Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] 6 great #deprivations because of #sacrificing_animals outside of one's living area – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
اپنے علاقے کے سوا دوسرے شہروں میں #قربانی کروانے کے لئے #تنظیموں کو پیسہ دینے کے سبب چھ (6) عظیم #محرومیاں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: خطبہ جمعہ بعنوان "صفة الحج والعمرة، وفوائد الأضحية" سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قربانی کے جانور کو ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ان افضل ترین اعمال میں سے ہے جن سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے لئے قربانی کرنے اور اس کے لئے نماز ادا کرنے کو ساتھ جمع فرمایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانعام: 162)
( کہو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے)
پس قربانی کے جانور کو ذبح کرنا بنفسہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے جس سے مقصد ہر چیز سے پہلے اللہ تعالی کی عبادت ہونا چاہیے، اسی وجہ سے اس کی بہت سے سی حرمات ہیں۔
چناچہ قربانی کو افغانستان یا کسی اور محتا ج ملک میں کروانے سے چھ بڑی مصلحتیں فوت ہوتی ہیں:
1- اس سے شعائر اللہ میں سے ایک شعیرہ کا اظہار فوت ہوتا ہے۔
2- اس سے قربانی کرنے والے کا خود اپنی قربانی کو ذبح کرنا یا اس کے ذبح کے وقت حاضر ہونا فوت ہوتا ہے۔
3- اس سے قربانی کرنے والے میں خود قربانی کرنے سے جو اللہ تعالی کی عبادت کا شعور پیدا ہونا چاہیے وہ فوت ہوتا ہے۔
4- اس سے قربانی کرنے والے کا اپنی قربانی پر اللہ تعالی کا نام ذکر کرنا فوت ہوتا ہے۔
5- اس سے اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھانا جسے اللہ تعالی نے غریبوں کو کھلانے پر فوقیت دی فوت ہوتا ہے، اور بعض علماء کرام تو اس کے وجوب کے بھی قائل ہیں۔
6- اگر قربانی کسی کی وصیت تھی تو اس سے وصیت کرنے والے کا ظاہر مقصود فوت ہوتا ہے۔
اور ان مصالح کے فوت ہونے کے علاوہ اس سے بہت بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ لوگ متعدی مالی عبادات کو محض اقتصادی نکتہِ نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ بے شک اس کے عبادت کے پہلو میں خلل کا باعث ہوتا ہے۔
پس اے اللہ کے بندوں! میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، اور ہم کسی عمل میں پیش قدمی نہ کریں الا یہ کہ اسے کتاب وسنت کے ترازو پر پرکھیں تاکہ ہم اس میں اللہ تعالی کی طرف سے مکمل بصیرت، دلیل وبرہان پر قائم ہوں۔
ان نکات کی تفصیل جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/dosray_elaqay_me_qurbani_karwane_sabab_mehromi.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] #Giving_money_to_the_orgs for #sacrifice to be done outside one's area? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
اپنے علاقے کے سوا دوسرے شہروں میں #قربانی کروانے کے لئے #تنظیموں_کو_پیسہ_دینا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجلۃ الدعوۃ (عربی) – عدد 1878 بتاریخ 27/11/1423ھ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/dosray_area_me_qurbani_k_liye_tanzeem_ko_paisa_dayna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
اے مسلمانوں! قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے اس شخص کے حق میں جو اس کی استطاعت رکھتا ہو، کہ وہ اپنے گھروں (علاقوں) میں اسے ذبح کرکے اس میں سے خود بھی کھائے اور اپنے پڑوسیوں کوبھی اس میں سے ہدیہ پیش کرے، اور ساتھ ہی اپنے گردونواح کے فقراء پر صدقہ بھی کرے۔
مگر آجکل جو لوگوں نے ایک نئی بات ایجاد کی ہے کہ وہ ایسے خیراتی اداروں کو اس قربانی کا پیسہ دے دیتے ہیں کہ وہ ان کی طرف سے ان کے شہر سے باہر قربانی کردیں، تو یہ خلاف سنت ہے اور عبادت کو تبدیل کرنا ہے۔ پس واجب ہے کہ اس فعل کو ترک کیا جائے اور قربانی کو قربانی کرنے والے کے گھر (علاقے) میں ذبح کیا جائے جیسا کہ سنت اس بات پر دلالت کرتی ہے اور جیسا کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسلمانوں کا عمل رہا تھا، اور یہ عمل یونہی چلتا رہا کہ اب یہ نئی باتیں ایجاد ہوئیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ بدعت میں شمار نہ ہو، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([1])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([2])
(دین میں نئی نئی باتوں سے بچو،کیونکہ (دین میں) ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
البتہ جو (دوسرے علاقوں) کے محتاجوں پر صدقہ کرنا چاہتا ہے تو صدقے کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے، مگر عبادت کو اس کی حقیقی شرعی صورت سے صدقے کے نام پر بدلنا ناجائز ہے:
﴿وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (الحشر: 7)
(اور جو رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے رک جاؤں، اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تعالی شدید سزا دینے والا ہے)
اللہ تعالی میرے اور آپ کے لئے قرآن عظیم میں برکت کرے۔
[1] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
[2] مسلم الجمعة (867) ، النسائي صلاة العيدين (1578) ، ابن ماجه المقدمة (45) ، أحمد (3/371) ، الدارمي المقدمة (206).