[#SalafiUrduDawah Article] The Shirk containing poetic verses of famous #Qaseedah_Burdah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قصیدہ_بردہ کے شرکیہ اشعار
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی الشیخ محمد بن صالح العثیمین اعداد وترتیب : اشرف عبدالمقصود 1/126۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/01/qaseeda_burdah_shrikiya_ashaar.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔جب آپ ان میلادی مولویوں اور ان کے پیروکاروں کو دیکھیں گے جو اس قسم کی بدعات (عید میلاد) میں مگن رہتے ہیں تو آپ ان کوپائیں گے کہ بہت سی سنتوں بلکہ فرا ئض وواجبات تک کے تارک ہوں گے۔ بلکہ قطع نظر اس کے ان کی محافل میلاد میں جو غلو ہوتا ہے وہ اس شرک اکبر تک پہنچا ہوا ہوتا ہے جو کہ انسان کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردے۔ یہ تو وہ وہی شرک ہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جن کی محبت کے یہ دعویدار ہیں ) لوگوں سے جنگ کیا کرتے تھے، اور ان کی جان ومال کو حلال سمجھتے تھے۔ ہم ایسی محافل میں اس قسم کی نعتیں سنتے رہتے ہیں کہ جو انسان کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردیں، جیسے بوصیری کا مشہور قصیدہ بردہ (شریف)، جس میں وہ کہتا ہے:
يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به سواك عند حدوث الحادث العمم
إن لم تكن آخذاً يوم المعاد يدي صفحاً وإلا فقل يا زلة القدم
فإن من جودك الدنيا وضرتها ومن علومك علم اللوح والقلم
(اے پوری مخلوق سے زیادہ عزت و شرف والےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشکلات اور حادثات زمانہ میں میرے لئے تیرے سوا کوئی ایسی ذات نہیں جس کی میں پناہ طلب کروں، اگر آپ نے بروزقیامت میری دستگیری نہیں فرمائی تو قدم ڈگمگا جائیں گے،دنیا اورآخرت تیرے ہی جود و سخا کے مظہر میں سے ہے اور لوح و قلم کا علم بھی تیرے ہی علوم کا حصہ ہے)
(اس میں غیراللہ سے استعاذہ (پناہ طلب کرنا )،پکارنا اور دستگیری کی امید رکھنے کے شرک کے علاوہ یہ بھی ہے کہ) اس قسم کے اوصاف سوائے اللہ تعالی کے کسی کے لائق نہیں۔ اور مجھے سخت تعجب ہوتا ہے کہ اس قسم کا کلام ایسے شخص سے کیسے صادر ہوسکتا ہے جو اس کے معنی کو سمجھتا ہو وہ کیسے اپنے لیے یہ روا رکھ سکتا ہے کہ اس قسم کے کلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرے کہ: ’’فإن من جودك الدنيا وضرتها‘‘ ’’من‘‘ تبعیض کے لیے آتا ہے یعنی پوری دنیا آپ کی جودوسخا کا مظہر ہی نہیں بلکہ اس کا محض کچھ حصہ ہے اور ’’وضرتها‘‘ یعنی اور آخرت بھی۔جب دنیا وآخرت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جودوسخاء ہی نہيں بلکہ اس کا محض کچھ حصہ ہے تو پھر اللہ تعالی کے لیے کیا بچا! کوئی چیز بھی باقی نہیں چھوڑی کہ جو دنیا وآخرت میں اللہ تعالی کے لیے ہو۔
اسی طرح سے اس کا یہ کہنا کہ: ’’ومن علومك علم اللوح والقلم‘‘ یہاں بھی لوح وقلم کے علم کو ’’من‘‘ یعنی تبعیض کے ساتھ بیان کیا یعنی یہ علم الہی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کا محض ایک حصہ ہے، نہیں معلوم کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ خطاب کریں گے تو پھر علم میں سے اللہ تعالی کے لیےآخر کیا چھوڑیں گے!
ذرا سنبھلیں، اے مسلمان بھائی! ۔۔۔ اگرآپ واقعی خوف الہی رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہی مقام دیں جو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقرر فرمایا ہے۔۔۔کہ آپ اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو کہیں عبداللہ ورسولہ۔ اور ان کے بارے میں وہی اعتقاد رکھیں جو خود اللہ تعالی نے ان کے زبانی اپنے متعلق کہلوایا ہے:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ﴾ (الانعام: 50)
(آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں (میں داتا نہیں) اور نہ میں غیب جانتا ہوں (میں عالم الغیب نہیں) اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں(میں نوری مخلوق نہیں))
اور جو اس فرمان میں حکم دیا کہ:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ (الجن: 21)
(کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں(میں مختارکل بھی نہیں))
اس پر مزید یہ کہ:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا﴾ (الجن: 22)
(کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ بھی نہیں پا سکتا)
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کا یہ حال ہے کہ جب اللہ تعالی ان کے متعلق کوئی ارادہ فرمالے تو انہیں بھی اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ نہیں۔
#قصیدہ_بردہ کے شرکیہ اشعار
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی الشیخ محمد بن صالح العثیمین اعداد وترتیب : اشرف عبدالمقصود 1/126۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/01/qaseeda_burdah_shrikiya_ashaar.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔جب آپ ان میلادی مولویوں اور ان کے پیروکاروں کو دیکھیں گے جو اس قسم کی بدعات (عید میلاد) میں مگن رہتے ہیں تو آپ ان کوپائیں گے کہ بہت سی سنتوں بلکہ فرا ئض وواجبات تک کے تارک ہوں گے۔ بلکہ قطع نظر اس کے ان کی محافل میلاد میں جو غلو ہوتا ہے وہ اس شرک اکبر تک پہنچا ہوا ہوتا ہے جو کہ انسان کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردے۔ یہ تو وہ وہی شرک ہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جن کی محبت کے یہ دعویدار ہیں ) لوگوں سے جنگ کیا کرتے تھے، اور ان کی جان ومال کو حلال سمجھتے تھے۔ ہم ایسی محافل میں اس قسم کی نعتیں سنتے رہتے ہیں کہ جو انسان کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردیں، جیسے بوصیری کا مشہور قصیدہ بردہ (شریف)، جس میں وہ کہتا ہے:
يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به سواك عند حدوث الحادث العمم
إن لم تكن آخذاً يوم المعاد يدي صفحاً وإلا فقل يا زلة القدم
فإن من جودك الدنيا وضرتها ومن علومك علم اللوح والقلم
(اے پوری مخلوق سے زیادہ عزت و شرف والےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشکلات اور حادثات زمانہ میں میرے لئے تیرے سوا کوئی ایسی ذات نہیں جس کی میں پناہ طلب کروں، اگر آپ نے بروزقیامت میری دستگیری نہیں فرمائی تو قدم ڈگمگا جائیں گے،دنیا اورآخرت تیرے ہی جود و سخا کے مظہر میں سے ہے اور لوح و قلم کا علم بھی تیرے ہی علوم کا حصہ ہے)
(اس میں غیراللہ سے استعاذہ (پناہ طلب کرنا )،پکارنا اور دستگیری کی امید رکھنے کے شرک کے علاوہ یہ بھی ہے کہ) اس قسم کے اوصاف سوائے اللہ تعالی کے کسی کے لائق نہیں۔ اور مجھے سخت تعجب ہوتا ہے کہ اس قسم کا کلام ایسے شخص سے کیسے صادر ہوسکتا ہے جو اس کے معنی کو سمجھتا ہو وہ کیسے اپنے لیے یہ روا رکھ سکتا ہے کہ اس قسم کے کلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرے کہ: ’’فإن من جودك الدنيا وضرتها‘‘ ’’من‘‘ تبعیض کے لیے آتا ہے یعنی پوری دنیا آپ کی جودوسخا کا مظہر ہی نہیں بلکہ اس کا محض کچھ حصہ ہے اور ’’وضرتها‘‘ یعنی اور آخرت بھی۔جب دنیا وآخرت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جودوسخاء ہی نہيں بلکہ اس کا محض کچھ حصہ ہے تو پھر اللہ تعالی کے لیے کیا بچا! کوئی چیز بھی باقی نہیں چھوڑی کہ جو دنیا وآخرت میں اللہ تعالی کے لیے ہو۔
اسی طرح سے اس کا یہ کہنا کہ: ’’ومن علومك علم اللوح والقلم‘‘ یہاں بھی لوح وقلم کے علم کو ’’من‘‘ یعنی تبعیض کے ساتھ بیان کیا یعنی یہ علم الہی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کا محض ایک حصہ ہے، نہیں معلوم کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ خطاب کریں گے تو پھر علم میں سے اللہ تعالی کے لیےآخر کیا چھوڑیں گے!
ذرا سنبھلیں، اے مسلمان بھائی! ۔۔۔ اگرآپ واقعی خوف الہی رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہی مقام دیں جو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقرر فرمایا ہے۔۔۔کہ آپ اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو کہیں عبداللہ ورسولہ۔ اور ان کے بارے میں وہی اعتقاد رکھیں جو خود اللہ تعالی نے ان کے زبانی اپنے متعلق کہلوایا ہے:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ﴾ (الانعام: 50)
(آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں (میں داتا نہیں) اور نہ میں غیب جانتا ہوں (میں عالم الغیب نہیں) اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں(میں نوری مخلوق نہیں))
اور جو اس فرمان میں حکم دیا کہ:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ (الجن: 21)
(کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں(میں مختارکل بھی نہیں))
اس پر مزید یہ کہ:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا﴾ (الجن: 22)
(کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ بھی نہیں پا سکتا)
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کا یہ حال ہے کہ جب اللہ تعالی ان کے متعلق کوئی ارادہ فرمالے تو انہیں بھی اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ نہیں۔