Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.95K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] Is being an #Aalim, #Muhaddith and #Mufassir proof enough for someone bearing the correct #Aqeedah and #Manhaj? – Shaykh #Saaleh_Aal_Shaykh
کیا کسی کا #عالم، #محدث و #مفسر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا #عقیدہ_ومنہج درست ہے؟
فضیلۃ الشیخ #صالح_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(وزیر مذہبی امور، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح كشف الشبهات.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/alim_daleel_aqeedah_mnhj_saheeh.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ’’کشف الشبھات‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’یہ بھی عین ممکن ہے کہ دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں۔۔۔‘‘۔
شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
ان کشف الشبہات (شبہات کے ازالے) کی راہ میں جو علماء ِمشرکین دلوں میں ڈالتے ہیں یہ بہت اہم مقدمہ ہے ۔ پس جو توحید کے دشمن ہیں خصوصا ًاس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جنہيں علماء میں شمار کیا جاتا ہے جو اس امت میں آئے۔ چناچہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن بالکل ہی علم سے کورا ہوتا ہے ، نہ ہی تصور کیا جائے کہ توحید کا دشمن فقیہ نہيں ہوسکتا، یا محّدث نہيں ہوسکتا، یا مفسر ِقرآن نہیں ہوسکتا، یا تاریخ دان نہيں ہوسکتا، بلکہ ہوسکتا ہے وہ ان بہت سے فنون میں سے کسی فن میں یا بہت سے فنون میں بہت نمایاں مقام رکھتاہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کا حال تھا جنہوں نے اس دعوت کے امام رحمہ اللہ پر رد کیے۔ کیونکہ بلاشبہ وہ اس مرتبے کے لوگ تھے کہ لوگ انگلیوں سے ان کی جانب اشارہ کرتے تھےان علوم کی نسبت سے جن میں ان کا تخصص تھا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو فقیہ تھے، بعض ایسے تھے جو تاریخ دان تھے۔ اور یہی حال ان لوگوں کا بھی تھا جن پر آئمہ دعوت نے رد فرمایا۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن کوئی عالم نہیں ہوگایا نہیں ہوسکتا۔
یہ شبہہ گمراہ قسم کے لوگ عوام کے دلوں میں ڈالتے ہیں ، پس وہ ایک عالم کا دوسرے عالم پر اعتراض کرنے کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ دونوں مذاہب (یا مواقف) ہی درست ہيں اور اس کا معنی میں وسعت ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بعض توحید کے مسائل تک کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ دوسرے قول سے زیادہ صحیح ہے یا علماء کرام کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق ایسا ایسا ہے۔ حالانکہ توحید کے مسائل میں ایسا کہنا بالکل بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ جو توحید کے مسائل میں بھی مخالفت کررہا ہو وہ علماء توحید میں سے نہیں ہوسکتا، نہ ہی ان علماء اہل سنت میں سے ہوسکتا ہے جن کی طرف کوئی قول منسوب کرنا درست ہوا کرتا ہے، یا اختلاف کی صورت میں ان کے قول کو بھی لیا جاتا ہے، بلکہ توحید کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس پر کتاب وسنت اور اجماع سلف سے کثیر دلائل دلالت کرتے ہیں ، اور آئمہ کرام نے بھی اسے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اب جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرتا ہے تو اگرچہ وہ کبار علماء میں سے ہو فقہ میں یا تاریخ میں یا حدیث میں یا اس کے علاوہ کسی چیز میں تو اس کی مخالفت اس کی ذات تک ہی ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس مسئلے میں (اصل میں کوئی) اختلاف ہے۔
لہذا اس بارے میں متنبہ رہا جائے کہ کہ بلاشبہ مشرکین کے علماء میں سے جو توحید کے دشمن ہیں ان کا حال یہ نہيں ہوتا کہ وہ عالم نہ ہوں، بلکہ ہوسکتا ہے وہ عالم ہو بلکہ فنون میں سے کسی فن میں امام ہو، تفسیر میں امام ہو، فقہ میں امام ہو، یا قضاء وفیصلوں کے لیے وہ لوگوں کا مرجع ہو، یا اس جیسے رتبے کے ہوں جیسا کہ اس دعوت کے دشمنان جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی مخالفت کی اور اس دعوت کی مخالفت کی۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Requesting_the_deceased_to_supplicate after their death is Shirk - Shaykh #Saaleh_Aal_Shaykh

#فوت_شدگان_سے_دعاء کی درخواست کرنا شرک ہے

فضیلۃ الشیخ #صالح_آل_الشیخ حفظہ اللہ

(وزیر مذہبی امور، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: شرح العقيدة الطحاوية و شرح كشف الشبهات

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/02/murdo_say_dua_ki_darkhuwast_shirk_hai.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال 1: جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرے کہ اس کے لیے دعاء کریں یا اس کے لیے اللہ سے مغفرت کا سوال کریں، کیا یہ شرک ہے؟

جواب: جی، یہ شرک اکبر ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موت کے بعد پکارا نہیں جاتا۔ لہذا فوت شدگان سے دعاء کرنا یا ان سے کہنا کہ وہ اللہ تعالی سے دعاء کریں کہ بارش ہو یعنی کہ فوت شدہ اللہ سے دعاء کرے کہ بارش ہو یا آپ کی مغفرت فرمائے یا کچھ عطاء کرے وغیرہ یہ سب دعاء میں داخل ہے لفظ دعاء میں۔ حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے:

﴿وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ (الجن: 18)

(اور یہ کہ بلاشبہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو)

جو کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ جو صورت ہے یعنی دعاء کا کسی سے طلب کرنا یہ وہ طلب نہیں ہے کہ جس کو شرک کہا جاتا ہے تو اس طرح کہنے والے شخص نے اس باب میں جو توحید ہے اس کی اصل وبنیاد کو ہی توڑ کر رکھ دیا۔ پس ہر قسم کی انواعِ طلب ، طلبِ دعاء یعنی فوت شدگان سے دعاء طلب کرنا، میت سے مغفرت طلب کرنا یا فوت شدہ سے طلب کرنا کہ وہ اللہ تعالی سے دعاء کرے آپ کی مغفرت کی، یا میت سے فریاد کرنا یا میت سے مدد طلب کرنا وغیرہ یہ سب ایک ہی باب سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ہے ’’طلب‘‘۔ اور طلب دعاء ہے جو اللہ تعالی کے اس فرمان میں داخل ہے:

﴿وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ﴾

(المؤمنون: 117)

(اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے)

اور اس فرمان میں داخل ہے:

﴿وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ (الجن: 18)

(اور یہ کہ بلاشبہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو)

اور اس میں بھی:

﴿وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ﴾ (فاطر: 13)

(جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے مالک نہیں)

اور اس طرح کی دیگر آیات پس تفریق ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔

جو کوئی ہمارے بعض آئمہ کے کلام سے یہ سمجھا ہے کہ وہ تفریق کرتے ہیں یا یہ فوت شدگان سے دعاء کا طلب کرنا صرف بدعت ہے اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ یہ شرک نہیں ہے۔ بلکہ یہ بدعت ہے مگر شرکیہ بدعت۔ یعنی اہل جاہلیت بالکل ہوبہو ایسا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ وہ ان کا تقرب حاصل کرتے (ان کی عبادت کرکے) پھر اس تقرب کے بدلے میں وہ سمجھتے کہ یہ فوت شدگان ہمارے لیے دعاء کریں گے۔ لیکن براہ راست فوت شدگان سے کہنا کہ میرے لیے دعاء کرو یہ بدعت ہے کہ جو اصلاً موجود نہیں تھی، نہ جاہلیت میں اور نہ مسلمانوں کے یہاں۔ پھر بعد میں یہ لوگوں میں ایجاد ہوئی تو بلاشبہ یہ اس معنی میں بدعت ہے۔ لیکن بدعت میں بھی شرکیہ کفریہ بدعت ہے۔ اور یہ ہے شفاعت کا معنی ، کونسی شفاعت؟ وہ شفاعت کہ جو اگر غیراللہ سے طلب کی جائے تو شرک ہوجائے گا۔ شفاعت کا مطلب ہے دعاء طلب کرنا اور فوت شدگان سے دعاء کرنے کی طلب کرنا یہ شفاعت ہے (یعنی شرکیہ شفاعت کا عقیدہ رکھنے والوں کے یہاں یہ تصور ہے شفاعت کا)۔

مصدر: شرح العقيدة الطحاوية الشريط الثامن الدقيقة 1س26د۔

سوال 2: بعض لوگ دوسرے ملکوں یا شہروں سے سفر کرکے بعض لوگوں کے پاس آتے ہیں جن کے بارے میں ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ اولیاء ہیں تو وہ ان سے طلب کرتے ہیں کہ وہ ان کے لیے اللہ تعالی سے دعاء کریں ، اس عمل کا کیا حکم ہے؟