[#SalafiUrduDawah Book] #Aqeedah and #Manhaj necessitates each other - Various #Ulamaa
#عقیدہ اور #منہج لازم ملزوم ہیں
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
﷽
فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب وشیخ ابن باز، شیخ محمد ناصر الدین الالبانی، شیخ محمد بن صالح العثیمین ، شیخ محمد امان الجامی ، شیخ مقبل بن ہادی الوادعی ، شیخ زید بن محمد المدخلی رحمہم اللہ اور شیخ ربیع بن ہادی المدخلی ، شیخ صالح بن فوزان الفوزان ، شیخ عبید بن عبداللہ الجابری ،شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ و شیخ محمد علی فرکوس حفظہم اللہ کے کلام سے ماخوذ۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_manhaj_lazim_malzoom_hain.pdf
#عقیدہ اور #منہج لازم ملزوم ہیں
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
﷽
فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب وشیخ ابن باز، شیخ محمد ناصر الدین الالبانی، شیخ محمد بن صالح العثیمین ، شیخ محمد امان الجامی ، شیخ مقبل بن ہادی الوادعی ، شیخ زید بن محمد المدخلی رحمہم اللہ اور شیخ ربیع بن ہادی المدخلی ، شیخ صالح بن فوزان الفوزان ، شیخ عبید بن عبداللہ الجابری ،شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ و شیخ محمد علی فرکوس حفظہم اللہ کے کلام سے ماخوذ۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_manhaj_lazim_malzoom_hain.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Is being an #Aalim, #Muhaddith and #Mufassir proof enough for someone bearing the correct #Aqeedah and #Manhaj? – Shaykh #Saaleh_Aal_Shaykh
کیا کسی کا #عالم، #محدث و #مفسر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا #عقیدہ_ومنہج درست ہے؟
فضیلۃ الشیخ #صالح_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(وزیر مذہبی امور، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح كشف الشبهات.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/alim_daleel_aqeedah_mnhj_saheeh.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ’’کشف الشبھات‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’یہ بھی عین ممکن ہے کہ دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں۔۔۔‘‘۔
شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
ان کشف الشبہات (شبہات کے ازالے) کی راہ میں جو علماء ِمشرکین دلوں میں ڈالتے ہیں یہ بہت اہم مقدمہ ہے ۔ پس جو توحید کے دشمن ہیں خصوصا ًاس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جنہيں علماء میں شمار کیا جاتا ہے جو اس امت میں آئے۔ چناچہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن بالکل ہی علم سے کورا ہوتا ہے ، نہ ہی تصور کیا جائے کہ توحید کا دشمن فقیہ نہيں ہوسکتا، یا محّدث نہيں ہوسکتا، یا مفسر ِقرآن نہیں ہوسکتا، یا تاریخ دان نہيں ہوسکتا، بلکہ ہوسکتا ہے وہ ان بہت سے فنون میں سے کسی فن میں یا بہت سے فنون میں بہت نمایاں مقام رکھتاہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کا حال تھا جنہوں نے اس دعوت کے امام رحمہ اللہ پر رد کیے۔ کیونکہ بلاشبہ وہ اس مرتبے کے لوگ تھے کہ لوگ انگلیوں سے ان کی جانب اشارہ کرتے تھےان علوم کی نسبت سے جن میں ان کا تخصص تھا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو فقیہ تھے، بعض ایسے تھے جو تاریخ دان تھے۔ اور یہی حال ان لوگوں کا بھی تھا جن پر آئمہ دعوت نے رد فرمایا۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن کوئی عالم نہیں ہوگایا نہیں ہوسکتا۔
یہ شبہہ گمراہ قسم کے لوگ عوام کے دلوں میں ڈالتے ہیں ، پس وہ ایک عالم کا دوسرے عالم پر اعتراض کرنے کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ دونوں مذاہب (یا مواقف) ہی درست ہيں اور اس کا معنی میں وسعت ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بعض توحید کے مسائل تک کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ دوسرے قول سے زیادہ صحیح ہے یا علماء کرام کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق ایسا ایسا ہے۔ حالانکہ توحید کے مسائل میں ایسا کہنا بالکل بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ جو توحید کے مسائل میں بھی مخالفت کررہا ہو وہ علماء توحید میں سے نہیں ہوسکتا، نہ ہی ان علماء اہل سنت میں سے ہوسکتا ہے جن کی طرف کوئی قول منسوب کرنا درست ہوا کرتا ہے، یا اختلاف کی صورت میں ان کے قول کو بھی لیا جاتا ہے، بلکہ توحید کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس پر کتاب وسنت اور اجماع سلف سے کثیر دلائل دلالت کرتے ہیں ، اور آئمہ کرام نے بھی اسے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اب جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرتا ہے تو اگرچہ وہ کبار علماء میں سے ہو فقہ میں یا تاریخ میں یا حدیث میں یا اس کے علاوہ کسی چیز میں تو اس کی مخالفت اس کی ذات تک ہی ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس مسئلے میں (اصل میں کوئی) اختلاف ہے۔
لہذا اس بارے میں متنبہ رہا جائے کہ کہ بلاشبہ مشرکین کے علماء میں سے جو توحید کے دشمن ہیں ان کا حال یہ نہيں ہوتا کہ وہ عالم نہ ہوں، بلکہ ہوسکتا ہے وہ عالم ہو بلکہ فنون میں سے کسی فن میں امام ہو، تفسیر میں امام ہو، فقہ میں امام ہو، یا قضاء وفیصلوں کے لیے وہ لوگوں کا مرجع ہو، یا اس جیسے رتبے کے ہوں جیسا کہ اس دعوت کے دشمنان جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی مخالفت کی اور اس دعوت کی مخالفت کی۔
کیا کسی کا #عالم، #محدث و #مفسر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا #عقیدہ_ومنہج درست ہے؟
فضیلۃ الشیخ #صالح_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(وزیر مذہبی امور، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح كشف الشبهات.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/alim_daleel_aqeedah_mnhj_saheeh.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ’’کشف الشبھات‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’یہ بھی عین ممکن ہے کہ دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں۔۔۔‘‘۔
شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
ان کشف الشبہات (شبہات کے ازالے) کی راہ میں جو علماء ِمشرکین دلوں میں ڈالتے ہیں یہ بہت اہم مقدمہ ہے ۔ پس جو توحید کے دشمن ہیں خصوصا ًاس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جنہيں علماء میں شمار کیا جاتا ہے جو اس امت میں آئے۔ چناچہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن بالکل ہی علم سے کورا ہوتا ہے ، نہ ہی تصور کیا جائے کہ توحید کا دشمن فقیہ نہيں ہوسکتا، یا محّدث نہيں ہوسکتا، یا مفسر ِقرآن نہیں ہوسکتا، یا تاریخ دان نہيں ہوسکتا، بلکہ ہوسکتا ہے وہ ان بہت سے فنون میں سے کسی فن میں یا بہت سے فنون میں بہت نمایاں مقام رکھتاہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کا حال تھا جنہوں نے اس دعوت کے امام رحمہ اللہ پر رد کیے۔ کیونکہ بلاشبہ وہ اس مرتبے کے لوگ تھے کہ لوگ انگلیوں سے ان کی جانب اشارہ کرتے تھےان علوم کی نسبت سے جن میں ان کا تخصص تھا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو فقیہ تھے، بعض ایسے تھے جو تاریخ دان تھے۔ اور یہی حال ان لوگوں کا بھی تھا جن پر آئمہ دعوت نے رد فرمایا۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن کوئی عالم نہیں ہوگایا نہیں ہوسکتا۔
یہ شبہہ گمراہ قسم کے لوگ عوام کے دلوں میں ڈالتے ہیں ، پس وہ ایک عالم کا دوسرے عالم پر اعتراض کرنے کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ دونوں مذاہب (یا مواقف) ہی درست ہيں اور اس کا معنی میں وسعت ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بعض توحید کے مسائل تک کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ دوسرے قول سے زیادہ صحیح ہے یا علماء کرام کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق ایسا ایسا ہے۔ حالانکہ توحید کے مسائل میں ایسا کہنا بالکل بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ جو توحید کے مسائل میں بھی مخالفت کررہا ہو وہ علماء توحید میں سے نہیں ہوسکتا، نہ ہی ان علماء اہل سنت میں سے ہوسکتا ہے جن کی طرف کوئی قول منسوب کرنا درست ہوا کرتا ہے، یا اختلاف کی صورت میں ان کے قول کو بھی لیا جاتا ہے، بلکہ توحید کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس پر کتاب وسنت اور اجماع سلف سے کثیر دلائل دلالت کرتے ہیں ، اور آئمہ کرام نے بھی اسے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اب جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرتا ہے تو اگرچہ وہ کبار علماء میں سے ہو فقہ میں یا تاریخ میں یا حدیث میں یا اس کے علاوہ کسی چیز میں تو اس کی مخالفت اس کی ذات تک ہی ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس مسئلے میں (اصل میں کوئی) اختلاف ہے۔
لہذا اس بارے میں متنبہ رہا جائے کہ کہ بلاشبہ مشرکین کے علماء میں سے جو توحید کے دشمن ہیں ان کا حال یہ نہيں ہوتا کہ وہ عالم نہ ہوں، بلکہ ہوسکتا ہے وہ عالم ہو بلکہ فنون میں سے کسی فن میں امام ہو، تفسیر میں امام ہو، فقہ میں امام ہو، یا قضاء وفیصلوں کے لیے وہ لوگوں کا مرجع ہو، یا اس جیسے رتبے کے ہوں جیسا کہ اس دعوت کے دشمنان جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی مخالفت کی اور اس دعوت کی مخالفت کی۔
[Article] Did Allaah create the universe for the #prophet_Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ? - Various 'Ulamaa
کیا #نبی_محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کائنات بنی ہے؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#عقیدہ
#aqeedah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/kiya_nabi_k_liye_kainat_bani_hai.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: یہ بات بالکل جانی مانی اور زبان زد عام ہوچکی ہے گویا کہ یہ کوئی بدیہی حقیقت ہے کہ بلاشبہ یہ دینا ومافیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا کی گئی ہے، اگر آپ نہ ہوتے تو یہ یہ نہ پیدا ہوتی نہ اس کا کوئی وجود ہوتا۔ ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے اپنے اس سوال کا جواب دلیل کے ساتھ چاہتے ہيں، آیا واقعی ایسا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ :
یہ بعض عوام الناس کا قول ہے جو کچھ سمجھ بوجھ نہيں رکھتے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ: یہ دنیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بنائی گئی ہے، اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو یہ دنیا ہی نہ پیدا کی جاتی اور نہ ہی لوگوں کو پیدا کیا جاتا۔یہ بالکل باطل بات ہے جس کی کوئی اصل نہیں، یہ فاسد کلام ہے)[1](۔ اللہ تعالی نے یہ دنیا اس لیے پیدا کی کہ اللہ تعالی کی معرفت ہو اور اس سبحانہ وتعالی کے وجود کو جانا جائے، اور تاکہ اس کی عبادت کی جائے۔اس دنیا کو پیدا کیا اور مخلوقات کو تاکہ اسے اس کے اسماء وصفات، اور اس کے علم و فضل سے جانا جائے۔ اور تاکہ اس اکیلے کی بلاشرکت عبادت کی جائے اور اس سبحانہ وتعالی کی اطاعت کی جائے۔ نا محمد کے لیے، نہ ہی نوح ، نہ موسیٰ اور نہ عیسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام کے لیے اور نہ ہی ان کے علاوہ دیگر انبیاء کرام کے لیے۔بلکہ اللہ تعالی نے مخلوق کو اکیلے اس کی بلاشرکت عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ اللہ تعالی نے اس پوری دنیا اور تمام مخلوقات کو اپنی عبادت، تعظیم کے لیے اور ا س بات کے لیے کہ پیدا فرمایا کہ لوگ جان لیں کہ وہ بے شک ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور بلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یقیناً وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)
(میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہيں کیا مگر صرف اسی لیے کہ وہ میری عبادت کریں)
پس اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ بے شک اس نے انہیں اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اس کی عبادت کریں،ناکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منجملہ دیگر مخلوقات کی طرح اپنے رب کی عبادت کے لیے ہی پیدا فرمائے گئے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾(الحجر: 99)
(اور اپنے رب کی عبادت کرو، یہاں تک کہ تمہارے پاس یقین(موت) آجائے)
اور اللہ تعالی سورۃ الطلاق میں فرماتا ہے:
﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 12)
(اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند ۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ بےشک اللہ ہر چیز پر بھرپور قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ بےشک اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے)
اور اس سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا﴾ (ص: 27)
(اور ہم نے آسمان و زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کو بےکارپیدا نہیں کیا)
اللہ تعالی نے مخلوق کو اس لیے تخلیق فرمایا کہ وہ اس کی عبادت کریں، انہيں حق کے لیے اور برحق پیدا فرمایا تاکہ اس کی عبادت، اطاعت اور تعظیم ہو۔ اور تاکہ جان لیا جائے کہ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ کہ سب کام وہی کرتا ہے۔
کیا #نبی_محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کائنات بنی ہے؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#عقیدہ
#aqeedah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/kiya_nabi_k_liye_kainat_bani_hai.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: یہ بات بالکل جانی مانی اور زبان زد عام ہوچکی ہے گویا کہ یہ کوئی بدیہی حقیقت ہے کہ بلاشبہ یہ دینا ومافیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا کی گئی ہے، اگر آپ نہ ہوتے تو یہ یہ نہ پیدا ہوتی نہ اس کا کوئی وجود ہوتا۔ ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے اپنے اس سوال کا جواب دلیل کے ساتھ چاہتے ہيں، آیا واقعی ایسا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ :
یہ بعض عوام الناس کا قول ہے جو کچھ سمجھ بوجھ نہيں رکھتے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ: یہ دنیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بنائی گئی ہے، اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو یہ دنیا ہی نہ پیدا کی جاتی اور نہ ہی لوگوں کو پیدا کیا جاتا۔یہ بالکل باطل بات ہے جس کی کوئی اصل نہیں، یہ فاسد کلام ہے)[1](۔ اللہ تعالی نے یہ دنیا اس لیے پیدا کی کہ اللہ تعالی کی معرفت ہو اور اس سبحانہ وتعالی کے وجود کو جانا جائے، اور تاکہ اس کی عبادت کی جائے۔اس دنیا کو پیدا کیا اور مخلوقات کو تاکہ اسے اس کے اسماء وصفات، اور اس کے علم و فضل سے جانا جائے۔ اور تاکہ اس اکیلے کی بلاشرکت عبادت کی جائے اور اس سبحانہ وتعالی کی اطاعت کی جائے۔ نا محمد کے لیے، نہ ہی نوح ، نہ موسیٰ اور نہ عیسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام کے لیے اور نہ ہی ان کے علاوہ دیگر انبیاء کرام کے لیے۔بلکہ اللہ تعالی نے مخلوق کو اکیلے اس کی بلاشرکت عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ اللہ تعالی نے اس پوری دنیا اور تمام مخلوقات کو اپنی عبادت، تعظیم کے لیے اور ا س بات کے لیے کہ پیدا فرمایا کہ لوگ جان لیں کہ وہ بے شک ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور بلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یقیناً وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)
(میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہيں کیا مگر صرف اسی لیے کہ وہ میری عبادت کریں)
پس اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ بے شک اس نے انہیں اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اس کی عبادت کریں،ناکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منجملہ دیگر مخلوقات کی طرح اپنے رب کی عبادت کے لیے ہی پیدا فرمائے گئے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾(الحجر: 99)
(اور اپنے رب کی عبادت کرو، یہاں تک کہ تمہارے پاس یقین(موت) آجائے)
اور اللہ تعالی سورۃ الطلاق میں فرماتا ہے:
﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 12)
(اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند ۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ بےشک اللہ ہر چیز پر بھرپور قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ بےشک اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے)
اور اس سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا﴾ (ص: 27)
(اور ہم نے آسمان و زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کو بےکارپیدا نہیں کیا)
اللہ تعالی نے مخلوق کو اس لیے تخلیق فرمایا کہ وہ اس کی عبادت کریں، انہيں حق کے لیے اور برحق پیدا فرمایا تاکہ اس کی عبادت، اطاعت اور تعظیم ہو۔ اور تاکہ جان لیا جائے کہ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ کہ سب کام وہی کرتا ہے۔
[Article] Does #Rasoolullaah (salAllaho alaihi wasallam) have any power before Allaah? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا #رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی اختیار رکھتےہیں؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحید اولاً
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#توحید
#عقیدہ
#tawheed
#aqeedah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/kiya_rasool_Allaah_muqablay_ikhtiyar_rakhte_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ:
﴿قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ﴾ (الاعراف: 188)
(آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لیےکسی نفع کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ تعالی چاہے)
اس کے بعد اور کس دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ یہ کلام حق ہے یا باطل؟ ان قبرپرستوں کی زبان حال تویہی جواب دیتی معلوم ہوتی ہے کہ: نہیں، یہ کلام صحیح نہیں اگرچہ وہ اپنی زبان سے لفظی طور پراس کا انکار نہیں کرتے، لیکن فی الواقع وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے، ہرگز نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ: اولیاء کرام نفع ونقصان پہنچاتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفع ونقصان کے مالک ہیں۔ تو پھر سن لو اے بھائی تم قرآن کریم سے عناد رکھتے ہو اگر واقعی تمہارا یہی عقیدہ ہے۔ اگر یہی تمہارا عقیدہ ہے تو جان لو اللہ کی قسم یہ کفر ہے، اللہ تعالی تو فرمائیں:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ (الجن: 21)
(کہہ دیں بلاشبہ میں تمہارے لیے نہ کوئی نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا)
اس سے زیادہ آپ کون سی دلیل چاہتے ہیں میرے بھائی؟ آپ ﷺ اپنے ذات کے لئے، اورنہ اپنی پیاری صاحبزادی کے لئے اور نہ ہی کسی اور کے لئے کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں، ان سب کو فرمایا کہ میں اللہ تعالی کے سامنے تمہارے بارے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، فرمایا:
’’يا بني عبد مناف يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا‘‘([1])
(اے بنی عبدمناف! اے قریش یا پھر اسی جیسا کوئی کلمہ فرمایا، کہ میں اللہ تعالی کے سامنے تمہارا کوئی اختیار نہیں رکھتا، اپنے نفسوں کو خرید لو(جہنم سے بچانے کے لئے)، میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں تمہارا کچھ اختیار نہیں رکھتا، اے بنی عبدمناف! میں اللہ تعالی کے یہاں تمہارا کوئی اختیار نہیں رکھتا(اور نہ ہی اس کے عذاب سے بچا سکتا ہوں)، اے عباس بن عبدالمطلب! میں آپ کے لئے اللہ تعالی کے سامنے کوئی اختیار نہیں رکھتا، اور اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں آپ کے لئے اللہ تعالی کی جناب میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، اور اے فاطمہ بنت محمد! تم میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لو مگراللہ تعالی کی بارگاہ میں میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا)۔
اب اس فرمان کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے؟ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیجئے:
﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (الاعراف: 188)
(میں تو محض خبردار کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں، اس قوم کو جو ایمان لاتی ہے)
اوریہ فرمائیں کہ:
﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ﴾ (الشعراء: 115)
(میں تو محض کھلم کھلا خبردار کرنے والا ہوں)
یہی میرا کام میری ذمہ داری ہے، اللہ تعالی نے مجھ پر قرآن حکیم نازل فرمایا اور میں اس کی تبلیغ کرتا ہوں، مومنوں کو جنت کی بشارت دیتا ہوں اور کافروں کو جہنم سے ڈراتا ہوں، یہی کچھ ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں اور اس پر قدرت رکھتا ہوں، رہی بات نفع ونقصان، بدبختی وخوش بختی، ہدایت وگمراہی یہ سب کا سب اللہ تعالی رب العالمین کے اختیار میں ہے۔
[1] رواه البخاري في التفسير ، باب : وأنذر عشيرتك الأقربين ، برقم ( 4771 ) . ومسلم في الإيمان باب : وأنذر عشيرتك الأقربين، برقم ( 206 ) ، وغيرهما .
کیا #رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی اختیار رکھتےہیں؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحید اولاً
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#توحید
#عقیدہ
#tawheed
#aqeedah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/kiya_rasool_Allaah_muqablay_ikhtiyar_rakhte_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ:
﴿قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ﴾ (الاعراف: 188)
(آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لیےکسی نفع کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ تعالی چاہے)
اس کے بعد اور کس دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ یہ کلام حق ہے یا باطل؟ ان قبرپرستوں کی زبان حال تویہی جواب دیتی معلوم ہوتی ہے کہ: نہیں، یہ کلام صحیح نہیں اگرچہ وہ اپنی زبان سے لفظی طور پراس کا انکار نہیں کرتے، لیکن فی الواقع وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے، ہرگز نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ: اولیاء کرام نفع ونقصان پہنچاتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفع ونقصان کے مالک ہیں۔ تو پھر سن لو اے بھائی تم قرآن کریم سے عناد رکھتے ہو اگر واقعی تمہارا یہی عقیدہ ہے۔ اگر یہی تمہارا عقیدہ ہے تو جان لو اللہ کی قسم یہ کفر ہے، اللہ تعالی تو فرمائیں:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ (الجن: 21)
(کہہ دیں بلاشبہ میں تمہارے لیے نہ کوئی نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا)
اس سے زیادہ آپ کون سی دلیل چاہتے ہیں میرے بھائی؟ آپ ﷺ اپنے ذات کے لئے، اورنہ اپنی پیاری صاحبزادی کے لئے اور نہ ہی کسی اور کے لئے کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں، ان سب کو فرمایا کہ میں اللہ تعالی کے سامنے تمہارے بارے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، فرمایا:
’’يا بني عبد مناف يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا‘‘([1])
(اے بنی عبدمناف! اے قریش یا پھر اسی جیسا کوئی کلمہ فرمایا، کہ میں اللہ تعالی کے سامنے تمہارا کوئی اختیار نہیں رکھتا، اپنے نفسوں کو خرید لو(جہنم سے بچانے کے لئے)، میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں تمہارا کچھ اختیار نہیں رکھتا، اے بنی عبدمناف! میں اللہ تعالی کے یہاں تمہارا کوئی اختیار نہیں رکھتا(اور نہ ہی اس کے عذاب سے بچا سکتا ہوں)، اے عباس بن عبدالمطلب! میں آپ کے لئے اللہ تعالی کے سامنے کوئی اختیار نہیں رکھتا، اور اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں آپ کے لئے اللہ تعالی کی جناب میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، اور اے فاطمہ بنت محمد! تم میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لو مگراللہ تعالی کی بارگاہ میں میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا)۔
اب اس فرمان کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے؟ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیجئے:
﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (الاعراف: 188)
(میں تو محض خبردار کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں، اس قوم کو جو ایمان لاتی ہے)
اوریہ فرمائیں کہ:
﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ﴾ (الشعراء: 115)
(میں تو محض کھلم کھلا خبردار کرنے والا ہوں)
یہی میرا کام میری ذمہ داری ہے، اللہ تعالی نے مجھ پر قرآن حکیم نازل فرمایا اور میں اس کی تبلیغ کرتا ہوں، مومنوں کو جنت کی بشارت دیتا ہوں اور کافروں کو جہنم سے ڈراتا ہوں، یہی کچھ ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں اور اس پر قدرت رکھتا ہوں، رہی بات نفع ونقصان، بدبختی وخوش بختی، ہدایت وگمراہی یہ سب کا سب اللہ تعالی رب العالمین کے اختیار میں ہے۔
[1] رواه البخاري في التفسير ، باب : وأنذر عشيرتك الأقربين ، برقم ( 4771 ) . ومسلم في الإيمان باب : وأنذر عشيرتك الأقربين، برقم ( 206 ) ، وغيرهما .