Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.17K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Article] Women's extremism in Dawah activities – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
خواتین کا دعوتی سرگرمیوں میں غلو کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ ’’الزواج في الإسلام‘‘۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/khawateen_dawat_me_ghulu.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آخر میں یہ سوال ہوا کہ کیا عورت کے لئے جائز ہےکہ وہ مخصوص ومعین اسلامی دعوتی سرگرمیوں میں ملوث ومتحرک ہو؟
میں ایک ناصح اور خیرخواہ کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ : بے شک عالم اسلامی کے مصائب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورتیں یہاں تک کہ مسلمان عورتیں، بلکہ پردہ دار خواتین بھی، اور اس سے بڑھ کر بعض سلفی بہنیں بھی اپنے گھر سے نکل پڑتی ہیں اس چیز کی طرف جو ان کے وظائف میں سے نہیں۔ کیونکہ عورتوں کے لئے اسلامی (دعوتی) سرگرمی کا کوئی وجود نہیں؟ اس کی سرگرمیاں اس کے گھرمیں، گھر کی دہلیز کے اندراندر ہیں۔ عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مردوں کی مشابہت اختیار کرے، اور اسی طرح مسلمان عورت کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مسلمان مرد کی مشابہت اختیار کرے۔
مسلمان عورتیں اگر اسلام کی کماحقہ خدمت کرنا چاہتی ہیں تو وہ اپنے گھر میں کریں۔ عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ نکلے، اور ساتھ ساتھ یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر پر یہ شرط عائد کرے کہ وہ (بیوی) شادی کے بعد بھی لازماً اسلامی دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہے گی۔ اس کی سابقہ دعوتی سرگرمیاں اگر بالفرض مطلقاً جائز بھی ہوتیں تو پھر بھی وہ کنواری باکرہ لڑکیوں کی حالت سے مناسبت رکھتی ہیں کہ جن پر کوئی مسئولیت وذمہ داریاں نہیں ہوتیں۔ اب جبکہ وہ گھر والی ہوگئی ہے جس پر اپنے شوہر کی جانب سے واجبات ہیں اور جو اللہ تعالی اسے اولاد عطاء فرمائے گا ان کی طرف سے بھی، لہذا یہ بالکل ایک بدیہی امر ہے کہ اب اس کی زندگی میں (ذمہ داریوں کا) اضافہ ہوگیا ہے۔ اور یہ سب بھی اس وقت جب ہم یہ مفروضہ بنائیں کہ سابقہ شرط جائز تھی حالانکہ درحقیقت ہم اس کے مطلق جواز کے قائل ہی نہیں۔
صحابی عورتیں رضی اللہ عنہن جو علمی اورثقافتی وغیرہ اعتبار سے ایک نمونہ تھیں۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کسی عورت نے اسلامی (دعوتی) سرگرمی وغیرہ کی قیادت مردوں کے مابین شروع کردی ہو۔ لیکن جب آپ یہ سنتے ہیں کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گھر سے باہر نکلی تھیں (اس کی کیا توجیہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایسے مسئلے اور فتنہ میں باہر نکلی تھیں جو وقوع پزیر ہوا کہ اس نکلنے کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں کے لئے خیر کا باعث ہوگا، مگر درحقیقت ایسا نہ تھا۔ اور بلاشبہ علماء اسلام نے یہی حکم بیان فرمایا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا اس نکلنے کے بارے میں غلطی پر تھیں۔ اور ان کا واقعۂ جمل وغیرہ میں خطبہ غلطی تھی، لیکن یہ خطاء ان کی دیگر حسنات کی وجہ سے مغفور (معاف) تھیں۔ البتہ کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ آپ رضی اللہ عنہا کی اس غلطی میں پیروی کرے جبکہ آپ رضی اللہ عنہا نے خود اس سے توبہ کرلی تھی، اور مزید یہ کہ ہم ان کی باقی حیات میں (دوبارہ) ایسا نکلنا اور ایسا کوئی خروج بالکل نہیں جانتے۔ چناچہ وہ خاص ماحول تھا جس میں ان کی جانب سے خاص اجتہاد تھا لیکن اس کے باوجود یہ اجتہادی غلطی ہی تھی۔
البتہ آپ دیکھتے ہیں عورت کو کہ کسی (دعوتی طور پر) سرگرم مرد کی مانند آنا جانا لگایا ہوا ہے اوربسااوقات تو بعض ان میں سے اکیلے سفر تک کرجاتی ہیں جو کہ اسلام میں حرام سفر ہے (جیساکہ حدیث میں ہے کہ) :
’’لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ أَنْ أَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا إِلَّا وَمَعَهَا زَوْجُهَا أَوْ ذُو مَحْرَمٍ لَهَا‘‘([1])
(عورت کے لئے سفر جائز نہیں الا یہ کہ اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی محرم ہو)۔
تو آپ ان عورتوں کو پائیں گے کہ اسلام کی جانب دعوت کے نام پر گھر سے باہر اکیلے سفر کررہی ہیں۔ لیکن فی الواقع اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مرد اس چیز کو ادا نہیں کررہے جو ان پر واجب ہے، تو اسی لئےیہ خلاء دیکھ کر بعض عورتوں پر یہ خیال گزرا کہ ہم پر یہ ضروری ہے کہ اس خلاء کو پر کریں۔
پس ہم مردوں کو چاہیے کہ فریضۂ دعوت کو فہماً، عملاً، تطبیقاً اوردعوتاً ادا کریں اور عورتوں کو ان کے گھروں میں ٹکنے کا پابند بنائیں، اور وہ اس واجب کو ادا کریں جو ان کے رشتہ داروں، اولاد، بھائیوں اور بہنوں وغیرہ کی تربیت کے تعلق سے ان پر ہے۔
البتہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان عورتیں میں سے کچھ پڑوسنیں ایسی جگہ پر جو عورتوں کے لئے خاص ہو جمع ہوں اور ایسی مناسب ودھیمی آواز سے جو اس مکان کے مناسب حال ہو جہاں وہ بیٹھیں ہوئی ہیں (تعلیم وغیرہ دیں)۔
جبکہ جو کچھ ہم آجکل مشاہدہ کررہے ہیں تو میرا اعتقاد ہے کہ اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں، اگرچہ بعض اسلامی جماعتیں خواتین کی ایسی تحریکوں
اسلام کے نام پر منظم کریں۔ میرا یہ اعتقاد ہے کہ یہ دین میں نئے کاموں (بدعات) میں سے ہے۔ اور آپ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان یاد ہوگا بلکہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ آپ اسے حفظ کرلیں:
’’وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ وَكُلَّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ‘‘([2])
(اور دین میں میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچو، کیونکہ بے شک دین میں ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ میں ہے)۔
اور ہم اتنی ہی بات پر کفایت کرتے ہیں۔
سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك۔
[1] یہ حدیث مختلف الفاظوں کے ساتھ صحیح بخاری 1087، صحیح مسلم 1339اور دیگر کتب احادیث میں مروی ہے، جن میں سے بعض میں تین دن، بعض میں دو اور بعض میں مطلقا ًسفر کا ذکر ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح ترمذی 2676 ، صحیح ابی داود 4607 وغیرہ۔
[Urdu Book] Tawheed First - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee

توحید سب سے پہلے

فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ

(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)

ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی

مصدر: التوحيد أولاً.

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

بنی آدم کے خلاف شیطان کا سب سے بڑا مکر

اللہ کی عبادت اور طاغوت کا انکار

حقیقی اصلاح اور مصلحین

توحید کے تعلق سے شریعت کے نفاذ کا دعویٰ کرنے والی دینی سیاسی انقلابی جماعتوں کے مناہج

توحید کی خاطر دوستی ودشمنی

یہ جماعتیں توحید کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں

کلمۂ توحید کی باطل تفسیر

کلمۂ توحید کی حقیقی تفسیر

کلمۂ توحید کی باطل تفسیر کرنے کے نقصانات

دعوتِ مجدد امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ

امام صاحب کی دعوت کے خلاف بدعتیوں اور کافروں کی سازشیں

دینی سیاسی جماعتوں کی شرک کے سدباب سے عدم توجہی

سیاست کی خاطر عقیدۂ توحید کی توہین کرنا

علماء توحید کی توہین کرنا

توحید ربوبیت اور عظمت الہی کو توحید عبادت کی دلیل کے طور پر پیش کرنا

عظمت الہی کے مزید دلائل

مسلمانوں میں فاسد عقائد کو رواج دینے کی سازشیں

توحید ہی پورے دین اور ہر خیر کی بنیاد ہے

توحید کی بنیاد پر دوستی ودشمنی

اے نوجوانو! منہج انبیاء کو اپناؤ

منہج خاتم الانبیاء ﷺ اور احترام ِتوحید

عظمتِ الہی کے مزید دلائل

توحید اسماء وصفات کے ذریعہ تعظیم الہی

توحید اسماء وصفات سے متعلق گمراہ عقائد

توحید اسماء وصفات سے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ

عقیدے سے متعلق فکری ونظریاتی جنگ

دشمنان اسلام کے تسلط سے نجات کیونکر ممکن ہے

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی اختیار رکھتےہیں؟

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم الغیب ہیں؟

دینی سیاسی جماعتوں کی توحید کے تعلق سے دھوکہ بازی

توحید پرستوں ہوش کے ناخن لو

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/tawheed_sab_say_pehlay_rabee.pdf
[Urdu Article] The innovation of women delivering Duroos to women in Masaajid – Various 'Ulamaa
عورت کا عورتوں کو مسجد میں درس دینے کی بدعت
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث:
’’جَاءَ نِسْوَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقُلْنَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقْدِرُ عَلَيْكَ فِي مَجْلِسِكَ مِنَ الرِّجَالِ، فَوَاعِدْنَا مِنْكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ، قَالَ: مَوْعِدُكُنَّ بَيْتُ فُلَانٍ، وَأَتَاهُنَّ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، وَلِذَلِكَ الْمَوْعِدِ، قَالَ: فَكَانَ مِمَّا قَالَ لَهُنَّ، يَعْنِي: مَا مِنَ امْرَأَةٍ تُقَدِّمُ ثَلَاثًا مِنَ الْوَلَدِ تَحْتَسِبُهُنَّ، إِلَّا دَخَلَتْ الْجَنَّةَ، فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ: أَوْ اثْنَانِ؟ قَالَ: أَوْ اثْنَان‘‘([1])
(عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئيں اور کہا: یا رسول اللہ! مردوں کی وجہ سے ہم مجلس میں آپ سے مستفید نہیں ہوپاتیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا ایک دن مقرر کرلیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم فلاں کے گھر پر جمع ہوجانا۔ پس وہ اس مقررہ دن پر حاضر ہوا کرتیں جو ان کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ ان مجالس میں دیگر دینی باتوں کےساتھ یہ بات بھی فرمائی کہ: کسی بھی عورت کے اگر تین بیٹے فوت ہوجائیں اور وہ ان پر صبر کرکے اللہ تعالی سے اجروثواب کی امید رکھے تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ ان میں سے کسی عورت نے کہا اگر دو بیٹے ہوں؟ فرمایا: دو پر بھی ایسا کرنے سے جنت میں داخلہ ہوجائے گا)۔
اس حدیث کی تشریح پر شیخ البانی رحمہ اللہ کا کلام، اور اس کے علاوہ دیگر علماء کرام کا اس مسئلے پر کلام جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] مسند احمد 7310۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/03/aurat_masjid_dars_bidat.pdf
[Urdu Article] The reason behind why Imam Abu Haneefah (rahimaullaah) used to give preference to Qiyaas (analogy) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قیاس کو ترجیح دینے کا سبب
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات الفاصلة على الشبهات الحاصلة، شبهة 37.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/imam_abu_haneefah_qiyaas_tarjeeh_sabab.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک طالبعلم کا کیا مؤقف ہونا چاہیے اس بارے میں جو بعض آئمہ کی کتب میں شدید قسم کا طعن آیا ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر، جیساکہ امام عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کی ’’کتاب السنۃ ‘‘ وغیرہ میں، لہذا اس بارے میں کیا مؤقف ہونا چاہیے؟
جواب: اس قسم کی باتیں لوگوں میں اس سے پہلے معروف نہيں تھیں مگر بعض جاہلوں نے دو دن ہوئے فضائی چینلز پر یہ فتنہ مچا رکھا ہے، ورنہ لوگ اس کی کھوج ہی نہيں کرتے تھے۔ جی امام عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کی کتاب السنۃ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام ہے، جو حال میں اس میں داخل کردیا گیا حالانکہ جو اس سے پہلے مطبوعہ نسخہ تھا ا س میں ان میں سے کوئی بھی چیز نہيں تھی، لیکن اب ڈال دی گئی([1])۔
ان سلف کا قصد جنہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام کیا اس پہلو سے بھی تھا کہ آپ قیاس پر اعتماد کرتے ہيں اور آپ کا غالباً انحصار قیاس پر ہوتا ہے۔ جس نے آپ پر مؤاخذہ کیا ہے تو وہ بس اس بات کا کیا ہے کہ آپ قیاس کو (بہت) لیتے تھے([2])۔ حالانکہ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ قیاس ایک شرعی دلیل ہے، کیونکہ دلائل کے اصول یہ ہیں:
’’کتاب وسنت، اجماع وقیاس‘‘۔
لیکن آئمہ کرام قیاس کی طرف نہيں جاتے الا یہ کہ اس کی ضرورت ہو یعنی جب کتاب وسنت اور نہ ہی اجماع سے کوئی دلیل ملے تو پھر وہ قیاس کا کہتے ہیں۔ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قیاس کے معاملے میں کچھ وسعت اختیار فرماتے ہیں، اسی چیز پر ان کا مؤاخذہ کیا گیا اور معیوب گردانا گیا کہ وہ قیاس میں کچھ زیادہ ہی وسعت اختیار فرماتے ہیں۔
بعض محققین نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف سے یہ جواب دیا ہے کہ بلاشبہ آپ عراق میں رہتے تھے اور وہ فتنوں کا وقت تھا، اس دور میں جھوٹ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر احادیث وضع کرنا بڑی شدت سے پھیل گیا تھا، اسی لیے آپ نے قیاس پر اعتماد کیا ان وضاعین (حدیثیں گھڑنے والوں) اور کذابین (جھوٹوں) کے خوف سے، کیونکہ جھوٹ عراق میں بہت پھیلا ہوا تھا، برخلاف حجاز یعنی مکہ مدینہ کے ، کیونکہ یہاں اہل روایت و اہل حدیث و ماہرین تھے، جبکہ عراق میں جب فرقوں کی بہتات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ اور وضع کی بھی کثرت ہوگئی، پس اس صورتحال میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے قیاس پر اعتماد فرمایا (اور اسی میں عافیت جانی)۔ یہ تھا وہ سبب جس کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے قیاس میں وسعت اختیار فرمائی۔
بلاشبہ آپ ایک جلیل القدر امام ہیں، اور آئمہ اربعہ میں سے سب سے پہلے ہیں، آپ نے تابعین عظام رحمہم اللہ سے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علم حاصل فرمایا۔ پس بے شک آپ ایک جلیل القدر امام ہيں، اور آپ کے عقیدے اور دین کے تعلق سے کوئی کلام نہيں (کہ وہ غلط تھا)، انہوں نے بس اس قیاس میں وسعت اختیار کرنے ہی پر مؤاخذہ فرمایا ہے ، آپ رحمہ اللہ کا مؤاخذہ اس بات پر ہے۔ حالانکہ اس میں بھی آپ معذور تھے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کیونکہ آپ کے وقت میں جھوٹ اور وضع حدیث بہت افشاء ہوچکا تھا، خصوصاً عراق میں، پس آپ اس بات سے بہت ڈرے۔
بہرحال ہم نہیں چاہتے کہ اس قسم کے مسائل پھیلائے جائيں۔ اور ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے محبت کرتے ہیں، وہ ہمارے امام ہیں، کیونکہ بلاشبہ وہ اہل سنت والجماعت میں سے ہیں، پس وہ ہمارے امام ہیں اور ہم کبھی بھی ان پر طعن نہيں کرتے۔
[1] اس بارے میں مزید جاننے کے لیے پڑھیں ہماری ویب سائٹ پر ’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تکفیر اور تنقیص شان پر مبنی اقوال نقل کرنا‘‘ از شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ مذکورہ بالا مقالے میں ان پر ارجاء کی تہمت کا ذکر بھی فرماتے ہیں، مگر وہ بھی ارجاء الفقہاء (نہ کہ غالیوں کی الارجاء)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Book] The principles and fundamentals of Salafiyyah – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree

سلفی منہج کے اصول وقواعد

فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ

(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: أصول و قواعد في المنهج السلفي.

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

قلت تعداد کے باوجود سلفیوں کے لیے تین عظیم تسلیاں
پہلا اَمر

دوسرا اَمر

تیسرا اَمر

سلفی منہج کا تعارف

سلفی منہج کا تعارف

پہلا اصول: سلفیت کی طرف نسبت کرنا

دوسرا اُصول: لوگوں کو حق سے پہچانا جاتا ہے نہ کہ حق کو لوگوں سے

تیسرا اُصول: الولاء والبراء (دوستی ودشمنی )

چوتھا اُصول: مخالف کا رد

سوال وجواب

کیا سلفیت تفرقہ پیدا کرتی ہے؟

طارق السویدان کون ہے؟

اہل بدعت کے لامتناہی شبہات کے تعلق سے نوجوانوں کو نصیحت

اگر تبلیغی جماعت گھر کے دروازے پر آئے تو ان سے کیسے نمٹا جائے؟


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/salafi_manhaj_usool_qawaid_ubaid.pdf
[Urdu Book] Tafseer of Ayat-ul-Kursee - Shaykh Ibn-ul-Uthaimeen and Shaykh Rabee Al-Madkhalee
تفسیر آیۃ الکرسی - شیخ ابن عثیمین و شیخ ربیع المدخلی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/tafseer_ayat_ul_kursi_book.pdf
[Urdu Article] Claiming that binding Qura'an and Sunnah with the understanding of Salaf is Bida'ah – Shaykh Saaleh bin Muhammad Al-Luhaidaan
کیا قرآن وحدیث کو فہم سلف صالحین کے ساتھ جوڑنا بدعت ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن محمد اللحیدان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مترجم: طارق علی بروہی
مصدر: شرح عقیدۃ الواسطیۃ درس 10 سوال وجواب
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پچھلے دنوں اکتوبر 2013ع میں انٹرنیٹ پر’’ اردو مجلس فارم ‘‘میں مولانا رفیق طاہر صاحب نے یہ تحریر فرمایا کہ:
’’جی ہاں، کتاب وسنت کے ساتھ فہم سلف کا دم چھلہ لگانا یا ان کے ساتھ نتھی کرنا ایک بدعت ہے۔۔۔ کتاب وسنت کو فہم سلف سے مشروط کرنا بدعت سے بچاتا نہیں بلکہ بدعت کی طرف دھکیلتا ہے اور امت کو تشتت وافتراق کی بھینٹ چڑھاتا ہے۔۔۔ اس بدعت کا حکم یہ ہے کہ یہ بدعت صغرىٰ غیر مکفرہ ہے‘‘[1]۔
اس نظریے کے متعلق ہم نے کچھ ایام قبل سعودی عرب کے مشہور کبار سلفی علماء میں سے ایک عالم شیخ صالح اللحیدان حفظہ اللہ سے بعض ساتھیوں کے توسط سے سوال پوچھوایا کہ: ہم کس طرح اس شخص پر رد کریں یا جواب دیں جو یہ گمان کرتا ہے کہ سلف صالحین کی اتباع کرنا بدعت ہے؟
الشیخ: یہ شخص کسی جواب یا رد کا مستحق نہیں اس کا کوئی اعتبار نہيں۔ اللہ تعالی نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر کیا تو فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا﴾ (الحشر: 10)
(اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے)
پس ہر کوئی جو اس چیز پر ہو جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے سلف صالحین میں سے ہے۔ یہ لوگ سلف ہیں۔ سلف سے مراد وہ لوگ ہیں جو گزر گئے اور ان کا وقت وزمانہ گزر چکا۔ لوگ یا تو خلف ہیں ایسے سلف کے جو کریم (صالحین) تھے۔ یا وہ برے سلف کے خلف ہيں۔ اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔
[1] شیخ حفظہ اللہ کے جواب کے علاوہ ان کے رد پر ڈاکٹر مرتضی بن بخش حفظہ اللہ کی سیریز ’’فہم سلف کی شرعی حیثیت‘‘ بھی سنا جاسکتاہے۔ جو ان کے آفیشل ویب سائٹ اصحاب الحدیث پر دستیاب ہے۔(توحید خالص ڈاٹ کام)

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/05/kiya_fehm_salaf_bidat_hai.pdf