[#SalafiUrduDawah Article] What is meant by "#Sacrifice" according to #Shariah? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قربانی سے #شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين / شريط رقم22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharai_murad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ’’الاضحیۃ‘‘ (قربانی) سے شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
جواب: اس سے مراد جانور ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرناہے، جسے اللہ تعالی نے نماز کے ساتھ ہی بیان فرمایا ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی کا فرمان :
﴿اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ﴾ (الانعام: 162-163)
(بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں)
یہاں سے ہمیں ان لوگوں کا قصور ِفہم معلوم ہوتا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں قربانی سے حقیقی مقصود اس کے گوشت سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ گمان قاصر ہے اور جہالت کی پیداوار ہے۔ جبکہ درحقیقت قربانی سے مراد ذبح کے ذریعہ تقرب الہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کو یاد کریں:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37)
(اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کا تقوی پہنچتا ہے)
#قربانی سے #شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين / شريط رقم22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharai_murad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ’’الاضحیۃ‘‘ (قربانی) سے شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
جواب: اس سے مراد جانور ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرناہے، جسے اللہ تعالی نے نماز کے ساتھ ہی بیان فرمایا ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی کا فرمان :
﴿اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ﴾ (الانعام: 162-163)
(بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں)
یہاں سے ہمیں ان لوگوں کا قصور ِفہم معلوم ہوتا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں قربانی سے حقیقی مقصود اس کے گوشت سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ گمان قاصر ہے اور جہالت کی پیداوار ہے۔ جبکہ درحقیقت قربانی سے مراد ذبح کے ذریعہ تقرب الہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کو یاد کریں:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37)
(اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کا تقوی پہنچتا ہے)
[#SalafiUrduDawah Article] #Shariah_ruling regarding #sacrificing a #buffalo – Various #Ulamaa
#بھینس کی #قربانی کا #شرعی_حکم
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/bhens_ki_qurbani_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بھینس گائے سے بہت سی صفات میں مختلف ہوتی ہے جیسا کہ بکرا دنبے سے مختلف ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالی نے سورۃ الانعام میں دنبے اور بکرے میں تو فرق فرمایا لیکن گائےاور بھینس میں نہیں فرمایا، تو کیا بھینس ان آٹھ چوپایوں کے جوڑے میں شامل ہے جن کی قربانی جائز ہے یا پھر ا س کی قربانی جائز نہیں؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
بھینس بھی گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں وہ نام ذکر کیے جو عرب کے یہاں معروف تھے جس میں سے وہ اپنی مرضی سے جو چاہتے حرام کرتے پھرتے اور جسے چاہتے جائز بناتے۔ لیکن یہ بھینس عرب کے یہاں معروف نہیں تھی (یعنی اس لیے الگ سے ذکر نہيں فرمایا)۔
(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين س 17، ج 25، ص34)
سوال: بھینس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ:
بھینس بھی گائے ہی میں سے ہے۔
(شرح سنن الترمذي شريط 172)
#بھینس کی #قربانی کا #شرعی_حکم
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/bhens_ki_qurbani_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بھینس گائے سے بہت سی صفات میں مختلف ہوتی ہے جیسا کہ بکرا دنبے سے مختلف ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالی نے سورۃ الانعام میں دنبے اور بکرے میں تو فرق فرمایا لیکن گائےاور بھینس میں نہیں فرمایا، تو کیا بھینس ان آٹھ چوپایوں کے جوڑے میں شامل ہے جن کی قربانی جائز ہے یا پھر ا س کی قربانی جائز نہیں؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
بھینس بھی گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں وہ نام ذکر کیے جو عرب کے یہاں معروف تھے جس میں سے وہ اپنی مرضی سے جو چاہتے حرام کرتے پھرتے اور جسے چاہتے جائز بناتے۔ لیکن یہ بھینس عرب کے یہاں معروف نہیں تھی (یعنی اس لیے الگ سے ذکر نہيں فرمایا)۔
(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين س 17، ج 25، ص34)
سوال: بھینس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ:
بھینس بھی گائے ہی میں سے ہے۔
(شرح سنن الترمذي شريط 172)
[#SalafiUrduDawah Article] Collecting the #skins_of_the_sacrificial_animals and selling them? – Various #Ulamaa
#قربانی_کی_کھالوں کا #شرعی_مصرف اور انہيں جمع کرکے بیچنے کا حکم؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurbani_khaal_sharae_masraf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا‘‘([1])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردوں، گوشت، کھال اور جھول سب، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت ) نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔
اس حدیث کی شرح میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ’’شرح زاد المستقنع‘‘ (7/514) میں فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا: ’’ولا يبيع جلدها‘‘ یعنی ذبح کے بعد اس کی جلد نہ بیچےکیونکہ اس کے تمام اجزاء کا فی سبیل اللہ صدقہ ہونا متعین ہوچکا ہے۔ جو کوئی اللہ کے لیے متعین ہوجائے تو اس کا عوض لینا جائز نہیں۔ اس کی دلیل سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نےاپنا گھوڑا کسی کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے دیا۔ لیکن وہ شخص اسے ضائع کرنے لگا اس کا کوئی اہتمام نہ کرتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور اسے خریدنے کی اجازت چاہی اس گمان کے ساتھ شاید کہ اس کا مالک اسے سستے داموں فروخت کردے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لا تشتره ولو أعطاكه بدرهم‘‘([2])
(اسے نہ خریدنا اگرچہ وہ تجھے ایک درہم میں کیوں نہ دے)۔
اس میں علت یہ ہے کہ اگر اس نے اسے اللہ تعالی کے لیے نکالا تھا۔ تو جو کچھ انسان اللہ کے لیے نکالے تو جائز نہيں کہ وہ اسے واپس لے۔ اسی لیے جائز نہيں کہ جو بلاد شرک سے ہجرت کرکے اس سے نکل جائے تو پھر واپس وہاں جاکر بسنے لگ جائے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی کے لیے وہاں سے نکلا ہے جسے وہ محبوب رکھتا تھا تو وہ اس چیز کی طرف نہ جائے اگرچہ وہ اسے محبوب ہے جسے اس نے اللہ تعالی کے لیے ترک کیا ہے۔ اور کیونکہ کھال جانور کا جزء ہے اس میں گوشت کی طرح حیات کا دخل ہے۔(یعنی اسے بیچنا جائز نہیں جیسے گوشت کو بیچنا جائز نہیں)۔ اور یہ فرمانا: ’’ولا شيئاً منها‘‘ یعنی اس کے اجزاء میں سے کوئی بھی نہ بیچے جیسے جگر، سری، پائے، اوجھڑی وغیرہ۔ اور اس کی علت وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی۔
فتویٰ کمیٹی ، سعودی عرب سے سوال ہوا: قربانی کرنے والوں کا اپنے جانوروں کی کھالیں کسی بھی دائرہ حیات سے متعلق اصلاحی تنظیم یا کمیٹی کو ہبہ کرنا، ہدیہ کرنا یا صدقہ کرنا کیسا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں؟ اس سے فائدہ اٹھانے سے میری مراد ہے اس کو کسی مسلمان چمڑے کے تاجروں کو بیچ کر اس کے پیسوں سے فائدہ اٹھائیں پھر اس کی قیمت کو مصلیٰ ومساجد ، مدارس قرآن، اسلامی ریاض الاطفال، یا خدام مسجد کی تنخواہیں، یا جھاڑو وصفائی کا سامان،یا پھر قبرستان کے گرد باڑ لگانا یا دیگر اصلاحی کاموں میں لگانا جس کا فائدہ عام مسلمانوں کو ہو۔۔۔؟
جواب: سنت یہ ہے کہ قربانی کی کھالوں کو صدقہ کردیا جائے جیسا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا‘‘([3])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردو، گوشت، کھال اور جھول سب ، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت) نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔
برابر ہے کہ جس پر صدقہ کیا جارہا ہے وہ بعینہ وہ شخص ہو یا کوئی ایسی جہت کی طرف سے ہو جس کا حکم شخصیت کا سا ہو کہ جس کے مصارف شرعی ہوں۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء،فتوى رقم (15703)۔
رکن: بكر أبو زيد، رکن: عبد العزيز آل الشيخ، رکن: صالح الفوزان، رکن: عبد الله بن غديان،صدر:عبد العزيز بن عبد الله بن باز۔
ایک اور فتویٰ میں سوال کا مفہوم ہے کہ: مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتویٰ، سعودی عرب سے ملیشیا کے مسلمانوں نے تفصیلی فتویٰ پوچھا جو تقریباً مندرجہ بالا سوال ہی تھا مگر کچھ دلائل بھی پیش کیے گئے کہ ت
#قربانی_کی_کھالوں کا #شرعی_مصرف اور انہيں جمع کرکے بیچنے کا حکم؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurbani_khaal_sharae_masraf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا‘‘([1])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردوں، گوشت، کھال اور جھول سب، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت ) نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔
اس حدیث کی شرح میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ’’شرح زاد المستقنع‘‘ (7/514) میں فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا: ’’ولا يبيع جلدها‘‘ یعنی ذبح کے بعد اس کی جلد نہ بیچےکیونکہ اس کے تمام اجزاء کا فی سبیل اللہ صدقہ ہونا متعین ہوچکا ہے۔ جو کوئی اللہ کے لیے متعین ہوجائے تو اس کا عوض لینا جائز نہیں۔ اس کی دلیل سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نےاپنا گھوڑا کسی کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے دیا۔ لیکن وہ شخص اسے ضائع کرنے لگا اس کا کوئی اہتمام نہ کرتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور اسے خریدنے کی اجازت چاہی اس گمان کے ساتھ شاید کہ اس کا مالک اسے سستے داموں فروخت کردے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لا تشتره ولو أعطاكه بدرهم‘‘([2])
(اسے نہ خریدنا اگرچہ وہ تجھے ایک درہم میں کیوں نہ دے)۔
اس میں علت یہ ہے کہ اگر اس نے اسے اللہ تعالی کے لیے نکالا تھا۔ تو جو کچھ انسان اللہ کے لیے نکالے تو جائز نہيں کہ وہ اسے واپس لے۔ اسی لیے جائز نہيں کہ جو بلاد شرک سے ہجرت کرکے اس سے نکل جائے تو پھر واپس وہاں جاکر بسنے لگ جائے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی کے لیے وہاں سے نکلا ہے جسے وہ محبوب رکھتا تھا تو وہ اس چیز کی طرف نہ جائے اگرچہ وہ اسے محبوب ہے جسے اس نے اللہ تعالی کے لیے ترک کیا ہے۔ اور کیونکہ کھال جانور کا جزء ہے اس میں گوشت کی طرح حیات کا دخل ہے۔(یعنی اسے بیچنا جائز نہیں جیسے گوشت کو بیچنا جائز نہیں)۔ اور یہ فرمانا: ’’ولا شيئاً منها‘‘ یعنی اس کے اجزاء میں سے کوئی بھی نہ بیچے جیسے جگر، سری، پائے، اوجھڑی وغیرہ۔ اور اس کی علت وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی۔
فتویٰ کمیٹی ، سعودی عرب سے سوال ہوا: قربانی کرنے والوں کا اپنے جانوروں کی کھالیں کسی بھی دائرہ حیات سے متعلق اصلاحی تنظیم یا کمیٹی کو ہبہ کرنا، ہدیہ کرنا یا صدقہ کرنا کیسا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں؟ اس سے فائدہ اٹھانے سے میری مراد ہے اس کو کسی مسلمان چمڑے کے تاجروں کو بیچ کر اس کے پیسوں سے فائدہ اٹھائیں پھر اس کی قیمت کو مصلیٰ ومساجد ، مدارس قرآن، اسلامی ریاض الاطفال، یا خدام مسجد کی تنخواہیں، یا جھاڑو وصفائی کا سامان،یا پھر قبرستان کے گرد باڑ لگانا یا دیگر اصلاحی کاموں میں لگانا جس کا فائدہ عام مسلمانوں کو ہو۔۔۔؟
جواب: سنت یہ ہے کہ قربانی کی کھالوں کو صدقہ کردیا جائے جیسا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا‘‘([3])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردو، گوشت، کھال اور جھول سب ، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت) نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔
برابر ہے کہ جس پر صدقہ کیا جارہا ہے وہ بعینہ وہ شخص ہو یا کوئی ایسی جہت کی طرف سے ہو جس کا حکم شخصیت کا سا ہو کہ جس کے مصارف شرعی ہوں۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء،فتوى رقم (15703)۔
رکن: بكر أبو زيد، رکن: عبد العزيز آل الشيخ، رکن: صالح الفوزان، رکن: عبد الله بن غديان،صدر:عبد العزيز بن عبد الله بن باز۔
ایک اور فتویٰ میں سوال کا مفہوم ہے کہ: مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتویٰ، سعودی عرب سے ملیشیا کے مسلمانوں نے تفصیلی فتویٰ پوچھا جو تقریباً مندرجہ بالا سوال ہی تھا مگر کچھ دلائل بھی پیش کیے گئے کہ ت
[#SalafiUrduDawah Video] Shari'ah Ruling regarding Celebrating #Prophet's_Birthday (#Melaad) – Various 'Ulamaa
جشن #عید_میلاد_النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا کا شرعی حکم؟ – مختلف علماء کرام
https://youtu.be/VKXYiB4KMzg
[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/01/milaad_un_nabee_sharae_hukm_ulama_kalam.mp3
جشن #عید_میلاد_النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا کا شرعی حکم؟ – مختلف علماء کرام
https://youtu.be/VKXYiB4KMzg
[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/01/milaad_un_nabee_sharae_hukm_ulama_kalam.mp3
YouTube
[Urdu] Shari'ah Ruling regarding Celebrating Prophet's Birthday (Milaad) - Various 'Ulamaa
عید_میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ مسلم منانے کا شرعی حکم - مختلف علماء کرام
[Urdu Article] Implementation of Allaah's #legislated_punishments is a mercy to mankind – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah Aal-Shaykh
#شرعی_حدود کا نفاذ انسانیت کے لیے باعث رحمت ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مشروعية تطبيق الحدود الشرعية۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/sharae_hudood_nifaaz_insaniyat_rehmat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اسلام میں جو حدود ہیں وہ سب کی سب اللہ تعالی کی جانب سے رحمت ہیں، اور سب ہی کے لیے ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور بندوں کے لیے حدود مقرر فرمائی خود انہی کی مصلحت کی خاطر۔ سائل پوچھتا ہے کہ حدود کی مشروعیت کی کیا حکمت ہے؟
جواب: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكَ عَلَى عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ وأصَحْابِه أَجْمَعِينَ، وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ. وبعد:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾ (الملک: 14)
(کیا وہ جس نے پیدا کیا نہیں جانتا! بلاشبہ وہ تو بہت باریک بین اور ہر چیز سے باخبر ہے)
پس اللہ عزوجل اپنی مخلوق اور ان کے مصالح کا خوب علم رکھتا ہے اور جو چیز انہیں فائدہ پہنچاتی ہے اور جو نقصان پہنچاتی ہے، ان تمام باتوں کا اسے مکمل علم ہے۔ کیونکہ وہی تو مخلوق کا خالق ہے، اور ان کے مصالح کو سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ لہذا اس نے عظیم حکمتوں اور مصالح کے پیش نظر ان شرعی حدود کو مشروع فرمایا ہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
اولاً: مجرموں کی روک تھام اور انہیں لگام دینا کہ کہیں وہ امت کو نقصان اور ضرر نہ پہنچائيں۔ کیونکہ اگر مجرم کو یوں ہی اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ زمین میں فساد مچاتا پھرے گا، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ ۙ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ، وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ﴾ (البقرۃ: 204-205)
(اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جس کی بات دنیا کی زندگی کے بارے میں آپ کو اچھی لگتی ہے اور وہ اللہ کو اس پر گواہ بناتا ہے جو اس کے دل میں ہے، حالانکہ وہ جھگڑے میں سخت جھگڑالو ہے، اور جب واپس جاتا ہے تو زمین میں بھاگ دوڑ کرتا ہے، تاکہ اس میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو برباد کرے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں فرماتا)
کیونکہ مجرم کو اگر اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ سرکش وباغی بن جاتا ہے۔ اور انسان کا نفس اسے برائی کا حکم دیتا ہے ساتھ میں شیطان بھی اسے گمراہ کرنے پر لگا رہتا ہے۔ پس حدود کو قائم کرنا جرائم کو روکتا ہے اور مجرموں کو روکتا ہے کہ وہ جرائم میں ملوث ہوں۔ جب وہ یہ یاد کرے گا کہ اگر اس نے کسی کا قتل کیا تو عنقریب( اس کے قصاص میں ) اسے بھی قتل کردیا جائے گا، یا (چوری کرنے کی صورت میں) اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو وہ ضرور اس جرم سے باز رہے گا اور دوری اختیار کرے گا۔
ثانیاً: حتی کہ جو مجرم ہے خود اس کےحق میں بھی یہ رحمت ہی ہے۔ تاکہ وہ مزید ظلم میں پیش قدمی نہ کرتا رہے تو اس کا کام روک دیا جاتا ہے ہاتھ کاٹ کر یا رجم کرکے، اور اس کے شر کو منقطع کردیا جاتا ہے۔ لہذا یہ اسلامی احکام کی تنفیذ جیسا کہ پورے معاشرے کے لیے رحمت ہے ،اس کے امن واستقرار کا ضامن ہے، ساتھ ساتھ اس مجرم کے لیے بھی رحمت ہی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۭ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ﴾ (المائدۃ: 33)
(ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انہیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انہیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں، یا انہیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ تو ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے جبکہ ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے)
لازم ہے کہ ایک مسلمان اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرے، ان پر پختہ یقین رکھے اور ان سے پوری طرح سے راضی ہو۔ ضروری ہے کہ وہ ان پر ایمان رکھتا ہو کہ یہ بالکل برحق ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایا:
#شرعی_حدود کا نفاذ انسانیت کے لیے باعث رحمت ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مشروعية تطبيق الحدود الشرعية۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/sharae_hudood_nifaaz_insaniyat_rehmat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اسلام میں جو حدود ہیں وہ سب کی سب اللہ تعالی کی جانب سے رحمت ہیں، اور سب ہی کے لیے ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور بندوں کے لیے حدود مقرر فرمائی خود انہی کی مصلحت کی خاطر۔ سائل پوچھتا ہے کہ حدود کی مشروعیت کی کیا حکمت ہے؟
جواب: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكَ عَلَى عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ وأصَحْابِه أَجْمَعِينَ، وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ. وبعد:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾ (الملک: 14)
(کیا وہ جس نے پیدا کیا نہیں جانتا! بلاشبہ وہ تو بہت باریک بین اور ہر چیز سے باخبر ہے)
پس اللہ عزوجل اپنی مخلوق اور ان کے مصالح کا خوب علم رکھتا ہے اور جو چیز انہیں فائدہ پہنچاتی ہے اور جو نقصان پہنچاتی ہے، ان تمام باتوں کا اسے مکمل علم ہے۔ کیونکہ وہی تو مخلوق کا خالق ہے، اور ان کے مصالح کو سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ لہذا اس نے عظیم حکمتوں اور مصالح کے پیش نظر ان شرعی حدود کو مشروع فرمایا ہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
اولاً: مجرموں کی روک تھام اور انہیں لگام دینا کہ کہیں وہ امت کو نقصان اور ضرر نہ پہنچائيں۔ کیونکہ اگر مجرم کو یوں ہی اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ زمین میں فساد مچاتا پھرے گا، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ ۙ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ، وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ﴾ (البقرۃ: 204-205)
(اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جس کی بات دنیا کی زندگی کے بارے میں آپ کو اچھی لگتی ہے اور وہ اللہ کو اس پر گواہ بناتا ہے جو اس کے دل میں ہے، حالانکہ وہ جھگڑے میں سخت جھگڑالو ہے، اور جب واپس جاتا ہے تو زمین میں بھاگ دوڑ کرتا ہے، تاکہ اس میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو برباد کرے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں فرماتا)
کیونکہ مجرم کو اگر اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ سرکش وباغی بن جاتا ہے۔ اور انسان کا نفس اسے برائی کا حکم دیتا ہے ساتھ میں شیطان بھی اسے گمراہ کرنے پر لگا رہتا ہے۔ پس حدود کو قائم کرنا جرائم کو روکتا ہے اور مجرموں کو روکتا ہے کہ وہ جرائم میں ملوث ہوں۔ جب وہ یہ یاد کرے گا کہ اگر اس نے کسی کا قتل کیا تو عنقریب( اس کے قصاص میں ) اسے بھی قتل کردیا جائے گا، یا (چوری کرنے کی صورت میں) اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو وہ ضرور اس جرم سے باز رہے گا اور دوری اختیار کرے گا۔
ثانیاً: حتی کہ جو مجرم ہے خود اس کےحق میں بھی یہ رحمت ہی ہے۔ تاکہ وہ مزید ظلم میں پیش قدمی نہ کرتا رہے تو اس کا کام روک دیا جاتا ہے ہاتھ کاٹ کر یا رجم کرکے، اور اس کے شر کو منقطع کردیا جاتا ہے۔ لہذا یہ اسلامی احکام کی تنفیذ جیسا کہ پورے معاشرے کے لیے رحمت ہے ،اس کے امن واستقرار کا ضامن ہے، ساتھ ساتھ اس مجرم کے لیے بھی رحمت ہی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۭ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ﴾ (المائدۃ: 33)
(ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انہیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انہیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں، یا انہیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ تو ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے جبکہ ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے)
لازم ہے کہ ایک مسلمان اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرے، ان پر پختہ یقین رکھے اور ان سے پوری طرح سے راضی ہو۔ ضروری ہے کہ وہ ان پر ایمان رکھتا ہو کہ یہ بالکل برحق ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایا: