🔷 پانی سے پلاسٹک کے ذرات صاف کرین 🔷
پانی کو پلاسٹک کے ننھے ذرات سے پاک کرنے کا آسان ترین طریقہ
ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات خوراک اور پانی کے ذریعے ہمارے جسموں کی گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں۔
مگر پانی میں موجود ان ذرات کو نکالنے کا طریقہ بہت آسان ہے۔
چین میں ہونے والی تحقیق میں منرلز سے بھرپور پانی اور سافٹ واٹر پر مختلف تجربات کیے گئے۔
اس تحقیق میں پانی کی دونوں اقسام کو ابالنے سے قبل پلاسٹک کے ننھے ذرات کو شامل کیا گیا اور ابالنے کے بعد پھر انہیں فلٹر کیا گیا۔
گوانگزو میڈیکل یونیورسٹی اور جینان یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ابالنے اور فلٹر کرنے سے پلاسٹک کے 90 فیصد ذرات ختم ہو جاتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ پانی ابالنے کے سادہ طریقہ کار سے گھر کے پانی سے پلاسٹک کے ذرات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منرلز سے بھرپور پانی کو ابالنے سے پلاسٹک کے ننھے ذرات کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی آتی ہے۔
اس طرح کے پانی میں موجود کیلشیئم کاربونیٹ ابلنے کے بعد کامیابی سے پلاسٹک کے ذرات کو ٹریپ کرلیتا ہے۔
محققین کے مطابق نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات سے نجات بہت آسان ہے بس پانی کو ابال لیں۔
یہاں تک کہ سافٹ واٹر جس میں کیلشیئم کاربونیٹ کم تحلیل ہوتا ہے، اس میں بھی پلاسٹک کے 25 فیصد ذرات کا خاتمہ اس طریقہ کار سے ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد چائے کی چھلنی سے اگر پانی کو فلٹر کیا جائے تو باقی ماندہ پلاسٹک کے ذرات سے بھی پانی کو پاک کیا جاسکتا ہے۔
مختلف تحقیقی رپورٹس کے مطابق انسان پانی کے ذریعے روزانہ بہت بڑی تعداد میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو جزو بدن بناتے ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پلاسٹک کے یہ ذرات ہمارے جسم کو کیا نقصان پہنچاتے ہیں مگر یہ واضح ہے کہ یہ صحت کے لیے کوئی اچھی چیز نہیں۔
مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ پلاسٹک سے معدے میں موجود بیکٹیریا کے افعال میں تبدیلیاں آتی ہیں جبکہ جسم میں اینٹی بائیوٹیک مزاحمت بڑھتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ پانی ابالنا طویل المعیاد بنیادوں پر پلاسٹک کے ننھے ذرات کو جسم میں جانے سے روکنے کے لیے آسان ذریعہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حیران کن طور پر بہت کم خطوں میں پانی کو ابال کر استعمال کیا جاتا ہے مگر توقع ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس طریقہ کار کو اپنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے انسانوں کو پلاسٹک کے ننھے ذرات سے بچانے کے ایک آسان طریقے کی افادیت ثابت ہوئی۔
📚 اس تحقیق کے نتائج جرنل انوائرمنٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لیٹرز میں شائع ہوئے۔
🌹 پوسٹ پسند آئے تو دوسروں کی معلومات کے لئے شیئر ضرور کیجیے۔
https://t.me/islamwitheman/6858
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
پانی کو پلاسٹک کے ننھے ذرات سے پاک کرنے کا آسان ترین طریقہ
ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات خوراک اور پانی کے ذریعے ہمارے جسموں کی گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں۔
مگر پانی میں موجود ان ذرات کو نکالنے کا طریقہ بہت آسان ہے۔
چین میں ہونے والی تحقیق میں منرلز سے بھرپور پانی اور سافٹ واٹر پر مختلف تجربات کیے گئے۔
اس تحقیق میں پانی کی دونوں اقسام کو ابالنے سے قبل پلاسٹک کے ننھے ذرات کو شامل کیا گیا اور ابالنے کے بعد پھر انہیں فلٹر کیا گیا۔
گوانگزو میڈیکل یونیورسٹی اور جینان یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ابالنے اور فلٹر کرنے سے پلاسٹک کے 90 فیصد ذرات ختم ہو جاتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ پانی ابالنے کے سادہ طریقہ کار سے گھر کے پانی سے پلاسٹک کے ذرات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منرلز سے بھرپور پانی کو ابالنے سے پلاسٹک کے ننھے ذرات کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی آتی ہے۔
اس طرح کے پانی میں موجود کیلشیئم کاربونیٹ ابلنے کے بعد کامیابی سے پلاسٹک کے ذرات کو ٹریپ کرلیتا ہے۔
محققین کے مطابق نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات سے نجات بہت آسان ہے بس پانی کو ابال لیں۔
یہاں تک کہ سافٹ واٹر جس میں کیلشیئم کاربونیٹ کم تحلیل ہوتا ہے، اس میں بھی پلاسٹک کے 25 فیصد ذرات کا خاتمہ اس طریقہ کار سے ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد چائے کی چھلنی سے اگر پانی کو فلٹر کیا جائے تو باقی ماندہ پلاسٹک کے ذرات سے بھی پانی کو پاک کیا جاسکتا ہے۔
مختلف تحقیقی رپورٹس کے مطابق انسان پانی کے ذریعے روزانہ بہت بڑی تعداد میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو جزو بدن بناتے ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پلاسٹک کے یہ ذرات ہمارے جسم کو کیا نقصان پہنچاتے ہیں مگر یہ واضح ہے کہ یہ صحت کے لیے کوئی اچھی چیز نہیں۔
مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ پلاسٹک سے معدے میں موجود بیکٹیریا کے افعال میں تبدیلیاں آتی ہیں جبکہ جسم میں اینٹی بائیوٹیک مزاحمت بڑھتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ پانی ابالنا طویل المعیاد بنیادوں پر پلاسٹک کے ننھے ذرات کو جسم میں جانے سے روکنے کے لیے آسان ذریعہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حیران کن طور پر بہت کم خطوں میں پانی کو ابال کر استعمال کیا جاتا ہے مگر توقع ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس طریقہ کار کو اپنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے انسانوں کو پلاسٹک کے ننھے ذرات سے بچانے کے ایک آسان طریقے کی افادیت ثابت ہوئی۔
📚 اس تحقیق کے نتائج جرنل انوائرمنٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لیٹرز میں شائع ہوئے۔
🌹 پوسٹ پسند آئے تو دوسروں کی معلومات کے لئے شیئر ضرور کیجیے۔
https://t.me/islamwitheman/6858
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
دیسی مرغیاں مختلف رنگوں کی ہوتی ہیں لیکن برائلر مرغیاں صرف سفید رنگ کی ہوتی ہیں۔
یہ مرغیاں سفید اس لئے ہوتی ہیں کیونکہ یہ سفید رنگ کی مرغیوں کی سیلیکٹو بریڈنگ کے ذریعے پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے ایک خاص تسلسل سے پیدا کی جا رہی ہیں۔
اس مقصد کے تحت سفید کارنش اور سفید پلائمتھ اور ایک تیسری سفید نسل کی مرغیوں کی آپس میں تولید کرائی جن سے پیدا ہونے والی مرغیاں سفید پیدا ہوئی اور پھر ان مرغیوں کی آگے بڑھتی ہوئی نسل میں باہر کی ورائٹی آنے سے ہر ممکنہ دوری اختیار کی گئی۔
ان تین قسم کی مرغیوں کی بریڈنگ اسلئے چنی کیونکہ یہ زیادہ گوشت پیدا کرتی ہیں۔
سفید رنگ کی ہی مرغیوں کو کیوں چنا؟
اس بات کا مقصد آسانی تھا۔ سفید پروں کو گوشت پر سے آسانی کیساتھ پہچان سکتے ہیں جبکہ رنگیلے پروں کو پہچاننا کافی مشکل کام ہے اسلئے سفید رنگ کی مرغیوں کی نسل کو ہی چنا گیا۔
جبکہ دیسی یا پھر آوارہ مرغیاں مختلف رنگوں کی اسلئے ہوتی ہیں کیونکہ انکی بریڈنگ پہ کوئی خاص پابندی نہیں وہ آزادانہ طور پہ اپنا جنیٹک میٹیریل مکس اپ کرتی رہتی ہیں سو ایک رنگ کی نہیں ہو سکتیں۔
یاد رہے یہ مرغیاں سیلیکٹو بریڈنگ کا نتیجہ ہیں نہ کہ جنیٹک انجینرنگ کا۔
یہ مرغیاں سفید اس لئے ہوتی ہیں کیونکہ یہ سفید رنگ کی مرغیوں کی سیلیکٹو بریڈنگ کے ذریعے پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے ایک خاص تسلسل سے پیدا کی جا رہی ہیں۔
اس مقصد کے تحت سفید کارنش اور سفید پلائمتھ اور ایک تیسری سفید نسل کی مرغیوں کی آپس میں تولید کرائی جن سے پیدا ہونے والی مرغیاں سفید پیدا ہوئی اور پھر ان مرغیوں کی آگے بڑھتی ہوئی نسل میں باہر کی ورائٹی آنے سے ہر ممکنہ دوری اختیار کی گئی۔
ان تین قسم کی مرغیوں کی بریڈنگ اسلئے چنی کیونکہ یہ زیادہ گوشت پیدا کرتی ہیں۔
سفید رنگ کی ہی مرغیوں کو کیوں چنا؟
اس بات کا مقصد آسانی تھا۔ سفید پروں کو گوشت پر سے آسانی کیساتھ پہچان سکتے ہیں جبکہ رنگیلے پروں کو پہچاننا کافی مشکل کام ہے اسلئے سفید رنگ کی مرغیوں کی نسل کو ہی چنا گیا۔
جبکہ دیسی یا پھر آوارہ مرغیاں مختلف رنگوں کی اسلئے ہوتی ہیں کیونکہ انکی بریڈنگ پہ کوئی خاص پابندی نہیں وہ آزادانہ طور پہ اپنا جنیٹک میٹیریل مکس اپ کرتی رہتی ہیں سو ایک رنگ کی نہیں ہو سکتیں۔
یاد رہے یہ مرغیاں سیلیکٹو بریڈنگ کا نتیجہ ہیں نہ کہ جنیٹک انجینرنگ کا۔
مولانا مودودیؒ سے کسی نے پوچھا آپ نےکبھی ولی اللہ دیکھا ہے؟
مولاناؒ نے فرمایا: میں تو ابھی ایک ولی اللہ سے مل کر آرہا ہوں،
تفصیل پوچھی گئی تو بتایا ، ریلوےاسٹیشن پر اترے تو سامان اٹھانے کے لئے قلی کی ضرورت پڑی، بہت سے قلی حضرات دوڑے آئے میری نظر ایک ایسے قلی پر پڑی جو نہایت آرام سےنماز میں مشغول تھا، ہم نے فیصلہ کیا اس کا ہی انتظار کریں گے، وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے پوچھا کیسے بندے ہو، ٹرین کی آمد ہی تو تمہارے رزق کا سامان ہے تم نے رزق کمانےکے وقت میں نماز کیوں شروع کر دی، اس قلی نے جواب دیا، جو رازق ہے وہ میرے حصے کا رزق مجھ تک ضرورت پہنچا دیتا ہے، اب جس رازق نےآپ کو میرے لئے روکے رکھا کیا مجھے جچتا ہے اسکی عبادت لیٹ کر دوں؟
بھلا اس سے بڑا ولی اللہ کون ہو سکتا ہے؟
مولاناؒ نے فرمایا: میں تو ابھی ایک ولی اللہ سے مل کر آرہا ہوں،
تفصیل پوچھی گئی تو بتایا ، ریلوےاسٹیشن پر اترے تو سامان اٹھانے کے لئے قلی کی ضرورت پڑی، بہت سے قلی حضرات دوڑے آئے میری نظر ایک ایسے قلی پر پڑی جو نہایت آرام سےنماز میں مشغول تھا، ہم نے فیصلہ کیا اس کا ہی انتظار کریں گے، وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے پوچھا کیسے بندے ہو، ٹرین کی آمد ہی تو تمہارے رزق کا سامان ہے تم نے رزق کمانےکے وقت میں نماز کیوں شروع کر دی، اس قلی نے جواب دیا، جو رازق ہے وہ میرے حصے کا رزق مجھ تک ضرورت پہنچا دیتا ہے، اب جس رازق نےآپ کو میرے لئے روکے رکھا کیا مجھے جچتا ہے اسکی عبادت لیٹ کر دوں؟
بھلا اس سے بڑا ولی اللہ کون ہو سکتا ہے؟
🏴 شہادت امام حسن علیہ السلام 🏴
حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت پر امام زمانہ عج اور تمام مؤمنین کی خدمت میں ہدیہ تعزیت و تسلیت عرض ہے۔
جعدہ کا باپ اشعث بن قیس کندی تھا جو اپنے قبیلہ کا سردار تھا اور جنگجو بھی تھا۔ یہ شخص حیات پیغمبر (ص) کے آخری دنوں میں مدینے گیا اور مسلمان ہو گیا اور اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان اپنا مقام بنانے کی کوشش میں لگ گیا۔ لہذا اس نے بہر صورت خود کو پیغمبر سے منسوب کرنا چاہا۔ تاریخ طبری میں واضح لکھا ہے کہ اشعث بن قیس نے اپنی 30 سالہ بہن کو پیغمبر اکرم کے عقد میں دیا۔ یہاں ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی عمر وفات کے وقت ساٹھ سال سے اوپر تھی یعنی جب آپ نے رحلت فرمائی تو آپ کی عمر 63 سال تھی لہذا ایک آدمی 63 سال کی عمر میں کیا محرک رکھتا ہے کہ جب اشعث بن قیس اپنی 30 سالہ بہن انہیں دے تو وہ قبول کر لیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پیغمبر اکرم (ص) کے اخلاق حسنہ کی علامت ہے کہ جو بھی کوئی ہدیہ دیتا تھا آپ اسے قبول کرتے تھے.
ادھر اشعث بن قیس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ جب اس نے اپنی بہن کو پیغمبر اکرم کے عقد میں دیا اور مدینے سے یمن واپس گیا تاکہ اپنی بہن کو تیار کر کے مدینہ لے جائے تو خبر پہنچی کہ پیغمبر دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ یہ خبر سنتے ہی مرتد ہو گیا اس کے بعد جب مسلمانوں نے اشعث پر لشکر کشی کی اور اس کی فوج کو تہس نہس کر دیا اور اسے گرفتار کر کے مدینہ لائے۔ خلیفہ اول نے یمنیوں کی نسبت اپنی مہربانی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے مرتد ہونے پر شرعی حد جاری نہیں کی بلکہ اسے آزاد کر کے اپنی بہن اس کے عقد میں دے دی۔ تاریخ میں ہے کہ کوفے میں حضرت مسلم اور کربلا میں امام حسین۴ کے ساتھ جن لوگوں نے جنگ کی ان میں اشعث کے وہ بیٹے بھی تھے جو حضرت ابوبکر کی بہن سے تھے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام جب جنگ صفین کی تیاریاں کر رہے تھے تو انہوں نے یمنی قبیلوں کو اپنی طرف جذب کرنے کی کوشش کی جبکہ ادھر معاویہ بھی اس کوشش میں تھا کہ انہیں اپنے لشکر میں شامل کرے۔ لہذا امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اشعث کو بلوایا۔ اشعث نے اپنے قبیلے والوں کے ساتھ جلسہ کیا کہ وہ حضرت علی۴ کی طرف جائیں گے یا معاویہ کی طرف؟ عراق کے ساتھ رہیں گے یا شام کے ساتھ؟ ان میں سے ایک گروہ جن کے دلوں میں محبت اہلبیت تھی اور امیرالمؤمنین سے لگاؤ رکھتے تھے اشعث کے مد مقابل آ گئے اشعث سمجھ گیا کہ وہ اپنے قبیلے کے درمیان معاویہ کو حضرت علی۴ پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ لہذا وہ مجبور ہوا کہ کوفہ جائے لیکن وہ اندر اندر سے ابھی بھی مرتد تھا اور پیغمبر اور خاندان پیغمبر کی نسبت اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں تھی۔
کوفہ میں اشعث کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا لہذا وہ اس تلاش میں تھا کہ کوفہ میں کسی نہ کسی طرح سے اپنی حیثیت قائم کرے۔
یہ بات سبط ابن الجوزی متوفیٰ ۶۶۵ کی کتاب تذکرۃ الخواص میں نقل ہوئی ہے...
کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کوفہ کے ایک بزرگ اور محترم شخص سے امام حسن۴ کے لیے رشتہ مانگا۔ اسی دوران اشعث کوفہ پہنچا اور از قضا اس شخص کی اشعث سے ملاقات ہوئی تو اس کے حالات کے بارے میں باز پرس کی تو اس نے سادہ لوحی یا اپنی منزلت بیان کرنے کی غرض سے اشعث سے کہہ دیا کہ امیرالمؤمنین۴ نے ہماری لڑکی کا رشتہ مانگا ہے اشعث بن قیس اتنی بات سنتے ہی فورا امیرالمؤمنین۴ کے پاس پہنچا اور گلے شکوے کرنے لگا کہ ہمارے اندر اتنے کون سے عیب ہیں کہ آپ نے فلاں کے گھر رشتہ بھجوایا ہے؟ در حقیقت اس نے دبے الفاظ میں اپنی لڑکی کو امام حسن۴ کے لیے امیرالمؤمنین کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا۔ امیرالمؤمنین۴ نے بھی اخلاق پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے اسے قبول کر لیا تاکہ اس کی توہین نہ ہو۔ اور یوں اپنی بیٹی کا رشتہ مولا علی۴ کے بیٹے امام حسن۴ کو کو دینے کی بات پر راضی کردیا..
جعدہ کے یہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا اور امام حسن علیہ السلام نے دوسری شادیاں کر لیں اور ان سے ان کو اولاد ہوئی۔
لہذا معاویہ نے بھی اپنی چالاکی کا استعمال کرتے ہوئے اشعث کا ایمان بھانپا اور اسے لالچ دینا شروع کر دی۔ حتیٰ کہ تاریخ میں ہے کہ امیرالمؤمنین۴ اور حجر بن عدی کے قتل میں بھی اس کا ہاتھ تھا۔
اصل میں یہ وہی شخص ہے جس نے قرآن کریم کو نیزوں پر اٹھانے کا مشورہ دیا- اگر اشعث نہ ہوتا تو معاویہ کی مکاری بالکل کامیاب نہ ہوتی۔ اور اس کے علاوہ معاویہ نے اپنے دوسرے عامل مروان بن حکم، کہ جو مدینے میں تھا، اور اپنے دل میں اہل بیت کی شدید دشمنی رکھتا تھا اور خلیفہ سوم کا داماد تھا اور جنگ جمل میں امیرالمؤمنین پر تلوار چلاتا تھا، جس کے دل میں کبھی بھی امیرالمؤمنینؑ اور اہلبیتؑ کی محبت نہیں آئی،
حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت پر امام زمانہ عج اور تمام مؤمنین کی خدمت میں ہدیہ تعزیت و تسلیت عرض ہے۔
جعدہ کا باپ اشعث بن قیس کندی تھا جو اپنے قبیلہ کا سردار تھا اور جنگجو بھی تھا۔ یہ شخص حیات پیغمبر (ص) کے آخری دنوں میں مدینے گیا اور مسلمان ہو گیا اور اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان اپنا مقام بنانے کی کوشش میں لگ گیا۔ لہذا اس نے بہر صورت خود کو پیغمبر سے منسوب کرنا چاہا۔ تاریخ طبری میں واضح لکھا ہے کہ اشعث بن قیس نے اپنی 30 سالہ بہن کو پیغمبر اکرم کے عقد میں دیا۔ یہاں ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی عمر وفات کے وقت ساٹھ سال سے اوپر تھی یعنی جب آپ نے رحلت فرمائی تو آپ کی عمر 63 سال تھی لہذا ایک آدمی 63 سال کی عمر میں کیا محرک رکھتا ہے کہ جب اشعث بن قیس اپنی 30 سالہ بہن انہیں دے تو وہ قبول کر لیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پیغمبر اکرم (ص) کے اخلاق حسنہ کی علامت ہے کہ جو بھی کوئی ہدیہ دیتا تھا آپ اسے قبول کرتے تھے.
ادھر اشعث بن قیس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ جب اس نے اپنی بہن کو پیغمبر اکرم کے عقد میں دیا اور مدینے سے یمن واپس گیا تاکہ اپنی بہن کو تیار کر کے مدینہ لے جائے تو خبر پہنچی کہ پیغمبر دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ یہ خبر سنتے ہی مرتد ہو گیا اس کے بعد جب مسلمانوں نے اشعث پر لشکر کشی کی اور اس کی فوج کو تہس نہس کر دیا اور اسے گرفتار کر کے مدینہ لائے۔ خلیفہ اول نے یمنیوں کی نسبت اپنی مہربانی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے مرتد ہونے پر شرعی حد جاری نہیں کی بلکہ اسے آزاد کر کے اپنی بہن اس کے عقد میں دے دی۔ تاریخ میں ہے کہ کوفے میں حضرت مسلم اور کربلا میں امام حسین۴ کے ساتھ جن لوگوں نے جنگ کی ان میں اشعث کے وہ بیٹے بھی تھے جو حضرت ابوبکر کی بہن سے تھے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام جب جنگ صفین کی تیاریاں کر رہے تھے تو انہوں نے یمنی قبیلوں کو اپنی طرف جذب کرنے کی کوشش کی جبکہ ادھر معاویہ بھی اس کوشش میں تھا کہ انہیں اپنے لشکر میں شامل کرے۔ لہذا امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اشعث کو بلوایا۔ اشعث نے اپنے قبیلے والوں کے ساتھ جلسہ کیا کہ وہ حضرت علی۴ کی طرف جائیں گے یا معاویہ کی طرف؟ عراق کے ساتھ رہیں گے یا شام کے ساتھ؟ ان میں سے ایک گروہ جن کے دلوں میں محبت اہلبیت تھی اور امیرالمؤمنین سے لگاؤ رکھتے تھے اشعث کے مد مقابل آ گئے اشعث سمجھ گیا کہ وہ اپنے قبیلے کے درمیان معاویہ کو حضرت علی۴ پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ لہذا وہ مجبور ہوا کہ کوفہ جائے لیکن وہ اندر اندر سے ابھی بھی مرتد تھا اور پیغمبر اور خاندان پیغمبر کی نسبت اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں تھی۔
کوفہ میں اشعث کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا لہذا وہ اس تلاش میں تھا کہ کوفہ میں کسی نہ کسی طرح سے اپنی حیثیت قائم کرے۔
یہ بات سبط ابن الجوزی متوفیٰ ۶۶۵ کی کتاب تذکرۃ الخواص میں نقل ہوئی ہے...
کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کوفہ کے ایک بزرگ اور محترم شخص سے امام حسن۴ کے لیے رشتہ مانگا۔ اسی دوران اشعث کوفہ پہنچا اور از قضا اس شخص کی اشعث سے ملاقات ہوئی تو اس کے حالات کے بارے میں باز پرس کی تو اس نے سادہ لوحی یا اپنی منزلت بیان کرنے کی غرض سے اشعث سے کہہ دیا کہ امیرالمؤمنین۴ نے ہماری لڑکی کا رشتہ مانگا ہے اشعث بن قیس اتنی بات سنتے ہی فورا امیرالمؤمنین۴ کے پاس پہنچا اور گلے شکوے کرنے لگا کہ ہمارے اندر اتنے کون سے عیب ہیں کہ آپ نے فلاں کے گھر رشتہ بھجوایا ہے؟ در حقیقت اس نے دبے الفاظ میں اپنی لڑکی کو امام حسن۴ کے لیے امیرالمؤمنین کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا۔ امیرالمؤمنین۴ نے بھی اخلاق پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے اسے قبول کر لیا تاکہ اس کی توہین نہ ہو۔ اور یوں اپنی بیٹی کا رشتہ مولا علی۴ کے بیٹے امام حسن۴ کو کو دینے کی بات پر راضی کردیا..
جعدہ کے یہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا اور امام حسن علیہ السلام نے دوسری شادیاں کر لیں اور ان سے ان کو اولاد ہوئی۔
لہذا معاویہ نے بھی اپنی چالاکی کا استعمال کرتے ہوئے اشعث کا ایمان بھانپا اور اسے لالچ دینا شروع کر دی۔ حتیٰ کہ تاریخ میں ہے کہ امیرالمؤمنین۴ اور حجر بن عدی کے قتل میں بھی اس کا ہاتھ تھا۔
اصل میں یہ وہی شخص ہے جس نے قرآن کریم کو نیزوں پر اٹھانے کا مشورہ دیا- اگر اشعث نہ ہوتا تو معاویہ کی مکاری بالکل کامیاب نہ ہوتی۔ اور اس کے علاوہ معاویہ نے اپنے دوسرے عامل مروان بن حکم، کہ جو مدینے میں تھا، اور اپنے دل میں اہل بیت کی شدید دشمنی رکھتا تھا اور خلیفہ سوم کا داماد تھا اور جنگ جمل میں امیرالمؤمنین پر تلوار چلاتا تھا، جس کے دل میں کبھی بھی امیرالمؤمنینؑ اور اہلبیتؑ کی محبت نہیں آئی،
موقعه دیکھ کر معاویه نے اسکی بیٹی جعدہ کو یہ کام کرنے پر اکسایا- امام حسن مجتبی علیہ السلام کو شہید کرنے کیلیے امیر شام نے جعده لع کو ایک لاکھ درھم اور یزید لع سے شادی کرنے کا لالچ دیا، اس ملعونه نے منظور کر لیا-
أس دن امام حسن مجتبی علیہ السلام روزہ سے تھے، جعده لع نے افطار کے وقت امام حسن علیہ السلام کو دودھ کے پیالے میں میں زہر ملا کر دیا- امام۴ نے دودھ سے پیا اور محسوس کیا کہ یہ زہر تھا-
امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:
" تو نے مجھے قتل کیا، خدا تجھے قتل کرے، خدا کی قسم تیری آرزو کبھی پوری نه ھوگی، تم ذلیل ھوگی."
مصائب آل محمد، صفحہ 76
اس نے ان وعدوں کے ذریعے جو معاویہ نے اسے دیئے تھے امام حسن علیہ السلام کو زہر دیا اور شہید کیا۔ یعنی امام حسن علیہ السلام کی شہادت بظاہر جعدہ کے ہاتھوں لیکن باطنا مروان اور معاویہ کے ہاتھوں ہوئی جس کا کوئی بھی مؤرخ انکار نہیں کرتا۔ اور یہ تقریبا ایک متفق علیہ امر ہے۔ مگر ابن تیمیہ جیسے کچھ متعصب لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔
(آیت اللہ شیخ محمد ہادی یوسفی غروی)
اللهم العن قتلة الامام الحسن المجتبٰیؑ
https://t.me/islamwitheman/6864
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
أس دن امام حسن مجتبی علیہ السلام روزہ سے تھے، جعده لع نے افطار کے وقت امام حسن علیہ السلام کو دودھ کے پیالے میں میں زہر ملا کر دیا- امام۴ نے دودھ سے پیا اور محسوس کیا کہ یہ زہر تھا-
امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:
" تو نے مجھے قتل کیا، خدا تجھے قتل کرے، خدا کی قسم تیری آرزو کبھی پوری نه ھوگی، تم ذلیل ھوگی."
مصائب آل محمد، صفحہ 76
اس نے ان وعدوں کے ذریعے جو معاویہ نے اسے دیئے تھے امام حسن علیہ السلام کو زہر دیا اور شہید کیا۔ یعنی امام حسن علیہ السلام کی شہادت بظاہر جعدہ کے ہاتھوں لیکن باطنا مروان اور معاویہ کے ہاتھوں ہوئی جس کا کوئی بھی مؤرخ انکار نہیں کرتا۔ اور یہ تقریبا ایک متفق علیہ امر ہے۔ مگر ابن تیمیہ جیسے کچھ متعصب لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔
(آیت اللہ شیخ محمد ہادی یوسفی غروی)
اللهم العن قتلة الامام الحسن المجتبٰیؑ
https://t.me/islamwitheman/6864
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🏴 شہادت امام حسن علیہ السلام 🏴
حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت پر امام زمانہ عج اور تمام مؤمنین کی خدمت میں ہدیہ تعزیت و تسلیت عرض ہے۔
جعدہ کا باپ اشعث بن قیس کندی تھا جو اپنے قبیلہ کا سردار تھا اور جنگجو بھی تھا۔ یہ شخص حیات پیغمبر (ص) کے آخری دنوں…
حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت پر امام زمانہ عج اور تمام مؤمنین کی خدمت میں ہدیہ تعزیت و تسلیت عرض ہے۔
جعدہ کا باپ اشعث بن قیس کندی تھا جو اپنے قبیلہ کا سردار تھا اور جنگجو بھی تھا۔ یہ شخص حیات پیغمبر (ص) کے آخری دنوں…
ایمبریولوجسٹ :
مسلمان عورت زمین کی سب سے صاف ستھری عورت ہے۔
جس عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دی ہے اسے (کم از کم) 3 ماہانہ حیض کا انتظار کرنا ہوگا اور جس عورت کا شوہر فوت ہوگیا ہے اسے دوبارہ شادی کرنے سے پہلے (کم از کم) 4 ماہ اور 10 دن انتظار کرنا ہوگا۔
اگر وہ حاملہ ہو جائے تو اس کی عدت بچے کی پیدائش تک رہتی ہے۔
اس نے (امپرنٹ مین واٹر) کی دریافت کے بعد جدید سائنس کو حیران کر دیا ہے۔
ایک آدمی کے مائع نقوش میں 62 پروٹین ہوتے ہیں، اور یہ ایک آدمی سے دوسرے انسان میں مختلف ہوتا ہے، بالکل ہماری انگلیوں کے نشانات کی طرح۔ یہ ہر مرد کے لیے ایک ذاتی کوڈ کی طرح ہے اور عورت کا جسم کمپیوٹر لے جاتا ہے جہاں کوڈ ڈالا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی عورت طلاق کے فوراً بعد کسی دوسرے مرد سے شادی کر لیتی ہے، یا دوسرے کوڈز اسے داخل کرنے کی اجازت دیتی ہے، تو یہ کمپیوٹر میں وائرس کے داخل ہونے کی طرح ہے۔ یہ عدم توازن کا سبب بنے گا، اور یہ خطرناک متعدی بیماریاں لائے گا۔ یہ سائنسی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ طلاق کے بعد پہلی ماہواری کے دوران عورت 32% سے 35% تک نکال دیتی ہے۔
دوسری مدت 67% سے 72%،
اور تیسری مدت 99.9% آدمی کی امپرنٹ.
3 ماہواری کے بعد رحم کو پچھلے نشان سے صاف کیا جاتا ہے، اور یہ بغیر کسی چوٹ یا نقصان کے نئے نقوش حاصل کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔
اس لیے جسم فروشی کا رواج، یا ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ سونا رحم میں نطفہ کے سیال کے اختلاط کے نتیجے میں خطرناک بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ بیوہ کی عدت کو اس کوڈ کو ہٹانے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔ کیونکہ غم بہت مضبوط طریقے سے رحم کے اندر نقش کو جما دیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (چار مہینے دس دن)۔
یہ مدت بیوہ کے رحم میں آدمی کے پانی کے نشان کے مکمل طور پر ختم ہونے کے لیے ہے۔
اس حقیقت نے ایک ایمبریولوجسٹ کو امریکہ میں افریقی مسلمانوں کے پڑوس میں تحقیقات کرنے پر مجبور کیا۔ اسے پتہ چلا کہ تمام عورتیں اپنے شوہروں کا نشان ہی رکھتی ہیں۔ غیر مسلم خواتین کے ایک اور محلے میں کی گئی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں دو سے تین تک مردوں کے متعدد نقوش ہیں۔
اس سے انہوں نے دریافت کیا کہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جو خواتین کے استثنیٰ اور معاشرے کے انعقاد کی ضمانت دیتا ہے۔
اس لیے مسلمان عورتیں دنیا کی سب سے پاکیزہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان تمام مسلم خواتین کو جزائے خیر عطا فرمائے جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ آمین
🔷🔷🔷🔷🔷
مسلمان عورت زمین کی سب سے صاف ستھری عورت ہے۔
جس عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دی ہے اسے (کم از کم) 3 ماہانہ حیض کا انتظار کرنا ہوگا اور جس عورت کا شوہر فوت ہوگیا ہے اسے دوبارہ شادی کرنے سے پہلے (کم از کم) 4 ماہ اور 10 دن انتظار کرنا ہوگا۔
اگر وہ حاملہ ہو جائے تو اس کی عدت بچے کی پیدائش تک رہتی ہے۔
اس نے (امپرنٹ مین واٹر) کی دریافت کے بعد جدید سائنس کو حیران کر دیا ہے۔
ایک آدمی کے مائع نقوش میں 62 پروٹین ہوتے ہیں، اور یہ ایک آدمی سے دوسرے انسان میں مختلف ہوتا ہے، بالکل ہماری انگلیوں کے نشانات کی طرح۔ یہ ہر مرد کے لیے ایک ذاتی کوڈ کی طرح ہے اور عورت کا جسم کمپیوٹر لے جاتا ہے جہاں کوڈ ڈالا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی عورت طلاق کے فوراً بعد کسی دوسرے مرد سے شادی کر لیتی ہے، یا دوسرے کوڈز اسے داخل کرنے کی اجازت دیتی ہے، تو یہ کمپیوٹر میں وائرس کے داخل ہونے کی طرح ہے۔ یہ عدم توازن کا سبب بنے گا، اور یہ خطرناک متعدی بیماریاں لائے گا۔ یہ سائنسی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ طلاق کے بعد پہلی ماہواری کے دوران عورت 32% سے 35% تک نکال دیتی ہے۔
دوسری مدت 67% سے 72%،
اور تیسری مدت 99.9% آدمی کی امپرنٹ.
3 ماہواری کے بعد رحم کو پچھلے نشان سے صاف کیا جاتا ہے، اور یہ بغیر کسی چوٹ یا نقصان کے نئے نقوش حاصل کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔
اس لیے جسم فروشی کا رواج، یا ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ سونا رحم میں نطفہ کے سیال کے اختلاط کے نتیجے میں خطرناک بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ بیوہ کی عدت کو اس کوڈ کو ہٹانے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔ کیونکہ غم بہت مضبوط طریقے سے رحم کے اندر نقش کو جما دیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (چار مہینے دس دن)۔
یہ مدت بیوہ کے رحم میں آدمی کے پانی کے نشان کے مکمل طور پر ختم ہونے کے لیے ہے۔
اس حقیقت نے ایک ایمبریولوجسٹ کو امریکہ میں افریقی مسلمانوں کے پڑوس میں تحقیقات کرنے پر مجبور کیا۔ اسے پتہ چلا کہ تمام عورتیں اپنے شوہروں کا نشان ہی رکھتی ہیں۔ غیر مسلم خواتین کے ایک اور محلے میں کی گئی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں دو سے تین تک مردوں کے متعدد نقوش ہیں۔
اس سے انہوں نے دریافت کیا کہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جو خواتین کے استثنیٰ اور معاشرے کے انعقاد کی ضمانت دیتا ہے۔
اس لیے مسلمان عورتیں دنیا کی سب سے پاکیزہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان تمام مسلم خواتین کو جزائے خیر عطا فرمائے جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ آمین
🔷🔷🔷🔷🔷
اونٹنی کے دودھ کا دہی کیوں نہیں جمتا؟
دودھ کو ہمیشہ سے ایک مکمل غذا قرار دیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گائے اور بھینس کے دودھ کو دہی کی شکل میں استعمال کرنے کا رواج عام ہے۔ لیکن جب اونٹنی کے دودھ کو دہی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ عمل کامیاب نہیں ہوتا۔ لوگ اکثر حیران ہوتے ہیں کہ آخر اونٹنی کے دودھ کا دہی کیوں نہیں جمتا، حالانکہ یہ بھی ایک دودھ ہی ہے۔ اس سوال کا جواب ہمیں اس دودھ کی ساخت اور اس میں موجود اجزاء کے فرق میں ملتا ہے۔
اونٹنی کے دودھ میں موجود پروٹین گائے یا بھینس کے دودھ سے مختلف نوعیت رکھتے ہیں۔ دہی جمنے میں سب سے اہم کردار "کیسین" پروٹین کا ہوتا ہے، لیکن اونٹنی کے دودھ میں یہ نہ صرف کم مقدار میں پایا جاتا ہے بلکہ اس کی ساخت بھی ایسی ہے کہ یہ دہی کی طرح گاڑھا ہونے کے بجائے زیادہ پتلا اور ڈھیلا سا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دودھ کی چکنائی کے ذرات نہایت باریک اور نازک ہوتے ہیں، جبکہ دہی بننے کے لیے ضروری ہے کہ چکنائی اور پروٹین آپس میں جڑ کر گاڑھا پن پیدا کریں۔ چونکہ یہ عمل اونٹنی کے دودھ میں مکمل نہیں ہو پاتا، اس لیے دہی کی وہ شکل سامنے نہیں آتی جو ہم دیگر دودھ میں دیکھتے ہیں۔
مزید یہ کہ اونٹنی کے دودھ میں قدرتی طور پر ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو بیکٹیریا کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں۔ ان میں لیکٹوفرین اور لیزوزائم جیسے جراثیم کش مادے شامل ہیں جو دودھ کو خراب ہونے سے تو بچاتے ہیں لیکن انہی کی وجہ سے وہ بیکٹیریا بھی نشوونما نہیں پاتے جو دہی جمانے کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں دہی جمنے کے امکانات اور بھی کم ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اونٹنی کے دودھ میں کیلشیم، فاسفورس اور نمکیات کا تناسب گائے کے دودھ سے مختلف ہے۔ یہ کیمیائی فرق بھی دہی بننے کے عمل کو متاثر کرتا ہے اور دودھ کو مطلوبہ ٹھوس شکل اختیار کرنے نہیں دیتا۔
ان تمام عوامل کی بنا پر اونٹنی کے دودھ کا دہی عام طور پر نہیں جم پاتا۔ اگرچہ سائنسی تحقیق کے ذریعے خصوصی بیکٹیریا کلچر اور انزائمز استعمال کر کے اسے دہی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن اس طرح حاصل ہونے والا دہی نہ تو گاڑھا ہوتا ہے اور نہ ہی ذائقے میں عام دہی سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اونٹنی کے دودھ کو دہی بنانے کے بجائے زیادہ تر بطور دوا، توانائی بخش مشروب اور غذائیت سے بھرپور غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یوں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اونٹنی کا دودھ اپنی ساخت اور خصوصیات کے اعتبار سے دیگر دودھوں سے بالکل مختلف ہے۔ دہی جمنے میں اس کی ناکامی کوئی کمی نہیں بلکہ اس کی ایک انوکھی خوبی ہے جو اسے دوسروں سے منفرد بناتی ہے۔ اس دودھ کو دہی میں ڈھالنے کی کوشش کرنا شاید اس کی اصل افادیت کو کم کرنا ہے، کیونکہ قدرت نے اسے جس مقصد کے لیے بنایا ہے، وہ زیادہ قیمتی اور منفرد ہے۔
🔷🔷🔷🔷🔷
دودھ کو ہمیشہ سے ایک مکمل غذا قرار دیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گائے اور بھینس کے دودھ کو دہی کی شکل میں استعمال کرنے کا رواج عام ہے۔ لیکن جب اونٹنی کے دودھ کو دہی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ عمل کامیاب نہیں ہوتا۔ لوگ اکثر حیران ہوتے ہیں کہ آخر اونٹنی کے دودھ کا دہی کیوں نہیں جمتا، حالانکہ یہ بھی ایک دودھ ہی ہے۔ اس سوال کا جواب ہمیں اس دودھ کی ساخت اور اس میں موجود اجزاء کے فرق میں ملتا ہے۔
اونٹنی کے دودھ میں موجود پروٹین گائے یا بھینس کے دودھ سے مختلف نوعیت رکھتے ہیں۔ دہی جمنے میں سب سے اہم کردار "کیسین" پروٹین کا ہوتا ہے، لیکن اونٹنی کے دودھ میں یہ نہ صرف کم مقدار میں پایا جاتا ہے بلکہ اس کی ساخت بھی ایسی ہے کہ یہ دہی کی طرح گاڑھا ہونے کے بجائے زیادہ پتلا اور ڈھیلا سا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دودھ کی چکنائی کے ذرات نہایت باریک اور نازک ہوتے ہیں، جبکہ دہی بننے کے لیے ضروری ہے کہ چکنائی اور پروٹین آپس میں جڑ کر گاڑھا پن پیدا کریں۔ چونکہ یہ عمل اونٹنی کے دودھ میں مکمل نہیں ہو پاتا، اس لیے دہی کی وہ شکل سامنے نہیں آتی جو ہم دیگر دودھ میں دیکھتے ہیں۔
مزید یہ کہ اونٹنی کے دودھ میں قدرتی طور پر ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو بیکٹیریا کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں۔ ان میں لیکٹوفرین اور لیزوزائم جیسے جراثیم کش مادے شامل ہیں جو دودھ کو خراب ہونے سے تو بچاتے ہیں لیکن انہی کی وجہ سے وہ بیکٹیریا بھی نشوونما نہیں پاتے جو دہی جمانے کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں دہی جمنے کے امکانات اور بھی کم ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اونٹنی کے دودھ میں کیلشیم، فاسفورس اور نمکیات کا تناسب گائے کے دودھ سے مختلف ہے۔ یہ کیمیائی فرق بھی دہی بننے کے عمل کو متاثر کرتا ہے اور دودھ کو مطلوبہ ٹھوس شکل اختیار کرنے نہیں دیتا۔
ان تمام عوامل کی بنا پر اونٹنی کے دودھ کا دہی عام طور پر نہیں جم پاتا۔ اگرچہ سائنسی تحقیق کے ذریعے خصوصی بیکٹیریا کلچر اور انزائمز استعمال کر کے اسے دہی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن اس طرح حاصل ہونے والا دہی نہ تو گاڑھا ہوتا ہے اور نہ ہی ذائقے میں عام دہی سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اونٹنی کے دودھ کو دہی بنانے کے بجائے زیادہ تر بطور دوا، توانائی بخش مشروب اور غذائیت سے بھرپور غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یوں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اونٹنی کا دودھ اپنی ساخت اور خصوصیات کے اعتبار سے دیگر دودھوں سے بالکل مختلف ہے۔ دہی جمنے میں اس کی ناکامی کوئی کمی نہیں بلکہ اس کی ایک انوکھی خوبی ہے جو اسے دوسروں سے منفرد بناتی ہے۔ اس دودھ کو دہی میں ڈھالنے کی کوشش کرنا شاید اس کی اصل افادیت کو کم کرنا ہے، کیونکہ قدرت نے اسے جس مقصد کے لیے بنایا ہے، وہ زیادہ قیمتی اور منفرد ہے۔
🔷🔷🔷🔷🔷
🌹 ظاہر اور باطن 🌹
ایک شوہر اپنی بیوی کے ساتھ چڑیا گھر گیا۔
بیوی نے دیکھا کہ بندر اپنی بیوی کے ساتھ کھیل رہا ہے اور کہا: "کیا شاندار محبت کی داستان ہے، ہر طرف خوشی ہی خوشی!"
جب وہ شیروں کے پنجرے کے پاس گئے، تو بیوی نے دیکھا کہ شیر اپنی بیوی سے دور، خاموشی سے بیٹھا ہے اور کہا: "یہ کتنی افسردہ محبت کی کہانی ہے، سب کچھ دکھ بھرا ہے!"
شوہر نے کہا: "یہ خالی بوتل اٹھا کر شیرنی کی طرف پھینکو اور دیکھو کیا ہوتا ہے۔"
جب بیوی نے بوتل پھینکی، تو شیر غصے میں دھاڑتے ہوئے اپنی بیوی کی حفاظت کے لیے اٹھا اور اس کے دفاع کے لیے آگے بڑھا!
پھر شوہر نے کہا: "اب یہ بوتل بندر کی بیوی کی طرف پھینکو۔"
جب بیوی نے ایسا کیا، تو بندر اپنی بیوی کو چھوڑ کر بھاگ گیا تاکہ بوتل اس کو نہ لگے!
شوہر نے کہا: "ظاہر پر مت جاؤ، لوگوں کے سامنے جو نظر آتا ہے وہ ہمیشہ سچ نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اپنی جعلی محبت سے دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں، جب کہ کچھ اپنی محبت کو دل کے اندر چھپا کر رکھتے ہیں۔
یاد رکھو:
- جو تنہا رہتا ہے، وہ خواہشات سے خالی نہیں ہوتا!
- جو عورت پردہ کرتی ہے، وہ فیشن سے بے خبر نہیں ہوتی!
- جو سخی ہے، وہ مال سے نفرت نہیں کرتا!
بلکہ یہ لوگ اپنی خواہشات پر قابو پا کر مضبوط ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
"اور جو اپنے رب کے مقام سے ڈرتا رہا اور نفس کو خواہشات سے روکتا رہا، تو یقیناً جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہے۔" (سورۃ النازعات: 40-41)
آپ کا لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک یہ نہیں بتاتا کہ آپ کو ان کی ضرورت ہے، بلکہ یہ آپ کے دین اور تربیت کی عکاسی کرتا ہے۔
اس لیے:
- اپنی اخلاقیات میں مالدار بنو،
- اپنی قناعت میں امیر بنو،
- اور اپنے تواضع میں بڑے بنو۔
اور ان لوگوں کی پرواہ نہ کرو جو پیٹھ پیچھے بات کرتے ہیں، کیونکہ وہ واقعی تمہارے پیچھے ہیں۔
🌹 پوسٹ پسند آئے تو شیئر ضرور کیجیے۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
ایک شوہر اپنی بیوی کے ساتھ چڑیا گھر گیا۔
بیوی نے دیکھا کہ بندر اپنی بیوی کے ساتھ کھیل رہا ہے اور کہا: "کیا شاندار محبت کی داستان ہے، ہر طرف خوشی ہی خوشی!"
جب وہ شیروں کے پنجرے کے پاس گئے، تو بیوی نے دیکھا کہ شیر اپنی بیوی سے دور، خاموشی سے بیٹھا ہے اور کہا: "یہ کتنی افسردہ محبت کی کہانی ہے، سب کچھ دکھ بھرا ہے!"
شوہر نے کہا: "یہ خالی بوتل اٹھا کر شیرنی کی طرف پھینکو اور دیکھو کیا ہوتا ہے۔"
جب بیوی نے بوتل پھینکی، تو شیر غصے میں دھاڑتے ہوئے اپنی بیوی کی حفاظت کے لیے اٹھا اور اس کے دفاع کے لیے آگے بڑھا!
پھر شوہر نے کہا: "اب یہ بوتل بندر کی بیوی کی طرف پھینکو۔"
جب بیوی نے ایسا کیا، تو بندر اپنی بیوی کو چھوڑ کر بھاگ گیا تاکہ بوتل اس کو نہ لگے!
شوہر نے کہا: "ظاہر پر مت جاؤ، لوگوں کے سامنے جو نظر آتا ہے وہ ہمیشہ سچ نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اپنی جعلی محبت سے دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں، جب کہ کچھ اپنی محبت کو دل کے اندر چھپا کر رکھتے ہیں۔
یاد رکھو:
- جو تنہا رہتا ہے، وہ خواہشات سے خالی نہیں ہوتا!
- جو عورت پردہ کرتی ہے، وہ فیشن سے بے خبر نہیں ہوتی!
- جو سخی ہے، وہ مال سے نفرت نہیں کرتا!
بلکہ یہ لوگ اپنی خواہشات پر قابو پا کر مضبوط ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
"اور جو اپنے رب کے مقام سے ڈرتا رہا اور نفس کو خواہشات سے روکتا رہا، تو یقیناً جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہے۔" (سورۃ النازعات: 40-41)
آپ کا لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک یہ نہیں بتاتا کہ آپ کو ان کی ضرورت ہے، بلکہ یہ آپ کے دین اور تربیت کی عکاسی کرتا ہے۔
اس لیے:
- اپنی اخلاقیات میں مالدار بنو،
- اپنی قناعت میں امیر بنو،
- اور اپنے تواضع میں بڑے بنو۔
اور ان لوگوں کی پرواہ نہ کرو جو پیٹھ پیچھے بات کرتے ہیں، کیونکہ وہ واقعی تمہارے پیچھے ہیں۔
🌹 پوسٹ پسند آئے تو شیئر ضرور کیجیے۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
نبی پاک کی شہادت ہوئی یا وفات؟
تحقیق: ابومہدی فرمان علی معصومی
اہل سنت حضرات کا نظریہ ہے کہ نبی پاک کی شہادت نہیں ہوئی بلکہ وفات ہوئی تھی جبکہ اہل تشیع اس نظریہ پر ہیں کہ نبی پاک کی وفات نہیں بلکہ شہادت ہوئی تھی۔
ہم آ پ کے سامنے چند شواہد پیش کرتے ہیں کہ نبی پاک کی وفات نہیں بلکہ شہادت ہوئی تھی۔
1ـ نبی پاک کو زہر دے کر شہید کیا گیا:
الف:خیبر کے موقع پر زینب بنت الحارث کے ہاتھوں زہر دیا گیا:
اہل سنت کے معتبر عالم بدر الدین عینی نے اپنی کتاب عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں:
عمده القاري شرح صحيح البخاري
كتاب الطب
55 - (بابُ مَا يُذْكَرُ فِي سَمِّ النبيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم)
وأوضح ذَلِك مَا تقدم فِي الْهِبَة من حَدِيث أنس أَن يَهُودِيَّة أَتَت النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، بِشَاة مَسْمُومَة فَأكل مِنْهَا الحَدِيث، فَعلم من ذَلِك أَن الَّتِي أَهْدَت هِيَ امْرَأَة يَهُودِيَّة وَلَكِن لَيْسَ فِيهِ بَيَان اسْمهَا، وَقد تقدم فِي الْمَغَازِي أَنَّهَا زَيْنَب بنت الْحَارِث امْرَأَة سَلام بن مشْكم، فَعلم مِنْهُ أَن اسْمهَا زَيْنَب.
سب سے واضح بات وہ ہے جو انس بن مالک کی حدیث میں گذر چکا کہ ایک یہودی عورت نبی پاک کے پاس بکری کا زہر آلود لے آئی اور نبی پاک نے اس سے کچھ کھالیا تو یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ جس عورت نے ھدیہ دیا تھا وہ ایک یہودی عورت تھی لیکن اس میں اس کا نام نہیں بتایا گیا ہے جبکہ کتاب المغازی میں گذر چکا کہ وہ سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث تھی، یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا نام زینب ہے۔
ب ـ نبی پاک نے خود زہر کا ذکر فرمایا:
نبی پاک نے مرض الموت کے وقت واضح طور پہ فرمایا کہ میری تکلیف اسی زہر کی وجہ سے بڑھ رہی ہے جو خیبر کے موقع پر دیا گیا!
ام المومنین عائشہ فرماتی ہیں:
صحيح البخاري (جلد6/صفحه 9)
64 - كِتَابُ المَغَازِي
بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ
4428 - وَقَالَ يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: «يَا عَائِشَةُ مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ»
نبی پاک اپنے مرض الموت میں فرماتے رہے : اے عائشہ! جو کھانا میں نے خیبر کے موقع پر کھایا تھا اس کا درد مجھے ہوتا رہا ہے پھر یہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اسی زہر کی وجہ سے میری شہ رگ کٹ رہی ہے۔
یعنی مرض الموت کے وقت موت کا سبب یہی زہر تھا جو خیبر کے وقت زینب بن الحارث نے دیا تھا۔
2ـ بزرگان اہل سنت کی اس بات پر تاکید کہ نبی پاک کی وفات نہیں بلکہ شہادت ہوئی ہے:
الف: عبداللہ بن مسعود:
المستدرك على الصحيحين للحاكم (جلد3/صفحه 60)
4394 - حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «لِأَنْ أَحْلِفُ تِسْعًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُتِلَ قَتْلًا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَةً إِنَّهُ لَمْ يُقْتَلْ، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَهُ نَبِيًّا وَاتَّخَذَهُ شَهِيدًا» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 4394 - على شرط البخاري ومسلم
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: میں نو مرتبہ قسم کھاؤں گا کہ نبی پاک کو شہید کیا گیا ہے لیکن ایک بار بھی یہ قسم نہیں کھاؤں گا کہ نبی پاک کو شہید نہیں کیا گیا ہے اور یہی سبب ہے کہ اللہ پاک نے محمد مصطفی ص کو نبی بھی منتخب کیا اور شہید بھی منتخب کیا۔
یہ حدیث بخاری اور مسلم دونوں کی شرطوں کے مطابق صحیح ہے ۔
علامہ ذہبی حاشیہ میں لکھتے ہیں یہ روایت بخاری اور مسلم دونوں کی شرطوں کے مطابق صحیح ہے۔
بـ عامر الشعبی:
المستدرك على الصحيحين للحاكم (جلد3/صفحه 61)
4395 - فَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ غَيْرَ مَرَّةٍ، ثنا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ الْفَضْلِ الْبَلْخِيُّ، ثنا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا دَاوُدُ بْنُ يَزِيدَ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يَقُولُ: «وَاللَّهِ لَقَدْ سُمَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسُمَّ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، وَقُتِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ صَبْرًا، وَقُتِلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ صَبْرًا، وَقُتِلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ صَبْرًا، وَسُمَّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَقُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ صَبْرًا، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَمَا نَرْجُو
تحقیق: ابومہدی فرمان علی معصومی
اہل سنت حضرات کا نظریہ ہے کہ نبی پاک کی شہادت نہیں ہوئی بلکہ وفات ہوئی تھی جبکہ اہل تشیع اس نظریہ پر ہیں کہ نبی پاک کی وفات نہیں بلکہ شہادت ہوئی تھی۔
ہم آ پ کے سامنے چند شواہد پیش کرتے ہیں کہ نبی پاک کی وفات نہیں بلکہ شہادت ہوئی تھی۔
1ـ نبی پاک کو زہر دے کر شہید کیا گیا:
الف:خیبر کے موقع پر زینب بنت الحارث کے ہاتھوں زہر دیا گیا:
اہل سنت کے معتبر عالم بدر الدین عینی نے اپنی کتاب عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں:
عمده القاري شرح صحيح البخاري
كتاب الطب
55 - (بابُ مَا يُذْكَرُ فِي سَمِّ النبيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم)
وأوضح ذَلِك مَا تقدم فِي الْهِبَة من حَدِيث أنس أَن يَهُودِيَّة أَتَت النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، بِشَاة مَسْمُومَة فَأكل مِنْهَا الحَدِيث، فَعلم من ذَلِك أَن الَّتِي أَهْدَت هِيَ امْرَأَة يَهُودِيَّة وَلَكِن لَيْسَ فِيهِ بَيَان اسْمهَا، وَقد تقدم فِي الْمَغَازِي أَنَّهَا زَيْنَب بنت الْحَارِث امْرَأَة سَلام بن مشْكم، فَعلم مِنْهُ أَن اسْمهَا زَيْنَب.
سب سے واضح بات وہ ہے جو انس بن مالک کی حدیث میں گذر چکا کہ ایک یہودی عورت نبی پاک کے پاس بکری کا زہر آلود لے آئی اور نبی پاک نے اس سے کچھ کھالیا تو یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ جس عورت نے ھدیہ دیا تھا وہ ایک یہودی عورت تھی لیکن اس میں اس کا نام نہیں بتایا گیا ہے جبکہ کتاب المغازی میں گذر چکا کہ وہ سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث تھی، یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا نام زینب ہے۔
ب ـ نبی پاک نے خود زہر کا ذکر فرمایا:
نبی پاک نے مرض الموت کے وقت واضح طور پہ فرمایا کہ میری تکلیف اسی زہر کی وجہ سے بڑھ رہی ہے جو خیبر کے موقع پر دیا گیا!
ام المومنین عائشہ فرماتی ہیں:
صحيح البخاري (جلد6/صفحه 9)
64 - كِتَابُ المَغَازِي
بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ
4428 - وَقَالَ يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: «يَا عَائِشَةُ مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ»
نبی پاک اپنے مرض الموت میں فرماتے رہے : اے عائشہ! جو کھانا میں نے خیبر کے موقع پر کھایا تھا اس کا درد مجھے ہوتا رہا ہے پھر یہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اسی زہر کی وجہ سے میری شہ رگ کٹ رہی ہے۔
یعنی مرض الموت کے وقت موت کا سبب یہی زہر تھا جو خیبر کے وقت زینب بن الحارث نے دیا تھا۔
2ـ بزرگان اہل سنت کی اس بات پر تاکید کہ نبی پاک کی وفات نہیں بلکہ شہادت ہوئی ہے:
الف: عبداللہ بن مسعود:
المستدرك على الصحيحين للحاكم (جلد3/صفحه 60)
4394 - حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «لِأَنْ أَحْلِفُ تِسْعًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُتِلَ قَتْلًا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَةً إِنَّهُ لَمْ يُقْتَلْ، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَهُ نَبِيًّا وَاتَّخَذَهُ شَهِيدًا» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 4394 - على شرط البخاري ومسلم
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: میں نو مرتبہ قسم کھاؤں گا کہ نبی پاک کو شہید کیا گیا ہے لیکن ایک بار بھی یہ قسم نہیں کھاؤں گا کہ نبی پاک کو شہید نہیں کیا گیا ہے اور یہی سبب ہے کہ اللہ پاک نے محمد مصطفی ص کو نبی بھی منتخب کیا اور شہید بھی منتخب کیا۔
یہ حدیث بخاری اور مسلم دونوں کی شرطوں کے مطابق صحیح ہے ۔
علامہ ذہبی حاشیہ میں لکھتے ہیں یہ روایت بخاری اور مسلم دونوں کی شرطوں کے مطابق صحیح ہے۔
بـ عامر الشعبی:
المستدرك على الصحيحين للحاكم (جلد3/صفحه 61)
4395 - فَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ غَيْرَ مَرَّةٍ، ثنا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ الْفَضْلِ الْبَلْخِيُّ، ثنا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا دَاوُدُ بْنُ يَزِيدَ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يَقُولُ: «وَاللَّهِ لَقَدْ سُمَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسُمَّ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، وَقُتِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ صَبْرًا، وَقُتِلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ صَبْرًا، وَقُتِلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ صَبْرًا، وَسُمَّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَقُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ صَبْرًا، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَمَا نَرْجُو
بَعْدَهُمْ»
شعبی بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! نبی پاک کو زہر دیا گیا ہے اور ابوبکر کو زہر دیا گیا ہے اور عمر کو قتل کیا گیا کہ وہ صبر کی حالت میں تھا اور عثمان کو بھی صبر کی حالت میں قتل کیا گیا اور علی بن ابی طالب کو بھی صبر کی حالت میں قتل کیا گیا اور امام حسن بن علی کو زہر دیا گیا اور حسین بن علی کو صبر کی حالت میں قتل کیا گیا (رضی اللہ عنھم)اس کے بعد ہم (دنیا سے) کیا امید رکھیں؟!
3ـ علماء اہل سنت کی تصریح:
علماء اہل سنت نے واضح طور پہ لکھا ہے کہ نبی پاک کی شہادت ہوئی ہے۔
الفـ علی بن عبد الکافی السبکی
شفاء السقام في زيارة خير الأنام صلى الله عليه وآله وسلم
جلد 2 صفحه 14
الثالث: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم شهيد، فإنه صلى الله عليه وآله وسلم لما سم بخيبر، وأكل من الشاة المسمومة، وكان ذلك سما قاتلا من ساعته، مات منه بشر بن البراء رضي الله عنه، وبقي النبي صلى الله عليه وآله وسلم وذلك معجزة في حقه، صار ألم السم يتعاهده إلى أن مات به صلى الله عليه وآله وسلم [وقال] في مرضه الذي مات فيه: (ما زالت أكلة خيبر تعاودني حتى كان الآن أوان قطعت أبهري). قال العلماء: فجمع الله له بذلك بين النبوة والشهادة. وتكون الحياة الثابتة للشهداء لا تختص بمن قتل في المعركة، فإنا إنما اشترطنا ذلك في الأحكام الدنيوية، كالغسل، والصلاة، أما الآخرة فلا، وهذا لا شك فيه بالنسبة إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم.
علامہ سبکی لکھتے ہیں: بے شک نبی پاک ص شہید ہیں کیونکہ نبی پاک کو خیبر کے موقع پہ ذہر دیا گیا تھا اور زہر آلود بکری کا گوشت کھایا یہ وہ زہر تھا جو ایک لحظہ میں مار دیتا ہے جس سے بشر بن براء رضی اللہ عنہ کی موت ہوئی اور نبی پاک بچ گئے کہ یہ در حقیقت نبی پاک کے حق میں ایک معجزہ ہے، موت کے وقت تک یہ زہر کا درد نبی پاک کو ہوتا رہتا تھا کہ نبی پاک نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: (خیبر کے موقع پر جو میں نے لقمہ کھایا تھا اس کا درد مجھے ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ ابھی میری شہ رگ کٹ رہی ہے)۔ علماء نے کہا ہے: نبی پاک کے لیے اللہ تعالی نے نبوت اور شھادت دونوں کو جمع کردیا۔ شہداء کی جو زندگی اور حیاتی ہے وہ ایسے شہیدوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جو جنگ کے میدان میں شہید ہوتے ہیں البتہ اتنا ہے کہ ہمارے ہاں میدان شہید ہونے والوں کے دنیاوی احکام الگ ہیں جیساکہ غسل اور نماز لیکن آخرت میں الگ نہیں ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نبی پاک بھی شہید ہیں (چہ جائیکہ ان کے لیے جنگی شہید والے احکام نہیں ہیں)۔
ب ـ ابن بطال:
شرح صحيح البخارى لابن بطال (جلد 5/صفحه 347)
كتاب الجزية
7 - باب: إِذَا غَدَرَ المشْرِكُون بِالْمُسْلِمِينَ هَلْ يُعْفَى عَنْهُم؟
قال لعائشة: (ما زالت أكلة خيبر تعادنى فهذا أوان قطع أبهري) لكنه عفا عنهم حين لم يعلم أنه يقضى عليه؛ لأن الله تعالى دفع عنه ضر السم بعد أن أطلعه على المكيدة فيه بآية معجزة أظهرها له من كلام الذراع، ثم عصمه الله من ضره مدة حياته، حتى إذا دنا أجله بغى عليه السم، فوجد ألمه وأراد الله له الشهادة بتلك الأكلة؛ فلذلك لم يعاقبهم
ابن بطال لکھتے ہیں: نبی پاک نے ام المومنین عائشہ کو بتایا: (خیبر کے موقع پر جو میں نے لقمہ کھایا تھا اس کا درد مجھے ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ ابھی میری شہ رگ کٹ رہی ہے) لیکن نبی پاک نے انہیں (یہودیوں کو) معاف کردیا اور معلوم نہ ہونے تک ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ اللہ تعالی نے زہر کے نقصان کو دور کردیا پھر نبی پاک کو اللہ تعلای نے معجزانہ طور پر اس کید و فریب سے آگاہ فرمایا کہ بکری کی بھونی ہوئی ٹانگ سے آواز ائی کہ وہ زہر الود ہے پھر اللہ تعالی نے زہر کے نقصان سے تا حیات نبی پاک کو بچایا یہاں تک کہ موت کا وقت آن پہنچا تو زہر نے شدت اختیار کرلی اور اس کا درد محسوس کرنے لگے اور اللہ تعالی نے نبی پاک کے لیے اسی کھانے کے بدلے شہادت نصیب فرمائی جس کی وجہ سے ان یہودیوں کو سزا اور عقاب نہیں کیا۔
ج_ عبدالعزیز بن باز
فتح الباري، المؤلف : أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى : 852هـ)، المحقق : عبد العزيز بن عبد الله بن باز ومحب الدين الخطيب
جلد 8 صفحہ 131
وروى ابن سعد عن شيخه الواقدي بأسانيد متعددة في قصة الشاة التي سمت له بخيبر، فقال في آخر ذلك: "وعاش بعد ذلك ثلاث سنين حتى كان وجعه الذي قبض فيه. وجعل يقول: ما زلت أحد ألم الأكلة التي أكلتها بخيبر عدادا حتى كان هذا أوان انقطاع أبهري" عرق في الظهر وتوفي شهيدا انتهى
بن باز فتح الباری کے تحقیقی نسخہ میں لکھتے ہیں:
محمد بن سعد نے اپنے استاد واقدی سے زہر آلود بکری کے قصہ میں کئی اسناد سے نقل کیا ہے اور اس کے آخر میں کہا ہے: نبی پاک اس کے بعد تین سال زندہ رہے یہاں تک کہ زہر کا درد ہوا جس سے ان کی روح قبض ہوئی اور فرماتے رہے: میں نے خیبر کے موقع پہ جو زہر آلود لقمہ کھایا تھا اس کا درد کئی بار ہوا مگر اس بار جو درد ہورہا ہے وہ
شعبی بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! نبی پاک کو زہر دیا گیا ہے اور ابوبکر کو زہر دیا گیا ہے اور عمر کو قتل کیا گیا کہ وہ صبر کی حالت میں تھا اور عثمان کو بھی صبر کی حالت میں قتل کیا گیا اور علی بن ابی طالب کو بھی صبر کی حالت میں قتل کیا گیا اور امام حسن بن علی کو زہر دیا گیا اور حسین بن علی کو صبر کی حالت میں قتل کیا گیا (رضی اللہ عنھم)اس کے بعد ہم (دنیا سے) کیا امید رکھیں؟!
3ـ علماء اہل سنت کی تصریح:
علماء اہل سنت نے واضح طور پہ لکھا ہے کہ نبی پاک کی شہادت ہوئی ہے۔
الفـ علی بن عبد الکافی السبکی
شفاء السقام في زيارة خير الأنام صلى الله عليه وآله وسلم
جلد 2 صفحه 14
الثالث: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم شهيد، فإنه صلى الله عليه وآله وسلم لما سم بخيبر، وأكل من الشاة المسمومة، وكان ذلك سما قاتلا من ساعته، مات منه بشر بن البراء رضي الله عنه، وبقي النبي صلى الله عليه وآله وسلم وذلك معجزة في حقه، صار ألم السم يتعاهده إلى أن مات به صلى الله عليه وآله وسلم [وقال] في مرضه الذي مات فيه: (ما زالت أكلة خيبر تعاودني حتى كان الآن أوان قطعت أبهري). قال العلماء: فجمع الله له بذلك بين النبوة والشهادة. وتكون الحياة الثابتة للشهداء لا تختص بمن قتل في المعركة، فإنا إنما اشترطنا ذلك في الأحكام الدنيوية، كالغسل، والصلاة، أما الآخرة فلا، وهذا لا شك فيه بالنسبة إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم.
علامہ سبکی لکھتے ہیں: بے شک نبی پاک ص شہید ہیں کیونکہ نبی پاک کو خیبر کے موقع پہ ذہر دیا گیا تھا اور زہر آلود بکری کا گوشت کھایا یہ وہ زہر تھا جو ایک لحظہ میں مار دیتا ہے جس سے بشر بن براء رضی اللہ عنہ کی موت ہوئی اور نبی پاک بچ گئے کہ یہ در حقیقت نبی پاک کے حق میں ایک معجزہ ہے، موت کے وقت تک یہ زہر کا درد نبی پاک کو ہوتا رہتا تھا کہ نبی پاک نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: (خیبر کے موقع پر جو میں نے لقمہ کھایا تھا اس کا درد مجھے ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ ابھی میری شہ رگ کٹ رہی ہے)۔ علماء نے کہا ہے: نبی پاک کے لیے اللہ تعالی نے نبوت اور شھادت دونوں کو جمع کردیا۔ شہداء کی جو زندگی اور حیاتی ہے وہ ایسے شہیدوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جو جنگ کے میدان میں شہید ہوتے ہیں البتہ اتنا ہے کہ ہمارے ہاں میدان شہید ہونے والوں کے دنیاوی احکام الگ ہیں جیساکہ غسل اور نماز لیکن آخرت میں الگ نہیں ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نبی پاک بھی شہید ہیں (چہ جائیکہ ان کے لیے جنگی شہید والے احکام نہیں ہیں)۔
ب ـ ابن بطال:
شرح صحيح البخارى لابن بطال (جلد 5/صفحه 347)
كتاب الجزية
7 - باب: إِذَا غَدَرَ المشْرِكُون بِالْمُسْلِمِينَ هَلْ يُعْفَى عَنْهُم؟
قال لعائشة: (ما زالت أكلة خيبر تعادنى فهذا أوان قطع أبهري) لكنه عفا عنهم حين لم يعلم أنه يقضى عليه؛ لأن الله تعالى دفع عنه ضر السم بعد أن أطلعه على المكيدة فيه بآية معجزة أظهرها له من كلام الذراع، ثم عصمه الله من ضره مدة حياته، حتى إذا دنا أجله بغى عليه السم، فوجد ألمه وأراد الله له الشهادة بتلك الأكلة؛ فلذلك لم يعاقبهم
ابن بطال لکھتے ہیں: نبی پاک نے ام المومنین عائشہ کو بتایا: (خیبر کے موقع پر جو میں نے لقمہ کھایا تھا اس کا درد مجھے ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ ابھی میری شہ رگ کٹ رہی ہے) لیکن نبی پاک نے انہیں (یہودیوں کو) معاف کردیا اور معلوم نہ ہونے تک ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ اللہ تعالی نے زہر کے نقصان کو دور کردیا پھر نبی پاک کو اللہ تعلای نے معجزانہ طور پر اس کید و فریب سے آگاہ فرمایا کہ بکری کی بھونی ہوئی ٹانگ سے آواز ائی کہ وہ زہر الود ہے پھر اللہ تعالی نے زہر کے نقصان سے تا حیات نبی پاک کو بچایا یہاں تک کہ موت کا وقت آن پہنچا تو زہر نے شدت اختیار کرلی اور اس کا درد محسوس کرنے لگے اور اللہ تعالی نے نبی پاک کے لیے اسی کھانے کے بدلے شہادت نصیب فرمائی جس کی وجہ سے ان یہودیوں کو سزا اور عقاب نہیں کیا۔
ج_ عبدالعزیز بن باز
فتح الباري، المؤلف : أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى : 852هـ)، المحقق : عبد العزيز بن عبد الله بن باز ومحب الدين الخطيب
جلد 8 صفحہ 131
وروى ابن سعد عن شيخه الواقدي بأسانيد متعددة في قصة الشاة التي سمت له بخيبر، فقال في آخر ذلك: "وعاش بعد ذلك ثلاث سنين حتى كان وجعه الذي قبض فيه. وجعل يقول: ما زلت أحد ألم الأكلة التي أكلتها بخيبر عدادا حتى كان هذا أوان انقطاع أبهري" عرق في الظهر وتوفي شهيدا انتهى
بن باز فتح الباری کے تحقیقی نسخہ میں لکھتے ہیں:
محمد بن سعد نے اپنے استاد واقدی سے زہر آلود بکری کے قصہ میں کئی اسناد سے نقل کیا ہے اور اس کے آخر میں کہا ہے: نبی پاک اس کے بعد تین سال زندہ رہے یہاں تک کہ زہر کا درد ہوا جس سے ان کی روح قبض ہوئی اور فرماتے رہے: میں نے خیبر کے موقع پہ جو زہر آلود لقمہ کھایا تھا اس کا درد کئی بار ہوا مگر اس بار جو درد ہورہا ہے وہ
شہ رگ کو کاٹ رہا ہے! اور یوں نبی پاک نے بطور شہادت وفات پائی😪
🌹 پوسٹ دوسروں کی معلومات کے لئے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
🌹 پوسٹ دوسروں کی معلومات کے لئے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
*تار سروس سے موبائل فون تک*
1990میں جب پاکستان میں پیجر سروس کا آغاز ہوا تو ٹیلی گرام کی چھٹی ہوگئی۔
ٹیلی گرام کو تار سروس بھی کہا جاتا تھا۔۔ڈاکیا تار لاتا تو دل دھڑک جاتے۔۔کیونکہ یہ ارجنٹ پیغام رسانی کیلئے استعمال ہوتا تھا۔۔
تار بھیجنے کا طریقہ یہ تھا کہ پوسٹ آفس جاکر آپ نے مختصر پیغام لکھوانا ہوتاتھا۔جسے بجلی کے سگنل کے زریعے دوسرے شہر ٹرانسفر کردیا جاتا تھا۔ یہ ٹرانسفر ڈاٹ اور ڈیش کوڈ میں ہوتا۔ جسے ڈی کوڈ کرلیا جاتا اور ڈاکیا تار لیکر روانہ ہوجاتا۔خطوط کی ڈاک کے دور میں تار سروس ایک جدید سہولت مانی جاتی تھی۔۔
"تار" کی ایجاد کا سہرا امریکی سائنسدان سیموئل مورس اور ان کے ساتھی الفریڈ ویل کو جاتا ہے۔انہوں نے 1837 میں برقی ٹیلیگراف بنایا اور مورس کوڈ ایجاد کیا، جس کے ذریعے پیغامات ڈاٹ اور ڈیش میں بھیجے جاتے تھے۔
پہلا کامیاب عوامی ٹیلیگرام 1844 میں واشنگٹن سے بالٹی مور بھیجا گیا۔
1855میں برصغیر میں پہلی بار ٹیلیگراف لائن ڈالی گئی۔ کلکتہ سے آگرا پہلا تار بھیجا گیا۔۔
ٹیلیگرام سروس چلانے کے لیے شہروں کے درمیان کاپر کے تار بچھائے جاتے تھے، جو ٹیلیگراف پولز یعنی لکڑی یا لوہے کے کھمبے پر نصب ہوتے تھے۔
پاکستان بننے کے بعد پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف نے یہ سروس سنبھالی۔۔۔
ٹیلیگرام سروس نےسوا صدی تک لوگوں کو ارجنٹ پیغام رسانی کی سہولت فراہم کی۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں لینڈ لائن فون عام ہونےلگا۔ جس نےدنیا میں ٹیلی گرام کی افادیت کو چیلنج کیا۔لیکن دنیا کی ایک بڑی آبادی ابھی ٹیلی گرام پر ہی انحصار کرتی تھی۔
1980میں ڈیجیٹل دور کی شروعات ہوئیں۔۔لینڈلائن فون بھی دیہات اورچھوٹے شہروں تک پہنچا۔۔فیکس مشین کا کمرشل استعمال شروع ہوا۔۔یہ وہ دور تھا جب ٹیلی گرام سروس کو ماضی کا حصہ قرار دیا جانےلگا۔۔
اسّی اور نوے کی دہائی میں وائرلیس مواصلاتی نظام سے دنیا میں انقلاب نظر آنےلگا۔۔اور ایس ایم سروس ، جو پیجر سروس کے نام سے مشہور ہوئی،اس نے ٹیلیگرام کو باقاعدہ رخصت ہونے کا اشارہ دےدیا۔۔۔
پیجر سروس یوں تو ایس ایم ایس ٹیکنالوجی تھی، لیکن آج کل کے دور کے لحاظ سے اس کا طریقہ بھی فرسودہ ہی تھا۔۔ یعنی پہلے کال سینٹر فون کرنا۔۔پھر ان کو میسیج لکھوانا۔۔اور پیجر نمبر بتانا جس پر میسیج بھیجنا مقصود ہوتا تھا۔۔ یوں ان صاحبِ پیجر کو آپ کا میسیج بیپ کے ساتھ موصول ہوجاتا تھا۔۔
پاکستان میں سن دو ہزار میں ٹیلی گرام سروس باقاعدہ ختم کردی گئی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے۔۔ کہ اس وقت پیجر سروس اور اس کے کال سینٹرز بھی ختم ہوچکے تھے۔۔ کیوں کہ سیلولر ٹیکنالوجی کی بدولت موبائل فونز میں ایس ایم سروس فراہم ہوچکی تھی۔۔اور بات اس سے بھی کہیں دور جاتی نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔
بات نکلی تو دور تلک جانی تھی۔۔آج کا موبائل فون وہ نہیں رہا، جو آپ کو صرف کال اور ایس ایم ایس کی سہولت فراہم کرتا تھا۔۔۔۔
مزید کچھ بتانے کی شاید ضرورت نہیں۔۔آج موبائل فون ہر فرد کے ہاتھ میں ہے۔۔بات واقعی بہت دور جاچکی ہے۔
🔷🔷🔷🔷🔷
1990میں جب پاکستان میں پیجر سروس کا آغاز ہوا تو ٹیلی گرام کی چھٹی ہوگئی۔
ٹیلی گرام کو تار سروس بھی کہا جاتا تھا۔۔ڈاکیا تار لاتا تو دل دھڑک جاتے۔۔کیونکہ یہ ارجنٹ پیغام رسانی کیلئے استعمال ہوتا تھا۔۔
تار بھیجنے کا طریقہ یہ تھا کہ پوسٹ آفس جاکر آپ نے مختصر پیغام لکھوانا ہوتاتھا۔جسے بجلی کے سگنل کے زریعے دوسرے شہر ٹرانسفر کردیا جاتا تھا۔ یہ ٹرانسفر ڈاٹ اور ڈیش کوڈ میں ہوتا۔ جسے ڈی کوڈ کرلیا جاتا اور ڈاکیا تار لیکر روانہ ہوجاتا۔خطوط کی ڈاک کے دور میں تار سروس ایک جدید سہولت مانی جاتی تھی۔۔
"تار" کی ایجاد کا سہرا امریکی سائنسدان سیموئل مورس اور ان کے ساتھی الفریڈ ویل کو جاتا ہے۔انہوں نے 1837 میں برقی ٹیلیگراف بنایا اور مورس کوڈ ایجاد کیا، جس کے ذریعے پیغامات ڈاٹ اور ڈیش میں بھیجے جاتے تھے۔
پہلا کامیاب عوامی ٹیلیگرام 1844 میں واشنگٹن سے بالٹی مور بھیجا گیا۔
1855میں برصغیر میں پہلی بار ٹیلیگراف لائن ڈالی گئی۔ کلکتہ سے آگرا پہلا تار بھیجا گیا۔۔
ٹیلیگرام سروس چلانے کے لیے شہروں کے درمیان کاپر کے تار بچھائے جاتے تھے، جو ٹیلیگراف پولز یعنی لکڑی یا لوہے کے کھمبے پر نصب ہوتے تھے۔
پاکستان بننے کے بعد پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف نے یہ سروس سنبھالی۔۔۔
ٹیلیگرام سروس نےسوا صدی تک لوگوں کو ارجنٹ پیغام رسانی کی سہولت فراہم کی۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں لینڈ لائن فون عام ہونےلگا۔ جس نےدنیا میں ٹیلی گرام کی افادیت کو چیلنج کیا۔لیکن دنیا کی ایک بڑی آبادی ابھی ٹیلی گرام پر ہی انحصار کرتی تھی۔
1980میں ڈیجیٹل دور کی شروعات ہوئیں۔۔لینڈلائن فون بھی دیہات اورچھوٹے شہروں تک پہنچا۔۔فیکس مشین کا کمرشل استعمال شروع ہوا۔۔یہ وہ دور تھا جب ٹیلی گرام سروس کو ماضی کا حصہ قرار دیا جانےلگا۔۔
اسّی اور نوے کی دہائی میں وائرلیس مواصلاتی نظام سے دنیا میں انقلاب نظر آنےلگا۔۔اور ایس ایم سروس ، جو پیجر سروس کے نام سے مشہور ہوئی،اس نے ٹیلیگرام کو باقاعدہ رخصت ہونے کا اشارہ دےدیا۔۔۔
پیجر سروس یوں تو ایس ایم ایس ٹیکنالوجی تھی، لیکن آج کل کے دور کے لحاظ سے اس کا طریقہ بھی فرسودہ ہی تھا۔۔ یعنی پہلے کال سینٹر فون کرنا۔۔پھر ان کو میسیج لکھوانا۔۔اور پیجر نمبر بتانا جس پر میسیج بھیجنا مقصود ہوتا تھا۔۔ یوں ان صاحبِ پیجر کو آپ کا میسیج بیپ کے ساتھ موصول ہوجاتا تھا۔۔
پاکستان میں سن دو ہزار میں ٹیلی گرام سروس باقاعدہ ختم کردی گئی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے۔۔ کہ اس وقت پیجر سروس اور اس کے کال سینٹرز بھی ختم ہوچکے تھے۔۔ کیوں کہ سیلولر ٹیکنالوجی کی بدولت موبائل فونز میں ایس ایم سروس فراہم ہوچکی تھی۔۔اور بات اس سے بھی کہیں دور جاتی نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔
بات نکلی تو دور تلک جانی تھی۔۔آج کا موبائل فون وہ نہیں رہا، جو آپ کو صرف کال اور ایس ایم ایس کی سہولت فراہم کرتا تھا۔۔۔۔
مزید کچھ بتانے کی شاید ضرورت نہیں۔۔آج موبائل فون ہر فرد کے ہاتھ میں ہے۔۔بات واقعی بہت دور جاچکی ہے۔
🔷🔷🔷🔷🔷
*بادشاہ بننے کا نسخہ*
ایک فقیر نے ایک بزرگ کے سامنے دست سوال دراز کیا اور ساتھ ہی دعا دی اللہ تعالیٰ تمہیں بادشاہ بنائے‘ بزرگ نے اس سے پوچھا ’’ کیا تم بادشاہ بننا چاہتے ہو‘‘ فقیر نے حیران ہو کر جواب دیا ’’ جناب میں نسلوں کا فقیر‘ میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں‘‘ بزرگ نے کہا ’’ چلو ہم ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میں تمہیں بادشاہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تو تم مجھے حج کرواؤ گئے اور میں اگر ناکام ہو گیا تو میں پوری زندگی تمہاری کفالت کروں گا‘‘ فقیر مان گیا‘ بزرگ نے اس سے کہا ’’ تمہاری جیب میں کتنے پیسے ہیں‘‘ فقیر نے پیسے گنے‘ وہ تیس روپے تھے‘ بزرگ نے اسے مٹھائی کی دکان پر بھیجا‘ تیس روپے کی جلیبیاں منگوائیں‘ سامنے بے روزگار مزدور بیٹھے تھے‘ بزرگ نے اسے حکم دیا ’’ تم یہ جلیبیاں ان مزدوروں میں تقسیم کر دو‘‘ فقیر گیا اور جلیبیاں مزدوروں میں بانٹ آیا‘ بزرگ نے اسے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور حکم دیا ’’ تم گھر چلے جاؤ‘ تیس دن انتظار کرو اور دیکھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے‘‘فقیر چلا گیا‘ وہ تیسرے دن دوڑتا ہوا بزرگ کے پاس آیا‘ وہ خوشی سے چھلانگیں لگا رہا تھا‘ بزرگ نے وجہ پوچھی‘فقیر نے بتایا ’’ مجھے پچھلے مہینے ایک کلرک نے بھیک میں پرائز بانڈ دیا تھا‘ میں نے وہ بانڈ سنبھال لیا‘ آج وہ بانڈ نکل آیا‘ میں بیٹھے بٹھائے تین لاکھ روپے کا مالک بن گیا‘‘ بزرگ مسکرائے اور اس سے کہا ’’یہ بانڈ تمہارا نہیں‘ اس کا مالک وہ ہے جس نے تمہیں یہ بانڈ دیا تھا‘ تم بانڈ کے مالک کو تلاش کرو‘ یہ رقم اسے واپس کر دو اورانتظار کرو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے‘‘ فقیر کو یہ آئیڈیا بہت برا لگا لیکن اس کے باوجود اس نے کلرک کو تلاش کیا اور بانڈ لے کر اس کے پاس پہنچ گیا‘ کلرک فقیر کی ایمانداری پر حیران رہ گیا‘ وہ فقیر کے ساتھ دفتر سے نکلا‘ ڈی سی آفس گیا‘ وہاں کنسٹرکشن کمپنی رجسٹر کرائی‘ فقیر کو پچاس فیصد کا حصہ دار بنایا اور سرکاری ٹھیکے لینا شروع کر دیئے‘ وہ دونوں مل کر کام کرتے تھے‘ کلرک ٹھیکہ لیتا تھا اور فقیر کام کرواتا تھا‘ یہ کمپنی مزدوروں کو تین وقت کا کھانا دیتی تھی‘ کمپنی چل پڑی‘ کلرک اور فقیر دونوں امیر ہو گئے‘ یہ دونوں بزرگ کو ہر سال حج پر بھجواتے تھے اور شام کے وقت فقیروں کو روک کر انہیں بادشاہ بننے کا نسخہ بتاتے تھے‘ یہ کمپنی آج بھی قائم ہے‘ اس میں اب کلرک اور فقیر کے بچے کام کرتے ہیں‘یہ کمپنی تیس روپے کے صدقے سے شروع ہوئی‘ یہ اب تک درجنوں لوگوں کو بادشاہوں جیسی زندگی دے چکی ہے‘ میں ذاتی طورپر ایسے بیسیوں لوگوں سے واقف ہوں جو جاہل بھی ہیں‘ نالائق بھی اور غیر محتاط بھی لیکن ان پر اللہ تعالیٰ کا کرم برستا رہتا ہے‘ میں نے جب بھی تحقیق کی‘ مجھے اس کرم کے پیچھے ہمیشہ صدقہ اور خیرات ملی‘ یہ دل کے سخی اور ہاتھ کے کھلے ہیں‘ میں نے ایک اور چیز بھی مشاہدہ کی‘ انسان اگر صدقہ کرے اور ساتھ ہی عاجزی اختیار کر لے تو دولت بھی ملتی ہے اور عزت بھی کیونکہ جس طرح خوش حالی کا تعلق صدقے سے ہے بالکل اسی طرح عزت عاجزی سے وابستہ ہے‘ آپ جتنا جھکتے جاتے ہیں آپ کی عزت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ آپ اس معاملے میں اولیاء کرام کی مثال لے لیجئے‘ اولیاء کرام میں عاجزی ہوتی ہے چنانچہ ان کے مزارات ہزار ہزار سال تک آباد رہتے ہیں‘ یہ کھلے دل اور فراخ ہاتھ بھی ہوتے ہیں چنانچہ ان کے درباروں پر ان کے انتقال کے بعد بھی لنگر چلتے ہیں اور بادشاہ مال و متاع لے کر ان کی درگاہ پر حاضر ہوتے رہتے ہیں۔
منقول۔۔۔۔
🔷🔷🔷🔷🔷🔷
ایک فقیر نے ایک بزرگ کے سامنے دست سوال دراز کیا اور ساتھ ہی دعا دی اللہ تعالیٰ تمہیں بادشاہ بنائے‘ بزرگ نے اس سے پوچھا ’’ کیا تم بادشاہ بننا چاہتے ہو‘‘ فقیر نے حیران ہو کر جواب دیا ’’ جناب میں نسلوں کا فقیر‘ میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں‘‘ بزرگ نے کہا ’’ چلو ہم ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میں تمہیں بادشاہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تو تم مجھے حج کرواؤ گئے اور میں اگر ناکام ہو گیا تو میں پوری زندگی تمہاری کفالت کروں گا‘‘ فقیر مان گیا‘ بزرگ نے اس سے کہا ’’ تمہاری جیب میں کتنے پیسے ہیں‘‘ فقیر نے پیسے گنے‘ وہ تیس روپے تھے‘ بزرگ نے اسے مٹھائی کی دکان پر بھیجا‘ تیس روپے کی جلیبیاں منگوائیں‘ سامنے بے روزگار مزدور بیٹھے تھے‘ بزرگ نے اسے حکم دیا ’’ تم یہ جلیبیاں ان مزدوروں میں تقسیم کر دو‘‘ فقیر گیا اور جلیبیاں مزدوروں میں بانٹ آیا‘ بزرگ نے اسے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور حکم دیا ’’ تم گھر چلے جاؤ‘ تیس دن انتظار کرو اور دیکھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے‘‘فقیر چلا گیا‘ وہ تیسرے دن دوڑتا ہوا بزرگ کے پاس آیا‘ وہ خوشی سے چھلانگیں لگا رہا تھا‘ بزرگ نے وجہ پوچھی‘فقیر نے بتایا ’’ مجھے پچھلے مہینے ایک کلرک نے بھیک میں پرائز بانڈ دیا تھا‘ میں نے وہ بانڈ سنبھال لیا‘ آج وہ بانڈ نکل آیا‘ میں بیٹھے بٹھائے تین لاکھ روپے کا مالک بن گیا‘‘ بزرگ مسکرائے اور اس سے کہا ’’یہ بانڈ تمہارا نہیں‘ اس کا مالک وہ ہے جس نے تمہیں یہ بانڈ دیا تھا‘ تم بانڈ کے مالک کو تلاش کرو‘ یہ رقم اسے واپس کر دو اورانتظار کرو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے‘‘ فقیر کو یہ آئیڈیا بہت برا لگا لیکن اس کے باوجود اس نے کلرک کو تلاش کیا اور بانڈ لے کر اس کے پاس پہنچ گیا‘ کلرک فقیر کی ایمانداری پر حیران رہ گیا‘ وہ فقیر کے ساتھ دفتر سے نکلا‘ ڈی سی آفس گیا‘ وہاں کنسٹرکشن کمپنی رجسٹر کرائی‘ فقیر کو پچاس فیصد کا حصہ دار بنایا اور سرکاری ٹھیکے لینا شروع کر دیئے‘ وہ دونوں مل کر کام کرتے تھے‘ کلرک ٹھیکہ لیتا تھا اور فقیر کام کرواتا تھا‘ یہ کمپنی مزدوروں کو تین وقت کا کھانا دیتی تھی‘ کمپنی چل پڑی‘ کلرک اور فقیر دونوں امیر ہو گئے‘ یہ دونوں بزرگ کو ہر سال حج پر بھجواتے تھے اور شام کے وقت فقیروں کو روک کر انہیں بادشاہ بننے کا نسخہ بتاتے تھے‘ یہ کمپنی آج بھی قائم ہے‘ اس میں اب کلرک اور فقیر کے بچے کام کرتے ہیں‘یہ کمپنی تیس روپے کے صدقے سے شروع ہوئی‘ یہ اب تک درجنوں لوگوں کو بادشاہوں جیسی زندگی دے چکی ہے‘ میں ذاتی طورپر ایسے بیسیوں لوگوں سے واقف ہوں جو جاہل بھی ہیں‘ نالائق بھی اور غیر محتاط بھی لیکن ان پر اللہ تعالیٰ کا کرم برستا رہتا ہے‘ میں نے جب بھی تحقیق کی‘ مجھے اس کرم کے پیچھے ہمیشہ صدقہ اور خیرات ملی‘ یہ دل کے سخی اور ہاتھ کے کھلے ہیں‘ میں نے ایک اور چیز بھی مشاہدہ کی‘ انسان اگر صدقہ کرے اور ساتھ ہی عاجزی اختیار کر لے تو دولت بھی ملتی ہے اور عزت بھی کیونکہ جس طرح خوش حالی کا تعلق صدقے سے ہے بالکل اسی طرح عزت عاجزی سے وابستہ ہے‘ آپ جتنا جھکتے جاتے ہیں آپ کی عزت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ آپ اس معاملے میں اولیاء کرام کی مثال لے لیجئے‘ اولیاء کرام میں عاجزی ہوتی ہے چنانچہ ان کے مزارات ہزار ہزار سال تک آباد رہتے ہیں‘ یہ کھلے دل اور فراخ ہاتھ بھی ہوتے ہیں چنانچہ ان کے درباروں پر ان کے انتقال کے بعد بھی لنگر چلتے ہیں اور بادشاہ مال و متاع لے کر ان کی درگاہ پر حاضر ہوتے رہتے ہیں۔
منقول۔۔۔۔
🔷🔷🔷🔷🔷🔷
چند دن پہلے ایک عزیز یہ واقعہ سنا رہے تھے کہ ہمارے محلے میں ایک نیا مکان مکمل ہوا مالک مکان نے گھر میں دوست احباب کی دعوت کی۔ بہت لوگ اکھٹے کیے۔ لیکن محلے داروں میں کسی کو بھی نہیں بلایا۔
مجھے یہ باتیں سن کر بہت افسوس ہوا۔ مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔
میرے ایک عزیز نے ریٹاٸرمنٹ کے بعد نیا گھر بنایا۔ میں انکو مبارکباد دینے گیا۔
جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا انکے گھر کے باغیچہ میں ایک ساٸبان لگا ہوا ہے۔ جس کے نیچے کرسیاں اور ٹیبل لگے ہوۓ ہیں۔ جس پر تقریباً پچیس افراد بیٹھے ہوۓ ہیں۔ جب کہ ایک طرف چھوٹے بڑے بچوں کے تین ٹیل لگے ہوۓ تھے۔
میں عزیز سے ملا۔ سلام و دعا کے بعد انہوں نے مجھے بھی اپنے ٹیبل کی ایک کرسی پر بٹھایا۔
پھر انہوں نے کھڑے ہوکر ایک مختصر سا خطاب کیا۔
جس میں انہوں نے کہا ” میں اپنے تمام محلے داروں کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہتاہوں۔ آپ کو شاید یہ جان کر خوشی ہو یا عجب لگے کہ گھر بننے کے بعد سب سے پہلے میں نے آپکو اپنے گھر مدعو کیا ہے۔
ابھی رشتہ داروں کو اطلاع نہیں دی انہیں مدعو نہیں کیا، دراصل میں سمجھتا ہوں میری اس خوشی میں سب سے پہلے حصہ دار آپ ہیں۔ آپ سے مجھے یہ خوشی بانٹی چاہیے کیونکہ آپ لوگ ہی ہیں جنہوں نے غاٸبانہ تعاون سے میں یہ تعمیر مکمل کر پایا ہوں۔ اور پھر ساری زندگی تو میں نے آپ کیساتھ گزارنی ہے۔ جبکہ رشتہ دار تو گھڑی دو گھڑی کیلیے ٹھہرتے ہیں۔
اس تعمیر کے دوران آپ کا ہی احسان ہے کہ آپ نے تکلیف برداشت کی۔ آپ نے مجھے اپنے گھر کے سامنے اینٹ روڑا پتھر، ریت بجری پھینکنے دی۔
آپ نے مجھے گلی بند ہونے پر برا بھلا نہیں کہا۔ بلکہ آپ تکلیف برداشت کرتے رہے متبادل راستہ اختیار کرتے رہے۔
چھت ڈالنے والے دنوں میں چودھری صاحب اور خان صاحب کو گاڑی گلی سے باہر کھڑی کرنی پڑی، میں ہر دوست محلے دار بھاٸی کا شکریہ ادا کرتاہوں۔
میں تمام اپنے محلے کے بچوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ریت بجری وغیرہ ضاٸع نہیں کی۔ کسی چیز کو توڑا نہیں ہے۔ پانی کا پاٸپ ٹوٹنے سے آپکے گراٶنڈ پانی جمع ہوگیا تھا آپکا ٹورنمنٹ خراب ہوگیا۔ لیکن آپ نے ہمیں کچھ نہیں کہا۔
اس طرح انہوں نے فرداً فرداً تمام احباب کا شکریہ ادا کیا۔ یہ منظر دیکھ کر میں بڑا حیران ہوا۔ اسی دوران چکن قورمہ، نان، بیف پلاٶ اور کھیر میزوں پر لگادی گٸی۔
تمام محلے دار بہت خوش ہوۓ۔ ڈھیر دعاٸیں دیتے ہوۓ رخصت ہوۓ۔ ہر گھر انکے لیے اپنی حیثیت مطابق تحفہ بھی لے کر آیا تھا۔
محلے میں جہاں ایک طرف لاکھوں پتی لوگ رہتے تھے وہیں دیہاڑی دار اور خوانچہ فروش بھی رہتے تھے۔ میرے عزیز نے سب کو برابر عزت و تکریم دی تھی۔
میری حیرانگی میں اضافہ یہ جان کر ہوا کہ میرے عزیز نے مکان شروع کرنے سے پہلے بھی تمام محلے داروں کو چاۓ پر اکٹھا کیا تھا۔
انہیں مکان کی تعمیر متعلق بتایا تھا۔ باقاعدہ ان سے اجازت مانگی تھی۔ ان سے شادی وغیرہ کے بارے پوچھا تاکہ محلے میں بارات وغیرہ کے آنے جانے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
اسی طرح ممکنہ تعمیر کے دوران ہونے والی تکلیف بارے پیشگی معزرت کی تھی۔
میں یہ سب جان کر ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوگیا۔ آج کے اس مارا ماری اور نفسانفسی کے دور میں، جہاں خود پسندی اور خود غرضی عام ہے، وہاں ایسے اچھے انسانوں کو دیکھ کر دل کو سکون ملا جو دوسروں، خصوصاً اپنے محلے داروں کا اتنا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔
یہی وہ اعلیٰ صفات ہیں جو عین آقاکریم ﷺ کی تعلیمات کا حصہ ہین۔
ایسا روح پرور منظر دیکھ کر میرا ایمان تازہ ہوگیا۔ میری زندگی کا وہ دن ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اس عمل سے مجھے گہری نصیحت ملی اور میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ ان شاء اللہ اپنی زندگی میں بھی ایسی صفات جس میں رواداری، حسن سلوک، احترام، بردباری، ایثار، عفو و درگزر اور خدمت گزاری جیسے اوصاف شامل ہیں،
اختیار کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ بالخصوص محلے داروں کیساتھ ہرممکن اچھا سلوک برتنے کی کوشش کرونگا۔
🌹🌹🌹🌹🌹
مجھے یہ باتیں سن کر بہت افسوس ہوا۔ مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔
میرے ایک عزیز نے ریٹاٸرمنٹ کے بعد نیا گھر بنایا۔ میں انکو مبارکباد دینے گیا۔
جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا انکے گھر کے باغیچہ میں ایک ساٸبان لگا ہوا ہے۔ جس کے نیچے کرسیاں اور ٹیبل لگے ہوۓ ہیں۔ جس پر تقریباً پچیس افراد بیٹھے ہوۓ ہیں۔ جب کہ ایک طرف چھوٹے بڑے بچوں کے تین ٹیل لگے ہوۓ تھے۔
میں عزیز سے ملا۔ سلام و دعا کے بعد انہوں نے مجھے بھی اپنے ٹیبل کی ایک کرسی پر بٹھایا۔
پھر انہوں نے کھڑے ہوکر ایک مختصر سا خطاب کیا۔
جس میں انہوں نے کہا ” میں اپنے تمام محلے داروں کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہتاہوں۔ آپ کو شاید یہ جان کر خوشی ہو یا عجب لگے کہ گھر بننے کے بعد سب سے پہلے میں نے آپکو اپنے گھر مدعو کیا ہے۔
ابھی رشتہ داروں کو اطلاع نہیں دی انہیں مدعو نہیں کیا، دراصل میں سمجھتا ہوں میری اس خوشی میں سب سے پہلے حصہ دار آپ ہیں۔ آپ سے مجھے یہ خوشی بانٹی چاہیے کیونکہ آپ لوگ ہی ہیں جنہوں نے غاٸبانہ تعاون سے میں یہ تعمیر مکمل کر پایا ہوں۔ اور پھر ساری زندگی تو میں نے آپ کیساتھ گزارنی ہے۔ جبکہ رشتہ دار تو گھڑی دو گھڑی کیلیے ٹھہرتے ہیں۔
اس تعمیر کے دوران آپ کا ہی احسان ہے کہ آپ نے تکلیف برداشت کی۔ آپ نے مجھے اپنے گھر کے سامنے اینٹ روڑا پتھر، ریت بجری پھینکنے دی۔
آپ نے مجھے گلی بند ہونے پر برا بھلا نہیں کہا۔ بلکہ آپ تکلیف برداشت کرتے رہے متبادل راستہ اختیار کرتے رہے۔
چھت ڈالنے والے دنوں میں چودھری صاحب اور خان صاحب کو گاڑی گلی سے باہر کھڑی کرنی پڑی، میں ہر دوست محلے دار بھاٸی کا شکریہ ادا کرتاہوں۔
میں تمام اپنے محلے کے بچوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ریت بجری وغیرہ ضاٸع نہیں کی۔ کسی چیز کو توڑا نہیں ہے۔ پانی کا پاٸپ ٹوٹنے سے آپکے گراٶنڈ پانی جمع ہوگیا تھا آپکا ٹورنمنٹ خراب ہوگیا۔ لیکن آپ نے ہمیں کچھ نہیں کہا۔
اس طرح انہوں نے فرداً فرداً تمام احباب کا شکریہ ادا کیا۔ یہ منظر دیکھ کر میں بڑا حیران ہوا۔ اسی دوران چکن قورمہ، نان، بیف پلاٶ اور کھیر میزوں پر لگادی گٸی۔
تمام محلے دار بہت خوش ہوۓ۔ ڈھیر دعاٸیں دیتے ہوۓ رخصت ہوۓ۔ ہر گھر انکے لیے اپنی حیثیت مطابق تحفہ بھی لے کر آیا تھا۔
محلے میں جہاں ایک طرف لاکھوں پتی لوگ رہتے تھے وہیں دیہاڑی دار اور خوانچہ فروش بھی رہتے تھے۔ میرے عزیز نے سب کو برابر عزت و تکریم دی تھی۔
میری حیرانگی میں اضافہ یہ جان کر ہوا کہ میرے عزیز نے مکان شروع کرنے سے پہلے بھی تمام محلے داروں کو چاۓ پر اکٹھا کیا تھا۔
انہیں مکان کی تعمیر متعلق بتایا تھا۔ باقاعدہ ان سے اجازت مانگی تھی۔ ان سے شادی وغیرہ کے بارے پوچھا تاکہ محلے میں بارات وغیرہ کے آنے جانے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
اسی طرح ممکنہ تعمیر کے دوران ہونے والی تکلیف بارے پیشگی معزرت کی تھی۔
میں یہ سب جان کر ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوگیا۔ آج کے اس مارا ماری اور نفسانفسی کے دور میں، جہاں خود پسندی اور خود غرضی عام ہے، وہاں ایسے اچھے انسانوں کو دیکھ کر دل کو سکون ملا جو دوسروں، خصوصاً اپنے محلے داروں کا اتنا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔
یہی وہ اعلیٰ صفات ہیں جو عین آقاکریم ﷺ کی تعلیمات کا حصہ ہین۔
ایسا روح پرور منظر دیکھ کر میرا ایمان تازہ ہوگیا۔ میری زندگی کا وہ دن ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اس عمل سے مجھے گہری نصیحت ملی اور میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ ان شاء اللہ اپنی زندگی میں بھی ایسی صفات جس میں رواداری، حسن سلوک، احترام، بردباری، ایثار، عفو و درگزر اور خدمت گزاری جیسے اوصاف شامل ہیں،
اختیار کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ بالخصوص محلے داروں کیساتھ ہرممکن اچھا سلوک برتنے کی کوشش کرونگا۔
🌹🌹🌹🌹🌹