[#SalafiUrduDawah Article] Should one only concentrate upon #seeking_knowledge instead of knowing about those who oppose the #Salafee_Manhaj? – Shaykh Ubaid bin Abdullaah #Al_Jabiree
کیا #منہج کے مخالفین کے بارے میں جاننے کے بجائے صرف #طلب_علم پر توجہ دینی چاہیے؟
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 2۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال : بعض لوگ نوجوانوں کو صرف طلب علم کی نصیحت وترغیب دیتے رہتے ہيں ناکہ وہ مختلف گروہوں اور احزاب سے تعلق رکھنے والے (اہل سنت و الجماعت کے) مخالفین کی معرفت حاصل کريں، اور وہ یہ کہتے ہيں کہ: اگر ايک نوجوان صرف علم حاصل کرتا رہے تو عنقريب اسے خود ہی مخالف مناہج کی معرفت ہو جائے گی۔ کيا یہ نوجوانوں کے لئے سلفی منہج کے مخالفین لوگوں کی معرفت کے لئے کافی ہے؟
جواب کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/manhaj_mukhalifeen_marifat_talab_ilm_tawajja.pdf
کیا #منہج کے مخالفین کے بارے میں جاننے کے بجائے صرف #طلب_علم پر توجہ دینی چاہیے؟
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 2۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال : بعض لوگ نوجوانوں کو صرف طلب علم کی نصیحت وترغیب دیتے رہتے ہيں ناکہ وہ مختلف گروہوں اور احزاب سے تعلق رکھنے والے (اہل سنت و الجماعت کے) مخالفین کی معرفت حاصل کريں، اور وہ یہ کہتے ہيں کہ: اگر ايک نوجوان صرف علم حاصل کرتا رہے تو عنقريب اسے خود ہی مخالف مناہج کی معرفت ہو جائے گی۔ کيا یہ نوجوانوں کے لئے سلفی منہج کے مخالفین لوگوں کی معرفت کے لئے کافی ہے؟
جواب کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/manhaj_mukhalifeen_marifat_talab_ilm_tawajja.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] How to Deal with ill-treating #father? - Shaykh Ubaid bin Abdullaah #Al_Jabiree
بدخلق #باپ سے کیسے معاملہ کیا جائے؟
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/05/badkhulq_baap_say_muamla.pdf
﷽
اس سائلہ بہن کا سوال طویل ہے مگرخلاصہ یہ ہے کہ:
ان کی والدہ فوت ہوچکی ہیں۔ یہ اور ان کی دیگر بہنیں اپنے باپ اور اس کی بیوی کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں۔ ان کے والد کے عادات واطوار عجیب وغریب ہیں اور وہ ان پر باکثرت بددعاء بھی کرتا رہتا ہے۔ دعاء کرتا ہے کہ ان کی کبھی شادیاں ہی نہ ہوں۔ اور ان کی جانب سے کی گئی حسن سلوکی تک کو قبول نہیں کرتا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہماری زندگی اجیرن ہوگئی ہے پس ایسے والد کا کیا حل ہے؟ کیونکہ وہ ان کی جانب سے حسن سلوکی تک کرنے سے منع کردیتا ہے اور کوئی تحفہ تک ان سے قبول نہیں کرتا۔
جواب: اگر آپ اس بات کی استطاعت رکھتی ہیں کہ انہيں خفیہ طور پر نرمی سے نصیحت کریں جو صرف آپ کے اور ان کے درمیان ہو ان دلائل کے ساتھ جو آپ کو یاد ہوں اور ظلم سے ڈرائیں تو ایسا کرگزریں۔ اور اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتیں تو آپ اس کی مکلف نہیں ہیں۔ پھر اپنی بہنوں کی طرف بھی ذرا نظر کریں کیا ان کا رویہ تو والد کے ظلم کی وجہ نہیں بن رہا اگر ایسا ہے تو ان سب کو اللہ تعالی کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور والد کو بھی ان کی توبہ قبول کرلینی چاہیے۔
لیکن اگر وہ محض ظلم وعدوان کے طور پر ایسا کرتا ہے تو وہ اس کے اور اس کے رب کے مابین ہے۔ جسے مظلوم کی بددعاء اور آہ لگ سکتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ‘‘([1])
(مظلوم کی بددعاء سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا)۔
یہ حکم عام ہےکہ:”مظلوم کی بددعاء سے بچو“۔ چاہے والد ہو یا اولاد۔ کیونکہ والد تک کہ لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی اولاد پر ظلم کرے۔ ظلم حرام ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے:
’’يَا عِبَادِي: إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا‘‘([2])
(اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے نفس پر حرام کردیاہے اور تمہارے مابین بھی اسے حرام قرار دیا ہے پس آپس میں ظلم نہ کرو)۔
اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے:
’’اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘([3])
(ظلم سے بچو کیونکہ ظلم بروز قیامت اندھیریوں کا باعث ہوگا)۔
[1] صحیح بخاری 1496۔
[2] صحیح مسلم 2580۔
[3] صحیح مسلم 2581۔
بدخلق #باپ سے کیسے معاملہ کیا جائے؟
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/05/badkhulq_baap_say_muamla.pdf
﷽
اس سائلہ بہن کا سوال طویل ہے مگرخلاصہ یہ ہے کہ:
ان کی والدہ فوت ہوچکی ہیں۔ یہ اور ان کی دیگر بہنیں اپنے باپ اور اس کی بیوی کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں۔ ان کے والد کے عادات واطوار عجیب وغریب ہیں اور وہ ان پر باکثرت بددعاء بھی کرتا رہتا ہے۔ دعاء کرتا ہے کہ ان کی کبھی شادیاں ہی نہ ہوں۔ اور ان کی جانب سے کی گئی حسن سلوکی تک کو قبول نہیں کرتا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہماری زندگی اجیرن ہوگئی ہے پس ایسے والد کا کیا حل ہے؟ کیونکہ وہ ان کی جانب سے حسن سلوکی تک کرنے سے منع کردیتا ہے اور کوئی تحفہ تک ان سے قبول نہیں کرتا۔
جواب: اگر آپ اس بات کی استطاعت رکھتی ہیں کہ انہيں خفیہ طور پر نرمی سے نصیحت کریں جو صرف آپ کے اور ان کے درمیان ہو ان دلائل کے ساتھ جو آپ کو یاد ہوں اور ظلم سے ڈرائیں تو ایسا کرگزریں۔ اور اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتیں تو آپ اس کی مکلف نہیں ہیں۔ پھر اپنی بہنوں کی طرف بھی ذرا نظر کریں کیا ان کا رویہ تو والد کے ظلم کی وجہ نہیں بن رہا اگر ایسا ہے تو ان سب کو اللہ تعالی کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور والد کو بھی ان کی توبہ قبول کرلینی چاہیے۔
لیکن اگر وہ محض ظلم وعدوان کے طور پر ایسا کرتا ہے تو وہ اس کے اور اس کے رب کے مابین ہے۔ جسے مظلوم کی بددعاء اور آہ لگ سکتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ‘‘([1])
(مظلوم کی بددعاء سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا)۔
یہ حکم عام ہےکہ:”مظلوم کی بددعاء سے بچو“۔ چاہے والد ہو یا اولاد۔ کیونکہ والد تک کہ لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی اولاد پر ظلم کرے۔ ظلم حرام ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے:
’’يَا عِبَادِي: إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا‘‘([2])
(اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے نفس پر حرام کردیاہے اور تمہارے مابین بھی اسے حرام قرار دیا ہے پس آپس میں ظلم نہ کرو)۔
اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے:
’’اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘([3])
(ظلم سے بچو کیونکہ ظلم بروز قیامت اندھیریوں کا باعث ہوگا)۔
[1] صحیح بخاری 1496۔
[2] صحیح مسلم 2580۔
[3] صحیح مسلم 2581۔
[#SalafiUrduDawah Article] The ruling on the one who feels disturbed by his wife attending the #Ulamaa's_Duroos - Shaykh Ubaid bin Abdullaah #Al_Jabiree
بیوی کے #علماءکرام_کے_دروس میں شرکت کرنے سے شوہر کاتنگ دلی کا مظاہرہ کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء: حكم من يستثقل ويتضايق من ذهاب امرأته لدروس العلماء۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/shohar_ka_bv_duroos_shirkat_bezari.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: سائل کہتا ہے: بعض نوجوان ایسی لڑکی سے شادی کرتے ہيں جو علم او راہل علم سے محبت کرتی ہے، لیکن جب وہ ان کے ساتھ علماء کرام کے دروس میں شرکت کرنے کے لیے جانا چاہتی ہےتو وہ تنگ دلی اور بیزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں، بلکہ کبھی تو اپنے قول وفعل سے ایذا ء رسانی تک کرتے ہیں، اس حرکت کا کیا حکم ہے؟ اور ہم آپ سے اس بارے میں توجیہ چاہتے ہیں، جزاکم اللہ خیراً؟
جواب: اس کے مختلف احوال ہيں:
پہلی حالت: اس نے عقد نکاح میں یہ شرط عائد کردی ہو کہ وہ مساجد میں قابل اعتبار وبھروسہ سلفی علماء کرام کے دروس میں شرکت کرے گی تو پھر بیوی کی اس شرط کی وفاء کرنا شوہر پر واجب ہےورنہ نکاح فسخ ہوجائے گا البتہ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنی اس شرط سے دست برداری کرلے، تاکہ اللہ تعالی اس کا بہترین عوض اسے عطاء فرمائے۔
دوسری حالت: اس نے یہ شرط نہ رکھی ہو، تو پھر اس حال میں ان امور کو ہم دیکھیں گے:
پہلا امر: اس کے جانے سے کوئی مصلحت فوت نہ ہوتی ہو، یعنی اگر وہ اس کے ساتھ مسجد گئی تو وہ مصلحت ضائع ہوجائے گی اور فساد اس کی جگہ لے لے گا۔
دوسرا امر: اس کے جانے سے نہ شوہر کو خود کوئی نقصان ہو نہ ہی گھر کو، تو پھر اس پر واجب ہے کہ وہ اسے اجازت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’ لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ‘‘([1])
(اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو)۔
اور ایک روایت میں ہے:
’’إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَأْذَنْ لَهَا‘‘([2])
(اگر تم میں سے کسی کی عورت اس سے مساجد جانے کی اجازت طلب کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اجازت دے دے)۔
آخری حالت: اس کے جانے میں شوہر کے لیے او رخود اس کے لیے خطرہ ہو۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب امن وامان کی کمی ہو یا بالکل ہی ناپید ہو، فاسق وبدقماش لوگ گھات میں بیٹھے ہوتے ہیں، خصوصاً جب مسافت بھی بعید ہو۔ اگر وہ دیکھتے ہیں کسی شخص کو کہ اس کے ساتھ عورت ہے تو انہیں ایذاء پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے، کبھی تو اس شخص کو قتل کرکے اس کی عورت کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں، تو اس حالت میں وہ اسے منع کرے گا۔
[1] صحیح بخاری 900، صحیح مسلم 442۔
[2] صحیح بخاری 5238 کے الفاظ ہیں: ’’إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يَمْنَعْهَا‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
بیوی کے #علماءکرام_کے_دروس میں شرکت کرنے سے شوہر کاتنگ دلی کا مظاہرہ کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء: حكم من يستثقل ويتضايق من ذهاب امرأته لدروس العلماء۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/shohar_ka_bv_duroos_shirkat_bezari.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: سائل کہتا ہے: بعض نوجوان ایسی لڑکی سے شادی کرتے ہيں جو علم او راہل علم سے محبت کرتی ہے، لیکن جب وہ ان کے ساتھ علماء کرام کے دروس میں شرکت کرنے کے لیے جانا چاہتی ہےتو وہ تنگ دلی اور بیزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں، بلکہ کبھی تو اپنے قول وفعل سے ایذا ء رسانی تک کرتے ہیں، اس حرکت کا کیا حکم ہے؟ اور ہم آپ سے اس بارے میں توجیہ چاہتے ہیں، جزاکم اللہ خیراً؟
جواب: اس کے مختلف احوال ہيں:
پہلی حالت: اس نے عقد نکاح میں یہ شرط عائد کردی ہو کہ وہ مساجد میں قابل اعتبار وبھروسہ سلفی علماء کرام کے دروس میں شرکت کرے گی تو پھر بیوی کی اس شرط کی وفاء کرنا شوہر پر واجب ہےورنہ نکاح فسخ ہوجائے گا البتہ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنی اس شرط سے دست برداری کرلے، تاکہ اللہ تعالی اس کا بہترین عوض اسے عطاء فرمائے۔
دوسری حالت: اس نے یہ شرط نہ رکھی ہو، تو پھر اس حال میں ان امور کو ہم دیکھیں گے:
پہلا امر: اس کے جانے سے کوئی مصلحت فوت نہ ہوتی ہو، یعنی اگر وہ اس کے ساتھ مسجد گئی تو وہ مصلحت ضائع ہوجائے گی اور فساد اس کی جگہ لے لے گا۔
دوسرا امر: اس کے جانے سے نہ شوہر کو خود کوئی نقصان ہو نہ ہی گھر کو، تو پھر اس پر واجب ہے کہ وہ اسے اجازت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’ لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ‘‘([1])
(اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو)۔
اور ایک روایت میں ہے:
’’إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَأْذَنْ لَهَا‘‘([2])
(اگر تم میں سے کسی کی عورت اس سے مساجد جانے کی اجازت طلب کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اجازت دے دے)۔
آخری حالت: اس کے جانے میں شوہر کے لیے او رخود اس کے لیے خطرہ ہو۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب امن وامان کی کمی ہو یا بالکل ہی ناپید ہو، فاسق وبدقماش لوگ گھات میں بیٹھے ہوتے ہیں، خصوصاً جب مسافت بھی بعید ہو۔ اگر وہ دیکھتے ہیں کسی شخص کو کہ اس کے ساتھ عورت ہے تو انہیں ایذاء پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے، کبھی تو اس شخص کو قتل کرکے اس کی عورت کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں، تو اس حالت میں وہ اسے منع کرے گا۔
[1] صحیح بخاری 900، صحیح مسلم 442۔
[2] صحیح بخاری 5238 کے الفاظ ہیں: ’’إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يَمْنَعْهَا‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
[#SalafiUrduDawah Article] Advice to a wife who is very busy in #seeking_knowledge at the cost of her duties towards her #home - Shaykh Ubaid bin Abdullaah #Al_Jabiree
بیوی کا #گھر_کی_ذمہ داریوں سے بڑھ کر #طلب_علم کو ترجیح دینا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء (زوجته مشغولة بطلب العلم على حساب أعمال البيت؛ ما نصيحتكم لها؟)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/biwi_talab_ilm_ghar_zimedari_kotahi_naseeha.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: جزاکم اللہ خیراً شیخنا، یہ بارہواں سوال ہے۔ سائل مراکش سے کہتا ہے کہ: میری بیوی بہت زیادہ فیس بک، اپنی دوستوں کے ساتھ چیٹنگ اور انٹرنیٹ پر قرآنی حلقات پر مشغول رہتی ہےچاہے اسے گھریلو ذمہ داریوں اور گھر کی صفائی وغیرہ کو ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ جس کی وجہ سے میں کبھی غصہ میں آجاتا ہے اور اسے برا بھلا کہتا ہوں، پھر وہ بھی جھگڑے اور غصے میں اس کا مقابلہ کرتی ہے اور کبھی رو تک پڑتی ہے۔ آپ کی اس کے لیے کیا نصیحت ہے۔ اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے؟ اور اس حال میں مجھے اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟
جواب: ہم نے اپنے علماء کرام سے یہ بات محفوظ کی ہے کہ کسی بھی چیز پر حکم اس چیز کے اصل تصور کی فروع ہے (یعنی جب بالکل حقیقی صورتحال ہمارے سامنے ہوگی جبھی صحیح ترین فتوی دیا جاسکتا ہے ورنہ تو بس اندازہ ہی ہوگا) اور میں آپ کے او راس کے حال کا صحیح تصور کرنے سے قاصر ہوں۔ اور مجھ پر واجب بھی نہیں کہ میں آپ کے اور ان کے حالات کی تحقیق کرتا پھرو۔ البتہ ہاں میں آپ دونوں کو یہ نصیحت او روصیت ضرور کروں گا کہ میانہ روی و اعتدال اختیار کریں۔
آپ کو چاہیے کہ ان کی طلب علم پر حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ان قابل بھروسہ اہل علم کی کتب پڑھیں کہ جو سنت پر قائم ہیں۔ اور اگر ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ مسجد میں منعقد ہونے والے علمی حلقات میں شرکت کریں تو بقدر امکان اس پر بھی ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
جبکہ ان پر واجب ہے کہ وہ آپ کے، اپنی اولاد کے او رگھر کے حقوق میں کوتاہی نہ برتے۔ بلکہ اگر اس کے گھر کے کام، شوہر کی خدمت اور اولاد کے کام کا اس کے درس وغیرہ سے تصادم ہوجائے تو (ان دروس سے) یہ کام زیادہ ضروری اور قابل ترجیح ہیں۔ وباللہ التوفیق۔
بیوی کا #گھر_کی_ذمہ داریوں سے بڑھ کر #طلب_علم کو ترجیح دینا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء (زوجته مشغولة بطلب العلم على حساب أعمال البيت؛ ما نصيحتكم لها؟)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/biwi_talab_ilm_ghar_zimedari_kotahi_naseeha.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: جزاکم اللہ خیراً شیخنا، یہ بارہواں سوال ہے۔ سائل مراکش سے کہتا ہے کہ: میری بیوی بہت زیادہ فیس بک، اپنی دوستوں کے ساتھ چیٹنگ اور انٹرنیٹ پر قرآنی حلقات پر مشغول رہتی ہےچاہے اسے گھریلو ذمہ داریوں اور گھر کی صفائی وغیرہ کو ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ جس کی وجہ سے میں کبھی غصہ میں آجاتا ہے اور اسے برا بھلا کہتا ہوں، پھر وہ بھی جھگڑے اور غصے میں اس کا مقابلہ کرتی ہے اور کبھی رو تک پڑتی ہے۔ آپ کی اس کے لیے کیا نصیحت ہے۔ اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے؟ اور اس حال میں مجھے اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟
جواب: ہم نے اپنے علماء کرام سے یہ بات محفوظ کی ہے کہ کسی بھی چیز پر حکم اس چیز کے اصل تصور کی فروع ہے (یعنی جب بالکل حقیقی صورتحال ہمارے سامنے ہوگی جبھی صحیح ترین فتوی دیا جاسکتا ہے ورنہ تو بس اندازہ ہی ہوگا) اور میں آپ کے او راس کے حال کا صحیح تصور کرنے سے قاصر ہوں۔ اور مجھ پر واجب بھی نہیں کہ میں آپ کے اور ان کے حالات کی تحقیق کرتا پھرو۔ البتہ ہاں میں آپ دونوں کو یہ نصیحت او روصیت ضرور کروں گا کہ میانہ روی و اعتدال اختیار کریں۔
آپ کو چاہیے کہ ان کی طلب علم پر حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ان قابل بھروسہ اہل علم کی کتب پڑھیں کہ جو سنت پر قائم ہیں۔ اور اگر ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ مسجد میں منعقد ہونے والے علمی حلقات میں شرکت کریں تو بقدر امکان اس پر بھی ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
جبکہ ان پر واجب ہے کہ وہ آپ کے، اپنی اولاد کے او رگھر کے حقوق میں کوتاہی نہ برتے۔ بلکہ اگر اس کے گھر کے کام، شوہر کی خدمت اور اولاد کے کام کا اس کے درس وغیرہ سے تصادم ہوجائے تو (ان دروس سے) یہ کام زیادہ ضروری اور قابل ترجیح ہیں۔ وباللہ التوفیق۔