling regarding Eating in the Utensils of "#AhlulKitaab"? – Shaykh Muhammad bin Umar Bazmool

#اہل_کتاب کے برتنوں میں کھانے کا حکم؟

فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ

(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: بازمول ڈاٹ کام۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/ahlekitaab_bartono_may_khana.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: یا شیخ میرے پاس سوال ہے اگر آپ مہربانی فرما کر اس کا جواب مرحمت فرمائیں۔ میں اہل کتاب کے برتنوں میں کھانے کا حکم جاننا چاہتا ہوں، بارک اللہ فیکم؟

جواب: اگر ان میں حرام کھانے یا شراب کے آثار نہ ہوں تو ان میں کھانا جائز ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک یہودیہ نے بدبودار چربی (بطور سالن) کھانے کی دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمائی، اور ظاہر ہے ان کے برتنوں کے علاوہ اسے کھانا ممکن نہیں تھا۔ الغرض ان میں محرمات میں سے کسی چیز کا اثر ظاہر نہ ہو، اور اگر اثر ظاہر ہو تو اسے دھولیا جائے۔ پس ان میں کھالینے میں کوئی مانع نہیں اگر حرام چیز کا اثر زائل کردیا جائے۔
[Article] Is not our opposition to #Jews due to religious basis?! – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan

کیا ہمارا #یہود سے کسی دینی بنیاد پر جھگڑا نہیں؟!

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الاجوبۃ المفیدۃ عن الاسئلۃ المناھج الجدیدۃ س 20۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/kiya_yahood_say_deeni_bunyad_par_jaghra_nahi.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: آپ ایسے شخص کےبارے میں کیا کہیں گے جو کہتاہے کہ: ’’ہمارا یہود سے کوئی دینی بنیاد پر جھگڑا نہیں، کیونکہ قرآن کریم نے تو ان سے میل ملاپ اور دوستی کی ترغیب دی ہے‘‘؟([1])

جواب: اس کلام میں خلط ملط اور گمراہی پنہاں ہے۔ یہود کفار ہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں کافر قرار دیا اور ان پر لعنت فرمائی۔ اسی طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کافر قرار دیا اور ان پر لعنت فرمائی۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ﴾ (المائدۃ: 78)

(بنی اسرائیل کے کافروں پر داود اور عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنت کی گئی)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘([2])

(اللہ تعالی کی لعنت ہو یہود ونصاریٰ پر انہوں نے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی قبروں کو مساجد بنالیا تھا)۔

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ اُولٰىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ﴾ (البینۃ: 6)

(بے شک جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہوئے اور مشرکین سب جہنم کی آگ میں جائیں گے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ لوگ بدترین خلائق ہیں)

اور فرمایا:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاءَ ۘبَعْضُهُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ﴾ (المائدۃ: 51)

(اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے، بے شک ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا)

پس ہماری ان سے عداوت دینی ہے۔ ہمارے لیے ان سے دلی دوستی ومحبت جائز نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم ہمیں اس سے منع کرتا ہے، جیسا کہ گزشتہ آیت میں بیان ہوا۔

[1] یہ حسن البنا بانی فرقۂاخوان المسلمین کا قول ہے، کتاب: ’’الاخوان المسلمین احداث صنعت التاریخ‘‘ (اخوان المسلمین: تاریخ ساز واقعات) تالیف: محمود عبدالحلیم، جزء اول، صحیفہ: (409) میں آپ اصل کلام کو دیکھ سکتےہیں۔ اور اسی قسم کا کلام محمد المسعری خارجی کا ہے ان دونوں شخصوں کے مناہج مختلف ہونےکےباوجود اقوال کتنے ملتے جلتے ہیں اس کی وجہ ان کی یہی انقلابی تحریکوں والا منہج ہے۔ یہ وہ شخص ہے کہ جس نے اعلیٰ چیز کےبدلے ادنیٰ چیز لے لی یعنی ارض حرمین سرزمینِ توحید کو چھوڑ کر ارض کفر میں سکونت کو اختیار کیا اور کافروں کے قوانین کےذریعہ تحاکم وفیصلوں پر راضی ہوا (جس کا طعنہ یہ دوسروں کو دیتےہیں!)۔

چناچہ اخبار ’’الشرق الاوسط‘‘ عدد (6270) بتاریخ اتوار، 8/ رمضان/1416ھ؛ میں اس کا مندرجہ ذیل مقالہ شائع ہوا؛ کہتا ہے:

(سعودیہ کی جو موجودہ حالت ہے کہ وہ مسیحی اور یہودی لوگوں کو اپنی عبادات علی الاعلان کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ عنقریب ہماری کمیٹی (مزعوم شرعی حقوق کے دفاع کی کمیٹی) کے برسراقتدار آنے پر ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ لازم ہے کہ اقلیت کو ان کے حقوق دیے جائیں۔ جن میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے گرجاگھروں میں اپنے دینی شعائر کا اظہار کریں، اور اپنی خاص شریعت کے مطابق شادی بیاہ کے معاملات کریں، مزید یہ کہ انہیں اپنی دینی زندگی گزارنے کی مکمل آزادی واجازت حاصل ہو چاہے وہ یہودی ہوں یا مسیحی یا پھر ہندو۔۔۔‘‘!!۔

اور کہا: ’’شریعت اسلامیہ میں گرجاگھروں کی تعمیر مباح ہے‘‘!!۔
بی بی سی نے خود اس کی اپنی آواز میں اتوار کی شب 29/06/1417ھ کو نشر کیا کہ: نیوز کاسٹر نے بتایا کہ تارک وطن سعودی محمد المسعری جو کہ لندن میں اقامت پذیر ہیں اور اپنے آپ کو ’’الجھادی‘‘ کے لقب سے ملقب کرتے ہیں کہتے ہیں کہ عنقریب ہماری طرح تارک وطن شیعہ لوگوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ محاذ تشکیل دینے کا اعلان کرنے کے بارے میں اس ماہ کے آخر میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ پھر المسعری کی اپنی آواز ریڈیو پر نشر ہوئی کہتا ہے: ’’عنقریب ایک اشتراک تشکیل پائے گا، اور ہوسکتاہے کہ وہ ایک وسیع بلاک بن جائے کہ جس کے لیے ہم سرگرم عمل ہوں تگ ودو کریں اور آگے پیچھے رابطے قائم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ ایک اسلامی تحریک ہوگی نا سنی نا شیعہ بلکہ صرف اسلامی تحریک ہوگی جو اسلام کے اجماعی اور قطعی احکامات پر قائم ہوگی کہ جس کے ذریعہ ہم تمام لوگوں کو جمع کرسکتے ہیں۔ تمام مسلمان چاہے سنی ہوں یا شیعہ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ مسلمانوں اور تارکین وطن کے حقوق کی حفاظت کرے گی اور اسلامی ممالک میں بھی تمام تارک وطن شہریوں کے حقوق خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ ومجوس وغیرہ کو مدنظر رکھے گی۔ لہذا اس معنی کے اعتبار سے ہماری یہ تحریک سیاسی ہے کہ جو اسلام کی اساس پر قائم ہے محض کسی خاص گروہ یا مذہب کی تحریک نہیں‘‘۔

میں یہ کہتا ہوں کہ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی خبط الحواسی اور اسلام کے خلاف جسارت ہوسکتی ہے؟!!۔ معسری کا آپ ﷺ کے اس فرمان کے تعلق سے پھر کیا خیال ہے:

’’أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ‘‘ (البخاری 2888، 2997، 4168 بروایت ابی مصعب، الکبری للبیھقی: (9/207)۔

(مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دو)۔

پھر کیا ایسا شخص جو اتنی واضح وواشگاف احادیث نبوی سے جاہل ہو قائد تحریک یا لیڈر بن سکتا ہے، الا یہ کہ وہ گمراہی واہوا پرستی کا امام وسربراہ بنے تو اور بات ہے۔ ہم اللہ تعالی ہی سے عافیت و سلامتی کے خواستگار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ شاعر کے اس قول کی زندہ تعبیر ہے:

ودارھم مادمت فی دارھم وارضھم ما دمت فی ارضھم

(جیسا دیس ویسا بھیس ۔۔۔کیونکہ یہ شخص خود نصاری کے پاس بریطانیہ میں پناہ گزین ہے)۔

ویسے اخبار ’’الریاض‘‘ عدد (12182) بروز بدھ بتاریخ 15 شعبان، 1422ھ میں سابق مفتئ اعظم سعودی عرب امام شیخ عبدالعزیز بن باز " کا مقالہ شائع ہوا تھا جس میں ہے کہ: ’’۔۔۔آجكل جو گمراه كن اور فساد سے بھرپور دعوت محمد المسعرى ، سعد الفقيہ اور ان جيسے ديگر افراد پھيلا رہے ہيں بلاشبہ يہ ايک بہت بڑا شر ہے،اور يہ افراد اس شرِ عظيم اور بڑے فساد كے داعى ہيں۔ پس ہم پر واجب ہے كہ ان كے لٹريچر سے لوگوں كو خبردار كريں اور ان كا قلع قمع كركے انہيں تلف كرديا جائے۔ اور ان كى شروفساد پر مبنى باطل وپرفتن دعوت كے سلسلے ميں ان سے عدم تعاون (بائيكاٹ) كيا جائے۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ انہيں نصیحت كرنا اور حق كى جانب رہنمائى کرکے ان باطل نظريات سے بھی خبردار كرنا چاہيے۔ كسى كے لئے يہ قطعاً جائز نہيں كہ وه اس شر كى ترويج ميں ان كے ساتھ تعاون كرے۔۔۔ميرى يہ نصیحت ہے مسعرى، فقيہ اور (اسامہ) بن لادن اور جو بھى ان كے طريقے پر گامزن ہوکو كہ وه اس گندے طريقے كو چھوڑ ديں اور يہ كہ وه الله تعالی سے ڈريں اور اس كے انتقام اور غضب سے بچیں، اور رشدو ہدايت كے راستے كى طرف پلٹ آئيں اور جو كچھ ہو گزرا اس كے ليے الله تعالى سے توبہ واستغفار كريں۔اللہ تعالی نے اپنے تائب ہونے والے بندوں سے ان کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ دیکھیں مجموع فتاوی ابن باز (9/100)۔ (الحارثی)

[2] البخاری 425، مسلم 531۔
[Article] Ruling regarding celebrating and wishing the #new_year? – Various 'Ulamaa

#نئے_سال کی مبارکباد دینا اور جشن منانا؟

مختلف علماء کرام

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/naye_saal_mubarakbad_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم



فتوی کمیٹی ، سعودی عرب کا بیان جو ملینیم کے سلسلے میں منائی جانے والی تقریبات میں شرکت سے متعلق تھا میں علماء کرام فرماتے ہیں:

کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافروں کی عیدوں کے سلسلے میں کسی بھی طرح کا تعاون کرے جیسے ان کی عیدوں کا اعلان تشہیر، یا ملینیم منانا (جوکہ سوال میں مذکور ہے)۔ نہ اس کی طرف دعوت دے خواہ کسی بھی وسیلے کے استعمال کے ذریعے ہو چاہے میڈیا کے ذریعے ہو، یا گھڑیال وسائن بورڈز ہوں، یا خاص ملبوسات کی تیاری ہو یا یادگاری اغراض ہوں، یا عیدکارڈز ومدرسے (اسکولوں) کی اس موقع مناسبت سے خاص رجسٹرز وکاپیاں وغیرہ کی اشاعت ہو، یا اپنی تجارتی اشیاء پر خصوصی رعایت کی پیشکش ہو یا قیمتی انعامات کی اسکیم ہو۔ یا کوئی خاص ورزش وکھیل کود کا پروگرام منعقد کرنا ہو۔ یا ان کے خاص شعار کو نشر کرناہو۔



شیخ احمد بن یحیی النجمی رحمہ اللہ سال نو کی مبارکباد دئے جانے کے بار ےمیں فرماتے ہیں:

—یہ عادت باطل ہے اور بدعت سمجھی جائے گی اور ہر بدعت گمراہی ہے جسے چھوڑنااور اس پر عمل نہ کرنا واجب ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ تو عادات میں سے ہے (ناکہ عبادات میں سے) اور عادات کے بارے میں اصل (شرعی قاعدہ) یہ ہے کہ وہ حلال وجائز ہیں (الا یہ کہ ان کی حرمت کی دلیل ہو)۔ تو ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ ان لوگوں (غیرمسلموں) نے اس دن کو باقاعدہ عیدبنالیا ہے۔ اور اس میں وہ وہ چیزیں مشروع کردی ہیں جو نہ اللہ تعالی نے اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشروع فرمائی ہیں۔ جبکہ اسلام نے سوائے دو عیدوں کے یعنی عید الفطر اور عید الاضحی اور ہفتہ وار عید یعنی جمعۃ المبارک کے کوئی عید مشروع قرار نہیں دی۔ جو بھی شریعت مخالف عید وعادات لوگوں نے نکال لی ہیں وہ سب باطل ہیں۔۔۔



(فتح الرب الودود : ج1ص37)
جهود العلامة ربيع المدخلي في نقض شبهات الحزبيين عن منهج النقد عند أهل السنة السلفيين
اس کتاب میں شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کے ان اقوال کو جمع کیا گیا ہے جن میں حزبیوں کے مشہور شبہات کا رد ہے جرح و تعدیل و منہج نقد کے تعلق سے۔ جن میں سے کچھ ہم ترجمہ کرچکے ہیں اور باقیوں کا بھی ترجمہ ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً کرتے رہیں گے۔
پہلی فصل: اہل سنت کے منہج نقد و مخالفین پر رد کے تعلق سے اہل تحزب کے عمومی شبہات کا توڑ
شبہہ1 : روایت حدیث کے زمانے کے بعد سے جرح و تعدیل بھی ختم ہوچکا ہے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/kya_jarh_tadeel_zamana_khatam.pdf
شبہہ 2: مخالف پر رد کرنا حرام غیبت میں سے ہے۔
شبہہ 3: مخالف پر رد کرنا چغل خوری، تشہیر ، جگ ہنسائی اور متنفر کرنا ہے۔
شبہہ 4: مخالف پر رد کرنا اور اس پر تنقید کرنا سب وشتم سے تعبیر ہے۔
شبہہ 5: مخالف پر رد کرنا اور اس پر تنقید کرنا غلو میں سے ہے۔
شبہہ 6: مخالف پر رد کرنا شدت پسندی (اور خارجی سوچ ) ہے۔
شبہہ 7: مخالفین پر ردود اور اس کی جرح کرنے سے مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے۔
شبہہ 8: مخالفین پر ردود کرنے سے ایمان میں کمزوری ودل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور یہ اس شخص کو پستی میں لے جاتا ہے اور عبادات میں بھی کمی کوتاہی در آتی ہے۔
شبہہ 9: مخالفین پر ردود کرنے سے وقت ضائع ہوتا ہے اور انسان کو علم و دعوت سے پھیر کر اس میں مشغول کردیتا ہے۔
شبہہ 10: مخالفین پر علمی ردود کی قدر گھٹانا اس حجت کے ساتھ کہ اختلاف تو امت میں موجود رہاہے یہاں تک کہ اصول دین میں بھی۔
شبہہ 11: یہ بات منہج سلف میں سے نہیں ہے کہ کسی شخص کی غلطیاں جمع کی جائیں اور پھر انہیں ایک تالیف کی شکل میں سب کے لیے عام نشر کردیا جائے کہ لوگ اسے پڑھیں۔
شبہہ 12: مخالفین کا تعین کرکے رد نہ کیا جائے بلکہ جن کا رد مقصود ہے ان کے تعین و نام لیے بغیر صرف عمومی رد پر اکتفاء کیا جائے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/kya_bina_naam_radd_manhaj_salaf_hai.pdf
شبہہ 13: جرح و رد کرنا دراصل ایک مسلمان کے ساتھ بدظنی ہے جبکہ واجب ہے کہ اس سے حسن ظن پر مبنی معاملہ کیا جائے۔
شبہہ 14: رد کے واجب کو ادا کرنے والے اہل سنت پر یہ اتہام لگانا کہ آپ لوگوں کی نیتوں پر حملہ کرتے ہيں اور مقاصد پر طعن کرتے ہیں۔
شبہہ 15: علماء و داعیان میں سے جنہوں نے غلطی کی ان پر ر دکرنے والوں کو،دراصل ان پر طعن کرنے اور ان کی عزت کے درپے ہونے والا شمار کرنا، اور اس بات کو لے کر اہل سنت پر طعن و تشنیع کرنا تاکہ اس حق کو رد کردیا جائے جو انہوں نے بیان کیا ہے۔
شبہہ 16: ان میں سے بعض کا یہ دعویٰ کرنا کہ بلاشبہ جرح و تعدیل کے دلائل کتاب وسنت میں موجود نہیں۔
دوسری فصل: بعض جرح و تعدیل اور مخالف پر رد کے قواعد کے متعلق شبہات کا توڑ
شبہہ 1: ہم غلطیوں کی تصحیح کریں ناکہ جرح کریں اور نہ شخصیات کو گرائيں یا مسخ کریں۔
شبہہ 2: باہم نصیحت کریں ناکہ بھانڈا پھوڑ کر رسوا کریں اور مخالف کی تشہیر کریں۔
شبہہ 3: اگر تم دوسروں پر حکم لگاؤ گے تو تم پر بھی حکم لگایا جائے گا (لہذا خبردار!)
شبہہ 4: ان کا دعویٰ کہ: ہم کسی کی تقلید نہيں کرتے ہم تو بس دلیل کے پیروکار ہیں۔
شبہہ 5: علماء سنت کی مخالفین سے متعلق خبر اور احکا م کو توثیق و تصدیق کے بہانے نہ لینا۔
شبہہ 6: یہ والا شبہہ اس سے پہلے توثیق و تصدیق سے متعلق شبہہ ہی سے متفرع ہوتا ہے اور اسی کی طرف لوٹتا ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ: کسی عالم کے لیے جائز نہيں کہ جب ان سے بعض منحرفین کی گمراہیوں کے متعلق سوال کیا جائے تو وہ اس کی وضاحت و جواب دے اس حجت کے ساتھ کہ سائل مجہول ہے، لازم ہے کہ اس کا حال معلوم ہو، جیسا کہ لازم ہے کہ اس سے باز پرس کی جائے کہ کس نے یہ کلام کیا ہے، اور کس طرح سے کیا ہے، اور کہاں کہا ہے، اور کب کہا ہے، ورنہ جائز نہیں کہ سائل کو اس کے سوالات کا جواب دیا جائے؟
شبہہ 7: لازم ہے کہ جارح اور مجروح کو، رد کرنے والے اور مردود کو جمع کیا جائے اور علماء کے پاس جاکر فیصلہ کروایا جائے، غیر موجودگی میں مردود علیہ اور مجروح پر حکم لگانا جائز نہیں۔
شبہہ 8: مجروحین پر جرح کو قبولنے کے لیے اجماع یا اکثریت کے قول کی شرط لگانا ۔
شبہہ 9: بعض مجروحین کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہمیں اہل سنت کی جانب سے ہمارا رد کیے جانے اور گمراہیاں بیان کرنے سے پہلے نصیحت نہیں کی گئی ، اور عوام کے سامنے اس کا رونا رونا، اور دعویٰ کرنا گویا کہ اس تعلق سے وہ مظلوم ہیں۔
شبہہ 10: اہل بدعت وضلالت کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنا، اس طرح کہ بدعتی کی گمراہیوں کا رد کرنے اور اس کی غلطیوں سے تحذیر وخبردار کرنے کے سیاق میں اس کے محاسن بیان کرنے کو واجب قرار دینا۔
شبہہ 11: مردود علیہ (جس کا رد ہوا ہے) اس کے مجمل کلام کو لازماً اس کے مفصل کلام پر محمول کرنے کو واجب قرار دینا۔
شبہہ 12: جرح کو مسترد کردینا اس گمان کے ساتھ کہ وہ جس چیز میں مبتلا ہوئے اجتہاد کی وجہ سے مبتلا ہوئے، یا یہ تو اجتہادی مسائل میں سے ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان پر انکار نہ کیا جائے، نہ ہی ان پر بدعت وحزبیت کا حکم لگایا جائے۔
شبہہ 13: بعض منحرفین کا اہل سنت کی ان پر کی گئی جرح سے جان چھڑانے کے لیے یہ دعویٰ کرنا کہ جس مؤقف کو اس نے اپنایا ہے اس سے پہلے بھی فلاں اس مؤقف پر گزرے ہيں، لہذا وہ علماء کی لغزشوں سے حجت پکڑتے ہيں۔ (کہ ان پر بھی فتویٰ لگاؤ)
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/07/hizbee_rad_qadeem_ulama_fatwa_lagao.pdf
شبہہ 14: بعض منحرفین کا کچھ ایسے علماء کے ان کے حق میں دیے گئے تزکیات سے چمٹے رہنا جو ان کی حقیقت حال سے واقف نہيں تھے، یا پھر بعض علماء کا ان پر سکوت اختیار کرنے اور عدم رد کو دلیل بنانا، کہ جس کے ذریعے وہ اہل سنت میں سے دلیل و برہان کے ساتھ ان مجروحین پر جرح کرنے والوں کی جرح کو ٹھکرا سکیں اور ساقط قرار دے سکیں۔
شبہہ 15: جرح کا رد کرنا اس دعویٰ کے ساتھ کہ جارح دراصل مجروح کا اقران (ہم عصر و ہم پلہ ) ہے ، اور اقران کے کلام کے تعلق سے اس بات کو اصل قرار دینا کہ اسے مسترد اور عدم قبول کیا جائے گا، ا س گمان کے ساتھ کہ غالباً اس کا صدور نہیں ہوتا مگر حسد اور مقابلے کے طور پر، لہذا اسے بس لپیٹ لیا جائے اور روایت نہ کیا جائے۔
شبہہ 16: جرح کو مسترد کردینا اس دعویٰ کے کہ کرنے والا کبار علماء میں سے نہیں۔ (چھوٹے بڑے پر رد و جرح نہیں کرسکتے خواہ دلائل کے ساتھ ہو)
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/07/kya_sirf_kibar_ulama_rad_kar_sakte_hain.pdf
شبہہ 17: علماء کے اختلاف کی صورت میں مطلقاً ان میں سے متشدد کے قول کو لیا جائے گا۔
شبہہ 18: جرح کرنے والے سے جرح کے اسباب کا سوال کرنا نہ مشروع ہے نہ ہی شرط ہے۔
شبہہ 19: اہل بدعت پر جرح کو علم جرح و تعدیل سے خارج قرار دینا، اس دعویٰ کے ساتھ کہ تحذیر جرح سے الگ ہوتی ہے، پس ان کے نزدیک جر ح خاص ہے بس راویوں کے ساتھ، جو اہل بدعت کو شامل نہيں۔
شبہہ 20: ان میں سے بعض کا اہل سنت کی مخالفین پر جرح کو اس دعویٰ کے ساتھ مسترد کرنا کہ: مجھ پر لازم نہيں، یا: میں اسے لینے کا پابند نہيں ہوں۔
شبہہ 21: مردود لوگوں کے لیے تاویلات و عذر لنگ تراشنے کی بہتات کردینا اور اس کے کلام کو اچھے محامل پر بنا کسی معقول جواز کے محمول کرنا اگرچہ اس کا ظاہر بالکل بطلان ہو، محض اس قصد سے کہ ان کے بارے میں جرح کو کالعدم قرار دیا جائے اور ان کو اس نقد سے بچایا جائے۔
شبہہ 22: جس شخصیت کا رد کیا ہو اسے بڑھا چڑھا کر اور اس کی منزلت سے فوقیت دے کر بیان کرنا جس سے مقصود اہل سنت کو ڈرانا ہو کہ خبردار اس پر رد اور نقد نہ کرنا، اور یہ دعویٰ کہ اتنے بڑے کبار اور علم کے پہاڑ کو ساقط کرنا ممکن ہی نہيں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/mardood_shaksiyat_rutba_badana_maroob_karna.pdf
شبہہ 23: مجروحین کی مخالفتو ں کو معمولی کرکے جتانا اور انہيں بس چھوٹی موٹی غلطیاں یا سبق لسانی و زبان پھسل جانا باور کروانا کہ جو اس مخالف کی سلفیت پر کوئی اثر انداز نہيں ہوتی۔

#SalafiUrduDawah
[Audio] Explanation of #Kitaab_ul_Aetisaam of #Saheeh_Bukharee – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من #صحيح_البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

حدیث 11– حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ مَالِكٍ ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‌‌‌‌‌‏أَنَّهَا قَالَتْ:‌‌‌‏ أَتَيْتُ عَائِشَةَ حِينَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ وَالنَّاسُ قِيَامٌ وَهِيَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي، ‌‌‌‌‌‏فَقُلْتُ مَا لِلنَّاسِ، ‌‌‌‌‌‏فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا نَحْوَ السَّمَاءِ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَتْ:‌‌‌‏ سُبْحَانَ اللَّهِ، ‌‌‌‌‌‏فَقُلْتُ آيَةٌ، ‌‌‌‌‌‏قَالَتْ بِرَأْسِهَا:‌‌‌‏ أَنْ نَعَمْ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ قَالَ:‌‌‌‏ "مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَرَهُ إِلَّا وَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، ‌‌‌‌‌‏وَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، ‌‌‌‌‌‏فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُسْلِمُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَتْ أَسْمَاءُ:‌‌‌‏ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ:‌‌‌‏ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ فَأَجَبْنَاهُ وَآمَنَّا، ‌‌‌‌‌‏فَيُقَالُ:‌‌‌‏ نَمْ صَالِحًا عَلِمْنَا أَنَّكَ مُوقِنٌ، ‌‌‌‌‌‏وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَتْ أَسْمَاءُ:‌‌‌‏ فَيَقُولُ:‌‌‌‏ لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ".

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_06.mp3

حدیث 12- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‌‌‌‌‌‏حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‌‌‌‌‌‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ "دَعُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، ‌‌‌‌‌‏فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، ‌‌‌‌‌‏وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ".

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_07.mp3
[Book] #Kashf_ush_Shubhaat (Removal of doubts regarding #Shirk and #Tawheed) - Shaykh Muhammad bin Abdul Wahhab

(#كشف_الشبهات)

#توحید و #شرک سے متعلق شکوک وشبہات کا ازالہ

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ المتوفی سن 1206ھ

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: کشف الشبھات (ط وزارۃ الشئون الاسلامیۃ والاوقاف والدعوۃ والارشاد، 1419ھ)

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پہلی فصل:تمام رسولوں کی سب سے پہلی ذمہ داری توحید عبادت کی دعوت تھی

دوسری فصل: ان دلائل کا بیان جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مشرکین جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قتال فرمایا توحید ربوبیت کا اقرار کرتے تھے لیکن اس اقرار نے انہیں عبادت میں کیے جانے والے شرک سے باہر نہیں نکالا

تیسری فصل: توحید عبادت ہی وہ توحید ہے جو لا الہ الا اللہ کا معنی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے کفار اس کے معنی کو بہت سے اسلام کے دعویداروں سے زیادہ سمجھتے تھے

چوتھی‌فصل: مومن بندے کو یہ معرفت ہونا کہ اللہ کی نعمت جو توحید کی صورت میں اس پر ہے خوشی وفرحت کی موجب ہے

اور اسےاس نعمت کے چھن جانے کا خوف ہونا

پانچویں فصل: اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضہ ہے کہ اس نے اپنے انبیاء واولیاء کے انس وجن میں سے دشمن بنادیے

چھٹی فصل: دشمنوں کے شبہات کے ازالے کے لیے کتاب وسنت سےمسلح ہونے کا وجوب

ساتویں فصل: اہل باطل پر اجمالی اور تفصیلی رد

آٹھویں فصل: ان لوگوں پر رد جو یہ گمان کرتے ہیں کہ دعاء یا پکارنا عبادت نہیں

نویں فصل: شرعی اور شرکیہ شفاعت میں فرق

دسویں فصل: اس بات کا اثبات کہ صالحین سے التجائیں کرنا شرک ہے اور جو اس کا انکار کرتا ہے اسے اس کے اعتراف کی طرف لانا

گیارہوں فصل: اس بات کا ثبوت کے اولین مشرکین کا شرک ہمارے زمانے کے مشرکوں سے دو امور کی وجہ سے کم تر تھا

بارہویں فصل: بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ جو دین کے بعض واجبات کی ادائیگی کرتا ہے وہ کبھی کافر نہیں ہوسکتا اگرچہ وہ کوئی ایسا کام بھی کرجائے جوتوحید کے منافی ہواس شبہے کا ازالہ اور اس کے تفصیلی دلائل

تیرہویں فصل: ان مسلمانوں کا حکم جو شرک کی کسی قسم میں جہالت کی وجہ سے واقع ہوجائے پھر اس سے تائب ہوجائے

چودہویں فصل: اس شخص پر رد جو یہ سمجھتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کہنا توحید پر ہونے کے لیے کافی ہے اگرچہ کوئی شخص ایسے اعمال کرے

جو اس شہادت کے منافی ہوں

پندرہویں فصل: کسی زندہ حاضر شخص سے اس چیز کے بارے میں استغاثہ (فریاد) کرنا جس پر وہ قادر ہے اور اس کے علاوہ کسی سے استغاثہ کرنے میں فرق

سولہویں فصل: توحید کی تطبیق دل، زبان اور جوارح پر کرنا واجب ہے الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/02/kashf_ush_shubhaat.pdf
[Article] Using newly invented and vague expressions regarding #Aqeedah and the Fitnah of #Haddadees - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Makhalee

#عقیدے سے متعلق نووارد و مبہم عبارات استعمال کرنا اور #حدادیوں کا فتنہ

فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ

(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 22 ص 102۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/aqeedah_mubham_ebaraat_istimal_haddadee_fitnah.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال:سائل کہتا ہے: میں نے آپ کے جوابات میں سے ایک پڑھا جس میں آپ فرماتے ہیں: ابن مانع اپنے پاس سلفیت ہونےکے باوجود اشعریت میں مبتلا ہوئے۔ پس کیا یہ وہی شیخ ابن مانع ہيں جنہوں نے عقیدہ طحاویہ کی شرح کی ہے اور ان سے شیخ البانی نے باتيں منقول کی ہيں رحمہم اللہ؟

جواب: ابن مانع رحمہ اللہ سلفی ہيں اس میں کوئی شک نہيں۔ لیکن میں ابھی یہ کہتا ہوں کہ: ان کے بارے میں بعض علماء نے کچھ ملاحظات پیش کی ہيں میرے خیال سے ابن سمحان رحمہ اللہ نے ، ان کی السفارینیہ کی تعلیق میں بعض اشیاء ذکر کی ہیں۔ اور وہ مجتہد تھے اللہ تعالی انہیں ثواب دے گا، اور ایک مجتہد کبھی غلطی میں واقع ہوجاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”بہت سے علماء سلف لاشعوری طور پر بدعت میں واقع ہوئے“۔

پس اشعریت پھیل گئی اور اہل سنت کے عقائد میں سرایت کر گئی، یہاں تک کہ السفارینی رحمہ اللہ خود بھی بعض چیزوں میں مبتلا ہوئے، اور ان سے متعلق ملاحظات پیش کیے گئے۔ لہذا کوئی بھی ان غلطیاں سے محفوظ نہيں لیکن ابن مانع رحمہ اللہ سلفیت میں امام تھے۔

البتہ حدادیوں کے نزدیک ہر وہ جو بدعت میں واقع ہو بدعتی بن جاتاہے۔

آج حدادی ایک بڑا فتنہ ہے، جن کا کوئی سروکار نہیں سوائے اس کے کہ فتنوں کو ہوا دی جائے اور سلفیوں کی صفوں میں پھوٹ ڈالی جائے۔ چناچہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنے آپ کو اس بگڑے ہوئے مذہب سے بچا کر سکھ کا سانس لو، کہ جو محض فتنہ و فساد ہی برپا کرتا ہے۔ ایک حدادی یہ گمان کرتا ہےکہ میں ہدایت پر ہوں، حالانکہ خود وہ بھی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں اور اس کے شیوخ بھی جھوٹے و کذاب ہيں، لیکن بس اپنے باطل میں جمے رہتے ہیں۔ اور یہ مشہور و معروف ہيں اپنی شدید عناد و ہٹ دھرمی میں۔ ان کا شیخ جھوٹ بھی بولتا ہے اور دسیوں بار خیانت کا مرتکب بھی ہوتا ہے، مگر ان خیانتوں کے باوجود وہ ان کے نزدیک امام ہی رہتا ہے۔

حالانکہ جھوٹ، خیانت بدعت سے بھی زیادہ خبیث، خسیس اور گندی حرکت ہے۔ کیونکہ بلاشبہ بدعت میں کبھی کوئی اچھی نیت کے ساتھ واقع ہوجاتا ہے تو اللہ تعالی اس سے درگزر فرماتا ہے، لیکن ایسا جھوٹا شخص تو علماء کرام، علم اور قواعد اسلام وغیرہ پر جھوٹ کا ارادہ و قصد رکھتے ہوئے ایسا کرتا ہے ۔ پس یہ بالکل ایک ظاہر مصیبت ہے اس فرقے کے ساتھ، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ زمین کو اس سے اور اس کے اہل سے پاک فرمادے۔

بہت سے لوگ اس فرقے کو نہيں جانتے([1])۔ ہم نے اسے تقریباً سن 1414ھ سے جاننا شروع کیا۔ان کے جھوٹ اور خیانتوں کو جانا۔ ان کے جھوٹ، خیانت اور دھوکے بازی سے کوئی بھی بچا ہوا نہيں ہے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی بس قیل و قال ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:

”اللہ کے شریر ترین بندوں میں سے وہ ہيں جو پیچیدہ مسائل کے پیچھے پڑتے ہيں، جس کی وجہ سے اللہ کے بندوں کو پریشانی میں مبتلا کرتے ہيں“([2])۔

آجکل وہ ”جنس العمل“ کی اصطلاح کے ساتھ دندناتے پھرتے ہيں۔ آخر یہ جنس العمل ہے کیا؟ سلف کبھی بھی اسے نہيں جانتے تھے۔ اور میں نے یہ کہا کہ اللہ تعالی نے کلمۂ جنس سے قرآن وسنت کو پاک رکھا ہے، آپ کبھی بھی اسے ان میں نہيں پائیں گے، بلکہ یہاں تک کہ یہ لغت میں بھی زبردستی داخل کیا گیا ہے۔لیکن یہ لوگ اس کلمے سے چمٹے ہوئے ہيں، لہذا یہ ان کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کلمے سے اس لیے چمٹے ہوئے ہيں کیونکہ وہ اہل سنت کو گمراہ ثابت کرکے ان کو بدعتی قرار دینا چاہتے ہيں۔ میں نے ان سے کہا: اے جماعت! یہ کلام تو مبہم ہے اور تشویش کی طرف لے جاتا ہے، اور یہ کلام اہل بدعت نے محض اہل سنت کے خلاف شور وشغب ڈالنے کے لیے اختراع کیا ہے۔اسے چھوڑ دو جبکہ آپ کے پاس ایمان کے بارے میں سلف کی پیش کردہ تعریف موجود ہے کہ بلاشبہ ایمان:

”قول، اعتقاد اور عمل ہے، جو اطاعت فرمانبرداری سے بڑھتا ہے اور معصیت و نافرمانی سے گھٹتا ہے“۔
آپ کے لیے یہی کافی ہے اور جنس العمل کے کلمے کی کوئی حاجت نہيں ہے۔ لیکن وہ اس سے چمٹے رہنے اور نہ چھوڑنے پر بضد تھے۔ کیونکہ انہیں اس میں وہ شر، فتنہ اور آزمائش میسر آتی ہے۔ حالانکہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہيں کہ ہماری طرف وہ باتيں منسوب کرتے ہيں جو ہم نے کبھی کہی نہيں۔ جیسا کہ اس مسئلے میں کہ (ایمان کے لیے) عمل شرط کمال ہے یا شرط صحت ہے۔ میں یہ بارہا کہہ چکا ہو ں اور ابھی آپ کے سامنے اس مجمع میں بھی کہتا ہوں کہ :

خالد العنبری نے ایک ضخیم کتاب لکھی تھی تکفیریوں کے رد پر جس کا نام تھا ”حكم التكفير“ ،تو جب میں ریاض گیا، پھر ریاض سے الخرج، ہمارے ساتھ سفر میں ساتھیوں کا ایک مجموعہ تھا، میرا خیال ہے اس میں باسم الجوابرہ اور عبدالرحمن الفریوائی اور دیگر لوگ موجود تھے۔ تو اس (العنبری) نے کہا کہ یا شیخ ہم سفر کے دوران راستے میں اسے آپ پر پڑھتے ہیں۔پس اس نے پڑھنا شروع کیا۔ پس ان باتوں میں سے جو اس نے پڑھی یہ بھی تھی کہ خوارج کے نزدیک عمل ایمان کی صحت کی شرط ہے جبکہ اہل سنت کے نزدیک اس کے کمال کی شرط ہے۔ تو میں نے اس سے کہا: اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ یہ اہل سنت کے کلام میں سے نہيں، اسے اپنی کتاب میں سے حذف کردو، اور تمہیں چاہیے کہ اسی چیز پر اکتفاء کرو جو سلف نے ایمان کے تعلق سے کہی ہے کہ بے شک ایمان قو ل و عمل کا نام ہے جو اطاعت سے بڑھتا ہے اور معصیت سے گھٹتا ہے۔ تو اس نے کہا حاضر، میں ابھی حذف کردوں گا اسے، نہ مجھ سے کوئی جدال کیا نہ کچھ۔ لیکن کچھ دنوں بعد مجھے بات پہنچی کہ اس نے اس تعلق سے کویت میں کوئی مناظرہ کیا ہے۔ اور مجھے وہ کیسٹ موصول ہوئی جس میں شیخ البانی : سے مناظرہ کیا ہے اور اس میں شرط کمال اور شرط صحت کا ذکر کیا ہے، واللہ اعلم۔ حدادیوں نے یا کسی اور نے اسے نقل کیا اور اس کی تفریغ کرکے مجھے ارسال کی۔

پھر جب وہ میرے پاس آیا اور میں اس کے ساتھ بیٹھا تو میں نے کہا: اے بھائی خالد العنبری کیا میں نے تمہیں اس کلام سے منع نہیں کیا تھا شرط کمال و شرط صحت؟ تو اس نے کہا: میں نے تو اسے حذف کردیا تھا جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا۔ تو میں نے اس سے کہا: پھر کیوں جب تم کویت اور اردن گئے تو اس بارے میں جدال کیا؟

پھر میں مسلسل اس چیز کا انکار کرتا آیا ہمارے آج کے اس دن تک۔ کیونکہ یہ فتنے کی طرف لے جاتا ہے اور اس سے اہل فتن خوش ہوتے ہيں اور چمٹے رہتے ہيں، اور اس کو لے کر ان لوگوں پر تہمت لگاتے ہيں جو اس سے بری ہيں بلکہ (جن پر تہمت لگاتے ہيں وہ تو خود ) اس کے خلاف نبردآزما ہيں۔ لہذا وہ کہتے ہیں: ربیع کہتا ہے کہ عمل شرط کمال ہے اور یہ مرجئہ کے مذہب میں سے ہے اور اس کے علاوہ دیگر کلام۔ حالانکہ میں نے ہی تو سب سے پہلے اس کے خلاف جنگ کی تھی تو پھر کس طرح تم اسے میری طرف منسوب کرتے ہیں؟!! وجہ یہی ہے کہ جھوٹ میں ان سے کوئی مقابلہ نہيں کرسکتا۔

اے بھائی! اگر کوئی ایسی بات ہو جس سے مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہو تو اسے چھوڑ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بسا اوقات ایسی چیزیں بھی چھوڑ دیا کرتے تھے جو خیرو فضیلت میں اس مرتبے پر ہوا کرتی تھیں کہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہيں جانتا مگر چونکہ اس سے مسلمانوں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہيں چھوڑ دیتے۔ تو پھر کیسے تم اسے نہيں چھوڑتے حالانکہ اس میں شر ہے؟

اور صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےفرمایا:
” کُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَنَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا، فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ - وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ- فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ مَا شَأْنُکَ؟ قُلْتُ: کُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِی. فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ قَالَ اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ فَقَالَ: مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ: هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاسْتِي، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ. فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَجْهَشْتُ بُکَاءً وَرَکِبَنِي عُمَرُ فَإِذَا هُوَ عَلَی أَثَرِي، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قُلْتُ: لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي قَالَ ارْجِعْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: يَا عُمَرُ مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ؟ قَال:َ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْکَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّة؟ ِ قَالَ: نَعَمْ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَی أَنْ يَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَخَلِّهِمْ “([3])
پس اے بھائیو! آپ لوگ ایسے الفاظ، کلمات، افعال و اقوال جن کی کتاب و سنت سے کوئی سند نہيں چھوڑ دو۔ میں کئی ایک بار بھائیوں کو کہہ چکا ہوں: اے بھائی! اگر تمہارے پاس کوئی رائے ہے جسے تم مستحسن و اچھا سمجھتے ہو اور علماء سے بھی پوچھا انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ ضرر رساں ہے اور تفرقے کی طرف لے جاتی ہے تو اسے چھوڑ دو۔ البتہ اگر تمہارے پاس کوئی نص ہے تو اس سے تمسک اختیار کیے رکھو اور اس سے تمسک کی دعوت دیتے رہو۔

اے بھائیو! تفرقے کے اسباب سے بچو، باہمی اخوت و بھائی چارہ اپناؤ، ایک دوسرے سے ہمدردی ، رحمت و شفقت کرو اور اللہ کے لیے محبت کرو۔ ان مطلوبہ باتوں کو ہرگز بھی فراموش نہ کرو۔ کیونکہ شیطان تمہارے درمیان یہ تشویش و فتنے و آزماشیں داخل کرتا رہتا ہے تاکہ تم سے یہ خیر چھن جائے ضائع ہوجائے، یعنی محبت و بھائی چارے کی نعمت۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس پر ایسی ایسی جزاء ملتی ہے کہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہيں جانتا، جن میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کو اللہ تعالی اپنا سایہ دے گا اس دن جس دن اس کے (عرش کے) سایے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ پس شیطان چاہتا ہے کہ آپ کو اس خیر سے محروم کردے۔ اگر آپ کا کوئی بھائی غلطی کرتا ہے تو اسے نرمی سے نصیحت کرو اور اس نرمی کے ساتھ حجت و برہان پیش کرو، اللہ تعالی اسے اس کے ذریعے نفع پہنچائے گا۔ لیکن حال یہ ہو کہ تم اس کی گھات لگائے بیٹھے ہو کہ کب وہ غلطی کرے اور میں یہاں وہاں سے دنیا اس پر جمع کردوں گے دیکھو فلاں نے یہ یہ کیا ہے۔ یہ شیطانی طریقے ہیں سلفی طریقے نہیں۔ ان چیزوں کو چھوڑ دو، اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو توفیق عطاء فرمائے۔ آپ کو چاہیے عمل کرو نہ کہ کثرت سے کلام، کیونکہ کثرت کلام شرعی طور پر مطلوب نہيں۔ جو مطلوب ہے وہ بس ایک کلمہ بھی کافی ہے جس سے لوگوں کو نفع ہو، اور ایسا ایک کلمہ آپ کے لیے کئی جلدوں پر مبنی بس کلام ہی کلام سے بہتر ہے۔



[1] اس کا مختصر تعارف ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)



[2] جامع العلوم والحكم، ص 174.



[3] أخرجه مسلم، كتاب الإيمان، باب: من لقي الله بالإيمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة وحرم على النار 156.



[4] متفق عليه: أخرجه البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب: اسم الفرس والحمار 2701، ومسلم، كتاب الإيمان، باب: من لقي الله بالإيمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة وحرم على النار 153.