[#SalafiUrduDawah Article] #Slaughtering with the intention of #protecting oneself from #afflictions – Various #Ulamaa
#بلاؤں_کو_ٹالنے کے لیے #جان_کے_صدقہ کے طور پر#قربانی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ، جمع وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/balaon_ko_talna_qurbani_jan_ka_sadqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک سوڈانی بھائی کی طرف سے سوال ہے جس میں کہتے ہیں: ہمارے ملک میں ایک عادت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص جب اپنا گھر بنانا شروع کرتا ہے تو ایک قربانی ذبح کرتا ہے، یا جب وہ نصف مکمل ہوجائے یا پھر اسے مؤخر کرکے عمارت تعمیر ہونے کے بعد کرتا ہے۔ اور جب لوگ اس گھر میں رہائش کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس میں قربانی کرکے دعوت کرتے ہیں جس میں عزیز واقارب وپڑوسیوں کو مدعو کیا جاتا ہے، آپ فضیلۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟او رکیا کوئی مستحب عمل نئے گھر میں منتقل ہونے سے پہلے مشروع ہے؟ ہمیں استفادہ پہنچائیں جزاکم اللہ خیر الجزاء۔
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
اس عمل کے تعلق سے تفصیل ہے۔ اگر اس قربانی سے مقصود جن سے بچاؤ ہو یا کوئی اور مقصد گھر کے مالک کو مقصود ہو کہ اس ذبح کے ذریعے یہ یہ حاصل ہوگا جیسے گھر کی سلامتی یا یہاں رہنے والوں کی سلامتی تو یہ جائز نہیں۔ اور یہ بدعات میں سے ہے۔ اگر یہ جن کے لیے ہو تو شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ غیراللہ کی عبادت ہے۔
لیکن اگر یہ شکر کےباب میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر جو نعمت فرمائی ہے کہ اسے اپنی چھت مل گئی یا گھر کی تکمیل کے وقت وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو جمع کرتا ہے اور کھانے کی دعوت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ اور یہ بہت سے لوگ کرتے ہیں اللہ کے نعمتوں پر شکر کرنے کے طور پر کہ اس نے ان پر اپنا احسان فرمایا کہ انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا اور اس میں رہنا نصیب ہوا بجائے اس کے کہ وہ کہیں کرایوں پر رہتے۔
اور اسی طرح سے بعض لوگ کرتے ہیں جب وہ سفر سے واپس آتے ہیں کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو دعوت دیتے ہيں اللہ تعالی کی شکرگزاری میں کہ اس نے سلامتی سے سفر کروایا اور واپسی ہوئی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جب سفر سے واپس آتے تو ایک اونٹ نحر (ذبح) کرکے لوگوں کی دعوت فرماتے۔
(فتاوی نور علی الدرب 1853، مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 5 / 388 )
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’الشرح الممتع على زاد المستقنع – المجلد السابع، باب الهَدي والأُضحية والعقيقة‘‘ میں فرماتے ہیں:
مسئلہ: جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں قربانی ذبح کرتے ہیں اور پڑوسیوں وعزیز واقارب کی دعوت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی فاسد عقیدہ نہ جڑا ہوا ہو جیسا کہ بعض جگہوں پر کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو سب سے پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ ایک بکری لا کر اسے گھر کی دہلیز پر ذبح کرتے ہیں تاکہ اس کا خون وہاں بہے۔ اور کہتے ہیں: یہ جنات کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا ہے، پس یہ فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی اصل نہیں، لیکن جو محض خوشی ومسرت میں ایسا کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جس کے اہل وعیال اسے کہیں: ایک جانور ذبح کرو (قربانی کرو) اور اسے مساکین میں تقسیم کردو بلاؤں کو دور کرنے کے لیے، کیا ایسی نیت کرنا جائز ہے؟
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ رحمہ اللہ:
اس بارے میں تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ ذبیحہ صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، کسی متوقع چیز کو دور کرنے، یا کسی پیش آنے والی چیز کو رفع کرنے کے لیے نہیں، لیکن بس صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، اور فقراء کو کھلانے کی نیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ان عمومی دلائل میں داخل ہے کہ حن میں کھانے کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور مساکین کو کھلانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
البتہ اگر ذبح کرنا اس لیے ہو کہ گھر والے بیمار ہیں، تو اس لیے ذبح کرنا تاکہ مریض سے وہ تکلیف دور ہوجائے (جان کا صدقہ) تو یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے، سد ذریعہ کے طور پر۔ کیونکہ بہت سے لوگ تب ہی ذبح کرتے ہیں جب کوئی ان پر مرض آپڑے کیونکہ ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی جن کی وجہ سے ہے، یا کسی موذی چیز کی وجہ سے، پس جب وہ ذبیحہ کو ذبح کرتے ہیں اور خون بہاتے ہیں تو اس کا شر دور ہوجاتا ہے یا پھر اس موذی چیز کی وجہ سے جو تکلیف ہے وہ رفع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا اعتقاد حرام ہے جائز نہیں۔ لہذا جو ذبیحہ کسی مرض کو رفع کرنے یا بطور مریض کے جان کے صدقے کے دیا جاتا ہے اس حال میں علماء کرام فرماتےہیں: یہ حرام ہے جائز نہیں، سد ذریعہ کے طور پر۔
اور شیخ علامہ سعد بن حمد بن عتیق رحمہ اللہ کا اس موضوع پر کہ ’’مریض کے لیے ذبح کرنا ‘‘خاص رسالہ بھی ہے([1])۔
اسی طرح سے اگر ذبح کرنا کسی متوقع تکلیف کو روکنے کے لیے
#بلاؤں_کو_ٹالنے کے لیے #جان_کے_صدقہ کے طور پر#قربانی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ، جمع وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/balaon_ko_talna_qurbani_jan_ka_sadqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک سوڈانی بھائی کی طرف سے سوال ہے جس میں کہتے ہیں: ہمارے ملک میں ایک عادت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص جب اپنا گھر بنانا شروع کرتا ہے تو ایک قربانی ذبح کرتا ہے، یا جب وہ نصف مکمل ہوجائے یا پھر اسے مؤخر کرکے عمارت تعمیر ہونے کے بعد کرتا ہے۔ اور جب لوگ اس گھر میں رہائش کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس میں قربانی کرکے دعوت کرتے ہیں جس میں عزیز واقارب وپڑوسیوں کو مدعو کیا جاتا ہے، آپ فضیلۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟او رکیا کوئی مستحب عمل نئے گھر میں منتقل ہونے سے پہلے مشروع ہے؟ ہمیں استفادہ پہنچائیں جزاکم اللہ خیر الجزاء۔
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
اس عمل کے تعلق سے تفصیل ہے۔ اگر اس قربانی سے مقصود جن سے بچاؤ ہو یا کوئی اور مقصد گھر کے مالک کو مقصود ہو کہ اس ذبح کے ذریعے یہ یہ حاصل ہوگا جیسے گھر کی سلامتی یا یہاں رہنے والوں کی سلامتی تو یہ جائز نہیں۔ اور یہ بدعات میں سے ہے۔ اگر یہ جن کے لیے ہو تو شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ غیراللہ کی عبادت ہے۔
لیکن اگر یہ شکر کےباب میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر جو نعمت فرمائی ہے کہ اسے اپنی چھت مل گئی یا گھر کی تکمیل کے وقت وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو جمع کرتا ہے اور کھانے کی دعوت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ اور یہ بہت سے لوگ کرتے ہیں اللہ کے نعمتوں پر شکر کرنے کے طور پر کہ اس نے ان پر اپنا احسان فرمایا کہ انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا اور اس میں رہنا نصیب ہوا بجائے اس کے کہ وہ کہیں کرایوں پر رہتے۔
اور اسی طرح سے بعض لوگ کرتے ہیں جب وہ سفر سے واپس آتے ہیں کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو دعوت دیتے ہيں اللہ تعالی کی شکرگزاری میں کہ اس نے سلامتی سے سفر کروایا اور واپسی ہوئی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جب سفر سے واپس آتے تو ایک اونٹ نحر (ذبح) کرکے لوگوں کی دعوت فرماتے۔
(فتاوی نور علی الدرب 1853، مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 5 / 388 )
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’الشرح الممتع على زاد المستقنع – المجلد السابع، باب الهَدي والأُضحية والعقيقة‘‘ میں فرماتے ہیں:
مسئلہ: جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں قربانی ذبح کرتے ہیں اور پڑوسیوں وعزیز واقارب کی دعوت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی فاسد عقیدہ نہ جڑا ہوا ہو جیسا کہ بعض جگہوں پر کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو سب سے پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ ایک بکری لا کر اسے گھر کی دہلیز پر ذبح کرتے ہیں تاکہ اس کا خون وہاں بہے۔ اور کہتے ہیں: یہ جنات کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا ہے، پس یہ فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی اصل نہیں، لیکن جو محض خوشی ومسرت میں ایسا کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جس کے اہل وعیال اسے کہیں: ایک جانور ذبح کرو (قربانی کرو) اور اسے مساکین میں تقسیم کردو بلاؤں کو دور کرنے کے لیے، کیا ایسی نیت کرنا جائز ہے؟
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ رحمہ اللہ:
اس بارے میں تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ ذبیحہ صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، کسی متوقع چیز کو دور کرنے، یا کسی پیش آنے والی چیز کو رفع کرنے کے لیے نہیں، لیکن بس صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، اور فقراء کو کھلانے کی نیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ان عمومی دلائل میں داخل ہے کہ حن میں کھانے کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور مساکین کو کھلانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
البتہ اگر ذبح کرنا اس لیے ہو کہ گھر والے بیمار ہیں، تو اس لیے ذبح کرنا تاکہ مریض سے وہ تکلیف دور ہوجائے (جان کا صدقہ) تو یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے، سد ذریعہ کے طور پر۔ کیونکہ بہت سے لوگ تب ہی ذبح کرتے ہیں جب کوئی ان پر مرض آپڑے کیونکہ ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی جن کی وجہ سے ہے، یا کسی موذی چیز کی وجہ سے، پس جب وہ ذبیحہ کو ذبح کرتے ہیں اور خون بہاتے ہیں تو اس کا شر دور ہوجاتا ہے یا پھر اس موذی چیز کی وجہ سے جو تکلیف ہے وہ رفع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا اعتقاد حرام ہے جائز نہیں۔ لہذا جو ذبیحہ کسی مرض کو رفع کرنے یا بطور مریض کے جان کے صدقے کے دیا جاتا ہے اس حال میں علماء کرام فرماتےہیں: یہ حرام ہے جائز نہیں، سد ذریعہ کے طور پر۔
اور شیخ علامہ سعد بن حمد بن عتیق رحمہ اللہ کا اس موضوع پر کہ ’’مریض کے لیے ذبح کرنا ‘‘خاص رسالہ بھی ہے([1])۔
اسی طرح سے اگر ذبح کرنا کسی متوقع تکلیف کو روکنے کے لیے