Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] What is meant by the #Hadeeth: "Their #head will appear like the #humps of the #Bukht_camels" - Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz

#بختی_اونٹوں کی #کوہان کے مانند سر والی #عورتوں سے کیا مراد ہے؟

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ

(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)

ترجمہ: عمر طارق

مصدر: شيخ کی آفشيل ويب سائٹ سے: معنى حديث (مائلات مميلات رؤوسهن كأسنمة البخت)۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/bukhti_ont_manind_baalo_wali_hadees.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حديث ميں وارد فرمان:

"ايسی عورتيں جو خود بھی برائی کی طرف مائل ہوں گی اور دوسروں کو بھی برائی کی طرف مائل کريں گی، ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہان کے مانند ہوں گے"

اس سے کيا مراد ہے؟

جواب:يہ ايک صحيح حديث ہے جس کو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روايت کيا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

" دو قسم کے جہنمی لوگ ہيں جن کو ميں نے نہيں ديکها: تاج پہنے ہوئے لوگ جن کے ہاتهوں ميں کوڑے ہوں گے جس سے وہ لوگوں کو (ظالمانہ) ماريں گے، اور ايسی عورتيں جو لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی، جو خود بھی برائی کی طرف مائل ہوں گی اور دوسروں کو بھی برائی کی طرف مائل کريں گی، ان کے سر بختی اونٹوں کی ایک طرف جھکی ہوئی کوہان کے مانند ہوں گے، وہ بالکل بھی جنت ميں داخل نہ ہوسکيں گی اور نا ہی اس کی خوشبو تک سونگھ پائيں گی، جبکہ بلاشبہ جنت کی خوشبو تو اتنے اتنے فاصلے (یعنی بہت دور تک) سونگھی جاسکے گی"۔

اہل علم نے اس حديث کی وضاحت میں یہ بھی بیان کيا ہے کہ:

وہ اللہ تعالی کی نعمتوں کا لباس پہنے ہوں گی، مگر وہ ان کا شکر ادا کرنے سے برہنہ (عاری) ہوں گی۔

اور علماء کی ایک جماعت نے اس حديث کی وضاحت ميں يہ فرمايا کہ:

وہ نہايت ہی شفاف اور مختصر کپڑے زيب تن کیے ہوں گی، اور وہ برہنہ اس لیے ہوں گی کيونکہ بے شک يہ لباس ان کو صحيح طور پر ڈهانپے گا نہيں، لہذا گویا کہ وہ برہنہ لوگوں کے حکم ميں ہی شمار ہوں گے۔

اور يہ ايک عظيم برائی ہے، عورت پر يہ واجب ہے کہ وہ اپنے خادم، اپنے بہنوئی، اپنے دیور اور ديگر اجنبیوں سے مکمل طور پر پردہ کرے۔ يہ پردہ لازمی طور پر اس کے پورے جسم، سر، اور چہرہ کو نامحرم لوگوں سے چھپائے، اور اگر وہ اس ميں سے کچھ چيزوں کو چھوڑ ديتی ہے تو يہ اس کو (اس حديث ميں مذکور) لباس پہننے کے باوجود برہنہ لوگوں کے حکم ميں شامل کر ديگا۔

اور جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا تعلق ہے کہ:

"وہ خود بھی برائی کی طرف مائل ہوں گی اور دوسروں کو بھی برائی کی طرف مائل کريں گی"۔

تو اہل علم کہ نزديک اس سے مراد يہ ہے کہ وہ حق، عفت وپاکدامنی اور استقامت سے روگردانی کرتے ہوئے فساد اور فحاشی کی طرف مائل ہوں گی، اور دوسروں کو بھی اس طرف مائل کريں گی۔

پس وہ پاکدامنی اور استقامت سے روگردانی کرتے ہوۓ فساد، زنا، فحاشی اور باطل کی طرف مائل ہوتی ہیں، اور دوسری عورتوں کو بھی اس کی طرف مائل کرتی ہيں، یعنی وہ فحاشی کے طرف بلاتی ہيں اور فحاشی تک رسائی کا واسطہ بنتی ہیں۔

اور جس نے اس سے مراد يہ ليا ہے کہ وہ ٹيڑهی مانگ نکالتی ہوں گی، تو يہ بات بلکل بھی درست نہيں اور فضول بات ہے۔ جو صحيح وصواب بات ہے وہ يہی ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ حق، پاکدامنی اور استقامت سے روگردانی کرتے ہوئے فساد اور برائی کی طرف مائل ہونے والی ہيں، ساتھ ہی وہ دوسری عورتوں کو بھی اسی طرف مائل کرنے والی ہيں۔ ہم اللہ تعالی ہی سے عافيت کا سوال کرتے ہيں۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان کہ:

"ان کے سر بختی اونٹوں کی ایک طرف کو جھکے ہوئے کوہان کے مانند ہوں گے"۔

تو يہ ان کی علامتوں ميں سے ايک علامت ہے، کہ وہ اپنے سروں كو کھڑا اور نماياں کرنے کے لیے اس پر بعض چيزيں جمع کرتی ہيں تاکہ وہ بڑے نظر آئیں، گويا کہ يہ ان کی علامت ہے بعض ان علاقوں ميں جو ان برے کاموں کے عادی ہيں۔
[Urdu Article] Which days are more #virtuous: #First_ten_days of #DhilHajjah or #last_ten_nights of #Ramadaan? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
#رمضان کا #آخری_عشرہ افضل ہے یا #ذوالحج کا #ابتدائی_عشرہ؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ الآجری.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/afzal_ramadan_ashrah_ya_dhulhajj.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ان دونوں میں سے کیا افضل ہے: رمضان کا آخری عشرہ یا ذوالحج کا ابتدائی عشرہ؟
جواب: رمضان کا آخری عشرہ رات کے لحاظ سے افضل ہے، کیونکہ اس میں لیلۃ القدر ہے۔ اور ذوالحج کا ابتدائی عشرہ دن کے اعتبار سے افضل ہے، کیونکہ اس میں یوم عرفہ اور یوم النحر (قربانی کا دن) ہے۔ اور یہ دونوں (عرفہ اور یوم النحر) دنیا کے تمام ایام سے افضل ہیں۔ یہی بات اہل علم میں سے محققین علماء کے نزدیک معتمد علیہ ہے۔ جبکہ رمضان کا آخری عشرہ رات کے اعتبار سے افضل ہے کیونکہ اس میں شب قدر ہے جو تمام راتوں سے افضل ہے۔ واللہ المستعان۔
[#SalafiUrduDawah Article] Which #sacrifice is more #virtuous? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
کونسی #قربانی #افضل ہے؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى نور على الدرب
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/afzal_qurbani.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کونسی قربانی افضل ہے: گائے یا دنبہ (بھیڑ)؟
جواب: دنبہ افضل ہے اسی طرح سے بکرا بھی۔ اگر وہ گائے یا اونٹ ذبح کرتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو دنبے ذبح فرمایا کرتے تھے۔ اور حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ نحر فرمائے۔
الغرض مقصود یہ ہے کہ بکرے کی قربانی افضل ہے۔ جو کوئی بھی گائے یا اونٹ ذبح کرے گا، گائے سات کی طرف سے اسی طرح سے اونٹ بھی سات کی طرف سے تو یہ قربانی بھی کفایت کرے گی۔
(من فتاوى نور على الدرب/ للإمام بن باز/ شريط رقم: 419)
سوال: قربانی میں نر جانور افضل ہے یا مادہ؟
جواب: قربانی نر ومادہ دونوں کی مشروع ہےچاہے بکرے میں سے ہو یا بھیڑ، دنبہ، گائے واونٹ میں سے یہ سب مشروع سنت ہیں۔ برابر ہیں چاہے تو نر کرے یا مادہ بکرا ہو یا بکری اسی طرح سے دنبہ ہو یا دنبی، گائے ہو یا بیل اور اونٹ ہو یا اونٹنی، یہ سب کے سب شرعی قربانی کے جانور ہیں بشرطیکہ کہ وہ قربانی کی شرعی عمر کے مطابق ہوں۔ بکرا، گائے اور اونٹ میں سے دودانت کا اور بھیڑ میں سے ایک دانت تک کا جائز ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھیڑ میں سے دو نر ذبح فرمایا کرتے تھے ، پس بھیڑ میں سے نر جانور کی قربانی افضل ہے۔ اسی طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھیڑ ہی میں سے دو خصی بھی قربانی فرمایا کرتے تھے، پس خصی مادہ سے افضل ہوئے۔ اور اگر کوئی مادہ جانور بھی ذبح کرلے تو کوئی حرج نہیں۔ اوربکرا بکری میں سے مادہ افضل ہے البتہ اگر وہ بکرا بھی قربان کردے تو اس نے سنت پوری کردی۔
(من فتاوى نور على الدرب/ للإمام بن باز/ شريط رقم: 72)
[#SalafiUrduDawah Article] One #sacrifice is sufficient on behalf of the members of a household – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
تمام گھر والو ں کی طرف سے صرف ایک #قربانی کفایت کرتی ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى نور على الدرب > المجلد الثامن عشر > كتاب الحج وكتاب الجهاد > بيان إجزاء الذبيحة الواحدة في الأضحية عن الأسرة.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/tamam_ghar_walo_ki_traf_say_aik_qurbani_kafi.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا ایک قربانی میرے اور میرے والد کی طرف سے کافی ہے، یہ بات مدنظر رہے کہ میں شادی شدہ ہوں، اور میری اپنی بھی فیملی ہے، اسی طرح سے والد کی اپنی فیملی ہے؟
جواب: اگر آپ دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں تو پھر ایک ہی قربانی آپ دونوں کی طرف سے کافی ہے، یہ سنت آپ کی طرف سے، آپ کے والد، آپ کی بیویوں اور اولاد کی طرف سے ادا ہوجائے گی۔ لیکن اگر آپ کا مستقل الگ گھر ہے اور والد صاحب کا بھی الگ مستقل گھر ہے تو پھر سنت یہ ہے کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اور اپنے اہل عیال کی طرف سے اپنے اپنے گھر میں الگ قربانی کریں۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے دو بڑے موٹے تازے، سینگوں والے، چتکبرے (سفید وسیاہ مخلوط رنگت والے) دنبے ذبح فرمائے، ایک اپنے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے ، اور دوسرا امت محمدﷺ کی طرف سے۔ جلیل القدر صحابی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"كنا في عهد النبي صلى الله عليه وسلم نضحي بشاة واحدة، يضحي بها الرجل عنه وعن أهل بيته"([1])
(ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایک ہی بکری ذبح کرتے تھے، جو ایک شخص اپنے او راپنے اہل وعیال کی طرف سے ذبح کیا کرتا تھا)۔
سوال: بھائی خ –خ فلسطین سے سوال کرتے ہیں کہ میں اپنے بھائیوں اور والدین کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں، ہمارے ساتھ ہمارا ایک بھائی جو کہ شادی شدہ ہے وہ بھی رہتا ہے اور اس کے بچے بھی ہیں، پس میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایک ہی قربانی یعنی جو میرے والد کرتے ہيں وہ ہم تمام لوگوں کی طرف سے کافی ہوگی، یا پھر میرے شادی شدہ بھائی کو الگ سے قربانی کرنی ہوگی؟
جواب: ایک قربانی ایک گھر کے تمام لوگوں کی طرف سے کافی ہوتی ہے اگرچہ ان کی تعداد سو ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا اگر وہ ایک قربانی ذبح کرتا ہے تو وہ اس کی طرف سے، اس کی بیوی، اولاد اور تمام گھر والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ اگرچہ ایک ہی بکری کیوں نہ ہو وہ کفایت کرتی ہے، اسی طرح سے ایک گائے یا ایک اونٹنی کافی ہوتی ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے ایک بکری ذبح فرمایا کرتے تھے ۔ اللهم صل عليه وسلم.
سوال: میں اور میری بیوی بچے اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کے گھر سے بہت دور کے علاقے میں رہتے ہیں البتہ عید وغیرہ کی مناسبات پر ہم ان کے پاس جاتے ہیں، تاکہ عید ان کے ساتھ منائيں، چناچہ عید الاضحیٰ کے موقع پر ہم وہاں جمع ہوکر بس ایک ہی قربانی کرتے ہيں، پس کیا یہ کافی ہوگی؟
جواب: سنت یہ ہے کہ ہر گھر کی ایک قربانی ہو۔ آپ بھی قربانی کریں اور آپ کے والد بھی قربانی کریں۔ اسی طرح سے جو دوسرے گھر ہیں ، چناچہ اگر کوئی انسان ایک الگ مستقل گھر میں رہتا ہے تو وہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرے، یہی سنت ہے۔
[1] سنن الترمذی کے 1505 کے الفاظ ہیں: ’’كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ، وَيُطْعِمُونَ، حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى‘‘ (ایک شخص اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا تھا، جس سے وہ کھاتے بھی اور دوسروں کو بھی کھلاتے، یہاں تک کہ لوگوں نے باہم فخر کرنا شروع کردیا، تو پھر ان کا حال یہ ہوگیا جو تم دیکھ رہے ہو)۔ (یعنی ایک دوسرے پر فخر وبڑائی ظاہر کرنے کے لیے ایک سے زیادہ قربانیاں کرکے دکھاتے)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] #Deviated_claim that speaking on #Tawheed_ul_Asmaa_was_Sifaat #divides_the_Ummah – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
#گمراہ_کن_دعوی کہ #توحید_اسماء_وصفات بیان کرنے سے #امت_میں_تفرقہ ہوتا ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ ابن باز کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی 1741۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/02/gumrah_dawa_asma_sifat_tawheed_tafriqa_ummah_sabab.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک گروہ ہے جو دعوتِ اسلام کی طرف منسوب ہوتا ہےوہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ توحید اسماء وصفات کو بیان نہيں کرنا چاہیے اس دعوے کے ساتھ کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کو جو ان پر زیادہ اہم واجب ہے یعنی جہادِ اسلامی سے مشغول کردیتا ہے، اس نظریے کی صحت کہاں تک درست ہے؟
جواب:یہ نظریہ غلط ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب کریم میں اپنے اسماء وصفات کو واضح فرمایا ہے اور ان کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ مومنین انہيں جان لیں اور ان ناموں اور صفات سے اللہ تعالی کو موسوم وموصوف کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تواتر کے ساتھ احادیث آئی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے خطبات میں اور صحابہ کے ساتھ بات کرنے میں اللہ تعالی کے اسماء وصفات ذکر کرتے تھے اور ان اسماء وصفات کے ساتھ اللہ تعالی کی ثناء بیان کرتے اور اس پر دوسروں کو بھی ابھارتے۔
پس اہل علم وایمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات کو زیادہ سے زیادہ نشر کریں، انہیں اپنے خطبات، تألیفات، وعظ ونصیحت میں ضرور ذکر کریں۔ کیونکہ انہی کے ذریعے تو اللہ تعالی کی پہچان ہوتی ہے اور اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس سے غفلت یا اعراض کرنا اس دعوے کے ساتھ کہ بعض عوام پر معاملہ خلط ملط ہوجائے گا یا بعض اہل بدعت عوام میں تشویش پھیلائیں گے جائز نہیں۔ بلکہ واجب ہے اس شبہہ کا ازالہ کیا جائے اور کا بطلان واضح کیاجائے۔ اور یہ بیان کرنا بھی واجب ہے کہ ہم اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر اس کی شایان شان ایمان لائیں ، نہ اس میں تحریف کریں، نہ تعطیل(انکار)، نہ تکییف (کیفیت بیان کرنا) اور نہ تمثیل(مماثلت بیان کرنا) یہاں تک کہ جاہل کو اس بارے میں حکم معلوم ہوجائے، اور یہاں تک کہ یہ بدعتی لوگ اپنے حد میں رہیں اور ان پر حجت تمام ہوجائے۔
اہل سنت والجماعت نے اپنی کتب میں یہ بات بیان کی ہے کہ مسلمانوں پر خصوصاً اہل علم پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کی صفات سے متعلق آیات و احادیث کو جیسے وہ آئی ہیں اسی طرح سے مانیں، نہ اس کی تأویل کریں نہ ہی تکییف بلکہ واجب ہے کہ جیسی وارد ہوئی ہیں ایسے ہی ایمان لایا جائے۔ اس ایمان کے ساتھ کہ یہ برحق ہیں اور یہ اللہ تعالی کی صفات اور اس کے اسماء ہیں۔ ان کا جو بھی معنی ہے وہ حق ہے وہ واقعی اس کے ساتھ حقیقت میں موصوف ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔جیسا کہ الرحمن، الرحیم، العزیز، الحکیم، القدیر، السمیع اور البصیر وغیرہ۔
واجب ہے کہ یہ جیسے آئی ہیں ویسے ہی ان پر ایمان لایا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالی کے مثل، اس کے مشابہ، اس کی ہمسری کرنے والا کوئی نہیں لیکن ہم اس کی صفات کی کیفیت بیان نہيں کرتے کیونکہ اس کی حقیقی کیفیت اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیساکہ اللہ تعالی کی ذات دیگر ذاتوں کے مشابہ نہیں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہیں اسی طرح سے اللہ تعالی کی صفات میں بھی کسی سے مشابہت نہيں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہيں۔ لہذا اللہ تعالی کی صفات میں کلام کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس کی ذات میں کلام کرنا، دونوں بالکل برابر ہیں، اِس کو اُس پر قیاس کیا جاسکتاہے۔
یہی بات اہل سنت کہتے آئے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر بعد کے تمام لوگوں تک سب کے سب۔ فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص)
(کہہ دیں وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے)
اور فرمایا:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11)
(اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے)
اور فرمایا:
﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 74)
(پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے)
اورفرمایا:
﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
(اور اللہ تعالی کے لیے ہیں اسماءِ حسنی (اچھے نام)، سو اسے ان کے ساتھ پکارو)
اور اس معنی میں بہت ساری آیات وارد ہیں۔
(مجلة المجاهد ـ السنة الأولى ـ عدد 10 شهر صفر 1410هـ
[#SalafiUrduDawah Aricle] Are #demonstrations #against_government a form of #Dawah? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
کیا #حکومت_مخالف #مظاہرات بھی #دعوت کے وسائل میں سےہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/kiya_hukumat_mukhalif_muzahiray_wasail_dawah_hain.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ رحمہ اللہ سے شعبان سن 1412ھ جدہ میں ایک آڈیو کیسٹ میں پوچھا گیا کہ : کیا مردوں اور عورتوں کے حکمران وحکومت مخالف مظاہرات (احتجاجی جلسے جلوس، ریلیاں، مارچ ودھرنے وغیرہ) بھی دعوتی وسائل میں سے ایک وسیلہ شمار ہوں گے؟ اور کیا اس مظاہرے میں مرنے والے فی سبیل اللہ شہید کہلائے جائیں گے؟
آپ رحمہ اللہ نے یہ جواب ارشاد فرمایا:
میں ان مردوزن کے مظاہرات کو مسئلے کا علاج نہیں سمجھتا بلکہ میرے خیال میں تو یہ اسباب شروفتن اور لوگوں کے آپس میں بغض وعداوت اور ایک دوسرے پر زیادتی کا سبب ہیں۔ جبکہ شرعی اسباب تو خط لکھنا، نصیحت کرنا اور ان شرعی طریقوں کو بروئے کار لاکر خیر کی جانب دعوت دینا جن کی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورخیر کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے اہل علم نے تشریح فرمائی ہے کہ خط لکھا جائے یا حاکم، امیر وسلطان سے بالمشافہ بات کی جائے، یا ٹیلی فون کے ذریعہ اسے نصیحت کی جائے، ناکہ منبر پر کھڑے ہوکر اس کی تشہیر کی جائے کہ اس نے یہ کیا اس سے یہ صادر ہوا وغیرہ، واللہ المستعان۔
اور آپ رحمہ اللہ نے عبدالرحمن عبدالخالق (سابق امیر جمعیت احیاء التراث، کویت) پر لکھے گئے ردکے دوران فرمایا:
چھٹی بات یہ کہ آپ نے اپنی کتاب میں ’’فصول من السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ (شرعی سیاست سے متعلق فصول) ص 31، 32 میں ذکر کیا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسالیبِ دعوت میں سے مظاہرات بھی تھے!حالانکہ مجھے اس معنی پر دلالت کرنی والی کوئی دلیل نہیں ملی، امید ہے کہ آپ کسی کے کلام کی جانب ہماری رہنمائی کریں گے یا کس کتاب میں آپ نے ایسا لکھا ہوا پایا ہے؟
بصورت دیگر اگر آپ کے پاس اس بارے میں کوئی مستند نہیں تو آپ پر اس مسئلے سے رجوع کرنا واجب ہے، کیونکہ میں نصوص میں سے کوئی ایسی نص نہیں پاتا جو اس پر دلالت کرتی ہو۔ خاص طور پرجبکہ یہ بات معلوم ہے کہ ان مظاہرات سے بہت سے مفاسد جنم لیتے ہیں بایں صورت اگر واقعی کوئی صحیح دلیل اس بارے میں موجود ہے تو اسے مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے تاکہ کم از کم فسادی لوگ اپنے باطل مظاہرات کی ترویج تو نہ کریں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عنایت فرمائے۔ اور یہ کہ وہ ہمارے دلوں اور اعمال کی اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں بھٹکوں کو راہ ہدایت دکھانے والا بنادے۔ بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ 8/245)
اس خط کے جواب میں عبدالرحمن عبدالخالق کی جانب سے دئے گئے جواب پر شیخ رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل جواب ارسال فرمایا:
عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے حضرت فرزند مکرم فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن عبدالخالق کے نام خط:
اللہ تعالی آپ کو اس کام کی توفیق دے جس میں اس کی رضا ہو اور آپ کے ذریعے اپنے دین کی نصرت فرمائے۔ آمین۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، امابعد:
مجھے آپ کا عمدہ جواب موصول ہوا اور اس میں آپ کی جانب سے میری کی گئی وصیت پر موافقت سے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کو مزید توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں اور آپ کو بھٹکوں کو راہ دکھانے والا بنادے، بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
جو حدیث([1]) آپ نے مظاہروں کے حق میں بیان کی ہے وہ ہم سمجھ چکے ہیں لیکن ہمارےعلم کے مطابق اس کی سندضعیف ہے، کیونکہ اس کا دارومدار اسحاق بن ابی فروہ پر ہے جبکہ (اس کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کا کلام ہے کہ ) اس سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔ اور بالفرض اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ابتدائی اسلام اور قبل از ہجرت کی بات ہے جبکہ شریعت ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔
حالانکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ امر ونہی اور تمام امور دین میں بعد ازہجرت جب تمام شریعت مقرر ہوگئی تھی کا اعتبار کیا جاتا ہے۔اور جو آپ نے جمعہ وعیدین اور اس جیسے دیگر اجتماعات جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا جیسے سورج گرہن ونماز استسقاء وغیرہ سے دلیل پکڑی ہے تو عرض ہے کہ یہ شعائرِ اسلام کے اظہار کے لئے تھا ان کا مظاہرات سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ کسی پر یہ امر مخفی نہیں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مجھے ، آپ کو اور تمام بھائیوں کو مزید علم نافع اور عمل صالح سے بہرہ ور فرمائے۔ اور ہمارے قلوب واعمال کی اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں، آپ کو اور تمام مسلمانوں کو
[#SalafiUrduDawah Article] Advice to #fathers - Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz

#والدوں کے لیے نصیحت

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ

(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: شیح کی آفیشل ویب سائٹ سے مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء السابع۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/12/walid_k_liye_naseehat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: بعض والد اپنی اولاد کی دینی امور کے حوالے سے تربیت کا کوئی اہتمام نہيں کرتے مثلاًانہیں نماز کا حکم نہيں دیتے، نہ تلاوت قرآن کا اور نہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کا۔ حالانکہ ہم انہیں پاتے ہیں کہ اسکول پابندی سے جانے پر سختی کرتے ہیں اور اپنے بیٹے پر غصہ ہوتے ہیں اگر وہ اسکول نہ جائے، فضیلۃ الشیخ آپ کی اس بارے میں کیا نصیحت ہے؟

جواب:میری تمام والدوں، چچاؤں اور بھائیوں کو نصیحت ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں جیسے اولاد کے تعلق سے اللہ تعالی سے ڈریں اور انہیں نماز کا حکم دیں جب وہ سات برس کے ہوجائیں اور انہیں نہ پڑھنے پر ماریں اگر وہ دس برس کے ہوجائيں۔ جیساکہ اس بارے میں صحیح حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ فرمایا:

’’مروا أبنائكم بالصلاة لسبع واضربوهم عليها لعشر وفرقوا بينهم في المضاجع‘‘([1])

(اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو جب وہ دس برس کے ہوں، اور ان کے بستر الگ الگ کردو)۔

لہذا باپوں ، ماؤں اور بڑے بھائیوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو نماز وغیرہ کا حکم دینے کے تعلق سے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ اور انہیں ان باتوں سے منع کریں جواللہ تعالی نے حرام کی ہیں،اور ان پر وہ باتیں لازم قرار دیں جو اللہ تعالی نے واجب قرار دی ہیں۔ ایسا کرنا ان پر واجب ہے اور ان کے ماتحت جو بھی ہیں وہ ان کے پاس امانت ہیں۔ فرمان الہی ہے:

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا﴾ (التحریم: 6)

(مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ)

اور فرمایا:

﴿وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾ (طہ: 132)

(اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر خوب پابند رہو)

اسی طرح سے اپنے نبی ورسول سیدنا اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے میں فرمایا:

﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ ۡ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا، وَكَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ ۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا﴾ (مریم: 54-55)

(اور اس کتاب میں اسماعیل کا ذکر بھی کریں، یقیناً وہ وعدے کے سچے تھے اور ایسے نبی تھے جو رسول بھی تھے، اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھے اور وہ ان سے راضی تھا)



[1] صحیح ابی داود 495 کے الفاظ ہیں: ’’مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] The one who doesn’t accept #the_messenger (SalAllaho alayhi wasallam) as a human being – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو #بشر نہ سمجھے اس کا حکم؟ (#نبی_بشر_نہیں بلکہ #نور_من_نور_اللہ ہیں کا عقیدہ)
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ سے فتوی رقم 1801، مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء الخامس۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/jo_nabi_ko_bashar_na_manay.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اگر کوئی ایسا شخص فوت ہوجاتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر نہیں، اور وہ عالم الغیب ہیں اور یہ کہ زندہ وفوت شدگان اولیاء کا وسیلہ پکڑنا اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے۔ کیا ایسا شخص جہنم میں جائے گا اور مشرک متصور ہوگا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ اس عقیدے کے علاوہ اور کوئی عقیدہ جانتا ہی نہیں اور ایسے علاقے میں رہا کہ جہاں کہ تمام علماء وباشندے یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کا کیا حکم ہے؟ اور ایسے شخص کی وفات کے بعد اس کی طرف سے صدقہ کرنے یا احسان کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جو کوئی اس عقیدے پر فوت ہوتا ہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر نہیں تھے یعنی کہ وہ بنی آدم میں سے نہ تھے۔ یا یہ عقیدہ رکھے کہ وہ عالم الغیب ہیں۔ تو ایسا عقیدہ کفر ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے والا کفر اکبر کا مرتکب کافر ہے([1])۔ اسی طرح سے اگر وہ انہیں پکارتا ہے، ان سے فریاد کرتا ہے، ان کے یا کسی اور انبیاء وصالحین یا جن وفرشتے واصنام کے نام کی نذرونیاز کرتا ہےتو یہ سب اولین مشرکین کے اعمال ہیں جیسے ابوجہل اور اس جیسے دیگر مشرکین، اور یہ سب شرک اکبر ہے۔ اور بعض لوگ ان کو شرک بطور وسائل شرک کے قرار دیتے ہیں یعنی جو (براہ راست) شرک اکبر نہیں ہوتے۔
جیسے اس وسیلے کی ایک دوسری قسم ہے جو شرک نہیں بلکہ بدعت ہے اور شرک کے وسائل میں سے ہے اور وہ انبیاء وصالحین کی جاہ ومرتبت یا انبیاء وصالحین کے حق یا ان کی ذات کے حق کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعاء کرنا ہے۔ واجب ہےکہ ہم ان دونوں اقسام سے بچیں۔
جو پہلی قسم پر فوت ہو تو نہ اسے غسل دیا جائے، نہ اس کا جنازہ پڑھا جائے، اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ نہ ہی اس کے لیے دعاء کی جائے اور نہ ہی اس کی طرف سے صدقہ کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ﴾ (التوبۃ: 113)
(نبی کے لیے اور جو ایمان لائے ان کےلیے کبھی بھی یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعاء مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس بات کےظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ بے شک جہنمی ہیں)
جبکہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات اور اس کی توحید وایمان کا توسل اختیار کرنا جائز وشرعی توسل ہے اور دعائوں کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
(اور اللہ تعالی کے لیے اسماءِ حسنیٰ ہیں پس تم اسے انہی سے پکارو اور دعاء کرو)
اور جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا :
’’اللهم إني أسألك بأنك أنت الله لا إله إلا أنت الفرد الصمد، الذي لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد‘‘ (اے اللہ میں بے شک تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ بلاشبہ تو ہی اللہ ہے کہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اکیلا ہے، بے نیاز ہے، کہ جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ جنا گیا، اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے)
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لقد سأل الله باسمه الذي إذا سئل به أعطى، وإذا دعي به أجاب‘‘([2])
(یقیناً اس نے اللہ تعالی کے اس نام کے ساتھ سوال کیا ہے کہ جس کے ذریعہ اگر سوال کیا جائے تو وہ عطاء کرتا ہے، اور اگر دعاء کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے)۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding dealing with #banks - Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz

#بینکوں کے ساتھ معاملات کرنے کا شرعی حکم

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ

(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: حكم التعامل مع البنوك۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/banks_k_sath_dealings_sharae_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال:ہم اسلامی بینکوں کا سنتے ہیں، کیا یہ موجودہ بینکوں کی ہی طرح ہیں، یا وہ کسی چیز میں ان سے مختلف ہیں، اور ایسے بینکوں کے ساتھ معاملات کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اسلامی بینک سودی معاملات سے بچتے ہيں۔ لہذا ان کے ساتھ تعاون کرنا سودی بینکوں کے ساتھ تعاون کرنے کی طرح نہیں، پس اسلامی بینکوں کے ساتھ تعاون کرنے میں کوئی حرج نہيں، جبکہ سودی بینکوں کے ساتھ ان معاملات میں تعاون کرنے میں حرج ہے جن میں سود ہو، البتہ ایسے معاملات جن میں سود نہ ہو جیسے حوالگی و رقوم کی منتقلی بغیر سود کے اور اس جیسے دیگر معاملات تو اس میں کوئی مضائقہ نہيں۔ لیکن سودیہ معاملات تو بالکل جائز نہيں کسی بھی انسان کے ساتھ خواہ سودی بینک ہوں یا اس کے علاوہ کسی کے ساتھ، بہرحال یہ جائز نہيں۔

اس کی مثال جیسے فکسڈ ڈپازٹ کیا جاتا ہےاور اس پر پرافٹ کے نام سے 5 فیصد یا 10 فیصد منافع دیتے ہیں، یا قرض لیا جاتا ہے 5 فیصد یا 10 فیصدمنافع (سود) لوٹانے کے طور پر یا اس سے کم وبیش جتنا بھی یہ سب سود ہے۔ چاہے یہ سودی بینک کے ساتھ ہو یا اسلامی بینک یا کسی تاجر کے ساتھ یا اس کے علاوہ کسی کے بھی ساتھ۔

پس وہ اسلامی بینک جو اللہ کی شریعت پر چلتے ہیں ان کے ساتھ تعاون کرنا اچھی بات ہے، اس صورت میں ان کی مدد ہوگی کہ وہ اس راہ پر چلتے رہیں، جبکہ سودی بینکوں کے ساتھ تعاون جائز بات نہيں ہے۔ یہی معاملہ بینک کے علاوہ لوگوں کا بھی ہے جیسے تاجرو دیگر افراد، کبھی بھی کسی کے بھی ساتھ سودی معاملہ کرنا جائز نہیں۔

لیکن جہاں تک معاملہ ہے اسلامی بینکوں کا تو ضروری ہے کہ ہم ان کی حوصلہ افزائی کریں او ران پر توجہ دیں۔ اور جو اسے چلاتے ہيں انہيں بھی چاہیے کہ ہر اس چیز سے بچ کر رہيں جس میں سود ہو اور اس بات کو یقینی بنائیں جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہيں کہ ہم اسلامی بینک ہيں، اور اس بارے میں لاپرواہی وکوتاہی سے پرہیز کریں۔

سائل: سماحۃ الشیخ ! لوگ یہ بات عام کرتے ہیں کہ یہ (اسلامی) بینک بھی ان سودی بینکوں کے ساتھ معاملات کرنے سے بے نیاز نہیں؟

الشیخ: جہاں تک ہم مطلع ہیں اور جو کچھ ان سے ظاہر ہوا ہے کہ وہ اس تعلق سے حرج محسوس کرتے ہیں اور سود سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتے ہيں، لیکن جو ہم پر مخفی ہے تو اللہ تعالی ہی اسے جاننے والا ہے۔ مگر یہ بات بھی ہے کہ اسلامی بینکوں کے دشمنان و مخالفین موجود ہیں جن کی ان کے خلاف باتوں کی تصدیق نہ کی جائے۔ چناچہ ضروری ہے کہ ان (اسلامی بینکوں) کی حوصلہ افزائی کریں او ران پر توجہ دیں ۔ اور جو اسے چلاتے ہیں انہيں بھی چاہیے کہ ہر اس چیز سے بچیں جس میں شبہہ ہو تاکہ ان کے مخالفین کو کوئی موقع ہی نہ ملے ان کے معاملات پر طعن کرنے کا۔

بہرحال جہاں تک بات ہے دیگر بینکوں کے ساتھ سودی معاملات سے ہٹ کر معاملات کرنا جیسے حوالگی وغیرہ؟ تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہيں، الحمدللہ۔

سائل: سماحۃ الشیخ آپ نے ذکر فرمایا بینکوں سے قرضے لینے کا اور اس پر ملنے والے منافع کو لینے کا، پس کیا اس میں فرق ہوگا اگر وہ قرض سرمایہ کاری کے لیے لیا جائے یا وہ قرض ذاتی استعمال کے لیے لیا جائے؟

الشیخ: اس میں کوئی فرق نہيں۔ اگر سودیہ طریقے سے سرمایہ کاری یا ذاتی استعمال کے لیے قرض لیا ہے تو وہ سود ہی کہلائے گا۔ برابر ہے کہ عنقریب یہ قرض کسی دوسرے کاموں میں بطور سرمایہ کاری لگے یا پھر اپنی ضروریات کے لیے ہو سب کا سب سود ہے، اور سب کا سب ممنوع ہے۔