Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.18K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Article] Examples of few prophets calling towards Tawheed – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
بعض رسولوں علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوتِ توحید کے نمونے
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پھر بے شک اللہ تعالی نے بعض عظیم انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے تعلق سے یہ خبر دی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مقرر کر دہ اس راستے اور منہج پر چلتے ہوئے جو تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے لیے عام تھا ،کس طرح اپنی قوم کا سامنا کیا ، اور ان میں کسی ایک کی دعوت بھی اس مقرر کردہ منہج سے نہ ہٹی۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/baaz_rasool_dawat_tawheed_namonay.pdf
[Urdu Article] Mistake of those who claim that the evidences regarding obeying the ruler is restricted to the Khalifah of the Muslim Ummah – Various 'Ulamaa
یہ کہنا غلطی پر مبنی ہے کہ حکمرانوں کی سمع وطاعت سے متعلق جتنے نصوص ہیں وہ تمام مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہونے کے ساتھ مقید ہیں
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل سنت والجماعت کے مشہور امتیازی عقیدے مسلم حکمران کی سمع وطاعت اور عدم خروج خواہ نیک ہو یا بد کے بارے میں بہت سے شبہات پھیلائے جاتے ہيں، انہی میں سے ایک مشہور شبہے کہ ’’حکمرانوں کی سمع وطاعت سے متعلق جتنے نصوص ہیں وہ تمام مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہونے کے ساتھ مقید ہیں‘‘ کے تعلق سے مختلف علماء کرام کا کلام پیش خدمت ہے۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہر مذہب کے آئمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جو کوئی بھی کسی ایک یا اس سے زائد ممالک پر غالب آجائے تو تمام چیزوں کے بارے میں اس کا حکم امام (امام اعظم/خلیفہ) کا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کبھی بھی یہ دنیا کے امور استقامت پر نہیں آسکتے تھے، کیونکہ لوگ تو ایک زمانۂ طویل سے یعنی امام احمد بن حنبل " کے دور سے پہلے سےلے کر اب تک کسی ایک امام وخلیفہ پر تو کبھی متفق ہوئے ہی نہیں۔ اس کے باوجود ہمیں نہیں معلوم کہ کسی عالم نے یہ کہا ہو کہ (خلیفہ یا امام کے تعلق سے دینی) احکام جب تک امام اعظم (یعنی تمام مسلم دنیا کا ایک ہی خلیفہ) نہ ہو تو ان پر عمل درست نہیں‘‘۔
الدرر السنیۃ فی الاجوبۃ النجدیۃ 7/239۔
علامہ الشوکانی رحمہ اللہ مصنف کتاب ’’الازھار‘‘ کے اس قول کہ ’’ولا يصح إمامان‘‘ (دو امام (خلیفہ/حکمران) ہونے جائز نہیں) کی شرح میں دلائل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’۔۔۔کیونکہ یہی شرعی قواعد کے اور دلائل جس بات پر دلالت کرتے ہیں کے زیادہ مناسب حال ہے۔ اور جو کوئی اس کی مخالفت میں بولے تو اس کی قطعی پرواہ نہ کرو، کیونکہ اول اسلام میں جو اسلامی ولایت وحکومت تھی اور اب جو اس کی حالت ہے اس میں واضح فرق ازہر من الشمس ہے۔ جو اس حقیقت کا انکاری ہو تو وہ بہت ہی بیکار وفضول شخص ہے کہ جو کسی حجت ودلیل سے مخاطب کیے جانے کے لائق ہی نہیں، کیونکہ وہ اسے سمجھ ہی نہیں سکتا ‘‘۔
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ اس شبہے کے رد پر دلائل ذکر کرکے فرماتے ہیں:
’’چناچہ اس فاسد اور باطل رائے کے مطابق اس کا مطلب ہوا کہ آج امت کا کوئی امام نہیں ہے، اور امت جاہلیت کے دور میں رہ رہی ہے، کہ نہ کوئی امام ہے نہ اس کی رعایا، نہ سلطان ہے نہ ان کے ماتحت!‘‘۔
(لقاء الباب المفتوح – 94)
اور فرماتے ہیں:
۔۔۔ پس جب مسلمانوں کا ایک عام خلیفہ موجود نہیں تو پھر جو بھی کسی علاقے کے امور پر والی ہو تو وہ وہاں کا ولی امر حاکم ہے، ورنہ ہم اس گمراہ کن رائے کے مطابق اگر کہنے لگیں تو اس کا مطلب ہوگا آج مسلمانوں کا کوئی خلیفہ ہی نہيں ہے! اور تمام لوگ جاہلیت کی موت مرتے جارہے ہیں، آخر ایسی بات کون کرتا ہے؟!
۔۔۔ پس یہ شخص مسلمانوں کی حکومت کے خلاف نکلنے والا ہے اس پہلو سے کہ وہ بیعت کا التزام نہیں کرتا، اور اس پہلو سے بھی کہ اس نے قدیم زمانے سے چلتے آنے والے اجماع مسلمین کی بھی مخالفت کی۔
آخر میں فرماتے ہیں: ۔۔۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس قسم کی آراء دراصل شیطان بعض لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے تاکہ جماعۃ المسلمین میں تفریق ڈالی جائے، اور لوگوں میں باہمی رنجشیں پیدا ہوں۔
۔۔۔ پس اس بھائی تک میری یہ نصیحت پہنچا دیں کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرے، اور یہ عقیدہ رکھے کہ وہ ابھی ایک ولایت وحکومت کے حامل امیر کے تحت جی رہا ہے، تاکہ اس کے بعد کہیں وہ جاہلیت کی موت نہ مرجائے۔
(لقاء الباب المفتوح – 128)
اس عقیدے کے متعلق شبہات پھیلانے والوں کی حقیقت کے بارے میں ایک عام قاعدہ شیخ صالح الفوزان d اپنی کتاب ’’اسلام میں امام(حکمران) کے نصب کرنے کی کیفیت‘‘ جس کا ترجمہ ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہےمیں بیان فرماتے ہیں:
سوال 49: کیا وجہ ہے کہ آج بہت سے داعیان فتنہ کا اس بارے میں اتفاق نظر آتا ہے کہ وہ احادیث نبویہ e خصوصاً جو ولایت وامامت کے تعلق سے ہیں کہ بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں جیسا کہ حدیث ہے کہ : ’’حکمران کی سنو اور اطاعت کرو اگرچہ وہ تمہاری کمر پر مارے اور تمہارا مال چھین لے‘‘؟
جواب: وجہ یہ ہے کہ اس بارے میں ان کے خفیہ معاہدے ہيں، کیونکہ ان سب کا مشرب ایک ہی ہے، لہذا اس بارے میں خفیہ طور پر سب ملے ہوئے ہیں۔
سوال 52: سائل کہتا ہے احسن اللہ الیکم کیا امامت کی جو شرائط فقہاء کرام نے بیان فرمائی ہیں جیسے علم، عدل اور کفایت وغیرہ، کیا یہ امامت کے کمال کی شرائط ہيں یا اس کی صحت کی شرائط ہيں، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب: یہ شرائط حسب امکان ہوتی ہیں، لازم نہيں کہ سو فیصد پائی جائيں، بلکہ حسب امکان جو بہتر سے بہتر ہو۔
سوال 57: کوئی ایسا بھی جو کہتا ہے کہ ہمارے زم
انے کے جو حکام ہيں ان میں ولایت کی شرائط ہی پوری نہيں ہوتی، اسی لیے جو علانیہ ان پر انکار کرتا بھی ہے تو اس کے بارے میں یہ تساہل اور نرمی سے کام لیتے ہیں(یعنی ٹھنڈے پیٹوں اسے برداشت کرتے ہیں)، کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: یہ بات غیر صحیح ہے، جو کوئی بھی مسلمانوں کے امور کا والی بن گیا او روہ مسلمان ہے تو پھر معصیت الہی کے علاوہ اس کی اطاعت واجب ہے، اور اس کے لیے بھی وہی سب کچھ واجب ہے جو ولاۃ امور کے لیے (شریعت میں) ہوتا ہے۔
اور بعض لوگ کہتے ہیں موجودہ اسلامی ممالک کے حکام پر وہ نصوص منطبق ہی نہیں ہوتے کے جواب میں شیخ الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
۔۔۔ ایسا شخص فتنے کی طرف دعوت دیتا ہے اور فتنے کی آگ کو ہوا دے کر دنگا فساد پر ابھارنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ داعئ شر اور داعئ گمراہی ہے، اس کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دی جائے ، نہ اس کی بات سنی جائے۔
دیگر علماء کرام کا تفصیلی کلام جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/02/nasoos_sama_taat_sirf_aik_khalifah_mehdood.pdf
[Urdu Article] Revolting against the rulers due to their corruption – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
حکمرانوں کی کرپشن کے سبب ان کے خلاف بغاوت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المعلوم من واجب العلاقة بين الحاكم والمحكوم س 1۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/05/hukkam_corruption_sabab_baghawat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سماحۃ الشیخ کچھ ایسے لوگ ہیں جو یہ نظریہ رکھتے ہيں کہ بعض حکمرانوں کی معصیت وکبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے ان کے خلاف خروج کرنا انقلاب لانا ضروری ہے اگرچہ اس کی نتیجہ میں اس ملک میں مسلمان عوام کو کچھ تکالیف و(جانی مالی وغیرہ) نقصان ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔اور اس قسم کے واقعات عالم اسلام میں بہت رونما ہورہے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين وصلى الله على رسول الله وعلى آله وأصحابه ومن اهتدى بهداه. أما بعد:
ارشاد الہی ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور جو تمہارے حکمران ہیں۔پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے)
پس یہ آیت واضح نص ہے اس بات پر کہ حکمرانوں اور علماء کی اطاعت واجب ہے۔ اور سنت نبویہ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ ان کی اطاعت لازم ہے اور فرض ہے مگر صرف معروف باتوں میں۔یہ آیت اور سنت واضح کرتی ہیں کہ ان کی اطاعت جو فرض ہے وہ معروف کاموں میں ہے۔ ایک مسلمان پر ان کی اطاعت صرف معروف کاموں میں واجب ہے ناکہ نافرمانی کے کاموں میں۔
اگر وہ معصیت الہی ونافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب اس سبب سے ان پر خروج کیا جائے بلکہ خروج اس صورت میں بھی جائز نہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’أَلَا مَنْ وَلِيَ عَلَيْهِ وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ‘‘([1])
(آگار رہو کہ جس کسی پر کوئی حاکم مقرر ہو پھر وہ اسے دیکھے کہ حاکم معصیت الہی کا مرتکب ہورہا ہے، تو اس معصیت الہی کو تو ناپسند کرے جس میں وہ ملوث ہے، مگر اطاعت سے ہاتھ ہرگز نہ کھینچے)۔
اور فرمایا:
’’مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً‘‘([2])
(جو کوئی (حکمران کی) اطاعت سے نکل گیا اور (مسلمانوں کی) جماعت کو چھوڑ دیا اور پھر اسی حال میں مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی سی موت ہے)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ‘‘([3])
(ایک مسلمان انسان پر (حکمران کی) بات سننا اور اطاعت کرناہے چاہے پسند ہو یا ناپسند، الا یہ کہ اسے کسی معصیت کا حکم دیا جائے، اگر معصیت وگناہ کا حکم دیا جائے تو (اس کی اس بات میں) سننا اور اطاعت کرنا نہیں ہے)۔
اور صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس وقت پوچھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتارہے تھے کہ ایسے حکمران آئيں گے جو ایسے ایسے کام کریں گے جن میں سے کچھ کو تم معروف جانتے ہوگے اور منکرات بھی کریں گے تویہ سن کر صحابی نے دریافت کیا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اس حالت میں کیا حکم دیتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’أَدُّوا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ وَسَلُوا اللَّهَ حَقَّكُمْ‘‘([4])
((ان حکمرانوں کو) تم اس کے باوجود ان کا حق دینا اور اپنا حق اللہ تعالی سے طلب کرنا)۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةً عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ‘‘([5])
(ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی، خواہ چستی میں ہوں یا ناچاہتے ہوئے بھی، بدحالی اور خوشحالی میں، بلکہ اگر ہم پر دوسروں کو ترجیح بھی دے دی جائے تب بھی، اور ہم حکومت سے ان ک
ے عہدے کے بارے میں تنازع نہ کریں گے، الا یہ کہ تم کوئی کھلم کھلا کفر دیکھو جس کے لیے تمہارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح دلیل بھی ہو)۔
پس یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حکمرانوں سے حکومت پر تنازع کرنے، تختہ الٹنے یا خروج کرنا جائز نہیں الا یہ کہ لوگ کھلم کھلا (یعنی ظاہر کوئی ڈھکا چھپا نہیں) کفر دیکھیں (اس سے کم تر نہیں) اور اس بارے میں اللہ تعالی کی جانب سے واضح دلیل بھی ہو ان کے پاس(محض قیاس یا احتمال نہیں)۔ اتنی سخت پابندیاں اس لیے لگائی گئی ہیں کیونکہ خروج کے سبب جو فساد کبیر ہوتا ہے اور جو شر عظیم برپا ہوتا ہے جس سے امن وامان کی تباہی، حقوق کا ضیاع، نہ ظالم کے ہاتھ کو پکڑا جاسکتا ہے نہ مظلوم کی دادرسی کی جاسکتی ہے، راستے غیرمحفوظ ہوجاتے ہیں ان سے بچا جائے۔ الغرض حکمرانوں کے خلاف خروج عظیم فساد اور کثیر شر کا پیش خیمہ ہے۔ الا یہ کہ تمام مسلمان اس حاکم میں کفر بواح (کھلم کھلا) کفر دیکھیں جس کے بارے میں ان کے پاس اللہ کی جانب سے دلیل بھی ہو تو پھر ایسے حکمران کے ازالے کے لیے اس کے خلاف خروج کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ ان کے پاس اس کی قدرت ہو۔ البتہ اگر ان کے پاس قدرت وطاقت ہی نہیں تو پھر خروج نہ کریں۔ اور یہ بھی دیکھا جائے کہ ان کے خروج کے نتیجے میں اس سے بھی بڑا شر متوقع نہ ہو تو بھی مصالح عامہ کے پیش نظر خروج نہ کیا جائے۔ کیونکہ ایک شرعی قاعدہ جس پر سب کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ: ’’أنه لا يجوز إزالة الشر بما هو أشر منه بل يجب درء الشر بما يزيله أو يخففه‘‘ (بے شک یہ جائز نہیں کہ کسی شر کا اس سے بھی بڑے شر ازالہ کیا جائے، بلکہ واجب ہے کہ شر کو ایسی چیز سے دور کیا جائے جو یاتو اسے سرے سے ہی ختم کردے یا پھر کم از کم اس میں تخفیف کا سبب ہو)۔ جبکہ کسی شر کو اس سے بھی بڑے شر سے دور کرنا مسلمانوں کے اجماع کی رو سے جائز نہیں۔ اگر کوئی گروہ جو اس حاکم کا جو کفر بواح کا مرتکب ہواہے ازالہ کرنا چاہتا ہے اور ان کو اس کی قدرت بھی ہے۔ اور وہ اس کی جگہ ایک اچھے اور صالح حاکم کو لاسکتے ہیں بنا کسی بڑے فساد کے جس کا مسلمان شکار ہوں یا اس حاکم کی موجودگی کے شر سے بھی بڑے شر میں مبتلاہوئے بغیر ایسا کرسکتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر اس خروج کے نتیجے میں بڑا فساد ہو، امن تباہ ہو، لوگوں پر ظلم ہو، غیرمستحق جانوں کا قتل ہو اور جو اس کے علاوہ عظیم فسادات ہیں تو یہ جائز نہیں بلکہ اس حاکم کی معروف میں بات سننے اور ماننے پر صبر کیا جائےانہیں نصیحت کرکے ان کی خیرخواہی چاہی جائے اور ہدایت کی دعاء کی جائے۔ اور کوشش کی جائے کہ کیسے خیر کو زیادہ سے زیادہ اور شر کو کم سے کم کیا جائے۔ یہ وہ صراط مستقیم ہے اس بارے میں جس کی پیروی کی جانی چاہیے۔ کیونکہ اسی میں مسلمانوں کے مصالح عامہ ہیں اور اسی ذریعے سے خیر کو زیادہ اور شر کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اور اسی میں امن وامان اور مسلمانوں کی سلامتی اور بڑے شر سے حفاظت ہے۔ ہم اللہ تعالی سے سب کے لیے توفیق اور ہدایت کے خواستگار ہیں۔
[1] صحیح مسلم 1856 اور مسند احمد وغیرہ میں سیدنا عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس کے شروع کے الفاظ ہیں: ’’خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ۔۔۔‘‘ (تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اوروہ تم سے۔۔۔)۔
[2] صحیح مسلم 1849 اور مسند احمد وغیرہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
[3] صحیح مسلم 1840 اور نسائی وغیرہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔
[4] صحیح بخاری 7052 وغیرہ میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
[5] صحیح بخاری 7056، صحیح مسلم 1843 وغیرہ۔
[Urdu Article] Special emphases on the principle of obeying the rulers in the times of tribulations – Shaykh Abdus Salaam bin Burjus Aal-Abdul Kareem
فتنوں کے موقع پر حکام کی اطاعت پر زور دینا
فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن برجس آل عبدالکریم رحمہ اللہ المتوفی سن 1425ھ
( سابق مساعد استاد المعھد العالي للقضاء، الریاض)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: معاملۃ الحکام فی ضوء الکتاب والسنۃ سے ماخوذ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/fitnay_hukkam_itaat_per_zor.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب کبھی بھی امت کو حکمرانوں کی اطاعت وفرمانبرادی کے اصول کی زیادہ احتیاج ہوتی تھی سلف اس بارے میں جو سلف کا قاعدہ ہے اس کے اہتمام وعنایت پر مزید زور دیتے تھےتاکہ حکمرانوں کے خلاف خروج کے دروازے وراستے کا سدباب کیا جاسکے، جوکہ دنیا ودین میں فساد کی جڑ ہے۔
پھر جو کچھ آئمہ دعوت نجدیہ رحمہم اللہ نے اس باب میں اس وقت لکھا جب اس بارے میں بعض بظاہر خیر وبھلائی کی جانب منتسب جماعتوں میں اس قاعدے سے منحرف افکار سرایت کرگئے تھے تو آئمہ کی کاوش نے اس قاعدے کو مزید پختگی وجلا بخشی۔
چناچہ انہوں نے کثرت سے اس بات کا بیان فرمایا، اس پر روشنی ڈالی، اور اسے باربار دہرایا تاکہ یہ بات بھرپور واضح ہوجائے اور اس سے متعلق کوئی بھی شبہ ہو تو وہ زائل ہوجائے۔لہذا انہوں نے بس ایک بات یا کلمہ کہہ دینے پر یا ان میں سے کسی ایک شخص کے بیان کردینے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کی خطرناکی اور اس سے جہالت کے سبب لاحق ہونے والے مصائب اور وسیع پیمانے پر پھیل جانے والی برائی کے پیش نظر اسے ہر ایک نے اور باربار بیان کیا۔
اسی وجہ سے شیخ امام عبداللطیف بن عبدالرحمن بن حسن آل الشیخ رحمہم اللہ نے اپنے زبردست کلام میں اس باب میں وارد کئے جانے والے شبہات میں سے بعض کی نقاب کشائی فرمائی اور جاہلوں میں سے جو اس کی نشرواشاعت کررہے تھے ان پر رد فرمایا:
’’کیا یہ فتنہ زدہ لوگ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے اکثر حکمران یزید بن معاویہ کے دور سے لے کر آخر تک سوائے عمر بن عبدالعزیز اور بنی امیہ میں سے الا ماشاء اللہ سب سے بغاوتیں، بڑے حادثات، خروج وفساد حکومت اسلامی میں رونما ہوا مگر مشہور ومعروف آئمہ اسلام کی سیرت بھی ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں معروف ومشہور ہے کہ انہوں نے ان کی اطاعت سے ہاتھ نہیں کھینچا شریعت اسلام اور واجبات دین سے متعلق ہر اس چیز کے بارے میں جس کا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا ہو۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں حجاج بن یوسف الثقفی کہ جس کا معاملہ امت میں بطور ظلم وستم، خون بہانے میں اسراف، محرمات الہی کی پامالی، امت کی عظیم شخصیتوں میں سے اس نے بہت سے قتل کئے جیسے سعید بن جبیرکو اورابن الزبیر کا محاصرہ کیا جنہوں نے حرم شریف میں پناہ لے رکھی تھی، مگر اس نے اس کی حرمت کو بھی پامال کردیا، اور ابن الزبیر کو قتل کرڈالاباوجویکہ کہ ابن الزبیر کی اطاعت قبول کرلی گئی تھی اور اور اہل مکہ، مدینہ ویمن کی پوری عوام نےاور عراق کے بہت سے گروپوں نے ان کی بیعت کرلی تھی، اور حجاج امیر مروان کا نائب تھا پھر اس کے بعد اس کے بیٹے عبدالملک کا([1])۔ حالانکہ کسی بھی خلیفہ نے مروان کو نامزد نہیں کیا تھا اور نہ ہی اہل حل وعقد نے اس کی بیعت کی تھی لیکن اس کے باوجود کسی بھی عالم نے اس کی اطاعت سے اور ارکان اسلام واس کے واجبات میں سے جس میں فرمانبرداری کی جاتی ہے فرمانبرداری کرنے سے توقف نہیں فرمایا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جس نے حجاج کا زمانہ پایا ان میں سے کسی نے بھی اس سے تنازعہ نہیں فرمایا، اور ایسے کسی بھی کام میں اس کی فرمانبرداری سے نہیں رکے جس سے اسلام کا قیام اور ایمان کی تکمیل ہوتی ہو۔
اسی طرح سے ان کے زمانے میں جو تابعین تھے جیسے سعید بن المسیب، حسن البصری، ابن سیرین، ابراہیم التیمی اور ان کے جیسی دیگر امت کی قدآور شخصیات۔
امت کے مشہور آئمہ کرام وعلماء عظام کا اس پر عمل جاری وساری رہا کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت، اس کے رسول کی اطاعت، اور فی سبیل اللہ جہاد کا ہر نیک وبد حکمران کے ساتھ حکم کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ یہ بات اصول دین وعقائد کی کتب میں معروف ہے۔
یہی حال بنوعباس کا تھا کہ انہوں نے امت پر غلبہ تلوار کے زور پر حاصل کیا جس میں کسی بھی اہل علم ودین نے ان کی اعانت نہ کی۔ انہوں نے بنو امیہ کے امراء ونوابوں میں سے ایک خلق کثیر اور جم غفیر کو قتل کیا۔ اور ابن ہبیرہ امیر عراق اورخلیفہ مروان کو بھی قتل کیا۔ یہاں تک کہ نقل کیا جاتاہے کہ سفاح نے بنوامیہ میں سے ایک ہی دن میں اسی افراد کو قتل کیا اور ان کی لاشوں سے فرش کو سجا کر اس پر براجمان ہوا اور اکل وشرب نوش کیا۔
اس کے باوجود آئمہ کرام جیسے الاوزاعی، مالک، الزہری، اللیث بن سعد، عطاء بن ابی رباح وغیرہ کی سیرت ان حکمرانوں کے ساتھ کس
ی بھی شخص جس کا علم واطلاع میں کچھ حصہ ہو پر مخفی نہیں ۔
پھر اہل علم میں سے طبقۂ ثانیہ کے علماء کرام جیسے احمد بن حنبل، محمد بن اسماعیل، محمد بن ادریس، احمد بن نوح، اسحاق بن راہویہ اور ان کے دیگر ساتھی۔۔۔ان کے دور میں بھی حکمران بڑی عظیم بدعات اور انکار صفات الہی میں مبتلا ہوئے اور اس کی طرف (بالجبر) دعوت بھی دینے لگے، اور اس باطل عقیدے کا لوگوں سے امتحان لینے لگے، اور اس میں جو قتل ہوا سو ہوا جیسے احمد بن نصر وغیرہ لیکن اس کے باوجود ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کسی نے ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا ہو یاان کے خلاف خروج کرنے کی رائے رکھتا ہو۔۔۔‘‘([2])۔
پس اس بے نظیر کلام پر غور کریں اور انصاف کی آنکھوں سے اسے پرکھیں تو آپ پائيں گے کہ یہ سلف صالحین کے روشن چراغ جو کتاب وسنت اور بغیر افراط وتفریط کے عمومی قواعد ہیں ان ہی سے ماخوذ ہے۔
اور اس باب کے تعلق سے آئمہ دعوت نجدیہ سلفیہ رحمہم اللہ کا بہت سا کلام موجود ہے۔ جس کی کچھ جھلکیاں آپ کتاب ’’الدرر السنیۃ في الاجوبۃ النجدیۃ‘‘ کی ساتویں جلد میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
یہ سب باتیں عقیدے کے اس اصول کے خصوصی اہتمام کی ضرورت کو، غلبۂ جہالت میں اس کو راسخ کرنے کو اور منہج اہل سنت سے منحرف افکارکے افشاء ہونے کی صورت میں اس کی تعلیم وتربیت کو بھی مؤکد کردیتی ہیں۔
بلاشبہ ہم جس زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں یہ دو امور یکجا ہوگئے ہیں: ایک تو غلبۂ جہالت ہے اور دوسرا اس بارے میں منحرف افکار کا رواج پانا اور افشاء ہونا ہے۔
پس واجب ہے اہل علم اور ان کے طلاب پر کہ وہ اس میثاق عہد وپیمان کا التزام کریں جو اللہ تعالی نے اپنے اس کلام کے ذریعہ ان سے لیا ہے:
﴿لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ﴾ (آل عمران: 187)
(کہ تم لوگوں کوضرور کھول کھول کر بیان کردو گے اور کچھ چھپاؤ گے نہیں)
لہذا اس اصول کو لوگوں کے لئے کھول کھول کر واضح طور پر بیان کریں۔ اللہ تعالی سے ثواب کی امید کرتے ہوئے اور اس عمل کواس کے لئے خالص کرتے ہوئے۔
[1] حالانکہ معروف یہی ہےکہ وہ صرف عبدالملک بن مروان کا نائب تھا۔
[2] الدرر اللسنیۃ في الاجوبۃ النجدیۃ: 7/177-178۔
[Urdu Article] Ruling regarding affiliating towards secular, racist or nationalist groups and parties – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
ملحدانہ تحریکوں اور جاہلی قومی ولسانی جماعتوں کی طرف انتساب کا حکم
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/mulhidana_tehreeko_jahili_qomi_lisani_jamato_intisaab.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملحدانہ تحریکوں کی طرف انتساب کا حکم
ملحدانہ تحریکوں جیسے کمیونزم، سیکولرزم، سرمایہ دارنہ نظام وغیرہ جو سراسر کفر والحاد پر مبنی ہیں کی طرف انتساب مذہب اسلام سے ارتداد ہے، ان تحریکوں کی طرف انتساب کرنے والا شخص اگر اسلام کا دعویٰ کرتا ہے تویہ نفاقِ اکبر ہے، اس لئے کہ منافقین بھی ظاہری طور پر اپنا انتساب اسلام کی طرف کرتے تھے لیکن اندرونی طور پر وہ کافروں کے ساتھ ہوتے تھے۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا، وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ﴾ (البقرۃ:14)
(اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو(ان سے)کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہم (نبی کریم e کے پیروکاروں سے) تو یونہی مذاق کیا کرتے ہیں)
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿الَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ڮ وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِيْنَ نَصِيْبٌ ۙ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ (النساء:141)
(جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں کہ اگر اللہ کی طرف سے تم کو فتح ملے تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو فتح نصیب ہو تو ان سے کہتے ہیں کیا ہم تمہارے نہیں تھے اور تم کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا نہیں؟)
اس طرح کے دھوکہ باز منافقوں کے ہمیشہ دو رخ ہوتے ہیں ۔ایک رخ سے تو مومنوں سے ملتے ہیں اور دوسرے رخ سے اپنے ملحد بھائیوں کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ ان کی دو زبانیں ہوتی ہیں، ایک کے ذریعہ مسلمانوں سے شناسائی پیدا کرتے ہیں اور دوسری کے ذریعہ اپنے پوشیدہ راز کی ترجمانی کرتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا، وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ﴾ (البقرۃ:14)
(اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو(ان سے)کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہم (نبی کریم e کے پیروکاروں سے) تو یونہی مذاق کیا کرتے ہیں)
یہ کتاب و سنت سے ہمیشہ گزیر کرتے ہیں۔ کتاب و سنت والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے کتاب و سنت کے احکام کی پیروی سے انہیں چڑ ہے۔ شریعت سے ان کو ازلی دشمنی ہے یہ اپنے دنیاوی علوم و فنون اور نظامہائے زندگی سے بہت خوش ہیں جبکہ اس نے اب تک انہیں برائی، تکبر و غرور میں ہی مبتلا رکھا ہے۔ لہٰذا انہیں آپ ہمیشہ صریح وحی اور کتاب و سنت کا مذاق اڑاتے ہوئے پائیں گے۔
﴿اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَھُوْنَ﴾ (البقرۃ:15)
(ان(منافقوں) سے اللہ ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیے جاتا ہے کہ شرارت اور سر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں)
جب کہ اللہ تعالیٰ نے صراحت سے مومنوں کی طرف اپنا انتساب کرنے کا حکم دیا ہے، ارشاد باری ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ﴾ (التوبۃ:119)
(اے اہل ایمان ! اللہ سے ڈرتے رہو اور راستبازوں وسچوں کے ساتھ رہو)
یہ ملحدانہ تحریکیں آپس میں دست و گریباں ہیں، اس لئے کہ ان کی بنیاد باطل و فتنہ و فساد پر پڑی ہے، جیسے کمیونزم اللہ تعالیٰ (جو سارے جہانوں کا خالق و مالک ہے) کے وجود کا انکار کرتی ہے اور تمام آسمانی مذاہب و ادیان کو دنیا سے مٹانا چاہتی ہے، جو شخص اپنی دانش میں بلا عقیدہ جینا چاہتا ہے اور تمام بدیہی و عقلی یقینیات کا انکار کرتا ہو دراصل وہ اپنی عقل کا دشمن ہے اور اس سے کام لینا نہیں چاہتا ہے۔ اسی طرح سیکولرزم بھی تمام مذاہب و ادیان کا انکار کرتی ہے اور مادر پدر آزاد مادیت پراپنی بنیاد رکھتی ہے، جب کہ مادیت ایک ایسا مذہب ہے جس کی حیوانی زندگی کے سوا کوئی غرض و غایت نہیں۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کا تو کہنا ہی کیا؟ اس کا سارا فلسفہ صرف مال جمع کرنے پر قائم ہے چاہے وہ کسی طرح سے بھی آئے۔ اس میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں، فقراء و مساکین اور کمزور وں پر ان کے یہاں کوئی رحم و رأفت، شفقت و ہمدردی نہیں ،پھر اس کی معیش
ت و اقتصاد کا سارا دارومدار سود کی لعنت پر ہے، جب کہ سود کھانا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ جس سے افراد و جماعت اور حکومت و ریاست سب کے سب تباہی و بربادی سے دو چار ہوجاتے ہیں۔ جو فقیر و غریب قوموں کے خون چوسنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ان سب کے باوجود بھلا کون چاہے ایمان والا نہ بھی ہو کم از کم عقل رکھنے والا ہی ان نظاموں کے تحت زندگی بسر کرے گا؟ جس میں عقل ودین نام کی کوئی چیز ہی نہیں اور نہ ہی صحیح مقصد زندگی ہے کہ جسے ہدف بنایا جائے اور جس کی خاطر جدوجہد کی جائے۔ ان مذاہب نے اس وقت مسلمان ممالک پر حملہ کیا جب ان کی اکثریت صحیح دین سے عاری ہوگئی،جس نے ضیاع کاری اور ان (ملحدوں) کی محتاجی میں تربیت پائی۔
جاہلی، قومی ولسانی جماعتوں کی طرف انتساب کا حکم
جاہلی، قومی اور نسلی (اور لسانی) جماعتوں اور پارٹیوں کی طرف انتساب بھی کفر و ارتداد ہے کیونکہ دینِ اسلام تمام برمبنیِ عصبیت و جاہلی نعروں کا شدت سے انکار کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ﴾ (الحجرات:13)
(لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر و، بے شک اللہ تعالی کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا تو وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ [ولیس منا من غضب لعصبیۃ]وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ‘‘([1])
(وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے ، وہ ہم میں سے نہیں جوعصبیت کے لئے لڑائی کرے، [وہ ہم میں سے نہیں جوعصبیت کے لئے غصہ ہو] اور وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مرے)۔
نیز فرمایا:
’’إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ إِنَّمَا هُوَ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ أُوفَاجِرٌ شَقِيٌّ، اَلنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ ،[ وَلا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ إِلا بِالتَّقْوَى]‘‘([2])
(اللہ تعالیٰ نے دو رِجاہلیت کےتکبراور آباء و اجداد پر فخر ختم کر دیا ہے، اب یا تو کوئی متقی مومن ہوگا ،یا بدبخت فاجر ،تمام لوگ سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ الصلاۃ والسلام مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں الا تقویٰ کے ذریعے)۔
دراصل یہ جماعتیں اور پارٹیاں مسلمانوں کے اندر تفرقہ ڈالتی ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی و تقویٰ پراتحاد و اتفاق کا حکم دیا ہے ، اور افتراق و انتشار سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا﴾ (آل عمران:102)
(اور سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا، اور اللہ تعالی کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرےکے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے)
اللہ تعالیٰ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت ہو جائیں جو کامیاب و کامران حزب اللہ (اللہ تعالیٰ کی جماعت) ہو۔ لیکن آج عالمِ اسلام خاص طور پر یورپ کی سیاسی و ثقافتی یلغار کے بعد مختلف جاہلی، نسلی، وطنی عصبیتوں کی لعنت میں مبتلا ہوگیا ہے۔ اور ان لعنتوں کو ایک علمی مسئلہ،طے شدہ حقیقت اور ناگزیر صورتِ حال سمجھ کر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ سارے جہان کے مسلم باشندے مغربی افکار کے اثرات سے متاثر ہو کر ان جاہلی عصبیتوں کی طرف تیزی سے بھاگنے لگے ہیں جن کو اسلام نے مٹا دیا تھا اور اس کے گیت گاتے ہیں، اس کے شعار کو زندہ کرتے ہیں اورقبل از اسلام دور پر فخر کرتے ہیں حالانکہ اسلام سے پہلے والے عصبیتی دور کو اسلام نے جاہلی دور کہا ہے اور اب بھی اسی نام سے یاد کرتا ہے ،اور اس تاریک ترین دور سے نکالنے پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان جتلایا ہے اور اس عظیم احسان و نعمت کا شکر ادا کرنے پر ان کو ابھارا ہے۔
یہ ایک طبیعی بات ہےکہ ایک مومن قدیم یا جدید زمانے کی جاہلیت کا تذکرہ ناپسندیدگی اور کراہیت کے ساتھ کرتا ہےجس سے اسے اتنی شدید نفرت ہوتی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ کیا جیل میں سخت ترین سزا کاٹنے والے کے رونگٹے اس وقت کھڑے نہیں ہو جاتے جب اس کے سامنے جیل کی قیدوبند کی صعوبتوں اور ذلتوں کا ذکر کیا جائے؟ اور کیا سخت ترین بیماری اور موت کے منہ سے بچ نکلنے والا شخص اپنی بیماری کا تذکرہ کرتے ہی منہ نہیں بگاڑ لیتا اور اس کے چہرے کی رنگت نہیں تبدیل ہوجاتی؟([3]) ل
ہٰذا ہر ایک کے ذہن میں یہ بات ہونی چاہیے اور ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں میں یہ گروہ بندیاں دراصل اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے جسے وہ اپنی شریعت و مذہب سے اعراض کرنے والوں اور اپنے دین سے بدگمان ہونے والے بندوں پر مسلط کر دیا کرتا ہے۔ فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ﴾ (الانعام:65)
(کہہ دیجئے کہ وہ(اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کر دے اور ایک کو دوسرے(سے لڑا کر آپس) کی لڑائی کا مزہ چکھا دے)
اس سلسلہ میں رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے:
’’وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بَيْنَهُمْ بِكِتَابِ اللهِ إِلَّا جَعَلَ بِأَسَهُمْ بَيْنَهُم‘‘([4])
(اور جب ان کے آئمہ کتاب اللہ سے حکم نہیں دیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو آپس میں لڑا دیں گے)۔
جماعتوں اور پارٹیوں کے تعصب کی وجہ سے انسان اس حق بات کو قبول نہیں کرتا جو دوسروں کے پاس موجود ہےجیسا کہ یہودیوں کے ہاں پیش آیا، انہی یہودیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۗءَهٗ ۤ وَھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ﴾ (البقرۃ:91)
(اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) اللہ نے(اب ) نازل فرمائی ہے اس کو تو مانو، تو کہتے ہیں کہ جو کتاب ہم پر(پہلے) نازل ہو چکی ہے ہم تو اسی کو مانتے ہیں(یعنی )یہ اس کے سوا اور(کتاب) کو نہیں مانتے۔ حالانکہ وہ (سراسر) سچی ہے اور جو ان کی (آسمانی) کتاب ہے اس کی بھی تصدیق کرتی ہے)
اہل جاہلیت کا بھی یہی حال تھا حق کو چھوڑ کر یہ اپنے آباء و اجداد کی روش پر پڑے ہوئے تھے اور ان کے نقشِ قدم سے سر مو انحراف کے لئے تیار نہیں تھے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاءَنَا﴾ (البقرۃ:170)
(اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو( کتاب) اللہ نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا)
آج کے حزبی جماعتی لوگ چاہتے ہیں کہ اپنی اپنی جماعت و پارٹی کو اس اسلام کی جگہ پر لا کھڑا کریں جو تمام انسانیت پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔
[1]أبو داود الأدب (5121).
[2]الترمذي المناقب (3955) ، أبو داود الأدب (5116). بریکٹ والے الفاظ الگ حدیث کے ہیں (المعجم الاوسط للطبرانی 4889)۔
[3] من رسالة : ( ردة ولا أبا بكر لها ) لأبي الحسن الندوي.
[4]ابن ماجه الفتن (4019).
[Urdu Articles] Prophet Nuh (علیہ الصلاۃ والسلام) and his call towards Tawheed – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام کی دعوتِ توحید
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/nuh_dawat_tawheed.pdf

Prophet Ibraheem (علیہ الصلاۃ والسلام) and his call towards Tawheed
سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی دعوتِ توحید
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/ibraheem_dawat_tawheed.pdf

Prophet Yusuf (علیہ الصلاۃ والسلام) and his call towards Tawheed
سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کی دعوتِ توحید
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/yusuf_dawat_tawheed.pdf

Prophet Musa (علیہ الصلاۃ والسلام) and his call towards Tawheed
سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کی دعوتِ توحید
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/musa_dawat_tawheed.pdf
[Urdu Article] We can temporarily leave a few sunnah acts for the greater benefit of dawah – Various 'Ulamaa
عظیم تر دعوتی مصلحت کی خاطر بعض سنتوں کو وقتی طور پر چھوڑا جاسکتا ہے
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/azeem_tar_dawati_maslahat_sunnat_tark.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ ایک داعی وطالبعلم کے کچھ آداب ذکرکرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ شریعت کے تقاضے کے مطابق تمام مسائل کو اپنی جگہ پر رکھنا چاہیے جیسے واجبات، محرمات، مستحبات ومکروہات وغیرہ اسی طرح سے ایسے مسائل جن میں سنت ظاہر ومشہور ہوتی ہے، اور ایسے مسائل جن میں سنت کچھ مخفی ہوتی ہے، جس میں لوگ وہ چیز لیتے ہيں کہ جو ان کی بہتری کا سبب بنے ناکہ تفرقے کا۔
اس کی مثال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ داعیان میں سے کسی نے دادا محترم شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ (سابق مفتئ اعظم سعودی عرب) کی جانب ایک خط لکھا، جس میں یہ بات تھی کہ:
میں ہندوستان دعوت کے لیے جارہا ہوں، اور وہاں اگر لوگ مجھے (نماز میں) آمین بالجہر اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ (رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے ہوئے) رفع الیدین کرتے ہوئے، اسی طرح سے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر (سینے پر) باندھتےدیکھیں گے تو کہیں گے: یہ وہابی ہے، اور ہوسکتا ہے پھر وہ میری کوئی بات ہی نہ سنیں، اور ہوسکتا ہے اپنے مسجد میں مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہی نہ دیں۔
تو سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا جواب تھا:
بلاشبہ اگر آپ کو ان کے درمیان ان سنتوں کے ترک کرنے پر توحید کی جانب اور دیگر بڑی سنتوں کی جانب دعوت دینے کی امید ہےتو پھر آپ پر واجب ہے کہ ان سنتوں کو اس چیز کے لیے جو زیادہ واجب تر ہیں ترک کردیں۔لیکن اگر یہ امید نہ ہو تو پھر سنت کو نہ چھوڑیں۔
(الطریق الی النبوغ العلمی ص 90-91)
سوال: کیا نماز میں آمین بالجہر اور رفع الیدین کو ترک کیا جاسکتا ہے؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
جی اگر کوئی ایسے لوگوں کے درمیان ہو جو رفع الیدین نہیں کرتے اور نہ ہی آمین بالجہر کرتے ہیں تو اولیٰ یہی ہے کہ وہ ان کی تالیف قلب کی خاطر ایسا کرے ، تاکہ اسے ان کو خیر کی طرف بلانے، تعلیم دینے اور رہنمائی کرنے کا موقع مل سکے، اور تاکہ وہ ان کے مابین اصلاح کرپائے۔ کیونکہ بے شک اگر وہ ان چیزوں میں ان سے الگ عمل کرے گا تو وہ اسے معیوب جانیں گے، کیونکہ وہ تو اسے ہی دین سمجھتے رہے ہیں، ان کے نزدیک تو تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین نہ کرنا ہی دین ہے، اور اپنے علماء کے ساتھ اسی طور پر وہ جیتے آئے ہیں۔ اسی طرح سے آمین بالجہر کو ترک کرنے کا مسئلہ ہے۔ اس بارے میں بھی اہل علم میں اختلاف مشہور ہے، بعض ان میں سے جہرا ًکہنے کے قائل ہیں تو بعض کہتے ہيں جہراً آمین نہ کہا جائے۔ کیونکہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی آواز کو بلند فرماتے اور بعض میں آیا ہے کہ پست فرماتے۔ اگرچہ صواب بات یہی ہے کہ آمین جہرا ًکہنا ہی مستحب ہے۔
اور ایک داعی الی اللہ انہیں ترک اس صورت میں کرتا ہے جب اس کے نتیجے میں اس سے بڑھ کر عظیم ترین مصلحتیں حاصل ہوں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کعبۃ اللہ کو منہدم کرکے اسے پھر سے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے طرز پر بنانے کے معاملے کوترک فرمادیا([1])، اور فرمایا چونکہ قریش ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے ہيں (ان کے لیے یہ کسی فتنے کاباعث نہ بن جائے) لہذا اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا، اور مصلحت عامہ کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس سنت کی خواہش ہونے کے باوجود) اس میں کوئی تبدیلی نہ فرمائی۔
(شیخ کی ویب سائٹ سے ’’حكم ترك الجهر بالتأمين في الصلاة‘‘ – من أسئلة الحج، الشريط الثاني)
[1] صحیح بخاری 1584، صحیح مسلم 1336۔
[Urdu Article] Oppressing the wife and accusing her – Shaykh Abdul Azeez Abdullaah Aal-Shaykh
بیوی پر ظلم کرنا اور تہمتیں لگانا
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الخلافات الزوجية
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/biwi_zulm_tuhmat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے چاہتے ہیں کہ آپ شوہر کی جانب سے عورت پر کیے جانے والے ظلم اور بہت سی باتو ں کی اس پر تہمت لگاتے رہنے کے بارے میں کلام فرمائيں؟
جواب: میرے بھائیو! اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ﴾ (الحجرات: 6)
(اے مومنو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہو نا پڑے)
میرے بھائیو! ازدواجی تعلقات اس وقت تک سیدھے نہیں ہوسکتے جب تک زوجین کا آپس میں تعاون نہ ہو، شوہر اور بیوی اپنی مشکلات کے بارے میں باہمی تعاون کریں اور افہام وتفہیم سے کام لیں، اور آپس میں پیدا ہونے والی ہر مشکل کا حل نرمی اور شفقت سے کریں۔
مگر آپس میں تنازع کرتے رہنا اور ایک دوسرے پر کوتاہی اور برائی کی الزام تراشی کرتے رہنا تو یہ غلط روش ہے۔بعض بیویاں (اللہ تعالی انہيں ہدایت دے) ہمیشہ شوہر پر تجسس کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں اور ان کے موبائل چیک کرتی ہیں، کس سے بات کی، کس نے ان کو کال کی، کس سے اس نے بات کی، کون اس کے پاس آیا اور وہ کس کے پاس گیا وغیرہ؟ ایسی خاتون کا شوہر کے ساتھ یہ نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ یہ کرتی رہتی ہیں، کرتی رہتی ہیں، کرتی رہتی ہیں یہاں تک کہ پھر اس پر ایسی تہمت تک لگا بیٹھتی ہے جس سے وہ بری ہوتا ہے۔
بلکل اسی طرح سے کسی شوہر کے پاس برے شکوک اور بدگمانیاں ہوتی ہیں تو وہ اپنے بیوی پر ایسی چیز کی تہمت لگابیٹھتا ہے جو اس نے کی ہی نہيں۔ اور کوشش کرتا ہے کہ اس کا موبائل چیک کرے کہ کسی نے اس سے رابطہ کیا ہے یا نہیں کیا؟ پس اگر ایسے شکوک زوجین میں پیدا ہوجائيں تو گھر ٹوٹ جاتے ہیں!
لازم ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد اور حسن ظن ہوجب تک کوئی یقینی بات اسے توڑنے کا موجب نہ بنے۔ لہذا جب تک باتيں صرف وہم وگمان اور نرے دعوؤں تک محدود ہوں تو ان کا کوئی اعتبار نہیں جب تک حقیقتاً کوئی چیز واقع نہ ہوئی ہو، اس صورت میں تو بات دوسری ہے۔
چناچہ زوجین کو چاہیے کہ باہمی تعاون کریں اور آپس میں خیرخواہی چاہیں، اگر مرد کو بیوی میں کوئی کوتاہی نظر آتی ہے تو وہ اسے نصیحت کرے، اور اسے اللہ تعالی یاد دلائے، اور اگر شوہر کی طرف سے کوتاہی ہو تو بیوی اسے اللہ تعالی یاد دلائے اور اس پر صبر کرے، اس کے راز کو گھر سے باہر افشاء نہ کرے، بلکہ یہ بات بس اس کے اور شوہر کے درمیان رہے گھر سے باہر لوگوں کے کانوں تک نہ پہنچنے۔
اگر اس قسم کے شکوک زوجین کے مابین گھر کرجائيں تو گھرانے ٹوٹ جایا کرتے ہيں۔ لازم ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد اور حسن ظن ہو جب تک کوئی یقینی بات اسے توڑنے کا موجب نہ ہو۔ البتہ جب تک بات بس دعوؤں اور بدگمانیوں کی ہو تو ان کا کوئی اعتبار نہیں جب تک حقیقت میں کچھ نہ ہوا ہو، اس صورت میں تو وہ الگ موضوع ہوگا۔
بہرحال زوجین کو چاہیے کہ باہمی تعاون اور خیرخواہی کریں، اگر مرد اپنی بیوی میں کوئی کوتاہی دیکھتا ہے تو اسے وعظ ونصیحت کرے اور اللہ تعالی کی یاد دلائے، اور اگر بیوی اپنے شوہر میں نقص دیکھتی ہے تو اسے یاددہانی کروائے اور اس پر صبر کرے، اس کے راز کی حفاظت کرے، اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دے، تاکہ یہ الجھن یا مشکلات ان دونوں کے درمیان رہے گھر سے باہر لوگوں کے کانوں تک نہ پہنچنے۔
[Urdu Article] A grave deviation of the present time – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
موجودہ دور کی ایک بہت بڑی گمراہی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الشرح الممتع على زاد المستقنع ج 8 ص 9-10۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/mojoda_daur_badi_gumrahi.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ جہاد کی فرضیت کی مختلف صورتيں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یا امام نفیر عام (نکلنے کا حکم) کردے، یہاں امام سے مراد کسی بھی ملک کا سب سے بڑا ولی امر ہے (بادشاہ/صدر/وزیر اعظم وغیرہ) اس میں کوئی شرط نہيں کہ وہ تمام مسلمانوں کا ایک امام ہو۔کیونکہ تمام مسلمانوں کی ایک امامت تو زمانہ بیت گیا ختم ہوچکی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، وَإِن تَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ‘‘([1])
(سنو اور اطاعت کرو، اگرچہ تم پر حبشی غلام ہی کیوں نہ حکومت کرتا ہو)۔
پس اگر کوئی انسان محض ایک جہت وعلاقے میں حکومت سنبھال لیتا ہے تو وہ ان کے لیے امام عام واعظم کے ہی مرتبے پر ہے، اور اس کا قول نافذ ہوگا، اوراس کے حکم کی بجاآوری کی جائے گی۔ کیونکہ امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور سے ہی امت اسلامیہ الگ الگ ہونا شروع ہوگئی تھی، پس سیدنا ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کی حجاز میں حکومت تھی، تو بنومروان کی شام میں، اور المختار بن عبید وغیرہ کی عراق میں، الغرض امت تقسیم ہوگئی تھی لیکن آئمہ اسلام اسی دین کا اعتقاد رکھتے آئے کہ ولاء وطاعت اسی کی ہے جو ان کے علاقے میں حکومت کرتا ہے۔ اگرچہ وہ خلافت عامہ نہ بھی ہو۔
اس تفصیل سے ہم پر آج کی پیدا شدہ ایک بڑی گمراہی آشکارا ہوتی ہے جو یہ کہتی ہے کہ: آج امام المسلمین ہی موجود نہیں ہے، لہذا آج کسی کی بیعت ہی نہیں!! اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔ نہیں معلوم کیا یہ لوگ چاہتے ہيں تمام امور ہنگامہ آرائی وافراتفری کا شکار ہوجائيں لوگوں کا کوئی قائد نہ ہو جو ان کی قیادت کرے؟! یا وہ چاہتے ہیں کہ کہا جائے: ہر انسان اپنا خود ہی امیر ہے؟!
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ اگر بغیر بیعت کے مرجاتے ہیں تو جاہلیت کی موت مرتے ہيں، العیاذ باللہ۔ کیونکہ مسلمانوں کا ایک طویل زمانے سے یہی عمل چلتا آیا ہےکہ جو کوئی بھی کسی علاقے پر حاکم بن جائے، اس میں اسی کی بات چلتی ہو، تو وہی امام ہے اس میں، اس بارے میں علماء کرام نے نص بیان کی ہے جیسے صاحب سبل السلام نے ،اور فرمایا:
’’آج ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے، یہی آج کی صورتحال ہے۔ پس ایک طرف واقع کسی ملک میں آپ پاتے ہیں کہ وہ انتخابات کرواتے ہیں اور باقاعدہ حکومت کے لیے سیاسی جنگ ہوتی ہے، رشوت اور ضمیر فروشی وغیرہ ہوتی ہے، تو جب ایک ملک کے باشندے ہی اپنے اوپر کسی کو حاکم بنانے کا اس قسم کے فریب ودجل سے بھرپور انتخابات کے سوا چارہ نہیں رکھتے تو پھر ’’تمام مسلمانوں کا ایک حاکم ہو‘‘ کے بارے میں کیسے کرسکتے ہیں؟!! یہ ممکن نہيں‘‘۔
[1] أخرجه البخاري كتاب الأذان/ باب إقامة العبد والمولى (693) عن أنس ـ رضي الله عنه ـ ولفظه: «اسمعوا وأطيعوا وإن استعمل عليكم عبد حبشي كأن رأسه زبيبة».