[#SalafiUrduDawah Article] Busying #Ummah in #politics instead of calling towards #Tawheed and #rectification – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#امت کو #دعوتِ_توحید واصلاح کے بجائے #سیاسی_عمل میں لگائے رکھنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحيد أولاً يا دعاة الإسلام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/04/dawat_tawheed_islah_bajae_siyasat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لہذا یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اس شدید غربت (اجنبیت) کا جو دور اول میں نہ تھی، بلاشبہ دور اول میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمان صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سےاٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیراللہ کے لئے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اولاً اس مسئلے پر متنبہ ہونا ضروری ہے، ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کردوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!! کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوت حق ہے، جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں ہم عرب ہیں اور قرآن مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے، حالانکہ یاد رکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں، پس اس بات نے انہیں ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی ﷺ کی سنت سے دور کردیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کافہم حاصل اگر کر بھی لیا ہےتب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں، اور انہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کےعقیدے، عبادت، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرناسے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے نہیں یقین کے کہیں ایسےلاکھوں کی تعداد میں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔
تبدیلی کی بنیاد منہج تصفیہ وتربیہ
اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دو اساسی نکتوں پر جو تبدیلی وانقلاب کا قاعدہ ہیں پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ (دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ(اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا) ہیں۔ان دونوں امور کو یکجا کرنا ضروری ہے تصفیہ اور تربیہ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہےجو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اسے بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کرکے سنت صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہیے۔ ایسے بڑے جید علماء کرام ہوسکتا ہے موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے واجب کو ادا کرپائیں۔ تصفیہ کرنا (پاک کرنا) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اس میں در آئی ہےخواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں۔ محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے جڑی ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح وسلیم تربیت کرکے سرفراز ہوسکیں۔ اسی لئے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے۔
چناچہ ان دو اہم باتوں ونکات کو متحقق کرنے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا برے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کی جگہ لے سکتا ہے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو (خفیہ) مشورہ دینے کے ذریعہ یا پھر الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئےشرعی ضوابط کے تحت بطور احسن ظاہر کرنے کے ذریعہ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا ہے اور پہنچا دینے والے کو برئ الذمہ کرتا ہے۔
نصیحت وخیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مشغول کریں جو انہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد، عبادت، سلوک اور معاملات کی تصحیح،ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ وتربیہ کو تمام کے تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی امید رکھتے ہیں! ہم تو یہ بات نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں، کیونکہ ایسا ہوجانا تو محال ہے؛ اس لئے بھی کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ ﴾ (ھود: 118)
(اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنادیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے)
البتہ ان لوگوں پر ہمارے رب تعالی کا یہ
#امت کو #دعوتِ_توحید واصلاح کے بجائے #سیاسی_عمل میں لگائے رکھنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحيد أولاً يا دعاة الإسلام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/04/dawat_tawheed_islah_bajae_siyasat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لہذا یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اس شدید غربت (اجنبیت) کا جو دور اول میں نہ تھی، بلاشبہ دور اول میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمان صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سےاٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیراللہ کے لئے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اولاً اس مسئلے پر متنبہ ہونا ضروری ہے، ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کردوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!! کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوت حق ہے، جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں ہم عرب ہیں اور قرآن مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے، حالانکہ یاد رکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں، پس اس بات نے انہیں ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی ﷺ کی سنت سے دور کردیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کافہم حاصل اگر کر بھی لیا ہےتب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں، اور انہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کےعقیدے، عبادت، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرناسے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے نہیں یقین کے کہیں ایسےلاکھوں کی تعداد میں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔
تبدیلی کی بنیاد منہج تصفیہ وتربیہ
اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دو اساسی نکتوں پر جو تبدیلی وانقلاب کا قاعدہ ہیں پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ (دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ(اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا) ہیں۔ان دونوں امور کو یکجا کرنا ضروری ہے تصفیہ اور تربیہ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہےجو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اسے بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کرکے سنت صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہیے۔ ایسے بڑے جید علماء کرام ہوسکتا ہے موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے واجب کو ادا کرپائیں۔ تصفیہ کرنا (پاک کرنا) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اس میں در آئی ہےخواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں۔ محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے جڑی ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح وسلیم تربیت کرکے سرفراز ہوسکیں۔ اسی لئے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے۔
چناچہ ان دو اہم باتوں ونکات کو متحقق کرنے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا برے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کی جگہ لے سکتا ہے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو (خفیہ) مشورہ دینے کے ذریعہ یا پھر الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئےشرعی ضوابط کے تحت بطور احسن ظاہر کرنے کے ذریعہ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا ہے اور پہنچا دینے والے کو برئ الذمہ کرتا ہے۔
نصیحت وخیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مشغول کریں جو انہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد، عبادت، سلوک اور معاملات کی تصحیح،ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ وتربیہ کو تمام کے تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی امید رکھتے ہیں! ہم تو یہ بات نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں، کیونکہ ایسا ہوجانا تو محال ہے؛ اس لئے بھی کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ ﴾ (ھود: 118)
(اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنادیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے)
البتہ ان لوگوں پر ہمارے رب تعالی کا یہ
[#SalafiUrduDawah Article] #Deviated_claim that speaking on #Tawheed_ul_Asmaa_was_Sifaat #divides_the_Ummah – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
#گمراہ_کن_دعوی کہ #توحید_اسماء_وصفات بیان کرنے سے #امت_میں_تفرقہ ہوتا ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ ابن باز کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی 1741۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/02/gumrah_dawa_asma_sifat_tawheed_tafriqa_ummah_sabab.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک گروہ ہے جو دعوتِ اسلام کی طرف منسوب ہوتا ہےوہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ توحید اسماء وصفات کو بیان نہيں کرنا چاہیے اس دعوے کے ساتھ کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کو جو ان پر زیادہ اہم واجب ہے یعنی جہادِ اسلامی سے مشغول کردیتا ہے، اس نظریے کی صحت کہاں تک درست ہے؟
جواب:یہ نظریہ غلط ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب کریم میں اپنے اسماء وصفات کو واضح فرمایا ہے اور ان کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ مومنین انہيں جان لیں اور ان ناموں اور صفات سے اللہ تعالی کو موسوم وموصوف کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تواتر کے ساتھ احادیث آئی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے خطبات میں اور صحابہ کے ساتھ بات کرنے میں اللہ تعالی کے اسماء وصفات ذکر کرتے تھے اور ان اسماء وصفات کے ساتھ اللہ تعالی کی ثناء بیان کرتے اور اس پر دوسروں کو بھی ابھارتے۔
پس اہل علم وایمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات کو زیادہ سے زیادہ نشر کریں، انہیں اپنے خطبات، تألیفات، وعظ ونصیحت میں ضرور ذکر کریں۔ کیونکہ انہی کے ذریعے تو اللہ تعالی کی پہچان ہوتی ہے اور اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس سے غفلت یا اعراض کرنا اس دعوے کے ساتھ کہ بعض عوام پر معاملہ خلط ملط ہوجائے گا یا بعض اہل بدعت عوام میں تشویش پھیلائیں گے جائز نہیں۔ بلکہ واجب ہے اس شبہہ کا ازالہ کیا جائے اور کا بطلان واضح کیاجائے۔ اور یہ بیان کرنا بھی واجب ہے کہ ہم اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر اس کی شایان شان ایمان لائیں ، نہ اس میں تحریف کریں، نہ تعطیل(انکار)، نہ تکییف (کیفیت بیان کرنا) اور نہ تمثیل(مماثلت بیان کرنا) یہاں تک کہ جاہل کو اس بارے میں حکم معلوم ہوجائے، اور یہاں تک کہ یہ بدعتی لوگ اپنے حد میں رہیں اور ان پر حجت تمام ہوجائے۔
اہل سنت والجماعت نے اپنی کتب میں یہ بات بیان کی ہے کہ مسلمانوں پر خصوصاً اہل علم پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کی صفات سے متعلق آیات و احادیث کو جیسے وہ آئی ہیں اسی طرح سے مانیں، نہ اس کی تأویل کریں نہ ہی تکییف بلکہ واجب ہے کہ جیسی وارد ہوئی ہیں ایسے ہی ایمان لایا جائے۔ اس ایمان کے ساتھ کہ یہ برحق ہیں اور یہ اللہ تعالی کی صفات اور اس کے اسماء ہیں۔ ان کا جو بھی معنی ہے وہ حق ہے وہ واقعی اس کے ساتھ حقیقت میں موصوف ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔جیسا کہ الرحمن، الرحیم، العزیز، الحکیم، القدیر، السمیع اور البصیر وغیرہ۔
واجب ہے کہ یہ جیسے آئی ہیں ویسے ہی ان پر ایمان لایا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالی کے مثل، اس کے مشابہ، اس کی ہمسری کرنے والا کوئی نہیں لیکن ہم اس کی صفات کی کیفیت بیان نہيں کرتے کیونکہ اس کی حقیقی کیفیت اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیساکہ اللہ تعالی کی ذات دیگر ذاتوں کے مشابہ نہیں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہیں اسی طرح سے اللہ تعالی کی صفات میں بھی کسی سے مشابہت نہيں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہيں۔ لہذا اللہ تعالی کی صفات میں کلام کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس کی ذات میں کلام کرنا، دونوں بالکل برابر ہیں، اِس کو اُس پر قیاس کیا جاسکتاہے۔
یہی بات اہل سنت کہتے آئے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر بعد کے تمام لوگوں تک سب کے سب۔ فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص)
(کہہ دیں وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے)
اور فرمایا:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11)
(اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے)
اور فرمایا:
﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 74)
(پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے)
اورفرمایا:
﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
(اور اللہ تعالی کے لیے ہیں اسماءِ حسنی (اچھے نام)، سو اسے ان کے ساتھ پکارو)
اور اس معنی میں بہت ساری آیات وارد ہیں۔
(مجلة المجاهد ـ السنة الأولى ـ عدد 10 شهر صفر 1410هـ
#گمراہ_کن_دعوی کہ #توحید_اسماء_وصفات بیان کرنے سے #امت_میں_تفرقہ ہوتا ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ ابن باز کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی 1741۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/02/gumrah_dawa_asma_sifat_tawheed_tafriqa_ummah_sabab.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک گروہ ہے جو دعوتِ اسلام کی طرف منسوب ہوتا ہےوہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ توحید اسماء وصفات کو بیان نہيں کرنا چاہیے اس دعوے کے ساتھ کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کو جو ان پر زیادہ اہم واجب ہے یعنی جہادِ اسلامی سے مشغول کردیتا ہے، اس نظریے کی صحت کہاں تک درست ہے؟
جواب:یہ نظریہ غلط ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب کریم میں اپنے اسماء وصفات کو واضح فرمایا ہے اور ان کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ مومنین انہيں جان لیں اور ان ناموں اور صفات سے اللہ تعالی کو موسوم وموصوف کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تواتر کے ساتھ احادیث آئی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے خطبات میں اور صحابہ کے ساتھ بات کرنے میں اللہ تعالی کے اسماء وصفات ذکر کرتے تھے اور ان اسماء وصفات کے ساتھ اللہ تعالی کی ثناء بیان کرتے اور اس پر دوسروں کو بھی ابھارتے۔
پس اہل علم وایمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات کو زیادہ سے زیادہ نشر کریں، انہیں اپنے خطبات، تألیفات، وعظ ونصیحت میں ضرور ذکر کریں۔ کیونکہ انہی کے ذریعے تو اللہ تعالی کی پہچان ہوتی ہے اور اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس سے غفلت یا اعراض کرنا اس دعوے کے ساتھ کہ بعض عوام پر معاملہ خلط ملط ہوجائے گا یا بعض اہل بدعت عوام میں تشویش پھیلائیں گے جائز نہیں۔ بلکہ واجب ہے اس شبہہ کا ازالہ کیا جائے اور کا بطلان واضح کیاجائے۔ اور یہ بیان کرنا بھی واجب ہے کہ ہم اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر اس کی شایان شان ایمان لائیں ، نہ اس میں تحریف کریں، نہ تعطیل(انکار)، نہ تکییف (کیفیت بیان کرنا) اور نہ تمثیل(مماثلت بیان کرنا) یہاں تک کہ جاہل کو اس بارے میں حکم معلوم ہوجائے، اور یہاں تک کہ یہ بدعتی لوگ اپنے حد میں رہیں اور ان پر حجت تمام ہوجائے۔
اہل سنت والجماعت نے اپنی کتب میں یہ بات بیان کی ہے کہ مسلمانوں پر خصوصاً اہل علم پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کی صفات سے متعلق آیات و احادیث کو جیسے وہ آئی ہیں اسی طرح سے مانیں، نہ اس کی تأویل کریں نہ ہی تکییف بلکہ واجب ہے کہ جیسی وارد ہوئی ہیں ایسے ہی ایمان لایا جائے۔ اس ایمان کے ساتھ کہ یہ برحق ہیں اور یہ اللہ تعالی کی صفات اور اس کے اسماء ہیں۔ ان کا جو بھی معنی ہے وہ حق ہے وہ واقعی اس کے ساتھ حقیقت میں موصوف ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔جیسا کہ الرحمن، الرحیم، العزیز، الحکیم، القدیر، السمیع اور البصیر وغیرہ۔
واجب ہے کہ یہ جیسے آئی ہیں ویسے ہی ان پر ایمان لایا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالی کے مثل، اس کے مشابہ، اس کی ہمسری کرنے والا کوئی نہیں لیکن ہم اس کی صفات کی کیفیت بیان نہيں کرتے کیونکہ اس کی حقیقی کیفیت اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیساکہ اللہ تعالی کی ذات دیگر ذاتوں کے مشابہ نہیں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہیں اسی طرح سے اللہ تعالی کی صفات میں بھی کسی سے مشابہت نہيں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہيں۔ لہذا اللہ تعالی کی صفات میں کلام کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس کی ذات میں کلام کرنا، دونوں بالکل برابر ہیں، اِس کو اُس پر قیاس کیا جاسکتاہے۔
یہی بات اہل سنت کہتے آئے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر بعد کے تمام لوگوں تک سب کے سب۔ فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص)
(کہہ دیں وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے)
اور فرمایا:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11)
(اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے)
اور فرمایا:
﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 74)
(پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے)
اورفرمایا:
﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
(اور اللہ تعالی کے لیے ہیں اسماءِ حسنی (اچھے نام)، سو اسے ان کے ساتھ پکارو)
اور اس معنی میں بہت ساری آیات وارد ہیں۔
(مجلة المجاهد ـ السنة الأولى ـ عدد 10 شهر صفر 1410هـ
[Article] Wasting #Tawheed is the reason behind the wasting of the #Ummah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
#امت کے ضائع ہونے کا سبب #توحید کا ضائع ہونا ہے
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: نفحات الهدى والإيمان من مجالس القرآن- المجلس الثاني۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#جہاد
#حماس
#افغانستان
#jihad
#hamas
#afghanistan
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/ummat_zaya_sabab_tawheed_zaya_hona.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
چنانچہ ہم پر واجب ہے کہ ہم توحید کا خصوصی اہتمام کریں اور اللہ کی قسم! یہ امت ضائع نہیں ہوئی اور اس پر دشمن یہود و نصاریٰ اور مجوس اور کمیونسٹ وغیرہ مسلط نہیں ہوئے مگر اسی وجہ سے کہ انہوں نے جب توحید کو ضائع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ ذلت مسلط کر دی، اور اللہ تعالیٰ ان سے ہرگز بھی راضی نہیں ہوگا حتی کہ وہ اپنے دین اسلام ، اس اسلام کی طرف لوٹ آئیں جس پر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے ۔ فرمان نبوی ہے :
’’إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ فِیْ سَبِیلِ اللہِ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ عَنْکُم حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ“([1])
(جب تم بیع عینہ(جو کہ ایک سودی معاملہ ہے) کرنے لگو گے ، اور بیلوں کی دموں کو پکڑ کر اور محض زراعت اور کاشت کاری سے راضی ہوکر بیٹھ جاؤ گے ،اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط فرمائے گا، جو تم پر سے ہرگز بھی نہیں اٹھائے گا یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ)۔
تو اس وقت کیا حال ہو گا جب ان میں سے بہت سے لوگ شرک میں مبتلا ہوں ؟!
آج دنیا میں بہت ساری دعوتیں ہیں لیکن وہ توحید کی جانب دعوت نہیں دیتیں ۔ ہر گروہ اور حزب کا اپنا ہی ایک مبدأ ومنشور ہوتا ہے ، اور اپنا ہی منہج ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے منہج سے اور انبیاءکرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج سے ہٹ کر ہوتا ہے، جس میں وہ اس چیز کے مخالف کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے، اور اپنے اس منہج کے ذریعے سے وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں۔
سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیے آپ پچاس کم ہزار سال تک صرف اور صرف توحید کی جانب دعوت دیتے رہے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ تم سلفی لوگ اہل قبور (یعنی قبر پرستی) کے خلاف لڑتے ہو جب کہ ہم اہل قصور( جو محلات میں یعنی بادشاہ حکمران وغیرہ ہیں ان) کے خلاف برسرپیکار ہیں!! تم (سلفی) تو بس اوثان (جس کی بھی اللہ تعالی کے سواعبادت کی جائے خواہ بت ہو یا مزار وغیرہ) کے خلاف جنگ کرتے ہو! میرے بھائی کیا آپ کی دعوت انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوت سے زیادہ بڑی ہے ! (جو سلفیوں کو یہ طعنہ دیتے ہو)
اسی لیے تو ان کی کوئی مدد اور نصرت نہیں ہوتی، اللہ عزوجل کیا فرماتے ہیں کہ:
﴿وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا، سُـنَّةَ اللّٰهِ…﴾ (الفتح:22-23)
(اگر کافر تم سے لڑیں بھی تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر کوئی اپنا دوست مدد گار نہیں پائیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے)
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اپنے اولیاء جو کہ اہل توحید ہیں ان کے ساتھ رہی ہے ۔ لیکن آج مسلمان ہر جگہ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں آپ کو سوائے شکستوں ، ذلتوں اور عار کے کچھ نہیں دکھے گا ، ان کی مدد و نصرت نہیں ہو رہی ۔چیچنیا میں قتال کیا ، یہاں وہاں انہوں نے قتال کیا ، فلسطین میں ساٹھ سال سے لڑ رہے ہیں مگر آپ کو سوائے ہزیمتوں کے اور ذلت و رسوائی و عار کے کچھ نہیں دکھائی دے گا ، کیوں کہ وہ اس وعدے کے مستحق ہی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کہ:
﴿اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ﴾ (محمد:7)
(اگر تم اللہ کی مدد کرو گے (یعنی اس کے دین اور توحید کی) تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا)
جو وطن پرستی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور وطن پرستی کے لیے لڑتے ہیں اور توحید کو بھول جاتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ ایسوں کی مدد کرے گا ؟!
#امت کے ضائع ہونے کا سبب #توحید کا ضائع ہونا ہے
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: نفحات الهدى والإيمان من مجالس القرآن- المجلس الثاني۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#جہاد
#حماس
#افغانستان
#jihad
#hamas
#afghanistan
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/ummat_zaya_sabab_tawheed_zaya_hona.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
چنانچہ ہم پر واجب ہے کہ ہم توحید کا خصوصی اہتمام کریں اور اللہ کی قسم! یہ امت ضائع نہیں ہوئی اور اس پر دشمن یہود و نصاریٰ اور مجوس اور کمیونسٹ وغیرہ مسلط نہیں ہوئے مگر اسی وجہ سے کہ انہوں نے جب توحید کو ضائع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ ذلت مسلط کر دی، اور اللہ تعالیٰ ان سے ہرگز بھی راضی نہیں ہوگا حتی کہ وہ اپنے دین اسلام ، اس اسلام کی طرف لوٹ آئیں جس پر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے ۔ فرمان نبوی ہے :
’’إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ فِیْ سَبِیلِ اللہِ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ عَنْکُم حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ“([1])
(جب تم بیع عینہ(جو کہ ایک سودی معاملہ ہے) کرنے لگو گے ، اور بیلوں کی دموں کو پکڑ کر اور محض زراعت اور کاشت کاری سے راضی ہوکر بیٹھ جاؤ گے ،اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط فرمائے گا، جو تم پر سے ہرگز بھی نہیں اٹھائے گا یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ)۔
تو اس وقت کیا حال ہو گا جب ان میں سے بہت سے لوگ شرک میں مبتلا ہوں ؟!
آج دنیا میں بہت ساری دعوتیں ہیں لیکن وہ توحید کی جانب دعوت نہیں دیتیں ۔ ہر گروہ اور حزب کا اپنا ہی ایک مبدأ ومنشور ہوتا ہے ، اور اپنا ہی منہج ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے منہج سے اور انبیاءکرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج سے ہٹ کر ہوتا ہے، جس میں وہ اس چیز کے مخالف کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے، اور اپنے اس منہج کے ذریعے سے وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں۔
سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیے آپ پچاس کم ہزار سال تک صرف اور صرف توحید کی جانب دعوت دیتے رہے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ تم سلفی لوگ اہل قبور (یعنی قبر پرستی) کے خلاف لڑتے ہو جب کہ ہم اہل قصور( جو محلات میں یعنی بادشاہ حکمران وغیرہ ہیں ان) کے خلاف برسرپیکار ہیں!! تم (سلفی) تو بس اوثان (جس کی بھی اللہ تعالی کے سواعبادت کی جائے خواہ بت ہو یا مزار وغیرہ) کے خلاف جنگ کرتے ہو! میرے بھائی کیا آپ کی دعوت انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوت سے زیادہ بڑی ہے ! (جو سلفیوں کو یہ طعنہ دیتے ہو)
اسی لیے تو ان کی کوئی مدد اور نصرت نہیں ہوتی، اللہ عزوجل کیا فرماتے ہیں کہ:
﴿وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا، سُـنَّةَ اللّٰهِ…﴾ (الفتح:22-23)
(اگر کافر تم سے لڑیں بھی تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر کوئی اپنا دوست مدد گار نہیں پائیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے)
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اپنے اولیاء جو کہ اہل توحید ہیں ان کے ساتھ رہی ہے ۔ لیکن آج مسلمان ہر جگہ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں آپ کو سوائے شکستوں ، ذلتوں اور عار کے کچھ نہیں دکھے گا ، ان کی مدد و نصرت نہیں ہو رہی ۔چیچنیا میں قتال کیا ، یہاں وہاں انہوں نے قتال کیا ، فلسطین میں ساٹھ سال سے لڑ رہے ہیں مگر آپ کو سوائے ہزیمتوں کے اور ذلت و رسوائی و عار کے کچھ نہیں دکھائی دے گا ، کیوں کہ وہ اس وعدے کے مستحق ہی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کہ:
﴿اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ﴾ (محمد:7)
(اگر تم اللہ کی مدد کرو گے (یعنی اس کے دین اور توحید کی) تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا)
جو وطن پرستی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور وطن پرستی کے لیے لڑتے ہیں اور توحید کو بھول جاتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ ایسوں کی مدد کرے گا ؟!
[Article] Responsibilities of #Muslims in these painful circumstances – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
ان پرالم حالات میں ہماری ذمہ داریاں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ سے لیا گیا۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#امت
#مسلمان
#ummah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/07/puralam_halat_muslims_zimedari.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وقت حاضر میں مسلمان انتہائی پرالم وپرخطر حالات سے دوچار ہیں کہ ہرجانب سے دشمنوں کا ان پر تسلط ہوتا چلا جارہا ہےکہیں افغانستان میں جنگ تو کہیں عراق میں کہیں فلسطین میں جنگ تو کہیں لبنان میں۔ جوکچھ ہم سنتے یا پڑھتے ہیں اپنے خطباء اور قلم کاروں سے وہ بس دشمنوں پر لعنت ملامت کرنا، ان کے جرائم بیان کرنا اور اسی کا شکوہ کرنا ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ امور موجود ہیں، لیکن کیا کافر دشمن اس قسم کی محض چیخ وپکار اور واویلا کرنے سے بھاگ جائے گا!؟
کافر تو شروع زمانے سے ہی اسلام کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا﴾ (البقرۃ: 217)
(وہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کے بس میں ہو تو تمہیں تمہارے دین اسلام سے پھیر دیں)
لیکن کام کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں اور ان کی زیادتیوں کو روکنے کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے!؟
ان پر واجب ہے کہ:
اولاً: دین کے تعلق سےاور اس کے ساتھ تمسک اختیار کرنے کے اعتبارسےاپنی موجودہ صورتحال پر غور کریں ، کیونکہ جو کچھ مصائب کا انہیں سامنا ہے وہ ان کی دین میں کوتاہی کے سبب ہی ہے۔ ایک اثر میں ہے:
’’إِذَا عَصَانِي مَنْ يَعْرِفُنِي سَلَّطْتُ عَلَيْهِ مَنْ لا يَعْرِفُنِي‘‘(1)
(اگر وہ میری نافرمانی کرے جو مجھے جانتا ہے (یعنی مسلمان اور نیکوکار) تو میں اس پر اسے مسلط کردوں گا جو مجھے نہیں جانتا (یعنی کافر اور فاسق وفاجر))۔
بنی اسرائیل کے ساتھ کیا ہوا جب انہوں نے اپنے دین سے لاتعلقی اختیار کی اور زمین میں فساد برپا کیا؛ اللہ تعالی نے ان پر مجوسی کافروں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کے گھروں تک کے اندر گھس کر تباہی مچائی جس کا ذکر اللہ تعالی نے سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں فرمایا۔ اللہ تعالی نے انہیں یہ بھی وعید سنائی کہ اگر تم اپنی اس (نافرمانی والی)حالت میں واپس لوٹو گے تو اللہ تعالی بھی تم پر پھر سے یہ غضب ڈھائیں گے۔ اسی لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی موجودہ صورتحال پر نظر کریں اور ہمارے دین کے تعلق سے ہمارے اعمال میں جو فساد آگیا ہے اس کی اصلاح کریں کیونکہ اللہ تعالی کی سنت تبدیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی کافرمان ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ﴾ (الرعد: 11)
(بے شک کسی قوم کی حالت اللہ تعالی نہیں بدلتے جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے اندر (خرابیاں) ہیں۔ اللہ تعالی جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو وہ بدلا نہیں کرتا، اور سوائے اس کے کوئی ان کا کارساز بھی نہیں ہوتا)
ثانیاً: ہمیں چاہیے کہ ایسی قوت واسباب تیار کریں جس کے ذریعہ ہم اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرسکیں جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم ارشاد فرمایا ہے:
﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ﴾ (الانفال: 60)
(تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ تعالی کے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ تعالی انہیں خوب جانتا ہے)
بہترین فوج، مناسب اسلحہ اور کارگر قوت مدافعت پیدا کرکے یہ تیاری کی جائے۔
ثالثاً: مسلمانوں کے کلمے کو مجتمع کرنا عقیدۂ توحید اور تحکیم شریعت پر، اور اپنے معاملات واخلاق غرض ہر امور میں اسلام کا التزام کرنا، کتاب اللہ کی تحکیم کرنا، نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا، اور اللہ تعالی کی راہ کی طرف علم وبصیرت واخلاص کے ساتھ دعوت دینا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: 103)
(اور تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ بازی نہ کرو)
اور فرمایا:
﴿ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ﴾ (الانفال: 46)
ان پرالم حالات میں ہماری ذمہ داریاں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ سے لیا گیا۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#امت
#مسلمان
#ummah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/07/puralam_halat_muslims_zimedari.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وقت حاضر میں مسلمان انتہائی پرالم وپرخطر حالات سے دوچار ہیں کہ ہرجانب سے دشمنوں کا ان پر تسلط ہوتا چلا جارہا ہےکہیں افغانستان میں جنگ تو کہیں عراق میں کہیں فلسطین میں جنگ تو کہیں لبنان میں۔ جوکچھ ہم سنتے یا پڑھتے ہیں اپنے خطباء اور قلم کاروں سے وہ بس دشمنوں پر لعنت ملامت کرنا، ان کے جرائم بیان کرنا اور اسی کا شکوہ کرنا ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ امور موجود ہیں، لیکن کیا کافر دشمن اس قسم کی محض چیخ وپکار اور واویلا کرنے سے بھاگ جائے گا!؟
کافر تو شروع زمانے سے ہی اسلام کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا﴾ (البقرۃ: 217)
(وہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کے بس میں ہو تو تمہیں تمہارے دین اسلام سے پھیر دیں)
لیکن کام کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں اور ان کی زیادتیوں کو روکنے کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے!؟
ان پر واجب ہے کہ:
اولاً: دین کے تعلق سےاور اس کے ساتھ تمسک اختیار کرنے کے اعتبارسےاپنی موجودہ صورتحال پر غور کریں ، کیونکہ جو کچھ مصائب کا انہیں سامنا ہے وہ ان کی دین میں کوتاہی کے سبب ہی ہے۔ ایک اثر میں ہے:
’’إِذَا عَصَانِي مَنْ يَعْرِفُنِي سَلَّطْتُ عَلَيْهِ مَنْ لا يَعْرِفُنِي‘‘(1)
(اگر وہ میری نافرمانی کرے جو مجھے جانتا ہے (یعنی مسلمان اور نیکوکار) تو میں اس پر اسے مسلط کردوں گا جو مجھے نہیں جانتا (یعنی کافر اور فاسق وفاجر))۔
بنی اسرائیل کے ساتھ کیا ہوا جب انہوں نے اپنے دین سے لاتعلقی اختیار کی اور زمین میں فساد برپا کیا؛ اللہ تعالی نے ان پر مجوسی کافروں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کے گھروں تک کے اندر گھس کر تباہی مچائی جس کا ذکر اللہ تعالی نے سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں فرمایا۔ اللہ تعالی نے انہیں یہ بھی وعید سنائی کہ اگر تم اپنی اس (نافرمانی والی)حالت میں واپس لوٹو گے تو اللہ تعالی بھی تم پر پھر سے یہ غضب ڈھائیں گے۔ اسی لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی موجودہ صورتحال پر نظر کریں اور ہمارے دین کے تعلق سے ہمارے اعمال میں جو فساد آگیا ہے اس کی اصلاح کریں کیونکہ اللہ تعالی کی سنت تبدیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی کافرمان ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ﴾ (الرعد: 11)
(بے شک کسی قوم کی حالت اللہ تعالی نہیں بدلتے جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے اندر (خرابیاں) ہیں۔ اللہ تعالی جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو وہ بدلا نہیں کرتا، اور سوائے اس کے کوئی ان کا کارساز بھی نہیں ہوتا)
ثانیاً: ہمیں چاہیے کہ ایسی قوت واسباب تیار کریں جس کے ذریعہ ہم اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرسکیں جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم ارشاد فرمایا ہے:
﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ﴾ (الانفال: 60)
(تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ تعالی کے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ تعالی انہیں خوب جانتا ہے)
بہترین فوج، مناسب اسلحہ اور کارگر قوت مدافعت پیدا کرکے یہ تیاری کی جائے۔
ثالثاً: مسلمانوں کے کلمے کو مجتمع کرنا عقیدۂ توحید اور تحکیم شریعت پر، اور اپنے معاملات واخلاق غرض ہر امور میں اسلام کا التزام کرنا، کتاب اللہ کی تحکیم کرنا، نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا، اور اللہ تعالی کی راہ کی طرف علم وبصیرت واخلاص کے ساتھ دعوت دینا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: 103)
(اور تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ بازی نہ کرو)
اور فرمایا:
﴿ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ﴾ (الانفال: 46)