[Urdu] Virtues of following the Sunnah and its benefits – Shaykh Muhammad bin Umar Bazmool
اتباعِ سنت کے فضائل وثمرات – شیخ محمد بن عمر بازمول
#سنت
#اتباع
#محمد_بازمول
#Sunnah
#itteba
#Muhammad_Bazmool
#UrduSalafiDawah
سنت کی تعریف
سنت کی شرعی تعریف
سنت کی لغوی تعریف
محدثین کے نزدیک
صفتِ خُلقی
سنت قولی
سنت فعلی
سنت تقریری
صفتِ خَلقی
سنت کی اقسام وانواع
اصولیوں اور فقہاء کے نزدیک سنت
صریح سنت
ضمنی سنت
پہلا ثمرہ: اتباع سنت میں ایک ایسی عصمت ہے جو مذموم اختلاف اور دین سے دوری کے خلاف بچاؤ ہے
اتباع سنت کےفضائل و ثمرات
دوسرا ثمرہ :اتباع سنت کرنے سے اس فرقہ بندی سے نجات ملتی ہے جس میں مبتلا ہونے والے کے لئے جہنم کی وعید ہے
تیسرا ثمرہ :سنت کو لازم پکڑنے سے ہدایت نصیب ہوتی ہے اور گمراہی سے سلامتی حاصل ہوتی ہے
چوتھا ثمرہ :سنت پر عمل کرنے سے انسان کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت نصیب ہوتی ہے اور اسے ترک کرنے سے اس نسبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محروم ہوجاتا ہے
پانچواں ثمرہ :سنت اور اس کی اتباع کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ انسان شیطانی راہوں سے بچا رہتا ہے
چھٹا ثمرہ :اتباع سنت سے ہی شریعت ودین ہے
ساتواں ثمرہ :اتباع سنت سے امت پر لگی ذلت ورسوائی کی چھاپ رفع ہوجائے گی
دسواں ثمرہ :سنت کو لازم پکڑنے میں فتنے سے نجات اور دردناک عذاب سے چھٹکارا ہے
آٹھواں ثمرہ :اس میں اس بیماری کی تشخیص ہے جس میں امت مبتلا ہے اور ساتھ ہی اس بیماری کے علاج کی بھی نشاندہی ہے
نواں ثمرہ :آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں اخلاقیات کی تکمیل اور اس کا جمال ومکارم حاصل ہوتے ہیں
بارہواں ثمرہ :اتباع سنت کرنےاور اس پر عمل پیرا ہونے سے آپ سنت کا احیاء کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے
گیارہواں ثمرہ :اتباع سنت اور اسے لازم پکڑنے میں ایمان کی ثابت قدمی، دنیا وآخرت میں سعادت مندی اور جہنم کی آگ سے بچاؤ ہے
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/itteba_sunnat_fazail_samaraat.pdf
اتباعِ سنت کے فضائل وثمرات – شیخ محمد بن عمر بازمول
#سنت
#اتباع
#محمد_بازمول
#Sunnah
#itteba
#Muhammad_Bazmool
#UrduSalafiDawah
سنت کی تعریف
سنت کی شرعی تعریف
سنت کی لغوی تعریف
محدثین کے نزدیک
صفتِ خُلقی
سنت قولی
سنت فعلی
سنت تقریری
صفتِ خَلقی
سنت کی اقسام وانواع
اصولیوں اور فقہاء کے نزدیک سنت
صریح سنت
ضمنی سنت
پہلا ثمرہ: اتباع سنت میں ایک ایسی عصمت ہے جو مذموم اختلاف اور دین سے دوری کے خلاف بچاؤ ہے
اتباع سنت کےفضائل و ثمرات
دوسرا ثمرہ :اتباع سنت کرنے سے اس فرقہ بندی سے نجات ملتی ہے جس میں مبتلا ہونے والے کے لئے جہنم کی وعید ہے
تیسرا ثمرہ :سنت کو لازم پکڑنے سے ہدایت نصیب ہوتی ہے اور گمراہی سے سلامتی حاصل ہوتی ہے
چوتھا ثمرہ :سنت پر عمل کرنے سے انسان کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت نصیب ہوتی ہے اور اسے ترک کرنے سے اس نسبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محروم ہوجاتا ہے
پانچواں ثمرہ :سنت اور اس کی اتباع کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ انسان شیطانی راہوں سے بچا رہتا ہے
چھٹا ثمرہ :اتباع سنت سے ہی شریعت ودین ہے
ساتواں ثمرہ :اتباع سنت سے امت پر لگی ذلت ورسوائی کی چھاپ رفع ہوجائے گی
دسواں ثمرہ :سنت کو لازم پکڑنے میں فتنے سے نجات اور دردناک عذاب سے چھٹکارا ہے
آٹھواں ثمرہ :اس میں اس بیماری کی تشخیص ہے جس میں امت مبتلا ہے اور ساتھ ہی اس بیماری کے علاج کی بھی نشاندہی ہے
نواں ثمرہ :آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں اخلاقیات کی تکمیل اور اس کا جمال ومکارم حاصل ہوتے ہیں
بارہواں ثمرہ :اتباع سنت کرنےاور اس پر عمل پیرا ہونے سے آپ سنت کا احیاء کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے
گیارہواں ثمرہ :اتباع سنت اور اسے لازم پکڑنے میں ایمان کی ثابت قدمی، دنیا وآخرت میں سعادت مندی اور جہنم کی آگ سے بچاؤ ہے
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/itteba_sunnat_fazail_samaraat.pdf
Forwarded from Deleted Account
نماز_میں_پہنے_جانے_والے_بعض_ممنوعہ.jpeg
226.1 KB
Forwarded from Deleted Account
نماز_میں_پہنے_جانے_والے_بعض_ممنوعہ.jpeg
219 KB
Forwarded from Deleted Account
#SalafiUrduDawah
نماز میں پہنے جانے والے بعض #ممنوعہ_لباس کی صورتیں
namaz may pehnay janay walay baaz #mamnoa_libaas ki suratein
نماز میں پہنے جانے والے بعض #ممنوعہ_لباس کی صورتیں
namaz may pehnay janay walay baaz #mamnoa_libaas ki suratein
Forwarded from Deleted Account
[Book] #Sunnah and #Bidah and their effects upon Ummah – Shaykh Abdus Salaam bin #Burjus
#سنت اور #بدعت اور امت پر ان کے اثرات – شیخ عبدالسلام بن #برجس
سنت کی تعریف
سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت
اتباعِ سنت کا وجوب اور بدعات کی مذمت
تفرقہ بازی، فتنہ وفساد سنت سے اعراض اور بدعتوں کی پیروی کا نتیجہ ہیں
کون سے اعمال شرفِ قبولیت حاصل کریں گے؟
صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روش اور طرز عمل
دین اسلام قرآن وسنت کی صورت میں مکمل ہوچکا ہے
سوال وجواب
کیا دعوت کے وسائل وذرائع توقیفی ہیں؟
اسلامی نظمیں اور ڈرامے
کیا نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات ِمبارکہ بھی سنت ہیں
جمعہ نماز کے لئے دوڑ کر آنا
کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات ِمبارکہ پر عمل کرنا واجب ہے یا مستحب
کیا دعوتی مصلحت وعظیم تر مفاسد کو دور کرنے کے لئے کسی سنت کو ترک یا مؤخر کیا جاسکتا ہے
کیا ابتدائی طالبعلم کو اہل بدعت کے ردود پر لکھی گئی کتب پڑھنے میں منہمک ہونا چاہیے؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/sunnat_bidat_ummat_athraat.pdf
#سنت اور #بدعت اور امت پر ان کے اثرات – شیخ عبدالسلام بن #برجس
سنت کی تعریف
سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت
اتباعِ سنت کا وجوب اور بدعات کی مذمت
تفرقہ بازی، فتنہ وفساد سنت سے اعراض اور بدعتوں کی پیروی کا نتیجہ ہیں
کون سے اعمال شرفِ قبولیت حاصل کریں گے؟
صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روش اور طرز عمل
دین اسلام قرآن وسنت کی صورت میں مکمل ہوچکا ہے
سوال وجواب
کیا دعوت کے وسائل وذرائع توقیفی ہیں؟
اسلامی نظمیں اور ڈرامے
کیا نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات ِمبارکہ بھی سنت ہیں
جمعہ نماز کے لئے دوڑ کر آنا
کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات ِمبارکہ پر عمل کرنا واجب ہے یا مستحب
کیا دعوتی مصلحت وعظیم تر مفاسد کو دور کرنے کے لئے کسی سنت کو ترک یا مؤخر کیا جاسکتا ہے
کیا ابتدائی طالبعلم کو اہل بدعت کے ردود پر لکھی گئی کتب پڑھنے میں منہمک ہونا چاہیے؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/sunnat_bidat_ummat_athraat.pdf
Forwarded from Deleted Account
sunnat_bidat_ummat_athraat.jpg
4.5 MB
Forwarded from Deleted Account
[Article] The status of #Sunnah and its relation with Qura'an – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#سنت کا مقام ومرتبہ اور قرآن مجید سے اس کا تعلق – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ "اصول السںۃ" میں فرماتے ہیں۔
8- سنت ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے آثار ہیں۔
9- اورسنت قرآن کریم کی تفسیر کرتی ہے اور یہ (سنت) قرآن کریم کے دلائل ہیں۔
10- سنت میں قیاس نہیں، اور اس کے لئے مثالیں بھی بیان نہیں کرنا، اور اسے عقل یا اہواء وخواہشات سے نہیں پایا جاسکتا بلکہ یہ (سنت) تو صرف اور صرف اتباع اور ہوائے نفس کو ترک کرنے کا نام ہے۔
ان نکات کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sunnat_muqam_quran_taluq.pdf
#سنت کا مقام ومرتبہ اور قرآن مجید سے اس کا تعلق – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ "اصول السںۃ" میں فرماتے ہیں۔
8- سنت ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے آثار ہیں۔
9- اورسنت قرآن کریم کی تفسیر کرتی ہے اور یہ (سنت) قرآن کریم کے دلائل ہیں۔
10- سنت میں قیاس نہیں، اور اس کے لئے مثالیں بھی بیان نہیں کرنا، اور اسے عقل یا اہواء وخواہشات سے نہیں پایا جاسکتا بلکہ یہ (سنت) تو صرف اور صرف اتباع اور ہوائے نفس کو ترک کرنے کا نام ہے۔
ان نکات کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sunnat_muqam_quran_taluq.pdf
Forwarded from Deleted Account
[Article] The stance of #rationalists regarding the #Sunnah of the prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم- Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق #عقل_پرستوں کا مؤقف
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: موقف العقلانيين من سنة الرسول صلى الله عليه وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sunnat_nabwee_aqalparast_moaqqaf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ لگے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کی طرف دعوت دی، اور اس کی راہ میں جہاد فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی اس میں مدد وتائید کی یہا ں تک کہ اللہ تعالی کا وعدہ پورا ہوا اور اس کا دین تمام ادیان پر غالب ہوگیا۔ اور ان کے بعد ان کی نیابت ان کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے فرمائی تو مشرق ومغرب میں دعوت وجہاد کو جاری وساری رکھا یہاں تک کہ اسلام چارسو پھیل گیا اور کفر کا قلع قمع ہوا، اور لوگ اپنی رضا ورغبت سے اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوئے ناکہ کسی اکراہ وزبردستی سے۔او رجو کوئی اپنے کفر پر باقی رنے پر مصر تھا تو وہ بھی اسلام کی حکومت کے تحت اپنے ہاتھ سے ذلیل ہوکر جزیہ دے کر رہتا تھا۔ اور تیسرا گروہ وہ تھا جو اسلام کو ظاہر کرتا تاکہ وہ مسلمانوں میں ظاہراً رہے بسے حالانکہ درحقیقت وہ باطن میں کفار کے ساتھ ہوتا، اور یہ گروہ ہے منافقین کا:
﴿مُذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ، لَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاءِ وَلَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاءِ﴾ (النساء: 143)
(اس کے درمیان متردد ڈگمگا رہے ہیں، نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف)
اور یہ خالص کافروں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ، اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ﴾ (المنافقون: 4)
(یہی اصل دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہو۔ اللہ انہیں ہلاک کر ے، کہاں بہکائے جا رہے ہیں)
پس یہ چھپے ہوئے دشمن ہیں جو ظاہر باہر دشمن سے زیادہ خطرناک ہیں لیکن اللہ تعالی نے قرآن کریم کی بہت سی سورتوں اور آیات میں ان کا پردہ چاک فرمایا اور بھانڈا پھوڑ دیا جو تاقیامت تلاوت کی جاتی رہیں گی۔
ان کے ورثاء ہمارے اس وقت میں بہت سے گروہ ہيں جو اپنے رجحانات اور ثقافتوں میں مختلف ہی سہی لیکن اسلام دشمنی میں منافقین کے ساتھ متفق ہيں۔ اس طور پر کہ وہ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ چلنے والے کو متشدد اور تکفیری کہتے پھرتے ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت وبصیرت پرہو۔، اور دوسری طرف جو اپنے دین میں سست ہو، اور بہت سے ان دینی واجبات میں لاپرواہی برتتا ہو جن کو وہ دین اس پر لاگو کرتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتا ہے، تو ایسوں کو یہ آزاد خیال اور روشن خیال کہتے ہيں۔ چناچہ اس بنیاد پر وہ ان شرعی احکام کو جو جلیل القدر علماء کرام نے مدون فرمائے ہیں جمود، بوجھ اور دقیانوسی ملّااِزم وغیرہ سمجھتے ہيں۔ایک نئی فقہ کی طرف دعوت دیتے ہیں جسے وہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال سکیں۔ بلکہ ان کی بےحیائی تو اس حد سے تجاوز کرکے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہ احادیث صحیحہ پر عمل کو ترک کرتے ہيں، اور اس کی حجیت کے قائل نہيں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ عقل کے خلاف ہیں۔ آخر وہ کس عقل کی بات کرتے ہیں! وہ اپنی کوتاہ اور آلودہ عقل کی بات کرتے ہيں ناکہ عقل سلیم کی۔ کیونکہ عقل سلیم کبھی بھی صحیح احادیث کی مخالفت نہيں کرتی جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’عقل صریح کبھی بھی نقل صحیح کی مخالفت نہيں کرتی، اگر اختلاف واقع ہو تو اس کی وجہ یا تو عقل غیر صریح ہوگی یا پھر نقل غیر صحیح ہوگی‘‘۔
یہ تو ایک بات رہی، ساتھ میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی شریعت لے کر آئی ہے ضروری نہيں کہ عقل کی اس تک رسائی ہو، کیونکہ بعض ایسے بھی امور ہوتے ہيں کہ انسانی عقل ان کا ادراک نہيں کرسکتی۔ پس ہمارے ذمے جو بات واجب ہے وہ یہ کہ ہم اسے تسلیم کریں اور اپنی حد تک رک جائیں۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’أيها الناس اتهموا الرأي في الدين، فلو رأيتني يوم أبي جندل أن أرد أمر رسول الله فاجتهد ولا آلو‘‘([1])
(اے لوگو! دین میں اپنی رائے کو غلط سمجھو، میں نے اپنے تئیں دیکھا جس دن ابوجندل آیا (یعنی حدیبیہ کے دن) اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےحکم کو رد کرسکتا تو بھرپور کوشش کرتا اور کوئی کسر نہ چھوڑتا (لیکن شرعی حکم ہر حال میں واقعی ہماری عقل سے اعلیٰ اور بہتر ہے))۔
#سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق #عقل_پرستوں کا مؤقف
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: موقف العقلانيين من سنة الرسول صلى الله عليه وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sunnat_nabwee_aqalparast_moaqqaf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ لگے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کی طرف دعوت دی، اور اس کی راہ میں جہاد فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی اس میں مدد وتائید کی یہا ں تک کہ اللہ تعالی کا وعدہ پورا ہوا اور اس کا دین تمام ادیان پر غالب ہوگیا۔ اور ان کے بعد ان کی نیابت ان کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے فرمائی تو مشرق ومغرب میں دعوت وجہاد کو جاری وساری رکھا یہاں تک کہ اسلام چارسو پھیل گیا اور کفر کا قلع قمع ہوا، اور لوگ اپنی رضا ورغبت سے اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوئے ناکہ کسی اکراہ وزبردستی سے۔او رجو کوئی اپنے کفر پر باقی رنے پر مصر تھا تو وہ بھی اسلام کی حکومت کے تحت اپنے ہاتھ سے ذلیل ہوکر جزیہ دے کر رہتا تھا۔ اور تیسرا گروہ وہ تھا جو اسلام کو ظاہر کرتا تاکہ وہ مسلمانوں میں ظاہراً رہے بسے حالانکہ درحقیقت وہ باطن میں کفار کے ساتھ ہوتا، اور یہ گروہ ہے منافقین کا:
﴿مُذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ، لَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاءِ وَلَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاءِ﴾ (النساء: 143)
(اس کے درمیان متردد ڈگمگا رہے ہیں، نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف)
اور یہ خالص کافروں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ، اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ﴾ (المنافقون: 4)
(یہی اصل دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہو۔ اللہ انہیں ہلاک کر ے، کہاں بہکائے جا رہے ہیں)
پس یہ چھپے ہوئے دشمن ہیں جو ظاہر باہر دشمن سے زیادہ خطرناک ہیں لیکن اللہ تعالی نے قرآن کریم کی بہت سی سورتوں اور آیات میں ان کا پردہ چاک فرمایا اور بھانڈا پھوڑ دیا جو تاقیامت تلاوت کی جاتی رہیں گی۔
ان کے ورثاء ہمارے اس وقت میں بہت سے گروہ ہيں جو اپنے رجحانات اور ثقافتوں میں مختلف ہی سہی لیکن اسلام دشمنی میں منافقین کے ساتھ متفق ہيں۔ اس طور پر کہ وہ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ چلنے والے کو متشدد اور تکفیری کہتے پھرتے ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت وبصیرت پرہو۔، اور دوسری طرف جو اپنے دین میں سست ہو، اور بہت سے ان دینی واجبات میں لاپرواہی برتتا ہو جن کو وہ دین اس پر لاگو کرتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتا ہے، تو ایسوں کو یہ آزاد خیال اور روشن خیال کہتے ہيں۔ چناچہ اس بنیاد پر وہ ان شرعی احکام کو جو جلیل القدر علماء کرام نے مدون فرمائے ہیں جمود، بوجھ اور دقیانوسی ملّااِزم وغیرہ سمجھتے ہيں۔ایک نئی فقہ کی طرف دعوت دیتے ہیں جسے وہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال سکیں۔ بلکہ ان کی بےحیائی تو اس حد سے تجاوز کرکے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہ احادیث صحیحہ پر عمل کو ترک کرتے ہيں، اور اس کی حجیت کے قائل نہيں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ عقل کے خلاف ہیں۔ آخر وہ کس عقل کی بات کرتے ہیں! وہ اپنی کوتاہ اور آلودہ عقل کی بات کرتے ہيں ناکہ عقل سلیم کی۔ کیونکہ عقل سلیم کبھی بھی صحیح احادیث کی مخالفت نہيں کرتی جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’عقل صریح کبھی بھی نقل صحیح کی مخالفت نہيں کرتی، اگر اختلاف واقع ہو تو اس کی وجہ یا تو عقل غیر صریح ہوگی یا پھر نقل غیر صحیح ہوگی‘‘۔
یہ تو ایک بات رہی، ساتھ میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی شریعت لے کر آئی ہے ضروری نہيں کہ عقل کی اس تک رسائی ہو، کیونکہ بعض ایسے بھی امور ہوتے ہيں کہ انسانی عقل ان کا ادراک نہيں کرسکتی۔ پس ہمارے ذمے جو بات واجب ہے وہ یہ کہ ہم اسے تسلیم کریں اور اپنی حد تک رک جائیں۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’أيها الناس اتهموا الرأي في الدين، فلو رأيتني يوم أبي جندل أن أرد أمر رسول الله فاجتهد ولا آلو‘‘([1])
(اے لوگو! دین میں اپنی رائے کو غلط سمجھو، میں نے اپنے تئیں دیکھا جس دن ابوجندل آیا (یعنی حدیبیہ کے دن) اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےحکم کو رد کرسکتا تو بھرپور کوشش کرتا اور کوئی کسر نہ چھوڑتا (لیکن شرعی حکم ہر حال میں واقعی ہماری عقل سے اعلیٰ اور بہتر ہے))۔
Forwarded from Deleted Account
اور یہ اس موقع کی بات ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح معاہدے کے پیش نظر سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ کو مشرکین کی جانب واپس لوٹا دیا تھا، تو یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر کچھ شاق گزری ، حالانکہ اس صلح میں مسلمانوں کے لیے خیرکثیر تھی۔
اور امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ، لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ‘‘([2])
(اگر دین اپنی رائے سے ہوا کرتا، تو پھر موزوں کا نچھلہ حصہ اس کے بالائی حصے سے زیادہ مسح کیے جانے کے لائق تھا)۔
اگر عقل مستقل طور پر امور کی معرفت اور مصالح کے ادراک کے لیے آزاد ہوتی تو ہمیں شریعت کی ضرورت ہی نہ ہوتی، نہ ہی کتاب وسنت کی۔ لہذا ہم پر واجب ہے کہ ہمارے پاس جو بات بھی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آئے اسے تسلیم کریں چاہے ہم اس کی حکمت سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں۔ کسی مسلمان کے لیے یہ لائق ہی نہیں کہ وہ کہیں: میں تسلیم ہی نہیں کروں گا جب تک یہ میری عقل میں نہ آئے۔ بلکہ واجب ہے کہ جو بھی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آئے اسے تسلیم کیا جائے اس علم ویقین کے ساتھ کہ بے شک اللہ تعالی جو بھی حکم کرتا ہے وہ پرحکمت ہوتا ہے خواہ ہمیں اس کا ادراک ہو یا نہ ہو۔ اور یہی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا﴾ (الاحزاب: 36)
(اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کے لیے اور نہ کسی مومن عورت کے لیے لائق ہے کہ جب اللہ تعالی اور اس کے رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو ان کے لیے ان کے معاملے میں کچھ اختیار رہ جائے، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، بہت واضح اور کھلا گمراہ )
اور جس چیز کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا اس کا حکم خود اللہ تعالی نے بھی دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
﴿مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا﴾ (النساء: 80)
(جو رسول کی اطاعت کرے تو بےشک اس نے اللہ تعالی کی ہی اطاعت کی، اور جس نے منہ موڑا تو ہم نےبھی آپ کو ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا)
اور فرمایا:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ (النساء: 64)
(اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے)
اور فرمایا:
﴿وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ (النور: 56)
(اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے)
اور فرمایا:
﴿وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا﴾ (النور: 54)
(اور اگر اس (نبی) کا حکم مانو گے تو ہدایت پاجاؤ گے)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ ۙ أولئك هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾
(الاعراف: 157)
(سو وہ لوگ جو اس (رسول) پر ایمان لائے ،اور انہیں قوت دی، اور ان کی مدد کی ،اور اس نور کی پیروی کی جو ان کے ساتھ اتارا گیا، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں )
اسی لیے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام واجب ہے، اور ان کے بارے میں بغیر علم وتقویٰ کے جھگڑا وجدال کرنا حرام ہے۔کیونکہ آج بہت سے علم کے دعویداروں کے لیے سنت کی باڑ کو گرانا بہت آسان ہوگیا ہے کہ وہ بغیر علم کے صحیح وضعیف کا حکم لگا دیتے ہیں، راسخ علماء حدیث سے اسے حاصل کیے بغیرا ور علم حدیث کو اس کے علماء کرام سے حاصل کیے بغیر صرف کتب کا مطالعہ کرکے یہ جسارت کرتے ہيں۔ اور یہ معاملہ خطرناک اور قابل تحذیر ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مجھے اس قوم پر تعجب ہے کہ وہ اسناد کو اور اس کی صحت کو بھی بخوبی جانتے ہیں مگر پھر بھی سفیان رحمہ اللہ کی رائے پر چلتے ہیں‘‘۔
آپ امام احمد رحمہ اللہ کے اس قول پر غور کریں کہ:
’’وہ اسناد کو اور اس کی صحت کو بھی بخوبی جانتے ہیں‘‘۔
اور معرفت بنا تعلیم اور راسخین علماء سے تحصیل کیے بغیر نہیں آتی، راسخین علماء سے ناکہ محض علم کے دعویداروں سے کہ اگر ان میں سے کسی سے آپ پوچھ لیں کہ کس سے تم نے علم حدیث حاصل کیا تو کہے گا فلاں کتاب سے یا فلاں علم کے دعویدار سے۔اور یہ اللہ تعالی پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بلاعلم کے بات کرنے میں شمار ہوگا۔
اور امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ، لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ‘‘([2])
(اگر دین اپنی رائے سے ہوا کرتا، تو پھر موزوں کا نچھلہ حصہ اس کے بالائی حصے سے زیادہ مسح کیے جانے کے لائق تھا)۔
اگر عقل مستقل طور پر امور کی معرفت اور مصالح کے ادراک کے لیے آزاد ہوتی تو ہمیں شریعت کی ضرورت ہی نہ ہوتی، نہ ہی کتاب وسنت کی۔ لہذا ہم پر واجب ہے کہ ہمارے پاس جو بات بھی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آئے اسے تسلیم کریں چاہے ہم اس کی حکمت سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں۔ کسی مسلمان کے لیے یہ لائق ہی نہیں کہ وہ کہیں: میں تسلیم ہی نہیں کروں گا جب تک یہ میری عقل میں نہ آئے۔ بلکہ واجب ہے کہ جو بھی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آئے اسے تسلیم کیا جائے اس علم ویقین کے ساتھ کہ بے شک اللہ تعالی جو بھی حکم کرتا ہے وہ پرحکمت ہوتا ہے خواہ ہمیں اس کا ادراک ہو یا نہ ہو۔ اور یہی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا﴾ (الاحزاب: 36)
(اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کے لیے اور نہ کسی مومن عورت کے لیے لائق ہے کہ جب اللہ تعالی اور اس کے رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو ان کے لیے ان کے معاملے میں کچھ اختیار رہ جائے، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، بہت واضح اور کھلا گمراہ )
اور جس چیز کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا اس کا حکم خود اللہ تعالی نے بھی دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
﴿مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا﴾ (النساء: 80)
(جو رسول کی اطاعت کرے تو بےشک اس نے اللہ تعالی کی ہی اطاعت کی، اور جس نے منہ موڑا تو ہم نےبھی آپ کو ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا)
اور فرمایا:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ (النساء: 64)
(اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے)
اور فرمایا:
﴿وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ (النور: 56)
(اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے)
اور فرمایا:
﴿وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا﴾ (النور: 54)
(اور اگر اس (نبی) کا حکم مانو گے تو ہدایت پاجاؤ گے)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ ۙ أولئك هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾
(الاعراف: 157)
(سو وہ لوگ جو اس (رسول) پر ایمان لائے ،اور انہیں قوت دی، اور ان کی مدد کی ،اور اس نور کی پیروی کی جو ان کے ساتھ اتارا گیا، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں )
اسی لیے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام واجب ہے، اور ان کے بارے میں بغیر علم وتقویٰ کے جھگڑا وجدال کرنا حرام ہے۔کیونکہ آج بہت سے علم کے دعویداروں کے لیے سنت کی باڑ کو گرانا بہت آسان ہوگیا ہے کہ وہ بغیر علم کے صحیح وضعیف کا حکم لگا دیتے ہیں، راسخ علماء حدیث سے اسے حاصل کیے بغیرا ور علم حدیث کو اس کے علماء کرام سے حاصل کیے بغیر صرف کتب کا مطالعہ کرکے یہ جسارت کرتے ہيں۔ اور یہ معاملہ خطرناک اور قابل تحذیر ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مجھے اس قوم پر تعجب ہے کہ وہ اسناد کو اور اس کی صحت کو بھی بخوبی جانتے ہیں مگر پھر بھی سفیان رحمہ اللہ کی رائے پر چلتے ہیں‘‘۔
آپ امام احمد رحمہ اللہ کے اس قول پر غور کریں کہ:
’’وہ اسناد کو اور اس کی صحت کو بھی بخوبی جانتے ہیں‘‘۔
اور معرفت بنا تعلیم اور راسخین علماء سے تحصیل کیے بغیر نہیں آتی، راسخین علماء سے ناکہ محض علم کے دعویداروں سے کہ اگر ان میں سے کسی سے آپ پوچھ لیں کہ کس سے تم نے علم حدیث حاصل کیا تو کہے گا فلاں کتاب سے یا فلاں علم کے دعویدار سے۔اور یہ اللہ تعالی پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بلاعلم کے بات کرنے میں شمار ہوگا۔
Forwarded from Deleted Account
اے اللہ! ہمیں دین کی فقہ عطاء فرما، اور ہمیں وہ سکھا جو ہمیں فائدہ دے، اور جو ہمیں تو نے سکھایا اس کے ذریعے سے ہمیں نفع پہنچا، اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔
وصلى الله على نبينا محمد وآله وأصحابه أجمعين۔
[1] صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں مختلف مقامات پر مختلف الفاظ کے ساتھ صفین کے موقع پر سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مروی ہے۔ حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابووائل نے بیان کیا کہ:
’’كُنَّا بِصِفِّينَ، فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ؟ فَقَالَ: بَلَى، فَقَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَعَلَي مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُمَرَ إِلَى آخِرِهَا، فَقَالَ: عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَفَتْحٌ هُوَ، قَالَ: نَعَمْ‘‘۔ (صحیح بخاری 3182)
(ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پھر سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! تم خود اپنی رائے کو غلط سمجھو۔ بے شک ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر آئے (یعنی حدیبیہ میں) اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: کیوں نہیں! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: کیوں نہیں! پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں؟ کیا ہم (مدینہ) واپس چلے جائیں گے، اور ہمارے اور ان کے درمیان اللہ تعالی کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں، اور اللہ تعالی مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی سوالات کئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابھی کر چکے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ تعالی انہیں کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ پھر سورۂ فتح نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اسے آخر تک پڑھ کر سنایا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا یہی فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ہاں! (بلا شبہ یہی فتح ہے))۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اسے امام ابو داود نے اپنی سنن 162 میں روایت فرمایا ہے، اور شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
وصلى الله على نبينا محمد وآله وأصحابه أجمعين۔
[1] صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں مختلف مقامات پر مختلف الفاظ کے ساتھ صفین کے موقع پر سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مروی ہے۔ حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابووائل نے بیان کیا کہ:
’’كُنَّا بِصِفِّينَ، فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ؟ فَقَالَ: بَلَى، فَقَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَعَلَي مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُمَرَ إِلَى آخِرِهَا، فَقَالَ: عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَفَتْحٌ هُوَ، قَالَ: نَعَمْ‘‘۔ (صحیح بخاری 3182)
(ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پھر سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! تم خود اپنی رائے کو غلط سمجھو۔ بے شک ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر آئے (یعنی حدیبیہ میں) اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: کیوں نہیں! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: کیوں نہیں! پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں؟ کیا ہم (مدینہ) واپس چلے جائیں گے، اور ہمارے اور ان کے درمیان اللہ تعالی کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں، اور اللہ تعالی مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی سوالات کئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابھی کر چکے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ تعالی انہیں کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ پھر سورۂ فتح نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اسے آخر تک پڑھ کر سنایا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا یہی فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ہاں! (بلا شبہ یہی فتح ہے))۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اسے امام ابو داود نے اپنی سنن 162 میں روایت فرمایا ہے، اور شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[Article] Six conditions for an action to become according to #Sunnah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
کسی عمل میں #متابعتِ_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھ شرائط
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: رسالہ ’’الإبداع في بيان كمال الشرع وخطر الابتداع‘‘۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/amal_mutabiaat_rasool_6_sharait.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔بھائیوں یہ بات جاننی چاہیے کہ متابعت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کسی عمل کی مندرجہ ذیل چھ باتوں میں شرعی موافقت نہ پائی جائے:
1- سبب:
یعنی اگر انسان کوئی ایسی عبادت کرے جسے کسی ایسے سبب کے ساتھ جوڑے جو کہ شرعی نہيں تو یہ بدعت ہے اور کرنے والے کے منہ پر مار دی جائے گی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بعض لوگ رجب کی ستائیویں رات کو جاگ کر عبادت کرتے ہیں اس حجت کے ساتھ کہ اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج ہوئی تھی۔ پس تہجد کی نماز عبادت ہے لیکن جب اسے اس سبب کے ساتھ جوڑ دیا گیا تو یہ بدعت بن گئی۔ کیونکہ اس عبادت کی بنیاد ایسے سبب پر ڈالی گئی جو شرعاً ثابت نہیں۔ اور یہ وصف یعنی سبب کے تعلق سے شریعت کی موافقت بہت اہم معاملہ ہے جس سے بہت سی بدعات واضح ہوجاتی ہیں کہ جنہیں کثیر لوگ سنت سمجھتے ہیں لیکن وہ سنت میں سے نہیں ہوتیں۔
2- جنس:
لازم ہے کہ عبادت جنس کے اعتبار سے بھی شریعت کے موافق ہو۔ اگر کوئی انسان ایسی عبادت اللہ تعالی کی بجا لاتا ہے جس کی جنس مشروع نہیں تو یہ غیرمقبول ہوگی۔ مثلاً اگر کوئی شخص عید الاضحیٰ میں گھوڑے کی قربانی کردیتا ہے تو اس کی قربانی صحیح نہیں۔ کیونکہ اس نے جنس کے اعتبار سے شریعت کی مخالفت کی۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ قربانی بھیمۃ الانعام یعنی اونٹ، گائے، اور (بھیڑ) بکری کے سوا جائزنہیں۔
3- مقدار:
اگر انسان نماز میں زیادتی کرنا چاہے اگرچہ نماز ایک فریضہ ہے لیکن ہم اس سے کہیں گے: یہ بدعت ہے اور غیر مقبول ہے کیونکہ مقدار کے اعتبار سے اس میں شریعت کی مخالفت ہے۔ پس بالاولیٰ اگر انسان ظہر کی نماز مثلاً پانچ رکعات پڑھتا ہے تو اس کی نماز بالاتفاق صحیح نہیں۔
4- کیفیت:
اگر انسان وضوء کرے اور اسے دونوں پیر دھونے سے شروع کرے ،پھر سر کا مسح کرے ،پھر دونوں ہاتھ دھوئے اور پھر چہرہ تو ہم کہیں گے کہ اس کا وضوء باطل ہے کیونکہ کیفیت کے اعتبار سے اس میں شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
5- زمان:
اگر انسان ذی الحجہ کے ابتدائی ایام میں قربانی کرلے تو اس کی قربانی قبول نہیں کیونکہ اس میں زمان کے اعتبار سے شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ رمضان میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بطور قربانی بکری ذبح کرتے ہیں حالانکہ یہ عمل اس صورت میں بدعت ہے ۔ کیونکہ ذبح کے ذریعے اللہ کاتقرب حاصل کرنا سوائے (عیدالاضحیٰ والی) قربانی، ہدی (حج والی قربانی) اور عقیقہ کے ثابت نہيں۔ لہذا رمضان میں ذبح (قربانی) کرنا اس قربانی کے اجر کے اعتقاد کے ساتھ جیسا کہ عیدالاضحیٰ میں کیا جاتا ہے بدعت ہے۔ البتہ محض گوشت کے لیے ذبح کرنا جائز ہے۔
6- مکان:
اگر کوئی انسان مسجد کے علاوہ اعتکاف کرتاہے تو اس کا اعتکاف صحیح نہيں۔ وہ اس لیے کیونکہ اعتکاف مساجد کےعلاوہ کہیں نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی عورت کہے کہ میں اپنے گھر کے مصلیٰ پر ہی اعتکاف کرنا چاہتی ہوں تو اس کا اعتکاف صحیح نہیں کیونکہ اس میں مکان کے اعتبار سے شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ اس کی مثال میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص (بیت اللہ کا) طواف کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے مطاف میں بہت بھیڑ پائی اور ارد گرد چلنے میں تنگی پائی تو اس نے مسجد کے باہر سے طواف کرنا شروع کردیا اس صورت میں اس کا طواف صحیح نہیں۔ کیونکہ طواف کا مکان بیت اللہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم الخلیل علیہ الصلاۃ والسلام کو فرمایا:
﴿وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاىِٕفِيْنَ﴾ (الحج: 26)
(اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لیے پاک رکھو)
پس عبادت اس وقت تک عمل صالح نہیں بن سکتی جب تک اس میں دو شرائط پوری نہ ہوں:
اول: اخلاص۔
دوم: (شریعت یا سنت کی ) متابعت ، اور متابعت مذکورہ بالا چھ امور کو ملحوظ رکھے بنا حاصل نہیں ہوسکتی۔
کسی عمل میں #متابعتِ_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھ شرائط
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: رسالہ ’’الإبداع في بيان كمال الشرع وخطر الابتداع‘‘۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/amal_mutabiaat_rasool_6_sharait.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔بھائیوں یہ بات جاننی چاہیے کہ متابعت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کسی عمل کی مندرجہ ذیل چھ باتوں میں شرعی موافقت نہ پائی جائے:
1- سبب:
یعنی اگر انسان کوئی ایسی عبادت کرے جسے کسی ایسے سبب کے ساتھ جوڑے جو کہ شرعی نہيں تو یہ بدعت ہے اور کرنے والے کے منہ پر مار دی جائے گی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بعض لوگ رجب کی ستائیویں رات کو جاگ کر عبادت کرتے ہیں اس حجت کے ساتھ کہ اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج ہوئی تھی۔ پس تہجد کی نماز عبادت ہے لیکن جب اسے اس سبب کے ساتھ جوڑ دیا گیا تو یہ بدعت بن گئی۔ کیونکہ اس عبادت کی بنیاد ایسے سبب پر ڈالی گئی جو شرعاً ثابت نہیں۔ اور یہ وصف یعنی سبب کے تعلق سے شریعت کی موافقت بہت اہم معاملہ ہے جس سے بہت سی بدعات واضح ہوجاتی ہیں کہ جنہیں کثیر لوگ سنت سمجھتے ہیں لیکن وہ سنت میں سے نہیں ہوتیں۔
2- جنس:
لازم ہے کہ عبادت جنس کے اعتبار سے بھی شریعت کے موافق ہو۔ اگر کوئی انسان ایسی عبادت اللہ تعالی کی بجا لاتا ہے جس کی جنس مشروع نہیں تو یہ غیرمقبول ہوگی۔ مثلاً اگر کوئی شخص عید الاضحیٰ میں گھوڑے کی قربانی کردیتا ہے تو اس کی قربانی صحیح نہیں۔ کیونکہ اس نے جنس کے اعتبار سے شریعت کی مخالفت کی۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ قربانی بھیمۃ الانعام یعنی اونٹ، گائے، اور (بھیڑ) بکری کے سوا جائزنہیں۔
3- مقدار:
اگر انسان نماز میں زیادتی کرنا چاہے اگرچہ نماز ایک فریضہ ہے لیکن ہم اس سے کہیں گے: یہ بدعت ہے اور غیر مقبول ہے کیونکہ مقدار کے اعتبار سے اس میں شریعت کی مخالفت ہے۔ پس بالاولیٰ اگر انسان ظہر کی نماز مثلاً پانچ رکعات پڑھتا ہے تو اس کی نماز بالاتفاق صحیح نہیں۔
4- کیفیت:
اگر انسان وضوء کرے اور اسے دونوں پیر دھونے سے شروع کرے ،پھر سر کا مسح کرے ،پھر دونوں ہاتھ دھوئے اور پھر چہرہ تو ہم کہیں گے کہ اس کا وضوء باطل ہے کیونکہ کیفیت کے اعتبار سے اس میں شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
5- زمان:
اگر انسان ذی الحجہ کے ابتدائی ایام میں قربانی کرلے تو اس کی قربانی قبول نہیں کیونکہ اس میں زمان کے اعتبار سے شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ رمضان میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بطور قربانی بکری ذبح کرتے ہیں حالانکہ یہ عمل اس صورت میں بدعت ہے ۔ کیونکہ ذبح کے ذریعے اللہ کاتقرب حاصل کرنا سوائے (عیدالاضحیٰ والی) قربانی، ہدی (حج والی قربانی) اور عقیقہ کے ثابت نہيں۔ لہذا رمضان میں ذبح (قربانی) کرنا اس قربانی کے اجر کے اعتقاد کے ساتھ جیسا کہ عیدالاضحیٰ میں کیا جاتا ہے بدعت ہے۔ البتہ محض گوشت کے لیے ذبح کرنا جائز ہے۔
6- مکان:
اگر کوئی انسان مسجد کے علاوہ اعتکاف کرتاہے تو اس کا اعتکاف صحیح نہيں۔ وہ اس لیے کیونکہ اعتکاف مساجد کےعلاوہ کہیں نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی عورت کہے کہ میں اپنے گھر کے مصلیٰ پر ہی اعتکاف کرنا چاہتی ہوں تو اس کا اعتکاف صحیح نہیں کیونکہ اس میں مکان کے اعتبار سے شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ اس کی مثال میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص (بیت اللہ کا) طواف کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے مطاف میں بہت بھیڑ پائی اور ارد گرد چلنے میں تنگی پائی تو اس نے مسجد کے باہر سے طواف کرنا شروع کردیا اس صورت میں اس کا طواف صحیح نہیں۔ کیونکہ طواف کا مکان بیت اللہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم الخلیل علیہ الصلاۃ والسلام کو فرمایا:
﴿وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاىِٕفِيْنَ﴾ (الحج: 26)
(اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لیے پاک رکھو)
پس عبادت اس وقت تک عمل صالح نہیں بن سکتی جب تک اس میں دو شرائط پوری نہ ہوں:
اول: اخلاص۔
دوم: (شریعت یا سنت کی ) متابعت ، اور متابعت مذکورہ بالا چھ امور کو ملحوظ رکھے بنا حاصل نہیں ہوسکتی۔
[Article] The reality of #seeking_blessing from the #hair_of_the_prophet (salAllaho alaihi wasallam) – Shaykh Rabee' bin Hadee Al-Madkhalee
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے #موئے_مبارک سے #تبرک لینے کی حقیقت
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی (فتاوى في العقيدة والمنهج)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/nabi_moa_mubarak_tabarruk_haqeeqat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سائل کہتا ہے جیسا کہ آپ نے ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے مبارک کا ذکر فرمایا پس کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثارمیں سے کوئی چیز آج باقی ہے جیسا کہ آپ کے بال (موئے مبارک)، اور اگر کوئی چیز موجود بھی ہو تواس سے تبرک کیسے لیا جائے گا؟
جواب: آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار میں سے کوئی بھی چیز باقی نہیں۔ جو کوئی ان میں سے کسی چیز کے موجود ہونے کا دعویٰدار ہے تو وہ جھوٹا اور خرافات پرست انسان ہے۔
ہم ہندوستان گئے اور ایسے لوگ دیکھے جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک موجود ہیں۔ یہ لوگ جھوٹے ہیں اور دجل وفریب کرتے ہیں۔ اسی طرح سے ہم نے دیکھا میرے خیال سے پاکستان یا بنگلہ دیش میں مسجد ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ قدم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں!
اور دھلی میں ایک مشہور بڑی مسجد ہے جس کا ایک امام ہے جس کا نام بخاری ہے اور وہ بہت مشہور ومعروف ہے۔ یورپ تک سے باقاعدہ مردوزن نیم عریاں لباس میں اس بخاری کی مسجد میں آتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار ہیں جن پر قبے کی طرح کچھ بنا ہوا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ بیہودہ عورتوں اور مردوں کا مجمع ہوتا ہےکہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک کے دیدار کے لیے آیا ہوتا ہے۔ میں نے جب اس منکر کو دیکھا تو اس امام کے پاس جاپہنچا اور اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ: آپ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماس مقام پر آئے تھے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار ہیں؟ اس نے کہا: لوگ ایسا ایسا کہتے ہیں۔ میں نے کہا: میر ےبھائی ہم نے تاریخ پڑھی ہے اور جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج میں آسمانوں پر گئے، مکہ سے مدینہ گئے، غزوات کے لیے معروف علاقوں میں گئے اور تبوک بھی گئے۔ لیکن ہم یہ تاریخ میں کہیں نہیں پاتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دھلی آئے ہوں اوراس جگہ ٹھہرے ہوں ۔!! ۔۔۔ پھر میں نے ان کےوالد سے بات کی جب وہ آئے اور میرے ساتھ ایک سلفی بھائی مترجم تھاکہنے لگا (آپ کے جواب میں) یہ لوگ محض بے حیائی سے بلادلیل بے پر کی اڑا رہے ہیں۔
پھر اس سلفی ساتھی نے جو میرے ساتھ تھا بتایا کہ جب ملک سعود رحمہ اللہ نے ہندوستان کی زیارت کی تھی اور بنارس آئے تھے جو کہ بتوں اور وثنوں (مزاروں) کا مرکز تھا جو کہ ان کے نزدیک کعبے کی طرح ہے۔ اس میں بہت سے بت وغیرہ ہیں۔ جب انہوں نے سنا کہ آپ تشریف لارہے ہیں تو ان بتوں پر کپڑا ڈال کر چھپا دیا، اللہ کی قسم انہوں نے انہیں ڈھک دیا، سبحان اللہ! کیسی یہ توحید کی ہیبت ہے۔
پھر وہ اس مسجد میں آئے نماز پڑھی تو انہو ں نےان سے کہا کہ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک کے آثار ہیں تو وہ چل دیے اور جان لیا کہ یہ خرافات ہیں۔
ایک توحید پرست کے پاس بصیرت ہوتی ہے اس کے پاس ادراک ہوتا ہے۔ جبکہ اہل بدعت کے پاس بیوقوفی، جہالت وخباثت ہوتی ہے، بارک اللہ فیکم۔
پس دعوے تو بہت سے ہیں ترکی میں بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس موئے مبارک موجود ہے۔اور بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس وہ مصحف سیدنا علی رضی اللہ عنہ موجود ہےجو انہو ں نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھااور جو آخر تک وہ دعوےکرتے ہیں یہ سب جھوٹے دعوے ہیں۔
اللہ تعالی کی ایسی اشیاء کے بارے میں یہی سنت ہے کہ یہ فناء ہوکر ختم ہوجاتی ہیں، اللہ تعالی نے ان کے بارے میں یہی سنت مقرر کی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے #موئے_مبارک سے #تبرک لینے کی حقیقت
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی (فتاوى في العقيدة والمنهج)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/nabi_moa_mubarak_tabarruk_haqeeqat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سائل کہتا ہے جیسا کہ آپ نے ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے مبارک کا ذکر فرمایا پس کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثارمیں سے کوئی چیز آج باقی ہے جیسا کہ آپ کے بال (موئے مبارک)، اور اگر کوئی چیز موجود بھی ہو تواس سے تبرک کیسے لیا جائے گا؟
جواب: آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار میں سے کوئی بھی چیز باقی نہیں۔ جو کوئی ان میں سے کسی چیز کے موجود ہونے کا دعویٰدار ہے تو وہ جھوٹا اور خرافات پرست انسان ہے۔
ہم ہندوستان گئے اور ایسے لوگ دیکھے جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک موجود ہیں۔ یہ لوگ جھوٹے ہیں اور دجل وفریب کرتے ہیں۔ اسی طرح سے ہم نے دیکھا میرے خیال سے پاکستان یا بنگلہ دیش میں مسجد ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ قدم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں!
اور دھلی میں ایک مشہور بڑی مسجد ہے جس کا ایک امام ہے جس کا نام بخاری ہے اور وہ بہت مشہور ومعروف ہے۔ یورپ تک سے باقاعدہ مردوزن نیم عریاں لباس میں اس بخاری کی مسجد میں آتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار ہیں جن پر قبے کی طرح کچھ بنا ہوا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ بیہودہ عورتوں اور مردوں کا مجمع ہوتا ہےکہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک کے دیدار کے لیے آیا ہوتا ہے۔ میں نے جب اس منکر کو دیکھا تو اس امام کے پاس جاپہنچا اور اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ: آپ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماس مقام پر آئے تھے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار ہیں؟ اس نے کہا: لوگ ایسا ایسا کہتے ہیں۔ میں نے کہا: میر ےبھائی ہم نے تاریخ پڑھی ہے اور جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج میں آسمانوں پر گئے، مکہ سے مدینہ گئے، غزوات کے لیے معروف علاقوں میں گئے اور تبوک بھی گئے۔ لیکن ہم یہ تاریخ میں کہیں نہیں پاتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دھلی آئے ہوں اوراس جگہ ٹھہرے ہوں ۔!! ۔۔۔ پھر میں نے ان کےوالد سے بات کی جب وہ آئے اور میرے ساتھ ایک سلفی بھائی مترجم تھاکہنے لگا (آپ کے جواب میں) یہ لوگ محض بے حیائی سے بلادلیل بے پر کی اڑا رہے ہیں۔
پھر اس سلفی ساتھی نے جو میرے ساتھ تھا بتایا کہ جب ملک سعود رحمہ اللہ نے ہندوستان کی زیارت کی تھی اور بنارس آئے تھے جو کہ بتوں اور وثنوں (مزاروں) کا مرکز تھا جو کہ ان کے نزدیک کعبے کی طرح ہے۔ اس میں بہت سے بت وغیرہ ہیں۔ جب انہوں نے سنا کہ آپ تشریف لارہے ہیں تو ان بتوں پر کپڑا ڈال کر چھپا دیا، اللہ کی قسم انہوں نے انہیں ڈھک دیا، سبحان اللہ! کیسی یہ توحید کی ہیبت ہے۔
پھر وہ اس مسجد میں آئے نماز پڑھی تو انہو ں نےان سے کہا کہ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک کے آثار ہیں تو وہ چل دیے اور جان لیا کہ یہ خرافات ہیں۔
ایک توحید پرست کے پاس بصیرت ہوتی ہے اس کے پاس ادراک ہوتا ہے۔ جبکہ اہل بدعت کے پاس بیوقوفی، جہالت وخباثت ہوتی ہے، بارک اللہ فیکم۔
پس دعوے تو بہت سے ہیں ترکی میں بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس موئے مبارک موجود ہے۔اور بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس وہ مصحف سیدنا علی رضی اللہ عنہ موجود ہےجو انہو ں نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھااور جو آخر تک وہ دعوےکرتے ہیں یہ سب جھوٹے دعوے ہیں۔
اللہ تعالی کی ایسی اشیاء کے بارے میں یہی سنت ہے کہ یہ فناء ہوکر ختم ہوجاتی ہیں، اللہ تعالی نے ان کے بارے میں یہی سنت مقرر کی ہے۔