[#SalafiUrduDawah Book] The #correct_Islaamic_creed - Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#صحیح_اسلامی_عقیدہ
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
مصدر: اسی عنوان پر شیخ رحمہ اللہ کی تقریر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی تقریرکا متن
ابتدائی خطبہ
توحید سے متعلق دعوت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مسلمانوں کی اکثریت کلمے کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہیں
عبادت کے صحیح مفہوم سے جہالت
کلمہ گو مشرکین اور قدیم مشرکین میں فرق
مشرکین کا شرک آخر کیا تھا؟
شرک میں ملوث کلمہ گو لوگوں کو کیسے دعوت دی جائے
مسلم معاشروں میں رائج بعض مشہور شرکیہ امور
توحید کی تین اقسام
1- توحید ربوبیت
2- توحید العبادۃ
3- توحید الاسماء والصفات
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/sahih_islaamee_aqeedah.pdf
#صحیح_اسلامی_عقیدہ
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
مصدر: اسی عنوان پر شیخ رحمہ اللہ کی تقریر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی تقریرکا متن
ابتدائی خطبہ
توحید سے متعلق دعوت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مسلمانوں کی اکثریت کلمے کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہیں
عبادت کے صحیح مفہوم سے جہالت
کلمہ گو مشرکین اور قدیم مشرکین میں فرق
مشرکین کا شرک آخر کیا تھا؟
شرک میں ملوث کلمہ گو لوگوں کو کیسے دعوت دی جائے
مسلم معاشروں میں رائج بعض مشہور شرکیہ امور
توحید کی تین اقسام
1- توحید ربوبیت
2- توحید العبادۃ
3- توحید الاسماء والصفات
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/sahih_islaamee_aqeedah.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Specifying the day of #Eid to #visit_graves and relatives – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
زندوں یا #مردوں_کی_زیارت کے لیے #عید کے دن کو مخصوص کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہالمتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ 527۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/zindo_murdo_ziyarat_k_liye_eid_makhsoos.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے سوال ہوا: ہم نے سنا ہے کہ لوگوں کا عید کے روز ایک دوسرے کی زیارت کرنا بدعت ہے۔ امید ہے کہ آپ اس کا حکم بیان فرمائیں گے کہ عید کے روز بھائیوں سے ملنا اور جو کچھ عید پر لوگ کرتے ہیں کیسا ہے؟
جواب: ہم نے کئی بار یہ بات دہرائی ہے لہذا یہاں اس کے تکرار کی ضرورت نہیں البتہ اختصارا ہم بیان کرتےہیں کہ: زندوں کا عید کے دن مردوں کی زیارت کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ شریعت کی جانب سے مطلق چیز کو مقید کرنا ہے۔ شارع حکیم صحیح حدیث میں فرماتے ہیں:
’’كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([1])
(میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، پس اب ان کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان: ’’فَزُورُوهَا‘‘عام ہے۔ اسے کسی خاص زمان ومکان سے مقید کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ نص کو مقید یا مطلق کرنا لوگوں کا وظیفہ نہیں، بلکہ یہ تو رب العالمین کا وظیفہ ہے۔ جس کا مکلف اس نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا ہے، چناچہ فرمایا:
﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾ (النحل: 44)
(یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں)
اگر کوئی مطلق نص مقید ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتادیا اور اگر کوئی عام نص مخصص ہو تو وہ بھی بتادیا۔ اور جس کا نہیں بتایا تو نہیں۔ اس لیے جب یہ کہا کہ: ’’أَلَا فَزُورُوهَا‘‘ (تو ان کی زیارت کیا کرو) یعنی مطلق ہے پورے سال میں۔ اس دن اور کسی اور دن میں کوئی فرق نہیں۔ اور نہ ہی کسی وقت سے مقید ہے کہ صبح ہو یا شام، ظہر ہو، دن ورات وغیرہ۔
اسی طرح سے ہم کہتے ہیں کہ: جیسا کہ زندوں کا عیدکے دن مردوں کی زیارت کرنا خاص بات بن جاتی ہے اسی طرح سے زندوں کا زندوں کی بھی زیارت اس دن کرنا خاص بن جاتی ہے۔
اور عید کے دن جو مشروع زیارت ہے صد افسوس کہ اسے چھوڑ دیاگیا ہے جس کا سبب لوگوں کا مختلف متفرق مساجد میں عید نماز کے لیے جانا ہے۔ حالانکہ ان سب پر واجب ہے کہ وہ مصلی(عیدگاہ) میں جمع ہوں۔ اور وہ مصلی شہر سے باہر ہوتا ہے اتنا وسیع کے شہر کے لوگ اس میں آجائيں۔ وہاں وہ ملاقاتیں کریں، حال چال معلوم کریں اور عید کی نماز پڑھیں۔ یہ سنت معطل ہوچکی ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیات مداومت فرمائی تھی۔
یہاں پر ایک اور ملاحظہ ہے جس پر ہم سب کا متنبہ ہونا ضروری ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘‘([2])
(میرے اس مسجد (مسجد نبوی) میں پڑھی گئی نماز اس کے علاوہ کسی بھی مسجد میں پڑھی گئی نماز سے ہزار گنا افضل ہے سوائے مسجد الحرام کے)۔
چناچہ باوجویکہ ان کی مسجد میں پڑھی گئی نماز ہزار گنا افضل ہے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی مسجد سے باہر پڑھا کرتے تھے یعنی مصلی میں، کیوں؟ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے تمام مسلمانوں کو ایک ایسی وسیع جگہ جمع کرنا چاہتے تھے جو ان سب کو کافی ہوجائے۔ یہ مصلے زمانہ گزرنے کے ساتھ اور لوگوں کا مندرجہ ذیل باتوں سے دوری کے سبب کہ:
اولاً: سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت سے دوری۔
ثانیاً: جو کچھ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں علم ان کے پاس باقی بھی ہو اس سے دوری۔
ثالثاً: اس کی تطبیق اور اس پر عمل کرنے سے دوری۔
وہ اسی بات پر قناعت کرکے بیٹھ گئے ہیں کہ عید کی نماز مساجد میں ادا کرلیں جیسا کہ وہ نماز جمعہ یا باقی پنج وقتہ فرض نمازیں ادا کرتے ہیں۔ جبکہ سنت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں عید کی نماز مصلی ہی میں ادا فرمائی ہے ایک مرتبہ بھی مسجد میں ادا نہيں فرمائی۔
اب کچھ سالوں سے بعض مسلمانوں نے ان شہروں میں اس سنت کی جانب توجہ کی ہے اور نماز عید مصلی میں پڑھنا شروع کردی ہے۔ لیکن ان پر ایک بات باقی رہ گئی ہے۔ امید ہے کہ شاید لوگوں کا مساجد سے نکل کر عید کی نماز کے لیے اب مصلی کا رخ کرنا اچھی بشارت ہو کہ عنقریب ایسا دن بھی آئے گا جب تمام مسلمان ایک جگہ ج
زندوں یا #مردوں_کی_زیارت کے لیے #عید کے دن کو مخصوص کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہالمتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ 527۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/zindo_murdo_ziyarat_k_liye_eid_makhsoos.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے سوال ہوا: ہم نے سنا ہے کہ لوگوں کا عید کے روز ایک دوسرے کی زیارت کرنا بدعت ہے۔ امید ہے کہ آپ اس کا حکم بیان فرمائیں گے کہ عید کے روز بھائیوں سے ملنا اور جو کچھ عید پر لوگ کرتے ہیں کیسا ہے؟
جواب: ہم نے کئی بار یہ بات دہرائی ہے لہذا یہاں اس کے تکرار کی ضرورت نہیں البتہ اختصارا ہم بیان کرتےہیں کہ: زندوں کا عید کے دن مردوں کی زیارت کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ شریعت کی جانب سے مطلق چیز کو مقید کرنا ہے۔ شارع حکیم صحیح حدیث میں فرماتے ہیں:
’’كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([1])
(میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، پس اب ان کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان: ’’فَزُورُوهَا‘‘عام ہے۔ اسے کسی خاص زمان ومکان سے مقید کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ نص کو مقید یا مطلق کرنا لوگوں کا وظیفہ نہیں، بلکہ یہ تو رب العالمین کا وظیفہ ہے۔ جس کا مکلف اس نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا ہے، چناچہ فرمایا:
﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾ (النحل: 44)
(یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں)
اگر کوئی مطلق نص مقید ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتادیا اور اگر کوئی عام نص مخصص ہو تو وہ بھی بتادیا۔ اور جس کا نہیں بتایا تو نہیں۔ اس لیے جب یہ کہا کہ: ’’أَلَا فَزُورُوهَا‘‘ (تو ان کی زیارت کیا کرو) یعنی مطلق ہے پورے سال میں۔ اس دن اور کسی اور دن میں کوئی فرق نہیں۔ اور نہ ہی کسی وقت سے مقید ہے کہ صبح ہو یا شام، ظہر ہو، دن ورات وغیرہ۔
اسی طرح سے ہم کہتے ہیں کہ: جیسا کہ زندوں کا عیدکے دن مردوں کی زیارت کرنا خاص بات بن جاتی ہے اسی طرح سے زندوں کا زندوں کی بھی زیارت اس دن کرنا خاص بن جاتی ہے۔
اور عید کے دن جو مشروع زیارت ہے صد افسوس کہ اسے چھوڑ دیاگیا ہے جس کا سبب لوگوں کا مختلف متفرق مساجد میں عید نماز کے لیے جانا ہے۔ حالانکہ ان سب پر واجب ہے کہ وہ مصلی(عیدگاہ) میں جمع ہوں۔ اور وہ مصلی شہر سے باہر ہوتا ہے اتنا وسیع کے شہر کے لوگ اس میں آجائيں۔ وہاں وہ ملاقاتیں کریں، حال چال معلوم کریں اور عید کی نماز پڑھیں۔ یہ سنت معطل ہوچکی ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیات مداومت فرمائی تھی۔
یہاں پر ایک اور ملاحظہ ہے جس پر ہم سب کا متنبہ ہونا ضروری ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘‘([2])
(میرے اس مسجد (مسجد نبوی) میں پڑھی گئی نماز اس کے علاوہ کسی بھی مسجد میں پڑھی گئی نماز سے ہزار گنا افضل ہے سوائے مسجد الحرام کے)۔
چناچہ باوجویکہ ان کی مسجد میں پڑھی گئی نماز ہزار گنا افضل ہے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی مسجد سے باہر پڑھا کرتے تھے یعنی مصلی میں، کیوں؟ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے تمام مسلمانوں کو ایک ایسی وسیع جگہ جمع کرنا چاہتے تھے جو ان سب کو کافی ہوجائے۔ یہ مصلے زمانہ گزرنے کے ساتھ اور لوگوں کا مندرجہ ذیل باتوں سے دوری کے سبب کہ:
اولاً: سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت سے دوری۔
ثانیاً: جو کچھ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں علم ان کے پاس باقی بھی ہو اس سے دوری۔
ثالثاً: اس کی تطبیق اور اس پر عمل کرنے سے دوری۔
وہ اسی بات پر قناعت کرکے بیٹھ گئے ہیں کہ عید کی نماز مساجد میں ادا کرلیں جیسا کہ وہ نماز جمعہ یا باقی پنج وقتہ فرض نمازیں ادا کرتے ہیں۔ جبکہ سنت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں عید کی نماز مصلی ہی میں ادا فرمائی ہے ایک مرتبہ بھی مسجد میں ادا نہيں فرمائی۔
اب کچھ سالوں سے بعض مسلمانوں نے ان شہروں میں اس سنت کی جانب توجہ کی ہے اور نماز عید مصلی میں پڑھنا شروع کردی ہے۔ لیکن ان پر ایک بات باقی رہ گئی ہے۔ امید ہے کہ شاید لوگوں کا مساجد سے نکل کر عید کی نماز کے لیے اب مصلی کا رخ کرنا اچھی بشارت ہو کہ عنقریب ایسا دن بھی آئے گا جب تمام مسلمان ایک جگہ ج
[#SalafiUrduDawah Article] Busying #Ummah in #politics instead of calling towards #Tawheed and #rectification – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#امت کو #دعوتِ_توحید واصلاح کے بجائے #سیاسی_عمل میں لگائے رکھنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحيد أولاً يا دعاة الإسلام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/04/dawat_tawheed_islah_bajae_siyasat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لہذا یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اس شدید غربت (اجنبیت) کا جو دور اول میں نہ تھی، بلاشبہ دور اول میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمان صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سےاٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیراللہ کے لئے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اولاً اس مسئلے پر متنبہ ہونا ضروری ہے، ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کردوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!! کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوت حق ہے، جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں ہم عرب ہیں اور قرآن مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے، حالانکہ یاد رکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں، پس اس بات نے انہیں ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی ﷺ کی سنت سے دور کردیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کافہم حاصل اگر کر بھی لیا ہےتب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں، اور انہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کےعقیدے، عبادت، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرناسے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے نہیں یقین کے کہیں ایسےلاکھوں کی تعداد میں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔
تبدیلی کی بنیاد منہج تصفیہ وتربیہ
اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دو اساسی نکتوں پر جو تبدیلی وانقلاب کا قاعدہ ہیں پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ (دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ(اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا) ہیں۔ان دونوں امور کو یکجا کرنا ضروری ہے تصفیہ اور تربیہ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہےجو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اسے بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کرکے سنت صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہیے۔ ایسے بڑے جید علماء کرام ہوسکتا ہے موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے واجب کو ادا کرپائیں۔ تصفیہ کرنا (پاک کرنا) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اس میں در آئی ہےخواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں۔ محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے جڑی ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح وسلیم تربیت کرکے سرفراز ہوسکیں۔ اسی لئے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے۔
چناچہ ان دو اہم باتوں ونکات کو متحقق کرنے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا برے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کی جگہ لے سکتا ہے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو (خفیہ) مشورہ دینے کے ذریعہ یا پھر الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئےشرعی ضوابط کے تحت بطور احسن ظاہر کرنے کے ذریعہ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا ہے اور پہنچا دینے والے کو برئ الذمہ کرتا ہے۔
نصیحت وخیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مشغول کریں جو انہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد، عبادت، سلوک اور معاملات کی تصحیح،ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ وتربیہ کو تمام کے تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی امید رکھتے ہیں! ہم تو یہ بات نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں، کیونکہ ایسا ہوجانا تو محال ہے؛ اس لئے بھی کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ ﴾ (ھود: 118)
(اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنادیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے)
البتہ ان لوگوں پر ہمارے رب تعالی کا یہ
#امت کو #دعوتِ_توحید واصلاح کے بجائے #سیاسی_عمل میں لگائے رکھنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحيد أولاً يا دعاة الإسلام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/04/dawat_tawheed_islah_bajae_siyasat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لہذا یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اس شدید غربت (اجنبیت) کا جو دور اول میں نہ تھی، بلاشبہ دور اول میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمان صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سےاٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیراللہ کے لئے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اولاً اس مسئلے پر متنبہ ہونا ضروری ہے، ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کردوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!! کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوت حق ہے، جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں ہم عرب ہیں اور قرآن مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے، حالانکہ یاد رکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں، پس اس بات نے انہیں ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی ﷺ کی سنت سے دور کردیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کافہم حاصل اگر کر بھی لیا ہےتب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں، اور انہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کےعقیدے، عبادت، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرناسے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے نہیں یقین کے کہیں ایسےلاکھوں کی تعداد میں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔
تبدیلی کی بنیاد منہج تصفیہ وتربیہ
اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دو اساسی نکتوں پر جو تبدیلی وانقلاب کا قاعدہ ہیں پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ (دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ(اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا) ہیں۔ان دونوں امور کو یکجا کرنا ضروری ہے تصفیہ اور تربیہ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہےجو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اسے بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کرکے سنت صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہیے۔ ایسے بڑے جید علماء کرام ہوسکتا ہے موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے واجب کو ادا کرپائیں۔ تصفیہ کرنا (پاک کرنا) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اس میں در آئی ہےخواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں۔ محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے جڑی ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح وسلیم تربیت کرکے سرفراز ہوسکیں۔ اسی لئے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے۔
چناچہ ان دو اہم باتوں ونکات کو متحقق کرنے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا برے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کی جگہ لے سکتا ہے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو (خفیہ) مشورہ دینے کے ذریعہ یا پھر الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئےشرعی ضوابط کے تحت بطور احسن ظاہر کرنے کے ذریعہ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا ہے اور پہنچا دینے والے کو برئ الذمہ کرتا ہے۔
نصیحت وخیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مشغول کریں جو انہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد، عبادت، سلوک اور معاملات کی تصحیح،ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ وتربیہ کو تمام کے تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی امید رکھتے ہیں! ہم تو یہ بات نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں، کیونکہ ایسا ہوجانا تو محال ہے؛ اس لئے بھی کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ ﴾ (ھود: 118)
(اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنادیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے)
البتہ ان لوگوں پر ہمارے رب تعالی کا یہ
[#SalafiUrduDawah Article] #Ikhwanee #Manhaj surely leads to destruction – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#اخوانی #منہج اپنانے کا نتیجہ خسارہ ہی ہے
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة الهدى والنور:609۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/ikhwanee_manhaj_apnana_khasara_hai.pdf
﷽
سائل: شیخنا حفظکم اللہ، بعض داعیان ایسے ہيں جو نسبت واپنانے کے لحاظ سے عقیدے اور منہج میں فرق کرتے ہیں، پس آپ پائیں گے کہ ا س کا عقیدہ سلفی ہوگا ساتھ ہی پائیں گے کہ دعوت الی اللہ میں اس کا منہج اخوانی تحریکی حزبی سیاسی یا تبلیغی یا اسی طرح کا کچھ ہوگا، تو کیا واقعی ان کے لیے اس کی گنجائش ہے؟
جواب: میرا نہيں خیال کہ کوئی عقیدے وسلوک کے اعتبار سے سلفی ہو تو اس کے لیے یہ ممکن رہے کہ وہ اخوان المسلمین اور ان جیسوں کے منہج کو اپناتا ہو۔ ہم اخوان المسلمین حزبی جماعت کی زندگی کو جانتے ہیں کہ ان پر نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جس میں وہ خود اپنے لیے کچھ استفادہ حاصل نہیں کرسکے چہ جائیکہ دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچائیں۔ اس کی وجہ یہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ : "جس کے پاس خود کچھ نہیں وہ دوسرے کو کیا دے گا"۔ چناچہ یہ لوگ جب سے ان کے مرشد حسن البنا : نے ان کو جمع کیا اور بس بلا تمیز سب کو جمع کرتے گئے، یعنی انہیں بس جمع کرتے گئے مگر اس قرآنی حکم کے برخلاف کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
اخوان المسلمین کا نظام اس قاعدے پر قائم ہے جس کی تعبیر میں اپنی طرف سے کرتا ہوں اور جس کا وہ انکار نہیں کرسکتے، اور اگر کوئی انکار کی جرأت کر بھی لیتا ہےتو ہمارے لیے اس پر ان کی حقیقت حال ان کے خلاف حجت ہونے کے لیے کافی ہے۔ ان کا قاعدہ ہے بس جو ہے جیسا ہے جمع کرتے جاؤ اگرچہ ان کے مابین عقیدے یا سلوک یا فقہ میں اختلافات ہی کیوں نہ ہوں، پھر اس کے بعد ان کی تہذیب کرو، یعنی پہلے بس جیسے تیسے سب کو جمع کرتے جاؤ پھر ان کی تہذیب کا سوچو۔ اسی پر ان کی دعوت ان طویل برسوں میں قائم ہے، لیکن حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے کہ ان کے یہاں سوائے جمع کرنے کے اور کوئی چیز نہيں پائی جاتی، ان کے یہاں وہ دوسری چیز یعنی تہذیب کے نام سے کچھ نہیں پایا جاتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اخوان المسلمین میں ان کے ممالک و براعظموں کے اختلاف کے باوجود کوئی فکری ربط نہيں پایا جاتا ، نہ اعتقادی ربط۔ حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے جیسے جو مصر میں اخوان المسلمین ہيں وہ ان سے الگ ہيں جو اردن میں، اور وہ ان سے الگ ہيں جو شام میں ہيں۔ بلکہ خود شام ہی میں جنوبی اخوانی شمالی اخوانیوں سے الگ ہيں۔ اور میں یہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کیونکہ میں خود شامی دمشقی ہوں جیسا کہ آپ جانتے ہيں۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے: "اہل مکہ اس کی گلیوں سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہيں، اور گھر والے ہی جو کچھ گھر میں ہے اس سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہیں"۔ چناچہ میں جانتا ہوں کہ بلاشبہ دمشق میں جو اخوان المسلمین ہيں وہ بڑی حد تک سلفی دعوت سے متاثر ہیں اپنے عقیدے اور عبادت کے زاویے سے۔ اور اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ سلفی دعوت دمشق میں پھر حلب میں بہت سرگرم رہی ہے۔ اور دمشق میں اخوان المسلمین کے خاندانی نظام میں ان میں سے بعض کتاب فقہ السنۃ سید سابق کی پڑھتے ہيں، اخوان المسلمین ایسا کرتے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ سید سابق حسن البنا : کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ اور ان کی کتاب پر حسن البنا نے مختصر الفاظ میں تقریظ بھی لکھی ہے مقدمے میں۔
چناچہ امید تو یہ تھی کہ یہ کتاب اخوان المسلمین کا فقہ کے معاملے میں دستور ہو اخوان المسلمین کے ہر ملک اور علاقے میں۔ لیکن آپ عجیب ترین بات دیکھیں گے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے یہاں کوئی فکری ثقافتی وحدت نہیں ہے۔ لہذا یہ کتاب دمشق کے بعض اخوانی گروپس میں جو کہ شمال میں لڑ رہے تھے، کہتے تھے کہ اس کتاب کا پڑھانا جائز نہيں کیونکہ اس کا مؤلف وہابی ہے۔ حالانکہ اس کا مؤلف تو اخوان المسلمین کے سرغناؤں میں سے ہے بلکہ حسن البنا کے حواریوں میں سے ہے۔
#اخوانی #منہج اپنانے کا نتیجہ خسارہ ہی ہے
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة الهدى والنور:609۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/ikhwanee_manhaj_apnana_khasara_hai.pdf
﷽
سائل: شیخنا حفظکم اللہ، بعض داعیان ایسے ہيں جو نسبت واپنانے کے لحاظ سے عقیدے اور منہج میں فرق کرتے ہیں، پس آپ پائیں گے کہ ا س کا عقیدہ سلفی ہوگا ساتھ ہی پائیں گے کہ دعوت الی اللہ میں اس کا منہج اخوانی تحریکی حزبی سیاسی یا تبلیغی یا اسی طرح کا کچھ ہوگا، تو کیا واقعی ان کے لیے اس کی گنجائش ہے؟
جواب: میرا نہيں خیال کہ کوئی عقیدے وسلوک کے اعتبار سے سلفی ہو تو اس کے لیے یہ ممکن رہے کہ وہ اخوان المسلمین اور ان جیسوں کے منہج کو اپناتا ہو۔ ہم اخوان المسلمین حزبی جماعت کی زندگی کو جانتے ہیں کہ ان پر نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جس میں وہ خود اپنے لیے کچھ استفادہ حاصل نہیں کرسکے چہ جائیکہ دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچائیں۔ اس کی وجہ یہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ : "جس کے پاس خود کچھ نہیں وہ دوسرے کو کیا دے گا"۔ چناچہ یہ لوگ جب سے ان کے مرشد حسن البنا : نے ان کو جمع کیا اور بس بلا تمیز سب کو جمع کرتے گئے، یعنی انہیں بس جمع کرتے گئے مگر اس قرآنی حکم کے برخلاف کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
اخوان المسلمین کا نظام اس قاعدے پر قائم ہے جس کی تعبیر میں اپنی طرف سے کرتا ہوں اور جس کا وہ انکار نہیں کرسکتے، اور اگر کوئی انکار کی جرأت کر بھی لیتا ہےتو ہمارے لیے اس پر ان کی حقیقت حال ان کے خلاف حجت ہونے کے لیے کافی ہے۔ ان کا قاعدہ ہے بس جو ہے جیسا ہے جمع کرتے جاؤ اگرچہ ان کے مابین عقیدے یا سلوک یا فقہ میں اختلافات ہی کیوں نہ ہوں، پھر اس کے بعد ان کی تہذیب کرو، یعنی پہلے بس جیسے تیسے سب کو جمع کرتے جاؤ پھر ان کی تہذیب کا سوچو۔ اسی پر ان کی دعوت ان طویل برسوں میں قائم ہے، لیکن حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے کہ ان کے یہاں سوائے جمع کرنے کے اور کوئی چیز نہيں پائی جاتی، ان کے یہاں وہ دوسری چیز یعنی تہذیب کے نام سے کچھ نہیں پایا جاتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اخوان المسلمین میں ان کے ممالک و براعظموں کے اختلاف کے باوجود کوئی فکری ربط نہيں پایا جاتا ، نہ اعتقادی ربط۔ حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے جیسے جو مصر میں اخوان المسلمین ہيں وہ ان سے الگ ہيں جو اردن میں، اور وہ ان سے الگ ہيں جو شام میں ہيں۔ بلکہ خود شام ہی میں جنوبی اخوانی شمالی اخوانیوں سے الگ ہيں۔ اور میں یہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کیونکہ میں خود شامی دمشقی ہوں جیسا کہ آپ جانتے ہيں۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے: "اہل مکہ اس کی گلیوں سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہيں، اور گھر والے ہی جو کچھ گھر میں ہے اس سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہیں"۔ چناچہ میں جانتا ہوں کہ بلاشبہ دمشق میں جو اخوان المسلمین ہيں وہ بڑی حد تک سلفی دعوت سے متاثر ہیں اپنے عقیدے اور عبادت کے زاویے سے۔ اور اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ سلفی دعوت دمشق میں پھر حلب میں بہت سرگرم رہی ہے۔ اور دمشق میں اخوان المسلمین کے خاندانی نظام میں ان میں سے بعض کتاب فقہ السنۃ سید سابق کی پڑھتے ہيں، اخوان المسلمین ایسا کرتے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ سید سابق حسن البنا : کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ اور ان کی کتاب پر حسن البنا نے مختصر الفاظ میں تقریظ بھی لکھی ہے مقدمے میں۔
چناچہ امید تو یہ تھی کہ یہ کتاب اخوان المسلمین کا فقہ کے معاملے میں دستور ہو اخوان المسلمین کے ہر ملک اور علاقے میں۔ لیکن آپ عجیب ترین بات دیکھیں گے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے یہاں کوئی فکری ثقافتی وحدت نہیں ہے۔ لہذا یہ کتاب دمشق کے بعض اخوانی گروپس میں جو کہ شمال میں لڑ رہے تھے، کہتے تھے کہ اس کتاب کا پڑھانا جائز نہيں کیونکہ اس کا مؤلف وہابی ہے۔ حالانکہ اس کا مؤلف تو اخوان المسلمین کے سرغناؤں میں سے ہے بلکہ حسن البنا کے حواریوں میں سے ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] The price of #loving_someone_for_the_sake_of_Allaah – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al-Albaanee
کسی سے #اللہ_تعالی_کی_رضا_کی_خاطر_محبت کرنے کی قیمت
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الحاوي من فتاوى الألباني ص (165-166)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/Allaah_rada_muhabbat_qeemat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سائل: جو شخص کسی سے اللہ تعالی کی رضا کے لیے محبت کرتا ہے تو کیا اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے کہے: ’’أحبك في الله‘‘([1]) (میں اللہ تعالی کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں)؟
الشیخ: جی، لیکن اللہ تعالی کے لیے محبت کی بڑی بھاری قیمت ہوتی ہے، بہت کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اسے ادا کرپاتے ہیں۔ کیا آپ لوگ جانتے ہيں کہ اللہ تعالی کے لیے محبت کی کیا قیمت ہے؟ آپ میں سے کوئی اس کی قیمت جانتا ہے؟ جو جانتا ہے ہمیں جواب دے۔۔۔
حاضرین میں سے ایک: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سات ایسے لوگ ہيں جو اس دن اللہ تعالی کے سائے تلے ہوں گے جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا(یعنی عرش کا سایہ جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے) تو انہی میں سے وہ شخص بھی ہیں جو:
’’وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ‘‘([2])
(اور وہ دو اشخاص جو اللہ تعالی کے لیے محبت کرتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہيں اور اسی پر الگ ہوتے ہيں)۔
الشیخ: یہ کلام اپنی جگہ صحیح ہے مگر ہمارے سوال کا جواب نہيں۔ یہ تو اللہ تعالی کے لیے محبت کرنے کی تقریباً تعریف ہوگئی لیکن مکمل نہیں ہوئی۔ میرا سوال یہ ہے کہ وہ کونسی قیمت ہے جو دو اللہ تعالی کے لیے آپس میں محبت کرنے والے ایک دوسرے کو دیتے ہيں۔ میرا مقصد آخرت کا اجر نہيں۔ میں اپنے سوال کے ذریعے یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ وہ کونسی عملی دلیل ہے جو دو لوگوں میں اللہ تعالی کے لیے محبت کی دلیل ہو؟ ایسا ہوسکتا ہے کہ دو لوگ آپس میں ایسی محبت کرتے ہوں، مگر ان کی محبت محض شکلی اعتبار سے محبت ہو، حقیقی نہ ہو، تو پھر آخر حقیقی محبت کیا ہوگی؟
حاضرین میں سے ایک: (جیسا کہ حدیث میں ہے کہ) :
’’يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ‘‘([3])
(اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے جواپنے لیے کرتا ہے)۔
الشیخ: یہ تو اس محبت کی صفت ہے یا اس محبت کی بعض صفات میں سے ہے۔۔۔
حاضرین میں سے ایک: اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
(کہیں، اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالی تم سے محبت فرمائے گا)
الشیخ: یہ جواب ہے کسی اور سوال کا۔۔۔(یعنی اگر پوچھا جائے اللہ تعالی سے محبت کی کیا دلیل ہے تو یہ جواب ہوگا)۔
حاضرین میں سے ایک: جواب اس صحیح حدیث سے دیا جاسکتا ہے کہ تین ایسی باتیں ہیں کہ جس میں ہوں وہ اس کے ذریعے ایمان کی حلاوت (مٹھاس وشیرینی) کو پاسکتا ہے، انہی میں سے ایک یہ ہے کہ:
’’وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ‘‘([4])
(کہ وہ کسی شخص سے محبت کرے اور وہ اس سے محبت نہيں کرتا مگر صرف اللہ تعالی کے لیے)۔
الشیخ: یہ اثر ہے اللہ تعالی کے لیے محبت کا، کیا اثر ہے؟ وہ حلاوت ہے جو وہ اپنے دل میں پاتا ہے۔
حاضرین میں سے ایک: اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَالْعَصْرِ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (سورۃ العصر)
(قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے، اور ایک دوسرے کو حق بات کی اور صبر کی وصیت کرتے رہے)
الشیخ: بہت خوب! یہ ہے وہ جواب۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اگر میں واقعی اللہ تعالی کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں تو میں ہمیشہ نصیحت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ رہوں گا۔ اسی طرح سے آپ بھی میرے ساتھ یہی سلوک رکھیں گے۔ اسی لیے یہ جو نصیحت کرنے میں مستقل مزاجی ہے بہت کم پائی جاتی ہے ان لوگوں میں جو اللہ تعالی کے لیے محبت کے دعویدار ہيں۔ یہ جو محبت ہے ہوسکتاہے اس میں اخلاص میں سے کچھ نہ کچھ ہو لیکن یہ کامل نہیں ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کا لحاظ کررہا ہوتا ہے کہ کہیں وہ خفا نہ ہوجائے یا چھوڑ نہ جائے۔۔۔اورآخر تک جو مختلف خدشات ہیں۔
کسی سے #اللہ_تعالی_کی_رضا_کی_خاطر_محبت کرنے کی قیمت
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الحاوي من فتاوى الألباني ص (165-166)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/Allaah_rada_muhabbat_qeemat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سائل: جو شخص کسی سے اللہ تعالی کی رضا کے لیے محبت کرتا ہے تو کیا اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے کہے: ’’أحبك في الله‘‘([1]) (میں اللہ تعالی کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں)؟
الشیخ: جی، لیکن اللہ تعالی کے لیے محبت کی بڑی بھاری قیمت ہوتی ہے، بہت کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اسے ادا کرپاتے ہیں۔ کیا آپ لوگ جانتے ہيں کہ اللہ تعالی کے لیے محبت کی کیا قیمت ہے؟ آپ میں سے کوئی اس کی قیمت جانتا ہے؟ جو جانتا ہے ہمیں جواب دے۔۔۔
حاضرین میں سے ایک: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سات ایسے لوگ ہيں جو اس دن اللہ تعالی کے سائے تلے ہوں گے جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا(یعنی عرش کا سایہ جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے) تو انہی میں سے وہ شخص بھی ہیں جو:
’’وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ‘‘([2])
(اور وہ دو اشخاص جو اللہ تعالی کے لیے محبت کرتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہيں اور اسی پر الگ ہوتے ہيں)۔
الشیخ: یہ کلام اپنی جگہ صحیح ہے مگر ہمارے سوال کا جواب نہيں۔ یہ تو اللہ تعالی کے لیے محبت کرنے کی تقریباً تعریف ہوگئی لیکن مکمل نہیں ہوئی۔ میرا سوال یہ ہے کہ وہ کونسی قیمت ہے جو دو اللہ تعالی کے لیے آپس میں محبت کرنے والے ایک دوسرے کو دیتے ہيں۔ میرا مقصد آخرت کا اجر نہيں۔ میں اپنے سوال کے ذریعے یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ وہ کونسی عملی دلیل ہے جو دو لوگوں میں اللہ تعالی کے لیے محبت کی دلیل ہو؟ ایسا ہوسکتا ہے کہ دو لوگ آپس میں ایسی محبت کرتے ہوں، مگر ان کی محبت محض شکلی اعتبار سے محبت ہو، حقیقی نہ ہو، تو پھر آخر حقیقی محبت کیا ہوگی؟
حاضرین میں سے ایک: (جیسا کہ حدیث میں ہے کہ) :
’’يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ‘‘([3])
(اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے جواپنے لیے کرتا ہے)۔
الشیخ: یہ تو اس محبت کی صفت ہے یا اس محبت کی بعض صفات میں سے ہے۔۔۔
حاضرین میں سے ایک: اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
(کہیں، اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالی تم سے محبت فرمائے گا)
الشیخ: یہ جواب ہے کسی اور سوال کا۔۔۔(یعنی اگر پوچھا جائے اللہ تعالی سے محبت کی کیا دلیل ہے تو یہ جواب ہوگا)۔
حاضرین میں سے ایک: جواب اس صحیح حدیث سے دیا جاسکتا ہے کہ تین ایسی باتیں ہیں کہ جس میں ہوں وہ اس کے ذریعے ایمان کی حلاوت (مٹھاس وشیرینی) کو پاسکتا ہے، انہی میں سے ایک یہ ہے کہ:
’’وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ‘‘([4])
(کہ وہ کسی شخص سے محبت کرے اور وہ اس سے محبت نہيں کرتا مگر صرف اللہ تعالی کے لیے)۔
الشیخ: یہ اثر ہے اللہ تعالی کے لیے محبت کا، کیا اثر ہے؟ وہ حلاوت ہے جو وہ اپنے دل میں پاتا ہے۔
حاضرین میں سے ایک: اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَالْعَصْرِ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (سورۃ العصر)
(قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے، اور ایک دوسرے کو حق بات کی اور صبر کی وصیت کرتے رہے)
الشیخ: بہت خوب! یہ ہے وہ جواب۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اگر میں واقعی اللہ تعالی کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں تو میں ہمیشہ نصیحت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ رہوں گا۔ اسی طرح سے آپ بھی میرے ساتھ یہی سلوک رکھیں گے۔ اسی لیے یہ جو نصیحت کرنے میں مستقل مزاجی ہے بہت کم پائی جاتی ہے ان لوگوں میں جو اللہ تعالی کے لیے محبت کے دعویدار ہيں۔ یہ جو محبت ہے ہوسکتاہے اس میں اخلاص میں سے کچھ نہ کچھ ہو لیکن یہ کامل نہیں ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کا لحاظ کررہا ہوتا ہے کہ کہیں وہ خفا نہ ہوجائے یا چھوڑ نہ جائے۔۔۔اورآخر تک جو مختلف خدشات ہیں۔
[#SalafiUrduDawah Article] The #noble_lineage of #prophet_Muhammad (SalAllaaho alaihi wasallam) – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا #نسب_شریف
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: صحيح السيرة النبوية (ما صح من سيرة رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذكر أيامه وغزواته وسراياه والوفود إليه- للحافظ إبن کثیر)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/nabi_nasab_shareef.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف اور عالی رتبہ اصل کا بیان
فرمان الہی ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے)
اور جب روم کے بادشاہ ہرقل نے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کے متعلق سوالات کیے تو کہا کہ:
’’كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟‘‘
(ان کا تمہارے درمیان نسب کیسا ہے؟)
انہوں نے جواب دیا:
’’هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ‘‘
(وہ ہمارے درمیان بڑے حسب نسب والے ہیں)۔
اس نے کہا:
’’وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أنْسَابِ قَوْمِهَا‘‘
(اسی طرح سے رسول اپنی قوم کے نسب میں سے ہوتا ہے)۔
یعنی وہ حسب نسب کے اعتبار سے بڑے معزز اور قبیلے کے اعتبار سے بہت کثیر ہوتے ہیں (صلوات الله عليهم أجمعين)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید ولد آدم ہیں اور دنیا وآخرت میں ان کے لیے باعث فخر ہیں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوالقاسم، ابو ابراہیم، محمد، احمد، الماحی (جس سے اللہ تعالی کفر کو مٹا دیتا ہے)، العاقب (جس کے بعد کوئی نبی نہیں)، الحاشر (کہ جن کے قدم مبارک ([1])پر لوگوں کا حشر ہوگا)، المقفی، نبی الرحمۃ، نبی التوبۃ، نبی الملحمۃ، خاتم النبیین اور عبداللہ ہیں([2])۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتےہیں: بعض علماء نے ان القاب میں اضافہ فرمایا ہے اور بتایا کہ: اللہ تعالی نے آپ کو قرآن کریم میں رسول، نبی، اُمِّی، شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ باذنہ، سراج منیر، رؤوف ورحیم، مذکر نام دیا اور آپ کو رحمت، نعمت اور ہادی بنایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابن عبداللہ بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب ابن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان جو کہ لامحالہ سیدنا اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد میں سے ہیں البتہ اس میں اختلاف ہے کہ ان کے درمیان کتنے آباء پڑتے ہيں۔
اور یہ جو نسب اس طور پر بیان ہوا ہے اس میں علماء کرام میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا([3])۔ پس عرب حجاز کے تمام قبائل اس نسب کی جانب ہی منسوب ہوتے ہیں۔ اسی لیے سیدنا ابن عباس w وغیرہ نے اس فرمان الہی کی تفسیر میں فرمایا: ﴿قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى﴾ (الشوری: 23) (تو کہہ دیجئے! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا سوائے محبت رشتہ داری کی) کہ قریش کے قبائل میں سے کوئی بھی قبیلہ ایسا نہیں تھا کہ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب نہ ملتا ہو([4])۔
اسی طرح سے مرسل اور موقوف دونوں طور پر روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خَرَجْتُ مِنْ نِكَاحٍ، وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلَى أَنْ وَلَدَنِي أَبِي وَأُمِّي،وَلَمْ يُصِبْنِي مِنْ سِفَاحِ الْجَاهِلِيَّةِ شَيْءٌ‘‘([5])
(سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر میرے پورے نسب کے اعتبار سے میں نکاح کے ذریعے آیا ہوں بدکاری کے ذریعے نہیں یہاں تک کہ میرے ماں باپ نے مجھے پیدا کیا، مجھے جاہلیت کی گندگی میں سے کوئی چیز نہیں پہنچی)۔
اسے ابن عدی نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی مرسل سند جید ہے۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتَّى بُعِثْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ‘‘([6])
(میں بنی آدم کی بہترین نسل سے نسب کے اعتبار سے نسل در نسل چلتا آیا ہوں یہاں تک کہ میں اس نسل یا زمانے میں پیدا ہوا جس میں میں اب ہوں)۔
اور صحیح مسلم میں ہےسیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ بَنِي كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ‘‘([7])
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا #نسب_شریف
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: صحيح السيرة النبوية (ما صح من سيرة رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذكر أيامه وغزواته وسراياه والوفود إليه- للحافظ إبن کثیر)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/nabi_nasab_shareef.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف اور عالی رتبہ اصل کا بیان
فرمان الہی ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے)
اور جب روم کے بادشاہ ہرقل نے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کے متعلق سوالات کیے تو کہا کہ:
’’كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟‘‘
(ان کا تمہارے درمیان نسب کیسا ہے؟)
انہوں نے جواب دیا:
’’هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ‘‘
(وہ ہمارے درمیان بڑے حسب نسب والے ہیں)۔
اس نے کہا:
’’وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أنْسَابِ قَوْمِهَا‘‘
(اسی طرح سے رسول اپنی قوم کے نسب میں سے ہوتا ہے)۔
یعنی وہ حسب نسب کے اعتبار سے بڑے معزز اور قبیلے کے اعتبار سے بہت کثیر ہوتے ہیں (صلوات الله عليهم أجمعين)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید ولد آدم ہیں اور دنیا وآخرت میں ان کے لیے باعث فخر ہیں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوالقاسم، ابو ابراہیم، محمد، احمد، الماحی (جس سے اللہ تعالی کفر کو مٹا دیتا ہے)، العاقب (جس کے بعد کوئی نبی نہیں)، الحاشر (کہ جن کے قدم مبارک ([1])پر لوگوں کا حشر ہوگا)، المقفی، نبی الرحمۃ، نبی التوبۃ، نبی الملحمۃ، خاتم النبیین اور عبداللہ ہیں([2])۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتےہیں: بعض علماء نے ان القاب میں اضافہ فرمایا ہے اور بتایا کہ: اللہ تعالی نے آپ کو قرآن کریم میں رسول، نبی، اُمِّی، شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ باذنہ، سراج منیر، رؤوف ورحیم، مذکر نام دیا اور آپ کو رحمت، نعمت اور ہادی بنایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابن عبداللہ بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب ابن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان جو کہ لامحالہ سیدنا اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد میں سے ہیں البتہ اس میں اختلاف ہے کہ ان کے درمیان کتنے آباء پڑتے ہيں۔
اور یہ جو نسب اس طور پر بیان ہوا ہے اس میں علماء کرام میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا([3])۔ پس عرب حجاز کے تمام قبائل اس نسب کی جانب ہی منسوب ہوتے ہیں۔ اسی لیے سیدنا ابن عباس w وغیرہ نے اس فرمان الہی کی تفسیر میں فرمایا: ﴿قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى﴾ (الشوری: 23) (تو کہہ دیجئے! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا سوائے محبت رشتہ داری کی) کہ قریش کے قبائل میں سے کوئی بھی قبیلہ ایسا نہیں تھا کہ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب نہ ملتا ہو([4])۔
اسی طرح سے مرسل اور موقوف دونوں طور پر روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خَرَجْتُ مِنْ نِكَاحٍ، وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلَى أَنْ وَلَدَنِي أَبِي وَأُمِّي،وَلَمْ يُصِبْنِي مِنْ سِفَاحِ الْجَاهِلِيَّةِ شَيْءٌ‘‘([5])
(سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر میرے پورے نسب کے اعتبار سے میں نکاح کے ذریعے آیا ہوں بدکاری کے ذریعے نہیں یہاں تک کہ میرے ماں باپ نے مجھے پیدا کیا، مجھے جاہلیت کی گندگی میں سے کوئی چیز نہیں پہنچی)۔
اسے ابن عدی نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی مرسل سند جید ہے۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتَّى بُعِثْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ‘‘([6])
(میں بنی آدم کی بہترین نسل سے نسب کے اعتبار سے نسل در نسل چلتا آیا ہوں یہاں تک کہ میں اس نسل یا زمانے میں پیدا ہوا جس میں میں اب ہوں)۔
اور صحیح مسلم میں ہےسیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ بَنِي كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ‘‘([7])