Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] Is it permissible to give from the #Udhiyyah_meat to a #non_Muslim? – Various #Ulamaa
کیا #غیر_مسلموں کو #قربانی_کے_گوشت میں سے کچھ دیا جاسکتا ہے؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/ghair_muslim_qurbani_ghosht.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے گھر ان کے لئے ایک بکری ذبح کی گئی ، چنانچہ جب وہ تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا: کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو اس میں سے ہدیہ دیا ہے؟ کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو اس میں سے ہدیہ دیا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ‘‘([1])
(جبریل علیہ السلام مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے، حتی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ بے شک عنقریب وہ اسے وارث ہی بنا دیں گے)۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ بھی جائز ہے کہ اس (قربانی کے گوشت)میں سے کافر کو کھلایا جائے۔۔۔، کیونکہ بلاشبہ یہ نفلی صدقہ ہے، اسی لئے یہ ذمی اور قیدی کو کھلانا جائز ہے، جیسا کہ دیگر صدقات (انہیں دئے جا سکتے ہیں)‘‘([2])۔
سوال3 فتویٰ رقم 1997:
کیا اس کے لیے جائز ہے کہ جو دین اسلام کو نہیں اپناتا (غیرمسلم) کہ وہ عید الاضحیٰ کے قربانی کے گوشت میں سے کھائے؟
جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:
جی ہاں، ہمارے لئے جائز ہے کہ ہم معاہد کافر اور قیدی کو قربانی کا گوشت کھلائیں، اور انہیں ان کی غربت یاقرابت داری یا پڑوس یا تالیفِ قلبی کی وجہ سے دینا جائز ہے۔ کیونکہ جو نسک ہے وہ تو اس کے ذبح ونحر کے تعلق سے ہے یعنی اللہ تعالی کے لیے قربان کرنا بطور اس کی عبادت کے، لیکن اس کا جو گوشت ہے تو اس بارے میں افضل یہ ہے کہ ایک تہائی خود کھائے، اور اپنے اقارب، پڑوسی اور دوستوں کو ایک تہائی ہدیہ دے، جبکہ باقی کا ایک تہائی فقراء پر صدقہ کردے، اور اگر اس تقسیم میں کچھ کمی زیادتی بھی کرلے یا ان میں سے بعض پر اکتفاء کرلے تو بھی کوئی حرج نہيں، اس معاملے میں وسعت ہے۔ البتہ جو حربی کافر ہے (جن سے مسلمانوں کی جنگ ہے) اسے اس میں سے نہ دے۔ کیونکہ اسے تو ذلیل وکمزور رکھنا واجب ہے، ناکہ اس سے ہمدردی رکھنا اور اسے صدقے کے ذریعے تقویت دینا۔ اور یہی حکم نفلی صدقات کا ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کے عموم کی وجہ سے کہ:
﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴾ (الممتحنۃ: 8)
(اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقیناً اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے)
اور اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کو حکم فرمایا تھا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ مالی طور پر صلہ رحمی کرے حالانکہ وہ مصالحت (صلح حدیبیہ) کے وقت مشرکہ تھیں۔
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
(المجموعة الأولى > المجلد الحادي عشر (الحج والعمرة) > الحج والعمرة > الأضاحي > إعطاء الكافر من الأضحية)
سوال: کیا غیر مسلم کو قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ﴾ (الممتحنۃ: 8)
(اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو)
پس ایسا کافر جس کےساتھ ہماری لڑائی نہیں ہے جیسے مستأمن (جسے ہماری طرف سے امن کا پروانہ دیا گیاہو) یا معاہد (جس کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو ) تو اسے (عید الاضحیٰ کی) قربانی اور صدقہ میں سے دیا جائے گا۔
(فتاویٰ ابن باز المجلد الثامن عشر > الحج القسم الثالث > باب الهدي والأضحية والعقيقة > حكم إعطاء غير المسلم من لحم الأضحية)
سوال: کیا قربانی کرنے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی قربانی کے گوشت میں سے کافر کو دے؟ اور کیا قربانی کرنے والا اپنی قربانی کے گوشت سے افطار کرے(یعنی عید کے دن کھانا شروع کرے)؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
ایک انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ
[#SalafiUrduDawah Article] #Slaughtering with the intention of #protecting oneself from #afflictions – Various #Ulamaa
#بلاؤں_کو_ٹالنے کے لیے #جان_کے_صدقہ کے طور پر#قربانی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ، جمع وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/balaon_ko_talna_qurbani_jan_ka_sadqa.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک سوڈانی بھائی کی طرف سے سوال ہے جس میں کہتے ہیں: ہمارے ملک میں ایک عادت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص جب اپنا گھر بنانا شروع کرتا ہے تو ایک قربانی ذبح کرتا ہے، یا جب وہ نصف مکمل ہوجائے یا پھر اسے مؤخر کرکے عمارت تعمیر ہونے کے بعد کرتا ہے۔ اور جب لوگ اس گھر میں رہائش کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس میں قربانی کرکے دعوت کرتے ہیں جس میں عزیز واقارب وپڑوسیوں کو مدعو کیا جاتا ہے، آپ فضیلۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟او رکیا کوئی مستحب عمل نئے گھر میں منتقل ہونے سے پہلے مشروع ہے؟ ہمیں استفادہ پہنچائیں جزاکم اللہ خیر الجزاء۔
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
اس عمل کے تعلق سے تفصیل ہے۔ اگر اس قربانی سے مقصود جن سے بچاؤ ہو یا کوئی اور مقصد گھر کے مالک کو مقصود ہو کہ اس ذبح کے ذریعے یہ یہ حاصل ہوگا جیسے گھر کی سلامتی یا یہاں رہنے والوں کی سلامتی تو یہ جائز نہیں۔ اور یہ بدعات میں سے ہے۔ اگر یہ جن کے لیے ہو تو شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ غیراللہ کی عبادت ہے۔
لیکن اگر یہ شکر کےباب میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر جو نعمت فرمائی ہے کہ اسے اپنی چھت مل گئی یا گھر کی تکمیل کے وقت وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو جمع کرتا ہے اور کھانے کی دعوت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ اور یہ بہت سے لوگ کرتے ہیں اللہ کے نعمتوں پر شکر کرنے کے طور پر کہ اس نے ان پر اپنا احسان فرمایا کہ انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا اور اس میں رہنا نصیب ہوا بجائے اس کے کہ وہ کہیں کرایوں پر رہتے۔
اور اسی طرح سے بعض لوگ کرتے ہیں جب وہ سفر سے واپس آتے ہیں کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو دعوت دیتے ہيں اللہ تعالی کی شکرگزاری میں کہ اس نے سلامتی سے سفر کروایا اور واپسی ہوئی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جب سفر سے واپس آتے تو ایک اونٹ نحر (ذبح) کرکے لوگوں کی دعوت فرماتے۔
(فتاوی نور علی الدرب 1853، مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 5 / 388 )
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’الشرح الممتع على زاد المستقنع – المجلد السابع، باب الهَدي والأُضحية والعقيقة‘‘ میں فرماتے ہیں:
مسئلہ: جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں قربانی ذبح کرتے ہیں اور پڑوسیوں وعزیز واقارب کی دعوت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی فاسد عقیدہ نہ جڑا ہوا ہو جیسا کہ بعض جگہوں پر کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو سب سے پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ ایک بکری لا کر اسے گھر کی دہلیز پر ذبح کرتے ہیں تاکہ اس کا خون وہاں بہے۔ اور کہتے ہیں: یہ جنات کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا ہے، پس یہ فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی اصل نہیں، لیکن جو محض خوشی ومسرت میں ایسا کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جس کے اہل وعیال اسے کہیں: ایک جانور ذبح کرو (قربانی کرو) اور اسے مساکین میں تقسیم کردو بلاؤں کو دور کرنے کے لیے، کیا ایسی نیت کرنا جائز ہے؟
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ رحمہ اللہ:
اس بارے میں تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ ذبیحہ صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، کسی متوقع چیز کو دور کرنے، یا کسی پیش آنے والی چیز کو رفع کرنے کے لیے نہیں، لیکن بس صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، اور فقراء کو کھلانے کی نیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ان عمومی دلائل میں داخل ہے کہ حن میں کھانے کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور مساکین کو کھلانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
البتہ اگر ذبح کرنا اس لیے ہو کہ گھر والے بیمار ہیں، تو اس لیے ذبح کرنا تاکہ مریض سے وہ تکلیف دور ہوجائے (جان کا صدقہ) تو یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے، سد ذریعہ کے طور پر۔ کیونکہ بہت سے لوگ تب ہی ذبح کرتے ہیں جب کوئی ان پر مرض آپڑے کیونکہ ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی جن کی وجہ سے ہے، یا کسی موذی چیز کی وجہ سے، پس جب وہ ذبیحہ کو ذبح کرتے ہیں اور خون بہاتے ہیں تو اس کا شر دور ہوجاتا ہے یا پھر اس موذی چیز کی وجہ سے جو تکلیف ہے وہ رفع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا اعتقاد حرام ہے جائز نہیں۔ لہذا جو ذبیحہ کسی مرض کو رفع کرنے یا بطور مریض کے جان کے صدقے کے دیا جاتا ہے اس حال میں علماء کرام فرماتےہیں: یہ حرام ہے جائز نہیں، سد ذریعہ کے طور پر۔
اور شیخ علامہ سعد بن حمد بن عتیق رحمہ اللہ کا اس موضوع پر کہ ’’مریض کے لیے ذبح کرنا ‘‘خاص رسالہ بھی ہے([1])۔
اسی طرح سے اگر ذبح کرنا کسی متوقع تکلیف کو روکنے کے لیے
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding taking part in #democratic_election and #voting – Various #Ulamaa
#جمہوری_انتخابات میں حصہ لینے اور #ووٹ ڈالنے کا حکم
مختلف #علماء کرام
مصدر: (ویب سائٹ البیضاء العلمیۃ) سے کچھ تصرفات کے ساتھ منقول
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمن!
’’لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا‘‘([1])
(کبھی بھی امارت وعہدے کا سوال مت کرنا، کیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پر مل گیا تو اسی کے سپرد کردیا جائے گا، اور اگر بغیر مانگے تجھے مل گیا تو اللہ تعالی اس سے بحسن خوبی عہدہ براء ہونے میں تمہاری اعانت فرمائے گا)۔
سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں اور میرے چچازاد بھائیوں میں سے دو اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: یا رسول اللہ! جن علاقوں پر اللہ نے آپ کو حکومت دی ہے ان میں کسی پر ہمیں بھی امیر بنادیں۔ اور دوسرے نے بھی ایسی ہی بات کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّا وَاللَّهِ لَا نُوَلِّي عَلَى هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ‘‘([3])
(اللہ کی قسم! بے شک ہم ہرگز بھی اس عہدے پر اسے فائز نہیں کرتے جو خود اسے طلب کرے اور نہ ہی اسے جو اس کی حرص رکھتا ہو)۔
اس مقالے میں پڑھیں:

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/05/jamhori_intikhabaat_may_hissa_layna.pdf

انتخابات کی تعریف
انتخابات کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں
کیا انتخابات شریعت الہی کے موافق ہیں یا اس سے متصادم ہیں
کیا انتخابات شرعی وسائل میں سے ہے؟
انتخابات کے بعض مفاسد
منصب کے لیے خود کو منتخب کرنے کے لیے پیش کرنا یا عہدہ طلب کرنے کی ممانعت میں احادیث نبویہ اور ان پر تعلیق
انتخابات ، اس میں حصہ لینے یا ووٹ ڈالنے کا حکم
اس شخص کا حکم جو الیکشن کی طرف بلائے، حصہ لے اور ووٹ دے
ان لوگوں کا حکم جو بعض علماء کرام کے فتاوی سے دلیل پکڑتےہیں کہ وہ انتخابات کو جائز کہتے ہیں
کیا انتخابات اجتہادی مسائل میں سے ہے
آخرکار پھر اس نظا م کا نعم البدل کیا ہے؟
[1] صحیح بخاری 6622، صحیح مسلم 1654۔
[2] صحیح بخاری 6409،صحیح مسلم 338۔
[3] صحیح مسلم 1826۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding celebrating new #Hijree year – Various #Ulamaa
نیا #ہجری سال منانے کا شرعی حکم
مختلف #علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/new_hijri_saal_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ
فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ (آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)، اس مبارکبادی کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب:بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على عبده ورسوله، وخيرته من خلقه، وأمينه على وحيه، نبينا وإمامنا وسيدنا محمد بن عبد الله وعلى آله وأصحابه ومن سلك سبيله، واهتدى بهداه إلى يوم الدين. أما بعد:
نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین سے کوئی اصل نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی یا کتاب عزیز اس کی مشروعیت پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ ’’کل عام وأنت بخیر‘‘ یا ’’فی کل عام وأنت بخیر‘‘ کہے تو کوئی مانع نہیں کہ آپ بھی اسے ’’وأنت کذلک‘‘ (آپ بھی ہرسال بخیر رہیں) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور آپ کے لئے دعاءگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی کلمہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔
(نور علی الدرب فتوی متن نمبر 10042 شیخ رحمہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ)
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ
کتاب ’’الضياء اللامع‘‘ ص 702 میں فرماتے ہیں:
یہ سنت میں سے نہیں کہ ہم نئے ہجری سال کی آمد پر عید منائیں یا مبارکبادیوں کا تبادلہ کریں۔
بعض دوسرے مواقع پر بھی شیخ رحمہ اللہ سے یہی سوال کیا گیا:
سوال: فضیلۃ الشیخ! آپ نے نئے سال کا ذکر فرمایا، ذرا یہ بھی بتادیجئے کہ نئے ہجری سال پر مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟ اور مبارکباد دینے والوں سے کیسا سلوک کرنا واجب ہے؟
جواب: اگر کوئی آپ کو مبارکباد دے تو اس کا جواب دے دیجئے، لیکن خود کبھی پہل نہ کریں۔ یہی اس مسئلہ میں صواب مؤقف ہے۔ اگر کوئی شخص مثلاً آپ کو کہے، آپ کو نیا سال مبارک ہو تو آپ جواباً کہیں کہ آپ کو بھی مبارک ہو اور اللہ تعالی آپ کے اس سال کو خیر وبرکت والا بنادے۔ لیکن آپ خود سے اس کی ابتداء نہ کیجئے، کیونکہ مجھے سلف صالحین سے یہ بات نہیں ملی کہ وہ نئے سال پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوں۔بلکہ یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ سلف تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور سے قبل محرم الحرام کو نئے سال کا پہلا مہینہ ہی تصور نہیں کرتے تھے۔
(اللقاء الشھري: 44، سن 1417ھ کے آخر میں)
سوال: فضیلۃ الشیخ آپ کی کیا رائے ہے نئے ہجری سال کی مبارکبادیوں کے تبادلے کے بارے میں؟
جواب: میری رائے میں نئے سال کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ شریعت سے ثابت نہیں۔ یعنی ہم لوگوں سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ کے لئے یہ سنت ہے کہ نئے سال کی ایک دوسرے کو مبارکباد دیں، لیکن اگر کوئی ایسا کرلے تو کوئی حرج نہیں۔ اور چاہیے کہ جب کوئی نیا سال مبارک کہہ دے تو وہ اسے اچھا جواب دے یعنی اللہ تعالی آپ کے اس سال کو خیروبرکت والا بنادے۔ ہماری اس مسئلے میں یہی رائے ہے، اور یہ امورِ عادیہ (عام عادات) میں شمار ہوتے ہیں ناکہ امورِ تعبدیہ (عبادت) میں۔
(لقاء الباب المفتوح: 93، بروز جمعرات 25 ذی الحجۃ سن 1415ھ)
سوال: کیا نئے سال کی مبارکباد دینا جائز ہے؟
جواب: نئے سال کی مبارکباد دینے کی سلف صالحین سے کوئی اصل ثابت نہیں۔ اسی لئے آپ اس کی ابتداء نہ کریں، لیکن اگر کوئی آپ کو مبارکباد کہہ دے تو اس کا جواب دے دیجئے۔ کیونکہ فی زمانہ یہ بہت عام رواج ہوچکا ہے، اگرچہ اب اس میں کچھ کمی آرہی ہے الحمدللہ کیونکہ لوگوں کے پاس علم آنے لگا ہے، حالانکہ اس سے قبل تو نئے سال کی مبارکبادی والے کارڈوں
(new year greetings card) کا تبادلہ ہوا کرتا تھا۔
سائل: وہ کون سا صیغہ یا الفاظ ہیں کہ جس کے ساتھ لوگ نئے سال کی مبارکبادی دیتے ہیں؟
جواب: اگر وہ ایسے کہیں کہ نیا سال مبارک ہو، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ آپ کے گزشتہ برس کے گناہوں سے درگزر فرمائے اور آئندہ برس میں آپ کی مدد فرمائے، یا اس جیسا کوئی کلمہ۔
سائل: کیا یہ کہا جائے ’’كل عام وأنتم بخير‘‘؟
جواب: نہیں ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ نہیں کہنا چاہیے، نہ عیدالاضحی میں، نہ عیدالفطر میں اور نہ ہی اس موقع پر۔
(لقاء الباب المفتوح: 202 بروز جمعرات 6 محرم الحرام سن 1420ھ)
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء
(دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتوی نویسی، سعودی عرب)
نئے ہجری سال کی مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی مبارکباد دینا غیرمشروع ہے۔
(فتوی نمبر 20795)
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الف
[#SalafiUrduDawah Book] Brief Seerah of #Khulafa_Rashideen (the #rightly_guided_caliphs) - Various #Ulamaa

مختصر سیرت #خلفائے_راشدین

مختلف #علماء کرام کے کلام سے

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مختصر سیرت خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

مختصر سیرت امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

سیرت ِخلفائے راشدین سیدنا عثمان وعلی رضی اللہ عنہما

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/mukhtasar_seerat_khulafa_rashideen.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] The excellence and virtues of Ameer #Muawiyyah bin abi Sufyaan (radiAllaaho anhuma) and his defence – Various #Ulamaa
سیدنا امیر #معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے فضائل اور آپ کا دفاع – مختلف #علماء کرام

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ‘‘([1])
(اے اللہ انہيں ہادی (ہدایت کرنے والا)، مہدی (ہدایت یافتہ) بنا اور اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) ہدایت دے)۔
[1] صحیح ترمذی 3842۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/ameer_muawiyyah_fazail_difa.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Preceding and opposing the #scholars in #Ummah_affairs – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
#درپیش_امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf


سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہو‏ئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
[#SalafiUrduDawah Book] #Aqeedah and #Manhaj necessitates each other - Various #Ulamaa

#عقیدہ اور #منہج لازم ملزوم ہیں

مختلف #علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام



فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب وشیخ ابن باز، شیخ محمد ناصر الدین الالبانی، شیخ محمد بن صالح العثیمین ، شیخ محمد امان الجامی ، شیخ مقبل بن ہادی الوادعی ، شیخ زید بن محمد المدخلی رحمہم اللہ اور شیخ ربیع بن ہادی المدخلی ، شیخ صالح بن فوزان الفوزان ، شیخ عبید بن عبداللہ الجابری ،شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ و شیخ محمد علی فرکوس حفظہم اللہ کے کلام سے ماخوذ۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_manhaj_lazim_malzoom_hain.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Resemblance between #Shias, Jews and Christians – Various #Ulamaa
#شیعہ اور یہودونصاریٰ میں مشابہت
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: پمفلٹ أوجه الشبه بين اليهود والشيعة، تقریر بعنوان "کتاب وسنت کو تھامنا ہی راہ نجات ہے" از شیخ احمد بن یحیی النجمی کے آخر میں کیے گئے سوالات سے ماخوذ، سوال23۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اور یہود ونصاری کو دو خصلتوں کی وجہ سے رافضہ پر فضیلت حاصل ہےیہود سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: سیدنا موسی علیہ السلام کے صحابہ۔ نصاری سے پوچھا گیا: تمہارے ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: حواریانِ سیدنا عیسی علیہ السلام ۔ اور جب رافضہ سے پوچھا کہا تمہاری ملت کے سب سے بدترین لوگ کون ہیں؟ تو کہا: اصحاب محمد رضی اللہ عنہم!۔ (منہاج السنۃ النبویۃ 1/24).
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/shia_yahood_nasara_me_mushabihat.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding today's #Shia? Various #Ulamaa
موجودہ #روافض (#شیعوں) کا حکم؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیعہ کا عقیدہ کیا ہے؟
شیعہ فرقے کے عقائد کی وضاحت اور انہیں دعوت دینا
کیا ہر شیعہ کافر ہے؟
شیعہ فرقوں کی تفصیل
شیعہ اثنا عشریہ رافضہ کا حکم
کیا تمام موجودہ شیعہ کفار ہیں؟
جو یہ کہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبوت کے مرتبے پر ہیں اور سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے غلطی کی
کیا شیعہ فرقے کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
کیا شیعہ عوام اور علماء کے حکم میں فرق ہے؟
کیاشیعہ ہمارے بھائی ہیں؟
رافضہ کے کفر میں شک کرنا
کیا شیعہ فرقے کا بانی عبداللہ بن سباء یہودی تھا؟
شیعہ کے پیچھے نماز کا حکم
شیعہ سے دنیاوی معاملات کا حکم؟
کیا ایرانی انقلاب یا حکومت اسلامی ہے؟
خمینی کا حکم
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/mojoda_rawafid_shia_hukm.pdf