[#SalafiUrduDawah Article] #Virtues and #rulings of the #first_ten_days of #DhilHajjah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
ماہِ #ذوالحج کے #ابتدائی_دس_ایام کی #فضیلت و #احکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ پر موجود حج سے متعلق خطبات جمعہ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/zilhajj_10_din_fazail_ahkam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔ اے مسلمانو! ہم ان دنوں فضیلت والے ایام کے استقبال کی تیاریاں کررہے ہیں یعنی ماہ ذوالحج کا پہلا عشرہ کہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ‘‘([1])
(دنوں میں کوئی بھی دن ایسے نہیں کہ جن میں نیک عمل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہو جتنا ذوالحج کے ان دس دنوں میں، کہا: یا رسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر جہاد پر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کو واپس نہ لایا)۔
پس اے مسلمانو! ذوالحج کے ان دس دنوں میں باکثرت ذکر الہی کرو اور اس کی تکبیر(اللہ اکبر)، تحمید (الحمدللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) پڑھو، تلاوت قرآن، نماز وصدقہ خیرات وغیرہ جیسے اعمال صالحہ بجا لاؤ۔ تاکہ تم ان کاموں کو ادا کرنے والے بن جاؤ کہ جنہیں اللہ تعالی پسند فرماتا ہے۔ ان نیک اعمال میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان ایام میں روزے رکھو کیونکہ روزہ اعمال صالحہ میں افضل ترین ہے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج رضی اللہ عنہن سے روایت ہے کہ:
’’ كَانَ يَصُومُ تِسْعًا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ ‘‘([2])
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالحج کے نو دن روزے رکھتے تھے)۔
کیونکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ‘‘([3])
(ابن آدم کے ہر عمل کا بدلہ دس گنا ہے سوائے روزے کے کیونکہ وہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دوں گا)۔
لیکن اگر کسی کے رمضان کے قضاء روزے باقی ہوں تو وہ نفلی روزوں سے پہلے ان فرض قضاء روزوں سے ابتداء کرے۔ اور اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ رمضان کے روزوں کی قضاء ان دس دنوں میں ادا کردے بہرحال اسے یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ ایک فرض روزہ ادا کررہا ہے۔
یہ بات جان لیں کہ اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص حج ادا نہیں کررہا تو اس کے لیے یہ مشروع ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے میں قربانی ادا کرے، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ (الحج: 28)
(اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)
اسی طرح سے صحیح بخاری ومسلم کی حدیث میں آیا ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
’’والأضحية سنَّة مؤكدة‘‘([4])
(اور قربانی سنت مؤکدہ ہے)۔
لیکن صرف زندہ لوگوں کے لیے جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ آنے والے دلائل سے واضح ہوگا۔
آپ سے جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ اللہ تعالی کی رحمت، نعمت ولطف وکرم میں سے ہے کہ اس نے اسے اپنے بالوں یا ناخنوں یا جلد میں سے کچھ بھی کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بالوں میں سے کچھ تراشے خواہ سر کے بال ہوں یا مونچھوں، بغل یا زیر ناف بال۔ اور نہ ہی اپنے ناخنوں کو تراشے اور نہ ہی اپنی جلد میں سے کچھ تراشے جیسا کہ بعض لوگ اپنی زیریں پشت یا ران کے پچھلے حصے کی جانب سے نوچتے ہیں۔ انہیں نہ توڑے اور نہ نوچے کیونکہ یہ ذوالحج کے ان دس ایام میں حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
اور جان لیں کہ یہ منع کرنا اللہ تعالی کی ہمارے ساتھ رحمت ہے جس پر ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں۔ اس طور پر رحمت ہے کہ ہم حجاج کرام کے ساتھ شعائر حج میں سے بعض اعمال میں مشارکت اختیار کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حجاج کو اپنے سر منڈانا منع ہوتا ہے اسی طرح سے جو قربانی کرتا ہے اسے بھی اپنے
ماہِ #ذوالحج کے #ابتدائی_دس_ایام کی #فضیلت و #احکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ پر موجود حج سے متعلق خطبات جمعہ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/zilhajj_10_din_fazail_ahkam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔ اے مسلمانو! ہم ان دنوں فضیلت والے ایام کے استقبال کی تیاریاں کررہے ہیں یعنی ماہ ذوالحج کا پہلا عشرہ کہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ‘‘([1])
(دنوں میں کوئی بھی دن ایسے نہیں کہ جن میں نیک عمل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہو جتنا ذوالحج کے ان دس دنوں میں، کہا: یا رسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر جہاد پر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کو واپس نہ لایا)۔
پس اے مسلمانو! ذوالحج کے ان دس دنوں میں باکثرت ذکر الہی کرو اور اس کی تکبیر(اللہ اکبر)، تحمید (الحمدللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) پڑھو، تلاوت قرآن، نماز وصدقہ خیرات وغیرہ جیسے اعمال صالحہ بجا لاؤ۔ تاکہ تم ان کاموں کو ادا کرنے والے بن جاؤ کہ جنہیں اللہ تعالی پسند فرماتا ہے۔ ان نیک اعمال میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان ایام میں روزے رکھو کیونکہ روزہ اعمال صالحہ میں افضل ترین ہے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج رضی اللہ عنہن سے روایت ہے کہ:
’’ كَانَ يَصُومُ تِسْعًا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ ‘‘([2])
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالحج کے نو دن روزے رکھتے تھے)۔
کیونکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ‘‘([3])
(ابن آدم کے ہر عمل کا بدلہ دس گنا ہے سوائے روزے کے کیونکہ وہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دوں گا)۔
لیکن اگر کسی کے رمضان کے قضاء روزے باقی ہوں تو وہ نفلی روزوں سے پہلے ان فرض قضاء روزوں سے ابتداء کرے۔ اور اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ رمضان کے روزوں کی قضاء ان دس دنوں میں ادا کردے بہرحال اسے یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ ایک فرض روزہ ادا کررہا ہے۔
یہ بات جان لیں کہ اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص حج ادا نہیں کررہا تو اس کے لیے یہ مشروع ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے میں قربانی ادا کرے، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ (الحج: 28)
(اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)
اسی طرح سے صحیح بخاری ومسلم کی حدیث میں آیا ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
’’والأضحية سنَّة مؤكدة‘‘([4])
(اور قربانی سنت مؤکدہ ہے)۔
لیکن صرف زندہ لوگوں کے لیے جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ آنے والے دلائل سے واضح ہوگا۔
آپ سے جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ اللہ تعالی کی رحمت، نعمت ولطف وکرم میں سے ہے کہ اس نے اسے اپنے بالوں یا ناخنوں یا جلد میں سے کچھ بھی کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بالوں میں سے کچھ تراشے خواہ سر کے بال ہوں یا مونچھوں، بغل یا زیر ناف بال۔ اور نہ ہی اپنے ناخنوں کو تراشے اور نہ ہی اپنی جلد میں سے کچھ تراشے جیسا کہ بعض لوگ اپنی زیریں پشت یا ران کے پچھلے حصے کی جانب سے نوچتے ہیں۔ انہیں نہ توڑے اور نہ نوچے کیونکہ یہ ذوالحج کے ان دس ایام میں حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
اور جان لیں کہ یہ منع کرنا اللہ تعالی کی ہمارے ساتھ رحمت ہے جس پر ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں۔ اس طور پر رحمت ہے کہ ہم حجاج کرام کے ساتھ شعائر حج میں سے بعض اعمال میں مشارکت اختیار کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حجاج کو اپنے سر منڈانا منع ہوتا ہے اسی طرح سے جو قربانی کرتا ہے اسے بھی اپنے
[#SalafiUrduDawah Article] #Virtues of #Muharram ul Haraam – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#محرم الحرام کے #فضائل
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: خطبة الجمعة 27-12-1434هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/muharram_k_fazail.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد الله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه، ونشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، ونشهد أن محمدًا عبده ورسوله، صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه، وسلم تسليما كثيرا، أما بعد:
اے لوگو! اللہ تعالی سے ڈرواس کی ظاہری وباطنی نعمتوں کا شکر ادا کرو۔ آپ پر مسلسل موسمِ خیر سایہ فگن ہورہے ہیں۔ حج کے مہینے ختم نہيں ہوئے کہ فوراً اس کے بعد اللہ کا مہینہ محرم شروع ہوگیا۔ اوراس مہینے کو اللہ تعالی نے بعض خصائص کے ساتھ خاص فرمایا ہے۔
اولاً: یہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس میں اللہ تعالی نے قتال حرام فرمایا ہے، فرمان الہی ہے:
﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾ (التوبۃ: 36)
(بے شک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن سےاس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور ان میں سے چار حرمت والے ہیں)
وہ چار مہینے یہ ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، ماہ محرم اور چوتھا ماہ رجب ہے۔ ان مہینوں میں اللہ تعالی نے قتال حرام قرار دیا ہے تاکہ حجاج ومعتمرین کے حج وعمرہ کے سفر میں امن ہو۔ الحمدللہ جب اسلام آیا تو امن پھیل گیا اور کفار کو شکست ہوئی، اور ہر وقت میں جب بھی اس کے امکان پیدا ہوئےجہاد فی سبیل قائم ہوا ۔
اس مہینے کے فضائل کے تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ‘‘([1])
(رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں)۔
پس اس میں باکثرت روزے رکھنا مستحب ہے اور یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہجری سال کا پہلا مہینہ منتخب فرمایا۔
اس کے فضائل ثابت ہیں۔ اس کے بڑے فضائل میں سے ہے کہ اس میں یوم عاشوراء ہے جس کےبارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ اس دن کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ سیدنا موسی علیہ السلام نے اس روز بطور شکر الہی کے روزہ رکھا تھا کہ جب اللہ تعالی نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تو آپ علیہ السلام نے بطور شکر الہی روزہ رکھا۔ اور ان کے بعد بھی یہود یہ روزہ رکھتے رہے۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے پایا تو دریافت فرمایا: یہ کونسا روزہ ہے جو تم رکھتے ہو؟ کہا: یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو عزت بخشی اور فرعون اور اس کی قوم کو ذلیل کیا۔ اس شکرانے پر سیدنا موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا تو ہم بھی رکھتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ‘‘([2])
(ہم تم سے زیادہ سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے حقدار ہیں)۔
یا فرمایا:
’’نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ‘‘([3])
(ہم سیدنا موسی علیہ السلام کے تم سے زیادہ قریب ہیں)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور امت کو بھی اس روزے کا حکم دیا۔ پس اس دن کا روزہ سنت مؤکدہ بن گیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم یہود کی مخالفت کریں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک دن پہلے بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا یعنی نویں محرم کو۔ اور ایک روایت میں ہےکہ اس کے ایک دن بعد یعنی گیارہویں محرم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ لیکن نویں محرم کا روزہ زیادہ مؤکد ہے۔ پس اس دن کا روزہ انبیاء کرام سیدنا موسی ومحمد علیہما الصلاۃ والسلام کی اقتداء ہے ۔ اور یہ وہ عظیم دن ہے کہ جس میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو سیدنا موسی علیہ السلام کے ہاتھوں عزت بخشی ۔ اور یہ تاقیام قیامت مسلمانوں کے لیے نصرت اور نعمت تصور ہوگی کہ جس کا شکر اس روزے کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔پس یہ روزہ سنت نبویہ مؤکدہ ہے۔ ایک مسلمان نویں محرم اور دسویں محرم جو کہ یوم عاشوراء ہوتا ہے کو روزہ رکھتا ہے ۔ الحمدللہ یہ سنت اس امت میں چلتی آئی ہے لہذا اجروثواب کی طلب اور شکر الہی کے طور پراس روزے کی خاص تاکید ہے۔
انبیاء کرام اور ان کے متبعین کی سنت ہے کہ وہ اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی نصرتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا طریقہ اطاعت بجالانا، روزے رکھنا اور اللہ تعالی کا ذکر وشکر کرنا ہے۔ وہ اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی ان نصرتوں پر بدعات ومنکرات وتقریبات
#محرم الحرام کے #فضائل
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: خطبة الجمعة 27-12-1434هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/muharram_k_fazail.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد الله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه، ونشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، ونشهد أن محمدًا عبده ورسوله، صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه، وسلم تسليما كثيرا، أما بعد:
اے لوگو! اللہ تعالی سے ڈرواس کی ظاہری وباطنی نعمتوں کا شکر ادا کرو۔ آپ پر مسلسل موسمِ خیر سایہ فگن ہورہے ہیں۔ حج کے مہینے ختم نہيں ہوئے کہ فوراً اس کے بعد اللہ کا مہینہ محرم شروع ہوگیا۔ اوراس مہینے کو اللہ تعالی نے بعض خصائص کے ساتھ خاص فرمایا ہے۔
اولاً: یہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس میں اللہ تعالی نے قتال حرام فرمایا ہے، فرمان الہی ہے:
﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾ (التوبۃ: 36)
(بے شک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن سےاس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور ان میں سے چار حرمت والے ہیں)
وہ چار مہینے یہ ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، ماہ محرم اور چوتھا ماہ رجب ہے۔ ان مہینوں میں اللہ تعالی نے قتال حرام قرار دیا ہے تاکہ حجاج ومعتمرین کے حج وعمرہ کے سفر میں امن ہو۔ الحمدللہ جب اسلام آیا تو امن پھیل گیا اور کفار کو شکست ہوئی، اور ہر وقت میں جب بھی اس کے امکان پیدا ہوئےجہاد فی سبیل قائم ہوا ۔
اس مہینے کے فضائل کے تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ‘‘([1])
(رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں)۔
پس اس میں باکثرت روزے رکھنا مستحب ہے اور یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہجری سال کا پہلا مہینہ منتخب فرمایا۔
اس کے فضائل ثابت ہیں۔ اس کے بڑے فضائل میں سے ہے کہ اس میں یوم عاشوراء ہے جس کےبارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ اس دن کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ سیدنا موسی علیہ السلام نے اس روز بطور شکر الہی کے روزہ رکھا تھا کہ جب اللہ تعالی نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تو آپ علیہ السلام نے بطور شکر الہی روزہ رکھا۔ اور ان کے بعد بھی یہود یہ روزہ رکھتے رہے۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے پایا تو دریافت فرمایا: یہ کونسا روزہ ہے جو تم رکھتے ہو؟ کہا: یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو عزت بخشی اور فرعون اور اس کی قوم کو ذلیل کیا۔ اس شکرانے پر سیدنا موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا تو ہم بھی رکھتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ‘‘([2])
(ہم تم سے زیادہ سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے حقدار ہیں)۔
یا فرمایا:
’’نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ‘‘([3])
(ہم سیدنا موسی علیہ السلام کے تم سے زیادہ قریب ہیں)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور امت کو بھی اس روزے کا حکم دیا۔ پس اس دن کا روزہ سنت مؤکدہ بن گیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم یہود کی مخالفت کریں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک دن پہلے بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا یعنی نویں محرم کو۔ اور ایک روایت میں ہےکہ اس کے ایک دن بعد یعنی گیارہویں محرم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ لیکن نویں محرم کا روزہ زیادہ مؤکد ہے۔ پس اس دن کا روزہ انبیاء کرام سیدنا موسی ومحمد علیہما الصلاۃ والسلام کی اقتداء ہے ۔ اور یہ وہ عظیم دن ہے کہ جس میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو سیدنا موسی علیہ السلام کے ہاتھوں عزت بخشی ۔ اور یہ تاقیام قیامت مسلمانوں کے لیے نصرت اور نعمت تصور ہوگی کہ جس کا شکر اس روزے کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔پس یہ روزہ سنت نبویہ مؤکدہ ہے۔ ایک مسلمان نویں محرم اور دسویں محرم جو کہ یوم عاشوراء ہوتا ہے کو روزہ رکھتا ہے ۔ الحمدللہ یہ سنت اس امت میں چلتی آئی ہے لہذا اجروثواب کی طلب اور شکر الہی کے طور پراس روزے کی خاص تاکید ہے۔
انبیاء کرام اور ان کے متبعین کی سنت ہے کہ وہ اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی نصرتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا طریقہ اطاعت بجالانا، روزے رکھنا اور اللہ تعالی کا ذکر وشکر کرنا ہے۔ وہ اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی ان نصرتوں پر بدعات ومنکرات وتقریبات