NaatAcademy #OwaisRazvi
262 subscribers
890 photos
2 videos
8 files
364 links
Download Telegram
جمعہ مبارک - Read Durood
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سرور دو عالم ﷺ سے تعلق پیدا کرنے کی دو صورتیں ہیں: پہلے یہ کہ اگر تم نے کسی وقت آپ کے جمال با کمال کو خواب میں دیکھا ہے تو اسی صورت کا ہمیشہ استحضار کیا کرو اور اگر یہ نعمت عظمی حاصل نہیں اور قبر شریف کی زیارت بھی نصیب نہیں ہوئی تو ہمیشہ ہر وقت آپ پر درود بھیجتے رہو اور یقین رکھو کہ" تمہارے درودوں کا تحفہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچ رہا ہے۔" درود شریف پڑھتے وقت باادب اور حاضر القلب ہونا ضروری ہے۔ اس سے شرم کرو کہ ایسی حالت میں درود بھیجو جب تمہارا دل کسی دوسرے معاملے میں اٹکا ہوا ہو کہ اس طرح درود پڑھنا جسم بے روح کا حکم رکھتا ہے. انسان کا ہر عمل اس وقت تک مقبول اور بااثر نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں حضور قلب نہ ہو ۔ ان نسخوں پر عمل کرنے کا یہ نتیجہ ہو گا کہ تم کو افضل ہو۔ الانبیاء ﷺ کا مشاہدہ عیاناً حاصل ہو جائے گا، تم سید پیغمبراں ﷺ سے باتیں کرو گے ، آپ ﷺ کا کلام مبارک سنو گے اور آپ تمہاری عرض و معروض کا جواب ارشاد فرمائیں گے.

(مدارج النبوت, صفحہ 26)
https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f
10- درسِ قرآن کریم مع ترجمہ کنزالایمان

﷽۔

اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ:اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو ۔} اس سے پہلی آیات میں بعض کبیرہ گناہ کرنے پر وعید بیان کی گئی اور اس آیت میں کبیرہ گناہوں سے بچنے پر (صغیرہ گناہ بخشنے اور عزت کی جگہ داخل کرنے کا) وعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ (البحر المحیط، النساء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۴۳)

نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ: ہم تم سے دوسرے گناہ مٹا دیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے اور اس کے ساتھ دیگر عبادات بجالاتے رہو گے تو ہم تمہارے دوسرے صغیرہ گناہوں کو اپنے فضل سے معاف فرما دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ یعنی جنت میں داخل کریں گے۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مَشِیَّت اور مرضی پر ہے۔ یہ بیان صغیرہ گناہوں کے متعلق ہے، کبیرہ گناہ توبہ ہی سے معاف ہوتے ہیں ، البتہ حجِ مقبول پر بھی یہ بشارت ہے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f
یادِ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا

10 رمضان المبارک یوم وصالِ ام المومنین مخدومۂ کائنات، راحتِ جانِ مصطفیٰ ﷺ ، پیکرِ صدق وصفا ، ہلال عزم و یقیں، سیدہ طاہرہ عفیفہ خدیجة الکبری رضی اللہ عنہا ہیں
تمام اہل حق اُس عظیم ماں کو یاد کرکے اپنی اپنی ماؤں کو زبردست خراج عقیدت پیش کریں ، اور بڑوں کی عزت و تکریم کا ہمیشہ کیلیے عہد کریں، اللہ تعالی ان کے فیوض و برکات سے ہمیں مالا مال فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f
اہلِ اسلام کی مادرانِ شفیق
بانُوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام

سب سے پہلے حُضُورپُرنورصلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے عقدِنکاح میں آنے والی خوش نصیب خاتون ام المؤمنین حضرت سیدتُنا خدیجۃُ الکبری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہیں
آپ کا نام خدیجہ بنتِ خویلد،والِدہ کا نام فاطمہ ہے۔
(اسد الغابہ،ج 7، ص81)

آپ کی کنیت اُمُّ الْقَاسِم، اُمِّ ھِند اور القاب الکبریٰ، طاھِرہ اور سَیِّدَۃُ قُرَیْش ہیں، آپ کی ولادت عامُ الفیل سے 15سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ عقدِ نکاح نبیِّ کرِیم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے کردار و عمل سے مُتاثِر ہو کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پیغامِ نکاح بھیجا جسے حُضُورِ انور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قبول فرمایا ، یوں یہ بابرکت نکاح آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے سفرِ شام سے واپسی کے2ماہ 25دن بعد منعقد ہوا۔
(المواہب اللدنیہ، ج1، ص101)

اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر مبارک 40 برس تھی
(الطبقات الکبرٰی ،ج8، ص13)

کیلیگرافی:اویس رضوی صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f
عرش سے جس پہ تسلیم نازل ہوئی
اس سَرائے سلامت پہ لاکھوں سلام

صحیحین(بخاری اور مسلم)میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ بیان کرتی ہیں کہ جبرائیل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ خدیجہ آرہی ہیں ان کے ساتھ ایک برتن ہے اس میں سالن اور کھانا ہے، جب وہ آپ کے پاس آجائیں تو ان کو ان کے پروردگار کی طرف سے سلام پہنچایئے اور میری طرف سے بھی، اور ان کو خوشخبری سنایئے جنت میں موتیوں سے بنے ہوئے ایک گھر کی، جس میں نہ شور و شغب ہوگا اور نہ کوئی زحمت و مشقت ہوگی....

https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f
ماہِ رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے کی بخشش ہو جاتی ہے اور اس ماہ میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا

الطبراني في المعجم الأوسط، 6/195

Mahe Ramadan Mein Allah Ka Zikr Karne Wale Ki Bakhshish Ho Jati Hai, Aur Is Mah mein Allah Se Mangne Wale Ko Namurad Nahi Kiya Jata.

𝒩𝒶𝒶𝓉 𝒜𝒸𝒶𝒹ℯ𝓂𝓎
https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f
7 درسِ قرآن کریم مع ترجمہ کنزالایمان
﷽۔
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ: شیطان تمہیں محتاج ہوجانے کااندیشہ دلاتا ہے۔} بغیر کسی دنیاوی مفاد کے رضائے الٰہی کیلئے خرچ کرنے کے فضائل کے بیان کے بعد اِس راہ میں پیش آنے والے سب سے بڑے وسوسے کا بیان کیا جا رہا ہے کہ شیطان طرح طرح سے وسوسے دلاتا ہے کہ اگرتم خرچ کرو گے ،صدقہ دو گے تو خود فقیر و نادا رہوجاؤ گے لہٰذا خرچ نہ کرو۔ یہ شیطان کی بہت بڑی چال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے وقت اس طرح کے اندیشے دلاتا ہے حالانکہ جن لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالا جارہا ہوتا ہے وہی لوگ شادی بیاہ میں جائز و ناجائز رسومات پر اور عام زندگی میں بے دریغ خرچ کررہے ہوتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ شیطان تو تمہیں بخل و کنجوسی کی طرف بلاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو وہ تمہیں اپنے فضل اور مغفرت سے نوازے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ بڑی وسعت والا ہے، وہ صدقہ سے تمہارے مال کو گھٹنے نہ دے گا بلکہ اس میں اور برکت پیدا کردے گا۔
𝒩𝒶𝒶𝓉 𝒜𝒸𝒶𝒹ℯ𝓂𝓎
https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f
🌷3 رمضان یوم وصال🌷

(فضائل و سوانح سیدہ کائنات حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا)
تحریر : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی ، جامعہ نظام مصطفی بہاولپور
https://www.facebook.com/share/p/cG4uDrU5zmU7TwT1/?mibextid=Nif5oz

✍️ فضائل و مناقب :

سیدہ کائنات، مخدومۂ امم ، شہزادی کونین ، اصلِ نسلِ رسول، حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کوئی معمولی ہستی نہیں ہیں.
1..آپ اپنے اصول کے لحاظ سےجدالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نسل پاک اور امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی جان و جگر ہیں ۔
2..آپ اپنے جوڑے کے لحاظ سے شمع شبستان ولایت ، خاتم خلافت نبوت ، فاتح سلاسل طریقت، اسد اللہ الغالب، مطلوب کل طالب، فاتح خیبر، ساقی کوثر، سیدنامولی علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کی زوجہ محترمہ ہیں۔
3..آپ اپنی ذات کے لحاظ سے شبیہ مصطفیٰ، سردار خواتین جہاں و جناں، ملکۂ روز جزا اور شریک زمرۂ اہل کساء ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کی پیشانی مبارک بوسہ گاہ مصطفی ہے ۔
4..آپ اپنے فروع کے لحاظ سے سرداران جنت و شہداء کربلا کی ام محترم اور لاکھوں سیدوں، اماموں ، غوثوں، قطبوں کی جدہ طیبہ ہیں ۔
5..آپ رضی اللہ عنہا کی تعریف میں ساری امت کچھ یوں رطب اللسان رہتی ہے : سیدہ، زاہرہ، طیبہ، طاہرہ، صادقہ ، صالحہ ، صائمہ ، صابرہ، شاکرہ ، عابدہ ، زاہدہ، ساجدہ ، ذاکرہ ، راضیہ ، عابدہ ، عالمہ ، عاملہ کاملہ ، عادلہ ، سالکہ ، مالکہ ،حاکمہ ،راحمہ ،عاطفہ ، شاہدہ، ناصرہ، حامدہ ، خاشعہ، کاملہ ۔
6..آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کا کاشانۂ اقدس وہ مقدس ترین مقام ہے جہاں سیادت، امامت، شرافت، طہارت،نفاست، نجابت، امارت، سخاوت، ہدایت، اصالت ، متانت، ولایت ،کرامت، قرابت، بشارت، لطافت، ریاست، شجاعت، عنایت فراست، فصاحت، بلاغت، شفاعت، نزابت، عبادت، ریاضت،صداقت، عدالت، شہادت، شریعت، طریقت، غوثیت، قطبیت،عزت، عظمت، شوکت، عفت، رفعت، بصیرت، نعمت، جرأت، سطوت، حکومت اور حکمت کے پھریرے لہرا ر ہے ہیں ۔
7..یہ ہیں سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا.. ایسی پاک ہستی کا تو نام بھی جب منہ سے بولا جائے بلکہ ذہن میں بھی سوچا جاۓ تو بندے کو ادب کے لحاظ سے انتہائی حد تک چوکنا ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ اس بار گاہ کی ذرہ برابر بے ادبی بھی آدمی کو اوج ثریا سے قعر مذلت (ذلت کے گڑھے) میں گراد ینے کے لیے کافی ہے ۔
8..تمام صحابہ واہل بیت میں آپ ہی وہ واحد ہستی ہیں جنہیں "بتول" کے منفرد لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، یعنی وہ پاک ذات جو مال و دولت دنیا سے بالکل بے زار اور خالصتا اپنے رب کریم سے لو لگانے والی ہو۔ یہ لقب خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کا مقام ہر طرح کے حرص سے بالکل پاک اور دنیا کی چیزیں ما نگنے سے کھربوں گنا بلند ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہا کی شانوں والی خود اپنی مقدس فطرت بھی یہی تھی اور بار گاہ ر سالت سے بھی آپ کی عظیم تربیت یہی تھی.
جیسے صدیق کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اس کی شان صداقت کے خلاف ہو ، فاروق کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اس کی شان عدالت کے خلاف ہو ،غنی کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اس کی شان سخاوت کے خلاف ہو ، حیدر کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اس کی شان شجاعت کے خلاف ہو۔ بالکل اسی طرح بتول بھی کوئی ایسا کام نہیں کر سکتی جو اس کی شان بتولیت کے خلاف ہو۔ لہذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ذات پاک (جو کہ کل کائنات کی مالکہ ہیں) کو اس حوالے سے مشہور کرنا کہ آپ فدک کی طالبہ تھیں، ایسی تشہیر شان بتولیت کے بالکل خلاف اور کھلی بے ادبی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی طلب فدک کا تذکرہ کیا جاۓ تو اس کے ساتھ ان تمام حکمتوں اورمصلحتوں کا تذکرہ بھی ضرور کیا جائے جو اس موقع کی مناسبت سے متوقع ہوسکتی ہیں، ورنہ مصطفی کریم ﷺ کی تربیت، شان بتولیت اور مقام سیادت پر حرف آۓ گا ۔
9..یہ تو وہ بارگاہ عظمت ہے کہ جہاں دل و دماغ ، ظاہر و باطن اور قلم و قرطاس سب کچھ ادب کے ساتھ جھکا کر بات کرنا لازم ہے ۔ یہاں ذرا سی بھی لغزش ایمان کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیتی ہے ۔ بعض اسلاف کاعالم تو یہ تھا کہ جب سیدہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام نامی اسم گرامی لکھا کرتے تو ادبا قلم کی نوک کو ڈھانپ لیا کرتے۔
10..وقت کے عظیم امام..امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سیدہ کائنات فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی کیسے تعظیم کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جب حدیث "لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها" (اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتیں تو میں ان کے ہاتھ کاٹ دیتا) اپنی کتاب میں نقل کی ، تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے احترام میں انکا نام حذف کر دیا۔ عبارت کچھ یوں ہے :
وقطع امرأة لها شرف تكلم فيها فقال: لو سرقت فلانة لامرأة شريفة تقطعت يدها.
یعنی اگر فلاں معزز خاتون بھی چوری کرتی تو ان کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا۔ (الام 433/7)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کبار ائمہ اہل سنت میں شمار ہوتے ہیں اور بیان بھی حدیث نبوی فرما رہے ہیں مگر سیدہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا احترام ہی اتنا ہے کہ ادبا نام تک نہیں لیا۔
11..سیدہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں حدائق بخشش حصہ سوم میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا ایک کمال شعر ملاحظہ فرمائیں:
نور ، بنت نور ، زوج نور ، ام نور و نور
نور مطلق کی کنیز اللہ رے لہنا نور کا
اس شعر میں سات مرتبہ لفظ نور استعمال ہوا ہے اور ہر مرتبہ علیحدہ معنی میں استعمال ہوا ہے.بالترتیب ملاحظہ ہو۔
1....سیدہ کائنات (سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا)
2....سرور کائنات (سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ)
3... مولائے کائنات(حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم)
4۔5۔حسن کائنات (حسنین کریمین رضی اللہ عنہما)
6....خالق کائنات (اللہ تعالی)
7....نور کائنات (روشنی ، چمک) ۔
لہنا کا معنی ہے نصیب ، بخت ۔
ترجمہ شعر : خود نور ، نور کی لخت جگر ، نور کی زوجہ محترمہ ، دو نوروں (حسن و حسین) کی ماں ، نور مطلق (اللہ تعالی) کی عظیم بندی ، سبحان اللہ نور کے کمال نصیب تو دیکھو۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی بوسیله مصطفی ہم سب کو سیدہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فیضان نصیب فرماۓ ۔ (آمین بجاہ سید المرسلینﷺ )


✍️سیرت و سوانح

12..حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا جن کا معروف نام فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی تھیں۔تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروزجمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دو بیٹیاں زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد گرامی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔

13..تربیت
آپ کی تربیت خاندانِ رسالت میں ہوئی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا، ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا، ام الفضل رضی اللہ عنہا (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس کی زوجہ)، ام ہانی رضی اللہ عنہا (حضرت ابوطالب کی ہمشیرہ)، اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (زوجہ جعفرطیار رضی اللہ عنہا)، صفیہ بنت حمزہ رضی اللہ عنہا وغیرہ نے مختلف اوقات میں کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی تربیت و پرورش کے لیے فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کا انتخاب کیا۔ جب ان کا بھی انتقال ہو گیا تو اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کو ان کی تربیت کی ذمہ داری دی۔

14..القاب اور کنیت
آپ کے مشہور القاب میں زھرا اور سیدۃ النساء العالمین (تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار) اور بتول ہیں۔ مشہور کنیت ام الائمہ، ام السبطین اور ام الحسنین ہیں۔ آپ کا مشہور ترین لقب سیدۃ النساء العالمین ایک مشہور حدیث کی وجہ سے پڑا جس میں حضرت محمد نے ان کو بتایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں عورتوں کی سیدہ (سردار) ہیں۔ اس کے علاوہ خاتونِ جنت، الطاہرہ، الزکیہ، المرضیہ، السیدہ وغیرہ بھی القاب کے طور پر ملتے ہیں۔

15..بچپن:
حضرت فاطمہ الزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ابتدائی تربیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کی۔ اس کے علاوہ ان کی تربیت میں اولین مسلمان خواتین شامل رہیں۔ بچپن میں ہی ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے اسلام کا ابتدائی زمانہ دیکھا اور وہ تمام تنگی برداشت کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابتدائی زمانہ میں قریش کے ہاتھوں برداشت کی۔ ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کعبہ میں حالتِ سجدہ میں تھے جب ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خبر ملی تو آپ نے آ کر ان کی کمر پانی سے دھوئی حالانکہ آپ اس وقت کم سن تھیں۔ اس وقت آپ روتی تھیں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو کہتے جاتے تھے کہ اے جانِ پدر رو نہیں اللہ تیرے باپ کی مدد کرے گا۔
16..واقعہ ہجرت
ان کے بچپن ہی میں ہجرتِ مدینہ کا واقعہ ہوا۔ ربیع الاول میں بعثت کی دس تاریخ کو ہجرت ہوئی۔ مدینہ پہنچ کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زید بن حارثہ اور ابو رافع کو 500 درھم اور اونٹ دے کر مکہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا چنانچہ وہ کچھ دن بعد مدینہ پہنچ گئیں۔ بعض دیگر روایات کے مطابق انہیں حضرت علی علیہ السلام بعد میں لے کر آئے۔ 2 ہجری تک آپ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کی زیرِ تربیت رہیں۔ 2ھ میں رسول اللہ نے حضرت ام سلمیٰ سے عقد کیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ان کی تربیت میں دے دیا۔

17..ادب
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میرے سپرد کیا گیا۔ میں نے انہیں ادب سکھانا چاہا مگر خدا کی قسم فاطمہ تو مجھ سے زیادہ مودب تھیں اور تمام باتیں مجھ سے بہتر جانتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے تھے۔عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ابھی کم سن تھیں تشریف لائیں۔ بھوک کی شدت سے ان کا رنگ متغیر ہو رہا تھا۔آنحضرت نے دیکھا تو کہا کہ بیٹی ادھر آو۔ جب آپ قریب آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے بھوکوں کو سیر کرنے والے پروردگار، اے پستی کو بلندی عطا کرنے والے مالک، فاطمہ کے بھوک کی شدت کو ختم فرما دے۔ اس دعا کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چہرے کی زردی مبدل بسرخی ہو گئی، چہرے پر خون دوڑنے لگا اور آپ ہشاش بشاش نظر آنے لگیں۔خود حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ اس کے بعد مجھے پھر کبھی بھوک کی شدت نے پریشان نہیں کیا۔

18..شادی:
بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ اے علی خدا کا حکم ہے کہ میں فاطمہ کی شادی تم سے کر دوں۔ کیا تمہیں منظور ہے۔ انہوں نے کہا ہاں چنانچہ شادی ہو گئی۔ یہی روایت صحاح میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہا، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہ نے کی ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نکاح علی رضی اللہ عنہ سے کردوں۔ بعض روایات کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود خواہش کا اظہار فرمایا تو حضور نے قبول فرمالیا اور کہا: مرحباً و اھلاً۔

19..شادی کا احوال
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔ کچھ اور روایات کے مطابق امام محمد باقر علیہ السلام و امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ نکاح رمضان میں اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ میں ہوئی۔شادی کے اخراجات کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زرہ 500 درھم میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچ دی اور بعد ازاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہی زرہ تحفۃً انہیں لوٹادی۔ یہ رقم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ کے حوالے کر دی جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر قرار پایا۔ جبکہ بعض دیگر روایات میں مہر 480 درھم تھا۔

20..جہیز:
جہیز کے لیے رسول اللہ نے حضرت مقداد ابن اسود رضی اللہ عنہا کو رقم دے کر اشیاء خریدنے کے لیے بھیجا اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدد کے لیے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے چیزیں لا کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے رکھیں۔ اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں۔ مختلف روایات میں جہیز کی فہرست میں ایک قمیص، ایک مقنع (یا خمار یعنی سر ڈھانکنے کے لیے کپڑا)، ایک سیاہ کمبل، کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چار چھوٹے تکیے، ہاتھ کی چکی، کپڑے دھونے کے لیے تانبے کا ایک برتن، چمڑے کی مشک، پانی پینے کے لیے لکڑی کا ایک برتن(بادیہ)، کھجور کے پتوں کا ایک برتن جس پر مٹی پھیر دیتے ہیں، دو مٹی کے آبخورے، مٹی کی صراحی، زمین پر بچھانے کا ایک چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا شامل تھے۔ یہ مختصر جہیز دیکھ کر رسول اللہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ان پر برکت نازل فرما جن کے اچھے سے اچھے برتن مٹی کے ہیں۔ یہ جہیز اسی رقم سے خریدا گیا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ بیچ کر حاصل کی تھی۔
21..رخصتی:
نکاح کے کچھ ماہ بعد یکم ذی الحجہ کو آپ سلام اللہ علیہا کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے جلوس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اشہب نامی ناقہ پر سوار ہوئیں جس کے ساربان حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ ازواج مطہرات جلوس کے آگے آگے تھیں۔ بنی ھاشم ننگی تلواریں لیے جلوس کے ساتھ تھے۔ مسجد کے اردگرد چکر لگانے کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں اتارا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پانی منگوایا اس پر دعائیں دم کیں اور علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سر بازؤوں اور سینے پر چھڑک کر دعا کی کہ اے اللہ انہیں اور ان کی اولاد کو شیطان الرجیم سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔ ازواج مطہرات نے جلوس کے آگے رجز پڑھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خاندان عبدالمطلب اور مہاجرین و انصار کی خواتین کو کہا کہ رجز پڑھیں خدا کی حمد و تکبیر کہیں اور کوئی ایسی بات نہ کہیں اور کریں جس سے خدا ناراض ہوتا ہو۔ بالترتیب حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے رجز پڑھے۔ ازواج مطہرات نے جو رجز پڑھے وہ درج ذیل ہیں:

22..حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا رجز:
اے پڑوسنو! چلو اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے اور ہر حال میں اس کا شکر ادا کرو۔ اور جن پریشانیوں اور مصیبتوں کو دور کرکے اللہ نے احسان فرمایا ہے اسے یاد کرو۔ آسمانوں کے پروردگار نے ہمیں کفر کی تاریکیوں سے نکالا اور ہر طرح کا عیش و آرام دیا۔ اے پڑوسنو۔ چلو سیدہ زنانِ عالم کے ساتھ جن پر ان کی پھوپھیاں اور خالائیں نثار ہوں۔ اے عالی مرتبت پیغمبر کی بیٹی جسے اللہ نے وحی اور رسالت کے ذریعے سے تمام لوگوں پر فضیلت دی۔

23..حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رجز:
اے عورتو! چادر اوڑھ لو اور یاد رکھو کہ یہ چیز مجمع میں اچھی سمجھی جاتی ہے۔ یاد رکھو اس پروردگار کو جس نے اپنے دوسرے شکر گذار بندوں کے ساتھ ہمیں بھی اپنے دینِ حق کے لیے مخصوص فرمایا۔ اللہ کی حمد اس کے فضل و کرم پر اور شکر ہے اس کا جو عزت و قدرت والا ہے۔ فاطمہ زھرا رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کے چلو کہ اللہ نے ان کے ذکر کو بلند کیا ہے اور ان کے لیے ایک ایسے پاک و پاکیزہ مرد کو مخصوص کیا ہے جو ان ہی کے خاندان سے ہے۔

24..حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا رجز:
اے فاطمہ! تم عالم انسانیت کی تمام عورتوں سے بہتر ہو۔ تمہارا چہرہ چاند کی مثل ہے۔ تمہیں اللہ نے تمام دنیا پر فضیلت دی ہے۔ اس شخص کی فضیلت کے ساتھ جس کا فضل و شرف سورہ زمر کی آیتوں میں مذکور ہے۔ اللہ نے تمہاری تزویج ایک صاحب فضائل و مناقب نوجوان سے کی ہے یعنی علی رضی اللہ عنہ سے جو تمام لوگوں سے بہتر ہے۔ پس اے میری پڑوسنو۔ فاطمہ کو لے کر چلو کیونکہ یہ ایک بڑی شان والے باپ کی عزت مآب بیٹی ہے۔

25..شادی کے بعد:
آپ کی شادی کے بعد زنانِ قریش انہیں طعنے دیتی تھیں کہ ان کی شادی ایک غریب سے کردی گئی ہے۔ جس پر انہوں نے رسالت مآب سے شکایت کی تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی کہ اے فاطمہ ایسا نہیں ہے بلکہ میں نے تیری شادی ایک ایسے شخص سے کی ہے جو اسلام میں سب سے اول، علم میں سب سے اکمل اور حلم میں سب سے افضل ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ علی میرا بھائی ہے دنیا اور آخرت میں؟۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہنسنے لگیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ بابا جان میں اس پر راضی اور خوش ہوں۔

26..بہترین اسوہ :
شادی کے بعد آپ کی زندگی طبقہ نسواں کے لیے ایک مثال ہے۔ آپ گھر کا تمام کام خود کرتی تھیں مگر کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا۔ نہ ہی کوئی مددگار یا کنیز کا تقاضا کیا۔ 7ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک کنیز عنایت کی جو حضرت فضہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے باریاں مقرر کی تھیں یعنی ایک دن وہ کام کرتی تھیں اور ایک دن حضرت فضہ رضی اللہ عنہا کام کرتی تھیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ بچے کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک کام فضہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دو۔ آپ نے جواب دیا کہ بابا جان آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے۔

28..شوہر سے مثالی تعلق :
آپ کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی مثالی تعلقات تھے۔ کبھی ان سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہابیمار پڑیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ۔ آپ نے کہا کہ میرے پدر بزرگوار نے تاکید کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، ممکن ہے کہ آپ اس کو پورا نہ کرسکیں اور آپ کو رنج ہو۔اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔
29..جنگیں
آپ رضی اللہ عنہا نے کئی جنگیں دیکھیں جن میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمایاں کردار ادا کیا مگر کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں اور پیچھے رہیں۔ اس کے علاوہ جنگ احد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سولہ زخم کھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا مگر آپ نے کسی خوف و ہراس کا مظاہرہ نہیں کیا اور مرہم پٹی، علاج اور تلواروں کی صفائی کے فرائض سرانجام دیے۔

30..اولاد:
اللہ نے آپ کو دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ دو بیٹے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بیٹیاں زینب بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا و ام کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔ ان کے دونوں بیٹوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا بیٹا کہتے تھے اور بہت پیار کرتے تھے۔ اور فرمایا تھا کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ ان کے نام بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود رکھے تھے۔

31..واقعہ مباہلہ:
مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے اور ان چند واقعات میں سے ایک ہے جس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنگ کے علاوہ گھر سے نکلنا پڑا۔ نجران کے مسیحی جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملنے آئے اور بحث کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور کسی طرح نہ مانے تو اللہ نے قرآن میں درج ذیل آیت نازل کی:
’’اے پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے بحث کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں‘‘۔(سوره آل عمران آيت: 61)
اس کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا کہ عیسائی اپنے برگزیدہ لوگوں کو لائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے گرگزیدہ بندوں کے ساتھ آئیں گے اور مباہلہ کریں گے اور اسی طریقہ سے فیصلہ ہوگا۔ اگلی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ساتھ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چادر میں لپیٹے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لیے ہوئے آئے۔ ان لوگوں کو دیکھتے ہی عیسائی مغلوب ہو گئے اور ان کے سردار نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے بد دعا کریں تو روئے زمین پر ایک بھی عیسائی سلامت نہ رہے۔

32..ایام وصال مصطفی:
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وصال سے قبل مرض وصال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔اس کے بعد آپ نے پھر سرگوشی کی تو آپ رضی اللہ عنہا مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا نے اپنی موت کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔
ایک اور روایت میں یحیٰ بن جعدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ سال میں ایک مرتبہ حضرت جبرائیل امین سے قرآن کا دور ہوتا تھا مگر اس دفعہ دو مرتبہ کیا گیا۔ اس سے مجھے بتایا گیا ہے کہ میرا وصال قریب ہے۔ میرے اہل میں سے تم مجھے سب سے پہلے آ کر ملو گی۔ یہ سن کر آپ غمگین ہوئیں تو رسول اللہ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم زنان اہلِ جنت کی سردار ہو؟ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہا مسکرانے لگیں۔

32..وصال
رسول اللہ کا وصال ایک عظیم سانحہ تھا جو حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے لئے کوہ گراں ثابت ہوا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے کچھ ماہ بعد آپ سلام اللہ علیہا کی وفات ہوئی۔ اس کی تاریخ 3 جمادی الثانی 11ھ ہے۔ آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں جہاں پر ایک روضہ بھی بنا ہوا تھا جسے سعودی حکومت نے 8 شوال 1344ھ کو شہید کردیا۔

33..احادیث میں فضائل
* حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے اور حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں۔
* حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
* حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا میری جان کا حصہ ہے۔ اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے۔
* حضرت ابو حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا میری جان کا حصہ ہے۔ جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔
* حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوتیں۔
* ایک اور مشہور حدیث (جو حدیث کساء کے نام سے معروف ہے) کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک یمنی چادر کے نیچے حضرت فاطمہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ و حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ بے شک اللہ چاہتا ہے کہ اے میرے اہل بیت تجھ سے رجس کو دور کرے اور ایسے پاک کرے جیسا پاک کرنے کا حق ہے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f
💐دخترِ خیرالوریٰ ہیں فاطمہ
زوجۂ شیرِ خدا ہیں فاطمہ

نام اُن کا باعثِ برکات ہے
منبعِ خیر و ذَکا ہیں فاطمہ

سائلوں کو خالی لوٹاتیں نہیں
مصدرِ لطف و عطا ہیں فاطمہ

کربلا کی ہیں مُربّیہ وہی
پیکرِ صبر و رضا ہیں فاطمہ

اُن سے ہے شاداب دیں کا ہر چمن
رونقِ بزمِ وفا ہیں فاطمہ

عابدہ و زاہدہ و پارسا
محورِ صدق و صفا ہیں فاطمہ

اے مشاہد اِس سے بڑھ کر کیا کہوں
جانِ شاہِ انبیا ہیں فاطمہ

عرض نمودہ : محمد حسین مشاہد رضوی
https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f
💐 3رمضان المبارک
یومِ وصال سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا
۔

راحتِ جانِ سلطانِ ہر دوسرا
نور چشمِ جنابِ حبیبِ خدا
عین لختِ دلِ سرورِ انبیاء
اُس بتولِ جگر پارہء مصطفیٰ
حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام

راحتِ جاں جگر گوشۂ مصطفیٰ
بنت معصومہء خانہء مصطفیٰ
پرتو کاملِ جلوہء مصطفیٰ
اُس بتولِ جگر پارہء مصطفیٰ
حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام

کانِ صبرورضا جانِ شرم و حیا
پیکر اتقاء گنجِ حلم و وفا
اُم حسنین اور زوجہء مرتضیٰ
اُس بتولِ جگر پارہء مصطفیٰ
حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام

آنکھ کا نور دل کا سکوں بن گیا
باخدا جس کا ہر ایک تارِ ردا
جس کی عصمت کا حوروں میں ہے تذکرہ
اُس بتولِ جگر پارہء مصطفیٰ
حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام

نورِ قندیلِ کاشانہء مصطفیٰ
ہر قدم رہروِ جادہء مصطفیٰ
یعنی خیرالنساء، آیہء مصطفیٰ
اُس بتولِ جگر پارہء مصطفیٰ
حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام

نازشِ طاعتِ مریم و آسیہ
نورِ عین شہنشاہِ ہر دوسرا
پیکرِ حلم و ایثار و شرم و حیا
اُس بتولِ جگر پارہء مصطفیٰ
حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام

𝒩𝒶𝒶𝓉 𝒜𝒸𝒶𝒹ℯ𝓂𝓎
Dua for 1st 10 Days of Ramadan - Ashra e Rahmat
- پہلے عشرے کی دعا
- ایک روزہ سے 10 روزہ تک پڑھنے کی دعا
Tumharay paas rozah-dar iftar kia karein, Tumhara khana nek log khaen, aur firishtay tum par rehmat bhejte rahain.

𝒩𝒶𝒶𝓉 𝒜𝒸𝒶𝒹ℯ𝓂𝓎
📖 Dars ℯ Quran With Kanzul Iman
2nd Ramadan Ul Mubarak

درسِ قرآن کریم مع ترجمہ کنز الایمان
2 رمضان المبارک

{وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ: اور حق کو باطل سے نہ ملاؤ۔} یہودی علماء نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و نبوت سے متعلق تورات کی آیتیں چھپاتے بھی تھے اور کبھی کچھ بیان کرتے تو ان کے ساتھ اپنی طرف سے کچھ باطل باتیں بھی ملادیا کرتے تھے مثلا اپنے پیروکاروں سے کہتے کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نبی تو ہیں لیکن ہمارے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے ہیں۔یہودی علماء نے اس طرح کی کئی باتیں گھڑی ہوئی تھیں جن کے ذریعے وہ جان بوجھ کر حق چھپانے اور حق و باطل کو ملا کر دھوکہ دینے کے طریقے اختیار کئے ہوئے تھے ۔علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ حق کو باطل سے نہ ملائے اور نہ ہی حق کو چھپائے کیونکہ اس میں فساد اور نقصان ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حق بات جاننے والے پر اسے ظاہر کرنا واجب ہے اور حق بات کو چھپانا ا س پر حرام ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱ / ۴۹)
Dars e Quran With Kanzul Iman
1st Ramadan Ul Mubarak
درسِ قرآن کریم مع ترجمہ کنز الایمان
1 رمضان المبارک
دِل عبث خوف سے پتّا سا اُڑا جاتا ہے
پلّہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسا تیرا

تُو جو چاہے تو ابھی میل مرے دل کے دُھلیں
کہ خُدا دِل نہیں کرتا کبھی مَیلا تیرا

ایک میں کیا مِرے عِصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اِشارہ تیرا

خوار و بیمار و خطا وار و گنہ گار ہوں میں
رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا

میری تقدیر بُری ہو تو بھلی کر دے کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا

اعلیٰ حضرت
🪀
https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f