Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
📰 مشہور شرکیہ نعتیں

The famous Shirkiya Naats
مشہور شرکیہ نعتیں
جمع و ترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: قرآن و حدیث بفہم سلف صالحین۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شاہ مدینہ! یثرب کے والی سارے نبی تیرے در کے سوالی!!
نعوذ باللہ! خود تو شرک کرہی رہے ہیں، بلکہ سارے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام تک کو شرک کرتا ثابت کررہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ﴾  (الزخرف: 45)
(اور ان سے پوچھو جنہیں ہم نے تم سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیا ہم نے رحمٰن  کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں، جن کی عبادت کی جائے ؟!)
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ﴾  (فاطر: 15)
(اے لوگو! تم سب اللہ کی طرف فقیر ومحتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بےپروا، بے نیاز وغنی، اورتمام تعریفوں کے لائق ہے)
اللہ کے برگزیدہ اولوالعزم پیغمبر موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اس توحید خالص کا اظہار کرتے ہوئے دعاء فرماتے ہیں:
﴿رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ ﴾ (القصص: 24)
(اے میرے رب ! بے شک جو بھلائی بھی تو میری طرف نازل فرمائے میں اس کا محتاج وفقیر ہوں)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ “[صحیح الترمذی 2156]
(جب تم سوالی بنو تو اللہ ہی کے در کے سوالی بنو)۔
(( جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے                         آباد عالم تیرے کرم سے باقی ہر اک شہ نقش خیالی))
حالانکہ ہر شے خالق کائنات کی وجہ سے اور اس کے کرم سے ہے۔ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی ٰ وصفات عالیہ میں سے ”الْمُهَيْمِنُ “ (الحشر: 23) اور ”الوَكِيْلُ “  (آل عمران: 173)  ہونا ہے جس کا مطلب ہر چیز پر ہر پل نگہبان وکارساز ہونے میں اکیلے ہی کافی ہونا۔سورۃ الزمرآیت  62 میں فرمایا کہ اللہ ہی ہر شے کا خالق بھی ہے اور نگہبان بھی سب اسی کے کرم سے رواں دواں ہے:
﴿اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ﴾  (الزمر: 62)
(اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہی  ہر چیز پر نگہبان  بھی ہے)
اورآیت 41  میں  نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس ربوبیت کی صفت کی نفی فرمائی ہے:
﴿وَمَآ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيْلٍ﴾  (الزمر: 41)
(اور تم ہرگز ان پر کوئی ذمہ دار و نگہبان نہیں)
اور فرمایا:
﴿اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ڬ وَلَىِٕنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَكَـهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖ ۭاِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا﴾  (فاطر: 41)
 (بے شک اللہ ہی آسمانوں کو اور زمین کو تھامے رکھتا ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں اور یقیناً اگر وہ ٹل جائیں تو اس کے بعد کوئی ان دونوں کو تھامنے والا نہیں، بے شک وہ  نہایت برد بار، بےحد بخشنے والا ہے)
اسی معنی کو سورۃ الحج آیت 22 میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ:
﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ  ۭ وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ﴾ (الحج:  65)
( کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ نے تمہاری خاطر مسخر کردیا ہے جو کچھ زمین میں ہے، اور ان کشتیوں کو بھی جو سمندر میں اس کے حکم سے چلتی ہیں، اور وہ آسمان کو تھامے رکھتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے مگر اس کے اذن سے۔ بے شک اللہ  تعالی یقیناً لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے)
((تیرے لئے ہی دنیا بنی ہے                   نیلے فلک کی چادر تنی ہے              تو اگر نہ ہوتا دنیا تھی خالی))
حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہےکہ  موت و حیات کا سلسلہ اللہ تعالی نے اس لیے قائم فرمایا ہےکہ کون اچھے اعمال کرتا ہے:
﴿الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا   ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ﴾  (الملک: 2)
(وہ جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے،  اور وہی سب پر غالب، بےحد بخشنے والا ہے)
اور جن و انس کی تخلیق کا مقصد بھی واضح طور پر بیان فرمایا  کہ:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾  (الذاریات:  56)
(میں نے نہيں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اپنی عبادت کے لیے)
اسی طرح اپنے اسماء وصفات سے مخلوق کو متعارف کروانے
کے لیے بھی:
﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ   ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 12)
(اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ بے شک اللہ نے یقینا ًہر چیز کو اپنے علم سے گھیر رکھا ہے)
البتہ  جو من گھڑت حدیث پیش کی جاتی ہے کہ اللہ فرماتا ہے:
  ”لولاك لما خلقت الأفلاك“
(اے نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر تم نہ ہوتے تو میں یہ کائنات بھی پیدا نہ کرتا)۔
 شیخ البانی :  السلسلة الضعيفة280 میں فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہيں۔
تفصیل کے لیے پڑھیں ہماری ویب سائٹ پر ” کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کائنات بنی ہے؟ “۔
((مذ ہب ہے تیرا سب کی بھلائی     مسلک ہے تیرا مشکل کشائی           دیکھ اپنی امت کی خستہ حالی))
حالانکہ مشکل کشائی حاجت روائی اللہ تعالی کی صفات ہیں اور اسی کو اس مقصد کے لیے پکارا جاتا ہے، مسبب الاسباب اللہ تعالی کے سوا کوئی مشکل کشائی نہيں کرسکتا:
﴿وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا ھُوَ ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِهٖ   ۭ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ  ۭ وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ﴾  (یونس: 107)
(اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے اور وہی بےحد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے)
اور فرمایا:
﴿ اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ ۭءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ ﴾ (النمل: 62)
(یا وہ جو لاچار کی دعاء قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اورمشکل کشائی فرمادیتا ہے ،اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اورمعبود حقیقی  ہے؟  بہت کم تم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو)
اور نا ہی وفات کے بعد انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اپنی امت کی خستہ حالی کو اس طور پر دیکھ سکتے ہیں، بروز قیامت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اپنی امت کے بگاڑ کا اللہ تعالی کو جواب دیں گے کہ:
﴿وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ  ۭواَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ ﴾  (المائدۃ: 117)
(اور میں ان پر گواہ تھا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے)
[عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو تو زندہ اٹھا لیا گیا تھا، جبکہ دیگر انبیاء کرام بشمول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  وفات پاچکے ہیں]
چناچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق  بھی حدیث میں آیا ہے کہ بروز قیامت جب امت میں سے مرتد ہونے والوں اور بدعتیوں کو حوض کوثر سے روک دیا جائے گا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرشتوں سے کہیں گے کہ یہ میری امت کے لوگ ہیں آنے دو تو وہ بھی جواب میں یہی عرض کریں گے کہ:
”لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ “
 (آپ نہيں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا  کچھ نئی باتیں (دین  میں) نکالیں)۔
پھر آپ بھی انہیں دور پرے کرنے کے ساتھ وہی بات فرمائيں گے جو عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمائی۔
[صحیح بخاری 4625، صحیح مسلم 7201]
((ہے نور تیرا شمس و قمر میں                  تیرے لبوں کی لالی گہر میں           پھولوں نے تیری خوشبو چرا لی))
حالانکہ زمین و آسمان کو اللہ تعالی اپنے قدرت کاملہ سے منور کرنے والا ہے اور نور اس کی صفات میں سے بھی ہے جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں احادیث اور آئمہ سلف کا کلام موجود ہے:
﴿ اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ (النور: 35)
(اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے)
لہذا غلو میں مبتلا عام لوگ اور شعراء اس قسم کی باتيں کرتے ہيں حالانکہ چاند و سورج کسی کے دم سے نہ روشن ہوتے ہيں نہ تاریک:
”انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ النَّاسُ:‌‌‌‏ انْكَسَفَتِ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌‌‌‏ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، ‌‌‌‌‌‏فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَادْعُوا اللَّهَ وَصَلُّوا حَتَّى يَنْجَلِيَ “[صحیح بخاری 1060،
صحیح مسلم 2116]
( جس دن (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے )ابراہیم t کی موت ہوئی سورج گرہن بھی اسی دن ہوا۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ: گرہن ابراہیم کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:  بے شک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں  ہیں، کسی کی موت و حیات کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ ہاں جب انہیں  دیکھو تو اللہ تعالی سے دعاء کرو ،اور نماز پڑھو یہاں تک کہ گرہن صاف ہو جائے)۔
 

🔗 http://tawheedekhaalis.com/مشہور-شرکیہ-نعتیں/
📰 نواقض اسلام اور تکفیر کے اصول و ضوابط کا صحیح علم نہ ہونے کی خطرناکی – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

Dangers of the ignorance from the nullifiers of Islaam and the rules & regulations of Takfeer – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
نواقض اسلام اور تکفیر کے اصول و ضوابط کا صحیح علم نہ ہونے کی خطرناکی
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: دروس فى شرح نواقض الإسلام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پس ان نواقض کی معرفت حاصل کرنے کی بڑی اہمیت ہے تاکہ انسان بصیرت پر رہے۔ نہ خوارج کے ساتھ ہو نہ ہی مرجئہ کے۔ بلکہ وہ صرف اہل سنت والجماعت ہی کے ساتھ ہو کہ جو ان نصوص کو جمع کرتے ہیں اللہ تعالی کے اس فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے کہ:
﴿ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ  ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا  ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ، رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً  ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ، رَبَّنَآ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ﴾
(آل عمران:  7-9)
( وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل ہیں، اور کچھ دوسری متشابہات (ایک سے زیادہ معانی رکھتی ) ہیں، پھر جن لوگوں کے دلوں میں کجی  ہوتی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو متشابہات  ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی تاویل (اصل مراد) کی ٹوہ کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ، اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر وہی جو عقلوں والے ہیں۔ اے ہمارے رب ! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کرنا، اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت دی، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا ءفرما، بےشک تو ہی الوہاب (بےحد عطا ءکرنے والا) ہے۔ اے ہمارے رب ! بےشک تو سب لوگوں کو اس دن کے لیے جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہیں، یقیناً اللہ تعالی وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا)
اور جن لوگوں کے دل میں ٹیڑھ پن ہوتا ہے ان میں سے خوارج و مرجئہ بھی ہیں۔ پس خوارج متشابہات کو لیتے ہیں  اور مرجئہ بھی متشابہات کو لیتے ہیں   یہ دونوں ہی متشابہہ کو محکم کی طرف نہيں لوٹاتے۔ کیونکہ بے شک قرآن کا بعض حصہ بعض حصے کی تفسیر کرتا ہے، اور بعض بعض کی وضاحت کرتا ہے۔ جبکہ جو اہل سنت والجماعت علم میں راسخین ہیں وہ ان دونوں امور کو لیتے ہيں کہ متشابہہ کو محکم کی طرف لوٹاتے ہیں اور متشابہہ کی محکم سے تفسیر کرتے ہیں۔پس اللہ نے انہیں حق کی جانب ہدایت عطاء فرمائی:
﴿وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾  (اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے) خواہ محکم ہوں یا متشابہہ۔ اور اللہ کے کلام میں تضاد نہيں ہوسکتا، اسی طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں بھی تضاد نہیں ہوسکتا۔ لہذا انہوں نے اِسے اور اُسے جمع کردیا، اور اِس کی اُس سے تفسیر کی، اُس کو اِس سے مقید کیا۔ یہ ہے علم میں راسخ لوگوں کا طریقہ۔ جبکہ جو اہل ضلالت و گمراہی ہوتے ہيں  وہ بس ایک طرف کی بات کرتے ہیں یعنی متشابہہ کی۔
چناچہ جو آیات وعید میں متشابہات ہیں انہیں خوارج نے لیا، اور جو وعدوں کی آیات سے متعلق متشابہات ہیں انہيں مرجئہ نے لیا، اور دونوں سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔لہذا مسلمانوں پر خوف وخدشہ دو طرف سے ہے:
پہلی طرف:
ان امور کے متعلق جہالت اور ان کی عدم تعلیم، اور حق و باطل میں تمیز نہ کرنا۔
دوسری طرف:
اللہ تعالی پر بغیر علم کے بات کرنا۔ کیونکہ بہت سے نام نہاد علم کے دعویدار آج اس قسم کے بڑے مسائلِ عقیدہ پر بات کرنے کی جرأت کرتے ہیں، اس پر کلام کرتے ہیں، فتوے دیتے ہیں اور اپنی جہالت و گمراہی کے ساتھ لوگوں پر حکم لگاتے ہیں، العیاذ باللہ۔
حالانکہ ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اہل حق کا راستہ اپنائے ، مگر ہاں یہ ممکن نہيں ہے  جب تک اللہ کے دین کی تعلیم و تفقہ نہ حاصل کیا جائے۔ صرف نصوص کو یاد کرلینا کافی نہیں ہے۔ کیونکہ بعض ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں صحیح بخاری و مسلم و سنن (سب احادیث کی کتب حفظ ہیں!) لیکن ان کے معنی کا صحیح فہم نہیں، نہ ان کی تفسیر کا علم ہے، بلکہ اس کی من مانی تفسیر کرتے ہیں۔یا پھر اس کی تفسیر گمراہوں سے لیتے ہیں جیسے
خوارج یا مرجئہ سے اور یہی اصل خطرہ ہے۔ لہذا علم صرف حفظ کرلینے کا نام نہيں ہے۔ بلکہ اصل علم تو حفظ کے ساتھ فقہ اور معانی کی معرفت کا نام ہے۔ حقیقی حفظ تو حاصل ہو ہی نہیں سکتا جب تک علم حاصل نہ کیاجائے اور اسے علماء در علماء حاصل کیا جائے اور ان کے ساتھ مل کر اسے پڑھا جائے۔یہ ہے صحیح علم اور صحیح فقہ۔ لہذا ہم پر واجب ہے کہ  ہم اس بات کا  شدت کے ساتھ اور بہت زیادہ خصوصی اہتمام کریں تاکہ ایسا نہ ہو  کہ  مبادہ ہم ان گمراہ جماعتوں میں داخل ہوجائيں کہ جن کا اب اوڑھنا بچھونا ہی بس باہمی لڑائیاں، زبانی بمباریاں، ایک دوسرے کوبلابصیرت و علم و فقہ کے  گمراہ، بدعتی و فاسق قرار دینا بن چکا ہے۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ تو یہ ایک عظیم پہلو ہے  جس کے تعلق سے ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کا اہتمام کریں اور اس پر متنبہ ہوں، اور بغیر معانی کی فقہ، اور علماء کے ہاتھوں احکام کی بصیرت و تفاصیل جانے بغیر صرف کتب کے مطالعے یا متون و نصوص کے حفظ پر اکتفاء نہ کریں۔خوارج تو گمراہ ہی نہ ہو‏ئے مگر اسی طریقے سے یعنی بنا فہم کے محض حفظ۔اسی لیے امام ابن القیمرحمہ اللہان کے متعلق فرماتے ہیں:
ولهم نصوص قصروا في فهمها                 فأتوا من التقصير في العرفان
ان کے یہاں نصوص تو تھے اور حفظ بھی، دن رات قرآن پڑھتے، پوری رات نمازیں پڑھتے، پوری زندگی روزے رکھتے، لیکن ان کے پاس رتی بھر بھی فقہ نہ تھی۔ اس لیے وہ جس چیز میں واقع ہوئے سو ہوئے۔ لہذا فقہ کا معاملہ بہت عظیم ہے۔ فقہ ہی نصوص کا اصل فہم ہے۔ لازم ہے کہ آپ دوائی کے اجزاء کو پہلے جان لیں، پھر اس بیماری کو پہنچانیں  جو کسی مریض کو ہے  اور اسے دوائی اس کے مناسب حال دیں۔ پس اگر دواء بیماری کے موافق ہوئی تو اللہ کے اذن سے نفع دے گی۔ اور اگردواء بیماری کے  موافق نہ ہوئی  تو نقصان دے گی۔ تو ایک عالم کی حیثیت ایسی ہوتی ہے جیسے ایک طبیب کی مریض کےساتھ ۔ جس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دونوں باتوں کی جانکاری رکھتا ہو دوائی کو جانتا ہو اور جن مواقع پر دوائی استعمال ہونی ہے ان کو بھی جانتا ہو۔اور ہر مریض کو اس کے مناسب حال دواء دے۔یہ مثال بالکل صحیح ہے اگر آپ اس پر ذرا غور وفکر کریں لیکن اس کے لیے بھی کچھ فقہ و بصیرت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے بھائی آج یہ سمجھتے ہیں کہ وہ علماء سے زیادہ سمجھ رکھتے ہیں، اسی لیے جس چیز میں وہ مبتلا ہیں سو ہیں، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ یہ خوارج کا طریقہ ہے۔ خوارج نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کی اور یہ سمجھتے رہے کہ صحابہ حق پر نہیں ہیں اور وہ صحیح سمجھ نہيں رکھتے، اور انہیں اللہ کے لیے کوئی غیرت نہیں ہے۔
امام ابن القیمرحمہ اللہفرماتے ہیں:
نص من القرآن أو من سنة           وطبيب ذاك العالم الرباني
بے شک آج خطرہ بہت زیادہ ہے۔ ہم کہتے ہیں الحمدللہ نوجوانوں میں دین کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے، یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں ایک اسلامی بیداری([1]) کی لہر ابھر رہی ہے۔ لیکن اگر اس بیداری  اور اس دینی رجحان کو صحیح رہنمائی نہ ملی  تو یہ گمراہی بن کر رہ جائے گی۔ لازم ہے کہ اس کی اللہ کے دین کے ساتھ صحیح سمت میں رہنمائی و تصحیح و تہذیب ہو تاکہ یہ بیداری بصیرت، علم  و فقہ کے ساتھ ہو۔ورنہ تو یہ بیداری مسلمانوں کو نقصان دے گی اگر انہو ں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور نوجوانوں اور اللہ کے دین میں اپنے بھائیوں  کی رہنمائی نہ کی۔
والحمدللہ، وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ اجمعین۔

 


[1] ہمارے شیخ کی اس اصطلاح ”اسلامی بیداری“ پر تعلیق کتاب الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة 1/194 میں ملاحظہ کریں۔
 


 
 ‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/نواقض-اسلام-اور-تکفیر-کے-اصول-و-ضوابط-کا/

Download
📰 کیا نام لے کر بدعتیوں کا رد کیا جاسکتا ہے؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

Can we refute the innovators with their names? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
کیا نام لے کر بدعتیوں کا رد کیا جاسکتا ہے؟  
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات الفاصلة على الشبهات الحاصلة، شبهة: 10۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: کیا ضروری ہے کہ اہل بدعت سے تحذیر(خبردار) کرنا ان کے کرتا دھرتا لوگوں کا نا م لے کر کیا جائے یا نہیں؟
جواب: جی ہاں، اگر ایسا شخص ہو جو اپنی بدعت کو رواج دے رہا ہے اور اس کی طرف دعوت دے رہا ہے تو اس پر رد کیا جائے گا، اور اس کا خطرہ بیان کیا جائے گا، تاکہ لوگ اس سے دھوکہ نہ کھائیں۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/کیا-نام-لے-کر-بدعتیوں-کا-رد-کیا-جاسکتا-ہ/

Download
📰 حقیقی علماء کرام کو پہچانیں – شیخ محمد بن غالب العمری

Know the real Ulamaa – Shaykh Muhammd bin Ghaalib Al-Umaree
حقیقی علماء کرام کو پہچانیں   
فضیلۃ الشیخ محمد بن غالب العمری حفظہ اللہ
(تلمیذ المشایخ مقبل بن ہادی، ربیع المدخلی، عبدالمحسن العباد، عبداللہ البخاری)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ حفظہ اللہ کی ٹوئیٹ ’’ميّز العلماء‘‘ سے ماخوذ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمن الرحیم
علماء کرام کو پہچانیں، کیونکہ ہر کوئی جو منبر پر چڑھے عالم نہيں ہوتا، نہ ہی ہر کوئی جو کسی دینی پروگرام میں شرکت کرے مفتی ہوتا ہے، اور نہ ہی ہر کوئی جو خواب کی تعبیر بتائے مرجع ہوتا ہے، لہذا پہچان وتمیز کیجئے تاکہ کہیں آپ کے افکار نہ اچک لیے جائيں۔
حقیقی علماء کرام کی کچھ نمایاں صفات میں سے یہ ہیں:
1-  وہ امت کے لیے خیر کی کنجیاں ثابت ہوتے ہيں۔
2-  لوگوں کو اس چیز کی جانب رہنمائی کرتے ہيں جو ان کو نفع دے، اور اس چیز سے خبردار کرتے ہيں جو ان کو نقصان دے پورے علم وبصیرت کے ساتھ۔
3-  ان کی غرض وغایت محض اللہ تعالی کی رضا اور اس کے چہرے کی چاہت ہوتی ہے، اور ان کا طریقۂ کار حکیمانہ ہوتا ہے۔
4-  وہ لوگوں کو اس صحیح عقیدےکی طرف دعوت دیتے ہيں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے بنا غلو یا تقصیر کے، اس بارے میں وہ اپنے سلف صالحین کی اقتداء کرتے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہيں۔
5-  علماء ربانی کی یہ حرص ہوتی ہے کہ وہ ہلاکت میں پڑے گمراہ فرقوں سے خبردار کرتے ہيں جیسے خوارج اور جو ان ہی سے نکلنے والے گمراہ فرقے ہیں، یا ان کا دفاع کرتے ہیں، یا ان کے لیے عذر تراشتے ہیں، یا ان کی حرکتوں کے لیے جواز پیش کرنےکی کوشش کرتے ہيں۔
6-  علماء ربانی کی نمایاں صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ جماعۃ المسلمین کی حرص کرتے ہيں اور وصیت کرتے ہيں کہ ولی امر (حکمران) کے گرد جمع ہوا جائے، معروف میں اس کی سمع وطاعت کی جائے (کیونکہ یہی حقیقی مفہوم ہے جماعۃ المسلمین کے لزوم کا) اور فتنوں اور اہل فتنہ سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/حقیقی-علماء-کرام-کو-پہچانیں-شیخ-محمد-ب/

Download
📰 کسی انسان کو داتا گنج بخش کہنا   

Calling a man as Data Ganj Bakhsh (The endower of treasure)
کسی انسان کو داتا گنج بخش کہنا   
جمع و ترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب و سنت بفہم سلف صالحین۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
داتا کا مطلب ہے دینے اور عطاء کرنے والا، اور گنج بخش سے مراد خزانے بخشنے اور عطاء کرنے والا۔ اور یہ صفات اللہ سبحانہ وتعالی کی ربوبیت کا خاصہ ہے، جبکہ بہت سے شرک میں مبتلا جاہل لوگ یہ صفات لاہور کے علی بن عثمان ہجویری کو دیتے ہیں، جن کا مزار بھی داتا دربار کے نام سے قائم ہے اور پورے لاہور کو ہی ایسے لوگ داتا کی نگری کہتے ہيں۔ ان کا سالانہ عرس بھی وہاں منعقد کیا جاتا ہے جہاں ہر قسم کے شرکیات وبدعات وخرافات اور فسق  وفجور کا دوردوراں ہوتا ہے۔  مزارات کی تعمیر اور عرس میلے لگانا ویسے ہی شریعت میں منع ہے اور شرک کی طرف لے جانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔
ایک مومن اچھی طرح سے جانتا ہے اور ایمان رکھتا ہے کہ اس کائنات کے تمام خزانے صرف اللہ تعالی کے ہیں، البتہ منافقین کو اس کی سمجھ نہیں:
﴿وَلِلّٰهِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَهُوْنَ﴾  (المنافقون: 7)
(حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے صرف اللہ ہی کے ہیں، لیکن منافقین نہیں سمجھتے)
اگر کوئی کہے کہ خزانے تو اللہ تعالی ہی کے ہیں لیکن اس نے بعض انسانوں کو عطاء کیے ہیں وہ ہمیں دیتے ہیں، تو اس کے بھی جواب میں فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ  ۡ وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ﴾  (الحجر: 21)
(اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ،اور ہم  اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے)
اوپر اللہ تعالی نے اپنے پاس تمام خزانے ہونے اور اسے خود ہی عطاء کرنے کا اثبات فرمایا، دیگر آیات میں اسے دوسروں  کے پاس ہونے کی نفی بھی فرمائی:
﴿اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيْزِ الْوَهَّابِ﴾  (ص: 9)
(کیا انہی کے پاس تمہارے رب کی رحمت کے خزانے ہیں؟!  جو سب پر غالب ہے، بہت عطاء کرنے والا ہے)
اور فرمایا:
﴿اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ﴾  (الطور: 37)
( یا ان کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں، یا وہی حکم چلانے والےنگران  ہیں ؟!)
اگر کوئی کہے کہ یہ تو مشرکین کو کہا جارہا ہے، لیکن انبیاء و اولیاء کو تو خزانے عطاء کردیے گئے ہیں اور وہی عطاء کرتے ہیں، تو اس کا بھی جواب اللہ تعالی نے خود نبیوں کی زبانی قرآن مجید میں دلوایا ہے کہ:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ  ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ  ۭقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ  ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ﴾  (الانعام: 50)
(کہہ دو میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ یقیناً میں فرشتہ ہوں ، میں پیروی نہیں کرتا مگر اسی کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ کہو کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتے ہیں ؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے)
اور فرمایا:
﴿وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ اللّٰهُ خَيْرًا  ۭ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ښ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ﴾  (ھود: 31)
(اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ یقیناً  میں فرشتہ ہوں، اور نہ میں ان لوگوں کے بارے میں جنہیں تمہاری آنکھیں حقیر سمجھتی ہیں، یہ کہتا ہوں کہ اللہ انہیں ہرگز کوئی بھلائی نہیں دے گا، اللہ تعالی اسے زیادہ جاننے والا ہے جو ان کے دلوں میں ہے، (اور اگر میں ایسا کہوں تو) یقیناً میں تو اس وقت ظالموں سے ہوں گا)
بلکہ اللہ تعالی ہی رب  العالمین ہے جو بے حساب دن رات اپنے خزانے لٹاتا خرچ کرتا ہے مگر اس میں کوئی کمی نہيں آتی۔ انسانوں کا عام حال  تو اللہ تعالی نے یہ ذکر فرمایا کہ اگر ان کے پاس رب کے خزانے بھی ہوں تو بخل کرنے لگیں:
﴿قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ  ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا﴾  (الاسراء: 100)
(کہہ دو اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک بھی ہوتے تب بھی اس وقت تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ضرور روک لیتے، اور انسان واقعی بہت بخیل و تنگ دل ہے)
البتہ جو حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنی اور امت کی بعض خصوصیات ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
”فَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي
يَدِي “([1])
(میں سو رہا تھا کہ  میں زمین کے خزانوں کی چابیاں  دیا گیا، اور وہ میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں)۔
 اس سے مراد  جیسا کہ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے بھی ذکر فرمایا کہ یہ ہے:
زمین کے خزانوں کی چابیوں سے مراد  جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی امت کی فتوحات ہوں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ: زمین میں چھپے خزانے ۔اھ
اسی لیے تو حدیث کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں جو کہ سنت کا صحیح فہم سلف ہے:
” وَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا “
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس دنیا سے ) چلے گئے، اور تم ان خزانوں کو نکال رہے ہو سمیٹ رہے ہو)۔
لہذا اس کا یہی مفہوم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حدیث کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی ربوبیت کی صفات دیتے ہوئے داتا گنج بخش نہیں سمجھنا شروع کردیا تھا۔  ناہی وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اب  سب کچھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاء کردیا ہے اللہ کو چھوڑ کر انہی سے مانگا جائے اور دعاء و پکار جو کے عبادت ہے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ادا کیا جائے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی عقیدے کی تعلیم دی جیسا کہ اوپر قرآن کریم کی آیات گزریں کہ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ فرمائيں میں ان چیزوں کا مالک و مختار نہيں، اسی طرح حدیث قدسی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے:
” أَنْفِقْ، ‌‌‌‌‌‏أُنْفِقْ عَلَيْكَ، ‌‌‌‌‌‏وَقَالَ:‌‌‌‏ يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، ‌‌‌‌‌‏وَقَالَ:‌‌‌‏ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، ‌‌‌‌‌‏فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، ‌‌‌‌‌‏وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، ‌‌‌‌‌‏وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ، ‌‌‌‌‌‏يَخْفِضُ، ‌‌‌‌‌‏وَيَرْفَعُ “([2])
 ((بندو!)  تم خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا۔ اور فرمایا: اللہ کا ہاتھ (ایک روایت میں ہے داہنا ہاتھ) بھرا ہوا ہے۔ دن رات  مسلسل خرچ کرتے رہنے سے بھی اس میں کمی  نہیں آتی ۔اور فرمایا:  تم نے کبھی دیکھا نہیں کہ جب سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن بے شک اس نے اس میں کچھ کمی نہیں کی جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس کا عرش پانی پر تھا، اور اس کے ہاتھ میں میزان ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے)۔
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو ہر قسم کے شرکیات وبدعات سے محفوظ رکھے۔

 


[1] صحیح بخاری 2977، صحیح مسلم 524۔


[2] صحیح بخاری 4684۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/کسی-انسان-کو-داتا-گنج-بخش-کہنا/

Download