*⛔ ضعیف احادیث و موضوع روایات*
⭕پہلا عشرہ رحمت
⭕دوسرا عشرہ مغفرت
⭕تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی
📌یہ وہ مہینہ ہے کہ
اس کا اول (یعنی ابتدائی دس دن) رحمت ہے۔
اور اس کا اوسط (یعنی درمیانی دس دن) مغفرت ہے۔
اور آخر (یعنی آخری دس دن) جہنم سے آزادی ہے۔
*📄( شعب الایمان ، جلد 3 ، صفحہ 305 ، حدیث 3608 )*
⬆️ یہ روایت ضعیف ہے 🚫
امام ابن خزیمــــہ رحمہ اللہ نے اس حــــدیث پر جو باب قائم کیا ہے وہ کچھ یوں ہے:” اگر يہ حديث صحيح ہو تو فضائل رمضان كے بارہ ميں باب“
۱: اس کا راوی علی بن زید بن جدعان ”ضعیف“ہے۔ *(تقریب التہذیب: ۴۷۳۴)*
٭ جمہور محدثین کرام نے اسے ضعیف کہا ہے۔ *(زوائد ابن ماجہ:۲۲۸)*
٭ امــــام نسائی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے اسے *”ضعیف“* کہا ہے، امام احمد رحمہ اللہ نےاسے”لیس بشئ“ اور امام ابو زرعة اور امام ابو حاتم رحمہمااللہ نے اسے ”لیس بقوی“ کہا ہے۔ دیکھئے: *(العلل لابن ابی حاتم: ۲۵۱/۱، الکامل لابن عدی: ۳۳۳/۶، تقریب التہذیب: ۴۳/۲، الجرح والتعدیل: ۲۴۹/۶)*
٭امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا :”یہ حدیث منکر ہے ۔“ *(العلل لابن ابی حاتم :١/٢٤٩)*
٭ شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا :”منکر“ *(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة :٨٧١)*
٭ شیخ ابو اسحا ق الحوینی مصری حفظہ اللہ نے کہا :”یہ حدیث باطل ہے۔“ (النافلۃ فی الاحادیث الضعیفہ والباطلۃ۔١/٢٩١)
تنبیہ:
ابن عدي (۱۱۵۷/۳) اور العقیلي (۱۶۲/۲) میں اس کا ایک *”سخت ضعیف“* شاہد بھی ہے۔
۱: اس کی سند میں سلام بن سلیمان بن سوار ”منکر الحدیث“ اور سلمة بن الصلت *”غیر معروف“* راوی ہے۔
٭ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لأصل له. *”اس کی کوئی اصل نہیں“*
➡️ t.me/ZaeefHadiths
#سلسلة_ضعیف_احادیث
#رمضان
⭕پہلا عشرہ رحمت
⭕دوسرا عشرہ مغفرت
⭕تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی
📌یہ وہ مہینہ ہے کہ
اس کا اول (یعنی ابتدائی دس دن) رحمت ہے۔
اور اس کا اوسط (یعنی درمیانی دس دن) مغفرت ہے۔
اور آخر (یعنی آخری دس دن) جہنم سے آزادی ہے۔
*📄( شعب الایمان ، جلد 3 ، صفحہ 305 ، حدیث 3608 )*
⬆️ یہ روایت ضعیف ہے 🚫
امام ابن خزیمــــہ رحمہ اللہ نے اس حــــدیث پر جو باب قائم کیا ہے وہ کچھ یوں ہے:” اگر يہ حديث صحيح ہو تو فضائل رمضان كے بارہ ميں باب“
۱: اس کا راوی علی بن زید بن جدعان ”ضعیف“ہے۔ *(تقریب التہذیب: ۴۷۳۴)*
٭ جمہور محدثین کرام نے اسے ضعیف کہا ہے۔ *(زوائد ابن ماجہ:۲۲۸)*
٭ امــــام نسائی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے اسے *”ضعیف“* کہا ہے، امام احمد رحمہ اللہ نےاسے”لیس بشئ“ اور امام ابو زرعة اور امام ابو حاتم رحمہمااللہ نے اسے ”لیس بقوی“ کہا ہے۔ دیکھئے: *(العلل لابن ابی حاتم: ۲۵۱/۱، الکامل لابن عدی: ۳۳۳/۶، تقریب التہذیب: ۴۳/۲، الجرح والتعدیل: ۲۴۹/۶)*
٭امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا :”یہ حدیث منکر ہے ۔“ *(العلل لابن ابی حاتم :١/٢٤٩)*
٭ شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا :”منکر“ *(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة :٨٧١)*
٭ شیخ ابو اسحا ق الحوینی مصری حفظہ اللہ نے کہا :”یہ حدیث باطل ہے۔“ (النافلۃ فی الاحادیث الضعیفہ والباطلۃ۔١/٢٩١)
تنبیہ:
ابن عدي (۱۱۵۷/۳) اور العقیلي (۱۶۲/۲) میں اس کا ایک *”سخت ضعیف“* شاہد بھی ہے۔
۱: اس کی سند میں سلام بن سلیمان بن سوار ”منکر الحدیث“ اور سلمة بن الصلت *”غیر معروف“* راوی ہے۔
٭ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لأصل له. *”اس کی کوئی اصل نہیں“*
➡️ t.me/ZaeefHadiths
#سلسلة_ضعیف_احادیث
#رمضان
Forwarded from ضعیف احادیث و موضوع روایات (زین العابدین)
Forwarded from ضعیف احادیث و موضوع روایات (زین العابدین)
Forwarded from ضعیف احادیث و موضوع روایات (زین العابدین)
Forwarded from ضعیف احادیث و موضوع روایات (زین العابدین)
Forwarded from ضعیف احادیث و موضوع روایات (Zain Muhammadi)
*⛔ "سلسلہ ضعیف و موضوع روایات"*
📌 جمعــــہ کی رات یا دن کو سورہ حم الدخــــان کی تلاوت.
🔹t.me/ZaeefHadiths
•┈┈•◈◉❒ ⚠️ ❒◉◈•┈┈•
#سلسلة_ضعیف_احادیث #جمعہ
📌 جمعــــہ کی رات یا دن کو سورہ حم الدخــــان کی تلاوت.
🔹t.me/ZaeefHadiths
•┈┈•◈◉❒ ⚠️ ❒◉◈•┈┈•
#سلسلة_ضعیف_احادیث #جمعہ
❍┈─┅═••❀﷽❀••═┅─┄❍
*╔─────🚫⛔🚫─────╗* و
🕌 *قـضـــائــے عُــمـــری*
*╚─────🚫⛔🚫─────╝*
⛔
بعض لوگوں میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ کو ایک دن کی پانچ نمازیں مع وتر پڑھ لی جائیں تو ساری عمر کی قضا نمازیں ادا ہو جائیں گی.
🚫 *یہ قطعاً باطل خیال ہے۔*
⭕ _رمضان کی خصوصیت، فضیلت اور اجر و ثواب کی زیادتی اپنی جگہ، لیکن ایک دن کی قضا نمازیں پڑھنے سے ایک دن کی ہی نمازیں ادا ہوں گی، ساری عمر کی نہیں۔_
⛔ *_فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو طریقہ (قضائے عمری) ایجاد کر لیا گیا ہے، یہ بد ترین بدعت ہے،_*
⚫ _اس بارے میں جو روایت ہے، وہ موضوع (گھڑی ہوئی) ہے یہ عمل سخت ممنوع ہے ،_
♻
ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود، اس جہالت قبیحہ اور واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے،
🎙 *حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:*
"جو شخص نماز بھول گیا، تو جب اسے یاد آئے اسے ادا کر لے، اس کا کفارہ سوائے اس کی ادائیگی کے کچھ نہیں۔"
🔝 _اسے امام احمد ، بخاری، مسلم (مذکورہ الفاظ بھی اس کے ہیں) ترمذی، نسائی اور دیگر محدثین نے حضرت انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔_
📜 *حدثنا محمد بن کثير أخبرنا همام عن قتادة عن أنس بن مالک أن النبي صلی الله عليه وسلم قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها لا کفارة لها إلا ذلک*
✨ترجمہ :
محمد بن کثیر، ہمام، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
*📌 "جو شخص کوئی نماز (پڑھنا) بھول جائے، تو جب یاد آئے اس کو پڑھ لے اور اس پر سوائے قضا کے کوئی کفارہ نہیں ہے۔"*
_📒 سنن ابوداؤد:جلد اول: حدیث نمبر 439_
📎 اسی طرح صحیح مسلم میں ہے ۔
📜 *حدثنا هداب بن خالد حدثنا همام حدثنا قتادة عن أنس بن مالک أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها لا کفارة لها إلا ذلک قال قتادة وأقم الصلاة لذکري*
✨ترجمہ :
ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے جب اسے یاد آجائے، تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے، اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں-" حضرت قتادہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے (وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِي) پڑھی۔
📘 *صحیح مسلم: جلد اول: حدیث نمبر: 1560*
🚫 حدیث *''من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکل صلوٰۃ فائتۃ فی عمرہ الی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لانہ مناقض للاجماع علی ان شیأ من العبادات لا تقوم مقام فائتۃ سنوات*
🗞 _الاسرار الموضوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ حدیث ۹۵۳ مطبوعہ دارالکتب العربیۃ بیروت ص ۲۴۲_
🔊 *علامہ قاری علیہ رحمۃ الباری موضوعات کبیر میں کہتے ہیں:*
حدیث ''جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کر لی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہو جاتا ہے_''
*🚫 یقینی طور پر باطل ہے، کیونکہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ عبادات میں سے کوئی شے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہو سکتی-*
🌷 _امام ابن حجر کی تحفہ شرح منہاج للامام النووی میں پھر علامہ زرقانی شرح مواہب امام قسطلانی رحمہم اللّٰہ تعالٰی میں فرماتے ہیں:_
📜 *قبح من ذلک مااعتید فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلٰوتھا زاعمین انھا تکفر صلٰوۃ العام اوالعمر المتروکۃ و ذلک حرام لوجوہ لا تخفی*
✨ترجمہ :
اس سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے، جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کر لی جائیں کہ اس سے سال یا سابقہ تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے، جو نہایت ہی واضح ہیں۔
📙 _شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ واما حفیظۃ رمضان دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۱۱۰_
🚫 *_قضائے عمری کو شب ِقدر یا آخری جمعہ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اس ایک نماز سے ادا ہو گئیں۔ یہ محض باطل ہے۔_*
📕 _بہار شریعت 'حصہ 4_
#سلسلة_موضوع_روایات #رمضان
*══════❖✨❖═══════*
*╔─────🚫⛔🚫─────╗* و
🕌 *قـضـــائــے عُــمـــری*
*╚─────🚫⛔🚫─────╝*
⛔
بعض لوگوں میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ کو ایک دن کی پانچ نمازیں مع وتر پڑھ لی جائیں تو ساری عمر کی قضا نمازیں ادا ہو جائیں گی.
🚫 *یہ قطعاً باطل خیال ہے۔*
⭕ _رمضان کی خصوصیت، فضیلت اور اجر و ثواب کی زیادتی اپنی جگہ، لیکن ایک دن کی قضا نمازیں پڑھنے سے ایک دن کی ہی نمازیں ادا ہوں گی، ساری عمر کی نہیں۔_
⛔ *_فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو طریقہ (قضائے عمری) ایجاد کر لیا گیا ہے، یہ بد ترین بدعت ہے،_*
⚫ _اس بارے میں جو روایت ہے، وہ موضوع (گھڑی ہوئی) ہے یہ عمل سخت ممنوع ہے ،_
♻
ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود، اس جہالت قبیحہ اور واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے،
🎙 *حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:*
"جو شخص نماز بھول گیا، تو جب اسے یاد آئے اسے ادا کر لے، اس کا کفارہ سوائے اس کی ادائیگی کے کچھ نہیں۔"
🔝 _اسے امام احمد ، بخاری، مسلم (مذکورہ الفاظ بھی اس کے ہیں) ترمذی، نسائی اور دیگر محدثین نے حضرت انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔_
📜 *حدثنا محمد بن کثير أخبرنا همام عن قتادة عن أنس بن مالک أن النبي صلی الله عليه وسلم قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها لا کفارة لها إلا ذلک*
✨ترجمہ :
محمد بن کثیر، ہمام، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
*📌 "جو شخص کوئی نماز (پڑھنا) بھول جائے، تو جب یاد آئے اس کو پڑھ لے اور اس پر سوائے قضا کے کوئی کفارہ نہیں ہے۔"*
_📒 سنن ابوداؤد:جلد اول: حدیث نمبر 439_
📎 اسی طرح صحیح مسلم میں ہے ۔
📜 *حدثنا هداب بن خالد حدثنا همام حدثنا قتادة عن أنس بن مالک أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها لا کفارة لها إلا ذلک قال قتادة وأقم الصلاة لذکري*
✨ترجمہ :
ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے جب اسے یاد آجائے، تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے، اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں-" حضرت قتادہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے (وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِي) پڑھی۔
📘 *صحیح مسلم: جلد اول: حدیث نمبر: 1560*
🚫 حدیث *''من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکل صلوٰۃ فائتۃ فی عمرہ الی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لانہ مناقض للاجماع علی ان شیأ من العبادات لا تقوم مقام فائتۃ سنوات*
🗞 _الاسرار الموضوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ حدیث ۹۵۳ مطبوعہ دارالکتب العربیۃ بیروت ص ۲۴۲_
🔊 *علامہ قاری علیہ رحمۃ الباری موضوعات کبیر میں کہتے ہیں:*
حدیث ''جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کر لی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہو جاتا ہے_''
*🚫 یقینی طور پر باطل ہے، کیونکہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ عبادات میں سے کوئی شے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہو سکتی-*
🌷 _امام ابن حجر کی تحفہ شرح منہاج للامام النووی میں پھر علامہ زرقانی شرح مواہب امام قسطلانی رحمہم اللّٰہ تعالٰی میں فرماتے ہیں:_
📜 *قبح من ذلک مااعتید فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلٰوتھا زاعمین انھا تکفر صلٰوۃ العام اوالعمر المتروکۃ و ذلک حرام لوجوہ لا تخفی*
✨ترجمہ :
اس سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے، جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کر لی جائیں کہ اس سے سال یا سابقہ تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے، جو نہایت ہی واضح ہیں۔
📙 _شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ واما حفیظۃ رمضان دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۱۱۰_
🚫 *_قضائے عمری کو شب ِقدر یا آخری جمعہ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اس ایک نماز سے ادا ہو گئیں۔ یہ محض باطل ہے۔_*
📕 _بہار شریعت 'حصہ 4_
#سلسلة_موضوع_روایات #رمضان
*══════❖✨❖═══════*
*⛔️ رمضان سے متعلق ضعیف اور موضوع روایات :::*👇🏻
*❌رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا !*(السلسلة الضعیفة:١٥٦٩)
*❌روزہ رکھو صحت مند رہو-*(السلسلة الضعیفة:٢٥٣)
*❌اگر بندے جان لیں کہ رمضان میں کتنی فضیلتیں ہیں تو میری امت تمنا کرے گی کہ سال بھر رمضان رہے۔*(ضعیف الترغیب:٥٩٦)
*❌’’اے اللہ تو ہمیں رجب اور شعبان میں برکت دے اور رمضان تک پہنچا۔‘‘*(ضعیف الجامع: ٤٣٩٥)
*❌رسولﷺ جب افطار کرتے تو کہتے اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت اے اللہ میں نے تیرے لیے ہی روزہ رکھا اورتیرے رزق پر ہی افطار کیا*(ضعیف الجامع: ٤٣٤٩)
*❌روزے دار کا سونا عبادت ہے*(السلسلة الضعیفة:٤٦٩٦)
*❌جو شخص رمضان کا ایک روزہ بغیر کسی شرعی رخصت یا بیماری کے نہ رکھے تو ساری زندگی روزے بھی رکھ لے اس کی کمی پوری نہیں کر سکتے*(ضعیف الترمذی: ٧٢٣)
*❌رمضان” الله سبحانہ و تعالی کے ناموں میں ایک ہے، اس لئے اسے صرف رمضان نہ کہو بلکہ "ماہ رمضان” یا "شہر رمضان” کہ کر یاد کرو۔*(السلسلة الضعیفة:٦٧٦٨)
#رمضان #سلسلة_ضعیف_احادیث
#سلسلة_موضوع_روایات
🔹t.me/ZaeefHadiths
*❌رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا !*(السلسلة الضعیفة:١٥٦٩)
*❌روزہ رکھو صحت مند رہو-*(السلسلة الضعیفة:٢٥٣)
*❌اگر بندے جان لیں کہ رمضان میں کتنی فضیلتیں ہیں تو میری امت تمنا کرے گی کہ سال بھر رمضان رہے۔*(ضعیف الترغیب:٥٩٦)
*❌’’اے اللہ تو ہمیں رجب اور شعبان میں برکت دے اور رمضان تک پہنچا۔‘‘*(ضعیف الجامع: ٤٣٩٥)
*❌رسولﷺ جب افطار کرتے تو کہتے اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت اے اللہ میں نے تیرے لیے ہی روزہ رکھا اورتیرے رزق پر ہی افطار کیا*(ضعیف الجامع: ٤٣٤٩)
*❌روزے دار کا سونا عبادت ہے*(السلسلة الضعیفة:٤٦٩٦)
*❌جو شخص رمضان کا ایک روزہ بغیر کسی شرعی رخصت یا بیماری کے نہ رکھے تو ساری زندگی روزے بھی رکھ لے اس کی کمی پوری نہیں کر سکتے*(ضعیف الترمذی: ٧٢٣)
*❌رمضان” الله سبحانہ و تعالی کے ناموں میں ایک ہے، اس لئے اسے صرف رمضان نہ کہو بلکہ "ماہ رمضان” یا "شہر رمضان” کہ کر یاد کرو۔*(السلسلة الضعیفة:٦٧٦٨)
#رمضان #سلسلة_ضعیف_احادیث
#سلسلة_موضوع_روایات
🔹t.me/ZaeefHadiths
آپ مشرک ہیں، پاک بستر پر نہ بیٹھیں
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کی طرف منسوب ہے کہ ایمان لانے سے قبل ان کے والد سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ بستر پر بیٹھنے لگے تو انہوں نے بستر اٹھا دیا اور کہا:
أنت امرؤ نجس مشرك
"آپ پلید اور مشرک ہیں۔"(الطبقات الكبرى:8/ 79)
⬅️یہ جھوٹا واقعہ ہے ❌، کیوں کہ سند میں واقدی کذاب اور زہری کا ارسال ہے۔
#مشہور_واقعات_کی_حقیقت
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کی طرف منسوب ہے کہ ایمان لانے سے قبل ان کے والد سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ بستر پر بیٹھنے لگے تو انہوں نے بستر اٹھا دیا اور کہا:
أنت امرؤ نجس مشرك
"آپ پلید اور مشرک ہیں۔"(الطبقات الكبرى:8/ 79)
⬅️یہ جھوٹا واقعہ ہے ❌، کیوں کہ سند میں واقدی کذاب اور زہری کا ارسال ہے۔
#مشہور_واقعات_کی_حقیقت
Forwarded from 📚حدیثِ رسـولﷺ🌴 (امة المبین مفلحاتی)
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
اھلاً و سھلاً مرحبا بکم 💐
1⃣ سلسلہ جات احادیث رسولﷺ ::
📌(اس زمرے میں ہمارے بنائے گئے سب تک کہ تمام احادیث کے سلسلوں کو محفوظ کیا جارہا ، ہیش ٹیگ # پر کلک کر تمام سلسلہ حاصل کریں)
#سلسلہ_60_سنہری_احادیث(مکمل)
#جنت_میں_لے_جانے_والے سو اعمال(مکمل)
#رسول_اللہ_ﷺ_کی_دعائیں_رمضان(مکمل)
#حدیث_رسول_ﷺ_رمضان_کورس(مکمل)
#سلسلة_الأحاديث_الصحيحة(جاری•••)
#تعلیم_الحدیث_بالتحقیق(جاری•••)
#بھولی_بسری_سنتیں (جاری•••)
#شرح_عمدة_الاحکام ، اوڈیو لیکچر عبداللہ ناصر رحمانی،(جاری ہے•••)
#منتخب_آیات #منتخب_احادیث
2⃣ کتب احادیث رسولﷺ ::
📌(اس زمرے میں تمام کتب احادیث کو ہیش ٹیگ # کے ساتھ جمع کیا جارہا کتاب پر کلک کر احادیث صحیحہ حاصل کرسکتے)
#صحیح_بخاری
#صحیح_مسلم
#جامع_ترمذی
#سنن_ابوداود
#سنن_نسائی
#سنن_ابن_ماجہ
3⃣ ابواب و عناوین احادیث رسولﷺ ::
(📌آپ لوگوں کی مزید آسانی کے لئے عنوانات پر # لگاکر اس زمرے میں احادیث جمع کی گئی مثلاً نماز پر احادیث چاہیے تو نماز والے ہیش ٹیگ# کو دبائیں اور تمام احادیث حاصل کریں)
#نماز_کا_بیان #فضائل_اعمال #اخلاق_و_آداب_کا_بیان #مساجد_کا_بیان #طہارت_کا_بیان #زکاة_صدقات_کا_بیان
#رمضان #اسلامی_مہینوں_کا_بیان #روزوں_کا_بیان
#توبہ_استغفار_کا_بیان #گناہوں_کا_بیان #قسم_اور_کفاروں_کے_احکام_ #فتنوں_کا_بیان #طلاق_کا_بیان #دعا_کا_بیان #اذان_کا_بیان #عدت_کا_بیان #طب_نبوی #احکام_و_مسائل
☀️نوٹ:: نمونے کے طور پر کچھ ابواب کے عنوان لگائے گئے مزید ابواب وقتاً فوقتاً شامل ہوتے رہیں گے ان شاء اللہ
اھلاً و سھلاً مرحبا بکم 💐
1⃣ سلسلہ جات احادیث رسولﷺ ::
📌(اس زمرے میں ہمارے بنائے گئے سب تک کہ تمام احادیث کے سلسلوں کو محفوظ کیا جارہا ، ہیش ٹیگ # پر کلک کر تمام سلسلہ حاصل کریں)
#سلسلہ_60_سنہری_احادیث(مکمل)
#جنت_میں_لے_جانے_والے سو اعمال(مکمل)
#رسول_اللہ_ﷺ_کی_دعائیں_رمضان(مکمل)
#حدیث_رسول_ﷺ_رمضان_کورس(مکمل)
#سلسلة_الأحاديث_الصحيحة(جاری•••)
#تعلیم_الحدیث_بالتحقیق(جاری•••)
#بھولی_بسری_سنتیں (جاری•••)
#شرح_عمدة_الاحکام ، اوڈیو لیکچر عبداللہ ناصر رحمانی،(جاری ہے•••)
#منتخب_آیات #منتخب_احادیث
2⃣ کتب احادیث رسولﷺ ::
📌(اس زمرے میں تمام کتب احادیث کو ہیش ٹیگ # کے ساتھ جمع کیا جارہا کتاب پر کلک کر احادیث صحیحہ حاصل کرسکتے)
#صحیح_بخاری
#صحیح_مسلم
#جامع_ترمذی
#سنن_ابوداود
#سنن_نسائی
#سنن_ابن_ماجہ
3⃣ ابواب و عناوین احادیث رسولﷺ ::
(📌آپ لوگوں کی مزید آسانی کے لئے عنوانات پر # لگاکر اس زمرے میں احادیث جمع کی گئی مثلاً نماز پر احادیث چاہیے تو نماز والے ہیش ٹیگ# کو دبائیں اور تمام احادیث حاصل کریں)
#نماز_کا_بیان #فضائل_اعمال #اخلاق_و_آداب_کا_بیان #مساجد_کا_بیان #طہارت_کا_بیان #زکاة_صدقات_کا_بیان
#رمضان #اسلامی_مہینوں_کا_بیان #روزوں_کا_بیان
#توبہ_استغفار_کا_بیان #گناہوں_کا_بیان #قسم_اور_کفاروں_کے_احکام_ #فتنوں_کا_بیان #طلاق_کا_بیان #دعا_کا_بیان #اذان_کا_بیان #عدت_کا_بیان #طب_نبوی #احکام_و_مسائل
☀️نوٹ:: نمونے کے طور پر کچھ ابواب کے عنوان لگائے گئے مزید ابواب وقتاً فوقتاً شامل ہوتے رہیں گے ان شاء اللہ
*❂•═══ ♢◇❂﷽❂◇♢ ═══•❂*
*彡ضـعـیف اور مـن گـھـڑت احــادیــث 🚫彡*
❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂
*📃 پوسٹ نمبــــــر: 21*
*🌹اَلسَّـــــــــلاَمُ عَلَيْــــــــكُم*
*وَ رَحْمَـــةُ اللہِ وَ بَــــــرَكَــــــاتُهُ*
*◼ℹ حدیث کا انکار کیوں کیا جاتا ہے؟*
*❗اب اگر حدیث کی تشریعی حیثیت کو ہی مجروح کر دیا جائے تو قرآن موم کی ایک ناک بن جاتا ہے جس کو جدھر چاہے حسبِ منشاء ادھر موڑ دیں ۔*
🔝یہی سبب ہے کہ انکارِ
*حدیث* اور *تجدد* کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔
_*📢 آپ کو کوئی ایسا شخص نہ ملے گا جس پر منکرِ حدیث کی تہمت صادق آتی ہو اور اس میں "روشن خیالی" اور تجدد کے جراثیم نہ پائے جاتے ہوں۔*_
🍂انکارِ حدیث کی تخم پروری مستشرقین نے کی جبکہ اس تخم سے نکلنے والی کونپلوں کی آبیاری کا فریضہ تجدد پسند مرعوب ذہنیت مغرب پرست طبقے نے انجام دیا۔
📛 پھر چاہے وہ غلام احمد پرویز کی طرح کے کھلے ڈھلے حدیث کا انکار کرنے والے *"مسٹر سوٹ بوٹ"* ہوں یا پھر خبرِ واحد کی *"فقہی موشگافیوں"* کے پردے میں حدیث کی تشریعت کے انکار ی غامدی صاحب ہوں۔
*🚫 حدیث کے ہوتے ہوئے قرآن کے احکامات سے تجدد و موڈرنزم برآمد کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے سو مناسب خیال کیا جاتا ہے کہ مختلف حیلے بہانوں سے حدیث کی حیثیت کو مشکوک کیا جائے۔*
*📚 کتبِ حدیث سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی روایات سامنے لائی جائیں جن کا ایک عام شخص کی زندگی اور اس کے شب و روز سے بھلے کوئی تعلق نہ ہو لیکن چونکہ وہ بظاہر مشکل آثار ہوں اور عام عوام کے ذہنوں کو خلجان میں مبتلا کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہوں، سو ان کو ظاہر کرکے ان احادیث کی "روشنی" میں حدیث کی تشریعت کو مبہم کر دیا جائے اور یوں ذخیرہ حدیث کالعدم و بیکار ٹھہر جائے گا۔*
♻اب جب ذخیرہ حدیث کالعدم قرار پایا تو پھر کیا ضرورت رہی کہ انکی اپنی *"عقل سلیم"* کے ہوتے ہوئے حدیث کو قرآن کی تشریح و تعبیر کے لیے استعمال کیا جائے۔
‼ لیجیے *"عقل سلیم"* کو اپنے ساتھ اور تفسیر بالرائے ( یعنی اپنی رائے کے مطابق تفسیر ) کرتے جائیے۔ اور پھر رائے بھی وہی جو چلتے زمانے کے ساتھ ہو اور آپ کی زندگی سے قدغنیں اٹھاتی جائے۔
*💥 موسیقی حلال کیجیے ، مصوری حلال کیجیے ، متعہ حلال کیجیے اور یوں غیروں میں گھل مل جائیے کہ آپ کی شناخت بھی الگ محسوس نہ ہو۔*
_💠 میں تو کہتا ہوں کہ غائب کیجئے صفحۂ ہستی اور انسانوں کے ذہنوں سے احادیث کے ان ذخیروں کو اور پھر ایک امت بن کر دکھا دیجئے تو میں جانوں۔ جسے آپ اسلامی تہذیب اور ثقافت کہتے ہیں وہ اس "غیر مطلوب" حدیث کی ہی تو مرہون منت ہے۔ یہ نہیـــــں رہے گی تو پھر آپ اور "وہ" دونوں ایک جیسے ہو جائیں گے اور پھر کوئی آپ پر دقیانوسیت کی پھبتی بھی نہ کس سکے گا۔_
*📜تحریر: محمد فھد حارث*
t.me/ZaeefHadiths
*彡ضـعـیف اور مـن گـھـڑت احــادیــث 🚫彡*
⛔ جن کا نبی ﷺ اور دین سے
کوئی تعلق نہیـــــں
❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂❂
*📃 پوسٹ نمبــــــر: 21*
*🌹اَلسَّـــــــــلاَمُ عَلَيْــــــــكُم*
*وَ رَحْمَـــةُ اللہِ وَ بَــــــرَكَــــــاتُهُ*
*◼ℹ حدیث کا انکار کیوں کیا جاتا ہے؟*
✨ چونکہ قرآن بذریعہ نبی ﷺ امت تک پہنچا ہے اس لیے قرآن اپنے کئی بیانات میں مجمل ہے۔ اس مجمل کی تفصیل و تشریح کے لئے ذاتِ نبوی ﷺ کی طرف رجوع ضروری ہے۔
*❗اب اگر حدیث کی تشریعی حیثیت کو ہی مجروح کر دیا جائے تو قرآن موم کی ایک ناک بن جاتا ہے جس کو جدھر چاہے حسبِ منشاء ادھر موڑ دیں ۔*
🔝یہی سبب ہے کہ انکارِ
*حدیث* اور *تجدد* کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔
_*📢 آپ کو کوئی ایسا شخص نہ ملے گا جس پر منکرِ حدیث کی تہمت صادق آتی ہو اور اس میں "روشن خیالی" اور تجدد کے جراثیم نہ پائے جاتے ہوں۔*_
🍂انکارِ حدیث کی تخم پروری مستشرقین نے کی جبکہ اس تخم سے نکلنے والی کونپلوں کی آبیاری کا فریضہ تجدد پسند مرعوب ذہنیت مغرب پرست طبقے نے انجام دیا۔
📛 پھر چاہے وہ غلام احمد پرویز کی طرح کے کھلے ڈھلے حدیث کا انکار کرنے والے *"مسٹر سوٹ بوٹ"* ہوں یا پھر خبرِ واحد کی *"فقہی موشگافیوں"* کے پردے میں حدیث کی تشریعت کے انکار ی غامدی صاحب ہوں۔
🔝 ایسے تمام حضرات میں آپ کو ایک چیز مشترکہ نظر آئے گی اور وہ ہوگی تجدد پسندی و روشن خیالی
*🚫 حدیث کے ہوتے ہوئے قرآن کے احکامات سے تجدد و موڈرنزم برآمد کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے سو مناسب خیال کیا جاتا ہے کہ مختلف حیلے بہانوں سے حدیث کی حیثیت کو مشکوک کیا جائے۔*
🔴 اس سلسلے میں سب سے بہترین و کامیاب لائحہ عمل یہ ہوتا ہے کہ حدیث کی حجیت کا سرے سے انکار کرنے کے بجائے مشکل الآثار ( مبہم روایات ) کا فائدہ اٹھایا جائے۔
*📚 کتبِ حدیث سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی روایات سامنے لائی جائیں جن کا ایک عام شخص کی زندگی اور اس کے شب و روز سے بھلے کوئی تعلق نہ ہو لیکن چونکہ وہ بظاہر مشکل آثار ہوں اور عام عوام کے ذہنوں کو خلجان میں مبتلا کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہوں، سو ان کو ظاہر کرکے ان احادیث کی "روشنی" میں حدیث کی تشریعت کو مبہم کر دیا جائے اور یوں ذخیرہ حدیث کالعدم و بیکار ٹھہر جائے گا۔*
♻اب جب ذخیرہ حدیث کالعدم قرار پایا تو پھر کیا ضرورت رہی کہ انکی اپنی *"عقل سلیم"* کے ہوتے ہوئے حدیث کو قرآن کی تشریح و تعبیر کے لیے استعمال کیا جائے۔
‼ لیجیے *"عقل سلیم"* کو اپنے ساتھ اور تفسیر بالرائے ( یعنی اپنی رائے کے مطابق تفسیر ) کرتے جائیے۔ اور پھر رائے بھی وہی جو چلتے زمانے کے ساتھ ہو اور آپ کی زندگی سے قدغنیں اٹھاتی جائے۔
*💥 موسیقی حلال کیجیے ، مصوری حلال کیجیے ، متعہ حلال کیجیے اور یوں غیروں میں گھل مل جائیے کہ آپ کی شناخت بھی الگ محسوس نہ ہو۔*
_💠 میں تو کہتا ہوں کہ غائب کیجئے صفحۂ ہستی اور انسانوں کے ذہنوں سے احادیث کے ان ذخیروں کو اور پھر ایک امت بن کر دکھا دیجئے تو میں جانوں۔ جسے آپ اسلامی تہذیب اور ثقافت کہتے ہیں وہ اس "غیر مطلوب" حدیث کی ہی تو مرہون منت ہے۔ یہ نہیـــــں رہے گی تو پھر آپ اور "وہ" دونوں ایک جیسے ہو جائیں گے اور پھر کوئی آپ پر دقیانوسیت کی پھبتی بھی نہ کس سکے گا۔_
*📜تحریر: محمد فھد حارث*
#حجیت_حدیث
#حدیث_کا_حجت_ہونا
t.me/ZaeefHadiths
Telegram
ضعیف احادیث و موضوع روایات
https://t.me/joinchat/AAAAAEscZe0om63ol8Q8jQ
📚 اس چینل میں صرف ضعیف اور موضوع من گھڑت روایات شیئر کی جائیں گی ان شاءاللہ✔
🥀خود بھی ایڈ ہوں اور دیگر احباب کو بھی ایڈ کروائیں
🌹لنک زیادہ سے زیادہ شیئر کریں
💞جــــزاک اللہ خــــیرا💞
📚 اس چینل میں صرف ضعیف اور موضوع من گھڑت روایات شیئر کی جائیں گی ان شاءاللہ✔
🥀خود بھی ایڈ ہوں اور دیگر احباب کو بھی ایڈ کروائیں
🌹لنک زیادہ سے زیادہ شیئر کریں
💞جــــزاک اللہ خــــیرا💞
*رفع الیدین نہ کرنے والوں کے دلائل کا تجزیہ*
جن احادیث سے رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لی جاتی ہے ان کا مختصر تجزیہ ملاحظہ فرمائیں:
پہلی حدیث:
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ نماز میں سکون اختیار کرو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۰)
تجزیہ:
اس حدیث میں اس مقام کا ذکر نہیں جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم ہاتھ اُٹھا رہے تھے اور آپ ﷺ نے انہیں منع فرمایا۔ جابر بن سمرہ ہی سے صحیح مسلم میں اسی حدیث سے متصل دو روایات اور بھی ہیں اور بات کو پوری طرح واضح کر رہی ہیں۔
1۔حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب ہم نماز پڑھتے تو نماز کے خاتمہ پر دائیں بائیں (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۱)
2۔حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز کے خاتمہ پر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو گویا وہ شریر گھوڑں کی دمیں ہیں۔ تم نماز کے خاتمہ پر صرف زبان سے (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرو۔ (مسلم، حوالہ سابقہ۔ حدیث ۴۳۱ کی ذیلی حدیث)
امام نوویؒ ’’المجموع‘‘ میں فرماتے ہیں: جابر بن سمرہؓ کی اس روایت سے رکوع میں جاتے اور اُٹھتے وقت رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لینا عجیب بات اور سنت سے جہالت کی قبیح قسم ہے۔ کیونکہ یہ حدیث رکوع کو جاتے اور اُٹھتے وقت کے رفع الیدین کے بارے میں نہیں بلکہ تشہد میں سلام کے وقت دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرنے کی ممانعت کے بارے میں ہے۔ محدثین اور جن کو محدثین کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق ہے، ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کے بعد امام نووی امام بخاریؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض جاہل لوگوں کا دلیل پکڑنا صحیح نہیں کیونکہ یہ سلام کے وقت ہاتھ اُٹھانے کے بارے میں ہے اور جو عالم ہے وہ اس طرح کی دلیل نہیں پکڑتا کیونکہ یہ معروف و مشہور بات ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہوتی تو ابتدائے نماز اور عید کا رفع الیدین بھی منع ہو جاتا مگر اس میں خاص رفع الیدین کو بیان نہیں کیا گیا۔ امام بخاری فرماتے ہیں پس ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ نبی ﷺ پر وہ بات کہہ رہے ہیں جو آپ نے نہیں کہی کیونکہ اللہ فرماتا ہے:
فَلَیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَںْ أَمْرِہِج أَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَھُإْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ (الفرقان ۲۴/۶۳)
’’پس ان لوگوں کو جو نبی ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ انہیں (دنیا میں) کوئی فتنہ یا (آخرت میں) درد ناک عذاب پہنچے۔‘‘
دوسری حدیث:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہ اُٹھائے مگر پہلی مرتبہ۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۸۔ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی رفع الیدین عند الرکوع، حدیث ۲۵۷)
تجزیہ:
امام ابو داؤد اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں: (لَیْسَ ھُوَ بِصَحِیْحٍ عَلٰی ھَذَا اللَّفْظِ)
’’یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (ابو داؤد، حوالہ مذکور)
جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
(لَمْ یَثْبُتْ حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ) (ترمذی، حوالہ، مذکور، حدیث ۲۵۵)
’’یعنی عبد اللہ بن مسعودؓ کے ترک رفع الیدین کی حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘
امام ابن حبانؒ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس میں بہت سی علتیں ہیں جو اسے باطل بنا رہی ہیں۔ (مثلاً اس میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں۔ مُدَلِّسْ کی عن والی روایت تفرد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے۔ ز۔ع)
تیسری حدیث:
حضرت براءؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتے۔ (ثُمَّ لَا یَعُوْدُ) پھر نہیں اُٹھاتے تھے۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۹)
تجزیہ:
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اسے سفیان بن عینیہ، امام شافعی، امام بخاری کے استاد امام حمیدی اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمۃ الحدیث رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ کیونکہ یزید بن ابی زیاد پہلے (لَا یَعُوْدُ) نہیں کہتا تھا، اہل کوفہ کے پڑھانے پر اس نے یہ الفاظ بڑھا دیئے۔ مزید براں یزید بن ابی زیاد
جن احادیث سے رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لی جاتی ہے ان کا مختصر تجزیہ ملاحظہ فرمائیں:
پہلی حدیث:
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ نماز میں سکون اختیار کرو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۰)
تجزیہ:
اس حدیث میں اس مقام کا ذکر نہیں جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم ہاتھ اُٹھا رہے تھے اور آپ ﷺ نے انہیں منع فرمایا۔ جابر بن سمرہ ہی سے صحیح مسلم میں اسی حدیث سے متصل دو روایات اور بھی ہیں اور بات کو پوری طرح واضح کر رہی ہیں۔
1۔حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب ہم نماز پڑھتے تو نماز کے خاتمہ پر دائیں بائیں (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۱)
2۔حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز کے خاتمہ پر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو گویا وہ شریر گھوڑں کی دمیں ہیں۔ تم نماز کے خاتمہ پر صرف زبان سے (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرو۔ (مسلم، حوالہ سابقہ۔ حدیث ۴۳۱ کی ذیلی حدیث)
امام نوویؒ ’’المجموع‘‘ میں فرماتے ہیں: جابر بن سمرہؓ کی اس روایت سے رکوع میں جاتے اور اُٹھتے وقت رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لینا عجیب بات اور سنت سے جہالت کی قبیح قسم ہے۔ کیونکہ یہ حدیث رکوع کو جاتے اور اُٹھتے وقت کے رفع الیدین کے بارے میں نہیں بلکہ تشہد میں سلام کے وقت دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرنے کی ممانعت کے بارے میں ہے۔ محدثین اور جن کو محدثین کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق ہے، ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کے بعد امام نووی امام بخاریؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض جاہل لوگوں کا دلیل پکڑنا صحیح نہیں کیونکہ یہ سلام کے وقت ہاتھ اُٹھانے کے بارے میں ہے اور جو عالم ہے وہ اس طرح کی دلیل نہیں پکڑتا کیونکہ یہ معروف و مشہور بات ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہوتی تو ابتدائے نماز اور عید کا رفع الیدین بھی منع ہو جاتا مگر اس میں خاص رفع الیدین کو بیان نہیں کیا گیا۔ امام بخاری فرماتے ہیں پس ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ نبی ﷺ پر وہ بات کہہ رہے ہیں جو آپ نے نہیں کہی کیونکہ اللہ فرماتا ہے:
فَلَیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَںْ أَمْرِہِج أَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَھُإْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ (الفرقان ۲۴/۶۳)
’’پس ان لوگوں کو جو نبی ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ انہیں (دنیا میں) کوئی فتنہ یا (آخرت میں) درد ناک عذاب پہنچے۔‘‘
دوسری حدیث:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہ اُٹھائے مگر پہلی مرتبہ۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۸۔ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی رفع الیدین عند الرکوع، حدیث ۲۵۷)
تجزیہ:
امام ابو داؤد اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں: (لَیْسَ ھُوَ بِصَحِیْحٍ عَلٰی ھَذَا اللَّفْظِ)
’’یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (ابو داؤد، حوالہ مذکور)
جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
(لَمْ یَثْبُتْ حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ) (ترمذی، حوالہ، مذکور، حدیث ۲۵۵)
’’یعنی عبد اللہ بن مسعودؓ کے ترک رفع الیدین کی حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘
امام ابن حبانؒ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس میں بہت سی علتیں ہیں جو اسے باطل بنا رہی ہیں۔ (مثلاً اس میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں۔ مُدَلِّسْ کی عن والی روایت تفرد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے۔ ز۔ع)
تیسری حدیث:
حضرت براءؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتے۔ (ثُمَّ لَا یَعُوْدُ) پھر نہیں اُٹھاتے تھے۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۹)
تجزیہ:
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اسے سفیان بن عینیہ، امام شافعی، امام بخاری کے استاد امام حمیدی اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمۃ الحدیث رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ کیونکہ یزید بن ابی زیاد پہلے (لَا یَعُوْدُ) نہیں کہتا تھا، اہل کوفہ کے پڑھانے پر اس نے یہ الفاظ بڑھا دیئے۔ مزید براں یزید بن ابی زیاد
ضعیف اور شیعہ بھی تھا۔ آخری عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا (تقریب) نیز مدلس تھا۔
علاوہ ازیں رفع الیدین کی احادیث اولیٰ ہیں کیونکہ وہ مثبت ہیں اور نافی پر مثبت کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ منافقین آستینوں اور بغلوں میں بت رکھ کر لاتے تھے بتوں کو گرانے کے لئے رفع الیدین کیا گیا، بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن کتب احادیث میں اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ البتہ یہ قول جہلاء کی زبانوں پر گھومتا رہتا ہے۔ درج ذیل حقائق اس قول کی کمزوری واضح کر دیتے ہیں:
1. مکہ میں بت تھے مگر جماعت فرض نہیں تھی۔ مدینہ میں جماعت فرض ہوئی مگر بت نہیں تھے، پھر منافقین مدینہ، کن بتوں کو بغلوں میں دبائے مسجدوں میں چلے آتے تھے؟
2. تعب ہے کہ جاہل لوگ اس گپ کو صحیح مانتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نبی ﷺ کو عالم الغیب بھی مانتے ہیں حالانکہ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو رفع الیدین کروانے کے بغیر بھی جان سکتے تھے کہ فلاں فلاں شخص مسجد میں بت لے آیا ہے۔
3. بت ہی گرانے تھے تو یہ، تکبیر تحریمہ کہتے وقت جو رفع الیدین کی جاتی ہے اور اسی طرح رکوع اور سجود کے دوران بھی گر سکتے تھے اس کے لئے الگ سے رفع الیدین کی سنت جاری کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔
4. منافقین بھی کس قدربیوقوف تھے کہ بت جیبوں میں بھر لانے کی بجائے انہوں بغلوں میں دبا لائے؟
5. یقیناً جاہل لوگ اور ان کے پیشوا یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے بقول اگر رفع الیدین کے دوران منافقین کی بغلوں سے بت گرے تھے تو پھر آپ نے انہیں کیا سزا دی تھی؟
دراصل یہ کہانی محض خانہ ساز افسانہ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ ادنیٰ سا تعلق بھی نہیں ہے۔ (ع،ر)
یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ابن زبیرؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے رفع الیدین کیا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔ (نصب الرایہ ۱/۴۰۴) لیکن یہ روایت بھی مرسل اور ضعیف ہے۔
تحقیق تو یہ ہے کہ مسئلہ رفع الیدین میں نسخ ہوا ہی نہیں ہے کیونکہ نسخ ہمیشہ وہاں ہوتا ہے جہاں (الف) دو حدیثیں آپس میں ٹکراتی ہوں (ب) دونوں مقبول ہوں (ج) ان کا کوئی مشترکہ مفہوم نہ نکلتا ہو (د) دلائل سے ثابت ہو جائے کہ ان دونوں میں سے فلاں پہلے دور کی ہے اور فلاں بعد میں ارشاد فرمائی گئی، تب بعد والی حدیث، پہلی حدیث کو منسوخ کر دیتی ہے۔
مگر یہاں رفع الیدین کرنے کی احادیث زیادہ بھی ہیں اور صحیح ترین بھی، جبکہ نہ کرنے کی احادیث کم بھی ہیں اور کمزور بھی (ان پر محدثین کی جرح ہے) اب نہ تو مقبول اور مردود احادیث کا مشترکہ مفہوم اخذ کرنا جائز ہے اور نہ ہی مردود احادیث سے مقبول کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر بفرض محال اس مسئلہ میں نسخ کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے تو بھی قرائن شہادت دیتے ہیں کہ رفع الیدین کرنا منسوخ نہیں بلکہ نہ کرنا منسوخ ہے کیونکہ (الف) صحابہ کرامؓ نے حیات طیبہ کے آخری حصے (۹ھ اور ۱۰ھ) میں نبی اکرم ﷺ سے رفع الیدین کرنا روایت کیا ہے۔ (ب) صحابہ کرامؓ عہد نبوت کے بعد بھی رفع الیدین کے قائل و فاعل رہے (ج) کہا جاتا ہے کہ چاروں ائمہ برحق ہیں اگر ایسا ہی ہے تو ان چار میں سے تین رفع الیدین کے قائل ہیں۔ (د) جن محدثین کرام (رحمۃ اللہ علیہم) نے رفع الیدین کی احادیث کو اپنی مختلف مقبول سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے ان میں سے کسی نے یہ تبصرہ نہیں کیا کہ ’’رفع الیدین منسوخ ہے‘‘ ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک رفع الیدین منسوخ نہیں بلکہ سنت نبوی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت چھوڑنے کے لئے نہیں، اپنانے کے لئے ہوتی ہے۔ اب جو شخص ایک غیر معصوم امتی کے عمل کو سنت نبوی پر ترجیح دیتا ہے اور سنت کو عمداً ہمیشہ چھوڑے ہوئے ہے اسے جب رسول کا دعویٰ کرنا جچتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دیں۔ آمین (ع،ر)
اسی طرح اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ ﷺ و ابو بکر و عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی یہ لوگ شروع نماز کے علاوہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔‘‘
امام بیہقی (۲/۷۹۔۸۰) اور دار قطنی لکھتے ہیں کہ اس کا راوی محمد بن جابر ضعیف ہے۔ بلکہ بعض علماء (ابن جوزی، ابن تیمیہ وغیرھما) نے اسے موضوع کہا ہے۔ (یعنی یہ روایت ابن مسعودؓ کی بیان کردہ نہیں ہے بلکہ کسی نے خود تراش کر ان کی طرف منسوب کر دی ہے) لہٰذا ایسی روایات پیش کرنا جائز نہیں ہے۔
📜خلاصہ:
رفع الیدین کی احادیث بکثرت اور صحیح ترین اسناد سے مروی ہیں۔ عدم رفع الیدین کی احادیث معنی یا سنداً ثابت نہیں۔ امام بخاریؒ لکھتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک کسی ایک صحابی سے بھی عدم رفع الیدین ثابت نہیں ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو حق اور سچ بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
➡️ t.me/ZaeefHadiths
علاوہ ازیں رفع الیدین کی احادیث اولیٰ ہیں کیونکہ وہ مثبت ہیں اور نافی پر مثبت کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ منافقین آستینوں اور بغلوں میں بت رکھ کر لاتے تھے بتوں کو گرانے کے لئے رفع الیدین کیا گیا، بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن کتب احادیث میں اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ البتہ یہ قول جہلاء کی زبانوں پر گھومتا رہتا ہے۔ درج ذیل حقائق اس قول کی کمزوری واضح کر دیتے ہیں:
1. مکہ میں بت تھے مگر جماعت فرض نہیں تھی۔ مدینہ میں جماعت فرض ہوئی مگر بت نہیں تھے، پھر منافقین مدینہ، کن بتوں کو بغلوں میں دبائے مسجدوں میں چلے آتے تھے؟
2. تعب ہے کہ جاہل لوگ اس گپ کو صحیح مانتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نبی ﷺ کو عالم الغیب بھی مانتے ہیں حالانکہ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو رفع الیدین کروانے کے بغیر بھی جان سکتے تھے کہ فلاں فلاں شخص مسجد میں بت لے آیا ہے۔
3. بت ہی گرانے تھے تو یہ، تکبیر تحریمہ کہتے وقت جو رفع الیدین کی جاتی ہے اور اسی طرح رکوع اور سجود کے دوران بھی گر سکتے تھے اس کے لئے الگ سے رفع الیدین کی سنت جاری کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔
4. منافقین بھی کس قدربیوقوف تھے کہ بت جیبوں میں بھر لانے کی بجائے انہوں بغلوں میں دبا لائے؟
5. یقیناً جاہل لوگ اور ان کے پیشوا یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے بقول اگر رفع الیدین کے دوران منافقین کی بغلوں سے بت گرے تھے تو پھر آپ نے انہیں کیا سزا دی تھی؟
دراصل یہ کہانی محض خانہ ساز افسانہ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ ادنیٰ سا تعلق بھی نہیں ہے۔ (ع،ر)
یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ابن زبیرؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے رفع الیدین کیا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔ (نصب الرایہ ۱/۴۰۴) لیکن یہ روایت بھی مرسل اور ضعیف ہے۔
تحقیق تو یہ ہے کہ مسئلہ رفع الیدین میں نسخ ہوا ہی نہیں ہے کیونکہ نسخ ہمیشہ وہاں ہوتا ہے جہاں (الف) دو حدیثیں آپس میں ٹکراتی ہوں (ب) دونوں مقبول ہوں (ج) ان کا کوئی مشترکہ مفہوم نہ نکلتا ہو (د) دلائل سے ثابت ہو جائے کہ ان دونوں میں سے فلاں پہلے دور کی ہے اور فلاں بعد میں ارشاد فرمائی گئی، تب بعد والی حدیث، پہلی حدیث کو منسوخ کر دیتی ہے۔
مگر یہاں رفع الیدین کرنے کی احادیث زیادہ بھی ہیں اور صحیح ترین بھی، جبکہ نہ کرنے کی احادیث کم بھی ہیں اور کمزور بھی (ان پر محدثین کی جرح ہے) اب نہ تو مقبول اور مردود احادیث کا مشترکہ مفہوم اخذ کرنا جائز ہے اور نہ ہی مردود احادیث سے مقبول کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر بفرض محال اس مسئلہ میں نسخ کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے تو بھی قرائن شہادت دیتے ہیں کہ رفع الیدین کرنا منسوخ نہیں بلکہ نہ کرنا منسوخ ہے کیونکہ (الف) صحابہ کرامؓ نے حیات طیبہ کے آخری حصے (۹ھ اور ۱۰ھ) میں نبی اکرم ﷺ سے رفع الیدین کرنا روایت کیا ہے۔ (ب) صحابہ کرامؓ عہد نبوت کے بعد بھی رفع الیدین کے قائل و فاعل رہے (ج) کہا جاتا ہے کہ چاروں ائمہ برحق ہیں اگر ایسا ہی ہے تو ان چار میں سے تین رفع الیدین کے قائل ہیں۔ (د) جن محدثین کرام (رحمۃ اللہ علیہم) نے رفع الیدین کی احادیث کو اپنی مختلف مقبول سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے ان میں سے کسی نے یہ تبصرہ نہیں کیا کہ ’’رفع الیدین منسوخ ہے‘‘ ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک رفع الیدین منسوخ نہیں بلکہ سنت نبوی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت چھوڑنے کے لئے نہیں، اپنانے کے لئے ہوتی ہے۔ اب جو شخص ایک غیر معصوم امتی کے عمل کو سنت نبوی پر ترجیح دیتا ہے اور سنت کو عمداً ہمیشہ چھوڑے ہوئے ہے اسے جب رسول کا دعویٰ کرنا جچتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دیں۔ آمین (ع،ر)
اسی طرح اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ ﷺ و ابو بکر و عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی یہ لوگ شروع نماز کے علاوہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔‘‘
امام بیہقی (۲/۷۹۔۸۰) اور دار قطنی لکھتے ہیں کہ اس کا راوی محمد بن جابر ضعیف ہے۔ بلکہ بعض علماء (ابن جوزی، ابن تیمیہ وغیرھما) نے اسے موضوع کہا ہے۔ (یعنی یہ روایت ابن مسعودؓ کی بیان کردہ نہیں ہے بلکہ کسی نے خود تراش کر ان کی طرف منسوب کر دی ہے) لہٰذا ایسی روایات پیش کرنا جائز نہیں ہے۔
📜خلاصہ:
رفع الیدین کی احادیث بکثرت اور صحیح ترین اسناد سے مروی ہیں۔ عدم رفع الیدین کی احادیث معنی یا سنداً ثابت نہیں۔ امام بخاریؒ لکھتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک کسی ایک صحابی سے بھی عدم رفع الیدین ثابت نہیں ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو حق اور سچ بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
➡️ t.me/ZaeefHadiths
بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين
*قربانی کے متعلق چند غیر مستند روایتیں*
*پہلی قسط*
*ازقلم: عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ*
*.........................................................*
قربانی کی اہمیت وفضیلت کتنی ہے ہم سب ہر سال اپنے اپنے خطباء اور علماء کرام سے سنتے رہتے ہیں، لیکن اکثر دیکھا اور سنا جاتا ہے کہ قربانی کے متعلق بعض خطباء ہر سال بےسند اور غیرمستند روایتیں منبر ومحراب سے سناتے رہتے ہیں حتی کہ موضوع ومنکر روایت بھی پیش کر دیتے ہیں یہ خطباء کی بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ حدیث بیان کرنے میں محتاط نہ رہنا، جھوٹی غیرمستند روایت پیش کرنا دنیا وآخرت کا بہت بڑا نقصان ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی مشہور روایت ہے، آپ نے فرمایا: "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"(صحيح بخاری:110-مقدمة صحيح مسلم:4) جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے-
لہٰذا ہم سب مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم دین اور حدیث کے باب میں بہت محتاط رہیں، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہی منسوب کریں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحيح ثابت ہو، اور جو ثابت نہ ہو اس کو نہ بیان کریں، یا اگر بیان کرنا ہو تو یہ ضرور کہیں کہ یہ حدیث نہیں ہے، جھوٹی حدیث ہے، ضعیف ہے، موضوع ہے، غیرمستند ہے، آئیے آج قربانی کے متعلق چند غیر مستند، ضعیف اور موضوع روایات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں-
*قربانی کے متعلق چند غیرمستند روایتیں*
1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی قربانی کے جانور کو خوب فربہ (موٹا تازہ) بناؤ، کیونکہ یہ پل صراط کی سواری ہے- (كشف الخفاء: للعجلوني:1794_سلسلة الأحاديث الضعيفة:74/ضعيف جدا)
2) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، لوگوں نے عرض کیا تو ہم کو اس پر کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی- (سنن ابن ماجہ:3118/ ضعیف جدا_ سلسلة الأحاديث الضعيفة:527/ موضوع)
3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوم النحر کو ابن آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، کھر اور بالوں سمیت آئے گا، اور بیشک زمین پر خون گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہو جاتا ہے، پس تم لوگ خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو- (سنن ابن ماجہ:3117/ضعیف_سلسلة الأحاديث الضعيفة:526/ضعيف)
4) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال تک رہے اور آپ ہر سال قربانی کرتے تھے۔ (سنن ترمذی:1506/ضعیف)
5) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری قربانی کا پہلا قطرہ خون گرتے ہی تمہارے پچھلے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ فضیلت اہل بیت کے لیے خاص ہے یا سارے مسلمانوں کے لیے عام ہے؟ آپ نے فرمایا یہ فضیلت ہمارے اور سارے مسلمانوں کے لیے ہے یعنی یہ فضیلت بالکل عام ہے- (ضعيف الترغيب والترهيب:674/منكر)
اللہ ہم سب کو نبی سے سچی محبت کرنے والا بنائے آمین-
*جاری......................................................*
══════════ ❁✿❁ ══════════
#سلسلة_ضعیف_احادیث #قربانی
*قربانی کے متعلق چند غیر مستند روایتیں*
*پہلی قسط*
*ازقلم: عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ*
*.........................................................*
قربانی کی اہمیت وفضیلت کتنی ہے ہم سب ہر سال اپنے اپنے خطباء اور علماء کرام سے سنتے رہتے ہیں، لیکن اکثر دیکھا اور سنا جاتا ہے کہ قربانی کے متعلق بعض خطباء ہر سال بےسند اور غیرمستند روایتیں منبر ومحراب سے سناتے رہتے ہیں حتی کہ موضوع ومنکر روایت بھی پیش کر دیتے ہیں یہ خطباء کی بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ حدیث بیان کرنے میں محتاط نہ رہنا، جھوٹی غیرمستند روایت پیش کرنا دنیا وآخرت کا بہت بڑا نقصان ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی مشہور روایت ہے، آپ نے فرمایا: "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"(صحيح بخاری:110-مقدمة صحيح مسلم:4) جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے-
لہٰذا ہم سب مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم دین اور حدیث کے باب میں بہت محتاط رہیں، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہی منسوب کریں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحيح ثابت ہو، اور جو ثابت نہ ہو اس کو نہ بیان کریں، یا اگر بیان کرنا ہو تو یہ ضرور کہیں کہ یہ حدیث نہیں ہے، جھوٹی حدیث ہے، ضعیف ہے، موضوع ہے، غیرمستند ہے، آئیے آج قربانی کے متعلق چند غیر مستند، ضعیف اور موضوع روایات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں-
*قربانی کے متعلق چند غیرمستند روایتیں*
1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی قربانی کے جانور کو خوب فربہ (موٹا تازہ) بناؤ، کیونکہ یہ پل صراط کی سواری ہے- (كشف الخفاء: للعجلوني:1794_سلسلة الأحاديث الضعيفة:74/ضعيف جدا)
2) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، لوگوں نے عرض کیا تو ہم کو اس پر کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی- (سنن ابن ماجہ:3118/ ضعیف جدا_ سلسلة الأحاديث الضعيفة:527/ موضوع)
3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوم النحر کو ابن آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، کھر اور بالوں سمیت آئے گا، اور بیشک زمین پر خون گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہو جاتا ہے، پس تم لوگ خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو- (سنن ابن ماجہ:3117/ضعیف_سلسلة الأحاديث الضعيفة:526/ضعيف)
4) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال تک رہے اور آپ ہر سال قربانی کرتے تھے۔ (سنن ترمذی:1506/ضعیف)
5) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری قربانی کا پہلا قطرہ خون گرتے ہی تمہارے پچھلے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ فضیلت اہل بیت کے لیے خاص ہے یا سارے مسلمانوں کے لیے عام ہے؟ آپ نے فرمایا یہ فضیلت ہمارے اور سارے مسلمانوں کے لیے ہے یعنی یہ فضیلت بالکل عام ہے- (ضعيف الترغيب والترهيب:674/منكر)
اللہ ہم سب کو نبی سے سچی محبت کرنے والا بنائے آمین-
*جاری......................................................*
══════════ ❁✿❁ ══════════
#سلسلة_ضعیف_احادیث #قربانی
Forwarded from ☀️آئیـں اپنی اصـلاح کریں☀️ (امة المبین مفلحاتی)
🥩 *|| عيد الأضحى مبارک ہو ||* 🥩
"عید وقت کا ایک ٹکڑا ہے جو غموں کو بھلانے، تکلیفوں کو دور کرنے اور محنت و مشقت سے بھر پور زندگی میں کچھ آرام کرنے کیلیے خاص ہے۔" (آثار الإمام البشير الإبراهيمي : ٤٧٩/٣)
🍂 *|| تقبل الله منا ومنكم ||* 🍂
"عید وقت کا ایک ٹکڑا ہے جو غموں کو بھلانے، تکلیفوں کو دور کرنے اور محنت و مشقت سے بھر پور زندگی میں کچھ آرام کرنے کیلیے خاص ہے۔" (آثار الإمام البشير الإبراهيمي : ٤٧٩/٣)
🍂 *|| تقبل الله منا ومنكم ||* 🍂
*🐏 [ کیا حلال جانور کے سات اعضاء حرام ہے ؟ ]*
📜جواب
🔪 ذبح کے وقت بہنے والا خون بالاتقاق حرام ہے اس کے علاوہ حلال جانور کے تمام اعضاء و اجزا ء حلال ہیں، لیکن حنفیوں، دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک حلال جانور میں سات اجزاء حرام ہیں۔
◈ ابنِ عابدین حنفی لکھتے ہیں :
المكروه تحريما من الشاة سيع : الفرض، والخصية، الخدة والدم المسفوح، المرارة، والمثانة، والمذاكبر۔
” شاة (بکری، بکرے، بھیڑ اور دبنے) میں یہ سات چیزیں مکروہ تحریمی ہیں : *فرج (پیشاب کی جگہ)، کپورے، غدود، ذبح کے وقت بہنے والا خون، پتہ، مثانہ اور نر کا آلہ تناسل۔“* [العفودالدرية لابن عابدين : 56]
◈ جناب رشید احمد گنگو ہی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
”سات چیزیں حلال جانور کی کھانی منع ہیں : *ذکر، فرج مادہ، مثانہ، غدود، حرام مغز جو پشت کے مہرہ میں ہوتا ہے، خصیہ، پتہ یعنی مرارہ جو کلیجہ میں تلخ پانی کا ظرف ہے۔“*
[تذكرة الرشيد : 174/1]
◈ جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
”حلال جانور کے بعض اعضاء حرام ہیں، *جیسے خون، پتہ، فرج، خصیہ وغیرہ۔“*
[تفسير نور العرفان از نعيمي : ص 547]
◈ یہی بات احمد رضا خان بریلوی صاحب نے کہی ہے۔ [فتاوي رضويه : 234/20]
اب ان کے دلائل کا مختصر تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
📌 دلیل نمبر : ➊
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكره من الشاة سبعا : المرارة، المثانة، والحياء، والذكر، والأنثيين، والغدة، والدم۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکری (وغیرہ) میں ان سات اجزاء کو مکروہ خیال کرتے تھے :
*① پتہ ② مثانہ ③ پچھلی شرمگاہ ④ اگلی شرمگاہ ⑤ کپورے ⑥ غدود ⑦ خون (وقتِ ذبح بہتا ہوا)۔“*
📗 [المعجم الاوسط للطبراني : 9480]
تبصرہ :
اس کی سند موضوع (من گھڑت) کیونکہ :
➊ امام طبرانی کے استاذ یعقوب بن اسحاق کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
➋ اس کا مرکزی راوی یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی جمہور محد ثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمهور۔ ”اسے جمہورمحدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [البدر المنير لابن لابن الملقن : 3/227]
➌ عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم بھی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”متروک“ راوی ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والأكثر على تضعيفه ”اکثر محدثین اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ [مجمع الزهوائد للهيثمي : 20/2]
——————
📌 دلیل نمبر : ➋
مجاہد بن جبر تابعی کہتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكره من الشاة سبعا : الدم، الحياء، والأنثيين، والغدة، والذكر، والمثانة، والمراراة۔
”رسول صلی اللہ علیہ وسلم بکری (وغیرہ) سے ان سات اعضاء کو ناپسند کرتے تھے :
*① خون (بوقت ذبح بہنے والا) ② شرمگاہ ③ خصیتین ④ غدود ⑤ اگلی شرمگاہ ⑥ مثانہ ⑦ پتہ۔“*
📕 [مصنف عبدالرزاق : 55/4، ح : 8771، السنن الكبري للبيهقي : 7/10]
تبصرہ :
یہ روایت کئی علتوں کی وجہ سے *”ضعیف“* اور باطل ہے :
➊ یہ ”مرسل“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔ مجاہد تابعی رحمہ اللہ ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں ۔
➋ اس کا راوی واصل بن ابی جمیل ”ضعیف“ ہے۔
اس کے بارے میں امام یحٰیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لاشيء ”یہ حدیث میں کچھ بھی نہیں۔“ [الجرح التعديل لا بن ابي حاتم : 30/9، وسنده صحيح]
➌ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعيف [سنن الدارقطني : 76/3]
نیز اسے امام ابن شاہین رحمہ اللہ [الضعفاء : 666] اور حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی ضعفاء میں ذکر کیا ہے ۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ الثقات [7/559] کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا لہٰذا یہ ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واصل لم تثبت عدالته۔
”واصل کی عدالت ثابت نہیں۔“ [التقدير للطحاوي : 200/2]
◈ مجاہد اس روایت کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے موصول بھی بیان کرتے ہیں۔ [الكامل لابن عدي : 12/5، السنن الكبريٰ للبيهقي : 7/60]
لیکن یہ روایت بھی موضوع (من گھڑت) ہے، کیونکہ اس کاراوی عبر بن موسی الوجہیی بالاتفاق ائمہ محدثین ”ضعیف“، ”منکرالحدیث“ اور ”متروک الحدیث“ ہے۔
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ اس راوی کو ”ضعیف“ قرار دے کر لکھتے ہیں :
ولا يصح وصله۔ ”اس حدیث کا موصول ہونا دُرست نہیں۔“ [السنن الكبريٰ للبيهقي : 70]
بعض لوگوں کی یہ کل کائنات تھی، جس کا حشر قارئین کرام نے دیکھ لیا ہے۔
↰ ثابت ہو کہ حلال جانور میں سوائے دم مسفوح (وقت ذبح بہتے ہوئے خون) حرام نہیں ہے۔ سات اجزاء کو حرام کہنے والوں کا قول باطل وعاطل اور فاسد وکاسد ہے کیونکہ ان کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں۔
فائدہ : جہاں تک اوجھڑی کا تعلق ہے، اس کا کھانا بھی جائز ہے، لیکن حنفیوں اور بریلویوں کے نزدیک یہ بھی مکروہ ہے :
➊ جناب عبدالحئی لکھنوی حنفی کہتے ہیں :
”اوجھڑی کا کھانا مکروہ ہے۔“ [مجموع الفتاوي لعبد لحي : 397/7، 29/7]
➋ جناب احمد رضا خان بریلوی کہتے ہیں :
”او
📜جواب
🔪 ذبح کے وقت بہنے والا خون بالاتقاق حرام ہے اس کے علاوہ حلال جانور کے تمام اعضاء و اجزا ء حلال ہیں، لیکن حنفیوں، دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک حلال جانور میں سات اجزاء حرام ہیں۔
◈ ابنِ عابدین حنفی لکھتے ہیں :
المكروه تحريما من الشاة سيع : الفرض، والخصية، الخدة والدم المسفوح، المرارة، والمثانة، والمذاكبر۔
” شاة (بکری، بکرے، بھیڑ اور دبنے) میں یہ سات چیزیں مکروہ تحریمی ہیں : *فرج (پیشاب کی جگہ)، کپورے، غدود، ذبح کے وقت بہنے والا خون، پتہ، مثانہ اور نر کا آلہ تناسل۔“* [العفودالدرية لابن عابدين : 56]
◈ جناب رشید احمد گنگو ہی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
”سات چیزیں حلال جانور کی کھانی منع ہیں : *ذکر، فرج مادہ، مثانہ، غدود، حرام مغز جو پشت کے مہرہ میں ہوتا ہے، خصیہ، پتہ یعنی مرارہ جو کلیجہ میں تلخ پانی کا ظرف ہے۔“*
[تذكرة الرشيد : 174/1]
◈ جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
”حلال جانور کے بعض اعضاء حرام ہیں، *جیسے خون، پتہ، فرج، خصیہ وغیرہ۔“*
[تفسير نور العرفان از نعيمي : ص 547]
◈ یہی بات احمد رضا خان بریلوی صاحب نے کہی ہے۔ [فتاوي رضويه : 234/20]
اب ان کے دلائل کا مختصر تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
📌 دلیل نمبر : ➊
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكره من الشاة سبعا : المرارة، المثانة، والحياء، والذكر، والأنثيين، والغدة، والدم۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکری (وغیرہ) میں ان سات اجزاء کو مکروہ خیال کرتے تھے :
*① پتہ ② مثانہ ③ پچھلی شرمگاہ ④ اگلی شرمگاہ ⑤ کپورے ⑥ غدود ⑦ خون (وقتِ ذبح بہتا ہوا)۔“*
📗 [المعجم الاوسط للطبراني : 9480]
تبصرہ :
اس کی سند موضوع (من گھڑت) کیونکہ :
➊ امام طبرانی کے استاذ یعقوب بن اسحاق کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
➋ اس کا مرکزی راوی یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی جمہور محد ثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمهور۔ ”اسے جمہورمحدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [البدر المنير لابن لابن الملقن : 3/227]
➌ عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم بھی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”متروک“ راوی ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والأكثر على تضعيفه ”اکثر محدثین اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ [مجمع الزهوائد للهيثمي : 20/2]
——————
📌 دلیل نمبر : ➋
مجاہد بن جبر تابعی کہتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكره من الشاة سبعا : الدم، الحياء، والأنثيين، والغدة، والذكر، والمثانة، والمراراة۔
”رسول صلی اللہ علیہ وسلم بکری (وغیرہ) سے ان سات اعضاء کو ناپسند کرتے تھے :
*① خون (بوقت ذبح بہنے والا) ② شرمگاہ ③ خصیتین ④ غدود ⑤ اگلی شرمگاہ ⑥ مثانہ ⑦ پتہ۔“*
📕 [مصنف عبدالرزاق : 55/4، ح : 8771، السنن الكبري للبيهقي : 7/10]
تبصرہ :
یہ روایت کئی علتوں کی وجہ سے *”ضعیف“* اور باطل ہے :
➊ یہ ”مرسل“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔ مجاہد تابعی رحمہ اللہ ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں ۔
➋ اس کا راوی واصل بن ابی جمیل ”ضعیف“ ہے۔
اس کے بارے میں امام یحٰیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لاشيء ”یہ حدیث میں کچھ بھی نہیں۔“ [الجرح التعديل لا بن ابي حاتم : 30/9، وسنده صحيح]
➌ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعيف [سنن الدارقطني : 76/3]
نیز اسے امام ابن شاہین رحمہ اللہ [الضعفاء : 666] اور حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی ضعفاء میں ذکر کیا ہے ۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ الثقات [7/559] کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا لہٰذا یہ ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واصل لم تثبت عدالته۔
”واصل کی عدالت ثابت نہیں۔“ [التقدير للطحاوي : 200/2]
◈ مجاہد اس روایت کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے موصول بھی بیان کرتے ہیں۔ [الكامل لابن عدي : 12/5، السنن الكبريٰ للبيهقي : 7/60]
لیکن یہ روایت بھی موضوع (من گھڑت) ہے، کیونکہ اس کاراوی عبر بن موسی الوجہیی بالاتفاق ائمہ محدثین ”ضعیف“، ”منکرالحدیث“ اور ”متروک الحدیث“ ہے۔
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ اس راوی کو ”ضعیف“ قرار دے کر لکھتے ہیں :
ولا يصح وصله۔ ”اس حدیث کا موصول ہونا دُرست نہیں۔“ [السنن الكبريٰ للبيهقي : 70]
بعض لوگوں کی یہ کل کائنات تھی، جس کا حشر قارئین کرام نے دیکھ لیا ہے۔
↰ ثابت ہو کہ حلال جانور میں سوائے دم مسفوح (وقت ذبح بہتے ہوئے خون) حرام نہیں ہے۔ سات اجزاء کو حرام کہنے والوں کا قول باطل وعاطل اور فاسد وکاسد ہے کیونکہ ان کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں۔
فائدہ : جہاں تک اوجھڑی کا تعلق ہے، اس کا کھانا بھی جائز ہے، لیکن حنفیوں اور بریلویوں کے نزدیک یہ بھی مکروہ ہے :
➊ جناب عبدالحئی لکھنوی حنفی کہتے ہیں :
”اوجھڑی کا کھانا مکروہ ہے۔“ [مجموع الفتاوي لعبد لحي : 397/7، 29/7]
➋ جناب احمد رضا خان بریلوی کہتے ہیں :
”او
جھڑی کا کھانا مکروہ ہے۔“ [ملفوضات : جزء ص 35]
↰ بعض لوگوں نے حلال جانور میں 22 چیزیں مکروہ یا حرام قرار دے دی ہیں۔
گردے کے بارے میں جناب رشید احمد گنگوی دیوبندی کہتے ہیں :
”بعض (حنفی فقہ کی) روایات میں گردہ کی کراہت لکھتے ہیں اور کراہت تنزیہ پر عمل کرتے ہیں۔“ [تذكرة الرشيد : جزء 1 ص 147]
*↰ ہم کہتے ہیں کہ اوجھڑی اور گردے کے مکروہ ہونے پر کیا دلیل ہے ؟*
◈ جناب احمد رضا خان بریلوٰ ی لکھتے ہیں :
”ہمارے امام اعظم ابوحنفیہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ المتوفی180ھ نے فرمایا : خون توبحکم قرآن حرام ہے اور باقی چیزیں میں مکروہ سمجھتاہوں۔ “ [فتاويٰ رضويه : جزء 20، ص 234]
یہ اُڑتی اُڑتی ہوا ہے۔ امام ابوحنفیہ سے یہ قول باسند صحیح ثابت کریں، ورنہ مانیں کہ یہ امام صاحب پر صریح جھوٹ ہے۔ دلائل سے تہی دست لوگوں سے ایسی باتوں کا صادر ہونا بعیداز عقل نہیں۔
🔸الحاصل :
*حلال جانور میں ذبح کے وقت بہنے والے خون کے علاوہ اس کا کوئی بھی عضو حرام یا مکروہ نہیں❌۔*
#سلسلة_ضعیف_احادیث #قربانی
↰ بعض لوگوں نے حلال جانور میں 22 چیزیں مکروہ یا حرام قرار دے دی ہیں۔
گردے کے بارے میں جناب رشید احمد گنگوی دیوبندی کہتے ہیں :
”بعض (حنفی فقہ کی) روایات میں گردہ کی کراہت لکھتے ہیں اور کراہت تنزیہ پر عمل کرتے ہیں۔“ [تذكرة الرشيد : جزء 1 ص 147]
*↰ ہم کہتے ہیں کہ اوجھڑی اور گردے کے مکروہ ہونے پر کیا دلیل ہے ؟*
◈ جناب احمد رضا خان بریلوٰ ی لکھتے ہیں :
”ہمارے امام اعظم ابوحنفیہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ المتوفی180ھ نے فرمایا : خون توبحکم قرآن حرام ہے اور باقی چیزیں میں مکروہ سمجھتاہوں۔ “ [فتاويٰ رضويه : جزء 20، ص 234]
یہ اُڑتی اُڑتی ہوا ہے۔ امام ابوحنفیہ سے یہ قول باسند صحیح ثابت کریں، ورنہ مانیں کہ یہ امام صاحب پر صریح جھوٹ ہے۔ دلائل سے تہی دست لوگوں سے ایسی باتوں کا صادر ہونا بعیداز عقل نہیں۔
🔸الحاصل :
*حلال جانور میں ذبح کے وقت بہنے والے خون کے علاوہ اس کا کوئی بھی عضو حرام یا مکروہ نہیں❌۔*
#سلسلة_ضعیف_احادیث #قربانی