#SalafiUrduDawah
#غیر_اللہ کے نام پر #ذبح و #قربانی کرنا #شرک، #حرام اور #لعنتی_عمل ہے
#ghairullaah k naam par #zibah o #qurbani karna #shirk, #haram aur #lanati_amal hai
#غیر_اللہ کے نام پر #ذبح و #قربانی کرنا #شرک، #حرام اور #لعنتی_عمل ہے
#ghairullaah k naam par #zibah o #qurbani karna #shirk, #haram aur #lanati_amal hai
#SalafiUrduDawah
جس خاص جگہ یا دن #غیر_اللہ کے نام #ذبح و #قربانی و #نذر_ونیاز ہوتی ہے ، وہاں اللہ تعالی کے نام کی بھی نہ کی جائے
jis khas jaga ya din #ghairullaah k naam #zibah o #qurbani o #nazr_o_niyaaz hoti hai, wahan Allaah k naam ki bhi na ki jaye
جس خاص جگہ یا دن #غیر_اللہ کے نام #ذبح و #قربانی و #نذر_ونیاز ہوتی ہے ، وہاں اللہ تعالی کے نام کی بھی نہ کی جائے
jis khas jaga ya din #ghairullaah k naam #zibah o #qurbani o #nazr_o_niyaaz hoti hai, wahan Allaah k naam ki bhi na ki jaye
[#SalafiUrduDawah Article] The proper #legislated_way_of_slaughtering – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کرنے کی صحیح کیفیت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم353 وشريط رقم93
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_sahih_tareeqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کو ذبح کرنے کی صحیح کیفیت کیا ہونی چاہیے؟
جواب: اگر قربانی دنبے یا بکرے کی ہے تو ا س کی صحیح کیفیت یہ ہے کہ اسے بائیں کروٹ لٹا ئے اگر اسے داہنے ہاتھ سے ذبح کرنا ہو اور اگر بائیں ہاتھ سے ذبح کرنا ہو تو اسے داہنی کروٹ لٹا دے، کیونکہ اس سے مقصود چوپائے کو راحت پہنچانا ہے، لہذا جو انسان بائیں ہاتھ سے ذبح کرتا ہو تو وہ اسے راحت نہیں پہنچا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے داہنی کروٹ لٹائے اور ذبح کے وقت اپنے ٹانگ اس کی گردن پر رکھے، اور اپنے بائیں ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑے تاکہ جانور کے حلق کا صحیح اندازہ ہوسکے، پھر قوت کےساتھ اس کی شہ رگ ودرمیانی رگ پر چھری چلائے اور خون بہادے۔
جہاں تک بات ہے جانور کے ہاتھ وپیر کی تو انہیں نہ باندھنا اور آزاد چھوڑ دینا زیادہ احسن ہے کیونکہ یہ جانور کے لیے زیادہ راحت اور ان اعضاء میں سے خون کے اخراج کا زیادہ باعث ہے، کیونکہ خون کا اخراج حرکت کے ساتھ ہوتا ہے، پس یہ افضل ہے([1])۔
اور ذبح کرتے وقت یہ پڑھے: ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، اللَّهُمَّ هَذِهِ عَنِّي وَ عَنْ أَهْلِ بَيْتِي‘‘۔
جبکہ عید کی قربانی کے علاوہ ذبح کرتے وقت یہی طریقۂ کار اپنائے لیکن ذبح کے وقت صرف ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ‘‘ پڑھے۔
[1] البتہ اونٹ کو نحر کرنے کا مسنون طریقہ اس سے قدرے مختلف ہے صحیح بخاری 1712 میں ہے: ’’زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَى عَلَى رَجُلٍ قَدْ أَنَاخَ بَدَنَتَهُ يَنْحَرُهَا، قَالَ: ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (زیاد بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس آئے جس نے اونٹ کو ذبح کرنے کے لیے بٹھا رکھا تھا تو فرمایا: اس کو کھڑا کرکے (ایک) پاؤں باندھ دو، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے)۔ اور صحیح ابی داود 1767 کے الفاظ ہیں: ’’أَنّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْحَابَهُ كَانُوا يَنْحَرُونَ الْبَدَنَةَ مَعْقُولَةَ الْيُسْرَى قَائِمَةً عَلَى مَا بَقِيَ مِنْ قَوَائِمِهَا‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کو اس طرح نحر فرماتے تھے کہ اس کا اگلا بایاں پاؤں باندھ کر اسے کھڑا کردیتےاور وہ اپنے باقی تین پاؤں پر کھڑا رہتا)۔اس کے بعد اس کی گردن اور سینے کے درمیان کےحصے میں خنجر سے مار کر رگیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#ذبح کرنے کی صحیح کیفیت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم353 وشريط رقم93
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_sahih_tareeqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کو ذبح کرنے کی صحیح کیفیت کیا ہونی چاہیے؟
جواب: اگر قربانی دنبے یا بکرے کی ہے تو ا س کی صحیح کیفیت یہ ہے کہ اسے بائیں کروٹ لٹا ئے اگر اسے داہنے ہاتھ سے ذبح کرنا ہو اور اگر بائیں ہاتھ سے ذبح کرنا ہو تو اسے داہنی کروٹ لٹا دے، کیونکہ اس سے مقصود چوپائے کو راحت پہنچانا ہے، لہذا جو انسان بائیں ہاتھ سے ذبح کرتا ہو تو وہ اسے راحت نہیں پہنچا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے داہنی کروٹ لٹائے اور ذبح کے وقت اپنے ٹانگ اس کی گردن پر رکھے، اور اپنے بائیں ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑے تاکہ جانور کے حلق کا صحیح اندازہ ہوسکے، پھر قوت کےساتھ اس کی شہ رگ ودرمیانی رگ پر چھری چلائے اور خون بہادے۔
جہاں تک بات ہے جانور کے ہاتھ وپیر کی تو انہیں نہ باندھنا اور آزاد چھوڑ دینا زیادہ احسن ہے کیونکہ یہ جانور کے لیے زیادہ راحت اور ان اعضاء میں سے خون کے اخراج کا زیادہ باعث ہے، کیونکہ خون کا اخراج حرکت کے ساتھ ہوتا ہے، پس یہ افضل ہے([1])۔
اور ذبح کرتے وقت یہ پڑھے: ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، اللَّهُمَّ هَذِهِ عَنِّي وَ عَنْ أَهْلِ بَيْتِي‘‘۔
جبکہ عید کی قربانی کے علاوہ ذبح کرتے وقت یہی طریقۂ کار اپنائے لیکن ذبح کے وقت صرف ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ‘‘ پڑھے۔
[1] البتہ اونٹ کو نحر کرنے کا مسنون طریقہ اس سے قدرے مختلف ہے صحیح بخاری 1712 میں ہے: ’’زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَى عَلَى رَجُلٍ قَدْ أَنَاخَ بَدَنَتَهُ يَنْحَرُهَا، قَالَ: ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (زیاد بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس آئے جس نے اونٹ کو ذبح کرنے کے لیے بٹھا رکھا تھا تو فرمایا: اس کو کھڑا کرکے (ایک) پاؤں باندھ دو، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے)۔ اور صحیح ابی داود 1767 کے الفاظ ہیں: ’’أَنّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْحَابَهُ كَانُوا يَنْحَرُونَ الْبَدَنَةَ مَعْقُولَةَ الْيُسْرَى قَائِمَةً عَلَى مَا بَقِيَ مِنْ قَوَائِمِهَا‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کو اس طرح نحر فرماتے تھے کہ اس کا اگلا بایاں پاؤں باندھ کر اسے کھڑا کردیتےاور وہ اپنے باقی تین پاؤں پر کھڑا رہتا)۔اس کے بعد اس کی گردن اور سینے کے درمیان کےحصے میں خنجر سے مار کر رگیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Forgot to recite "#Bismillah" at the time of #slaughtering? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کے وقت #بسم_اللہ پڑھنا بھول جانا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى الحرم النبوي/ للإمام العثيمين/ شريط رقم50
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_bismillah_bhol_jana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے؟
جواب: اس شخص کا حکم جو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھے یہ ہے کہ:
اگر اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تو اس کا ذبیحہ اور اس کا یہ فعل حرام ہے۔ اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور وہ گنہگار ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 118)
(پس اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من لم يذبح فلْيذبح على اسم الله‘‘([1])
(جس کسی نے ذبح نہیں کیا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے نام سے ذبح کرے)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهَ، فَكُلُوهُ، إِلا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘([2])
(دانتوں اور ناخنوں کے علاوہ جس چیز (آلے) سے (جانور کا) خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ )۔
اگر ذبح کرنے والا جان بوجھ کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور اس کا ذبیحہ حرام ہے۔
اور اگر وہ بھول سے چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اے ہمارے رب ہمیں نہ پکڑنا اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں)
لیکن پھر بھی اس کا ذبیحہ حرام ہی رہے گا، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
پس اللہ تعالی نے اس میں سے کھانے سے منع فرمادیا ہے جس پر اللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو۔
کیونکہ دو باتیں ہیں ایک تو ذبح کرنا ہے اور دوسرا اس میں سے کھانا ہے۔ ذبح کرنے والا اگر بسم اللہ بھول جائے تو وہ گنہگار نہیں، لیکن کھانے والا کیا اس میں سے کھا لے جس پر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو؟ ہم کہیں گے، نہیں، کیونکہ تمہیں اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
اور اس ذبیحہ پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا۔
لیکن اگر کوئی کھانے والا بھولے سے یا جہالت میں کھالے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ بسم اللہ ذبیحہ اور شکار کے لیے شرط ہے جو کہ بھول اور جہالت سے ساقط نہیں ہوتی۔ اور یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے کہ شروط عمداً، سہواً یا جہلاً کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتیں۔
[1] صحیح مسلم 1961، اورصحیح بخاری 5500 کے الفاظ ہیں: ’’وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ‘‘۔
[2] مستخرج ابو عوانہ 7770، صحیح بخاری 5506، صحیح مسلم 1970، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘۔
#ذبح کے وقت #بسم_اللہ پڑھنا بھول جانا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى الحرم النبوي/ للإمام العثيمين/ شريط رقم50
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_bismillah_bhol_jana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے؟
جواب: اس شخص کا حکم جو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھے یہ ہے کہ:
اگر اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تو اس کا ذبیحہ اور اس کا یہ فعل حرام ہے۔ اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور وہ گنہگار ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 118)
(پس اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من لم يذبح فلْيذبح على اسم الله‘‘([1])
(جس کسی نے ذبح نہیں کیا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے نام سے ذبح کرے)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهَ، فَكُلُوهُ، إِلا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘([2])
(دانتوں اور ناخنوں کے علاوہ جس چیز (آلے) سے (جانور کا) خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ )۔
اگر ذبح کرنے والا جان بوجھ کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور اس کا ذبیحہ حرام ہے۔
اور اگر وہ بھول سے چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اے ہمارے رب ہمیں نہ پکڑنا اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں)
لیکن پھر بھی اس کا ذبیحہ حرام ہی رہے گا، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
پس اللہ تعالی نے اس میں سے کھانے سے منع فرمادیا ہے جس پر اللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو۔
کیونکہ دو باتیں ہیں ایک تو ذبح کرنا ہے اور دوسرا اس میں سے کھانا ہے۔ ذبح کرنے والا اگر بسم اللہ بھول جائے تو وہ گنہگار نہیں، لیکن کھانے والا کیا اس میں سے کھا لے جس پر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو؟ ہم کہیں گے، نہیں، کیونکہ تمہیں اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
اور اس ذبیحہ پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا۔
لیکن اگر کوئی کھانے والا بھولے سے یا جہالت میں کھالے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ بسم اللہ ذبیحہ اور شکار کے لیے شرط ہے جو کہ بھول اور جہالت سے ساقط نہیں ہوتی۔ اور یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے کہ شروط عمداً، سہواً یا جہلاً کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتیں۔
[1] صحیح مسلم 1961، اورصحیح بخاری 5500 کے الفاظ ہیں: ’’وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ‘‘۔
[2] مستخرج ابو عوانہ 7770، صحیح بخاری 5506، صحیح مسلم 1970، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘۔
[#SalafiUrduDawah Article] Meaning of the #Dua that is pronounced whilst #slaughtering – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کرنے کی #دعاء کا معنی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الشرح الممتع على زاد المستقنِع/ للإمام العثيمين/كتاب المناسك
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_dua_mana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: (قربانی کے وقت) ہماری اس دعاء ’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ‘‘ کا کیا معنی؟
جواب: ’’هَذَا‘‘ (یہ) یہاں ذبح ہونے یا نحر ہونے والے جانور کی طرف اشارہ ہے۔
’’مِنْكَ‘‘ (تیری طرف سے ہے) یعنی تیری عطاء ورزق ہے۔
’’لَكَ‘‘ (تیرے لیے ہے) یعنی عبادتاًو شرعاًاور اخلاص وملکیت کے اعتبار سے تیرے لیے ہے۔
یعنی یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے کہ اسی نے یہ نعمت ہمیں عطاء فرمائی۔ اور وہی ہے کہ جس نے اس کے ذبح یا نحر کے ذریعہ ہمیں اپنی عبادت بجالانے کا حکم فرمایا۔ پس یہ تقدیر وشریعت دونوں کے اعتبار سے فضل الہی ٹھہرا۔ کیونکہ اگر اللہ تعالی اس جانور کے ذبح یا نحر کرنے کو مشروع نہ فرماتا تو اسے ذبح کرنے یا نحر کرنےکےذریعے اس کا تقرب حاصل کرنا بدعت کہلاتا۔
#ذبح کرنے کی #دعاء کا معنی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الشرح الممتع على زاد المستقنِع/ للإمام العثيمين/كتاب المناسك
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_dua_mana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: (قربانی کے وقت) ہماری اس دعاء ’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ‘‘ کا کیا معنی؟
جواب: ’’هَذَا‘‘ (یہ) یہاں ذبح ہونے یا نحر ہونے والے جانور کی طرف اشارہ ہے۔
’’مِنْكَ‘‘ (تیری طرف سے ہے) یعنی تیری عطاء ورزق ہے۔
’’لَكَ‘‘ (تیرے لیے ہے) یعنی عبادتاًو شرعاًاور اخلاص وملکیت کے اعتبار سے تیرے لیے ہے۔
یعنی یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے کہ اسی نے یہ نعمت ہمیں عطاء فرمائی۔ اور وہی ہے کہ جس نے اس کے ذبح یا نحر کے ذریعہ ہمیں اپنی عبادت بجالانے کا حکم فرمایا۔ پس یہ تقدیر وشریعت دونوں کے اعتبار سے فضل الہی ٹھہرا۔ کیونکہ اگر اللہ تعالی اس جانور کے ذبح یا نحر کرنے کو مشروع نہ فرماتا تو اسے ذبح کرنے یا نحر کرنےکےذریعے اس کا تقرب حاصل کرنا بدعت کہلاتا۔