[Article] What is the definition of #Eemaan and does it increase and decrease? - Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
#ایمان کی تعریف کیا ہے، اور کیا اس میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلدالاول - باب الإيمان والإسلام.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/emaan_tareef_kami_ziyadati.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان کی کیا تعریف ہے، اور کیا اس میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے؟
جواب: اہل سنت الجماعت کے نزدیک ایمان کی تعریف یہ ہے:
’’الإقرار بالقلب، والنطق باللسان، والعمل بالجوارح‘‘
(دل سے اقرار(تصدیق)، زبان کا قول (اقرار)، اور اعضاء وجوارح کے ساتھ عمل)۔
جو کہ تین امور پر مشتمل ہے:
1- دل سے اقرار (تصدیق)۔
2- زبان کا قول (اقرار)۔
3- اعضاء وجوارح کے ساتھ عمل۔
پس جب اس کی تعریف یہ ہے تو پھر یقیناً اس میں کمی زیادتی بھی ہوگی۔ کیونکہ دل کے اقرار وتصدیق میں تو تفاوت ہوتا ہے، لہذا محض کسی کا خبرپراقرار کرنا (ایمان لانا) معاینہ کرکے (دیکھ کر) اقرار کرنے(ایمان لانے ) کے جیسا تو نہیں۔ اسی طرح سے ایک شخص کی خبر کا اقرار کرنا (یقین کرنا) دو اشخاص کی خبر کے اقرار کے جیسا تو نہیں اور اسی طرح (دوسری مثالیں)۔ اسی لیے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:
﴿رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ﴾ (البقرۃ: 260)
(اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ فرمائے گا ؟ (رب تعالی نے) فرمایا کیا تجھے یقین نہیں ! کہا کیوں نہیں، لیکن اس لیے کہ میرا دل مزید تسلی واطمئنان حاصل کر لے)
پس ایمان دل کے اقرار، اطمئنان وسکون سے بڑھتا ہے۔ اور انسان یہ بات تو خود اپنے نفس میں محسوس کرتا ہے جب وہ کسی وعظ ونصیحت کی مجلس میں ہوتا ہے، اور جنت وجہنم کا ذکر ہوتا ہے تو اس کا ایمان اس قدر بڑھ جاتا ہے گویا کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہا ہو۔ اور جب غفلت ہوجاتی ہے اور وہ اس مجلس سے اٹھ جاتا ہے تو دل کے اس یقین میں کچھ تخفیف وکمی ہوجاتی ہے۔
اسی طرح سے قول کے اعتبار سے بھی ایمان بڑھتا ہے کیونکہ جو اللہ تعالی کا ذکر دس مرتبہ کرتا ہے وہ اس کی طرح تو نہیں جو سو بار کرتا ہے، کیونکہ جو دوسرا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے۔
اسی طرح سے عمل کا معاملہ ہے کہ اگر انسان اپنے اعضاء وجوارح سے کسی دوسرے سے زیادہ عمل کرتا ہےتو وہ زیادہ ہوجاتا ہے اور اس کا ایمان کمی سے زیادتی کی طرف بڑھتا ہے۔
اور یہ بات (یعنی ایمان میں زیادتی اور نقصان کا ثبوت) قرآن وسنت میں (جابجا) آیا ہے، فرمان الہی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰىِٕكَةً ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۙ لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَيَزْدَادَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِيْمَانًا﴾ (المدثر: 31)
(اور ہم نے جہنم کا محافظ فرشتوں کے سوا کسی کو نہیں بنایا، اور ان کی تعداد ان لوگوں کی آزمائش ہی کے لیے بنائی ہے جنہوں نے کفر کیا، تاکہ وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے، اچھی طرح یقین کرلیں اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ایمان میں زیادہ ہو جائیں)
اور فرمایا:
﴿ وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖٓ اِيْمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ، وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾ (التوبۃ: 124-125)
(اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کو ایمان میں زیادہ کیا ؟ پس جو لوگ ایمان لائے، سو ان کو تو اس نے ایمان میں زیادہ کردیا اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں، اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس نے ان کو ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی میں زیادہ کردیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے)
اور صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا:
’’مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ‘‘([1])
(میں نے تم (عورتوں) سے بڑھ کر ناقص عقل اور دین والا نہیں دیکھا، ایک اچھے بھلے عقل مند انسان کی عقل ماؤف کردیتی ہو)۔
تو اس سے ثابت ہوا کہ ایمان بڑھتا بھی ہے او رگھٹتا بھی ہے۔
لیکن ایمان میں زیادتی کے کیا اسباب ہيں؟
ایمان کی زیادتی کہ کچھ اسباب ہیں:
#ایمان کی تعریف کیا ہے، اور کیا اس میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلدالاول - باب الإيمان والإسلام.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/emaan_tareef_kami_ziyadati.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان کی کیا تعریف ہے، اور کیا اس میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے؟
جواب: اہل سنت الجماعت کے نزدیک ایمان کی تعریف یہ ہے:
’’الإقرار بالقلب، والنطق باللسان، والعمل بالجوارح‘‘
(دل سے اقرار(تصدیق)، زبان کا قول (اقرار)، اور اعضاء وجوارح کے ساتھ عمل)۔
جو کہ تین امور پر مشتمل ہے:
1- دل سے اقرار (تصدیق)۔
2- زبان کا قول (اقرار)۔
3- اعضاء وجوارح کے ساتھ عمل۔
پس جب اس کی تعریف یہ ہے تو پھر یقیناً اس میں کمی زیادتی بھی ہوگی۔ کیونکہ دل کے اقرار وتصدیق میں تو تفاوت ہوتا ہے، لہذا محض کسی کا خبرپراقرار کرنا (ایمان لانا) معاینہ کرکے (دیکھ کر) اقرار کرنے(ایمان لانے ) کے جیسا تو نہیں۔ اسی طرح سے ایک شخص کی خبر کا اقرار کرنا (یقین کرنا) دو اشخاص کی خبر کے اقرار کے جیسا تو نہیں اور اسی طرح (دوسری مثالیں)۔ اسی لیے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:
﴿رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ﴾ (البقرۃ: 260)
(اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ فرمائے گا ؟ (رب تعالی نے) فرمایا کیا تجھے یقین نہیں ! کہا کیوں نہیں، لیکن اس لیے کہ میرا دل مزید تسلی واطمئنان حاصل کر لے)
پس ایمان دل کے اقرار، اطمئنان وسکون سے بڑھتا ہے۔ اور انسان یہ بات تو خود اپنے نفس میں محسوس کرتا ہے جب وہ کسی وعظ ونصیحت کی مجلس میں ہوتا ہے، اور جنت وجہنم کا ذکر ہوتا ہے تو اس کا ایمان اس قدر بڑھ جاتا ہے گویا کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہا ہو۔ اور جب غفلت ہوجاتی ہے اور وہ اس مجلس سے اٹھ جاتا ہے تو دل کے اس یقین میں کچھ تخفیف وکمی ہوجاتی ہے۔
اسی طرح سے قول کے اعتبار سے بھی ایمان بڑھتا ہے کیونکہ جو اللہ تعالی کا ذکر دس مرتبہ کرتا ہے وہ اس کی طرح تو نہیں جو سو بار کرتا ہے، کیونکہ جو دوسرا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے۔
اسی طرح سے عمل کا معاملہ ہے کہ اگر انسان اپنے اعضاء وجوارح سے کسی دوسرے سے زیادہ عمل کرتا ہےتو وہ زیادہ ہوجاتا ہے اور اس کا ایمان کمی سے زیادتی کی طرف بڑھتا ہے۔
اور یہ بات (یعنی ایمان میں زیادتی اور نقصان کا ثبوت) قرآن وسنت میں (جابجا) آیا ہے، فرمان الہی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰىِٕكَةً ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۙ لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَيَزْدَادَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِيْمَانًا﴾ (المدثر: 31)
(اور ہم نے جہنم کا محافظ فرشتوں کے سوا کسی کو نہیں بنایا، اور ان کی تعداد ان لوگوں کی آزمائش ہی کے لیے بنائی ہے جنہوں نے کفر کیا، تاکہ وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے، اچھی طرح یقین کرلیں اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ایمان میں زیادہ ہو جائیں)
اور فرمایا:
﴿ وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖٓ اِيْمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ، وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾ (التوبۃ: 124-125)
(اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کو ایمان میں زیادہ کیا ؟ پس جو لوگ ایمان لائے، سو ان کو تو اس نے ایمان میں زیادہ کردیا اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں، اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس نے ان کو ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی میں زیادہ کردیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے)
اور صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا:
’’مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ‘‘([1])
(میں نے تم (عورتوں) سے بڑھ کر ناقص عقل اور دین والا نہیں دیکھا، ایک اچھے بھلے عقل مند انسان کی عقل ماؤف کردیتی ہو)۔
تو اس سے ثابت ہوا کہ ایمان بڑھتا بھی ہے او رگھٹتا بھی ہے۔
لیکن ایمان میں زیادتی کے کیا اسباب ہيں؟
ایمان کی زیادتی کہ کچھ اسباب ہیں: