Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.17K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] The one who doesn’t accept #the_messenger (SalAllaho alayhi wasallam) as a human being – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو #بشر نہ سمجھے اس کا حکم؟ (#نبی_بشر_نہیں بلکہ #نور_من_نور_اللہ ہیں کا عقیدہ)
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ سے فتوی رقم 1801، مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء الخامس۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/jo_nabi_ko_bashar_na_manay.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اگر کوئی ایسا شخص فوت ہوجاتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر نہیں، اور وہ عالم الغیب ہیں اور یہ کہ زندہ وفوت شدگان اولیاء کا وسیلہ پکڑنا اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے۔ کیا ایسا شخص جہنم میں جائے گا اور مشرک متصور ہوگا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ اس عقیدے کے علاوہ اور کوئی عقیدہ جانتا ہی نہیں اور ایسے علاقے میں رہا کہ جہاں کہ تمام علماء وباشندے یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کا کیا حکم ہے؟ اور ایسے شخص کی وفات کے بعد اس کی طرف سے صدقہ کرنے یا احسان کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جو کوئی اس عقیدے پر فوت ہوتا ہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر نہیں تھے یعنی کہ وہ بنی آدم میں سے نہ تھے۔ یا یہ عقیدہ رکھے کہ وہ عالم الغیب ہیں۔ تو ایسا عقیدہ کفر ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے والا کفر اکبر کا مرتکب کافر ہے([1])۔ اسی طرح سے اگر وہ انہیں پکارتا ہے، ان سے فریاد کرتا ہے، ان کے یا کسی اور انبیاء وصالحین یا جن وفرشتے واصنام کے نام کی نذرونیاز کرتا ہےتو یہ سب اولین مشرکین کے اعمال ہیں جیسے ابوجہل اور اس جیسے دیگر مشرکین، اور یہ سب شرک اکبر ہے۔ اور بعض لوگ ان کو شرک بطور وسائل شرک کے قرار دیتے ہیں یعنی جو (براہ راست) شرک اکبر نہیں ہوتے۔
جیسے اس وسیلے کی ایک دوسری قسم ہے جو شرک نہیں بلکہ بدعت ہے اور شرک کے وسائل میں سے ہے اور وہ انبیاء وصالحین کی جاہ ومرتبت یا انبیاء وصالحین کے حق یا ان کی ذات کے حق کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعاء کرنا ہے۔ واجب ہےکہ ہم ان دونوں اقسام سے بچیں۔
جو پہلی قسم پر فوت ہو تو نہ اسے غسل دیا جائے، نہ اس کا جنازہ پڑھا جائے، اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ نہ ہی اس کے لیے دعاء کی جائے اور نہ ہی اس کی طرف سے صدقہ کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ﴾ (التوبۃ: 113)
(نبی کے لیے اور جو ایمان لائے ان کےلیے کبھی بھی یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعاء مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس بات کےظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ بے شک جہنمی ہیں)
جبکہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات اور اس کی توحید وایمان کا توسل اختیار کرنا جائز وشرعی توسل ہے اور دعائوں کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
(اور اللہ تعالی کے لیے اسماءِ حسنیٰ ہیں پس تم اسے انہی سے پکارو اور دعاء کرو)
اور جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا :
’’اللهم إني أسألك بأنك أنت الله لا إله إلا أنت الفرد الصمد، الذي لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد‘‘ (اے اللہ میں بے شک تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ بلاشبہ تو ہی اللہ ہے کہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اکیلا ہے، بے نیاز ہے، کہ جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ جنا گیا، اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے)
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لقد سأل الله باسمه الذي إذا سئل به أعطى، وإذا دعي به أجاب‘‘([2])
(یقیناً اس نے اللہ تعالی کے اس نام کے ساتھ سوال کیا ہے کہ جس کے ذریعہ اگر سوال کیا جائے تو وہ عطاء کرتا ہے، اور اگر دعاء کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے)۔
[#SalafiUrduDawah Article] Requesting #forgiveness from #the_prophet? – Various 'Ulamaa
کیا #نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے #بخشش_کی_دعاء طلب کی جائے؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: میراث الانبیاء ڈاٹ نیٹ

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/06/nabi_say_bakhshish_ki_dua_talab_karna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس آیت کے متعلق جو کچھ کہا گیا:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾ (النساء: 64)
(اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، آپ کے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے بخشش مانگتے تو وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بعض نے اللہ تعالی کے اس فرمان:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾ (النساء: 64)
کے متعلق کہا کہ اگر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی وفات کے بعد بھی طلب کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے استغفار کریں تو ہم اسی درجے میں ہوں گے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طلب کرتے تھے۔ حالانکہ اس طرح سے وہ صحابہ کرام اور بطور احسن ان کی اتباع کرنے والوں اور تمام مسلمانوں کے اجماع کے خلاف جاتے ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی طلب نہيں کیا کہ وہ ان کے لیے شفاعت کریں اور نہ ہی کبھی کوئی چیز ان سے طلب کی۔نہ ہی آئمہ مسلمین میں سے کسی نے اسے اپنی کتب میں بیان کیا‘‘([1])۔
اور علامہ ابو الطیب محمد صدیق خان بن حسن بن علی ابن لطف اللہ الحسینی البخاری القِنَّوجي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ آیت جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے پر دلالت کرتی ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے ساتھ خاص تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کا یہ مطلب نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر منور کے پاس اس غرض سے آیا جائے۔ اسی لیے اس بعید کے احتمال کی طرف اس امت کے سلف اور آئمہ میں سے کوئی بھی نہيں گیا نہ صحابہ نہ تابعین اور نہ جنہوں نے بطور احسن ان کی اتباع کی([2])۔
3- شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾
یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے جسے اس کا ماقبل ومابعد بھی ظاہر کرتاہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے ساتھ خاص تھا۔ یہ بات صحیح البخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے جب فرمایا کہ ہائے میرا سر! :
’’ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ‘‘([3])
(اگر تو میرے جیتے جی فوت ہوگئی تو میں تمہارے لیے بخشش طلب کروں گا اور دعاء کروں گا )۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات کے بعد بھی کسی کے لیے بخشش طلب کرتے تو پھر اس میں بات سے کوئی فرق نہيں پڑتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے پہلے فوت ہوں یا بعد میں۔اور بعض اہل بدعت تو اس سے بھی بڑھ کر گمان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک قبر سے نکالا اور ان کے کسی پیروکار سے مصافحہ فرمایا! اس بات کے بطلان کو یہی کافی ہےکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا جبکہ وہ اس امت کے سب سے افضل ترین لوگ تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
’’أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ‘‘([4])
(میں بروز قیامت تمام اولاد آدم کا سید وسردار ہوں، اور وہ سب سے پہلا شخص ہوں جس کی قبر شق ہوگی، اور سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں ، اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی)۔
اور یہ قبر کا پھٹنا مرکر جی اٹھنے کے وقت ہی ہوگا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ﴾ (المؤمنون: 16)
(پھر بےشک تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے)۔
(بطلان قصتي الأعرابي والعتبي عند قبر سيد المرسلين، عبد الرحمن العميسان ص 175-176)
اسی طرح شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
جہاں تک اللہ تعالی کے اس فرمان کا تعلق ہے :
[#SalafiUrduDawah Book] O #prophet!Truly, We will suffice you against the scoffers – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
اے #نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بےشک ہم آپ کو مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفطہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وعناوین: طارق علی بروہی
مصدر: درس بعنوان: ﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
موضوع کی اہمیت
گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مظاہر صرف آج کی بات نہيں
مشرکین کی طرف سے گستاخی
اہل کتاب کی طرف سے گستاخی
منافقین کی طرف سے گستاخی
شہوات وخواہشات پرست لوگوں کی طرف سے گستاخی
یہ سب مل کر بھی نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کچھ بھی نہيں بگاڑ سکتے
پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام محمود
اللہ تعالی نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہمیشہ کے لیے بلند فرمادیا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہی ذلیل ورسوا رہیں گے
گستاخوں اور مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں اللہ تعالی ہی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافی ہے
یہود و نصاریٰ کی تاریخ ہی اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے ساتھ گستاخیوں اور نافرمانیوں سے عبارت ہے
یہودیوں کی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو ایذاء رسانی
نصاریٰ کی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو ایذاء رسانی
اہل کتاب کی طرف سے گستاخیاں حیرت کی بات نہيں
امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی مطلوب ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کریں
نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے
مومنین کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایذاء رسانی سے خبردار کیاگیا ہے
ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضے
نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آغازاپنے نفس کے ساتھ کیا جائے
جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثال
یہود و نصاریٰ کے تقارب بین الادیان اور دوستی کے جھوٹے دعوؤں سے دھوکہ نہ کھائیں
سوالات
دفاع نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرعی ضوابط کے ساتھ منضبط کرنا
گستاخئ رسول کرنے والے ممالک کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا حکم؟
گمراہ داعیان اور جماعتوں کی طرف سے نصرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنسس کی حیثیت
گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسئلے کے تعلق سے تعلیمی اداروں کے طلبہ کی رہنمائی
نصرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بعض عبارتیں لکھنے اور لٹکانے کا حکم
نصرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں کارگر اسالیب
یہود و نصاریٰ پر عمومی ہلاکت کی بددعاء کرنے کا حکم
امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بلندی کی دعاء کرنے کا حکم
یورپ میں رہتے ہوئے گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آئے دن سننا
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافر کے قتل کا حکم
اسلامی چینلز کو نصیحت
کیا صرف خلوت منع ہے اختلاط نہیں؟!
اپنی اولاد کو خارجی افکار والوں کی صحبت سے بچانا
اہل بدعت کی تعزیت کا حکم
کافر کی غیبت کا حکم
کیا فوت شدگان اپنی زیارت کرنے والوں کو سن سکتے ہيں اور ان کی خبریں جانتے ہيں
اگر مسجد میں اس وقت داخل ہوں جبکہ امام آخری تشہد میں ہوتو کیا کیا جائے
اہل بدعت کا سلفیوں کو مختلف القاب دینا
حقیقی علماء اور نام نہاد علماء میں امتیاز
کفار کے شعار کنندہ ہوئی چیز کے استعمال کا حکم
کیا جہاد کے مسائل اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری علماء سے بہتر جانتے ہيں!
آکو پنچر علاج کا کیا حکم
خواتین کا نماز میں ہتھیلیاں اور قدم نہ ڈھانپنا
کیا چہرے کا پردہ اختلافی مسئلہ ہے
کئی برس مریض رہنے والا کیا روزے کی قضاء رکھے
سورج اور چاند گرہن کے تعلق سے غلط فہمی پھیلانا
مہینے کے اکثر ایام میں حیض کا جاری رہنا
زیتوں کے تیل کی زکوٰۃ
تجارتی انشورنس کا حکم
طلبہ کو ان کے حق سے زیادہ مارکس دینا
اللہ تعالی سے مخلوق کے حق کے واسطے سے سوال کرنا
سورۃ المدثر کی کی ایک آیت کی تفسیر
بارش کے نزول میں تاخیر کے اسباب

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/inna_kafainaka_almustahzieen.pdf

[Urdu Video] https://youtu.be/bRCEpaq6PVI

[Urdu Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/07/inna_kafainaka_almustahzieen.mp3
[Article] Did Allaah create the universe for the #prophet_Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ? - Various 'Ulamaa

کیا #نبی_محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کائنات بنی ہے؟

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah
#عقیدہ
#aqeedah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/kiya_nabi_k_liye_kainat_bani_hai.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: یہ بات بالکل جانی مانی اور زبان زد عام ہوچکی ہے گویا کہ یہ کوئی بدیہی حقیقت ہے کہ بلاشبہ یہ دینا ومافیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا کی گئی ہے، اگر آپ نہ ہوتے تو یہ یہ نہ پیدا ہوتی نہ اس کا کوئی وجود ہوتا۔ ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے اپنے اس سوال کا جواب دلیل کے ساتھ چاہتے ہيں، آیا واقعی ایسا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے، وجزاکم اللہ خیراً؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ :

یہ بعض عوام الناس کا قول ہے جو کچھ سمجھ بوجھ نہيں رکھتے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ: یہ دنیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بنائی گئی ہے، اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو یہ دنیا ہی نہ پیدا کی جاتی اور نہ ہی لوگوں کو پیدا کیا جاتا۔یہ بالکل باطل بات ہے جس کی کوئی اصل نہیں، یہ فاسد کلام ہے)[1](۔ اللہ تعالی نے یہ دنیا اس لیے پیدا کی کہ اللہ تعالی کی معرفت ہو اور اس سبحانہ وتعالی کے وجود کو جانا جائے، اور تاکہ اس کی عبادت کی جائے۔اس دنیا کو پیدا کیا اور مخلوقات کو تاکہ اسے اس کے اسماء وصفات، اور اس کے علم و فضل سے جانا جائے۔ اور تاکہ اس اکیلے کی بلاشرکت عبادت کی جائے اور اس سبحانہ وتعالی کی اطاعت کی جائے۔ نا محمد کے لیے، نہ ہی نوح ، نہ موسیٰ اور نہ عیسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام کے لیے اور نہ ہی ان کے علاوہ دیگر انبیاء کرام کے لیے۔بلکہ اللہ تعالی نے مخلوق کو اکیلے اس کی بلاشرکت عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ اللہ تعالی نے اس پوری دنیا اور تمام مخلوقات کو اپنی عبادت، تعظیم کے لیے اور ا س بات کے لیے کہ پیدا فرمایا کہ لوگ جان لیں کہ وہ بے شک ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور بلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یقیناً وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)

(میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہيں کیا مگر صرف اسی لیے کہ وہ میری عبادت کریں)

پس اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ بے شک اس نے انہیں اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اس کی عبادت کریں،ناکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منجملہ دیگر مخلوقات کی طرح اپنے رب کی عبادت کے لیے ہی پیدا فرمائے گئے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾(الحجر: 99)

(اور اپنے رب کی عبادت کرو، یہاں تک کہ تمہارے پاس یقین(موت) آجائے)

اور اللہ تعالی سورۃ الطلاق میں فرماتا ہے:

﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 12)

(اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند ۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ بےشک اللہ ہر چیز پر بھرپور قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ بےشک اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے)

اور اس سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا﴾ (ص: 27)

(اور ہم نے آسمان و زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کو بےکارپیدا نہیں کیا)

اللہ تعالی نے مخلوق کو اس لیے تخلیق فرمایا کہ وہ اس کی عبادت کریں، انہيں حق کے لیے اور برحق پیدا فرمایا تاکہ اس کی عبادت، اطاعت اور تعظیم ہو۔ اور تاکہ جان لیا جائے کہ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ کہ سب کام وہی کرتا ہے۔