[#SalafiUrduDawah Article] Taking #accountability_of_oneself in these #fast_passing_days – Shaykh #Abdul_Azeez_Aal_Shaykh
ان #تیزی_سے_گزرتے_دنوں میں اپنے #نفس_کا_محاسبہ کرنا
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كلمة توجيهية عن سرعة الأيام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/teezi_guzarte_ayyam_nafs_muhasibah.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: امید کرتے ہيں کہ آپ حفظہ اللہ اس پروگرام کے آغاز میں ان تیزی سے گزرتے دنوں کے بارے میں ذکر کریں گے جبکہ ہم ابھی گزرے سال کو الوداع کہہ رہے ہيں اور نئے سال کا استقبال کررہے ہیں، اور اس میں کیا حکمت ہے ،ساتھ ہی ایک شخص کس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرسکتا ہے؟
جواب: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكَ عَلَى عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ وأصَحْابِهِ أَجْمَعِينَ، وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ.
اللہ عزوجل نے ہمیں پیدا فرمایا، رزق دیا اور اپنی کتاب عزیز میں یہ خبر دی کہ وہ عنقریب تمام مخلوقات کو ایک ایسے دن میں جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہيں:
﴿رَبَّنَآ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ﴾ (آل عمران: 9)
(اے ہمارے رب ! بےشک تو سب لوگوں کو اس دن کے لیے جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہیں، بےشک اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا)
اور فرمایا:
﴿يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا﴾ (النحل: 111)
(جس دن ہر شخص اس حال میں آئے گا کہ بس اپنی طرف سے جھگڑ رہا ہوگا)
اور اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی کہ بلاشبہ یہ دنیا ختم ہونے والی ہے اور یہ حیات بھی ختم ہوجائے گی، فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ، كُلُّ نَفْسٍ ذَاىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (الانبیاء: 34-35)
(اور ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر آپ مرجائیں تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟! ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے)
اور فرمایا:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ﴾ (الرحمن: 26-27)
(ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے، فنا ہونے والا ہے، اور تیرے رب کا چہرہ (اور ذات) ہی باقی رہے گی، جو بڑی شان اور عزت والا ہے)
پس دنیا گزرنے کی جاہ ہے ناکہ ہمیشہ رہنے کی،دارِ عمل ہے دارِ جزاء نہیں، جبکہ آخرت ہمیشہ رہنے کی جاہ اور دارِ جزاء ہے۔ ایک شخص کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی سے ملاقات کے لیے تیار رہے۔ آل فرعون میں سے جو شخص ایمان لایا تھا اس نے اپنی قوم سے کہا:
﴿يٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ ۡ وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ هِىَ دَارُ الْقَرَارِ، مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فأولئك يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (غافر: 39-40)
(اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگانی تو متاعِ فانی ہےاور یقینا ًآخرت: وہی رہنے کا گھر ہے، جس نے کوئی برائی کی تو اسے ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا اور جس نے کوئی نیک عمل کیا، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اس میں بےحساب رزق دیے جائیں گے)
پس اے بھائی! دن تو گزرتے جارہے ہیں ، اور ہر انسان کو وہ مل رہا ہے جو اس کے لیے مقدر کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ‘‘([1])
(بے شک تم میں سے ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک (نطفے کی صورت میں) تیار ہوتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ’’عَلَقَةً‘‘ یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے ’’مُضْغَةً‘‘ (گوشت کے لوتھڑا) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدتِ زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے)۔
یہ تمام باتیں واضح طور پر اللہ تعالی کی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جو اس کے علم کے ساتھ خاص ہیں:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السّ
ان #تیزی_سے_گزرتے_دنوں میں اپنے #نفس_کا_محاسبہ کرنا
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كلمة توجيهية عن سرعة الأيام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/teezi_guzarte_ayyam_nafs_muhasibah.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: امید کرتے ہيں کہ آپ حفظہ اللہ اس پروگرام کے آغاز میں ان تیزی سے گزرتے دنوں کے بارے میں ذکر کریں گے جبکہ ہم ابھی گزرے سال کو الوداع کہہ رہے ہيں اور نئے سال کا استقبال کررہے ہیں، اور اس میں کیا حکمت ہے ،ساتھ ہی ایک شخص کس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرسکتا ہے؟
جواب: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكَ عَلَى عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ وأصَحْابِهِ أَجْمَعِينَ، وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ.
اللہ عزوجل نے ہمیں پیدا فرمایا، رزق دیا اور اپنی کتاب عزیز میں یہ خبر دی کہ وہ عنقریب تمام مخلوقات کو ایک ایسے دن میں جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہيں:
﴿رَبَّنَآ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ﴾ (آل عمران: 9)
(اے ہمارے رب ! بےشک تو سب لوگوں کو اس دن کے لیے جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہیں، بےشک اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا)
اور فرمایا:
﴿يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا﴾ (النحل: 111)
(جس دن ہر شخص اس حال میں آئے گا کہ بس اپنی طرف سے جھگڑ رہا ہوگا)
اور اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی کہ بلاشبہ یہ دنیا ختم ہونے والی ہے اور یہ حیات بھی ختم ہوجائے گی، فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ، كُلُّ نَفْسٍ ذَاىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (الانبیاء: 34-35)
(اور ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر آپ مرجائیں تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟! ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے)
اور فرمایا:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ﴾ (الرحمن: 26-27)
(ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے، فنا ہونے والا ہے، اور تیرے رب کا چہرہ (اور ذات) ہی باقی رہے گی، جو بڑی شان اور عزت والا ہے)
پس دنیا گزرنے کی جاہ ہے ناکہ ہمیشہ رہنے کی،دارِ عمل ہے دارِ جزاء نہیں، جبکہ آخرت ہمیشہ رہنے کی جاہ اور دارِ جزاء ہے۔ ایک شخص کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی سے ملاقات کے لیے تیار رہے۔ آل فرعون میں سے جو شخص ایمان لایا تھا اس نے اپنی قوم سے کہا:
﴿يٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ ۡ وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ هِىَ دَارُ الْقَرَارِ، مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فأولئك يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (غافر: 39-40)
(اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگانی تو متاعِ فانی ہےاور یقینا ًآخرت: وہی رہنے کا گھر ہے، جس نے کوئی برائی کی تو اسے ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا اور جس نے کوئی نیک عمل کیا، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اس میں بےحساب رزق دیے جائیں گے)
پس اے بھائی! دن تو گزرتے جارہے ہیں ، اور ہر انسان کو وہ مل رہا ہے جو اس کے لیے مقدر کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ‘‘([1])
(بے شک تم میں سے ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک (نطفے کی صورت میں) تیار ہوتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ’’عَلَقَةً‘‘ یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے ’’مُضْغَةً‘‘ (گوشت کے لوتھڑا) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدتِ زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے)۔
یہ تمام باتیں واضح طور پر اللہ تعالی کی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جو اس کے علم کے ساتھ خاص ہیں:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السّ
[#SalafiUrduDawah Article] How to attain the pure #Tawheed? - Shaykh #Abdul_Azeez_Aal_Shaykh
#توحید ِخالص کو کس طرح پایا جاسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كيفية تحقيق التوحيد الخالص۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/tawheedekhaalis_ka_husool.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:ایک مسلمان کس طرح سے توحید خالص کو پاسکتا ہے جو کہ قبروں کی عبادت اور قبروں (مزاروں) کی زیارت وغیرہ سے پاک ہو ؟
جواب: علماء کرام فرماتے ہیں : توحید کو شرک کے تمام شائبوں ، بدعات ومعاصی سے پاک کرکے ہی کماحقہ پایا جاسکتا ہے، کیونکہ بلاشبہ شرک اس کے سراسر منافی ہے، اور بدعات اس میں قدح کا سبب ہیں، اور معاصی اس کے ثواب میں کمی کا باعث ہيں۔ پس توحید کو اس طور پر پایا جاسکتا ہے کہ ہم اکیلے اللہ کی بلاشرکت عبادت کریں، اس کی عبادت میں کسی غیر کو شریک نہ کریں، نہ ذبح میں، نہ نذر ومنت میں، نہ دعاء میں، نہ رجاء وامید میں، نہ خوف میں، نہ رہبت وڈر میں، نہ رغبت میں، پس ہماری دعاء اکیلے اللہ کے لیے ہو، ہماری نذر ومنت اکیلے اللہ کے لیے ہو، فرمان باری تعالی ہے:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانعام: 162)
(کہو کہ بے شک میری نماز اورمیری قربانی اور میرا جینا اورمیرا مرنا ، اللہ رب العالمین کےلیے ہے)
اور فرمایا:
﴿وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ (الجن: 18)
(اور بے شک مساجد تو اللہ تعالی ہی کے لیے ہيں، پس تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو)
اور فرمایا:
﴿وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا ھُوَ ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِهٖ ۭ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭ وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ﴾ (یونس: 107)
(اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے اور وہی بےحد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے)
پس توحید کا حق ادا کرنے والا اپنے دل کو صرف اپنے رب سے جوڑتا ہے، محبت، خوف وامید کے ساتھ، اور توحیدکا حق ادا کرنے والا جانتا ہے مشکل کشائی اور بھلائی کا حصول صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اور غیراللہ سے دعاء کرنا اسے پکارنا اس پکارنے والے کو کوئی نفع نہیں دیتا نہ فائدہ پہنچاتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ﴾ (الاحقاف: 5)
(اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعاء قبول نہیں کرسکتے، اور وہ تو ان کے پکارنے سے ہی بےخبر ہیں)
پس توحید کا حق ادا کرنے والا انبیاء واولیاء سے نہیں مانگتا انہيں پکار کر یا مدد طلب کرکے، یا ان سے فریاد کرکے یا ان سے مشکل کشائی اور قرض کی ادائیگی کروادینے کی امید رکھ کر۔ بلکہ وہ تو صرف اور صرف اپنے رب، تمام کائنات کے مالک وبادشاہ، جو ہمیشہ زندہ ہے جسے موت نہيں کو پکارتا ہے، کیونکہ وہ علم رکھتا ہے کہ ان فوت شدگان کے جسم سے ان کی روحیں جدا ہوچکی ہیں، پس یہ مردہ ہیں زندہ نہيں، جو ان کو پکارتا ہے وہ اس کی پکار کو نہيں سنتے اور اگر سن بھی لیں تو قبول نہيں کرسکتے[1]، وہ اس میں سے کسی چیز کی قدرت نہيں رکھتے، بلکہ وہ تو صرف مردے ہيں، پس ان سے دعاء کرنا اور التجاء کرنا پرلے درجے کی جہالت وبیوقوفی ہے، اور ہم اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال کرتے ہیں)[2](۔
[1] جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ڮ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ، اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ۭ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ﴾ (فاطر: 13-14)
#توحید ِخالص کو کس طرح پایا جاسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كيفية تحقيق التوحيد الخالص۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/tawheedekhaalis_ka_husool.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:ایک مسلمان کس طرح سے توحید خالص کو پاسکتا ہے جو کہ قبروں کی عبادت اور قبروں (مزاروں) کی زیارت وغیرہ سے پاک ہو ؟
جواب: علماء کرام فرماتے ہیں : توحید کو شرک کے تمام شائبوں ، بدعات ومعاصی سے پاک کرکے ہی کماحقہ پایا جاسکتا ہے، کیونکہ بلاشبہ شرک اس کے سراسر منافی ہے، اور بدعات اس میں قدح کا سبب ہیں، اور معاصی اس کے ثواب میں کمی کا باعث ہيں۔ پس توحید کو اس طور پر پایا جاسکتا ہے کہ ہم اکیلے اللہ کی بلاشرکت عبادت کریں، اس کی عبادت میں کسی غیر کو شریک نہ کریں، نہ ذبح میں، نہ نذر ومنت میں، نہ دعاء میں، نہ رجاء وامید میں، نہ خوف میں، نہ رہبت وڈر میں، نہ رغبت میں، پس ہماری دعاء اکیلے اللہ کے لیے ہو، ہماری نذر ومنت اکیلے اللہ کے لیے ہو، فرمان باری تعالی ہے:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانعام: 162)
(کہو کہ بے شک میری نماز اورمیری قربانی اور میرا جینا اورمیرا مرنا ، اللہ رب العالمین کےلیے ہے)
اور فرمایا:
﴿وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ (الجن: 18)
(اور بے شک مساجد تو اللہ تعالی ہی کے لیے ہيں، پس تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو)
اور فرمایا:
﴿وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا ھُوَ ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِهٖ ۭ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭ وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ﴾ (یونس: 107)
(اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے اور وہی بےحد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے)
پس توحید کا حق ادا کرنے والا اپنے دل کو صرف اپنے رب سے جوڑتا ہے، محبت، خوف وامید کے ساتھ، اور توحیدکا حق ادا کرنے والا جانتا ہے مشکل کشائی اور بھلائی کا حصول صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اور غیراللہ سے دعاء کرنا اسے پکارنا اس پکارنے والے کو کوئی نفع نہیں دیتا نہ فائدہ پہنچاتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ﴾ (الاحقاف: 5)
(اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعاء قبول نہیں کرسکتے، اور وہ تو ان کے پکارنے سے ہی بےخبر ہیں)
پس توحید کا حق ادا کرنے والا انبیاء واولیاء سے نہیں مانگتا انہيں پکار کر یا مدد طلب کرکے، یا ان سے فریاد کرکے یا ان سے مشکل کشائی اور قرض کی ادائیگی کروادینے کی امید رکھ کر۔ بلکہ وہ تو صرف اور صرف اپنے رب، تمام کائنات کے مالک وبادشاہ، جو ہمیشہ زندہ ہے جسے موت نہيں کو پکارتا ہے، کیونکہ وہ علم رکھتا ہے کہ ان فوت شدگان کے جسم سے ان کی روحیں جدا ہوچکی ہیں، پس یہ مردہ ہیں زندہ نہيں، جو ان کو پکارتا ہے وہ اس کی پکار کو نہيں سنتے اور اگر سن بھی لیں تو قبول نہيں کرسکتے[1]، وہ اس میں سے کسی چیز کی قدرت نہيں رکھتے، بلکہ وہ تو صرف مردے ہيں، پس ان سے دعاء کرنا اور التجاء کرنا پرلے درجے کی جہالت وبیوقوفی ہے، اور ہم اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال کرتے ہیں)[2](۔
[1] جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ڮ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ، اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ۭ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ﴾ (فاطر: 13-14)
[#SalafiUrduDawah Article] #Burning_a_Living_being is Unlawful and #ISIS has no Religion – Shaykh #Abdul_Azeez_Aal-Shaykh
#آگ_سے_جاندار_کو_جلانا حرام ہے اور #داعش کا کوئی دین نہیں
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: جريدة الشرق الأوسط الأربعاء – 14 شهر ربيع الثاني 1436 هـ – 04 فبراير 2015 مـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/aag_jalana_haram_isis_ladeen.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ (مفتی اعظم، سعودی عرب) نے اخبار ’’الشرق الأوسط‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
جس گروہ نے اردنی پائلٹ معاذ الکساسبہ کو زندہ جلادیا ان کا نہ کوئی دین ہے، نہ ہی اخلاق ہے۔ ساتھ ہی مفتی حفظہ اللہ نے تاکیدا ً فرمایا کہ زندہ شخص کو جلا ڈالنا یہاں تک کہ وہ مر جائے حرام ہے۔
شیخ آل شیخ حفظہ اللہ نے ٹیلیفونک رابطے پر مزید فرمایا کہ یہ تنظیم داعش دراصل خوارج ہیں جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں، جبکہ ان کا یہ دعوی باطل ہے۔ اور یہ (دولت اسلامیہ نہیں بلکہ) دولت ِکفروظلم کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ اسلام کے کھلے دشمن ہیں۔
اور مفتی اعظم سعودی عرب نے اس جانب بھی اشارہ فرمایا کہ اردنی پائلٹ قیدی معاذ الکساسبہ کو زندہ آگ میں جلادینے کا عمل حرام تھا کیونکہ آگ سے جلانے کا حق صرف اس کے رب (یعنی اللہ تعالی) کو ہے([1])۔
ساتھ ہی شیخ آل الشیخ حفظہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ کسی انسان کو جیتے جی آگ میں جلا کر قتل کرنے کا جرم نہایت المناک اور اندوہناک ہے۔ اور اس گروہ کا نہ کوئی دین ہے نہ اخلاق، وہ محض ایک فسادی اور مجرم گروہ ہے۔
[1] سیدنا حمزة بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَّرَهُ عَلَى سَرِيَّةٍ قَالَ: فَخَرَجْتُ فِيهَا، وَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَأَحْرِقُوهُ بِالنَّارِ، فَوَلَّيْتُ فَنَادَانِي فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَاقْتُلُوهُ وَلَا تُحْرِقُوهُ، فَإِنَّهُ لَا يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ‘‘ (صحیح ابی داود 2673) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریہ پر امیر مقرر فرمایا۔ تو میں جب اس کے لیے نکلنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو اسے آگ سے جلادینا۔ پس میں مڑ کر جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوبارہ سے پکارا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو بس قتل ہی کردینا کیونکہ بے شک آگ کے ساتھ عذاب نہیں دیتا مگر صرف آگ کا رب (یعنی اللہ تعالی))۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#آگ_سے_جاندار_کو_جلانا حرام ہے اور #داعش کا کوئی دین نہیں
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: جريدة الشرق الأوسط الأربعاء – 14 شهر ربيع الثاني 1436 هـ – 04 فبراير 2015 مـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/aag_jalana_haram_isis_ladeen.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ (مفتی اعظم، سعودی عرب) نے اخبار ’’الشرق الأوسط‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
جس گروہ نے اردنی پائلٹ معاذ الکساسبہ کو زندہ جلادیا ان کا نہ کوئی دین ہے، نہ ہی اخلاق ہے۔ ساتھ ہی مفتی حفظہ اللہ نے تاکیدا ً فرمایا کہ زندہ شخص کو جلا ڈالنا یہاں تک کہ وہ مر جائے حرام ہے۔
شیخ آل شیخ حفظہ اللہ نے ٹیلیفونک رابطے پر مزید فرمایا کہ یہ تنظیم داعش دراصل خوارج ہیں جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں، جبکہ ان کا یہ دعوی باطل ہے۔ اور یہ (دولت اسلامیہ نہیں بلکہ) دولت ِکفروظلم کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ اسلام کے کھلے دشمن ہیں۔
اور مفتی اعظم سعودی عرب نے اس جانب بھی اشارہ فرمایا کہ اردنی پائلٹ قیدی معاذ الکساسبہ کو زندہ آگ میں جلادینے کا عمل حرام تھا کیونکہ آگ سے جلانے کا حق صرف اس کے رب (یعنی اللہ تعالی) کو ہے([1])۔
ساتھ ہی شیخ آل الشیخ حفظہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ کسی انسان کو جیتے جی آگ میں جلا کر قتل کرنے کا جرم نہایت المناک اور اندوہناک ہے۔ اور اس گروہ کا نہ کوئی دین ہے نہ اخلاق، وہ محض ایک فسادی اور مجرم گروہ ہے۔
[1] سیدنا حمزة بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَّرَهُ عَلَى سَرِيَّةٍ قَالَ: فَخَرَجْتُ فِيهَا، وَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَأَحْرِقُوهُ بِالنَّارِ، فَوَلَّيْتُ فَنَادَانِي فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَاقْتُلُوهُ وَلَا تُحْرِقُوهُ، فَإِنَّهُ لَا يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ‘‘ (صحیح ابی داود 2673) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریہ پر امیر مقرر فرمایا۔ تو میں جب اس کے لیے نکلنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو اسے آگ سے جلادینا۔ پس میں مڑ کر جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوبارہ سے پکارا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو بس قتل ہی کردینا کیونکہ بے شک آگ کے ساتھ عذاب نہیں دیتا مگر صرف آگ کا رب (یعنی اللہ تعالی))۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)