Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.16K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] #Prohibition_of_exaggeration and neglectfulness in praising #Rasoolullaah صلي الله عليه وآله وسلم – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی #تعریف_میں_افراط_وتفریط کی ممانعت
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/nabi_tareef_afraat_tafreet.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
غلو کہتے ہیں:
’’تجاوز الحد ، يُقالُ : غَلا غُلُوًّا ، إذا تجاوز الحد في القدر‘‘
(حد سے تجاوز کرجانے کو، کوئی شخص جب اندازہ میں حد سے آگے بڑھ جاتا ہے تو اس کے لئے غلو کا لفظ استعمال ہوتا ہے)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لاَ تَغْلُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ﴾ (النساء:171)
(اپنے دین(کی بات) میں حد سے نہ بڑھو)
اور اطراء کہتے ہیں:
’’مجاوزة الحدِّ في المدح ، والكذب فيه‘‘
( کسی کی تعریف میں حد سے آگے بڑھ جانے کو اور اس میں جھوٹ ملانے کو)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی قدرو منزلت کے تعیین میں حد سے تجاوز ہو جائے۔ اس طور پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبدیت و رسالت کے رتبے سے آگے بڑھا دیا جائے اور کچھ الٰہی خصائص و صفات آپ کی طرف منسوب کر دیئے جائیں۔ مثلاً آپ کو مدد کے لئے پکارا جائے، اور اللہ تعالیٰ کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ (فریاد) کی جائے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھائی جائے وغیرہ۔
اسی طرح آپ کے حق میں مبالغہ سے مراد یہ ہے کہ آپ کی مدح و توصیف میں اضافہ کر دیا جائے، اس چیز سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود روک دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([1])
(میری حد سے زیادہ تعریف نہ کیا کرو جیسا کہ نصاری نے ابن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کے بارے میں کہا۔ میں تو بس ایک بندہ ہی ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔
یعنی باطل اوصاف سے میری تعریف نہ کرنا اور میری تعریف میں غلو نہ کرنا جیسا کہ نصاری نے سیدنا عیسٰی علیہ الصلاۃ والسلام کی تعریف میں کیا ہے کہ ان کو الوہیت کے درجہ تک پہنچا دیا، دیکھو تم میری اس طرح تعریف کرو جس طرح کہ میرے رب نے میری تعریف کی ہے۔ لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اللہ کا رسول کہا کرو، یہی وجہ ہے کہ ایک صحابی نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ:
’’أَنْتَ سَيِّدُنَا، فَقَالَ: السَّيِّدُ اللَّهُ‘‘
( آپ ہمارے سید (سردار) ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سید تو اللہ تعالیٰ ہے)
اور جب انہوں نے کہا کہ:
’’أَفْضَلُنَا فَضْلًا وَأَعْظَمُنَا طَوْلًا، فَقَالَ: قُولُوا بِقَوْلِكُمْ أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ‘‘([2])
(ہم میں سے افضل اور سب سے بڑے ہیں درجے کے اعتبار سے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو تم عام طور پر کہتے ہو ویسے ہی کہو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس معاملہ میں شیطان تمہیں اپنا وکیل بنالے)۔
اسی طرح کچھ لوگوں نے آپ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
’’يَا خَيْرَنَا وَابْنَ خَيْرِنَا، وَيَا سَيِّدَنَا وَابْنَ سَيِّدِنَا‘‘
(اے ہم میں کے سب سے بہتر اور ہم میں کے سب سے بہتر کے بیٹے اور ہمارے سردار و ہمارے سردار کے بیٹے !)
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا بِقَوْلِكُمْ وَلا يَسْتَهْوِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ،أَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ مَا أَحَبُّ أَنْ تَرْفَعُونِي فَوْقَ مَنْزِلَتِي الَّتِي أَنْزَلَنِي اللَّهُ‘‘([3])
(اے لوگو! جو تم عام طور پر میرے متعلق کہتے ہو وہی کہو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے، میں محمد ہوں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے اپنی اس قدرو منزلت سے آگے بڑھا دو، جس پر اللہ رب العزت نے مجھے رکھا ہے)۔