[#SalafiUrduDawah Book] Brief Seerah of #Khulafa_Rashideen (the #rightly_guided_caliphs) - Various #Ulamaa
مختصر سیرت #خلفائے_راشدین
مختلف #علماء کرام کے کلام سے
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مختصر سیرت خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
مختصر سیرت امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
سیرت ِخلفائے راشدین سیدنا عثمان وعلی رضی اللہ عنہما
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/mukhtasar_seerat_khulafa_rashideen.pdf
مختصر سیرت #خلفائے_راشدین
مختلف #علماء کرام کے کلام سے
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مختصر سیرت خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
مختصر سیرت امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
سیرت ِخلفائے راشدین سیدنا عثمان وعلی رضی اللہ عنہما
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/mukhtasar_seerat_khulafa_rashideen.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] The excellence and virtues of Ameer #Muawiyyah bin abi Sufyaan (radiAllaaho anhuma) and his defence – Various #Ulamaa
سیدنا امیر #معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے فضائل اور آپ کا دفاع – مختلف #علماء کرام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ‘‘([1])
(اے اللہ انہيں ہادی (ہدایت کرنے والا)، مہدی (ہدایت یافتہ) بنا اور اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) ہدایت دے)۔
[1] صحیح ترمذی 3842۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/ameer_muawiyyah_fazail_difa.pdf
سیدنا امیر #معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے فضائل اور آپ کا دفاع – مختلف #علماء کرام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ‘‘([1])
(اے اللہ انہيں ہادی (ہدایت کرنے والا)، مہدی (ہدایت یافتہ) بنا اور اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) ہدایت دے)۔
[1] صحیح ترمذی 3842۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/ameer_muawiyyah_fazail_difa.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Preceding and opposing the #scholars in #Ummah_affairs – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
#درپیش_امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
#درپیش_امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
[#SalafiUrduDawah Book] #Aqeedah and #Manhaj necessitates each other - Various #Ulamaa
#عقیدہ اور #منہج لازم ملزوم ہیں
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
﷽
فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب وشیخ ابن باز، شیخ محمد ناصر الدین الالبانی، شیخ محمد بن صالح العثیمین ، شیخ محمد امان الجامی ، شیخ مقبل بن ہادی الوادعی ، شیخ زید بن محمد المدخلی رحمہم اللہ اور شیخ ربیع بن ہادی المدخلی ، شیخ صالح بن فوزان الفوزان ، شیخ عبید بن عبداللہ الجابری ،شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ و شیخ محمد علی فرکوس حفظہم اللہ کے کلام سے ماخوذ۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_manhaj_lazim_malzoom_hain.pdf
#عقیدہ اور #منہج لازم ملزوم ہیں
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
﷽
فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب وشیخ ابن باز، شیخ محمد ناصر الدین الالبانی، شیخ محمد بن صالح العثیمین ، شیخ محمد امان الجامی ، شیخ مقبل بن ہادی الوادعی ، شیخ زید بن محمد المدخلی رحمہم اللہ اور شیخ ربیع بن ہادی المدخلی ، شیخ صالح بن فوزان الفوزان ، شیخ عبید بن عبداللہ الجابری ،شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ و شیخ محمد علی فرکوس حفظہم اللہ کے کلام سے ماخوذ۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_manhaj_lazim_malzoom_hain.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Resemblance between #Shias, Jews and Christians – Various #Ulamaa
#شیعہ اور یہودونصاریٰ میں مشابہت
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: پمفلٹ أوجه الشبه بين اليهود والشيعة، تقریر بعنوان "کتاب وسنت کو تھامنا ہی راہ نجات ہے" از شیخ احمد بن یحیی النجمی کے آخر میں کیے گئے سوالات سے ماخوذ، سوال23۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اور یہود ونصاری کو دو خصلتوں کی وجہ سے رافضہ پر فضیلت حاصل ہےیہود سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: سیدنا موسی علیہ السلام کے صحابہ۔ نصاری سے پوچھا گیا: تمہارے ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: حواریانِ سیدنا عیسی علیہ السلام ۔ اور جب رافضہ سے پوچھا کہا تمہاری ملت کے سب سے بدترین لوگ کون ہیں؟ تو کہا: اصحاب محمد رضی اللہ عنہم!۔ (منہاج السنۃ النبویۃ 1/24).
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/shia_yahood_nasara_me_mushabihat.pdf
#شیعہ اور یہودونصاریٰ میں مشابہت
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: پمفلٹ أوجه الشبه بين اليهود والشيعة، تقریر بعنوان "کتاب وسنت کو تھامنا ہی راہ نجات ہے" از شیخ احمد بن یحیی النجمی کے آخر میں کیے گئے سوالات سے ماخوذ، سوال23۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اور یہود ونصاری کو دو خصلتوں کی وجہ سے رافضہ پر فضیلت حاصل ہےیہود سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: سیدنا موسی علیہ السلام کے صحابہ۔ نصاری سے پوچھا گیا: تمہارے ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: حواریانِ سیدنا عیسی علیہ السلام ۔ اور جب رافضہ سے پوچھا کہا تمہاری ملت کے سب سے بدترین لوگ کون ہیں؟ تو کہا: اصحاب محمد رضی اللہ عنہم!۔ (منہاج السنۃ النبویۃ 1/24).
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/shia_yahood_nasara_me_mushabihat.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding today's #Shia? Various #Ulamaa
موجودہ #روافض (#شیعوں) کا حکم؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیعہ کا عقیدہ کیا ہے؟
شیعہ فرقے کے عقائد کی وضاحت اور انہیں دعوت دینا
کیا ہر شیعہ کافر ہے؟
شیعہ فرقوں کی تفصیل
شیعہ اثنا عشریہ رافضہ کا حکم
کیا تمام موجودہ شیعہ کفار ہیں؟
جو یہ کہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبوت کے مرتبے پر ہیں اور سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے غلطی کی
کیا شیعہ فرقے کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
کیا شیعہ عوام اور علماء کے حکم میں فرق ہے؟
کیاشیعہ ہمارے بھائی ہیں؟
رافضہ کے کفر میں شک کرنا
کیا شیعہ فرقے کا بانی عبداللہ بن سباء یہودی تھا؟
شیعہ کے پیچھے نماز کا حکم
شیعہ سے دنیاوی معاملات کا حکم؟
کیا ایرانی انقلاب یا حکومت اسلامی ہے؟
خمینی کا حکم
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/mojoda_rawafid_shia_hukm.pdf
موجودہ #روافض (#شیعوں) کا حکم؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیعہ کا عقیدہ کیا ہے؟
شیعہ فرقے کے عقائد کی وضاحت اور انہیں دعوت دینا
کیا ہر شیعہ کافر ہے؟
شیعہ فرقوں کی تفصیل
شیعہ اثنا عشریہ رافضہ کا حکم
کیا تمام موجودہ شیعہ کفار ہیں؟
جو یہ کہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبوت کے مرتبے پر ہیں اور سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے غلطی کی
کیا شیعہ فرقے کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
کیا شیعہ عوام اور علماء کے حکم میں فرق ہے؟
کیاشیعہ ہمارے بھائی ہیں؟
رافضہ کے کفر میں شک کرنا
کیا شیعہ فرقے کا بانی عبداللہ بن سباء یہودی تھا؟
شیعہ کے پیچھے نماز کا حکم
شیعہ سے دنیاوی معاملات کا حکم؟
کیا ایرانی انقلاب یا حکومت اسلامی ہے؟
خمینی کا حکم
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/mojoda_rawafid_shia_hukm.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Mocking with the #scholars and consider them causing partisanship among youth – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#علماء کرام کا مذاق اڑانا اور انہیں نوجوانوں میں تفرقہ بازی کا سبب گرداننا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 25۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/ulama_ka_mazaq_nojawan_tafarqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو لوگ ہمارے علماء کرا م پر طعن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو محض علماءِ حیض ونفاس ہيں ساتھ ہی کہتے ہیں ہم نوجوانانِ امت میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ ہم وحدتِ صف کے خواہاں ہیں۔ پس کیا ان کا یہ کلام اللہ تعالی کی نازل کردہ اس شریعت کا انکار نہیں جسے اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا؟
جواب: نہیں، یہ کفر تو نہیں ہے۔ البتہ یہ غیبت اور علماء کی عزتو ں پر طعن درازی ہے۔ اور یہ بلاشبہ حرام ہے۔ غیبت کی شدید ترین حرمت آئی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں۔ پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس سے سوائے شر کے کچھ حاصل نہ ہوگا کہ لوگ علماء سے نفرت کریں گے اور ان پر اعتبار واعتماد کم ہوجائے گا۔ پھر لوگ اگر علماء کی جانب رجوع نہ کریں تو آخر کہاں جائیں؟ چناچہ یہ بہت عظیم خطرہ ہے۔
اولاً: یہ غیبت ہے اور غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔
ثانیاً: اس سے علماء پر اعتماد کم ہوجاتا ہے اور لوگوں کی نظر میں ان کی قدرومنزلت گر جاتی ہے اور یہ باتیں جائز نہیں۔ اس کا معنی تو یہ ہوا کہ لوگ غیر علماء کی طرف رجوع کریں جس سے شر وفساد برپا ہو۔ اور یہی داعیان شر کی نیت وارادہ ہے([1])۔
اور یہ کہنا کہ ہم نوجوانوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ اس کا جواب ہے: ہم تو مسلمانوں میں تفرقہ بازی سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ ہم تو نوجوانوں کے لیے یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ متحد رہیں۔ دینی بھائی چارے میں جڑے رہیں۔ اور ایک امت بن کر رہیں اور ہم انہیں اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور انہیں جمع کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا جمع ہونا حق بات پر ہو۔ ناکہ جیسے یہ گمراہ لوگ کہتے ہیں کہ: جس چیز میں اتفاق ہے اس پر تعاون کرتے ہیں اور جس میں اختلاف ہے اس میں ایک دوسرے کو معذور سمجھتے ہیں۔ یہ بات باطل ہے۔ بلکہ ہم حق پر جمع ہوں اور ہر اس اختلاف کو چھوڑ دیں جو حق کے مخالف ہو۔
[1] اور یہی حزبی اور تحریکیں چلانے والے لوگوں کا شعار ہے کہ اپنے سے پہلے والے اہل بدعت وتفرقہ کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے علماء پر طعن وتشنیع کرنا۔ ان میں سے ایک اپنی کیسٹ میں کہتا ہے: (کیا تم ایک عالم سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ محض ذبح وشکار، مناسک، حیض ونفاس، وضوء وغسل اور موزوں پر مسح کرنے کے احکامات تک محصور رہے)۔۔ اسی کیسٹ میں دوسری جگہ کہتا ہے: (کسی عالم کی کیا قدروقیمت ہے اگر وہ لوگوں کو ان کے سیاسی معاملات نہیں بیان کرتا جو کہ سب سے اہم مسائل ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے)۔
میں یہ کہتا ہوں: یہ تو علماء کے علم کی تخفیفِ شان کرنا ہے اور وہ جس نبوی علمی ورثے کے حامل ہیں اس کی بے قدری ہے۔ یہ تو قدیم وجدید معتزلہ کا قول ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اسماعیل بن علیہ سے روایت کی جاتی ہے، فرمایا: مجھے الیسع نے بتایا، ایک دن واصل بن عطاء معتزلی نے کلام کیا جس پر عمرو بن عبید نے نے کہا: کیا تم سنتے نہیں(کیا عمدہ کلام ہے)؟ (دوسری طرف) حسن بصری اور ابن سیرین (علماء اہل سنت) رحمہما اللہ کا جب کلام سنو تو لگتا ہے جیسے حیض کا کپڑا دے مارا ہو۔ یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ اہل بدعت کے بڑوں میں سے کوئی بڑا فقہ پر علم الکلام کی فضیلت بیان کرنا چاہتا تھا۔ تو کہنے لگا: الشافعی اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا علم جملۃً عورت کی شلوار سے ہی باہر نہیں نکلتا یعنی بس حیض ونفاس کے مسائل آتے ہیں۔ یہ ہے ان گمراہوں کا کلام، اللہ انہيں برباد کرے)۔ (الاعتصام للشاطبی 2/741-742)۔ (الحارثی)
#علماء کرام کا مذاق اڑانا اور انہیں نوجوانوں میں تفرقہ بازی کا سبب گرداننا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 25۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/ulama_ka_mazaq_nojawan_tafarqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو لوگ ہمارے علماء کرا م پر طعن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو محض علماءِ حیض ونفاس ہيں ساتھ ہی کہتے ہیں ہم نوجوانانِ امت میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ ہم وحدتِ صف کے خواہاں ہیں۔ پس کیا ان کا یہ کلام اللہ تعالی کی نازل کردہ اس شریعت کا انکار نہیں جسے اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا؟
جواب: نہیں، یہ کفر تو نہیں ہے۔ البتہ یہ غیبت اور علماء کی عزتو ں پر طعن درازی ہے۔ اور یہ بلاشبہ حرام ہے۔ غیبت کی شدید ترین حرمت آئی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں۔ پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس سے سوائے شر کے کچھ حاصل نہ ہوگا کہ لوگ علماء سے نفرت کریں گے اور ان پر اعتبار واعتماد کم ہوجائے گا۔ پھر لوگ اگر علماء کی جانب رجوع نہ کریں تو آخر کہاں جائیں؟ چناچہ یہ بہت عظیم خطرہ ہے۔
اولاً: یہ غیبت ہے اور غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔
ثانیاً: اس سے علماء پر اعتماد کم ہوجاتا ہے اور لوگوں کی نظر میں ان کی قدرومنزلت گر جاتی ہے اور یہ باتیں جائز نہیں۔ اس کا معنی تو یہ ہوا کہ لوگ غیر علماء کی طرف رجوع کریں جس سے شر وفساد برپا ہو۔ اور یہی داعیان شر کی نیت وارادہ ہے([1])۔
اور یہ کہنا کہ ہم نوجوانوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ اس کا جواب ہے: ہم تو مسلمانوں میں تفرقہ بازی سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ ہم تو نوجوانوں کے لیے یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ متحد رہیں۔ دینی بھائی چارے میں جڑے رہیں۔ اور ایک امت بن کر رہیں اور ہم انہیں اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور انہیں جمع کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا جمع ہونا حق بات پر ہو۔ ناکہ جیسے یہ گمراہ لوگ کہتے ہیں کہ: جس چیز میں اتفاق ہے اس پر تعاون کرتے ہیں اور جس میں اختلاف ہے اس میں ایک دوسرے کو معذور سمجھتے ہیں۔ یہ بات باطل ہے۔ بلکہ ہم حق پر جمع ہوں اور ہر اس اختلاف کو چھوڑ دیں جو حق کے مخالف ہو۔
[1] اور یہی حزبی اور تحریکیں چلانے والے لوگوں کا شعار ہے کہ اپنے سے پہلے والے اہل بدعت وتفرقہ کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے علماء پر طعن وتشنیع کرنا۔ ان میں سے ایک اپنی کیسٹ میں کہتا ہے: (کیا تم ایک عالم سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ محض ذبح وشکار، مناسک، حیض ونفاس، وضوء وغسل اور موزوں پر مسح کرنے کے احکامات تک محصور رہے)۔۔ اسی کیسٹ میں دوسری جگہ کہتا ہے: (کسی عالم کی کیا قدروقیمت ہے اگر وہ لوگوں کو ان کے سیاسی معاملات نہیں بیان کرتا جو کہ سب سے اہم مسائل ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے)۔
میں یہ کہتا ہوں: یہ تو علماء کے علم کی تخفیفِ شان کرنا ہے اور وہ جس نبوی علمی ورثے کے حامل ہیں اس کی بے قدری ہے۔ یہ تو قدیم وجدید معتزلہ کا قول ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اسماعیل بن علیہ سے روایت کی جاتی ہے، فرمایا: مجھے الیسع نے بتایا، ایک دن واصل بن عطاء معتزلی نے کلام کیا جس پر عمرو بن عبید نے نے کہا: کیا تم سنتے نہیں(کیا عمدہ کلام ہے)؟ (دوسری طرف) حسن بصری اور ابن سیرین (علماء اہل سنت) رحمہما اللہ کا جب کلام سنو تو لگتا ہے جیسے حیض کا کپڑا دے مارا ہو۔ یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ اہل بدعت کے بڑوں میں سے کوئی بڑا فقہ پر علم الکلام کی فضیلت بیان کرنا چاہتا تھا۔ تو کہنے لگا: الشافعی اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا علم جملۃً عورت کی شلوار سے ہی باہر نہیں نکلتا یعنی بس حیض ونفاس کے مسائل آتے ہیں۔ یہ ہے ان گمراہوں کا کلام، اللہ انہيں برباد کرے)۔ (الاعتصام للشاطبی 2/741-742)۔ (الحارثی)
[#SalafiUrduDawah Article] Sometimes #Ulamaa keep silence regarding few personalities out of wisdom – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
بسا اوقات #علماء کرام کسی شخصیت کے متعلق کلام کرنے سے بطور شرعی مصلحت خاموشی اختیار فرماتے ہیں
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المجموع الواضح، ص 143۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/ulama_kabhi_maslihat_khamoshi.pdf
﷽
بے شک خیر خواہ علماء وفقہاء کبھی کبھار بعض شخصیات اور چیزوں پر خاموشی اختیار فرماتے ہیں، جس میں دراصل ان کی جانب سے مصلحتوں اور مفاسد کا لحاظ کیا گیا ہوتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی شخص پر کلام کرنے سے اس پر خاموش رہنے کے بنسبت بہت عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں ۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض منافقین کے نام ذکر کرنے سے سکوت اختیار فرمایا۔ ان سب کے یا بعض کے نام کسی کو نہيں بتائے سوائے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے۔کب آپ نے ایسا دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے ہوں اور کہاں ہو فلاں منافق ہے، اور فلاں منافق ہے۔ یہ سب باتيں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسی مصلحتوں اور مفاسدکا لحاظ کرنے سے متعلق ہيں۔
اسی طرح سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں داخل تھے، لیکن باقی کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی علی رضی اللہ عنہ پر طعن نہيں کیا، اور ناہی عقل مند تابعین میں سے کسی نے ، وہ اس بارے میں اور ان قاتلوں کے احکام کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی تشہیر نہیں کرتے پھرتے تھے۔ اور یہ ان کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں بالکل صحیح عذر اور انصاف ہی تھا۔ کیونکہ اگر وہ ان لوگوں کو اپنی فوج سے نکالتے یا انہیں سزا دیتے تو اس کے نتیجے میں عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں جیسے:
جنگ وجدل اور خون خرابہ، جس کے نتیجے میں امت میں ضعف وکمزوری کا آجانا۔ چناچہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس باب میں سے ہے کہ: (انتہائی مجبوری کی حالت میں جب کوئی چارہ نہ ہو تو) دو مفسدوں میں سے چھوٹے کا ارتکاب کرلیا جائے تاکہ اس بڑے مفسدے سے بچا جاسکے۔
اسی طرح سے یہ دیکھیں امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ ابن القیم رحمہما اللہ کو، کیوں انہوں نے امام النووی : وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا۔ اسی طرح سے آئمہ دعوت نے بھی امام النووی ، ابن حجر، القسطلانی، البیہقی اور السیوطی رحمہم اللہ وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا؟ (اس میں بھی وہی مصلحت کارفرماد تھی)۔
لہذا ہرگز یہ خیال نہ کیجئے کہ: ہر صراحت وبیان نصیحت ہی ہوتا ہے، اور نہ ہی ہر سکوت وخاموشی اسلام ومسلمانوں کے لیے خیانت ہی ہوتی ہے۔
پس ایک عاقل، انصاف پسند وبصیرت کا حامل انسان یہ جان لیتا ہے کہ کب کلام کرنا واجب یا جائز ہے او رکب سکوت اختیار کرنا واجب یا جائز ہے۔
بسا اوقات #علماء کرام کسی شخصیت کے متعلق کلام کرنے سے بطور شرعی مصلحت خاموشی اختیار فرماتے ہیں
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المجموع الواضح، ص 143۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/ulama_kabhi_maslihat_khamoshi.pdf
﷽
بے شک خیر خواہ علماء وفقہاء کبھی کبھار بعض شخصیات اور چیزوں پر خاموشی اختیار فرماتے ہیں، جس میں دراصل ان کی جانب سے مصلحتوں اور مفاسد کا لحاظ کیا گیا ہوتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی شخص پر کلام کرنے سے اس پر خاموش رہنے کے بنسبت بہت عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں ۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض منافقین کے نام ذکر کرنے سے سکوت اختیار فرمایا۔ ان سب کے یا بعض کے نام کسی کو نہيں بتائے سوائے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے۔کب آپ نے ایسا دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے ہوں اور کہاں ہو فلاں منافق ہے، اور فلاں منافق ہے۔ یہ سب باتيں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسی مصلحتوں اور مفاسدکا لحاظ کرنے سے متعلق ہيں۔
اسی طرح سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں داخل تھے، لیکن باقی کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی علی رضی اللہ عنہ پر طعن نہيں کیا، اور ناہی عقل مند تابعین میں سے کسی نے ، وہ اس بارے میں اور ان قاتلوں کے احکام کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی تشہیر نہیں کرتے پھرتے تھے۔ اور یہ ان کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں بالکل صحیح عذر اور انصاف ہی تھا۔ کیونکہ اگر وہ ان لوگوں کو اپنی فوج سے نکالتے یا انہیں سزا دیتے تو اس کے نتیجے میں عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں جیسے:
جنگ وجدل اور خون خرابہ، جس کے نتیجے میں امت میں ضعف وکمزوری کا آجانا۔ چناچہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس باب میں سے ہے کہ: (انتہائی مجبوری کی حالت میں جب کوئی چارہ نہ ہو تو) دو مفسدوں میں سے چھوٹے کا ارتکاب کرلیا جائے تاکہ اس بڑے مفسدے سے بچا جاسکے۔
اسی طرح سے یہ دیکھیں امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ ابن القیم رحمہما اللہ کو، کیوں انہوں نے امام النووی : وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا۔ اسی طرح سے آئمہ دعوت نے بھی امام النووی ، ابن حجر، القسطلانی، البیہقی اور السیوطی رحمہم اللہ وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا؟ (اس میں بھی وہی مصلحت کارفرماد تھی)۔
لہذا ہرگز یہ خیال نہ کیجئے کہ: ہر صراحت وبیان نصیحت ہی ہوتا ہے، اور نہ ہی ہر سکوت وخاموشی اسلام ومسلمانوں کے لیے خیانت ہی ہوتی ہے۔
پس ایک عاقل، انصاف پسند وبصیرت کا حامل انسان یہ جان لیتا ہے کہ کب کلام کرنا واجب یا جائز ہے او رکب سکوت اختیار کرنا واجب یا جائز ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Low number of attendees at the #Duroos of #Ulamaa – Shaykh Muhammad bin Umar #Bazmool
#علماء کے #دروس میں کم لوگوں کی حاضری
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر #بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بازمول ڈاٹ کام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/ulama_duroos_qillat_haziri.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجھے بعض طلبہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ان کے بعد از فجر درس کے متعلق کہا گیا جو کہ طائف میں واقع ان کی مسجد میں ہوتا تھا کہ : یا شیخ اگر آپ فجر کے بعد کچھ آرام کرلیں تو بہتر ہے اور اس کے علاوہ دیگر دروس پر اکتفاء کریں کیونکہ فجر والے درس میں بہت کم لوگ حاضر ہوتےہیں۔ شیخ رحمہ اللہ نے پوچھا: کتنے لوگ آتے ہیں؟ کہا: سات سے زیادہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ان میں خیر وبرکت ہے ان شاء اللہ ہم درس جاری رکھیں گے۔
حالانکہ اگر آپ اس قوم (ہمارے مخالفین) کو دیکھیں تو وہ اپنے دروس وتقاریر میں کثرتِ حاضرین کا ہم پر دھونس جماتے ہیں۔۔۔
مجھے الجزائر سے ایک بھائی نے بتایا کہ فلاں شخص اس نے داعیانِ فتنہ میں سے ایک کا نام لیا اگر اس کاکوئی علمی درس ہوتا ہے تو کوئی حاضر نہيں ہوتا سوائے چند لوگوں کے۔۔۔اور اگر اس کا درس سیاسی مسائل اور حکومت مخالفت محاذ آرائی سے متعلق ہوتا ہے تو لوگوں کی کثیر تعداد آتی ہے۔۔۔میں نے اس سے کہا: یہ بات بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کے متعلق مجھے کسی نے بتایا تھا کہ جدہ میں جب اس کا درس عقیدے کی شرح پرہوتا تھا تو حاضرین بہت قلیل ہوتے تھے اور یہ درس عصر کے بعد ہوا کرتا تھا جبکہ اسی کا درس مغرب کے بعد حالات حاضرہ اور حکومت مخالف محاذ آرائی پر ہوتا تو مسجد کھچا کھچ بھر جاتی۔۔۔
فلا حول و لا قوة إلا بالله۔۔۔اب حاضرین کی کثرت علم کے لیے نہيں دیگر اغراض کے لیے ہوکر رہ گئی ہے۔۔۔اور یہ زیادہ حاضرین جمع کرنے کا حربہ اب ولولہ انگیزی اور تحریکی قسم کے جذبات ابھارنا بن چکا ہے ناکہ قواعد علم وایمان کا لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا۔
#علماء کے #دروس میں کم لوگوں کی حاضری
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر #بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بازمول ڈاٹ کام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/ulama_duroos_qillat_haziri.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجھے بعض طلبہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ان کے بعد از فجر درس کے متعلق کہا گیا جو کہ طائف میں واقع ان کی مسجد میں ہوتا تھا کہ : یا شیخ اگر آپ فجر کے بعد کچھ آرام کرلیں تو بہتر ہے اور اس کے علاوہ دیگر دروس پر اکتفاء کریں کیونکہ فجر والے درس میں بہت کم لوگ حاضر ہوتےہیں۔ شیخ رحمہ اللہ نے پوچھا: کتنے لوگ آتے ہیں؟ کہا: سات سے زیادہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ان میں خیر وبرکت ہے ان شاء اللہ ہم درس جاری رکھیں گے۔
حالانکہ اگر آپ اس قوم (ہمارے مخالفین) کو دیکھیں تو وہ اپنے دروس وتقاریر میں کثرتِ حاضرین کا ہم پر دھونس جماتے ہیں۔۔۔
مجھے الجزائر سے ایک بھائی نے بتایا کہ فلاں شخص اس نے داعیانِ فتنہ میں سے ایک کا نام لیا اگر اس کاکوئی علمی درس ہوتا ہے تو کوئی حاضر نہيں ہوتا سوائے چند لوگوں کے۔۔۔اور اگر اس کا درس سیاسی مسائل اور حکومت مخالفت محاذ آرائی سے متعلق ہوتا ہے تو لوگوں کی کثیر تعداد آتی ہے۔۔۔میں نے اس سے کہا: یہ بات بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کے متعلق مجھے کسی نے بتایا تھا کہ جدہ میں جب اس کا درس عقیدے کی شرح پرہوتا تھا تو حاضرین بہت قلیل ہوتے تھے اور یہ درس عصر کے بعد ہوا کرتا تھا جبکہ اسی کا درس مغرب کے بعد حالات حاضرہ اور حکومت مخالف محاذ آرائی پر ہوتا تو مسجد کھچا کھچ بھر جاتی۔۔۔
فلا حول و لا قوة إلا بالله۔۔۔اب حاضرین کی کثرت علم کے لیے نہيں دیگر اغراض کے لیے ہوکر رہ گئی ہے۔۔۔اور یہ زیادہ حاضرین جمع کرنے کا حربہ اب ولولہ انگیزی اور تحریکی قسم کے جذبات ابھارنا بن چکا ہے ناکہ قواعد علم وایمان کا لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا۔
[#SalafiUrduDawah Book] Brief introduction of #Qadianism - Various #Ulamaa
#قادیانیت کا مختصر تعارف
مختلف #علماء کرام
ترجمہ، ترتیب وعناوین: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر (ویب سائٹ سحاب السلفیۃ والآجری پر جمع کردہ مواد سے)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
قادیانی صرف فرقہ ہی نہیں بلکہ ان کا درحقیقت شمار غیر مسلموں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک گمراہ مذہب ہے جو ایسے انواع واقسام کے ظاہری وباطنی کفریات وشرکیات سے لبریز ہےکہ ایک عام مسلمان تک سے وہ مخفی نہيں چہ جائیکہ علماء کرام سے ہو۔ لیکن صدافسوس کے اس گمراہ کن دعوت کے افراد اور جگہیں مسلمانوں کے مابین خصوصاً عجم میں انگریز سامراج اور ان کے آلۂ کاروں کے ذریعے ہندوستان وپاکستان میں پائی جاتی ہيں، بلکہ عرب میں بھی بعض جہلاء اور شہوات پرست لوگ جن کے دین و دل درہم ودینار کے ساتھ بدلتے ہیں اسے قبول کرتے ہیں۔ پھر صہیونیت کے غیرمحدود مالی وغیرہ تعاون کا شاخسانہ ہے کہ ان کا باقاعدہ فضائی چینل تک نشر ہوتا ہے ظاہراًبھی اور خفیہ بھی۔ چناچہ الجزائر وغیرہ جیسے عرب ممالک میں بھی ان سے متاثرہ لوگوں کی بڑھتی تعداد کے سبب سے اس تعلق سے بہت سے سوالات پوچھے جانے لگے کہ ان کے کیا نظریات وگمراہیاں ہيں ۔ اور ہمارے خیال سے اب تک یہاں ان کی سرگرمیاں تقیہ کے ساتھ ہیں جس کے ذریعے وہ چھپ کر اپنا زہر پھیلاتے جارہے ہیں، جیساکہ ضرب المثل میں کہا جاتا ہے، بغیر آگ کے دھواں نہيں ہوتا۔ لہذا واحب ہے کہ نئے سرے سے ان کی حقیقت کو بے نقاب کیا جائے اور اہل علم کے ان کی تکفیر اور ان سے خبردار کرنے کے متعلق فتاویٰ کو نشر کیا جائے۔
عناوین
قادیانیت
شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمدحفظہ اللہ
(مدرس، کلیۃ شرعیہ، جامعہ اسلامیہ)
قادیانیت کا آغاز
غلام احمد قادیانی کون ہے؟
مسیح موعود ہونے کا دعویٰ
نبوت کا دعویٰ
اللہ کا بیٹا ہونے کا دعویٰ
غلام احمد قادیانی کو تمام انبیاء سے افضل قرار دینا
ہمارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہيں
قادیانی کے تضادات
قادیانی کی مخبوط الحواسی
انگریزوں کا ایجنٹ جہاد کا مخالف
قادیانیوں کی تکفیر
دائمی فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب کے فتاویٰ
قادیانیوں سے شادی بیاہ کا حکم
قادیانی متفقہ طور پر کافر ہیں
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوئ نبوت سراسر جھوٹ ہے
مسلمانوں اور احمدیوں میں فرق
قادیانیوں کا قرآنی آیات سے استدلال اس کا جواب
از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب
16 آیات اور ان کاجواب
شیخ محمد ناصر الالبانی رحمہ اللہ
قادیانی دجال کے بعض مزیدگمراہ کن عقائد
قادیانیوں کا بعض احادیث سے استدلال اور اس کا جواب
از شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
قادیانیت کے رد پر علماء اہلحدیث کی بعض کتب
قادیانی کی تکفیر پر اجماع
مجمع الفقہ الاسلامی کی قرارداد
احمدی جماعت کا مختصر تعارف اور بعض کفریہ عقائد، ان کے ٹی وی چینل اور ان کے رد پر لکھی گئی بعض کتب کا ذکر
از شیخ محمد علی فرکوس حفظہ اللہ
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/qadyaniyyat.pdf
#قادیانیت کا مختصر تعارف
مختلف #علماء کرام
ترجمہ، ترتیب وعناوین: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر (ویب سائٹ سحاب السلفیۃ والآجری پر جمع کردہ مواد سے)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
قادیانی صرف فرقہ ہی نہیں بلکہ ان کا درحقیقت شمار غیر مسلموں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک گمراہ مذہب ہے جو ایسے انواع واقسام کے ظاہری وباطنی کفریات وشرکیات سے لبریز ہےکہ ایک عام مسلمان تک سے وہ مخفی نہيں چہ جائیکہ علماء کرام سے ہو۔ لیکن صدافسوس کے اس گمراہ کن دعوت کے افراد اور جگہیں مسلمانوں کے مابین خصوصاً عجم میں انگریز سامراج اور ان کے آلۂ کاروں کے ذریعے ہندوستان وپاکستان میں پائی جاتی ہيں، بلکہ عرب میں بھی بعض جہلاء اور شہوات پرست لوگ جن کے دین و دل درہم ودینار کے ساتھ بدلتے ہیں اسے قبول کرتے ہیں۔ پھر صہیونیت کے غیرمحدود مالی وغیرہ تعاون کا شاخسانہ ہے کہ ان کا باقاعدہ فضائی چینل تک نشر ہوتا ہے ظاہراًبھی اور خفیہ بھی۔ چناچہ الجزائر وغیرہ جیسے عرب ممالک میں بھی ان سے متاثرہ لوگوں کی بڑھتی تعداد کے سبب سے اس تعلق سے بہت سے سوالات پوچھے جانے لگے کہ ان کے کیا نظریات وگمراہیاں ہيں ۔ اور ہمارے خیال سے اب تک یہاں ان کی سرگرمیاں تقیہ کے ساتھ ہیں جس کے ذریعے وہ چھپ کر اپنا زہر پھیلاتے جارہے ہیں، جیساکہ ضرب المثل میں کہا جاتا ہے، بغیر آگ کے دھواں نہيں ہوتا۔ لہذا واحب ہے کہ نئے سرے سے ان کی حقیقت کو بے نقاب کیا جائے اور اہل علم کے ان کی تکفیر اور ان سے خبردار کرنے کے متعلق فتاویٰ کو نشر کیا جائے۔
عناوین
قادیانیت
شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمدحفظہ اللہ
(مدرس، کلیۃ شرعیہ، جامعہ اسلامیہ)
قادیانیت کا آغاز
غلام احمد قادیانی کون ہے؟
مسیح موعود ہونے کا دعویٰ
نبوت کا دعویٰ
اللہ کا بیٹا ہونے کا دعویٰ
غلام احمد قادیانی کو تمام انبیاء سے افضل قرار دینا
ہمارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہيں
قادیانی کے تضادات
قادیانی کی مخبوط الحواسی
انگریزوں کا ایجنٹ جہاد کا مخالف
قادیانیوں کی تکفیر
دائمی فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب کے فتاویٰ
قادیانیوں سے شادی بیاہ کا حکم
قادیانی متفقہ طور پر کافر ہیں
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوئ نبوت سراسر جھوٹ ہے
مسلمانوں اور احمدیوں میں فرق
قادیانیوں کا قرآنی آیات سے استدلال اس کا جواب
از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب
16 آیات اور ان کاجواب
شیخ محمد ناصر الالبانی رحمہ اللہ
قادیانی دجال کے بعض مزیدگمراہ کن عقائد
قادیانیوں کا بعض احادیث سے استدلال اور اس کا جواب
از شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
قادیانیت کے رد پر علماء اہلحدیث کی بعض کتب
قادیانی کی تکفیر پر اجماع
مجمع الفقہ الاسلامی کی قرارداد
احمدی جماعت کا مختصر تعارف اور بعض کفریہ عقائد، ان کے ٹی وی چینل اور ان کے رد پر لکھی گئی بعض کتب کا ذکر
از شیخ محمد علی فرکوس حفظہ اللہ
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/qadyaniyyat.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Depicting images of the #Hellfire and #Paradise – Various #Ulamaa
#جنت یا #جہنم کی تصوراتی وتفہیمی خاکہ سازی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة لقاء الباب المفتوح اور الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/09/jannat_jahannum_tasawwuraati_khakay_banana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جنت کی بطور باغات اور جہنم کی بطور آگ تصویر وخاکہ سازی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
یہ جائز نہيں ہے۔ کیونکہ ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ: 17)
(کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے، یہ اس کا بدلہ ہے جو عمل وہ کیا کرتے تھے)
ہم آگ کی کیفیت نہيں جانتے جو کہ دنیاوی آگ سے انہتر (69) گنا زیادہ ہے۔۔۔جس میں دنیاوی آگ میں سے شدید ترین والی آگ جیسے گیس وغیرہ کی آگ یا جو اس سے بھی شدید ہو کو بھی داخل کرلیں۔ تو پھر کیا کوئی اس آگ کی تمثیل بنانے کی استطاعت رکھتا ہے؟ کوئی اس کی استطاعت نہيں رکھتا۔ لہذا جو کوئی ایسا کرتا ہے اس تک یہ بات پہنچا دو کہ یہ حرام ہے۔
لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آجکل لوگوں نے آخرت سے متعلق امور کو ایسے پیش کرنا شروع کردیا ہے گویا کہ وہ باقاعدہ حسی ومشاہداتی امور ہوں۔
میں نے ایک ورقہ دیکھا اس میں انسان کے مختلف مراحل میں منتقل ہونے کا ذکر تھا چوکور سے بنے ہوئے تھے جیسے ’’موت‘‘ پھر ایک لکیر پھر دوسرا چوکور اس میں ’’قیامت‘‘ اور اسی طرح سے باقی۔ گویا کہ اس نے جو کچھ موت کے بعدہونا ہے اسے ہندسی لکیروں اور چوکوروں کے ذریعے مصور کیا ہے۔ یہ عظیم جرأت ہے! اللہ تعالی کی پناہ۔ پھر اس سے یہ بھی کہا جائے گا کہ: تمہیں کس نے بتایا کہ اس کے بعد یہ ہوگا اور وہ اس کے بعد ہوگا؟ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ قبر دنیا کی زندگی کے بعد ہوتی ہے اور مرکی جی اٹھنا قبر کے بعد ہوتا ہے لیکن اس کی تفصیل کہ جو یوم قیامت ہوگا حساب وموازین وغیرہ ان کی ترتیب کا تو علم نہیں؟ لیکن یہ بہت عظیم جرأت ہے! اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ورقے کو عام تقسیم کیا جاتا ہے! لیکن منجملہ جو اوراق لوگوں میں آجکل تقسیم کیے جاتے ہيں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ تک باندھا جاتا ہے واجب ہے کہ ان سے بچا جائے اور لوگوں کو بھی خبردار کیا جائے۔
(سلسلة لقاء الباب المفتوح – 222)
سوال: ہم بعض اعلانات میں جو بعض داعیان کی کیسٹوں پر ہوتے ہیں یہ دیکھتے ہیں کہ نہریں اور کھتیاں بنی ہوتی ہيں اگر موضوع جنت سے متعلق ہوتا ہے اور سایہ یا اندھیرا سا بنادیتے ہیں گویا کہ شیطان کا سایہ ہو اگر موضوع شر وبرائی سے متعلق ہوتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزن رحمہ اللہ:
ان خاکوں یا تصاویر میں علم غیب کا گویا کہ دعویٰ ہے کہ جسے اللہ تعالی کے سوا کوئی نہيں جانتا جنت کو سوائے اللہ تعالی کے کوئی نہيں جانتا اسی طرح سے جہنم کو بھی اس کے سوا کوئی نہيں جانتا۔ جائز نہيں کہ وہ جنت، یا جہنم یا پل صراط کی تصویر ورق پر بنائیں۔ یہ تو جہالت میں سے ہے۔
(الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة)
#جنت یا #جہنم کی تصوراتی وتفہیمی خاکہ سازی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة لقاء الباب المفتوح اور الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/09/jannat_jahannum_tasawwuraati_khakay_banana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جنت کی بطور باغات اور جہنم کی بطور آگ تصویر وخاکہ سازی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
یہ جائز نہيں ہے۔ کیونکہ ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ: 17)
(کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے، یہ اس کا بدلہ ہے جو عمل وہ کیا کرتے تھے)
ہم آگ کی کیفیت نہيں جانتے جو کہ دنیاوی آگ سے انہتر (69) گنا زیادہ ہے۔۔۔جس میں دنیاوی آگ میں سے شدید ترین والی آگ جیسے گیس وغیرہ کی آگ یا جو اس سے بھی شدید ہو کو بھی داخل کرلیں۔ تو پھر کیا کوئی اس آگ کی تمثیل بنانے کی استطاعت رکھتا ہے؟ کوئی اس کی استطاعت نہيں رکھتا۔ لہذا جو کوئی ایسا کرتا ہے اس تک یہ بات پہنچا دو کہ یہ حرام ہے۔
لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آجکل لوگوں نے آخرت سے متعلق امور کو ایسے پیش کرنا شروع کردیا ہے گویا کہ وہ باقاعدہ حسی ومشاہداتی امور ہوں۔
میں نے ایک ورقہ دیکھا اس میں انسان کے مختلف مراحل میں منتقل ہونے کا ذکر تھا چوکور سے بنے ہوئے تھے جیسے ’’موت‘‘ پھر ایک لکیر پھر دوسرا چوکور اس میں ’’قیامت‘‘ اور اسی طرح سے باقی۔ گویا کہ اس نے جو کچھ موت کے بعدہونا ہے اسے ہندسی لکیروں اور چوکوروں کے ذریعے مصور کیا ہے۔ یہ عظیم جرأت ہے! اللہ تعالی کی پناہ۔ پھر اس سے یہ بھی کہا جائے گا کہ: تمہیں کس نے بتایا کہ اس کے بعد یہ ہوگا اور وہ اس کے بعد ہوگا؟ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ قبر دنیا کی زندگی کے بعد ہوتی ہے اور مرکی جی اٹھنا قبر کے بعد ہوتا ہے لیکن اس کی تفصیل کہ جو یوم قیامت ہوگا حساب وموازین وغیرہ ان کی ترتیب کا تو علم نہیں؟ لیکن یہ بہت عظیم جرأت ہے! اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ورقے کو عام تقسیم کیا جاتا ہے! لیکن منجملہ جو اوراق لوگوں میں آجکل تقسیم کیے جاتے ہيں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ تک باندھا جاتا ہے واجب ہے کہ ان سے بچا جائے اور لوگوں کو بھی خبردار کیا جائے۔
(سلسلة لقاء الباب المفتوح – 222)
سوال: ہم بعض اعلانات میں جو بعض داعیان کی کیسٹوں پر ہوتے ہیں یہ دیکھتے ہیں کہ نہریں اور کھتیاں بنی ہوتی ہيں اگر موضوع جنت سے متعلق ہوتا ہے اور سایہ یا اندھیرا سا بنادیتے ہیں گویا کہ شیطان کا سایہ ہو اگر موضوع شر وبرائی سے متعلق ہوتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزن رحمہ اللہ:
ان خاکوں یا تصاویر میں علم غیب کا گویا کہ دعویٰ ہے کہ جسے اللہ تعالی کے سوا کوئی نہيں جانتا جنت کو سوائے اللہ تعالی کے کوئی نہيں جانتا اسی طرح سے جہنم کو بھی اس کے سوا کوئی نہيں جانتا۔ جائز نہيں کہ وہ جنت، یا جہنم یا پل صراط کی تصویر ورق پر بنائیں۔ یہ تو جہالت میں سے ہے۔
(الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة)
[#SalafiUrduDawah Article] Should we not take #refutations of #Ulamaa upon each other? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #علماء کا ایک دوسرے پر #رد نہیں لیا جائے گا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نونية ابن القيم شريط 38 الدقيقة 25:12۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/03/ulamaa_radd_bahimi_nahi_lya_jae.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ ، آجکل یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی عالم کسی دوسرے عالم کی غلطی پر رد کرتا ہے، تو کہتے ہيں کہ ’’كلام الأقران يطوى ولا يروى‘‘ (برابری کے علماء کا ایک دوسرے کے خلاف کلام لپیٹ دیا جائے گا آگے روایت نہیں کیا جائے گا) (یا بقول بعض : یہ تو ’’اکابر‘‘ کی باہمی چشمک اور جروح ہیں جن سے ہم لوگوں کو دور رہنا چاہیے) آپ کی اس قاعدے کے متعلق کیا رائے ہے؟ اور کیا اسے مطلقاً لیا جائے گا؟
جواب: میں آپ کے لیے وضاحت کرچکا ہوں کہ حق بیان کرنا اور غلطی کا رد کرنا واجب ہے۔ ہم کسی کی چاپلوسی یا خوشامد نہیں چاہتے اس بارے میں۔ کسی کی خوشامد کو خاطر میں نہيں لایا جائے گا۔ غلطی کو واضح کریں گے اور اس کے مقابل حق کی جانب رہنمائی کریں گے۔ ہمیں کسی فلان علان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
لیکن خاموش رہنا جائز نہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس غلطی کو چھوڑ دیں یونہی، پھر دوسری کو، پھر تیسری کو ۔۔۔تو غلطیوں کی کثرت ہوجائے گی، اور لوگ علماء کرام کا ان پر سکوت اختیار کرنے کو حجت سمجھنے لگے گیں۔
لازم ہے کہ بیان کیا جائے۔ خصوصاً جس نے غلطی کی ہے اگر وہ قدآور شخصیت اور ایسا نمونہ ہو لوگوں کی نظر میں جس کی پیروی کی جاتی ہے یا جس کے پاس سربراہی ہو تو پھر معاملہ اور زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ لہذا غلطی کی بہرحال وضاحت ضرور ہوگی تاکہ کوئی اس سے دھوکے میں نہ آجائے۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ لپیٹ لو بس آگے بیان نہ کرو!! یہ کلام باطل ہے۔جو کلام عام نشر ہورہا ہے اس کا رد ہوگا جسے ناراض ہونا ہے ہو، راضی ہونا ہے ہو۔ کیونکہ ہمارا اصل ہدف حق ہے۔ ناکہ ہمارا ہدف لوگوں کی عزت اچھالنا یا تنقیص کرنا ہے۔
کیا #علماء کا ایک دوسرے پر #رد نہیں لیا جائے گا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نونية ابن القيم شريط 38 الدقيقة 25:12۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/03/ulamaa_radd_bahimi_nahi_lya_jae.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ ، آجکل یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی عالم کسی دوسرے عالم کی غلطی پر رد کرتا ہے، تو کہتے ہيں کہ ’’كلام الأقران يطوى ولا يروى‘‘ (برابری کے علماء کا ایک دوسرے کے خلاف کلام لپیٹ دیا جائے گا آگے روایت نہیں کیا جائے گا) (یا بقول بعض : یہ تو ’’اکابر‘‘ کی باہمی چشمک اور جروح ہیں جن سے ہم لوگوں کو دور رہنا چاہیے) آپ کی اس قاعدے کے متعلق کیا رائے ہے؟ اور کیا اسے مطلقاً لیا جائے گا؟
جواب: میں آپ کے لیے وضاحت کرچکا ہوں کہ حق بیان کرنا اور غلطی کا رد کرنا واجب ہے۔ ہم کسی کی چاپلوسی یا خوشامد نہیں چاہتے اس بارے میں۔ کسی کی خوشامد کو خاطر میں نہيں لایا جائے گا۔ غلطی کو واضح کریں گے اور اس کے مقابل حق کی جانب رہنمائی کریں گے۔ ہمیں کسی فلان علان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
لیکن خاموش رہنا جائز نہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس غلطی کو چھوڑ دیں یونہی، پھر دوسری کو، پھر تیسری کو ۔۔۔تو غلطیوں کی کثرت ہوجائے گی، اور لوگ علماء کرام کا ان پر سکوت اختیار کرنے کو حجت سمجھنے لگے گیں۔
لازم ہے کہ بیان کیا جائے۔ خصوصاً جس نے غلطی کی ہے اگر وہ قدآور شخصیت اور ایسا نمونہ ہو لوگوں کی نظر میں جس کی پیروی کی جاتی ہے یا جس کے پاس سربراہی ہو تو پھر معاملہ اور زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ لہذا غلطی کی بہرحال وضاحت ضرور ہوگی تاکہ کوئی اس سے دھوکے میں نہ آجائے۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ لپیٹ لو بس آگے بیان نہ کرو!! یہ کلام باطل ہے۔جو کلام عام نشر ہورہا ہے اس کا رد ہوگا جسے ناراض ہونا ہے ہو، راضی ہونا ہے ہو۔ کیونکہ ہمارا اصل ہدف حق ہے۔ ناکہ ہمارا ہدف لوگوں کی عزت اچھالنا یا تنقیص کرنا ہے۔
[#SalafiUrduDawah Video] Shari'ah Ruling regarding Celebrating #Prophet's_Birthday (#Melaad) – Various 'Ulamaa
جشن #عید_میلاد_النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا کا شرعی حکم؟ – مختلف علماء کرام
https://youtu.be/VKXYiB4KMzg
[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/01/milaad_un_nabee_sharae_hukm_ulama_kalam.mp3
جشن #عید_میلاد_النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا کا شرعی حکم؟ – مختلف علماء کرام
https://youtu.be/VKXYiB4KMzg
[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/01/milaad_un_nabee_sharae_hukm_ulama_kalam.mp3
YouTube
[Urdu] Shari'ah Ruling regarding Celebrating Prophet's Birthday (Milaad) - Various 'Ulamaa
عید_میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ مسلم منانے کا شرعی حکم - مختلف علماء کرام
[Article] Why #Salafee #Ulamaa don't support current Jihaadi movements? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
#سلفی #علماء موجودہ جہادی تحریکوں کی حمایت کیوں نہيں کرتے؟ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
#SalafiUrduDawah
#جہاد
#jihad
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ سے سوال ہوا:
سوال: ان دنوں بہت سے نوجوان اس بارے میں سوال کرتے ہيں کہ جو مسلمانوں کے ساتھ یہاں وہاں حالت زار ہورہی ہے فلسطین، کشمیر وچیچنیا میں تو کیا ہمارے لیے وہاں جہاد کرنا مشروع ہے یا نہیں؟ ان سوالات میں سے ایک بطور نمونہ یہ ہے کہ سائل کہتا ہے: میں کوئی طالب علم نہيں ہوں لیکن مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ یہاں وہاں فلسطین، چیچنیا وکشمیر میں ہورہا ہے اس کی وجہ سے بہت غمگین وپریشان ہوں۔ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں آپ کی میرے لیے کیا نصیحت ہے، اور میں کس چیز سے شروع کروں، اور کس طرح جہاد مکمل ہوگا، اور کیا فی زمانہ جہاد واقعی ہو بھی رہا ہے؟
جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/salafee_ulama_mojoda_jihadi_tehreeko_himayat_nahi.pdf
#سلفی #علماء موجودہ جہادی تحریکوں کی حمایت کیوں نہيں کرتے؟ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
#SalafiUrduDawah
#جہاد
#jihad
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ سے سوال ہوا:
سوال: ان دنوں بہت سے نوجوان اس بارے میں سوال کرتے ہيں کہ جو مسلمانوں کے ساتھ یہاں وہاں حالت زار ہورہی ہے فلسطین، کشمیر وچیچنیا میں تو کیا ہمارے لیے وہاں جہاد کرنا مشروع ہے یا نہیں؟ ان سوالات میں سے ایک بطور نمونہ یہ ہے کہ سائل کہتا ہے: میں کوئی طالب علم نہيں ہوں لیکن مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ یہاں وہاں فلسطین، چیچنیا وکشمیر میں ہورہا ہے اس کی وجہ سے بہت غمگین وپریشان ہوں۔ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں آپ کی میرے لیے کیا نصیحت ہے، اور میں کس چیز سے شروع کروں، اور کس طرح جہاد مکمل ہوگا، اور کیا فی زمانہ جہاد واقعی ہو بھی رہا ہے؟
جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/salafee_ulama_mojoda_jihadi_tehreeko_himayat_nahi.pdf
[Article] Preceding and opposing the #scholars in Ummah affairs – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
درپیش امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
درپیش امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
[Article] Acknowledgment of few #scholars from Arab and subcontinent - Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
عرب و برصغیر کے بعض #علماء کرام کا تذکرہ
فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
(محدث دیار شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة الهدى والنور 301۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/arab_barr_e_sagheer_baaz_ulamaa_tazkirah.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:اس زمانے میں علماء، فقہاء و مجتہدین میں سے آپ کن کو جانتے ہیں؟
جواب: میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ شیخ ابن باز (اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے ذریعے مسلمانوں کو نفع پہنچائے)([1]) بہت سے مسائل میں اجتہاد کرتے ہيں، اگرچہ ہم جانتے ہيں کہ وہ حنبلی المذہب ہیں اور کسی بھی مذہب کے پڑھنے والی کی طبیعت کچھ یوں ہوتی ہے کہ جب وہ اسی پر تربیت پاتا ہے، پھر وہ متنبہ ہوتا ہے بعض ایسے مسائل کے موجود ہونے پر کہ جو شرعی دلائل کے مخالف ہوتے ہيں، لیکن اس کا یہ متنبہ ہونا ایک عرصے کے بعد ہوتا ہے، لہذا اس سبب سے یعنی دلیل کی اتباع کرتے ہوئے اس کی اس تنبیہ یا مذہب کی مخالفت کرلینا دو باتوں پر دلالت کرتا ہے:
پہلی بات: کہ وہ اجتہاد کرتا ہے مقلد نہيں۔
دوسری بات: جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا تھا اس اجتہاد کا تناسب بہت کم ہوتا ہے([2])۔
پھر ان کے ساتھ فاضل شیخ ابن عثیمین کا بھی اضافہ کرلیں، آپ بھی افاضل سعودی علماء میں سے ہيں کہ جن کے بارے میں ہم یہی گمان کرتے ہيں کہ اگر ان کے سامنے کتاب وسنت سے ثابت شدہ دلائل کے ساتھ حقیقت سامنے آتی ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ہيں، بلاشبہ وہ ایسا نہيں کرتے جیسے دوسروں لوگ کرتے ہيں کہ اپنے اس مذہب پر جمود اختیار کرتے ہيں کہ جس پر وہ رہتے آئے ہيں، بلکہ یہ دلیل کی پیروی کرتے ہیں۔
لیکن ان کے تعلق سے بھی اس کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔
یعنی جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ افسوس مجھے اتنوں کا معلوم نہیں (یعنی مجتہدین کا) یا تو جن کے بارے میں سوال کیا گیا (یعنی مجتہدین علماء) ان کے قلت وجود کی وجہ سے یا میرے حافظے کی کمزوری کی وجہ سے یا پھر میرے تنگ علمی دائرے کی وجہ سے کہ اس قسم کی شخصیات کا وجود ملک کے اکناف و اطراف میں ہو۔لہذا میں اپنے حافظے کو کمزور پاتا ہوں کہ ان دو فاضل شخصیات جیسی کوئی دیگر مثالیں یا نمونے پیش کروں۔
البتہ میں یہ یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آجکل کہا جاتا ہے کہ ایک علمی بیداری کی لہر اٹھی ہے کہ جو اس بات کی جانب رہنمائی کرتی ہے کہ ہمیں ضرور کتاب وسنت اور جس چیز پر سلف صالحین تھے کے شرعی دلائل کی جانب رجوع کرنا چاہیے اور کسی مذہب پر جمود اختیار نہيں کرنا چاہیے۔لہذا ان جیسے بہت سے نمونے بہت سے اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہيں سعودی میں، کویت، امارات میں اور خاص کر پاک و ہندمیں، اگرچہ وہ اتنے مشہور نہ بھی ہوئے ہوں یعنی ان میں سے وہ علمی شعبے میں مستقل طور پر ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ لیکن بلاشبہ پاکستان میں اور ہندوستان کے مسلم علاقوں میں ایک بڑی جماعت یا گروہ پایا جاتا ہے جو علماء حدیث کہلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے درحقیقت ان ممالک میں عمل بالحدیث کے منہج کو نشر کیا، بلکہ کبھی تو ان کی دعوت دیگر اسلامی ممالک تک سرایت کرگئی۔ چناچہ انہوں نے عمل بالحدیث اور مذاہب کی عدم تقلید کو نشر کیا خصوصاً ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں غالب ترین مذہب یعنی مذہب حنفی (کی عدم تقلید)۔لہذا ان ممالک میں ایک مستقل مذہب مذہب اہل حدیث بن گیا۔ اور اس جماعت کو مذہب اہل حدیث کہاگیا۔
لیکن ہم اس زمانے میں ان (اہل حدیثوں) میں ایسے علماء نہيں جانتے کہ جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جائے کہ وہ خود محنت و اجتہاد کرتے ہیں اور (اور اپنے سے پہلوں کی) تقلید نہيں کرتے۔ البتہ ہم بعض ایسے علمی آثار پاتے ہیں کہ جو ان علماء اہل حدیث میں سے بعض چھوڑ گئے ہيں کہ ان کے یہ آثار اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ وہ ایک بلند علمی درجے پر تھے اور تقلید سے دور تھے۔ مثال کے طور پر شمس الدین، کیا نام تھا؟
سائل: عبدالحق آبادی۔
شیخ: عبدالحق آبادی(شیخ کی مراد صاحب عون المعبود شرح سنن ابی داود شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ہیں) اور تحفہ الاحوذی (شرح جامع الترمذی) والے (یعنی شیخ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ۔ یعنی ان کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ کتاب وسنت پر عمل کرنے کے منہج کو نشر کرنے اور مذہب کی اتباع سے روکنے میں ان کے احسانات ہیں۔ یا جیسا میں نے شاعر کا قول ذکر کیا کہ:
”وكانوا إذا عدوا قليلا فصاروا اليوم أقل من القليل“
(جب انہيں گننے پر آئیں تو قلیل نکلتے ہيں اور آج تو یہ اقل القلیل ہوگئے ہیں)۔
عرب و برصغیر کے بعض #علماء کرام کا تذکرہ
فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
(محدث دیار شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة الهدى والنور 301۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/arab_barr_e_sagheer_baaz_ulamaa_tazkirah.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:اس زمانے میں علماء، فقہاء و مجتہدین میں سے آپ کن کو جانتے ہیں؟
جواب: میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ شیخ ابن باز (اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے ذریعے مسلمانوں کو نفع پہنچائے)([1]) بہت سے مسائل میں اجتہاد کرتے ہيں، اگرچہ ہم جانتے ہيں کہ وہ حنبلی المذہب ہیں اور کسی بھی مذہب کے پڑھنے والی کی طبیعت کچھ یوں ہوتی ہے کہ جب وہ اسی پر تربیت پاتا ہے، پھر وہ متنبہ ہوتا ہے بعض ایسے مسائل کے موجود ہونے پر کہ جو شرعی دلائل کے مخالف ہوتے ہيں، لیکن اس کا یہ متنبہ ہونا ایک عرصے کے بعد ہوتا ہے، لہذا اس سبب سے یعنی دلیل کی اتباع کرتے ہوئے اس کی اس تنبیہ یا مذہب کی مخالفت کرلینا دو باتوں پر دلالت کرتا ہے:
پہلی بات: کہ وہ اجتہاد کرتا ہے مقلد نہيں۔
دوسری بات: جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا تھا اس اجتہاد کا تناسب بہت کم ہوتا ہے([2])۔
پھر ان کے ساتھ فاضل شیخ ابن عثیمین کا بھی اضافہ کرلیں، آپ بھی افاضل سعودی علماء میں سے ہيں کہ جن کے بارے میں ہم یہی گمان کرتے ہيں کہ اگر ان کے سامنے کتاب وسنت سے ثابت شدہ دلائل کے ساتھ حقیقت سامنے آتی ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ہيں، بلاشبہ وہ ایسا نہيں کرتے جیسے دوسروں لوگ کرتے ہيں کہ اپنے اس مذہب پر جمود اختیار کرتے ہيں کہ جس پر وہ رہتے آئے ہيں، بلکہ یہ دلیل کی پیروی کرتے ہیں۔
لیکن ان کے تعلق سے بھی اس کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔
یعنی جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ افسوس مجھے اتنوں کا معلوم نہیں (یعنی مجتہدین کا) یا تو جن کے بارے میں سوال کیا گیا (یعنی مجتہدین علماء) ان کے قلت وجود کی وجہ سے یا میرے حافظے کی کمزوری کی وجہ سے یا پھر میرے تنگ علمی دائرے کی وجہ سے کہ اس قسم کی شخصیات کا وجود ملک کے اکناف و اطراف میں ہو۔لہذا میں اپنے حافظے کو کمزور پاتا ہوں کہ ان دو فاضل شخصیات جیسی کوئی دیگر مثالیں یا نمونے پیش کروں۔
البتہ میں یہ یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آجکل کہا جاتا ہے کہ ایک علمی بیداری کی لہر اٹھی ہے کہ جو اس بات کی جانب رہنمائی کرتی ہے کہ ہمیں ضرور کتاب وسنت اور جس چیز پر سلف صالحین تھے کے شرعی دلائل کی جانب رجوع کرنا چاہیے اور کسی مذہب پر جمود اختیار نہيں کرنا چاہیے۔لہذا ان جیسے بہت سے نمونے بہت سے اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہيں سعودی میں، کویت، امارات میں اور خاص کر پاک و ہندمیں، اگرچہ وہ اتنے مشہور نہ بھی ہوئے ہوں یعنی ان میں سے وہ علمی شعبے میں مستقل طور پر ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ لیکن بلاشبہ پاکستان میں اور ہندوستان کے مسلم علاقوں میں ایک بڑی جماعت یا گروہ پایا جاتا ہے جو علماء حدیث کہلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے درحقیقت ان ممالک میں عمل بالحدیث کے منہج کو نشر کیا، بلکہ کبھی تو ان کی دعوت دیگر اسلامی ممالک تک سرایت کرگئی۔ چناچہ انہوں نے عمل بالحدیث اور مذاہب کی عدم تقلید کو نشر کیا خصوصاً ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں غالب ترین مذہب یعنی مذہب حنفی (کی عدم تقلید)۔لہذا ان ممالک میں ایک مستقل مذہب مذہب اہل حدیث بن گیا۔ اور اس جماعت کو مذہب اہل حدیث کہاگیا۔
لیکن ہم اس زمانے میں ان (اہل حدیثوں) میں ایسے علماء نہيں جانتے کہ جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جائے کہ وہ خود محنت و اجتہاد کرتے ہیں اور (اور اپنے سے پہلوں کی) تقلید نہيں کرتے۔ البتہ ہم بعض ایسے علمی آثار پاتے ہیں کہ جو ان علماء اہل حدیث میں سے بعض چھوڑ گئے ہيں کہ ان کے یہ آثار اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ وہ ایک بلند علمی درجے پر تھے اور تقلید سے دور تھے۔ مثال کے طور پر شمس الدین، کیا نام تھا؟
سائل: عبدالحق آبادی۔
شیخ: عبدالحق آبادی(شیخ کی مراد صاحب عون المعبود شرح سنن ابی داود شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ہیں) اور تحفہ الاحوذی (شرح جامع الترمذی) والے (یعنی شیخ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ۔ یعنی ان کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ کتاب وسنت پر عمل کرنے کے منہج کو نشر کرنے اور مذہب کی اتباع سے روکنے میں ان کے احسانات ہیں۔ یا جیسا میں نے شاعر کا قول ذکر کیا کہ:
”وكانوا إذا عدوا قليلا فصاروا اليوم أقل من القليل“
(جب انہيں گننے پر آئیں تو قلیل نکلتے ہيں اور آج تو یہ اقل القلیل ہوگئے ہیں)۔
[Article] What is the stance of a beginner student regarding the difference between the #scholars? - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
#علماء کرام کے مابین اختلاف میں ابتدائی طالبعلم کیا مؤقف اختیار کرے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 4 ص 76۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:ایک ابتدائی طالبعلم کا اس اختلاف کے تعلق سے کیا مؤقف ہونا چاہیے جو علماء سنت کے مابین ان کے بعض فتاویٰ میں ہوجاتا ہے، خصوصاً جبکہ ان میں سے بعض بعض علماء کے لیے تعصب کرتے ہيں اور یہ انہیں اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ دوسرے عالم کی شان میں تنقیص کرتے ہیں، پس آپ کس طرح نوجوانوں کی اس باب میں رہنمائی فرمائيں گے، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/ulamaa_ikhtilaaf_talib_e_ilm_moaqqaf.pdf
#علماء کرام کے مابین اختلاف میں ابتدائی طالبعلم کیا مؤقف اختیار کرے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 4 ص 76۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:ایک ابتدائی طالبعلم کا اس اختلاف کے تعلق سے کیا مؤقف ہونا چاہیے جو علماء سنت کے مابین ان کے بعض فتاویٰ میں ہوجاتا ہے، خصوصاً جبکہ ان میں سے بعض بعض علماء کے لیے تعصب کرتے ہيں اور یہ انہیں اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ دوسرے عالم کی شان میں تنقیص کرتے ہیں، پس آپ کس طرح نوجوانوں کی اس باب میں رہنمائی فرمائيں گے، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/ulamaa_ikhtilaaf_talib_e_ilm_moaqqaf.pdf
[Urdu Article] Obeying the #scholars and #rulers in good, is the way in which the affairs will improve – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
#علماء اور #امراء کی معروف میں اطاعت کرنے سے ہی حالات میں بہتری آتی ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: حوار مع سماحته في ندوة عقدت بجامع الإمام فيصل بن ترك في الرياض ونشرته جريدة الشرق الأوسط في 4 \ 11 \ 1413 هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ حکمرانوں کی معروف میں اطاعت کی جائے، کیونکہ بلاشبہ اسی کے ذریعے امت کے امور میں بہتری آتی ہے، اورامن واستقرار حاصل ہوتا ہے، اور لوگ فتنوں سے بچ جاتے ہیں۔ اور آپ فضیلۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ولاۃ الامر سے مراد علماء اور امراء وحکام وصاحب سلطنت ہیں۔ اور سماحۃ الشیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ ان کی اطاعت معروف میں ہوگی اللہ عزوجل کی معصیت میں نہيں۔ اور آپ سماحۃ الشیخ نے ساتھ میں یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اس حکمران کی کہ جو معصیت کا حکم کرتا ہے صرف اس معصیت میں اطاعت نہیں ہوگی، لیکن اس کے باوجود رعایا کو یہ حق نہيں کہ وہ اس وجہ سے اس کے خلاف خروج کریں۔ پھر سماحۃ الشیخ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ کب حاکم پر خروج جائز ہوتا ہے کہ جس کا ضابطہ شریعت مطہرہ میں موجود ہے کہ جو رعایا ان کے خلاف نکلی ہو اس کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح برہان ودلیل ہو اس حاکم کے کھلم کھلا کفر کی، ساتھ ہی ان کے پاس اسے تبدیل کرنے کی قدرت وطاقت بھی ہو، پس اگر ان کے پاس قدرت نہ ہو عاجز ہوں، تو پھر انہيں خروج نہيں کرنا چاہیے اگرچہ کفر بواح (کھلم کھلا کفر) ہی کیوں نہ دیکھ لیں۔ کیونکہ اس صورت میں ان کے خروج سے امت میں فساد ہوگا، لوگوں کو نقصان پہنچنے گا اور یہ فتنے کا موجب ہوگا۔ جبکہ یہ ساری باتیں شرعی خروج کے جو مقاصد ومصلحتیں ہیں جیسے لوگوں اور امت کی اصلاح ومنفعت ان کے خلاف ہے ۔ اور سماحۃ الشیخ نے فرمایا کہ اس حالت میں رعایا کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بھرپور نصیحت کرے، حق بات کہے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتی رہے، اس صورت میں وہ برئ الذمہ ہیں۔
اسی طرح جامع الامام فیصل بن ترکی، ریاض میں منعقدہ اس کانفرنس میں کیے گئے سوالات کے جوابات میں شیخ نے حکام کی اطاعت کی اہمیت، لزوم جماعت، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عظیم وعید ان کے لیے جو ناحق حکومت سے بغاوت کریں اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کریں بیان فرمائی۔ ساتھ ہی سماحۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ جو قوانین شریعت کے موافق ہوں تو ان میں کوئی حرج نہيں جیسا کہ ٹریفک وغیرہ اور ایسی چیزوں کے قوانین ہوتے ہیں جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا ہے، اور ان میں شریعت کی مخالفت نہيں ہوتی۔ البتہ جن قوانین میں شریعت کی صریح مخالفت ہوتی ہے تو وہ ٹھیک نہيں، اب جو ان کو حلال سمجھتا ہے یعنی ان شریعت مخالف قوانین کو جن پر علماء کرام کا اجماع ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔
او رجب شیخ سے پوچھا گیا کہ ان شریعت مخالف قوانین کو حلال سمجھنے والے حکام کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا: ہم ان کی معروف میں اطاعت کریں گے معصیت میں نہيں یہاں تک کہ اللہ تعالی کوئی اس کا نعم البدل لے کر آئے۔
اور جب شیخ سے اسلامی منظر عام پر پائی جانے والی موجودہ دور کی مختلف اسلامی جماعتوں سے متعلق پوچھا گیا اور یہ کہ ان میں سے کون سی اتباع کیے جانے کے زیادہ لائق ہے۔ تو شیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ جس جماعت کی اتباع سب پر واجب ہے وہ وہ جماعت ہے کہ جو کتاب وسنت کے منہج پر اور جس چیز پر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے اس پر قائم ہو۔
ساتھ ہی شیخ نے وضاحت فرمائی کہ ان موجودہ جماعتوں میں سے ہر جماعت میں حق وباطل کی آمیزیش پائی جاتی ہے، تو ان کا کہا مانا جائے گا حق بات میں یعنی جس پر کتاب وسنت کی دلیل موجود ہو، جبکہ جو بات دلیل کے خلاف ہوگی تو وہ ان پر رد کردی جائے گی، اور ان سے کہا جائے گاکہ تم نے اس میں غلطی کی ہے۔
اور شیخ کی یہ بھی رائے ہے کہ اس سلسلے میں اہل علم پر یہ عظیم واجب ہے اور ان کا بہت بڑا کردار ہے کہ وہ حق بیان کریں اور ان جماعتوں کا ضرور رد کریں ہر اس بات پر جس میں وہ غلطی پر ہيں، جو ان کی جماعتوں کی تفاصیل جانتے ہیں وہ ایسا کریں۔
#علماء اور #امراء کی معروف میں اطاعت کرنے سے ہی حالات میں بہتری آتی ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: حوار مع سماحته في ندوة عقدت بجامع الإمام فيصل بن ترك في الرياض ونشرته جريدة الشرق الأوسط في 4 \ 11 \ 1413 هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ حکمرانوں کی معروف میں اطاعت کی جائے، کیونکہ بلاشبہ اسی کے ذریعے امت کے امور میں بہتری آتی ہے، اورامن واستقرار حاصل ہوتا ہے، اور لوگ فتنوں سے بچ جاتے ہیں۔ اور آپ فضیلۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ولاۃ الامر سے مراد علماء اور امراء وحکام وصاحب سلطنت ہیں۔ اور سماحۃ الشیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ ان کی اطاعت معروف میں ہوگی اللہ عزوجل کی معصیت میں نہيں۔ اور آپ سماحۃ الشیخ نے ساتھ میں یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اس حکمران کی کہ جو معصیت کا حکم کرتا ہے صرف اس معصیت میں اطاعت نہیں ہوگی، لیکن اس کے باوجود رعایا کو یہ حق نہيں کہ وہ اس وجہ سے اس کے خلاف خروج کریں۔ پھر سماحۃ الشیخ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ کب حاکم پر خروج جائز ہوتا ہے کہ جس کا ضابطہ شریعت مطہرہ میں موجود ہے کہ جو رعایا ان کے خلاف نکلی ہو اس کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح برہان ودلیل ہو اس حاکم کے کھلم کھلا کفر کی، ساتھ ہی ان کے پاس اسے تبدیل کرنے کی قدرت وطاقت بھی ہو، پس اگر ان کے پاس قدرت نہ ہو عاجز ہوں، تو پھر انہيں خروج نہيں کرنا چاہیے اگرچہ کفر بواح (کھلم کھلا کفر) ہی کیوں نہ دیکھ لیں۔ کیونکہ اس صورت میں ان کے خروج سے امت میں فساد ہوگا، لوگوں کو نقصان پہنچنے گا اور یہ فتنے کا موجب ہوگا۔ جبکہ یہ ساری باتیں شرعی خروج کے جو مقاصد ومصلحتیں ہیں جیسے لوگوں اور امت کی اصلاح ومنفعت ان کے خلاف ہے ۔ اور سماحۃ الشیخ نے فرمایا کہ اس حالت میں رعایا کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بھرپور نصیحت کرے، حق بات کہے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتی رہے، اس صورت میں وہ برئ الذمہ ہیں۔
اسی طرح جامع الامام فیصل بن ترکی، ریاض میں منعقدہ اس کانفرنس میں کیے گئے سوالات کے جوابات میں شیخ نے حکام کی اطاعت کی اہمیت، لزوم جماعت، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عظیم وعید ان کے لیے جو ناحق حکومت سے بغاوت کریں اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کریں بیان فرمائی۔ ساتھ ہی سماحۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ جو قوانین شریعت کے موافق ہوں تو ان میں کوئی حرج نہيں جیسا کہ ٹریفک وغیرہ اور ایسی چیزوں کے قوانین ہوتے ہیں جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا ہے، اور ان میں شریعت کی مخالفت نہيں ہوتی۔ البتہ جن قوانین میں شریعت کی صریح مخالفت ہوتی ہے تو وہ ٹھیک نہيں، اب جو ان کو حلال سمجھتا ہے یعنی ان شریعت مخالف قوانین کو جن پر علماء کرام کا اجماع ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔
او رجب شیخ سے پوچھا گیا کہ ان شریعت مخالف قوانین کو حلال سمجھنے والے حکام کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا: ہم ان کی معروف میں اطاعت کریں گے معصیت میں نہيں یہاں تک کہ اللہ تعالی کوئی اس کا نعم البدل لے کر آئے۔
اور جب شیخ سے اسلامی منظر عام پر پائی جانے والی موجودہ دور کی مختلف اسلامی جماعتوں سے متعلق پوچھا گیا اور یہ کہ ان میں سے کون سی اتباع کیے جانے کے زیادہ لائق ہے۔ تو شیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ جس جماعت کی اتباع سب پر واجب ہے وہ وہ جماعت ہے کہ جو کتاب وسنت کے منہج پر اور جس چیز پر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے اس پر قائم ہو۔
ساتھ ہی شیخ نے وضاحت فرمائی کہ ان موجودہ جماعتوں میں سے ہر جماعت میں حق وباطل کی آمیزیش پائی جاتی ہے، تو ان کا کہا مانا جائے گا حق بات میں یعنی جس پر کتاب وسنت کی دلیل موجود ہو، جبکہ جو بات دلیل کے خلاف ہوگی تو وہ ان پر رد کردی جائے گی، اور ان سے کہا جائے گاکہ تم نے اس میں غلطی کی ہے۔
اور شیخ کی یہ بھی رائے ہے کہ اس سلسلے میں اہل علم پر یہ عظیم واجب ہے اور ان کا بہت بڑا کردار ہے کہ وہ حق بیان کریں اور ان جماعتوں کا ضرور رد کریں ہر اس بات پر جس میں وہ غلطی پر ہيں، جو ان کی جماعتوں کی تفاصیل جانتے ہیں وہ ایسا کریں۔