#SalafiUrduDawah
#صحابہ کرام اور #اہل_بیت کے متعلق عقیدہ
#sahaba kiraam aur #ahl_e_bayt say mutaliq aqeedah
#صحابہ کرام اور #اہل_بیت کے متعلق عقیدہ
#sahaba kiraam aur #ahl_e_bayt say mutaliq aqeedah
[#SalafiUrduDawah Article] The noble status of #Ahl_ul_Bayt (Prophet's family) and their rights without exaggeration or understating – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#اہلِ_بیت کی فضیلت اور حق تلفی یا غلو کے بغیر ان کے ساتھ سلوک کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۃ التوحید وما یضادھا۔۔۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/ahlebayt_haq_ghulu_taqseer.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل بیت سے کون مراد ہیں اور ان کے حقوق
اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ آل و اولاد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، ان میں سیدناعلی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدناعقیل کی اولاد، سیدناعباس کی اولاد، بنو حارث بن عبدالمطلب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ (الاحزاب: 33)
(اے(پیغمبر کے) اہلِ بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید میں جو تدبر کرے گا اس کو کبھی بھی اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات بھی مذکورہ آیتِ کریمہ کے ضمن میں داخل ہیں ۔ اس لئے کہ سیاق کلام انہی کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے فوراً بعد فرمایا:
﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ (الاحزاب:34)
(اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں یعنی حدیث) ان کو یاد رکھو)
آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و سنت میں سے جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر نازل فرماتا ہے اس پر عمل کرو، سیدنا قتادہ رحمہ اللہ اور دوسرے علماء نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اس نعمت کو یاد کرو جو اور لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے خاص کی گئی ہے۔ یعنی وحی تمہارے گھروں میں نازل ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو اس نعمت سے مالا مال تھیں اور اس عمومی رحمت میں آپ کو خاص مقام عطاء ہوا تھاکیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑ کر کسی کے بستر پر وحی نازل نہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا بعض علماء کا کہنا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ خصوصیت اس لئے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سوا کسی بھی کنواری سے شادی نہیں کی، اور آپ کے سوا ان کے بستر پر کبھی کوئی دوسرا مرد نہیں سویا۔(یعنی دوسرے سے شادی ہی نہیں کی)۔
لہٰذا مناسب تھا کہ اس خصوصیت ورتبۂ عالیہ سے آپ نوازی جاتیں اور جب آپ کی ازواج ِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں تو آپ کے اقارب و اعزا ء بدرجۂ اولیٰ اس میں داخل ہیں اور وہ اس نام کے زیادہ مستحق ہیں‘‘([1])۔
لہٰذا اہل سنت و الجماعت اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں ، اور ان کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت کو اپنے سامنے رکھتے ہیں جسے آپ نے غدیر خم (ایک جگہ کا نام ہے) کے موقع پر فرمایا تھا:
’’أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي‘‘([2])
(میرے اہل بیت کے (حقوق کا خیال رکھنے کے) سلسلے میں ،تمہیں میں اللہ تعالی (کے تقویٰ) کو یاد رکھنے کی وصیت کرتا ہوں)۔
اہل سنت و الجماعت ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی علامت ہے۔ اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ سنت کی اتباع پر قائم ہوں، جیسے کہ ان کے سلف صالح سیدنا عباس اور ان کی اولاد، سیدنا علی اور ان کی آل اولاد رضی اللہ عنہم کا حال تھا، اور ان میں سے جو سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہوں اور دین پر قائم نہ ہوں، پھر ان سے عقیدت و دوستی جائز نہ ہوگی، چاہے اہل بیت (سید) میں سے ہوں۔
اہل بیت کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا مؤقف بہت ہی اعتدال و انصاف پر مبنی ہے اہل بیت میں سے جو دین و ایمان پر قائم ہیں ان سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو سنت کے مخالف اور دین سے منحرف ہوں ان سے دور رہتے ہیں، چاہے وہ نسبی طور پر اہل بیت میں داخل کیوں نہ ہوں۔ اس لئے کہ اہل بیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی ہونے سے کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم نہ ہوں۔ سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ (الشعراء:214)
(اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دیں)
#اہلِ_بیت کی فضیلت اور حق تلفی یا غلو کے بغیر ان کے ساتھ سلوک کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۃ التوحید وما یضادھا۔۔۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/ahlebayt_haq_ghulu_taqseer.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل بیت سے کون مراد ہیں اور ان کے حقوق
اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ آل و اولاد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، ان میں سیدناعلی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدناعقیل کی اولاد، سیدناعباس کی اولاد، بنو حارث بن عبدالمطلب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ (الاحزاب: 33)
(اے(پیغمبر کے) اہلِ بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید میں جو تدبر کرے گا اس کو کبھی بھی اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات بھی مذکورہ آیتِ کریمہ کے ضمن میں داخل ہیں ۔ اس لئے کہ سیاق کلام انہی کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے فوراً بعد فرمایا:
﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ (الاحزاب:34)
(اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں یعنی حدیث) ان کو یاد رکھو)
آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و سنت میں سے جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر نازل فرماتا ہے اس پر عمل کرو، سیدنا قتادہ رحمہ اللہ اور دوسرے علماء نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اس نعمت کو یاد کرو جو اور لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے خاص کی گئی ہے۔ یعنی وحی تمہارے گھروں میں نازل ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو اس نعمت سے مالا مال تھیں اور اس عمومی رحمت میں آپ کو خاص مقام عطاء ہوا تھاکیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑ کر کسی کے بستر پر وحی نازل نہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا بعض علماء کا کہنا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ خصوصیت اس لئے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سوا کسی بھی کنواری سے شادی نہیں کی، اور آپ کے سوا ان کے بستر پر کبھی کوئی دوسرا مرد نہیں سویا۔(یعنی دوسرے سے شادی ہی نہیں کی)۔
لہٰذا مناسب تھا کہ اس خصوصیت ورتبۂ عالیہ سے آپ نوازی جاتیں اور جب آپ کی ازواج ِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں تو آپ کے اقارب و اعزا ء بدرجۂ اولیٰ اس میں داخل ہیں اور وہ اس نام کے زیادہ مستحق ہیں‘‘([1])۔
لہٰذا اہل سنت و الجماعت اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں ، اور ان کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت کو اپنے سامنے رکھتے ہیں جسے آپ نے غدیر خم (ایک جگہ کا نام ہے) کے موقع پر فرمایا تھا:
’’أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي‘‘([2])
(میرے اہل بیت کے (حقوق کا خیال رکھنے کے) سلسلے میں ،تمہیں میں اللہ تعالی (کے تقویٰ) کو یاد رکھنے کی وصیت کرتا ہوں)۔
اہل سنت و الجماعت ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی علامت ہے۔ اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ سنت کی اتباع پر قائم ہوں، جیسے کہ ان کے سلف صالح سیدنا عباس اور ان کی اولاد، سیدنا علی اور ان کی آل اولاد رضی اللہ عنہم کا حال تھا، اور ان میں سے جو سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہوں اور دین پر قائم نہ ہوں، پھر ان سے عقیدت و دوستی جائز نہ ہوگی، چاہے اہل بیت (سید) میں سے ہوں۔
اہل بیت کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا مؤقف بہت ہی اعتدال و انصاف پر مبنی ہے اہل بیت میں سے جو دین و ایمان پر قائم ہیں ان سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو سنت کے مخالف اور دین سے منحرف ہوں ان سے دور رہتے ہیں، چاہے وہ نسبی طور پر اہل بیت میں داخل کیوں نہ ہوں۔ اس لئے کہ اہل بیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی ہونے سے کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم نہ ہوں۔ سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ (الشعراء:214)
(اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دیں)