Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Article] How does a Muslim believe in the #keys_of_unseen mentioned at the end of Surah Luqmaan – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah Aal-Shaykh
غیب کی ان کنجیوں پر ایمان کس طرح لایا جائے جو سورۃ لقمان کے آخر میں مذکور ہيں
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كيفية إيمان المسلم بمفاتح الغيب المذكورة في آخر سورة لقمان۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#غیب_کی_کنجیاں
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/ghaib_kunjiyo_emaan_kaisay.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اللہ تعالی کا جو یہ فرمان ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ﴾ (لقمان: 34)
(بےشک اللہ کے ہی پاس قیامت کا علم ہے، اور وہ بارش برساتا ہے، اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا ، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بےشک اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا، پوری اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے)
عملی طور پر ایک مسلمان کس طرح ان باتوں کو دل میں بٹھائے، اور ان پر ایمان لائے؟
جواب: ایک مومن اس پر ایمان لاتا ہے کیونکہ بے شک اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں اس کی خبر دی ہے۔
1- اللہ تعالی نے یہ بتلایا ہےکہ قیامت کے وقوع پذیر ہونے کا علم صرف اسی کے پاس ہے:
﴿يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا ۭقُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ۂ ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ۭ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (الاعراف: 187)
(وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا ؟ کہہ دیجئے اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے، اسے اس کے وقت پر اس کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا، وہ آسمانوں اور زمین میں بہت بھاری و بوجھل واقع ہوگی، وہ تم پر نہیں آئےگی مگر اچانک۔ آپ سے پوچھتے تو ایسے ہیں جیسے آپ اس کے بارے میں خوب تحقیق کرچکے ہيں۔ کہہ دیجئے اس کا علم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے)
2- اسی طرح سے بارش بھی اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، وہی اسے برساتا ہے:
﴿وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ ۭ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ﴾ (الشوریٰ: 28)
(اور وہی ہے جو بارش برساتا ہے، اس کے بعد کہ وہ ناامید ہو چکے ہوتے ہیں ،اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی کارساز ہے، تمام تعریفوں کے لائق ہے)
اور یہ عالم بارش نازل ہوتے وقت اور بندوں کے اس کے مستحق ہونے پر ہوتا ہے، اور وہ اسے ایک اندازے سے اتارتا ہے:
﴿وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ ڰ وَاِنَّا عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ﴾ (المؤمنون: 18)
(اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرایا، اور یقینا ًہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر ضرور قادر ہیں)
3- پھر فرمایا: ﴿وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ﴾
(اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے)
اور وہ رحم (ماں کے پیٹ) کا حال اور انجام جانتا ہے۔ ارحام کو بھی جانتا ہے اور رحم کے حال کو بھی۔اور اس میں پلنے والے جنین اور اس کے مختلف ادوار کو بھی، اس کا حال، حاضر اور مستقبل سب جانتا ہے اور عنقریب اس کے ساتھ کیا کچھ ہوگا وہ سب، کیونکہ بلاشبہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا نُطفة، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ: بِكَتْبِ رِزْقِهِ، وَعَمَلِهِ، وَأَجَلِهِ، وَشَقِيٌّ، أَوْ سَعِيدٌ‘‘([1])
(بے شک تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک نطفہ کی صورت میں کی جاتی ہے، پھر اتنے ہی دنوں تک ایک جمے ہوئے خون کے صورت اختیار کئے رہتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک گوشت کو لوتھڑا رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے، اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لکھے: اس کے رزق، اس کے عمل، اس کی مدت زندگی، اور یہ کہ بد بخت ہے یا نیک بخت)۔