Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.95K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 3) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

شرح #کتاب_التوحید ، باب 3: شرک سے ڈرنے کا بیان

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

باب 3: شرک سے ڈرنے کا بیان

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_3.pdf

[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap03.mp3
[#SalafiUrduDawah Audio] "#La_ilaha_illa_Allaah" its status, virtue, pillars, conditions and meaning – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
"#لا_الہ_الا_اللہ" کی منزلت، فضیلت، ارکان، شرائط ومعنی – شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
ترجمہ: طارق علی بروہی
مقدمہ از دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی حفظہ اللہ
مقدمہ از شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
زندگی میں لا الہ الا اللہ مقام ومنزلت
لا الہ الا اللہ کی فضیلت
لا الہ الا اللہ کے اعراب، ارکان وشرائط
لا الہ الا اللہ کا معنی اور اس کے تقاضے
کب لا الہ الا اللہ اپنے پڑھنے والے کو فائدہ دیتا ہے اور کب نہيں
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول
کب لا الہ الا اللہ اپنے پڑھنے والے کو فائدہ دیتا ہے اور کب نہيں
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا قول
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ کا قول
لا الہ الا اللہ کے فرد اور معاشرے پر اہم ترین اثرات

http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D9%84%D8%A7-%D8%A7%D9%84%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%B2%D9%84%D8%AA%D8%8C-%D9%81%D8%B6%DB%8C%D9%84%D8%AA%D8%8C-%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%86/
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 4) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

شرح #کتاب_التوحید ، باب 4: لا الہ الا اللہ کی گواہی کی طرف دعوت دینا

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

باب 4: لا الہ الا اللہ کی گواہی کی طرف دعوت دینا

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_4.pdf

[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap04.mp3
[#SalafiUrduDawah Article] The obligation of love and respect for #Rasoolullaah (SalAllaho alayhi wa sallam) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم کا وجوب
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/nabi_muhabbat_tazeem_wujoob.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بندہ پر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبت ضروری ہے، یہ عبادت کی سب سے عظیم قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ﴾ (البقرۃ:165)
(اور جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ تعالی ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں)
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کا منعمِ حقیقی ہے۔ جس نے ساری ظاہری و باطنی نعمتوں سے بندوں کو نوازا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کے بعد اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت واجب ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، اس کی معرفت سے ہمکنار کیا، اس کی شریعت کو پہنچایا اور اس کے احکامات کو بیان فرمایاہے۔ آج مسلمانوں کو جو دنیاوآخرت کی بھلائی حاصل ہے وہ اسی رسول ِرحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت حاصل ہے۔کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ایک حدیث کے الفاظ ہیں:
’’ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ‘‘([1])
(جس کے اندر تین چیزیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا ، وہ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نزدیک دوسری ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں اور کسی شخص سے محبت کرتا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہو اور کفر کی طرف لوٹنا اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے نکالا ہے ایسا ہی ناپسند کرتا ہو جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے)۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہے اور اس کے ساتھ لازم ہے اور رتبہ کے اعتبار سے دوسرے درجہ پر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دیگر تمام محبوب چیزوں سے آپ کی محبت کو مقدم رکھنے سے متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ‘‘([2])
(تم میں سے کوئی اس وقت تک پکا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کی اولاد اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں)۔
بلکہ ایک حدیث میں تو آیا ہے کہ ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نفس سے زیادہ محبوب رکھے۔ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: الْآنَ يَا عُمَرُ‘‘([3])
(اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ میرے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں بات نہیں بنے گی۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (اگر ایسی بات ہے تو) یقیناً اللہ کی قسم! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب صحیح ہے اے عمر)۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے علاوہ دنیا کی ہر چیز کی محبت پر مقدم ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کو لازم ہے([4])، اس لئے یہ محبت بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اور اسی کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت مومن کے دل میں جتنی بڑھے گی اتنی ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بڑھے گی اور اللہ تعالیٰ کی محبت اگر گھٹے گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی گھٹے گی، اور جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو گا تو اس سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت رکھی جائے گی۔
#SalafiUrduDawah
#nasheed "#tala_al_badru_alayna" ki haqeeqat - shaykh saaleh bin fawzaan #al_fawzaan
#نشید "#طلع_البدر_علینا" کی حقیقت - شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding sending #Durood_and_Salaam upon Rasoolullaah (SalAllaho alayhi wa sallam) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر #درود_و_سلام بھیجنے کی مشروعیت کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/rasool_durood_salam_mashroeat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا ،آپ کا امت پر ایسا حق ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے مشروع قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ ۭ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا﴾ (الاحزاب:56)
(بے شک اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر درودبھیجتے ہیں ۔ مومنو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجا کرو)
یہ بھی وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ (درود) کا مطلب ہے فرشتوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرنا اور فرشتوں کے درود بھیجنے کا مطلب ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے لئے دعا ء کرنااور لوگوں کے درودبھیجنے کا مطلب ہے استغفار کرنا([1])،اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے پاس ملأ ِاعلی میں قدرومنزلت کی خبر دی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اپنے قریبی فرشتوں میں فرماتے ہیں اور یہ کہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کو آپ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے تاکہ عالم علوی اور عالم سفلی دونوں کی تعریف آپ کے لئے جمع ہو جائے۔
﴿وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا﴾ کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اسلامی سلام بھیجو، لہٰذا کوئی جب آپ پر سلام بھیجنا چاہے تو صلاۃ (درود) وسلام دونوں بھیجے ان میں سے ایک پر اکتفا نہ کرے۔ لہٰذا صرف ’’صلی اللہ علیہ‘‘ نہ کہے اور نہ ہی صرف ’’علیہ السلام‘‘ کہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ساتھ ساتھ بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ (جیسے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا علیہ الصلاۃ والسلام)۔ آپ ﷺ پر درود بھیجنے کا حکم بہت سی جگہوں پر بطورِ واجب یا سنتِ مؤکدہ بڑی تاکید سےآیا ہے۔
علامہ ابنِ قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’جلاء الافہام‘‘ میں ایسی اکتالیس جگہوں کا تذکرہ کیا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا ثابت ہے، اس کی پہلی جگہ جو کہ سب سےاہم و مؤکد ترین بھی ہےوہ آخری تشہد ہے۔ اس موقع پر درود پڑھنے کی مشروعیت کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہےالبتہ اس کے وجوب کے بارے میں اختلاف ہے([2])۔ انہی جگہوں میں ایک قنوت کے آخر میں، خطبوں میں جیسے خطبۂجمعہ، عیدین و استسقا ء ،اسی طرح سے مؤذن کا جواب دینے کے بعد، دعاء کے وقت ، مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاذکر آتے وقت۔ پھر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے چالیس فائدے گنوائے ہیں([3])۔ انہی فائدوں میں سے کچھ یہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل، اللہ تعالیٰ کی طرف سےدرود بھیجنے والے کے لئے ایک درود پر دس رحمتیں ،دعاء کی قبولیت کی امید جب دعاء سے پہلے درود بھیجا جائے۔ پھر جب درود کے ساتھ وسیلہ(جنت کا بلند درجہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوگا) کا سوال کیا جائے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش کا سبب بنتا ہے، یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے درود کا جواب دیئے جانے کا بھی سبب ہے۔ پس اللہ تعالی درود وسلام بھیجے اس رسولِ کریم پر۔
[1]صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ: صَلَاةُ اللَّهِ ثَنَاؤُهُ عَلَيْهِ عِنْدَ الْمَلَائِكَةِ وَصَلَاةُ الْمَلَائِكَةِ الدُّعَاءُ۔
[2]جلاء الأفهام ص222، 223.
[3]جلاء الأفهام 302.
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding showing our anger to those who insult the prophet through #demonstrations? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#گستاخانِ_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت میں #احتجاجی_مظاہرے کرنے کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/01/gustakh_e_rasool_khilaf_muzahiraat_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: احسن اللہ الیکم یہ سائل کہتا ہے حال ہی جو واقعہ رونما ہوا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں استہزاء کیا جاتا ہے اس بارے میں ایک مسلمان کا کیا مؤقف ہونا چاہیے اور اس پر کیا واجب ہے؟

الشیخ: میرے بھائی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو اس وقت بھی مذاق اڑایا گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ تھے ان کا مقابلہ مذموم صفات کے ساتھ کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساحر(جادوگر) ہیں، کاہن ہیں، کذاب (بڑےجھوٹے) ہیں اور اس کے علاوہ اور باتیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں اور رسالت کے مستحق نہیں۔ رسالت تو ضروری ہے کہ فرشتوں کو ملے یا پھر بڑے رئیس امیر وکبیر لوگوں کو:
﴿وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ (الزخرف: 31)
(اور انہوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟)
طائف میں سے رئیسِ طائف ہوتا یا رئیسِ مکہ ہوتا تو اسے رسول ہونا چاہیے تھا جبکہ یہ یتیم، فقیر رسول ہو! یہ نازیبا بات ہے! اس طرح سے وہ کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے جواب دیا:
﴿اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ (الزخرف: 32)
(کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟! ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی)
یہ کسی چیز کے مالک نہیں اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کا مستحق ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے)
تم کون ہوتے ہو تجاویز دینے والے؟! اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کے فریضے کو ادا کرسکتا ہے اور کون اس کے لائق ہے ۔ اور وہ یہی یتیم ہیں اور وہ امین شخص ہیں جو رسالت کے لائق ہیں، انہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے چنا ہے۔
(فتاوی نور علی الدرب 14120)
سوال: احسن اللہ الیکم حال ہی میں باتکرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں مختلف طریقوں سےگستاخیاں کی جارہی ہیں کبھی فلموں کے ذریعے تو کبھی اخبارات وغیرہ میں۔ سوال یہ ہے کہ ان گستاخیوں کے تعلق سے کیا شرعی مؤقف ہونا چاہیے ساتھ ہی اسی کے تابع ایک اور سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیے جانے پر اپنے غیض وغصے کے اظہار کے لیے احتجاجی مظاہروں کا کیا حکم ہے؟
جواب: میرےبھائیوں یہ کوئی نئی بات نہيں ہے خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساحر، کذاب، کاہن، شاعر وغیرہ کہا گیا لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر صبر فرمایا عجلت پسندی وجلدبازی کا مظاہرہ نہيں فرمایا، کیونکہ خود اللہ تعالی نے انہیں صبر کرنے کا حکم دیا تھا:
﴿ وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾ (المزمل: 10)
(اور اس پر صبر کر یں جو وہ کہتے ہیں اور انہیں خوبصورت طریقے سے چھوڑ دیں)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب سنتے تھے لیکن اس کے باوجود حکم الہی کے بموجب صبر فرمایا کرتے تھے:
﴿اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ۔۔۔ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ، وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾ (الحجر: 95-99)
(بے شک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔۔۔اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ کا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں، پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں، اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں)