Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.21K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] The #legislated_age of a #sacrificial_animal – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قربانی کی #معتبر_شرعی_عمر
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharae_umar.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کی معتبر شرعی عمر کیا ہونی چاہیے؟
جواب: شرعی اعتبار سے معتبر قربانی کی معتبر عمریں یہ ہیں:
اونٹ: پانچ (5) سال۔
گائے: دو (2) سال۔
بکرا: ایک (1) سال۔
دنبہ: چھ (6) ماہ([1])۔
جو ان سے کم عمر ہو ان کی قربانی نہ کی جائے اور اگر کرلی جائے تو وہ غیرمقبول ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
’’لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ‘‘([2])
(جانوروں میں سے سوائے مسنہ (جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگا ہو) کےقربانی نہ کرو، لیکن اگر ایسا کرنا مشکل ہوجائے تو دنبے کا جذعہ (جو چھ ماہ مکمل کرکے ساتویں میں لگا ہو) کرلو)([3])۔
’’ مُسِنَّةً ‘‘ یعنی دوسرے سال کا اور ’’جَذَعَةً ‘‘ یعنی جس کی چھ ماہ عمر ہو۔
[1] دو دانت پر تو اتفاق ہے فقہاء کرام کا لیکن اس کی عمر مختلف مویشیوں کے اعتبار سے سالوں میں کتنی بنتی ہے اس بارے میں اختلاف ہے تفصیل کے لیے دیکھیں : "بدائع الصنائع" (5/70) ، "البحر الرائق" (8/202) ، "التاج والإكليل" (4/363) ، "شرح مختصر خليل" (3/34) ، "المجموع" (8/365) ، "المغني" (13/368) . (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح مسلم 1965۔
[3] مجبوری کے علاوہ بھی ذبح کے جواز کے بارے میں احادیث ہیں، دیکھیں سنن ابی داود 2799 شیخ البانی نے اسے صحیح ابی داود میں صحیح قرار دیا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Is #eating_the_liver of the #sacrificial_animal firstly from the #Sunnah? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
کیا #قربانی میں سے سب سے پہلے #جگر_کھانا #مسنون ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى ابن عثیمین،جلد 16
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/qurbani_jigar_khana_masnoon.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی فقہاء کرام کے اس قول کے بارے میں کیا رائے ہے کہ قربانی میں سے جگر کا کھانا مسنون ہے؟ کیا اس بات کی کوئی دلیل بھی ہے؟
جواب: قربانی میں سے مطلق کھانا مسنون ہے۔ اور قربانی میں سے کھانے کے بارے میں قرآن وسنت کی دلیل موجود ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ (الحج: 28)
(پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میں سے کھانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور خود بھی کھایا ہے۔ پس اس میں دو سنتیں قولی اور فعلی جمع ہوگئی ہيں۔
جہاں تک سوال ہے کھانے میں سے جگر کو اختیار کرنے کا تویہ مستقل باب ِعبادت میں سے نہیں ہےبلکہ یہ فقط فقہاء کرام کا اپنا اختیار ہے، کیونکہ یہ بہت جلد اور آسانی سے گل جاتا ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding #staining_one's_forehead_with_the_blood of the #sacrificial_animal#Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
#ذبیحہ_کے_خون کے ساتھ اپنے #ماتھے_کو_خون_آلود_کرنا؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > العقائد > الإيمان > الجماعة والفرقة والفرق > البدع والمحدثات > س4: ما معنى لطخ الجباه بدم الأضحية؛ لأني رأيت بعض المسلمين فاعلين ذلك، فسألتهم معناه فقال لي رجل من علماء البلد: كذلك فعل أصحاب سيدنا إبراهيم عليه السلام حيث ذبح أضحيته فطلبت منه كتاب… فتوی رقم 6667۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/zabiha_khoon_matha_rangna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کے ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کا کیا معنی ہے؟ کیونکہ میں نے بعض مسلمانوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، تو میں نے ان سے دریافت کیا جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کے ملک کے کسی عالم نے یہ کہا ہے کہ: اسی طرح سے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ نے کیا تھا جب انہوں نے اپنا ذبیحہ ذبح فرمایا تھا، تو میں نے ان سے وہ کتاب طلب کی جس میں یہ تاریخ لکھی ہو لیکن مجھے نہ ملی، اور میں ایک طالبعلم ہوں میرے پاس بہت زیادہ کتابیں نہیں تو میں نے یہ مناسب سمجھا کہ آپ سے اس عمل کا معنی ومراد پوچھ لوں؟
جواب: ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کے عمل کی ہمیں کوئی اصل وبنیاد نہيں معلوم، نہ کتاب سےنہ ہی سنت سے، اور نہ ہی ہم کسی صحابی کو جانتے ہيں کہ انہوں نے ایسا کیا ہو۔ لہذایہ بدعت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([1])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([2])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سےنہیں، تو وہ مردود ہے)۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).
[2] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).