Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لئے ہمارے سردار، ہم میں کے سب سے اچھے، ہم میں کے سب سے افضل و اعظم جیسے الفاظ و تعریف کو نا پسند فرمایا ہے، حالانکہ واقعتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی الاطلاق تمام مخلوق میں سب سے افضل و اشرف ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو ایسا کہنے سے صرف اس لئے روک دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں لو گ غلو و مبالغہ میں نہ پڑجائیں اور توحید کی حفاظت ہو سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو صرف دو صفتوں سے متصف کرنے کی ہدایت کی ہے، جو دراصل بندہ کے لئے عبدیت کا سب سے بڑا رتبہ ہے اور جن میں غلو و مبالغہ نہیں اور نہ ہی عقیدہ کے لئے کوئی خطرہ ،وہ دو صفتیں ہیں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔ اور اپنی اس قدرو منزلت سے جس میں رب العالمین نے آپ کو رکھا ہے اونچا کرنے کو نا پسند فرمایا ہے۔ آج بہت سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں ، کھلے عام آپ کو پکارتے ہیں آپ سے استغاثہ کرتے ہیں، آپ کی قسم کھاتے ہیں اور آپ سے وہ چیزیں مانگتے ہیں جو صرف اللہ ہی سے مانگی جاتی ہے۔
اسی طرح کی مخالفتیں میلادوں ،نعتیہ کلاموں اور نظموں میں خوب خوب ہو رہی ہیں، اس طرح کے لوگ اللہ تعالیٰ کے حق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں کوئی تمیز نہیں کرتے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس حقیقت کو اپنے ایک قصیدہ نونیہ میں یوں بیان کیا:
للـــه حـــق لا يكــون لغــيره ولعبـــده حــق همــا حقــان
لا تجعلوا الحقين حقًّا واحدًا مـــن غــير تميــيز ولا فرقـان
(اللہ تعالیٰ کا ایک حق ہے جو کسی دوسرے کا نہیں ہو سکتا اور اس کے بندے کا ایک حق ہے یہ دو علیحدہ حق ہوئے، ان دونوں حقوق کو بغیر امتیازودلیل کے ایک حق نہ بناؤ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدرو منزلت کا بیان
اللہ تعالیٰ نے آپ کی جیسی تعریف کی ہے اور آپ کو جس قدرو منزلت سے نوازا ہے اتنی تعریف کرنے اور اس رتبہ کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑے رتبے اور عالی مقام سے نوازا ہے، آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، تمام مخلوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی الاطلاق سب سے اچھے اورسب سے افضل ہیں۔ آپ تمام انسانوں کے لئے رسول ہیں، جن و انس کے ہر فرد کے لئے آپ نبی و رسول بناکر بھیجے گئے ہیں، آپ رسولوں میں بھی سب سے افضل ہیں، خاتم النبیین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ کو اللہ تعالیٰ نے کھول دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے بلند فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی نافرمانی کرنے والوں کے لئے ہر طرح کی ذلت و رسوائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب ِمقامِ محمود ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿عَسَی أَن یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوداً﴾ (الاسراء:79)
(قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام ِمحمودپر فائز کرے)
مقامِ محمود سے مراد وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ آپ کو قیامت کے دن لوگوں کی شفاعت کے لئے کھڑا کرے گا تاکہ انہیں ان کا رب اس موقع کی پریشانی و شدت سے آرام پہنچائے، یہ بہت ہی خاص مقام ہے جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو عطاء ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی نبی کو بھی یہ مقام عطاء نہ ہوگا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے اور اللہ تعالی کا سب سے زیادہ تقوی اختیار کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آواز بلند کرنے سے لوگوں کو روک دیا ہے اور ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنی آواز پست رکھتے ہوئے۔
﴿ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ أُولَئِكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾ (الحجرات:2-5)
[#SalafiUrduDawah Article] The Shirk containing poetic verses of famous #Qaseedah_Burdah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قصیدہ_بردہ کے شرکیہ اشعار
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی الشیخ محمد بن صالح العثیمین اعداد وترتیب : اشرف عبدالمقصود 1/126۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/01/qaseeda_burdah_shrikiya_ashaar.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔جب آپ ان میلادی مولویوں اور ان کے پیروکاروں کو دیکھیں گے جو اس قسم کی بدعات (عید میلاد) میں مگن رہتے ہیں تو آپ ان کوپائیں گے کہ بہت سی سنتوں بلکہ فرا ئض وواجبات تک کے تارک ہوں گے۔ بلکہ قطع نظر اس کے ان کی محافل میلاد میں جو غلو ہوتا ہے وہ اس شرک اکبر تک پہنچا ہوا ہوتا ہے جو کہ انسان کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردے۔ یہ تو وہ وہی شرک ہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جن کی محبت کے یہ دعویدار ہیں ) لوگوں سے جنگ کیا کرتے تھے، اور ان کی جان ومال کو حلال سمجھتے تھے۔ ہم ایسی محافل میں اس قسم کی نعتیں سنتے رہتے ہیں کہ جو انسان کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردیں، جیسے بوصیری کا مشہور قصیدہ بردہ (شریف)، جس میں وہ کہتا ہے:
يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به سواك عند حدوث الحادث العمم
إن لم تكن آخذاً يوم المعاد يدي صفحاً وإلا فقل يا زلة القدم
فإن من جودك الدنيا وضرتها ومن علومك علم اللوح والقلم
(اے پوری مخلوق سے زیادہ عزت و شرف والےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشکلات اور حادثات زمانہ میں میرے لئے تیرے سوا کوئی ایسی ذات نہیں جس کی میں پناہ طلب کروں، اگر آپ نے بروزقیامت میری دستگیری نہیں فرمائی تو قدم ڈگمگا جائیں گے،دنیا اورآخرت تیرے ہی جود و سخا کے مظہر میں سے ہے اور لوح و قلم کا علم بھی تیرے ہی علوم کا حصہ ہے)
(اس میں غیراللہ سے استعاذہ (پناہ طلب کرنا )،پکارنا اور دستگیری کی امید رکھنے کے شرک کے علاوہ یہ بھی ہے کہ) اس قسم کے اوصاف سوائے اللہ تعالی کے کسی کے لائق نہیں۔ اور مجھے سخت تعجب ہوتا ہے کہ اس قسم کا کلام ایسے شخص سے کیسے صادر ہوسکتا ہے جو اس کے معنی کو سمجھتا ہو وہ کیسے اپنے لیے یہ روا رکھ سکتا ہے کہ اس قسم کے کلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرے کہ: ’’فإن من جودك الدنيا وضرتها‘‘ ’’من‘‘ تبعیض کے لیے آتا ہے یعنی پوری دنیا آپ کی جودوسخا کا مظہر ہی نہیں بلکہ اس کا محض کچھ حصہ ہے اور ’’وضرتها‘‘ یعنی اور آخرت بھی۔جب دنیا وآخرت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جودوسخاء ہی نہيں بلکہ اس کا محض کچھ حصہ ہے تو پھر اللہ تعالی کے لیے کیا بچا! کوئی چیز بھی باقی نہیں چھوڑی کہ جو دنیا وآخرت میں اللہ تعالی کے لیے ہو۔
اسی طرح سے اس کا یہ کہنا کہ: ’’ومن علومك علم اللوح والقلم‘‘ یہاں بھی لوح وقلم کے علم کو ’’من‘‘ یعنی تبعیض کے ساتھ بیان کیا یعنی یہ علم الہی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کا محض ایک حصہ ہے، نہیں معلوم کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ خطاب کریں گے تو پھر علم میں سے اللہ تعالی کے لیےآخر کیا چھوڑیں گے!
ذرا سنبھلیں، اے مسلمان بھائی! ۔۔۔ اگرآپ واقعی خوف الہی رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہی مقام دیں جو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقرر فرمایا ہے۔۔۔کہ آپ اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو کہیں عبداللہ ورسولہ۔ اور ان کے بارے میں وہی اعتقاد رکھیں جو خود اللہ تعالی نے ان کے زبانی اپنے متعلق کہلوایا ہے:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ﴾ (الانعام: 50)
(آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں (میں داتا نہیں) اور نہ میں غیب جانتا ہوں (میں عالم الغیب نہیں) اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں(میں نوری مخلوق نہیں))
اور جو اس فرمان میں حکم دیا کہ:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ (الجن: 21)
(کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں(میں مختارکل بھی نہیں))
اس پر مزید یہ کہ:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا﴾ (الجن: 22)
(کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ بھی نہیں پا سکتا)
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کا یہ حال ہے کہ جب اللہ تعالی ان کے متعلق کوئی ارادہ فرمالے تو انہیں بھی اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ نہیں۔
اس لیے یہ میلادیں او ر جشن آمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف اسی پر بس نہیں ہوتے کہ یہ بدعت اور دین میں نئی بات ہے بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ اس میں ایسی منکرات ہوتی ہیں جو شرک اکبر تک لے جاتی ہیں۔۔۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding reading #Naat (praising the prophet) – Various 'Ulamaa
#نعت_خوانی
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/naat_khuwanee.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نعت خوانی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح وتعریف اشعار وقصائد کی صورت میں بیان کرنا ہے۔ جو کہ جائز اور مرغوب عمل ہے جیسا کہ مشہور صحابئ رسول حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے ثابت ہے۔ جو جنگوں کے مواقع وغیرہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع، مشرکین کے جواب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں اشعار پڑھتے، جو کفار پر تیر ونشتر سے بڑھ کر اثر کرتے۔
لیکن بعد کے زمانوں میں اس تعلق سے غلو پیدا ہوجانے کے سبب کہ اس میں شرکیہ اشعار پڑھنے، نماز کے انداز میں دست بستہ اور قیام کی حالت میں پڑھنے، بدعتیانہ مناسبات جیسے میلاد وغیرہ میں پڑھنے، موسیقی شامل کرنے، گانوں کی دھنوں اور طرز پر پڑھنے، اور اسے باقاعدہ ایک فیلڈ، پیسہ کمانے کا ذریعہ اور مشغلہ بنالینا قابل مذمت ہے۔ لہذا جب اہل توحید کی جانب سے نعتوں کا رد کیا جاتا ہے تو اس سے مراد یہی صورتحال ہوتی ہے۔ اس تعلق سے علماء کرام کے بعض فتاویٰ پیش خدمت ہیں۔
سوال:ہمارے یہاں ”التواشيح والابتهالات الدينية“دینی قصائد ونعتیں ہوتی ہیں، جو کہ عبارت ہوتی ہيں مدح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، ساتھ کچھ دعائیں ہوتی ہیں جسے بعض خوش الحان افراد ادا کرتے ہیں؟ ان التواشيح میں کسی قسم کی موسیقی نہيں ہوتی، پس آپ سماحۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے، اور اسے سننے کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
ہم ان التواشيح کی تفصیل نہيں جانتے۔ اگر یہ عبارات ہيں تو ہوسکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں غلو میں واقع ہوتے ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان اوصاف سے متصف کرتے ہوں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متصف کرنا جائز نہيں تو یہ حرام ہوں گی۔ یا پھر ایسے بدعتی الفاظ ہوں تو بھی حرام ہوگی۔ بلکہ دعاء کے وقت سنت تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا جائے اور بس۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحیح حدیث میں فرمایا کہ جب ایک شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا کہ وہ دعاء کررہا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام نہیں بھیجا نہ اللہ کی حمد بیان کی تو فرمایا:
” إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ رَبِّهِ ، وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – ثُمَّ يَدْعُو“([1])
(جب تم میں سے کوئی دعاء کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اپنے رب کی حمد و ثناء بیان کرے، پھر نبی کریم e پر درود بھیجے، پھر دعاء کرے)۔
یہ التواشيح سے زیادہ بہتر ہے، اس التواشيح کی ضرورت نہیں۔ کبھی تو اس میں شر بھی ہوسکتا ہے، کبھی اس میں بدعت بھی ہوسکتی ہے۔ لہذا جب دعاء کرنی ہو تو اللہ تعالی کی حمد وثناء بیان کی جائے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درود بھیجاجائے، پھر دعاء کی جائے۔
خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہيں تعلیم دی کہ کس طرح سے آپ پر دورد بھیجا جائے، فرمایا کہ کہو:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘
(اے اللہ !درود بھیج محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے درود بھیجے ابراہیم پر اور آل ابراہیم، بےشک تو ہی قابل حمد اور بزرگی والا ہے، اے اللہ ! برکتیں نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکتیں نازل فرما ئیں ابراہیم پر اور آل ابراہیم، بےشک تو ہی قابل حمد اور بزرگی والا ہے)
پس ایک مومن کسی بھی دعاء کے وقت اللہ کی حمد بیان کرتا ہے:
’’ اللهم لك الحمد، اللهم لك الحمد على كل حال، اللهم لك الحمد حمداً كثيرا ‘‘
(اے اللہ !تیرے ہی لیے حمد ہے، اے اللہ!ہر حال میں تیری ہی تعریفیں ہيں، اے اللہ! تیری حمد ہے بہت زیادہ)۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ثابت شدہ مشروع درود بھیجتا ہے، پھر دعاء کرتا ہے۔
ان تواشیح کی حاجت نہيں جن کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہيں فرمائی جیسے اشعار ہوتے ہیں یا ایسے کلمات جن میں کبھی غلو آہی جاتا ہے۔
بس اللہ کی حمد وثناء بیان کرے، پھر نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مسنون درود و سلام بھیجے، پھر دنیا وآخرت کی بھلائی کی جو چاہے دعاء کرے۔
(فتویٰ : حكم التواشيح التي تقال في مدح النبي)
(جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتا ہو ہم انہیں ان کے اعمال کا بدلہ اسی (دنیا) میں پورا دے دیں گے اور اس (دنیا) میں ان سے کمی نہ کی جائے گی، یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں، اور برباد ہوگیا جو کچھ انہوں نے اس میں کیا ،اور بےکار ہوئے جو اعمال وہ کرتے رہے تھے)
اور اللہ تعالی ہی سیدھی راہ کی جانب ہدایت دینے والا ہے۔
(مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد الأول – باب الرسل)
[1] اسے امام ابو داود نے اپنی سنن 1481 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح ابی داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[2]البخاري أحاديث الأنبياء (3261)۔
سوال: سوڈان سے ہمیں یہ خط آیا ہے جناب ابراہیم محمد عبداللہ قدس کہتے ہیں:
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی قصیدوں کے ذریعے کرنا جائز ہے؟ اگر یہ جائز نہيں تو پھر وہ کونسی مدح ہے جو رسول اللہ e کے لیے کرنا جائز ہے؟ یا پھر یہ مطلقا ًہی جائز نہيں؟ ہماری رہنمائی فرمائیں اللہ تعالی آپ کو ہر اس کام کی توفیق دے جس میں خیر وبرکت ہو۔
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح وتعریف کی جائے ان خصال حمید ، مناقب عظیمہ اور اخلاق کاملہ کے تعلق سے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھے، یہ تو ایک مشروع اور محمود (قابل تعریف) عمل ہے، کیونکہ اس میں ایک قسم کی دعوت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی طرف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ومحبت کی طرف، اور یہ تمام مذکورہ امور تو شرعی طور پر مقصود ہیں۔
البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح اس غلو کے ساتھ کرنا کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے تو پھر یہ کسی طور پر بھی جائز نہيں، جیسا کہ کہنے والے کے اس قول (قصیدہ بردہ) کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کرنا:
إن من جودك الدنيا وضرتها ومن علومك علم اللوح والقلم
(دنیا اورآخرت تیرے ہی جود و سخا کے مظہر میں سے ہے اور لوح و قلم کا علم بھی تیرے ہی علوم کا حصہ ہے)
کیونکہ بلاشبہ اس قسم کا غلو جائز نہيں، بلکہ یہ حرام ہے۔ اور اگر جائز صورت میں بھی ہو تو بھی کسی رات یا دن کو اس کے ساتھ یوں مخصوص نہ کیا جائے کہ جب کبھی بھی وہ رات یا دن آئے تو اس قسم کے قصیدے پڑھے جائیں اور مدح سرائی کی جائے۔ کیونکہ کسی چیز کا کسی وقت کے ساتھ مخصوص کرنا جس کو شریعت نے مخصوص نہيں کیا، اسی طرح سے کسی جگہ کو مخصوص کرنا جسے شریعت نہيں مخصوص نہيں کیا، وہ بدعت ہے کہ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
(فتاویٰ نور علی الدرب، کیسٹ – 53)
سوال: مدح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نعت خوانی) کو بطور تجارت و پیشہ اپنا لینا کیسا ہے؟
جواب: اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ اور یہ جاننا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:
1- ایسی بات کے ساتھ آپ کی مدح بیان کرنا جس کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستحق ہيں بنا غلو کی حد تک پہنچے، تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ یعنی اس میں کوئی مضائقہ نہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اخلاق و طریقے میں جن اوصاف حمیدہ و کاملہ کے اہل ہيں ان کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح بیان کی جائے۔
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی مدح کہ جس کے ذریعے مدح کرنے والا (نعت خواں) اس غلو کی طرف نکل جائے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود منع فرمایا ہے، فرمایا:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([2])
(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو)۔
لہذا جس کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح یوں کی کہ آپ فریاد کرنے والوں کے فریاد رس (غوث) ہیں، اور لاچار کی پکار سنتے قبول کرتے (مشکل کشائی کرتے) ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی دنیا وآخرت کے مالک (و مختار کل) ہيں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم الغیب ہیں یا اس جیسے دیگر مدح کے الفاظ بالکل حرام ہیں، بلکہ کبھی تو اس شرک اکبر تک پہنچتے ہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتے ہیں۔ چناچہ جائز نہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح غلو کی حد تک کی جائے، کیونکہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
اب ہم لوٹتے ہيں اس مسئلے کی طرف کہ جائز والی مدح کرنے والے مدح خواں کا اسے پیشہ بنا لینا جس کے ذریعے سے انسان کمائے، تو ہم مکرر کہتے ہيں کہ یہ حرام ہے جائز نہيں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان مکارم اخلاق، صفات حمیدہ اور صراط مستقیم پر ہونے کی مدح کرنا جس کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستحق ہيں اور اہل ہيں، اس مدح کے ذریعے انسان ایک عبادت کررہا ہوتا ہے جس کے ذریعے سے اسے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ پس جو چیز بھی عبادت ہو تو جائز نہیں کہ اسے دنیا کمانے کا ذریعے بنالیا جائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ ، اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ﴾(ھود: 15-16)
#SalafiUrduDawah
#شدت_ٹھنڈ میں کامل اور بہترین #وضوء کرنے سے گناہ جھڑتے ہیں
#shadeed_thand may kamil aur behtareen #wudu karne say gunha jhadte hain
[#SalafiUrduDawah Article] #Tafseer of #Surat_ul_Kawthar – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#تفسیر #سورۂ_کوثر
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تفسیر علامہ ابن عثیمین۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سورۃ کا خلاصہ
پس یہ سورۃ اس نعمت الہی کے بیان پر مشتمل ہے جو اس نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیر کثیر عطاء فرمائی۔ پھر حکم دیا گیا کہ نمازوں اور قربانیوں میں اللہ تعالی کے لیے اخلاص اپنایا جائے، اور ان کے علاوہ تمام عبادات میں اخلاص کو ہی بروئے کار لایا جائے۔ پھر یہ بیان فرمایا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی کسی چیز سے بغض رکھے تو پھر وہی ایساابتر، منقطع اور کٹا ہوا انسان ہے کہ جس میں کوئی خیر وبرکت نام کی چیز نہيں۔ اللہ تعالی ہی سے عافیت وسلامتی کا سوال ہے۔
سورۃ کی مکمل تفسیر پڑھنے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/tafseer_surah_kawthar.pdf

Tafseer of Surat-ul-Kawthar – Various 'Ulamaa
تفسیر #سورۃ_الکوثر
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التفسير المُيَسَّرُ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/tafseer_surat_ul_kawthar_almuyassar.pdf

[Urdu Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/108_kawthar.mp3

[Urdu Article] Believing in the pond or #cistern_of_Al_Kawthar and its features – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#حوضِ_کوثر پر ایمان لانا اور اس کی صفات – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’حوض پر ایمان لانا، اور یہ کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم قیامت حوض ہوگا جس پر ان کی امت حاضر ہوگی، اس کا عرض اس کے طول کے مساوی ہے جو ایک مہینے کی مسافت ہے، اس کے پیالے آسمان کے ستاروں کی تعداد کی طرح ہیں۔ اس بارے میں خبر ایک سے زیادہ طریقوں سے صحیح طور پر ثابت ہیں‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hoz_e_kawthar_par_emaan_us_ki_sifaat.pdf
#SalafiUrduDawah
#جمعہ کے دن باکثرت #درود_و_سلام بھیجنا
#juma k din bakasrat #durood_o_salaam bhejna
#SalafiUrduDawah
#شدید_ٹھنڈ میں گرم پانی نہ ملنے کی صورت میں اگر بیماری وہلاکت کا خطرہ ہو تو #تیمم کیا جاسکتا ہے
#shadeed_thand may garam pani na milnay ki sorat may agar beemari o halakat ka khatra ho to #tayammum kiya ja sakta hai
#SalafiUrduDawah
#شرکیہ_عقیدہ - نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #نور_من_نور_اللہ ہیں
#shirkiya_aqeedah - nabi kareem #noor_min_noorillaah hain
[#SalafiUrduDawah Article] #Prophet_Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his call towards #Tawheed – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
سیدنا #محمد_رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتِ #توحید
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے توحید کی دعوت اور شرک کا رد قرآن وسنت سے
عقیدہٴ توحید ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ پر مصائب
مدنی دور میں توحید کا اہتمام
1- توحید کے اس قدر اہتمام کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلموقتاً فوقتاً جب کبھی فرصت پاتے تو جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم سے توحید کی بیعت لیتے تھے دیگر لوگوں کی تو بات ہی کیا۔۔۔
2- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے داعیان، مبلغوں معلموں ،قاضیوں اور گورنروں کو مختلف ممالک کے بادشاہوں اور جابروں کے پاس توحید کی دعوت دے کر بھیجتے تھے۔
3- اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی فوج کو کلمۂ توحید کی سربلندی کی خاطر فی سبیل اللہ جہاد کے لیے تیار کرتے۔
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر، قاضی اور معلم بنا کر بھیجا اوراپنی وصیت میں یہی فرمایا کہ سب سے پہلے توحید اپنانے اور شرک کو چھوڑنے کی دعوت دینا۔
5- اللہ تعالیٰ نے توحید کو قائم کرنے اور زمین کو شرک کی نجاست سے پاک کرنے کے لئے ہی جہاد کو فرض کیا۔
زمین کی اوثان سے تطہیر اور قبروں کو برابر کرنے کا اہتمام
تفصیل کےلیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/muhammad_dawat_tawheed.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Brutally #killing_of_students and teachers in Pakistan is a great sin and transgression - Shaykh Abdul_Azeez_Aal_Shaykh
#Peshawar

پاکستان میں اساتذہ اور #طلبہ_کا_سفاکانہ_قتل عظیم جرم اور زیادتی ہے

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ

(مفتئ اعظم، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: ہفتہ وار پروگرام "ينابيع الفتوى" جو ریڈیو "نداء الإسلام" مكة المكرمة سے نشر ہوتا ہے

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/12/pakistan_talaba_asatizah_qatal_jurm_udwaan.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مفتئ اعظم مملکت سعودی عرب ، رئیس کبار علماء کمیٹی اور کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء کے رئیس سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ نے اس خونی حملے کی پرزور مذمت فرمائی ہے کہ جو 16 دسمبر 2014ع میں پاکستان کے شہر پشاور کے ایک اسکول پر کیا گیا([1]) کہ جس میں طلبہ سمیت 130 سے زائد لوگوں کو بے دریغ قتل کردیا گیا۔ آپ نے اس حملے کو فساد، ظلم اور زیادتی قرار دیا۔

ہفتہ وار پروگرام ’’ينابيع الفتوى‘‘ جو ریڈیو ’’نداء الإسلام‘‘ مكة المكرمة سے نشر ہوتا ہے جسے شیخ یزید الہریش تیار کرتے اور پیش کرتے ہیں میں سماحۃ المفتی نےفرمایا: ہم جو ان دنوں مسلم ممالک میں بےتحاشہ خون خرابہ سنتے ہیں نہایت المناک ہے اور یقیناً یہ ایک مسلم کا نیند وچین چھین لیتا ہے، کیونکہ یہ خطرناک فعل اور بہت بڑا جرم ہے۔

اور آپ نے فرمایا: جان کی حرمت، مال کی حرمت اور عزت کی حرمت شریعت میں ایک ٹھوس ثابت شدہ بات ہے۔ بلکہ تمام شریعتیں قتل ناحق کی حرمت بیان کرتی ہیں اور اس سے منع کرتی ہیں۔

اور آپ نے مزید تاکید کی کہ: جو کچھ ہمارے عزیز پڑوسی وطن پاکستان میں المناک واقعہ ورنما ہوا کہ جس میں 120 سے زائد لوگوں کو قتل وذبح کردیا گیا جن میں طلبہ، مردوخواتین اساتذہ سب شامل تھے یہ سب عظیم جرائم، فساد اور زیادتی ہے۔

سماحۃ المفتی نے مسلمانوں کو اللہ تعالی سے ڈرنے اور ایسے جرائم سے بچنے کی دعوت دی کہ جو شر ہی شر ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاس فرمان سے استشہاد فرماتے ہوئے کہ:

’’يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيمَ قَتَلَ، وَلَا الْمَقْتُولُ فِيمَ قُتِلَ‘‘([2])

(لوگوں پر ایسا دن بھی آئے گا کہ قاتل کو خبر نہ ہوگی کہ کیوں قتل کررہا ہے اور نہ مقتول کو خبر ہوگی کہ اسے آخر کیوں قتل کیا گیا)۔

سماحۃ المفتی نے شرپسند برے امور سے خبردار فرماتے ہوئے کہا کہ: آپ کو دشمنان اسلام کہیں ان مجرمانہ وسائل کے ذریعے دھوکے میں نہ ڈال دیں کہ جن کے ذریعے انہوں نے اسلامی ممالک اور اجسام کو اپنی تجربہ گاہ بنارکھا ہےاور خود اپنے ملکوں میں آرام سے بیٹھیں ہیں کہ ان پر یہ سب باتیں کوئی اثر انداز نہیں ہوتی۔

آپ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ خون ناحق اور بلاسبب بہانا ظلم، زیادتی اور جاہلی حماقت ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ:

’’لَنْ يَزَالَ الْمُؤْمِنُ فِي فُسْحَةٍ مِنْ دِينِهِ، مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا‘‘([3])

(کوئی بھی شخص اس وقت تک اپنے دین کے تعلق سے کشادگی میں رہتا ہے جب تک وہ حرام خون نہ بہائے)۔



[1] بلکہ ابھی کل یکم دسمبر ، 2017ع میں بھی دہشت گردوں نے ایک بار پھر اسی شہر پشاور میں اسی طرح تعلیمی ادارے کے نہتے وبے گناہ طلبہ کے ساتھ یہی مجرمانہ تاریخ دوہرائی ہے۔اللہ تعالی ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور ان تمام جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی ہمارے سیکیورٹی اداروں کو توفیق عطاء فرمائے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)



[2] صحیح مسلم 2909۔



[3] صحیح بخاری 6862۔