سنہرے حروف📚
546 subscribers
165 photos
56 videos
1 file
541 links
اس چینل کے تخلیق کا مقصد احادیثِ نبوی، فرمانِ مُصْطَفَوِی، فہمِ صحابہ اور سلفِ صالحین کے اقوالِ صحیحہ اور عاداتِ حسنہ کی نشر و اشاعت کے ساتھ ساتھ بدعات و خرافات اور سیئات کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا ہے۔
Download Telegram
🌹سنہرے حروف🌹


زندگی ان کی بھی گزر جاتی ہے جو ہنس کے گزارتے ہیں اور ان کی بھی جو روتے دھوتے گزارتے ہیں بات آپ کے ہنسنے یا رونے کی نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ کہیں کوئی آپ کی وجہ سے تو رونے پہ مجبور نہیں ہواخود چاہے ہنس کے گزاریں یا رو کر لیکن کسی دوسرے کی آنکھ میں نمی کا سبب اپنی ذات کو کبھی مت بننے دیجیئے بس یہ سوچیں کہ اللّه اپنے ہر بندے سے بہت زیادہ پیار کرتا ہے کسی کی آہیں مت لیجیئے گا زندگی مشکل ہو جائے گی💞💞


🥰💞
https://t.me/sunehrehruf
""”''”,تربیت""”""”„
اپنی بیٹیوں کو ایک حد تک آزادی ضرور دیں ۔ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے دیں لیکن پاؤں میں جوتیاں تربیت کی پہنائیں۔
ادب، تمیز،اچھے برے کی پہچان،
اسلامی اقدار سے روشناس کروانا،
یہ سب ماؤں کی ذمہ داری ہے ،

صرف دنیا کی تعلیم اور فیشن میں آگے بڑھنے دینا ۔تربیت نہیں کہلاتا،
ہر بیٹی ماں کا عکس ہوتی ہے اللّٰہ نے یہ ذمہ داری مسلمان ماؤں پر ڈالی ہے ۔۔
جہاں مشکل لگے وہاں اللّٰہ سے مدد مانگیں۔
آپ کی توفیق کے راستے کھل جائے گے ان شاء اللہ❤️

🤝😊
کامل زین
https://t.me/sunehrehruf
⛱️
ماں کا رشتہ بڑا عجیب ہے۔ ماں پاس ہو تو دنیا کا کوئی غم غم نہیں لگتا اور اگر ماں نہ ہو تو کوئی خوشی خوشی نہیں لگتی۔ کسی نے سچ کہا کہ مائوں کو مرنا نہیں چاہیے کہ انسان بڑے سے بڑا صدمہ سہہ سکتا ہے لیکن ماں کی جدائی سہنا بہت کٹھن ہے۔ یہ جدائی انسان کو بہت زیادہ تبدیل کر دیتی ہے۔ انسان زندگی کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ ماں باپ ہوتے ہیں تو بچے زندگی کو کھیل کھلونا سمجھتے ہیں۔ وہ زندگی کے دن یوں گزارتے ہیں جیسے کسی باغ میں سیر کو آئے ہوں لیکن جب ماں یا باپ میں سے کوئی نہ رہے تو پھر یہ سارا باغ اجڑا اور ویران محسوس ہوتا ہے۔ بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان خود کو اُدھورا اور بے کار محسوس کرتا ہے۔ پھر دل کو تسلی دینے کے بہانے سوچتا ہے۔ سب سے پہلے جو خیال آتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ ہم نے خود کو اس لئے سنبھالنا ہے تاکہ ہم اپنے بچوں کو سنبھال سکیں۔ اگر اس موقع پر ہم خود ہی ٹوٹ پھوٹ گئے تو بچے کیا اثر لیں گے۔ پھر یہ خیال آتا ہے کہ پریشان رہنے سے ان کی روح کو بھی پریشانی ہو گی اور خود بھی چین نہ پائیں گے۔ ایسے موقع پر دُعا اور خدا کے ذکر سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہوتا جو قلب کو اطمینان دے۔ ہم نے زندگی میں بہت مرتبہ سنا کہ فلاں سیاستدان رخصت ہوا تو اس کا خلا کبھی پُر نہیں ہو سکے گا، یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ حقیقت میں یہ بات صرف والدین پر صاد آتی ہے اور اولاد کے لئے جو سب سے بڑا خلا پیدا ہوتا ہے تو وہ ماں یا باپ کی جدائی ہے۔ اس کے علاوہ کسی سیاستدان، کسی فنکار کسی کھلاڑی کے آنے جانے سے کسی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سب ہماری بنائی ہوئی باتیں ہیں جو ہم لفظوں کے خلا کو پُر کرنے کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ وگرنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ آپ کے دوستوں، فنکاروں یا سیاستدانوں میں سے کوئی چار دنوں یا چار ہفتوں کے لئے پردے کے پیچھے چلا جائے تو کسی کو اس کا نام بھی یاد نہیں رہتا۔ زندگی کی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ ایسی شخصیات تو دُور کی بات ہم اپنے ماں باپ کے ہوتے ہوئے انہیں بھی پوری طرح وقت نہیں دے پاتے۔ پھر انسان سوچتا ہے یہ پتہ ہوتا کہ ماں نے واقعی چلے جانا ہے تو سارا دن ساری رات اس کے قدموں میں بیٹھا رہتا۔ اس کی میٹھی لوریاں سنتا۔ ا س کے دلاسے اور خیر کے الفاظ سے جی کی پیاس بجھاتا۔ یہ پچھتاوے پھر زندگی بھر پیچھا کرتے ہیں۔ کاش وہ وقت جو دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی میں گزارا، جو ادھر اُدھر خاک چھانتے خوشیوں کی تلاش میں گزارا وہ وقت وہ لمحات ماں کے ساتھ گزارے ہوتے تو یادوں کے گلدستے میں کچھ پھول مزید بڑھ جاتے۔  
زندگی میں یہ غم سبھی کو مگر دیکھنا پڑتا ہے۔ کسی کو جلد کسی کو بدیر۔ خوش نصیب مگر وہی ہوتے ہیں جن کے والدین ان سے راضی ہوں۔ جس نے اپنے والدین کو راضی کر لیا گویا اس نے اپنے رب کو راضی کر لیا اور جس نے اپنے ماں یا باپ کو ناراض کیا، خدا بھی اس سے ناراض ہوا۔ یہ بات آج کی نسل کو بہت زیادہ سمجھانے کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجی کی دلدل میں یوں جوان ہو رہی ہے کہ اس کے پائوں اس دلدل سے باہر ہی نہیں آ سکے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو اس لئے دنیا کے دوسرے کونے میں جاکر کام کاج کرتے دیکھا ہے تاکہ وہ بہت سا پیسہ کما سکیں اور ان پیسوں سے اپنے ماں باپ کو خوشیاں خرید کر دے سکیں۔ یہ مگر سمجھ سے بالا تر ہے کہ کیسے وہ صرف پیسوں سے خوشیاں حاصل کر سکتے ہیں اگر ان کے بچے ان کی جگر کے ٹکڑے ہی ان کے پاس موجود نہ ہوں۔ والدین کو سب سے زیادہ اگر ضرورت ہوتی ہے تو اولاد کے ساتھ اس کی قربت کی چاہت ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں چاہتے۔ زیادہ سے زیادہ دولت کی خواہش انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ یہ اپنے حرص، اپنی ضروریات اور اپنی عیاشی کے لئے ہوتی ہے۔ ماں باپ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا جب بھی انہیں دیکھے پیار بھری نظروں سے دیکھے، وہ جب بھی سامنے آئے اس کے کندھے جھکے ہوں، اس کی آواز دھیمی ہو اور اس کا لہجہ مٹھاس سے لبریز ہو۔ اس میں تلخی نہ ہو، یہ کڑواہٹ سے پاک ہو اور اس میں بے ادبی، چڑچڑاپن اور بے زاری کا اظہار نہ ہو۔ اس کے علاوہ دنیا کے کسی باپ یا ماں کو اپنے بیٹے یا بیٹی سے کچھ درکار نہیں ہوتا۔
چاہے تو کسی ماں یا کسی باپ سے پوچھ کر دیکھ لیں
وگرنہ
اپنے بچوں کے بڑا ہونے اور خود کے بوڑھے ہونے کا انتظار کریں
اور پھر آپ بھی دیکھیں گے
کہ
آپ بھی اپنی اولاد سے ساری عمر کی صرف یہی کمائی چاہیں گے؛
پیار کے دو بول....، جھکے ہوئے کاندھے....، دھیمی آواز....، مٹھاس سے لبریز لہجہ....، محبت بھری نگاہیں اور بس!💐⛱️ 
نقل و چسپاں

https://t.me/sunehrehruf
جہیز ایک لعنت ۔۔۔؟؟


دلہن بننا ہر لڑکی کا خواب ہی نہیں اسکا حق بھی ہے!
پڑھی لکھی، خوبصورت اور خوب سیرت لڑکیاں بھی قیمتی جہیز نہ ہونے کے باعث آنکھوں میں دلہن بننے کے خواب بسائے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر گزار دیتی ہیں۔
دور رواں نفسہ نفسی کا دور ہے ہمارے معاشرے میں لاتعداد مسائل نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے ان مسائل میں ایک اہم اور بڑا مسئلہ جہیز بھی ہے جو موجودہ دور میں وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔۔۔!

عام طور پر سلیقہ مند ،پڑھی لکھی، خوب رو اور خوب سیرت لڑکیاں بھی قیمتی جہیز نہ ہونے کے باعث آنکھوں میں دلہن بننے کے خواب بسائے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر گزار دیتی ہیں اور پھر ایک خاص عمر کے بعد تو یہ سہانا خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں اور اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرکے بقایا زندگی اک جبر مسلسل کی طرح کاٹنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔۔۔!

دلہن بننا ہر لڑکی کا خواب ہی نہیں اسکا حق بھی ہے۔
لیکن افسوس اسے اس حق سے محض غربت کے باعث محروم کردیا جاتا ہے سرمایہ داروں کے اس دور میں‌ لڑکیوں کو بھی سرمایہ سمجھا جاتا ہے ۔۔!
اور اس سرمایہ کاری کے بدلے انکے گھر والے خصوصاً مائیں بہنیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کےلئے سرگرداں رہتی ہیں ۔۔۔!

وہ لڑکی کا رشتہ لینے جاتی ہیں یا یوں کہیں
اپنے بھائی اور بیٹے کا کاروبار کرنے نکلتی ہیں، لڑکی سے زیادہ اس کی امارات دیکھتی ہیں، لڑکی والوں کے ہاں جاکر انکا ذہنی کیلکولیٹر بڑی تیزی سے حساب کتاب مکمل کر لیتا ہے اور وہاں‌ سے کچھ ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں وہ پوری طرح سے آگاہ ہوجاتی ہیں ۔۔۔!

گاڑی، کوٹھی اور دیگر قیمتی سازوسامان تو ان کی فہرست میں‌ لازمی مضامین کی طرح شامل ہوتے ہیں۔
ان کے بعد کہیں جاکر لڑکی کی باقی خوبیوں جن میں اسکا خوش شکل ہونا بھی شامل ہے کو پرکھا جاتا ہے چنانچہ جس خوش قسمت لڑکی کے پاس دینے کو قیمتی اور‌ ڈھیر سارا جہیز ہو نیز خوبصورت بھی ہو وہ تو بیاہی جاتی ہے اور جن بدقسمت لڑکیوں کے پاس یہ سب کچھ موجود نہیں ہوتا وہ سوائے اپنی تقدیر سے گلہ کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتی ۔۔!

ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی با اخلاق و مذہبی ہیں اور اٹھتے بیٹھتے آیات قرآنی اور ‌احادیث نبوی صلى الله عليه و سلم بیان کرتے نہیں تھکتے لیکن معاملہ اپنے بیٹے کی شادی کا ہو تو ساری آیتیں، حدیثیں بھلا کر اس کے دام
وصول کرنے لگتے ہیں۔۔۔!

آج تک بے شمار لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی کوئی ایسا نہ ملا جس نے یہ کہا ہو کہ”ہاں ہم نے جہیز کا مطالبہ یا فرمائش کی تھی“ ۔ جتنے ملے سب شرفاء ملے ہر ایک نے یہی کہا بلکہ فرمایا کہ الحمدلله ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ہمارے ہاں اس چیز کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے جب دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں جس نے جہیز مانگا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کا ہر باپ اور ہر بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے پریشان ہے؟ جب وہ اور اُن کا سارا گھرانہ ان تمام ہندوانہ رسموں کو نا پسند کرتا ہے تو پھر یہ سب کیونکر ہوا ؟ پوچھئے تو انتہائی شرافت اور فخر سے فرماتے ہیں ۔۔!
ہم نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں سوائے لڑکی کے اور کچھ نہیں چاہئے ۔ جو بھی دینا ہے وہ اپنی بیٹی کو دے دیجئے وہ بھی خوشی سے ۔۔!

دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے جسے لوگ شرافت و خوداری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں۔۔۔۔!
#منقول

https://t.me/sunehrehruf
اعتماد کا انویسمنٹ اور بدگمانی کا وائرس
۔۔۔۔۔
تحریر: سرفراز فیضی
.....
اک عمر ہم کسی پہ بھروسا کیے رہے
پھر عمر بھر کسی پہ بھروسا نہیں کیا

ہم لوگوں کو بدگمانی سے بچنے کی نصحت تو کرتے ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ معاشرے میں بدگمانی کی وبا پھیلانے والے عناصر کون سے ہیں ؟

معاملہ یہ ہے کہ ہر انسان میں اعتماد کرنے کی صلاحیت ایک خاص مقدار میں خالق کائنات نے ودیعت کی ہے ۔ اعتماد ہمارا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے ، جب کسی پر ہم اپنے اعتماد کا سرمایہ انویسٹ کرتے ہیں تو ہم.امید کرتے ہیں کہ وہ سامنے والا ہمارے اعتماد کا بدلہ اپنے حسن کردار سے دے گا. ، سامنے والا جب اپنے حسن کردار سے ہمارے اعتماد کو وقار بخشتا ہے ، ہمارے بھروسے پر کھرا اترتا ہے تو ہمارا اعتماد کا سرمایہ بڑھتا ہے ، لوگوں پر بھروسہ کرنے کا ظرف وسیع ہوتا ہے.

لیکن اگر جس پر بھروسہ کیا وہ بدکردار نکل گیا، تو اعتماد کرنے کی ہماری قوت کمزور پڑ جاتی ہے ، دھوکہ کھایا ہوا شخص کسی پر بھروسہ کرنے کے قابل نہیں رہ جاتا ہے، ایسے شخص کو حسن ظن کی تلقین تو کی جاسکتی ہے لیکن جس شخص کو زندگی کے تجربے نے صرف دھوکے باز لوگ دیے ہوں محض تلقین اس کے اندر اعتماد کرنے کا ظرف پیدا نہیں کرسکتی.

لہذا بدگمانی پھیلانے میں سب سے مؤثر کردار ان دھوکے باز لوگوں کا ہے جو لوگوں کا اعتماد توڑتے ہیں ۔ اپنی زبانوں سے لوگوں کا بھروسہ جیتتے ہیں اوراپنے کردار سے ان کو دغا دے جاتے ہیں ، ایک دھوکے باز انسان اپنی زندگی میں اپنے غلیظ کردار سے سیکڑوں لوگوں کو بدگمانی کے جراثیم سے متاثر کردیتا ہے ۔
اس لیے غدار صرف اس شخص کا مجرم نہیں ہوتا جس کا سرمایہ اعتماد اس نے لوٹ لیا ہے اور اس کو اب کسی پر اعتماد کے لائق نہیں چھوڑا، وہ معاشرے کے ان تمام نیک کردار لوگوں کا بھی مجرم ہوتا ہے جو قابل اعتماد تھے لیکن اس غدار کی پھیلائی بدگمانی نے معاشرے سے ان نیک کردار لوگوں کا اعتبار بھی ختم کردیا ہے. اس طرح یہ نفاق صفت دھوکے باز پوری قوم کے مجرم ہوتے ہیں. اور ان جرم بدگمانی سے بھی بڑا ہے۔

زبان اور کردار میں فرق منافقت ہے ، حدیث میں بتایا گیا ہے کہ منافق کی علامت ہے کہ وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرتا ہے،بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے ۔
ذرا غور کریں! جس معاشرے میں منافقین کی کثرت ہو اس معاشرے میں کسی کو ہر کسی سے حسن ظن کی تلقین کرنا کوئی سمجھداری کی بات ہے ؟ بلکہ ہر کسی پر اندھا اعتماد بے وقوفی ہے۔
#نشر_مکرر
Follow this link to join us👇🏻
https://chat.whatsapp.com/H9369U3SJhbKxmiSio46lk
بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين،

دعا کوئی رسم نہیں، عبادت ہے
ازقلم: عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ
...................................................
ہر روز ہر فرض نمازوں کے بعد اکثر حنفی مساجد میں اجتماعی دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے، امام صاحب ہاتھ اٹھا کر کبھی پست اور کبھی بلند آواز سے دعا کرتے ہیں اور مقتدی حضرات بھی دعا میں لازمی طور پر شامل ہوتے ہیں، لوگوں نے اسے واجبی عمل سمجھ لیا ہے، آئیے اس دعا کی کیا حیثیت ہے آج اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں-
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ طریقہ سنت کے خلاف ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے کہ آپ ہر فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرتے تھے، اور نہ ہی یہ طریقہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ہی ثابت ہے-
دوسری بات یہ ہے کہ فرض نماز کے بعد کے کچھ اذکار ہیں جنہیں پڑھنا چاہیے، ان اذکار کے پڑھنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تعلیم دی ہے مگر لوگ سنت ہضم کر جاتے ہیں اور اپنی طرف سے نیا طریقہ گھڑ لیتے ہیں-
تیسری بات یہ ہے کہ دعا عبادت ہے کوئی رسم نہیں ہے، لیکن اکثر لوگ اجتماعی دعا میں رسمی طور پر ہاتھ اٹھا لیتے ہیں ان سے پوچھیں آپ نے کیا دعا مانگی ہے؟ تو اکثر لوگوں کا یہی جواب ہوگا کہ جو امام صاحب نے مانگی ہے-
چوتھی بات یہ ہے کہ اجتماعی دعا میں ہر دعا پر آمین کہی جاتی ہے نہ کہ خود ہی دعا کی جاتی ہے-
پانچویں بات یہ ہے کہ امام صاحب دعا کرتے ہیں اور مقتدی اس پر آمین بولتے ہیں لیکن مقتدی کو کیا ضرورت ہے، دعا میں اس کا التزام نظر نہیں آتا ہے، کیونکہ امام کی دعا پر سارے لوگ دعا مانگنا ختم کر دیتے ہیں-
چھٹی بات یہ ہے کہ دعا میں تضرع، گریہ وزاری، طمانینت، خشوع وخضوع مطلوب ہے، لیکن فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعاؤں میں لوگ عجلت سے کام لیتے ہیں، تقریباً ایک منٹ کے اندر ہی دعا ختم ہوجاتی ہے-
ساتویں بات یہ ہے کہ دعا کا ادب یہ ہے دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے لیکن فرض نمازوں کے بعد دعاؤں میں درود شریف نہیں بھیجا جاتا ہے-
آٹھویں بات یہ ہے کہ امام اجتماعی دعا میں اپنے لیے خاص دعا کرتا ہے جب کہ اجتماعی دعا میں ہمیشہ جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے-
نویں بات یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کا اصل وقت سحر کا وقت، سجدہ میں، سلام پھیرنے سے قبل تشہد میں، اذان واقامت کے درمیان، شب قدر، سفر وغیرہ میں، لیکن اجتماعی دعا کے لیے فرض نماز کے بعد ہی کی تخصیص کیوں؟
دسویں اور آخری بات یہ ہے کہ اجتماعی دعا میں اجبار نہیں اختیار ہوتا ہے، لیکن اجتماعی دعا میں ہاتھ نہ اٹھانے والے کو ترچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا مقام نماز سے بھی زیادہ ہے، جب کہ اس دعا کے متعلق کتب فقہ حنفی میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے-
لہٰذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سنت کے مطابق عمل کریں، دین میں من مانی سے بچیں، دعا کریں یہ بہت اچھی چیز ہے، اللہ سے مانگنا بہت بڑی عبادت ہے، لیکن مانگنے کے لیے ادب اور سلفیہ کا ہونا بہت ضروری ہے، دعا کے وقت ہمیں قبولیت کا یقین ہونا چاہیے نہ کہ ہم غفلت برتتے ہوئے عجلت میں دعا کریں، غافل اور لا پرواہ دل کے ساتھ دعا کریں تو یہ دعا کے ادب کے خلاف ہے جیسا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُوْنَ بِالْإجَابَةِ، وَاعْلَمُوْا أنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيْبُ دُعَاءََ مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ" (سنن ترمذی:3479/حسن) اللہ سے مانگو تو قبولیت کے یقین کے ساتھ مانگو، کیونکہ اللہ تعالی کسی غافل اور لا پرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتا ہے-
اللہ ہم سب کو ہر قسم کی بدعات وخرافات سے بچائے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا شیدائی بنائے آمین-

https://t.me/sunehrehruf
توبہ کیا ہے اور کیسے کریں


از قـــلــم فہـــیدہ رحــمانــی


یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ انسان ایک غلطی کا پتلا ہے جیسا کہ مشہور ہے الانسان مرکب من الخطاء والنسیان
یعنی انسان خطا اور نسیان سے مرکب ہے لیکن غلطی پر اصرار اور اسی پر ڈٹے رہنا بہت بڑی غلطی اور نادانی ہے غلطی کا ہونا کوئی بعید بات نہیں سب سے پہلی غلطی ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی ہم تو ان کی اولاد ہے غلطی کا ہونا ممکن ہے انس بن مالک سے روایت ہے
کلُّ بني آدم خَطَّاءٌ، وخيرُ الخَطَّائِينَ التوابون
بنی آدم کا ہر انسان خطا کار ہے اور سب سے بہتر خطا کار وہ ہے جو اپنی غلطی کے بعد فورا توبہ کر لے

توبہ کیا ہے
توبہ یہ عربی زبان میں تاب، یتوب، توبا، وتابۃ، ومتابا سے ہے
جس کا مطلب ہے گناہ کو چھوڑ دینا،شرمندہ ہونا، متوجہ ہونا، بخش دینا، دوبارہ مہربان ہونا،
انسان سے جب کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتا ہے اور اپنے قلب و قالب سے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ رب العالمین اس پر دوبارہ مہربان ہو جاتے ہیں اور اس کو بخش دیتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
یا أيُّهَا النَّاسُ، تُوبُوا إلى اللهِ واسْتَغْفِرُوهُ، فَإنِّي أَتُوبُ في اليَّومِ مائةَ مَرَّةٍ
اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو اور اس سے مغفرت طلب کرو، کیونکہ میں دن میں سو دفعہ توبہ کرتا ہوں‘‘۔
دوسری جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
انہ لیغان علی قلبی
میرے دل پردہ اور بوجھ سا آ جاتا ہے میں اس کو کیسے دور کرتا ہوں فاستغفر اللہ سبعین مرۃ
اللہ سے استغفار کرتا ہوں مجلس میں بیٹھ کر ستر مرتبہ
اسی وجہ سے امام قرطبی کہتے ہیں توبہ کرنا یہ امت پر فرض ہے
والتفقت الامۃ علی ان التوبۃ فرض علی المومنین
تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مومنوں پر توبہ کرنا فرض ہے یہی وجہ ہے جو توبہ نہیں کرتا اللہ اسکو ظالم قرار دیتے ہیں
وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
جو توبہ نہیں کرتا ہے وہ ظالموں میں سے ہوجاتا ہے
اگر انسان کو گناہ کرنے شوق پیدا ہوجائے تو کرے لیکن وہاں جاکر کرے جہاں اسکا مالک موجود نہ ہو جہاں رب کی زمین نہ ہو کہاں جائے گا ؟

آئیے اب ہم جانتے ہیں توبہ کیسے کریں

اگر آپ توبہ کرنا چاہتے ہیں سچی تو توبہ کے وہ سات شروط ہیں
(پہلی شرط)لوگوں کو دکھانے کے لئے ہاتھ نہ اٹھائیں، اخلاص کے ساتھ رب کو راضی کرنے کے لئے اور اسکی ناراضگی سے بچنے کے لئے ہاتھ اٹھائیں۔ اللہ کا فرمان ہے
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا
(دوسری شرط) جس گناہ سے آپ توبہ کر رہے ہیں اسکو چھوڑ دیں جب تک آپ گناہ کو چھوڑتے نہیں وہ توبہ قبول نہیں ہوگی
(تیسری شرط) اس گناہ کا اعتراف اللہ کے سامنے کریں
*ان العبد اذاعترف ثم تاب تاب اللہ علیہ*
جب بندہ اپنے گناہوں کا اعتراف اللہ کے سامنے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس اعتراف پر اسکو معاف کردیتے ہیں
(چوتھی شرط) اعتراف اللہ کے سامنے اور ساتھ میں شرمندگی کا اظہار
التوبۃ الندم والاستغفار
توبہ کیا ہے شرمندہ ہونا پھر استغفار کرنا
(پانچویں شرط) آپ جب توبہ کر رہے ہیں تو عزم مصمم کریں اے اللہ میں دوبارہ نہیں کرونگا جب آپ پختہ ارادہ کرلیں گے تو اللہ تعالی معاف کردیں گے
(چھٹی شرط) اگر آپ توبہ کرنا چاہتے ہیں سچی تو موت سے پہلے پہلے کریں جب والتفۃ الساق بالساق پنڈلی پر پنڈلی چڑھ جائے فرشتہ نظر آجائے تو وہ بول نہیں سکتا اسی لئے اللہ رب العالمین سب سے پہلے جان قدموں سے نکالتے ہیں تاکہ انسان بھاگے نہیں اسوقت پھر توبہ قبول نہیں ہوگی اسی لئے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا
إن للتوبة بابا عرض ما بين مصراعيه ما بين المشرق والمغرب، لا يغلق حتى تطلع الشمس من مغربها
توبہ کا ایک دروازہ ہے جسکی چوڑائی مشرق ومغرب جتنا فاصلہ ہے یہ دروازہ اس وقت تک بند نہ ہوگا جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہو
ومن مات فقد قامت قیامته
جو شخص مر جاتا ہے اسکی قیامت تو اسی وقت شروع ہوجاتی ہے
(ساتویں اور ضروری شرط جو ہمیں سمجھنی چاہئے)اگر آپ کوئی بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں جب تک آپ بدعت کو چھوڑتے نہیں توبہ کر بھی لیں وہ توبہ قبول نہیں ہوگی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
ان اللہ احتجر التوبہ عن کل صاحب بدعۃ حتی یدعھا اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں احتجب التوبۃ اللہ نے توبہ روک دی ہے اور چادر لٹکا دی ہے جب تک بدعتی بدعت کو چھوڑ نہیں دیتا اللہ رب العالمین نہ اسے دیکھنا پسند کرتے ہیں نہ اسکی توبہ کو قبول کرتے ہیں
جب یہ سات شرطیں ہوں تو اللہ رب العالمین تمام لوگوں کے توبہ کو قبول کرتے ہیں ارشاد ربانی ہے
وَٱلَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَٰحِشَةً أَوْ ظَلَمُوٓاْ أَنفُسَهُمْ ذَكَرُواْ ٱللَّهَ فَٱسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَىٰ مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
جن سے فحاشی ہوجائے یا وہ اپنی جانوں پر ظلم کرلیں پھر وہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں اور اس بات کا عہد کرتے ہیں اے اللہ ہم دوبارہ نہیں کریں گے عزم کرتے ہیں تو اللہ رب العالمین ایسے لوگوں کو معاف کردیتے ہیں
دیکھئے معافی کا طریقہ کیا ہے
غسل کریں وضو کریں اور اگر آپ پاک ہیں تو وضو کریں دو رکعتیں پڑھیں اور ہاتھ اٹھا لیں اے اللہ میں سچی توبہ کرتا ہوں اعتراف کرتا ہوں میں شرمندہ ہوں مجھ سے کوتاہی ہوگئی یہ غلطی ہوگئی رب اغفرلی جب بندہ اتنا کہتا ہے تو اللہ رب العالمین فرشتوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں
یا ملائکۃ فعلم عبدی ان لہ ربا یغفر الذنوب
میرے بندے کو پتہ چل گیا ہے اسکا کوئی رب ہے جو معاف کرنے والا ہے
عبدی اعمل ماشئت فقد غفر لک
میرے بندے جو کچھ بھی تم نے کیا جاؤ میں تمکو معاف کرتا ہوں

https://t.me/sunehrehruf
’’بیٹیوں کی شادی میں کی جانے والی عمومی غلطی‘‘

’’بدقسمتی سے جب سے مادہ پرستی کی دوڑ شروع ہوئی ہے کتنے ہی دیندار گھرانے ایسے ہیں جو اپنی بیٹیوں کو کتاب و سنت کی تعلیم دلاتے ہیں۔ پاکیزہ اور صاف ستھرے ماحول میں ان کی تریبت کرتے ہیں ، لیکن نکاح کے وقت دنیا کی چمک دمک سے مرعوب ہو کر بیٹی کے اچھے مستقبل کی تمنا میں بے دین یا بدعتی یا مشرک گھرانوں میں اپنی بیٹیاں بیاہ دیتے ہیں اور یہ تصور کر لیتے ہیں کہ بیٹی نئے گھر میں جا کر اپنا ماحول خود بنا لے گی۔ بعض باہمت ، سلیقہ شعار اور خوش قسمت خواتین کی استثنائی مثالوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن عمومی حقائق یہی بتلاتے ہیں کہ ایسی خواتین کو بعد میں بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے خود والدین بھی زندگی بھر ہاتھ ملتے رہتے ہیں ۔ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے مزاج میں دوسروں کو ڈھالنے کی بجائے خود ڈھلنے کی صفت غالب رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب کی عورتیں لینے کی اجازت ہے ، دینے کی نہیں۔ کم از کم دیندار گھرانوں میں کفو دین کا اصول کسی قیمت پر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔‘‘

(نکاح کے مسائل از شیخ محمد اقبال کیلانی حفظہ اللہ، ص : 67)

https://t.me/sunehrehruf
از قـــلــم فہــمـیـدہ رحــمــانــــی


کیف نستقبل رمضان


کتنی خوش نصیبی ہے کہ آج ہم ایمان کی حالت میں ہیں اور رمضان کا مہینہ قریب آرہا ہے اللہ اس رمضان کی رحمتوں برکتوں کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے

کیف نستقبل رمضان ہم رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں
ہمیں اس بات کی فکر ہونی چاہئے سلف صالحین کا طریقہ کیا تھا پہلی اپنی نیتوں کو خالص کر لیجئے تاکہ اس مہینہ کی برکتوں کو دامن میں جمع کر سکو اور وہ اخلاص کے بغیر ممکن نہیں ہے حذیفہ نے کہا تھا

یا موسی ثلث خصال ان کن فیک لم ینزل من السماء خیر الا کان لک فیہ نصیب

اگر تین باتیں تجھے نصیب ہو جائے آسمان سے جتنی بھی برکتیں اتریں گی تجھے حصہ ضرور ملے گا لیکن کب جب تین کام کروگے
(1) یکون عملک للہ اللہ کی رضا کے لئے کام کیا کرو روزے اور تراویح اللہ کے لئے لوگوں کو دکھانے کے لئے نہیں شہرت اور واہ واہ کے لئے نہیں اس رب کی رضا کے لئے جس نے جنت انعام رکھا ہے

(2) وتحب للناس ما تحب لنفسک
جو چیر اپنے لئے پسند کرتے ہو لوگوں کے لئے بھی کیا کرو آسمان سے جتنی برکتیں نازل ہونگی تجھے ضرور حصہ ملے گا

(3) انفق مافی الجیب یأتیک مافی الغیب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کی تلقین بھی کی اور کرکے بھی دکھایا لوگوں صدقہ کیا کرو
اسکی پلاننگ کر لیجئے سلف مال کو جمع کرتے تھے اس نیت سے کہ رمضان میں خرچ کریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کالریح المرسلة اتنی سخاوت کرتے جس طرح تیز ہوا ہر گھر تک پہنچتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت بھی ہر گھر تک پہنچتی تھی کوشش کیجئے رمضان سے پہلے ان گھروں کو تلاش کیجئے جس گھر میں سحری وافطار کا سامان نہیں ان کو پہنچایئے یہ سب یہاں رہ جائے گا وہی کام آئے گا جو تم اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرو گے یاد رکھنا کفن کو کوئی جیب نہیں لگاتا تم دو ارب کے مالک ہو پھر دو باتیں یاد رکھنا دو ارب چھوڑ کر تم جاؤ گے زمین جائیداد ساتھ نہیں لے جاؤ گے اور دوسری بات یہ کھائیں گے پچھلے ہی لوگ حساب تم سے لیا جائے گا اس لیے حرام نہ کھاؤ حرام نہ کماؤ حرام سے بچو اور جو اللہ نے حلال دے دیا اس کے ذخیرے نہ کرتے رہو

انفق مافی الجیب یأتیک مافی الغیب

جو تمہاری جیب میں ہے تم اللہ کے لیے خرچ کرو اللہ ان خزانوں کا منہ تمہاری طرف کھول دیں گے جو غیب کے خزانے ہیں

انفق یابنی آدم اُنفق علیک

اے آدم کے بیٹے تم میری رضا کے لئے ختم کرو میں تمہارے لئے خرچ کروں گا انسان جتنا بھی خرچ کرے رب کا مقابلہ تو نہیں کر سکتا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کس طرح خوبصورت زندگیاں گزارتے تھے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے جب سوال کیا گیا

کیف کنتم تستقبلون رمضان

آپ رمضان المبارک کا استقبال کیسے کرتے تھے
قَالَ : مَا كَانَ أحَدُنَا يَجرُؤ عَلَى إستِقبَالِ الهِلَالِ وَفِي قَلبِهِ ذَرًّةُ حِقدً عَلَى أخِيهِ المُسْلِم !

ہم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو رمضان کا چاند نظر آنے سے پہلے اپنے دل کو صاف نہ کرلے کسی مسلمان کے بارے میں اپنے دل میں زرہ برابر بھی کینہ نہیں رکھتا تھا

قال الفضيل بن عياض رحمه الله: لم يدرك عندنا من أدرك بكثرة صيام ولا صلاة، وإنما أدرك بسخاء الأنفس، وسلامة الصدر، والنصح للأمة.

ہم سے پہلے جو لوگ تھے انکو اللہ نے برکت اس وجہ سے نہیں دی تھی کہ وہ زیادہ روزے، نمازیں، تہجد اخیتار کرتے تھے بلکہ اصل راز یہ تھا وہ سخاوت کیا کرتے تھے انکے سینے بڑے پاکیزہ تھے کوئی بغض کوئی حسد کوئی کینہ انکے دل میں نہیں ہوتا تھا

آخری بات یہ دعاؤں کا موسم ہے صبح دعائیں شام میں دعائیں کرتے رہیں مت سمجھئے کہ افطار کے وقت ہی دعا قبول ہوتی ہے بلکہ حدیث کے الفاظ ہیں تین ایسے خوش نصیب ہیں جنکی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ان میں ایک دعوۃ الصائم روزے دار کی دعا ہے اپنے لئے دعا کیجئے اپنے اولاد کے لئے والدین کے لئے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے دعا کیجئے سحری کے بعد سے افطار تک کسی بھی وقت دعا کیجئے سلف صالحین رمضان کے آنے سے چھ مہینے پہلے ہی دعا کرتے تھے اللہ مجھے رمضان کے لئے سلامت رکھ اور رمضان کو ہمارے لئے سلامت رکھ اور جب رمضان کے مہینہ گزر جاتا تو چھ مہینہ یہ دعا کرتے اللہ ہم نے رمضان میں جو بھی عبادتیں کی ہیں جو نیک کام کئے ہیں تو انکو قبول فرما.

https://t.me/sunehrehruf
ازقلم۔۔۔۔۔۔فہمیدہ رحمانی بنت ولی اللہ

روزے کی فضیلت اور نہ رکھنے پر وعید

پچھلی گفتگو میں ہم نے اخلاص سلامت صدر توبہ دعا کا تذکرہ کیا رمضان المبارک سے پہلے ان کاموں کو مضبوطی سے اختیار کرنا چاہئے جوں ہی رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو ایک مسلمان کو مزید نیک کام کرنے چاہئے
اب آئیے ہم رمضان المبارک کے مہینے اور روزے کی فضیلت کو جانتے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جو سکھایا اور سمجھایا اور اس کی روشنی میں انہوں نے اپنی زندگی گزاری

من صام رمضان وقامه إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه
وفی روایة اخری
من قام رمضان إيمانًا واحتسابًا غُفر له ما تقدَّم من ذنبه
(متفق علیہ)

جو شخص روزہ رکھتا ہے اور پھر قیام کرتا ہے اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہوئے اس نیت سے روزہ رکھے کہ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے عبادت ہے اور اللہ نے مجھ پر فرض کیا ہے اور اجر کی امید سے یہ کام کرتا ہو خواہ وہ روزہ رکھے یا قیام کرے اللہ تعالی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیتے ہیں مگر نیت شرط ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا تھا حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں

ربَّ صائمٍ ليسَ لَه من صيامِه إلَّا الجوعُ وربَّ قائمٍ ليسَ لَه من قيامِه إلَّا السَّهرُ

کچھ روزے دار ایسے ہوتے ہیں جن کے حصے میں صرف یہی چیز آتی ہے کہ وہ بھوکا تھا اسے کچھ نہیں ملتا اجر و ثواب سے دور رہتا ہے کتنے تہجد پڑھنے والے کتنے تراویح پڑھنے والے ان کے حصوں میں اجر و ثواب نہیں آتا بس انہوں نے اپنی رات خراب کی سوئے نہیں کیوں ایسا ہوتا ہے اگر اللہ کی رضا کے لئے روزہ نہیں قیام نہیں تو قبول نہیں سنت کے مطابق نہیں پھر بھی قبول نہیں بھوکا رہنا کوئی کمال نہیں رات کو بیدار رہنا کمال نہیں ہے کمال اس وقت ہے جب اللہ کے لئے کیا جائے سنت کے مطابق کیا جائے

إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَہٗ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہِ وَجْہُہٗ
(نسائی)

عبادت اتنی حساس ہے کہ اگر 99 فیصد اللہ کے لئے عبادت کی ہو اور ایک فیصد لوگوں کے لئے کہ لوگ بھی واہ واہ کریں تو اللہ رب العالمین قیامت کو فرمائیں گے ترکتہ وشرکہ میں نے اپنی 99 فیصد بھی چھوڑے جس کے لئے تم نے ایک فیصد عبادت کی تھی فلیطلب ثوابہ من عندی
آج بدلہ اسی سے جا کر لے لو اخلاص یہ ہے کیا
ان لا تطلب لعملک شاھدا غیر اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
قَدْ جَاءَ کُمْ رَمَضَانُ ،شَھْرٌ مُّبَارَکٌ، اِفْتَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ صِیَامَہُ، تُفْتَحُ فِیْہِ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ وَ تُغْلَقُ فِیْہِ اَبْوَابُ الْجَحِیْمِ وَ تُغَلُّ فِیْہِ الشَّیَاطِیْنِ فیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِّن اَلْفِ شَھْرٍ،مَنْ حُرِمَ خَیْرَھَا فَقَدْ حُرِمَ (مسند احمد)

رمضان المبارک کا مہینہ آگیا ہے اور یہ بہت برکتوں والا مہینہ ہے اللہ تعالی نے تم پر اس مہینے کے روزے کو فرض قرار دیا ہے اس مہینے میں جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے اور شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے اس مہینے میں ایک ایسی برکتوں والی رات ہے جو ہزار مہینے سے افضل ہے لیلۃ القدر کی برکتوں سے جو محروم کر دیا گیا اس سے بڑا کوئی محروم نہیں روزے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوک پیاس برداشت کرے

قال جابر بن عبد الله -رضي الله عنه-: "إذا صمت فليصم سمعك وبصرك ولسانك عن الكذب والمحارم
أخرجه ابن أبي شيبة في "المصنف"، والحاكم في "معرفة علوم الحديث"، والبيهقي في "شعب الإيمان"، وابن المبارك في "الزهد والرقائق".

حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کانوں کا بھی روزہ ہونا چاہئے گانے نہ سنو بری باتیں نہ سنو آنکھ کا بھی روزہ رکھو حلال چیز دیکھو حرام سے بچو یہ مبارک مہینہ ہے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرو زبان کا بھی روزہ رکھو گالی نہ دو غیبت نہ کرو اس سے اچھی باتیں کہو اس لئے کہ
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ
أخرجه الإمام البخاری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:
من صام رمضان وعرف حدوده، وتحفظ مما كان ينبغي أن يتحفظ منه كفر ما قبله
رواه أحمد، والبيهقي، بسند جيد.

جو رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اور اس کے حدود و قیود کو جانتا ہے اور حسب توفیق اس کی حفاظت کرتا ہے اس بندے کے سارے گناہ کو معاف کر دیا جاتا ہے.

اور جو روزہ نہیں رکھتا اس کے بارے میں کہا گیا ہے وہ یہ نہ سمجھے مجھے کسی اجر کی کسی مفتی کے فتوے کا فائدہ ملے گا
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بینا انا نائم اتانی رجلان فاخذا بضبعی فاتیا بى جبلا وعرا فقالا اصعد فقلت انی لا اطیقه فقال انا سنسھله لک فصعدت حتی اذا کنت فی سواء الجبل اذا باصوات شدیدۃ فقلت ما ھذہ الاصوات قالوا عواہ اہل النار ثم انطلق بی فاذا انا بقوم معلقین بعراقیھم مشققة اشداقھم تسیل اشداقھم دما قال قلت من ھؤلاء قال الذین یفطرون قبل تحلة صومھم
(صحیح الترغیب)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سو رہا تھا اچانک دو آدمی میرے پاس آئے اور میرے بازوؤں کو پکڑ کر اٹھایا اور اک پہاڑ کے پاس لے گئے جس پر چڑھنا میرے لئے دشوار تھا اور مجھے اس پر چڑھنے کے لئے کہا میں نے کہا میں چڑھ نہیں سکتا انھوں نے کہا آپکے لئے ہم آسان بنا دینگے چنانچہ میں نے اس پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گیا وہاں میں نے چیخنے چلانے کی آوازیں سنی میں نے کہا یہ کس کی چیخیں ہیں انھوں نے کہا یہ جہنمیوں کی چیخ وپکار ہیں پھر مجھے اور آگے لے جایا گیا تو میں نے وہاں کچھ لوگوں کو اُلٹا لٹکا ہوا دیکھا جنکی بانچھیں چیر دی گئی تھی اور اس سے خون بہہ رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون سے لوگ ہیں جواب ملا یہ وہ لوگ ہیں جو اذان سے پہلے روزہ افطار کرلیا کرتے تھے جو اذان سے پہلے افطار کرتا ہے اسکی سزا یہ ہے تو جو روزہ ہی نہیں رکھتا اسکا کیا ہوگا ؟ ذرا سوچو!

اور خدا نخواستہ اگر کوئی یہ کہہ دے میں روزہ نہیں رکھوں گا مجھے روزے کی ضرورت نہیں تو ایسا شخص کافر ہو جاتا ہے

مذکورہ بالاحدیث میں روزہ نہ رکھنے والے کو کافر بتایا گیا ہے ، علماء کرام نے اگرچہ اس کافر ہونے کو انکار کرنے کے ساتھ مقید کیا ہے کہ جو روزہ کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں رہتا، اور جوشخص بلاعذر اس کو چھوڑ دے وہ کافر نہیں مگر سخت گنہگار اور فاسق ہے ۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگوں کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بہت سخت ہیں ۔اس لئے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرنا چاہیے ۔
البتہ اگر شرعی عذر ہو تو مجبوری کی صورت میں رمضان کا روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ، ایسی صورت میں بعد میں قضاء کرنی ہوگی ۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو روزہ کے فضائل وبرکات حاصل کرنے اور روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور بغیر عذر روزہ چھوڑنے سے تمام لوگوں بچائے ۔ آمین!

https://t.me/sunehrehruf
دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں،یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے.

قاضی نے پوچھا:
تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟

ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو.

وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی.

قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟
وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی،میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کرلی ساتھ یہ شرط رکھ لی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے،میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی سہاگ رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں.

جج صاحب میری طلاق ہوگئی.

کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کرلی،میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی(یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے پھوپھی کے شوہر سے شادی کرلی اور اس کے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے اسے طلاق دے ڈالی.

قاضی حیرت سے پھر ؟

وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی.

🥀کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد(میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کروگے؟

اس نے ہاں کرلی

میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی(میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں،اس نے ایسا ہی کیا.

🌹میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کرلی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی.

قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ

اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟

میری پھوپھی کہنے لگی :

قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کرلیا۔

📌قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے:
مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا،طلاق بھی جائز ہے،وکالت بھی جائز ہے،طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جاسکتی ہے بشرطیکہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے.

📜اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی.

كتاب :جمع الجواهر في - الحُصري

عربی سے ترجمہ: بقلم فردوس جمال!!
#copied

https://t.me/sunehrehruf
سب سے اچھی بات کس کی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✍🏻 عتیق الرحمن ریاضی کلیہ سمیہ بلک ڈیہوا، نیپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِىۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ ۞
اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بُلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔

بچوں ، نوجوانوں ، بوڑھوں ، عورتوں کی جہالت و ضلالت اور دین سے دوری دیکھ کر اللہ کی قسم دل کانپ اور تھرا تھرا اٹھتا ہے اور مسلمانوں کی حالت زار پر رونا آتا ہے ۔۔۔۔۔

📰مسلمانوں کی حالت انتہائی نازک ہے ، اخلاق اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ ہر ایک کے اندر برائی کی آندھیاں بپا ہیں ، فحاشی ، عریانی ، بے حسی اور بے ضمیری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ احساس زیاں ختم ہورہا ہے۔۔۔۔۔
📌ہم لٹ رہے ہیں اور تباہی کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں ، قوم برباد ہورہی ہے، ہماری نسلیں بے ضمیر اور دین سے دور ہورہی ہیں۔۔۔۔۔

ایسے ماحول، معاشرے اور وقت میں احیاء اسلام، اقامت دین اور حفاظت ایمان کیلئے تمام دینی جماعتوں کو سرگرم ہونا چاہیئے۔۔۔۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمانوں کی اصلاح کیسے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
مسلمانوں میں دینی بیداری کیسے آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
مسلمان حقیقی مسلمان کیسے بنیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
مسجدیں آباد کیسے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

🥀اے قوم کے غیور مسلمانو! دنیا میں کوئی بھی کام اچھی اور بھرپور تیاری کے بغیر نہیں ہوسکتا ، جس کام کی تیاری اچھی نہ ہو یا تو وہ کام پایہ تکمیل تک نہیں پہونچتا اور اگر وہ پہونچ بھی جائے تو معیاری نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔!

اقامت دین اور غلبہ اسلام کا عظیم انقلابی کام کئی گنا بڑھ کر بھرپور تیاری کا تقاضا کرتا ہے اور تیاری کی دو سطحیں ہیں۔۔۔۔۔
ایک اپنی ذات کی سطح اور ایک معاشرے کی سطح۔

انقلاب کی ایک ترتیب ہے جب تک ذات میں انقلاب نہیں آئے گا، اس خاندان و معاشرہ میں انقلاب نہیں آئے گا۔ جب تک سماج و معاشرہ میں انقلاب نہیں آئے گا تو اس وقت تک ملکی سطح پر انقلاب نہیں آئے گا۔۔۔۔۔

🌹زوالِ ایمان، مادیت اور لادینیت کی چلتی ہوئی تیز رفتار آندھیوں کے دور میں اگر ہم انقلاب کی اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں تو نبوی انقلاب کے وہ سپاہی جو فرنٹ پر ہیں یعنی جو عہدیداران ہیں ان کو چاہیے کہ ایمان و عمل اور کردار کو اس قدر پختہ کرلیں کہ
ایک ایک ۔۔۔ دس دس پر غالب ہو ، بلکہ ایک ایک سو دو سو پر غالب ہو، اور دس دس پورے معاشرے پر غالب ہوں ۔۔۔۔۔۔
و گرنہ معاشرے کے اندر جتنی بدی پھیل چکی ہے اس کو مٹانا ممکن نہیں ہوگا۔۔۔۔۔!

📜جب تک ہمارے معاشرے میں نوجوان اللہ کے لیے رونے والے اور اللہ کے دین کے لیے باطل اور کفر سے ٹکرا جانے والے نہیں بن جاتے ، اس وقت تک آگے بڑھنا بڑا مشکل ہے ، اگر گھروں میں آج بھی جوان پچھلی رات مصلی پر کھڑے ہوں اور رات کے اندھیرے میں آنسو گر رہے ہوں، التجائیں کررہے ہوں کہ اے مولا!
ہمیں معاف کردے اور اپنے دین کو سر بلند کردے اگر یہ کیفیتیں پیدا ہوجائیں تو اللہ رب العزت آج بھی اپنی مدد و نصرت فرمائے گا اور اپنی برکتوں اور رحمتو ں کے دروازے کھول دے گا۔۔۔۔۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو آمین

https://t.me/sunehrehruf
عورت کے بارے میں مشہور ہے کہ تم اسے خوبصورت کہو وہ خوبصورت ہوتی چلی جائے گی، تم اسے اچھی کہو وہ اچھی ہوتی چلی جائے گی، تم اسے ہمدرد، رحم دل، ہنس کر قربانی دینے والی کہتے جاؤ وہ ویسی بنتی جائے گی۔
مگر جب تم اس میں عیب نکالتے ہو، چھوٹی غلطی کو بڑی بناتے ہو، اس کے لباس، کھانے اور روزمرہ کے کاموں میں عیب نکالتے ہو تو تم اسے دن بہ دن عیب دار کرتے جاؤ گے۔
🤍💙

ⓚⓐⓜⓘⓛ ⓩⓐⓘⓝ 🙃🖤
https://whatsapp.com/channel/0029VabxElLFy72Geg1Tr81z
کیوں نہ آج کچھ مرد پر لکھا جائے؟؟
عام طور پر تمام تحریریں عورت پر لکھی جاتی ہے۔
اور مرد کو بےوفا کہہ کر تحریر سے نکال دیا جاتا ہے۔
کیوں نہ آج کچھ مرد کی ذات پر لکھا جائے ؟؟
مرد بھی انسان ہوتا ہے پہلے تو یہ بات ہمیں سمجھنے کی بےحد ضرورت ہے۔
مرد بہت حسین ذات ہے۔🥰
دیکھو تو کبھی باپ کے روپ میں ہماری حفاظت کرتا ہے۔
کبھی بھائی کی صورت میں ہمارا محافظ بن جاتا ہے۔
اور کبھی شوہر کی صورت میں تمام عمر ہماری ضروریات پوری کرنے کے لیئے خون پسینہ بہاتا رہتا ہے۔
ہاں مرد بھی انسان ہوتا ہے، ہاں مرد کو بھی تکلیف ہوتی ہے، ہاں مرد کا بھی قرب کے مارے دل پھٹنے لگتا ہے، ہاں مرد بھی محبت کرتا ہے، اور آخر تک نبھاتا ہے۔
لیکن بڑا سخت جان ہوتا ہے یہ مرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مرد آنسوؤں کو ایسے پی جاتا ہے، جسے اسے تکلیف ہوتی ہی نہ ہو۔۔۔
مگر مرد جب روتا ہے نہ ، تو فرش تہ عرش سب روتا ہے ، اور زرو قطار روتا ہے۔
یہ جو مرد ہے نہ بڑا سخت جان ہوتا ہے۔
کمبخت !!!!🥺
تکلیف سے مر جاتا ہے، مگر روتا نہیں ہے۔۔
ایسا ہوتا ہے مرد🥀 🥺🥺

ⓚⓐⓜⓘⓛ ⓩⓐⓘⓝ 🙃🖤

https://t.me/sunehrehruf
💖 #أقوال_الشيوخ_الثمينة :

🎙محدث ناصر الدين الألباني رحمه الله فرماتے ہیں :

« اے مسلمان بھائی! اسلام کو کتاب اللہ اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرنے کی کوشش کرو، اور یہ مت کہو کہ فلاں ایسے کہتا ہے؛ کیونکہ حق کی پہچان لوگوں سے نہیں ہوتی. بلکہ حق کو پہچان لو، حق والوں کو خود ہی پہچان لو گے ».

📓 |[ سلسلة الأحاديث الصحيحة : ١٩٣/١ ]|

https://t.me/sunehrehruf
‏عورت کے مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات: نصیحت کے لیے
غسل کے دوران مدینہ کی ایک عورت نے مردہ عورت کی ران پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے.
بس یہ بات کہنا تھا کہ اللہ تعالی نے اپنی ڈھیل دی ہوئی رسی کھینچ دی.
اس عورت کا انتقال مدینہ کی ایک بستی میں ہوا تھا اور غسل کے دوران جوں ہی غسل دینے والی عورت نے‏ مندرجہ بالا الفاظ کہے تو اس کا ہاتھ میت کی ران کے ساتھ چپک گیا۔ چپکنے کی قوت اس قدر تھی کہ وہ عورت اپنا ہاتھ کھینچتی تو میت گھسیٹتی تھی مگر ہاتھ نہ چھوٹتا تھا۔
جنازے کا وقت قریب آ رہا تھا اس کا ہاتھ میت کے ساتھ چپک چکا تھا اور بے حد کوشش کے باوجود جدا نہیں ہو رہا تھا، تمام عورتوں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر کھینچا، مروڑا، غرض جو ممکن تھا کیا مگر سب بے سود رہا!‏
دن گزرا ، رات ہوئی، دوسرا دن گزرا، پھر رات ہوئی سب ویسا ہی تھا، میت سے بدبو آنے لگی اور اس کے پاس ٹھہرنا ،بیٹھنا مشکل ہو گیا!
مولوی صاحبان، قاری صاحبان اور تمام اسلامی طبقے سے مشاورت کے بعد طے ہوا کہ غسال عورت کا ہاتھ کاٹ کر جدا کیا جائے‏اور میت کو اس کے ہاتھ سمیت دفنا دیا جائے۔ مگر اس فیصلے کو غسال عورت اور اس کے خاندان نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم اپنے خاندان کی عورت کو معذور نہیں کر سکتے لہذا ہمیں یہ فیصلہ قبول نہیں!
دوسری صورت یہ بتائی گئی کہ میت کے جسم کا وہ حصہ کاٹ دیا جائے اور ہاتھ کو آزاد کر کے میت‏ دفنا دی جائے، مگر بے سود. اس بار میت کے خاندان نے اعتراض اٹھایا کہ ہم اپنی میت کی یہ توہین کرنے سے بہر حال قاصر ہیں.
اس دور میں امام مالک قاضی تھے. بات امام مالک تک پہنچائی گئی کہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے! امام مالک اس گھر پہنچے اور صورت حال بھانپ کر غسال عورت سے سوال کیا‏ "اے عورت! کیا تم نے غسل کے دوران اس میت کے بارے میں کوئی بات کہی؟"
غسال عورت نے سارا قصہ امام مالک کو سنایا اور بتایا کہ اس نے غسل کے دوران باقی عورتوں کو کہا کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے.
امام مالک نے سوال کیا "کیا تمھارے پاس اس الزام کو ثابت کرنے کے‏لیے گواہ موجود ہیں" عورت نے جواب دیا کہ اس کے پاس گواہ موجود نہیں. امام مالک نے پھر پوچھا "کیا اس عورت نے اپنی زندگی میں تم سے اس بات کا تذکرہ کیا؟" جواب آیا "نہیں"
امام مالک نے فوری حکم صادر کیا کہ اس غسال عورت نے چونکہ میت پر تہمت لگائی ہے لہذا ‏اس کو حد مقررہ کے مطابق 80 کوڑے لگائے جائیں!
حکم کی تعمیل کی گئی اور 70 بھی نہیں 75 بھی نہیں 79 بھی نہیں پورے 80 کوڑے مارنے کے بعد اس عورت کا ہاتھ میت سے الگ ہوا.
آج ہم تہمت لگاتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے. استغفراللہ
مہربانی کرکے شئر کریں ۔۔۔۔۔۔
اللہ پاک سب مسلم پر اپنی رحمت فرمائے آمین

https://t.me/sunehrehruf
ویلنٹائن_ڈے (یوم عشاق)

اسعد اعظمی حفظہ اللہ

اگر یہ کہا جائے کہ مغربی تہذیب وتمدن اور جنسی بے راہ روی دونوں مترادف چیزیں ہیں یا لازم وملزوم ہیں تو اس میں مبالغہ نہ ہوگا، اس بے راہ روی کو اگرچہ مغرب نے ’’آزادی‘‘ کا خوشنما عنوان دینے کی کوشش کی ہے، لیکن کوئی سلیم الطبع انسان فطرتاً اس آزادی کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا۔ اس لیے تہذیب وتمدن کے علمبرداروں نے انسانی فطرت کو مسخ کرنے اور اسے جنس زدہ فطرت میں تبدیل کرنے کے لیے مختلف وسائل واسباب کا سہارا لیا ہے۔ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ بھی انہی اسباب ووسائل کا ایک حصہ ہے۔
یہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کیا ہے؟ سالوں پہلے تک ہمارے ملک میں اس ’’ڈے ‘‘ کو منائے جانے کا کوئی تصور نہ تھا، یوں تو سال بھر میں بہت سے یادگاری ایام (Days) منائے جاتے ہیں اور چھوٹے بڑے پیمانے پر تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں لیکن فحاشی اور بے حیائی کے لیے مخصوص کیے گئے اس ’’ڈے‘‘ کو ہندوستانی معاشرے میں عام کرنے کے لیے مغربی اقدار وروایات کے محافظین نے تجارت وصنعت کو آلۂ کار بنایا، چنانچہ جہاں کارڈ بنانے والی اور مختلف قسم کے تحائف (gifts) بنانے والی کمپنیوں نے نئی نسل میں اپنی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی اس بڑے پیمانے پر تشہیر کی کہ اب ہر سال ۱۴؍فروری کو ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، پارکوں اور تفریحی مقامات پر ’’اظہار محبت‘‘ کے فحش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کا پس منظر یا اس کی تاریخ کیا ہے؟ اس بارے میں مؤرخین نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں رومی لوگ ہر سال ۱۴؍فروری کو اپنی ایک دیوی کا جشن مناتے تھے، اس وقت ان کے اسکولوں میں گرچہ مخلوط تعلیم نہیں تھی، مگر اس تیوہار کے موقع پر طلبہ وطالبات غیر اخلاقی حرکتوں کے ارتکاب کا موقع فراہم کرلیا کرتے تھے، چنانچہ لڑکیاں پرچیوں پر اپنا نام لکھ لکھ کر کسی خالی بوتل میں ڈال دیتی تھیں اور قرعہ اندازی کے طریقہ پر ہر لڑکا ایک پرچی نکالتا اور اس پرچی پر جس لڑکی کا نام ہوتا اسی لڑکی کے ساتھ وہ یہ تیوہار مناتا۔ تیسری صدی عیسوی میں ایک مرتبہ رومن امپایر نے کہیں پر فوج کشی کی، لیکن متعدد حملوں کے باوجود اسے ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا، تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ رومی فوجی اپنی بیویوں اور محبوباؤں کے ساتھ مست رہنے کی وجہ سے جمع نہیں ہوپاتے، چنانچہ بادشاہ نے ایک حکم نامہ جاری کرکے تمام پادریوں کو فوجی نوجوانوں کے عقد نکاح سے منع کردیا، تمام پادریوں نے اس حکم نامے پر عمل کیا مگر ویلنٹائن نامی پادری اس کا پابند نہ بنا بلکہ اسے ماننے سے انکار کردیا، چنانچہ اس نے خفیہ طور پر عقد ازواج کا سلسلہ جاری رکھا لیکن زیادہ دنوں تک یہ بات صیغۂ راز میں نہ رہ سکی اور اس کا پردہ فاش ہوگیا، ویلنٹائن گرفتار ہوا اور حکومت کی مخالفت کی اس پر دفعہ لگائی گئی اور پھر اسے پھانسی پر چڑھانے کا فیصلہ سنایا گیا۔ قید خانے میں قید کے دوران اس کی شناسائی جیلر کی لڑکی سے ہوئی جو تنہائی میں اس سے ملنے آتی تھی اور اسے پھول پیش کرتی۔ ویلنٹائن جو کہ ایک مذہبی رہنما تھا اپنے مذہب کی تعلیمات کو نظر انداز کرکے اس لڑکی کے عشق ومحبت کے جال میں پھنس گیا، ایک موقع پر بادشاہ نے اسے معاف کرنے کا اشارہ دیا بشرطے کہ وہ رومی معبودوں کی عبادت اختیار کرلے، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور اپنی عیسائیت پر جما رہا، چنانچہ ۱۴؍فروری ۲۰۷ء کو اسے پھانسی دے دی گئی۔
چونکہ عیسائیت پر اس نے اپنی جان قربان کردی تھی اور اس کے مقابلے میں کسی اور مذہب کو اختیار کرنے سے انکار کردیا تھا اس لیے عیسائیوں نے اسے بزرگ پادری کا رتبہ دیا اور عیسائیت پر ثابت قدم رہنے کے صلہ میں جیلر کی بیٹی سے مذہب مخالف فعل یعنی عشق ومحبت کی غلطی کو درگزر کرنے کا اعلان کیا اور ہر سال اس کی یادگار منانے کا سلسلہ شروع کیا، چنانچہ اس کو ماننے والے اس دن تحفے تحائف، سرخ پھول اور مبارکبادی کے کارڈ ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں اور اس دن کو ’’یوم عشق ومحبت‘‘ قرار دے کر اس وقت جو کچھ کیا جاتا ہے وہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
ویلنٹائن کے ساتھ عیسائی برادری کی وابستگی خالص مذہبی نوعیت کی ہے، یہ شخص محض اس لیے ان کی آنکھوں کا تارا بنا کہ اس نے اپنی عیسائیت کا سودا نہیں کیا، اگر وہ چاہتا تو رومیوں کے مذہب وعقیدے کا اقرار کرکے اپنی جان بخشی کرالیتا، لیکن اس نے اپنے مذہب کو نہ چھوڑا جس کی وجہ سے اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اہل مغرب نے بڑی چالاکی کے ساتھ ویلنٹائن کی یادگار میں منائے جانے والے اس خالص مذہبی تیوہار کو عشق ومحبت کی داستان سے جوڑ کر اسے غیر عیسائی اقوام کی دلچسپی کا سامان بنا دیا اور ان کا بھرپور استحصال کرنے لگے، آج ویلنٹائن ڈے کا منانا ترقی پسندی اور روشن خیالی کی علامت بنتا جارہا ہے، خاص طور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات کو اخلاقی پستی اور جنسی انارکی کی
راہ پر لگانے کے لیے اس دن کا اور اس قسم کے دوسرے دنوں (days)کا خوب خوب استعمال ہوتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے منانے والے نوجوان اس دن کا مطلب یہ ماننے لگے ہیں کہ اس موقع پر انہیں ’’محبت‘‘ کے نام پر وہ تمام حرکتیں کرنے کی آزادی مل جاتی ہے جو تمام حالات میں ممنوع ہوا کرتی ہے، محبت کے خوشنما ظاہری عنوان کی آڑ میں اس دن شیطانی رقص عروج پر ہوتا ہے اور عفت وعصمت کی خوب خوب دھجیاں بکھیری جاتی ہیں، اور مغرب کی ظاہری تڑک بھڑک سے مرعوب اور فریب خوردہ مشرقی نوجوان تمام اخلاقی حدود وقیود کو خیرباد کہنے اور شہوانی جذبات کی تسکین کے لیے حیوانیت پر اتر آتے ہیں۔
ملک کے سنجیدہ طبقے کو غور کرنا ہوگا کہ ویلنٹائن ڈے کی شکل میں ہماری مشرقی تہذیب واقدار پر منڈلا رہے خطرے سے نوجوان نسل کو کس طرح بچایا جائے، یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری مشرقی دنیا کامسئلہ ہے، ویلنٹائن ڈے کے لیے نہ تو مسلمانوں کے یہاں کوئی گنجائش ہے نہ بقیہ مشرقی عوام کے یہاں۔ اس لیے اس تعلق سے کوئی مضبوط اور منصوبہ بند اقدام کرکے مؤثر آواز میں ملک کے عوام کو متنبہ کرنا ہوگا۔
گزشتہ کئی سالوں سے کچھ تنظیموں کی طرف سے اس ’’ڈے‘‘ کی پرزور مخالفت کی جارہی ہے جو بنیادی طور پر ایک مثبت اور حوصلہ افزا کام ہے، البتہ ان تنظیموں نے بعض جگہوں پر شدت پسندی سے کام لیا جو غیر مناسب تھا، اس کی بہر حال حمایت نہیں کی جائے گی، مگر ان کے بنیادی موقف کی تائید ضروری ہے اور ان سے طریقۂ کار پر نظر ثانی کی درخواست کی جانی چاہیے، اور یہ کہ وہ اپنی بیداری مہم کا پیغام خلوص اور محبت سے پہنچائیں۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پارکوں، ہوٹلوں، ریستورانوں اور دیگر مقامات پر ویلنٹائن ڈے کے نام پر جس کھلے پن کا مظاہرہ ہوتا ہے وہ ان تنظیموں کے شدت آمیز بیانات اور دھمکیوں کے پیش نظر نہیں ہوپاتا۔
اگر موقع کی نزاکت کو تسلیم کرنے میں کسی قاری کو ہچکچاہٹ ہو یا مذکورہ معروضات کو مبنی برمغالطہ تصور کرتا ہو تو اسے نومبر ۲۰۰۱ء؁ کا ’’البلاغ‘‘ ممبئی پڑھنا چاہیے، اس شمارے میں ڈاکٹر کلیم ضیاء نے ’’تعلیم وتعلم‘‘ کے کالم میں ’’۔۔۔۔۔۔۔فرعون کو نہ سوجھی‘‘ کے عنوان سے بعض ان ایام (days) کا تذکرہ کیا ہے جن کے بہانے ہماری نئی نسل بالخصوص عصری تعلیم گاہوں میں نشو ونما پانے والے ہمارے جگرپاروں کو بد اخلاقی اور بے حیائی کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔

https://t.me/sunehrehruf