Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Article] Innovations of #Rajab and the night of #Meraaj - Various 'Ulamaa

ماہ ِ#رجب کی بدعات اور #شب_معراج

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/04/mah_e_rajab_bidaat_shab_e_meraaj.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: بعض لوگ ماہ رجب کو بعض عبادات کے لئے خاص کرتے ہیں جیسے صلاۃ الرغائب، اور 27ویں شب کو شب بیداری (شبِ معراج)، پس کیا ان کی شریعت میں کوئی بنیاد واصل ہے؟ جزاکم اللہ خیراً

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

رجب کو صلاۃ الرغائب ادا کرنے کے لئے اور 27 شب کو لیلۃ الاسراء اور شب معراج سمجھتے ہوئے شب بیداری کرنا بدعت ہے جائز نہیں، اور شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، اس بارے میں بہت سے محققین علماء کرام نے تنبیہ فرمائی ہے۔ ہم نے بھی کئی بار اس بار ےمیں لکھا ہے اور لوگوں پر یہ واضح کیا ہے کہ صلاۃ الرغائب بدعت ہے جو کہ بعض لوگ رجب کی پہلی شبِ جمعہ کو ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح سے 27ویں شب کو یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ یہ لیلۃ الاسراء اور شب معراج ہے مناتے ہیں، یہ سب بدعات ہیں جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ شبِ معراج کی رات کا تعین ہی ثابت نہیں اور اگر بالفرض معلوم بھی ہوجائے تو اسے منانا جائز نہیں؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نہیں منایا اور نہ ہی خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام y نے۔ پس ’’لو كان ذلك سنة لسبقونا إليها‘‘ (اگر یہ سنت ہوتی تو وہ اس پر عمل پیرا ہونے میں ہم پر سبقت لے جاتے) اور ساری کی ساری خیر وبھلائی ان کی اتباع کرنے اور ان کے منہج کی پیروی کرنے میں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)

(اور جو مہاجرین اور انصار سابقین اولین میں سے ہیں اور جنہوں نے بطور احسن ان کی پیروی کی اللہ تعالی ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ تعالی نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اور یہ بڑی کامیابی ہے)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح طور پر یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘([1])

(جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے)۔

اور فرمایا:

’’ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ‘‘([2])

(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)۔

یہاں ’’ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘ (وہ مردود ہے) کا معنی ہے ’’مردود على صاحبه‘‘ (اس عمل کرنے والے سے قبول نہیں کیا جائے گا یا منہ پر مار دیا جائے گا) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خطبات میں فرمایا کرتے تھے کہ:

’’أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([3])

(بہترین بات کتاب اللہ ہے اور بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت ہے، اور بدترین امور وہ ہیں جو دین میں نوایجاد یافتہ(بدعت) ہوں، اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔

پس ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ سنت کی اتباع کرے اور اس پر استقامت کا مظاہرہ کرے، ساتھ ہی اس کی دوسروں کو وصیت کرے اور ہر قسم کی بدعات سے خبردار کرے اللہ تعالی کے اس قول کو عملی جامہ پہناتے ہوئے:

﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى﴾ (المائدۃ: 2)

(اور نیکی وبھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو)

اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:

﴿وَالْعَصْرِ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (سورۃ العصر)

(قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، اور حق بات کی وصیت ، اور صبر کی وصیت کرتے رہے)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان:

’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ ‘‘([4])

(دین تو خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے دریافت کیا: کس کی (خیرخواہی )؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لئے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانو ں کے لئے)۔