[#SalafiUrduDawah Article] Preceding and opposing the #scholars in #Ummah_affairs – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
#درپیش_امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
#درپیش_امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
[#SalafiUrduDawah Article] Mocking with the #scholars and consider them causing partisanship among youth – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#علماء کرام کا مذاق اڑانا اور انہیں نوجوانوں میں تفرقہ بازی کا سبب گرداننا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 25۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/ulama_ka_mazaq_nojawan_tafarqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو لوگ ہمارے علماء کرا م پر طعن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو محض علماءِ حیض ونفاس ہيں ساتھ ہی کہتے ہیں ہم نوجوانانِ امت میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ ہم وحدتِ صف کے خواہاں ہیں۔ پس کیا ان کا یہ کلام اللہ تعالی کی نازل کردہ اس شریعت کا انکار نہیں جسے اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا؟
جواب: نہیں، یہ کفر تو نہیں ہے۔ البتہ یہ غیبت اور علماء کی عزتو ں پر طعن درازی ہے۔ اور یہ بلاشبہ حرام ہے۔ غیبت کی شدید ترین حرمت آئی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں۔ پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس سے سوائے شر کے کچھ حاصل نہ ہوگا کہ لوگ علماء سے نفرت کریں گے اور ان پر اعتبار واعتماد کم ہوجائے گا۔ پھر لوگ اگر علماء کی جانب رجوع نہ کریں تو آخر کہاں جائیں؟ چناچہ یہ بہت عظیم خطرہ ہے۔
اولاً: یہ غیبت ہے اور غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔
ثانیاً: اس سے علماء پر اعتماد کم ہوجاتا ہے اور لوگوں کی نظر میں ان کی قدرومنزلت گر جاتی ہے اور یہ باتیں جائز نہیں۔ اس کا معنی تو یہ ہوا کہ لوگ غیر علماء کی طرف رجوع کریں جس سے شر وفساد برپا ہو۔ اور یہی داعیان شر کی نیت وارادہ ہے([1])۔
اور یہ کہنا کہ ہم نوجوانوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ اس کا جواب ہے: ہم تو مسلمانوں میں تفرقہ بازی سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ ہم تو نوجوانوں کے لیے یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ متحد رہیں۔ دینی بھائی چارے میں جڑے رہیں۔ اور ایک امت بن کر رہیں اور ہم انہیں اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور انہیں جمع کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا جمع ہونا حق بات پر ہو۔ ناکہ جیسے یہ گمراہ لوگ کہتے ہیں کہ: جس چیز میں اتفاق ہے اس پر تعاون کرتے ہیں اور جس میں اختلاف ہے اس میں ایک دوسرے کو معذور سمجھتے ہیں۔ یہ بات باطل ہے۔ بلکہ ہم حق پر جمع ہوں اور ہر اس اختلاف کو چھوڑ دیں جو حق کے مخالف ہو۔
[1] اور یہی حزبی اور تحریکیں چلانے والے لوگوں کا شعار ہے کہ اپنے سے پہلے والے اہل بدعت وتفرقہ کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے علماء پر طعن وتشنیع کرنا۔ ان میں سے ایک اپنی کیسٹ میں کہتا ہے: (کیا تم ایک عالم سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ محض ذبح وشکار، مناسک، حیض ونفاس، وضوء وغسل اور موزوں پر مسح کرنے کے احکامات تک محصور رہے)۔۔ اسی کیسٹ میں دوسری جگہ کہتا ہے: (کسی عالم کی کیا قدروقیمت ہے اگر وہ لوگوں کو ان کے سیاسی معاملات نہیں بیان کرتا جو کہ سب سے اہم مسائل ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے)۔
میں یہ کہتا ہوں: یہ تو علماء کے علم کی تخفیفِ شان کرنا ہے اور وہ جس نبوی علمی ورثے کے حامل ہیں اس کی بے قدری ہے۔ یہ تو قدیم وجدید معتزلہ کا قول ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اسماعیل بن علیہ سے روایت کی جاتی ہے، فرمایا: مجھے الیسع نے بتایا، ایک دن واصل بن عطاء معتزلی نے کلام کیا جس پر عمرو بن عبید نے نے کہا: کیا تم سنتے نہیں(کیا عمدہ کلام ہے)؟ (دوسری طرف) حسن بصری اور ابن سیرین (علماء اہل سنت) رحمہما اللہ کا جب کلام سنو تو لگتا ہے جیسے حیض کا کپڑا دے مارا ہو۔ یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ اہل بدعت کے بڑوں میں سے کوئی بڑا فقہ پر علم الکلام کی فضیلت بیان کرنا چاہتا تھا۔ تو کہنے لگا: الشافعی اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا علم جملۃً عورت کی شلوار سے ہی باہر نہیں نکلتا یعنی بس حیض ونفاس کے مسائل آتے ہیں۔ یہ ہے ان گمراہوں کا کلام، اللہ انہيں برباد کرے)۔ (الاعتصام للشاطبی 2/741-742)۔ (الحارثی)
#علماء کرام کا مذاق اڑانا اور انہیں نوجوانوں میں تفرقہ بازی کا سبب گرداننا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 25۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/ulama_ka_mazaq_nojawan_tafarqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو لوگ ہمارے علماء کرا م پر طعن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو محض علماءِ حیض ونفاس ہيں ساتھ ہی کہتے ہیں ہم نوجوانانِ امت میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ ہم وحدتِ صف کے خواہاں ہیں۔ پس کیا ان کا یہ کلام اللہ تعالی کی نازل کردہ اس شریعت کا انکار نہیں جسے اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا؟
جواب: نہیں، یہ کفر تو نہیں ہے۔ البتہ یہ غیبت اور علماء کی عزتو ں پر طعن درازی ہے۔ اور یہ بلاشبہ حرام ہے۔ غیبت کی شدید ترین حرمت آئی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں۔ پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس سے سوائے شر کے کچھ حاصل نہ ہوگا کہ لوگ علماء سے نفرت کریں گے اور ان پر اعتبار واعتماد کم ہوجائے گا۔ پھر لوگ اگر علماء کی جانب رجوع نہ کریں تو آخر کہاں جائیں؟ چناچہ یہ بہت عظیم خطرہ ہے۔
اولاً: یہ غیبت ہے اور غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔
ثانیاً: اس سے علماء پر اعتماد کم ہوجاتا ہے اور لوگوں کی نظر میں ان کی قدرومنزلت گر جاتی ہے اور یہ باتیں جائز نہیں۔ اس کا معنی تو یہ ہوا کہ لوگ غیر علماء کی طرف رجوع کریں جس سے شر وفساد برپا ہو۔ اور یہی داعیان شر کی نیت وارادہ ہے([1])۔
اور یہ کہنا کہ ہم نوجوانوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ اس کا جواب ہے: ہم تو مسلمانوں میں تفرقہ بازی سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ ہم تو نوجوانوں کے لیے یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ متحد رہیں۔ دینی بھائی چارے میں جڑے رہیں۔ اور ایک امت بن کر رہیں اور ہم انہیں اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور انہیں جمع کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا جمع ہونا حق بات پر ہو۔ ناکہ جیسے یہ گمراہ لوگ کہتے ہیں کہ: جس چیز میں اتفاق ہے اس پر تعاون کرتے ہیں اور جس میں اختلاف ہے اس میں ایک دوسرے کو معذور سمجھتے ہیں۔ یہ بات باطل ہے۔ بلکہ ہم حق پر جمع ہوں اور ہر اس اختلاف کو چھوڑ دیں جو حق کے مخالف ہو۔
[1] اور یہی حزبی اور تحریکیں چلانے والے لوگوں کا شعار ہے کہ اپنے سے پہلے والے اہل بدعت وتفرقہ کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے علماء پر طعن وتشنیع کرنا۔ ان میں سے ایک اپنی کیسٹ میں کہتا ہے: (کیا تم ایک عالم سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ محض ذبح وشکار، مناسک، حیض ونفاس، وضوء وغسل اور موزوں پر مسح کرنے کے احکامات تک محصور رہے)۔۔ اسی کیسٹ میں دوسری جگہ کہتا ہے: (کسی عالم کی کیا قدروقیمت ہے اگر وہ لوگوں کو ان کے سیاسی معاملات نہیں بیان کرتا جو کہ سب سے اہم مسائل ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے)۔
میں یہ کہتا ہوں: یہ تو علماء کے علم کی تخفیفِ شان کرنا ہے اور وہ جس نبوی علمی ورثے کے حامل ہیں اس کی بے قدری ہے۔ یہ تو قدیم وجدید معتزلہ کا قول ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اسماعیل بن علیہ سے روایت کی جاتی ہے، فرمایا: مجھے الیسع نے بتایا، ایک دن واصل بن عطاء معتزلی نے کلام کیا جس پر عمرو بن عبید نے نے کہا: کیا تم سنتے نہیں(کیا عمدہ کلام ہے)؟ (دوسری طرف) حسن بصری اور ابن سیرین (علماء اہل سنت) رحمہما اللہ کا جب کلام سنو تو لگتا ہے جیسے حیض کا کپڑا دے مارا ہو۔ یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ اہل بدعت کے بڑوں میں سے کوئی بڑا فقہ پر علم الکلام کی فضیلت بیان کرنا چاہتا تھا۔ تو کہنے لگا: الشافعی اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا علم جملۃً عورت کی شلوار سے ہی باہر نہیں نکلتا یعنی بس حیض ونفاس کے مسائل آتے ہیں۔ یہ ہے ان گمراہوں کا کلام، اللہ انہيں برباد کرے)۔ (الاعتصام للشاطبی 2/741-742)۔ (الحارثی)
[Article] Preceding and opposing the #scholars in Ummah affairs – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
درپیش امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
درپیش امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
[Article] Acknowledgment of few #scholars from Arab and subcontinent - Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
عرب و برصغیر کے بعض #علماء کرام کا تذکرہ
فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
(محدث دیار شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة الهدى والنور 301۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/arab_barr_e_sagheer_baaz_ulamaa_tazkirah.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:اس زمانے میں علماء، فقہاء و مجتہدین میں سے آپ کن کو جانتے ہیں؟
جواب: میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ شیخ ابن باز (اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے ذریعے مسلمانوں کو نفع پہنچائے)([1]) بہت سے مسائل میں اجتہاد کرتے ہيں، اگرچہ ہم جانتے ہيں کہ وہ حنبلی المذہب ہیں اور کسی بھی مذہب کے پڑھنے والی کی طبیعت کچھ یوں ہوتی ہے کہ جب وہ اسی پر تربیت پاتا ہے، پھر وہ متنبہ ہوتا ہے بعض ایسے مسائل کے موجود ہونے پر کہ جو شرعی دلائل کے مخالف ہوتے ہيں، لیکن اس کا یہ متنبہ ہونا ایک عرصے کے بعد ہوتا ہے، لہذا اس سبب سے یعنی دلیل کی اتباع کرتے ہوئے اس کی اس تنبیہ یا مذہب کی مخالفت کرلینا دو باتوں پر دلالت کرتا ہے:
پہلی بات: کہ وہ اجتہاد کرتا ہے مقلد نہيں۔
دوسری بات: جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا تھا اس اجتہاد کا تناسب بہت کم ہوتا ہے([2])۔
پھر ان کے ساتھ فاضل شیخ ابن عثیمین کا بھی اضافہ کرلیں، آپ بھی افاضل سعودی علماء میں سے ہيں کہ جن کے بارے میں ہم یہی گمان کرتے ہيں کہ اگر ان کے سامنے کتاب وسنت سے ثابت شدہ دلائل کے ساتھ حقیقت سامنے آتی ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ہيں، بلاشبہ وہ ایسا نہيں کرتے جیسے دوسروں لوگ کرتے ہيں کہ اپنے اس مذہب پر جمود اختیار کرتے ہيں کہ جس پر وہ رہتے آئے ہيں، بلکہ یہ دلیل کی پیروی کرتے ہیں۔
لیکن ان کے تعلق سے بھی اس کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔
یعنی جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ افسوس مجھے اتنوں کا معلوم نہیں (یعنی مجتہدین کا) یا تو جن کے بارے میں سوال کیا گیا (یعنی مجتہدین علماء) ان کے قلت وجود کی وجہ سے یا میرے حافظے کی کمزوری کی وجہ سے یا پھر میرے تنگ علمی دائرے کی وجہ سے کہ اس قسم کی شخصیات کا وجود ملک کے اکناف و اطراف میں ہو۔لہذا میں اپنے حافظے کو کمزور پاتا ہوں کہ ان دو فاضل شخصیات جیسی کوئی دیگر مثالیں یا نمونے پیش کروں۔
البتہ میں یہ یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آجکل کہا جاتا ہے کہ ایک علمی بیداری کی لہر اٹھی ہے کہ جو اس بات کی جانب رہنمائی کرتی ہے کہ ہمیں ضرور کتاب وسنت اور جس چیز پر سلف صالحین تھے کے شرعی دلائل کی جانب رجوع کرنا چاہیے اور کسی مذہب پر جمود اختیار نہيں کرنا چاہیے۔لہذا ان جیسے بہت سے نمونے بہت سے اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہيں سعودی میں، کویت، امارات میں اور خاص کر پاک و ہندمیں، اگرچہ وہ اتنے مشہور نہ بھی ہوئے ہوں یعنی ان میں سے وہ علمی شعبے میں مستقل طور پر ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ لیکن بلاشبہ پاکستان میں اور ہندوستان کے مسلم علاقوں میں ایک بڑی جماعت یا گروہ پایا جاتا ہے جو علماء حدیث کہلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے درحقیقت ان ممالک میں عمل بالحدیث کے منہج کو نشر کیا، بلکہ کبھی تو ان کی دعوت دیگر اسلامی ممالک تک سرایت کرگئی۔ چناچہ انہوں نے عمل بالحدیث اور مذاہب کی عدم تقلید کو نشر کیا خصوصاً ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں غالب ترین مذہب یعنی مذہب حنفی (کی عدم تقلید)۔لہذا ان ممالک میں ایک مستقل مذہب مذہب اہل حدیث بن گیا۔ اور اس جماعت کو مذہب اہل حدیث کہاگیا۔
لیکن ہم اس زمانے میں ان (اہل حدیثوں) میں ایسے علماء نہيں جانتے کہ جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جائے کہ وہ خود محنت و اجتہاد کرتے ہیں اور (اور اپنے سے پہلوں کی) تقلید نہيں کرتے۔ البتہ ہم بعض ایسے علمی آثار پاتے ہیں کہ جو ان علماء اہل حدیث میں سے بعض چھوڑ گئے ہيں کہ ان کے یہ آثار اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ وہ ایک بلند علمی درجے پر تھے اور تقلید سے دور تھے۔ مثال کے طور پر شمس الدین، کیا نام تھا؟
سائل: عبدالحق آبادی۔
شیخ: عبدالحق آبادی(شیخ کی مراد صاحب عون المعبود شرح سنن ابی داود شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ہیں) اور تحفہ الاحوذی (شرح جامع الترمذی) والے (یعنی شیخ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ۔ یعنی ان کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ کتاب وسنت پر عمل کرنے کے منہج کو نشر کرنے اور مذہب کی اتباع سے روکنے میں ان کے احسانات ہیں۔ یا جیسا میں نے شاعر کا قول ذکر کیا کہ:
”وكانوا إذا عدوا قليلا فصاروا اليوم أقل من القليل“
(جب انہيں گننے پر آئیں تو قلیل نکلتے ہيں اور آج تو یہ اقل القلیل ہوگئے ہیں)۔
عرب و برصغیر کے بعض #علماء کرام کا تذکرہ
فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
(محدث دیار شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة الهدى والنور 301۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/arab_barr_e_sagheer_baaz_ulamaa_tazkirah.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:اس زمانے میں علماء، فقہاء و مجتہدین میں سے آپ کن کو جانتے ہیں؟
جواب: میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ شیخ ابن باز (اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے ذریعے مسلمانوں کو نفع پہنچائے)([1]) بہت سے مسائل میں اجتہاد کرتے ہيں، اگرچہ ہم جانتے ہيں کہ وہ حنبلی المذہب ہیں اور کسی بھی مذہب کے پڑھنے والی کی طبیعت کچھ یوں ہوتی ہے کہ جب وہ اسی پر تربیت پاتا ہے، پھر وہ متنبہ ہوتا ہے بعض ایسے مسائل کے موجود ہونے پر کہ جو شرعی دلائل کے مخالف ہوتے ہيں، لیکن اس کا یہ متنبہ ہونا ایک عرصے کے بعد ہوتا ہے، لہذا اس سبب سے یعنی دلیل کی اتباع کرتے ہوئے اس کی اس تنبیہ یا مذہب کی مخالفت کرلینا دو باتوں پر دلالت کرتا ہے:
پہلی بات: کہ وہ اجتہاد کرتا ہے مقلد نہيں۔
دوسری بات: جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا تھا اس اجتہاد کا تناسب بہت کم ہوتا ہے([2])۔
پھر ان کے ساتھ فاضل شیخ ابن عثیمین کا بھی اضافہ کرلیں، آپ بھی افاضل سعودی علماء میں سے ہيں کہ جن کے بارے میں ہم یہی گمان کرتے ہيں کہ اگر ان کے سامنے کتاب وسنت سے ثابت شدہ دلائل کے ساتھ حقیقت سامنے آتی ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ہيں، بلاشبہ وہ ایسا نہيں کرتے جیسے دوسروں لوگ کرتے ہيں کہ اپنے اس مذہب پر جمود اختیار کرتے ہيں کہ جس پر وہ رہتے آئے ہيں، بلکہ یہ دلیل کی پیروی کرتے ہیں۔
لیکن ان کے تعلق سے بھی اس کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔
یعنی جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ افسوس مجھے اتنوں کا معلوم نہیں (یعنی مجتہدین کا) یا تو جن کے بارے میں سوال کیا گیا (یعنی مجتہدین علماء) ان کے قلت وجود کی وجہ سے یا میرے حافظے کی کمزوری کی وجہ سے یا پھر میرے تنگ علمی دائرے کی وجہ سے کہ اس قسم کی شخصیات کا وجود ملک کے اکناف و اطراف میں ہو۔لہذا میں اپنے حافظے کو کمزور پاتا ہوں کہ ان دو فاضل شخصیات جیسی کوئی دیگر مثالیں یا نمونے پیش کروں۔
البتہ میں یہ یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آجکل کہا جاتا ہے کہ ایک علمی بیداری کی لہر اٹھی ہے کہ جو اس بات کی جانب رہنمائی کرتی ہے کہ ہمیں ضرور کتاب وسنت اور جس چیز پر سلف صالحین تھے کے شرعی دلائل کی جانب رجوع کرنا چاہیے اور کسی مذہب پر جمود اختیار نہيں کرنا چاہیے۔لہذا ان جیسے بہت سے نمونے بہت سے اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہيں سعودی میں، کویت، امارات میں اور خاص کر پاک و ہندمیں، اگرچہ وہ اتنے مشہور نہ بھی ہوئے ہوں یعنی ان میں سے وہ علمی شعبے میں مستقل طور پر ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ لیکن بلاشبہ پاکستان میں اور ہندوستان کے مسلم علاقوں میں ایک بڑی جماعت یا گروہ پایا جاتا ہے جو علماء حدیث کہلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے درحقیقت ان ممالک میں عمل بالحدیث کے منہج کو نشر کیا، بلکہ کبھی تو ان کی دعوت دیگر اسلامی ممالک تک سرایت کرگئی۔ چناچہ انہوں نے عمل بالحدیث اور مذاہب کی عدم تقلید کو نشر کیا خصوصاً ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں غالب ترین مذہب یعنی مذہب حنفی (کی عدم تقلید)۔لہذا ان ممالک میں ایک مستقل مذہب مذہب اہل حدیث بن گیا۔ اور اس جماعت کو مذہب اہل حدیث کہاگیا۔
لیکن ہم اس زمانے میں ان (اہل حدیثوں) میں ایسے علماء نہيں جانتے کہ جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جائے کہ وہ خود محنت و اجتہاد کرتے ہیں اور (اور اپنے سے پہلوں کی) تقلید نہيں کرتے۔ البتہ ہم بعض ایسے علمی آثار پاتے ہیں کہ جو ان علماء اہل حدیث میں سے بعض چھوڑ گئے ہيں کہ ان کے یہ آثار اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ وہ ایک بلند علمی درجے پر تھے اور تقلید سے دور تھے۔ مثال کے طور پر شمس الدین، کیا نام تھا؟
سائل: عبدالحق آبادی۔
شیخ: عبدالحق آبادی(شیخ کی مراد صاحب عون المعبود شرح سنن ابی داود شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ہیں) اور تحفہ الاحوذی (شرح جامع الترمذی) والے (یعنی شیخ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ۔ یعنی ان کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ کتاب وسنت پر عمل کرنے کے منہج کو نشر کرنے اور مذہب کی اتباع سے روکنے میں ان کے احسانات ہیں۔ یا جیسا میں نے شاعر کا قول ذکر کیا کہ:
”وكانوا إذا عدوا قليلا فصاروا اليوم أقل من القليل“
(جب انہيں گننے پر آئیں تو قلیل نکلتے ہيں اور آج تو یہ اقل القلیل ہوگئے ہیں)۔
[Article] What is the stance of a beginner student regarding the difference between the #scholars? - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
#علماء کرام کے مابین اختلاف میں ابتدائی طالبعلم کیا مؤقف اختیار کرے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 4 ص 76۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:ایک ابتدائی طالبعلم کا اس اختلاف کے تعلق سے کیا مؤقف ہونا چاہیے جو علماء سنت کے مابین ان کے بعض فتاویٰ میں ہوجاتا ہے، خصوصاً جبکہ ان میں سے بعض بعض علماء کے لیے تعصب کرتے ہيں اور یہ انہیں اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ دوسرے عالم کی شان میں تنقیص کرتے ہیں، پس آپ کس طرح نوجوانوں کی اس باب میں رہنمائی فرمائيں گے، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/ulamaa_ikhtilaaf_talib_e_ilm_moaqqaf.pdf
#علماء کرام کے مابین اختلاف میں ابتدائی طالبعلم کیا مؤقف اختیار کرے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 4 ص 76۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:ایک ابتدائی طالبعلم کا اس اختلاف کے تعلق سے کیا مؤقف ہونا چاہیے جو علماء سنت کے مابین ان کے بعض فتاویٰ میں ہوجاتا ہے، خصوصاً جبکہ ان میں سے بعض بعض علماء کے لیے تعصب کرتے ہيں اور یہ انہیں اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ دوسرے عالم کی شان میں تنقیص کرتے ہیں، پس آپ کس طرح نوجوانوں کی اس باب میں رہنمائی فرمائيں گے، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/ulamaa_ikhtilaaf_talib_e_ilm_moaqqaf.pdf
[Urdu Article] Obeying the #scholars and #rulers in good, is the way in which the affairs will improve – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
#علماء اور #امراء کی معروف میں اطاعت کرنے سے ہی حالات میں بہتری آتی ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: حوار مع سماحته في ندوة عقدت بجامع الإمام فيصل بن ترك في الرياض ونشرته جريدة الشرق الأوسط في 4 \ 11 \ 1413 هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ حکمرانوں کی معروف میں اطاعت کی جائے، کیونکہ بلاشبہ اسی کے ذریعے امت کے امور میں بہتری آتی ہے، اورامن واستقرار حاصل ہوتا ہے، اور لوگ فتنوں سے بچ جاتے ہیں۔ اور آپ فضیلۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ولاۃ الامر سے مراد علماء اور امراء وحکام وصاحب سلطنت ہیں۔ اور سماحۃ الشیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ ان کی اطاعت معروف میں ہوگی اللہ عزوجل کی معصیت میں نہيں۔ اور آپ سماحۃ الشیخ نے ساتھ میں یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اس حکمران کی کہ جو معصیت کا حکم کرتا ہے صرف اس معصیت میں اطاعت نہیں ہوگی، لیکن اس کے باوجود رعایا کو یہ حق نہيں کہ وہ اس وجہ سے اس کے خلاف خروج کریں۔ پھر سماحۃ الشیخ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ کب حاکم پر خروج جائز ہوتا ہے کہ جس کا ضابطہ شریعت مطہرہ میں موجود ہے کہ جو رعایا ان کے خلاف نکلی ہو اس کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح برہان ودلیل ہو اس حاکم کے کھلم کھلا کفر کی، ساتھ ہی ان کے پاس اسے تبدیل کرنے کی قدرت وطاقت بھی ہو، پس اگر ان کے پاس قدرت نہ ہو عاجز ہوں، تو پھر انہيں خروج نہيں کرنا چاہیے اگرچہ کفر بواح (کھلم کھلا کفر) ہی کیوں نہ دیکھ لیں۔ کیونکہ اس صورت میں ان کے خروج سے امت میں فساد ہوگا، لوگوں کو نقصان پہنچنے گا اور یہ فتنے کا موجب ہوگا۔ جبکہ یہ ساری باتیں شرعی خروج کے جو مقاصد ومصلحتیں ہیں جیسے لوگوں اور امت کی اصلاح ومنفعت ان کے خلاف ہے ۔ اور سماحۃ الشیخ نے فرمایا کہ اس حالت میں رعایا کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بھرپور نصیحت کرے، حق بات کہے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتی رہے، اس صورت میں وہ برئ الذمہ ہیں۔
اسی طرح جامع الامام فیصل بن ترکی، ریاض میں منعقدہ اس کانفرنس میں کیے گئے سوالات کے جوابات میں شیخ نے حکام کی اطاعت کی اہمیت، لزوم جماعت، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عظیم وعید ان کے لیے جو ناحق حکومت سے بغاوت کریں اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کریں بیان فرمائی۔ ساتھ ہی سماحۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ جو قوانین شریعت کے موافق ہوں تو ان میں کوئی حرج نہيں جیسا کہ ٹریفک وغیرہ اور ایسی چیزوں کے قوانین ہوتے ہیں جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا ہے، اور ان میں شریعت کی مخالفت نہيں ہوتی۔ البتہ جن قوانین میں شریعت کی صریح مخالفت ہوتی ہے تو وہ ٹھیک نہيں، اب جو ان کو حلال سمجھتا ہے یعنی ان شریعت مخالف قوانین کو جن پر علماء کرام کا اجماع ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔
او رجب شیخ سے پوچھا گیا کہ ان شریعت مخالف قوانین کو حلال سمجھنے والے حکام کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا: ہم ان کی معروف میں اطاعت کریں گے معصیت میں نہيں یہاں تک کہ اللہ تعالی کوئی اس کا نعم البدل لے کر آئے۔
اور جب شیخ سے اسلامی منظر عام پر پائی جانے والی موجودہ دور کی مختلف اسلامی جماعتوں سے متعلق پوچھا گیا اور یہ کہ ان میں سے کون سی اتباع کیے جانے کے زیادہ لائق ہے۔ تو شیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ جس جماعت کی اتباع سب پر واجب ہے وہ وہ جماعت ہے کہ جو کتاب وسنت کے منہج پر اور جس چیز پر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے اس پر قائم ہو۔
ساتھ ہی شیخ نے وضاحت فرمائی کہ ان موجودہ جماعتوں میں سے ہر جماعت میں حق وباطل کی آمیزیش پائی جاتی ہے، تو ان کا کہا مانا جائے گا حق بات میں یعنی جس پر کتاب وسنت کی دلیل موجود ہو، جبکہ جو بات دلیل کے خلاف ہوگی تو وہ ان پر رد کردی جائے گی، اور ان سے کہا جائے گاکہ تم نے اس میں غلطی کی ہے۔
اور شیخ کی یہ بھی رائے ہے کہ اس سلسلے میں اہل علم پر یہ عظیم واجب ہے اور ان کا بہت بڑا کردار ہے کہ وہ حق بیان کریں اور ان جماعتوں کا ضرور رد کریں ہر اس بات پر جس میں وہ غلطی پر ہيں، جو ان کی جماعتوں کی تفاصیل جانتے ہیں وہ ایسا کریں۔
#علماء اور #امراء کی معروف میں اطاعت کرنے سے ہی حالات میں بہتری آتی ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: حوار مع سماحته في ندوة عقدت بجامع الإمام فيصل بن ترك في الرياض ونشرته جريدة الشرق الأوسط في 4 \ 11 \ 1413 هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ حکمرانوں کی معروف میں اطاعت کی جائے، کیونکہ بلاشبہ اسی کے ذریعے امت کے امور میں بہتری آتی ہے، اورامن واستقرار حاصل ہوتا ہے، اور لوگ فتنوں سے بچ جاتے ہیں۔ اور آپ فضیلۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ولاۃ الامر سے مراد علماء اور امراء وحکام وصاحب سلطنت ہیں۔ اور سماحۃ الشیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ ان کی اطاعت معروف میں ہوگی اللہ عزوجل کی معصیت میں نہيں۔ اور آپ سماحۃ الشیخ نے ساتھ میں یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اس حکمران کی کہ جو معصیت کا حکم کرتا ہے صرف اس معصیت میں اطاعت نہیں ہوگی، لیکن اس کے باوجود رعایا کو یہ حق نہيں کہ وہ اس وجہ سے اس کے خلاف خروج کریں۔ پھر سماحۃ الشیخ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ کب حاکم پر خروج جائز ہوتا ہے کہ جس کا ضابطہ شریعت مطہرہ میں موجود ہے کہ جو رعایا ان کے خلاف نکلی ہو اس کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح برہان ودلیل ہو اس حاکم کے کھلم کھلا کفر کی، ساتھ ہی ان کے پاس اسے تبدیل کرنے کی قدرت وطاقت بھی ہو، پس اگر ان کے پاس قدرت نہ ہو عاجز ہوں، تو پھر انہيں خروج نہيں کرنا چاہیے اگرچہ کفر بواح (کھلم کھلا کفر) ہی کیوں نہ دیکھ لیں۔ کیونکہ اس صورت میں ان کے خروج سے امت میں فساد ہوگا، لوگوں کو نقصان پہنچنے گا اور یہ فتنے کا موجب ہوگا۔ جبکہ یہ ساری باتیں شرعی خروج کے جو مقاصد ومصلحتیں ہیں جیسے لوگوں اور امت کی اصلاح ومنفعت ان کے خلاف ہے ۔ اور سماحۃ الشیخ نے فرمایا کہ اس حالت میں رعایا کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بھرپور نصیحت کرے، حق بات کہے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتی رہے، اس صورت میں وہ برئ الذمہ ہیں۔
اسی طرح جامع الامام فیصل بن ترکی، ریاض میں منعقدہ اس کانفرنس میں کیے گئے سوالات کے جوابات میں شیخ نے حکام کی اطاعت کی اہمیت، لزوم جماعت، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عظیم وعید ان کے لیے جو ناحق حکومت سے بغاوت کریں اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کریں بیان فرمائی۔ ساتھ ہی سماحۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ جو قوانین شریعت کے موافق ہوں تو ان میں کوئی حرج نہيں جیسا کہ ٹریفک وغیرہ اور ایسی چیزوں کے قوانین ہوتے ہیں جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا ہے، اور ان میں شریعت کی مخالفت نہيں ہوتی۔ البتہ جن قوانین میں شریعت کی صریح مخالفت ہوتی ہے تو وہ ٹھیک نہيں، اب جو ان کو حلال سمجھتا ہے یعنی ان شریعت مخالف قوانین کو جن پر علماء کرام کا اجماع ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔
او رجب شیخ سے پوچھا گیا کہ ان شریعت مخالف قوانین کو حلال سمجھنے والے حکام کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا: ہم ان کی معروف میں اطاعت کریں گے معصیت میں نہيں یہاں تک کہ اللہ تعالی کوئی اس کا نعم البدل لے کر آئے۔
اور جب شیخ سے اسلامی منظر عام پر پائی جانے والی موجودہ دور کی مختلف اسلامی جماعتوں سے متعلق پوچھا گیا اور یہ کہ ان میں سے کون سی اتباع کیے جانے کے زیادہ لائق ہے۔ تو شیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ جس جماعت کی اتباع سب پر واجب ہے وہ وہ جماعت ہے کہ جو کتاب وسنت کے منہج پر اور جس چیز پر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے اس پر قائم ہو۔
ساتھ ہی شیخ نے وضاحت فرمائی کہ ان موجودہ جماعتوں میں سے ہر جماعت میں حق وباطل کی آمیزیش پائی جاتی ہے، تو ان کا کہا مانا جائے گا حق بات میں یعنی جس پر کتاب وسنت کی دلیل موجود ہو، جبکہ جو بات دلیل کے خلاف ہوگی تو وہ ان پر رد کردی جائے گی، اور ان سے کہا جائے گاکہ تم نے اس میں غلطی کی ہے۔
اور شیخ کی یہ بھی رائے ہے کہ اس سلسلے میں اہل علم پر یہ عظیم واجب ہے اور ان کا بہت بڑا کردار ہے کہ وہ حق بیان کریں اور ان جماعتوں کا ضرور رد کریں ہر اس بات پر جس میں وہ غلطی پر ہيں، جو ان کی جماعتوں کی تفاصیل جانتے ہیں وہ ایسا کریں۔