Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
لیے آپ پاتے ہیں کہ جن ممالک میں حدود کا نفاذ ہوتا ہے وہ اپنے دین، جان، مال و عزتوں کے تعلق سے امن و اطمینان سے رہتے ہیں۔ جبکہ جن ممالک میں حدود کا نفاذ نہیں ہوتا تو یہ بات معلوم ہے کہ انہیں  پھر افراتفری، بہیمانہ   حرکات، بے چینی و خوف   کی فضاء نے تاریک بنا رکھا ہوتا ہے۔
5- نسب و عزتوں کی حفاظت :
پانچ ضروریات میں سے پانچویں ضرورت نسب و عزتوں کی حفاظت ہے۔ اسی لیے زنا کو حرام قرار دیا گیا  اور زانی پر حدود کے نفاذ کا حکم دیا گیا ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائيں اگر وہ  غیرشادی شدہ ہوں، اور اگر شادہ شدہ ہوں تو رجم (پتھرو ں سے مارا جائے) یہاں تک کہ اسے موت آجائے۔تاکہ انساب کی اختلاط سے حفاظت ہو۔ جب زانیوں پر حدود کا نفاذ ہوگا تو انساب کی حفاظت ہوگی۔ لیکن اگر زانیوں پر حدود قائم کرنے کو معطل کردیا جائے گا  تو انساب میں اختلاط ہوجائے گا،  اور نسب میں اختلاط ہوجانے کی وجہ سے   ایک شخص جانتا ہی نہيں ہوگا کہ اس کا بیٹا کون ہے۔ کیونکہ اس عورت پر بہت سے مرد ملوث ہوئے ہيں  تو معلوم نہيں کہ یہ کس کا حمل ہے، اس لیے وہ انساب ضائع ہوتے ہیں  کہ جنہيں اللہ تعالی نے لوگوں کے مابین  تمیز کا  سبب بنایا ہے کہ  فلاں شخص کس میں سے ہے۔ اور اس کے نتیجے میں شرعی احکام بھی مرتب ہوتے ہيں جیسے محرم ہونا اور میراث وغیرہ  جیسے شرعی احکام نسب اور لوگوں کے آپس میں صحیح تعارف سے ہی  ممکن ہوتےہیں ۔ یہ جانتا ہے کہ بے شک وہ اس کا باپ ہے، اور وہ اس کا بھائی ہے، یہ اس کا چاچا ہے، یہ ماموں ہے۔ تو اس کے ذریعے سے لوگوں کے مابین تعلق قائم ہوتا ہے، لہذا یہ ہے انساب کی حفاظت۔
جہاں تک بات ہے عزتوں کی حفاظت کی تو وہ قذف  کی حد (یعنی پاک دامن پر تہمت لگانے کی حد) سے حاصل ہوتی ہے۔ جو لوگوں پر فحاشی کی تہمت لگائے او رکہے: فلاں زانی ہے، فلاں لوطی ہے تو اسے کوڑے لگائے جائيں گے اس کے بعد کہ اس سے تہمت لگانے پر مطالبہ کیا جائے کہ وہ ا س پر چار گواہ پیش کرے  جو ا س بات کی گواہی دیں جو وہ کہہ رہا ہے، ورنہ  اسے کوڑے لگائے جائيں گے، اس کی عدالت ساقط ہوجائے گی اور وہ فاسق بن جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ، اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا  ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ (النور: 4-5)
(اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اسّی (٨٠) کوڑے مارو اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول نہ کرو، اور وہی فاسق لوگ ہیں، مگر جو لوگ اس کے بعد تو بہ کریں اور اصلاح کرلیں تو یقیناً اللہ بےحد بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے)
تو یہ ہیں وہ پانچ ضروریات  جن کی حفاظت کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اور ان کی پامالی پر سزائیں مرتب کی ہیں۔ جن میں سے سب سے پہلے دین کی حفاظت ہے، اور دین کی حفاظت اس کے نواقض  سے بچ کر ہوتی ہے کہ جو اس دین کو توڑ دیتے ہيں اور ان کی وجہ سے ارتداد ہوجاتا ہے، ساتھ ہی مرتد کے قتل کے ذریعے بھی اس کی حفاظت ہوتی ہے۔

 


[1] أخرجه البخاري 3017، والنسائي 4059، والترمذي 1458، وأحمد فى مسنده 1871 من حديث عبدالله بن عباس w.


[2] جو کسی فرد کی نہیں بلکہ مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے، تفصیل کتاب میں آگے ذکر ہوگی۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)


[3] أخرجه البخاري 6878‏، ومسلم 1676، وأبو داود 4352، والترمذي 1402، وإبن ماجه 2534 من حديث عبدالله بن مسعود t.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/اسلام-میں-پانچ-بنیادی-انسانی-ضروریات-ک/

Download
📰 ارتداد کا معنی اور اس کی بنیادیں – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

Meaning of Irtidād and its basis – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
ارتداد کا معنی اور اس کی بنیادیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: دروس فى شرح نواقض الإسلام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ارتداد کا معنی
ارتداد کی اقسام کے چار اصول
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

🔗 http://tawheedekhaalis.com/ارتداد-کا-معنی-اور-اس-کی-بنیادیں-شیخ-صا/

Download
Sitaro ki gardish say barish hone ka aqeedah rakhna kufr hai
#SalafiUrduDawah https://t.co/2CZu0AXh5M
makhloq ki pedaish ka maqsad tawheed hai
#SalafiUrduDawah https://t.co/9CaYBxdYEM
📰 نواقض اسلام کے تعلق سے لوگوں کی اقسام – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

Types of people regarding the nullifiers of Islaam – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
نواقض اسلام کے تعلق سے لوگوں کی اقسام
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: دروس فى شرح نواقض الإسلام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ان نواقض کے تعلق سے لوگوں کی تین اقسام ہیں دو مختلف انتہاؤں پر اور ایک وسط و اعتدال پر ہیں۔
پہلی انتہاء:
 جو تکفیر اور لوگوں پر کفر کا حکم لگانے میں غلو کرتے ہیں، او ربلاسوچے سمجھے یا فقہ یا معرفت کے بس لوگوں کی تکفیر کرتے ہيں۔ یہی ان خوارج کی بنیاد ہے کہ جنہو ں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں اورخلفائے راشدین کے دور میں، پھر بعد کے زمانوں میں خروج کیا۔ پس جو کوئی بھی ان کی مخالفت کرتا اس کی وہ تکفیر کرتے اور اس کے خون کو حلال سمجھتے۔ چناچہ خوارج کے پاس تین بنیادیں ہیں:
1- شرک سے کم تر کبیرہ گناہوں پر لوگوں کی تکفیر کرنا۔
2- مسلمان حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے خروج اختیار کرنا۔
3- مسلمانوں کے خون کو حلال قرار دینا۔
جس کا سبب صرف ایسے نصوص کو لینا  جن کا ظاہر کفر و شرک پر دلالت کرتا ہو  اسے اس کے ظاہر کے مطابق لینا بنا ان دوسرے نصوص کے ساتھ جمع کیے کہ جو اس کی تفسیر ووضاحت کرتے ہیں۔ کیونکہ کفر کی دو اقسام ہیں:
کفر اکبر اور کفر اصغر۔
اسی طرح سے شرک بھی دو اقسام میں تقسیم ہوتا ہے:
شرک اکبر او رشرک اصغر۔
شرک اکبر اور کفر اکبر  انسان کو دین سے خارج کرکے اسلام کو ختم کردیتے ہیں۔
شرک اصغر اور کفر اصغر  دین سے خارج تو نہیں کرتے لیکن یہ اسلام و ایمان میں کمی و نقص کا سبب بنتےہیں۔
تو یہ لوگ یعنی خوارج  اِس میں اور اُس میں کوئی فرق نہيں کرتے۔اور ان کے یہاں کوئی کفر اصغر ہوتا ہے نہ شرک اصغر، ان کے یہاں تو کفر وشرک صرف اور صرف ایک ہی طرح کا ہوتا ہے یعنی دین سے خارج ہونا۔ پس انہوں نے نصوص کے ظاہر کو لیا اور ان دوسرے نصوص کو چھوڑ دیا کہ جو ان امور کی تفصیل بیان کرتے ہیں اور انہيں دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے عدم فقہ، دین سے عدم معرفت اور علم میں عدم رسوخ کی وجہ سے، حال ان کا یہ ہوگیا کہ لوگوں  کی تکفیر کرتے ہیں اور بلافقہ، بلاسوچے سمجھے اور نصوص کو بے محل استعمال کرتے ہوئے تکفیر میں غلو کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس فقہ نہیں یہ محض پڑھنے والے قاری ہیں جو بس لفظ کو پڑھتے ہیں اس کے معنی کا فہم نہیں رکھتے پھر اسے لوگوں پر چسپاں کرتے ہیں۔
یہ تھے خوارج اور صد افسوس کہ انہی کے ورثاء  آج موجود ہیں جو لوگو ں کی تکفیر کرتے ہیں، تکفیر میں غلو کرتے ہیں اور خون بہانے کو حلال گردانتے ہیں اس حجت کے ساتھ کہ یہ لوگ کافر ہیں۔ لہذا انہی کے جانشین ہمارے یہاں آج نوجوانوں، جاہلوں اور نام نہاد عالموں میں سے موجود ہيں۔
دوسری انتہاء:
اس پر مرجئہ ہیں جو کہتے ہیں ایمان بس دل میں ہوتا ہے اس میں عمل داخل نہیں، اور ان میں سے بعض کہتے ہیں: اس میں قول بھی داخل نہیں ایمان بس دل سے ہوتا ہے، اور عمل بھی اس میں داخل نہیں۔ انسان جو چاہے عمل کرتا پھرے  وہ کافر نہیں ہوتا، اور کہتے ہیں: ایمان کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ نقصان دہ نہیں، جیسے کفر کے ہوتے ہوئے کوئی نیک کام نفع بخش نہیں۔ یہ ہے ان کی بنیاد۔ انہوں نے محض وعدوں پر مبنی نصوص کو لیا جس میں اللہ تعالی نے مغفرت ورحمت کے وعدے فرمائے ہیں، مگر ان نصوص کو ان دوسرے نصوص کے ساتھ جمع نہیں کیا جس میں وعید ہے، جن میں کفر و شرک و گناہوں و نافرمانیوں سے ڈرایا گیا ہے۔انہوں نے محض وعدوں پر مبنی نصوص کو لیا اور صرف امید پر ہی  بھروسہ کرلیا۔ایک طرف وہ خوارج تھے کہ جنہوں نے محض وعید کے نصوص کو لیا اور وعدے، رحمت و امید کے نصوص کو چھوڑ دیا، تو انہو ں نے بس خوف کی جانب کو لیا اور وہ خوف ان پر شدت سے حاوی ہوگیا۔ اور ان پر لوگوں کی تکفیر کرنا، ان کی جان و مال کو حلال جاننا اس فاسد مذہب کی وجہ سے غالب آگیا۔
تیسرا معتدل گروہ:
یہ اہل سنت  والجماعت  ہیں جو کہ ان دونوں مذاہب کے مابین وسط پر ہےیعنی مرجئہ کا مذہب اور خوارج کا مذہب۔ پس یہ تمام نصوص کو جمع کرتے ہیں اور کہتے ہیں: بلاشبہ قرآن وسنت میں جو کفر کا لفظ آیا ہے تو وہ دو اقسام میں تقسیم ہوتا ہے، کفر اکبر اور کفر اصغر، اسی طرح شرک اکبر اور شرک اصغر۔ اور ایسے گناہ بھی ہوتے ہيں جو شرک سے کم تر ہوں اس کے مرتکب کی تکفیر نہیں کی جاتی۔
پس شرک اکبر اور کفر اکبر ملت اسلامیہ سے خارج کردیتے ہیں، جبکہ شرک اصغر اور کفر اصغر ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتے برخلاف خوارج کے عقیدے کے، ہاں البتہ ان سے ایمان میں کمی ضرور
ہوتی ہے برخلاف مرجئہ کے عقیدے کے۔یہ دونوں مختلف انتہاؤں پر ہیں۔ اور الحمدللہ اہل سنت والجماعت وسط و اعتدال پر ہیں، وہ وعدوں اور وعید کے نصوص کے مابین جمع کرتے ہیں، اسی طرح سے خوف و امید کے مابین بھی جمع کرتے ہیں۔ صرف امید کو ہی نہیں لے بیٹھتے جیسا کہ مرجئہ کرتے ہیں، نہ ہی صرف خوف کو لے بیٹھتے ہيں جیسا کہ خوارج کرتے ہیں۔
جس کسی نے اللہ کی عبادت صرف خوف کے ساتھ کی تو وہ خارجی ہے، اور جس نے اللہ کی عبادت صرف امید کے ساتھ کی تو وہ مرجئی ہے، اور جس نے اللہ کی عبادت صرف محبت کے ساتھ کی تو وہ صوفی ہے، ہاں جس نے اللہ کی عبادت خوف و امید و محبت و رغبت و ڈر کے ساتھ کی تو وہ توحید والا سنی ہے۔تو یہ اس عظیم مسئلے کی تفصیل تھی۔

🔗 http://tawheedekhaalis.com/نواقض-اسلام-کے-تعلق-سے-لوگوں-کی-اقسام-ش/

Download
📰 نواقض اسلام اور تکفیر کے اصول و ضوابط کا صحیح علم نہ ہونے کی خطرناکی – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

Dangers of the ignorance from the nullifiers of Islaam and the rules & regulations of Takfeer – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
نواقض اسلام اور تکفیر کے اصول و ضوابط کا صحیح علم نہ ہونے کی خطرناکی
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: دروس فى شرح نواقض الإسلام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پس ان نواقض کی معرفت حاصل کرنے کی بڑی اہمیت ہے تاکہ انسان بصیرت پر رہے۔ نہ خوارج کے ساتھ ہو نہ ہی مرجئہ کے۔ بلکہ وہ صرف اہل سنت والجماعت ہی کے ساتھ ہو کہ جو ان نصوص کو جمع کرتے ہیں اللہ تعالی کے اس فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے کہ:
﴿ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ  ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا  ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ، رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً  ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ، رَبَّنَآ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ﴾
(آل عمران:  7-9)
( وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل ہیں، اور کچھ دوسری متشابہات (ایک سے زیادہ معانی رکھتی ) ہیں، پھر جن لوگوں کے دلوں میں کجی  ہوتی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو متشابہات  ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی تاویل (اصل مراد) کی ٹوہ کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ، اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر وہی جو عقلوں والے ہیں۔ اے ہمارے رب ! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کرنا، اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت دی، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا ءفرما، بےشک تو ہی الوہاب (بےحد عطا ءکرنے والا) ہے۔ اے ہمارے رب ! بےشک تو سب لوگوں کو اس دن کے لیے جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہیں، یقیناً اللہ تعالی وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا)
اور جن لوگوں کے دل میں ٹیڑھ پن ہوتا ہے ان میں سے خوارج و مرجئہ بھی ہیں۔ پس خوارج متشابہات کو لیتے ہیں  اور مرجئہ بھی متشابہات کو لیتے ہیں   یہ دونوں ہی متشابہہ کو محکم کی طرف نہيں لوٹاتے۔ کیونکہ بے شک قرآن کا بعض حصہ بعض حصے کی تفسیر کرتا ہے، اور بعض بعض کی وضاحت کرتا ہے۔ جبکہ جو اہل سنت والجماعت علم میں راسخین ہیں وہ ان دونوں امور کو لیتے ہيں کہ متشابہہ کو محکم کی طرف لوٹاتے ہیں اور متشابہہ کی محکم سے تفسیر کرتے ہیں۔پس اللہ نے انہیں حق کی جانب ہدایت عطاء فرمائی:
﴿وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾  (اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے) خواہ محکم ہوں یا متشابہہ۔ اور اللہ کے کلام میں تضاد نہيں ہوسکتا، اسی طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں بھی تضاد نہیں ہوسکتا۔ لہذا انہوں نے اِسے اور اُسے جمع کردیا، اور اِس کی اُس سے تفسیر کی، اُس کو اِس سے مقید کیا۔ یہ ہے علم میں راسخ لوگوں کا طریقہ۔ جبکہ جو اہل ضلالت و گمراہی ہوتے ہيں  وہ بس ایک طرف کی بات کرتے ہیں یعنی متشابہہ کی۔
چناچہ جو آیات وعید میں متشابہات ہیں انہیں خوارج نے لیا، اور جو وعدوں کی آیات سے متعلق متشابہات ہیں انہيں مرجئہ نے لیا، اور دونوں سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔لہذا مسلمانوں پر خوف وخدشہ دو طرف سے ہے:
پہلی طرف:
ان امور کے متعلق جہالت اور ان کی عدم تعلیم، اور حق و باطل میں تمیز نہ کرنا۔
دوسری طرف:
اللہ تعالی پر بغیر علم کے بات کرنا۔ کیونکہ بہت سے نام نہاد علم کے دعویدار آج اس قسم کے بڑے مسائلِ عقیدہ پر بات کرنے کی جرأت کرتے ہیں، اس پر کلام کرتے ہیں، فتوے دیتے ہیں اور اپنی جہالت و گمراہی کے ساتھ لوگوں پر حکم لگاتے ہیں، العیاذ باللہ۔
حالانکہ ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اہل حق کا راستہ اپنائے ، مگر ہاں یہ ممکن نہيں ہے  جب تک اللہ کے دین کی تعلیم و تفقہ نہ حاصل کیا جائے۔ صرف نصوص کو یاد کرلینا کافی نہیں ہے۔ کیونکہ بعض ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں صحیح بخاری و
مسلم و سنن (سب احادیث کی کتب حفظ ہیں!) لیکن ان کے معنی کا صحیح فہم نہیں، نہ ان کی تفسیر کا علم ہے، بلکہ اس کی من مانی تفسیر کرتے ہیں۔یا پھر اس کی تفسیر گمراہوں سے لیتے ہیں جیسے خوارج یا مرجئہ سے اور یہی اصل خطرہ ہے۔ لہذا علم صرف حفظ کرلینے کا نام نہيں ہے۔ بلکہ اصل علم تو حفظ کے ساتھ فقہ اور معانی کی معرفت کا نام ہے۔ حقیقی حفظ تو حاصل ہو ہی نہیں سکتا جب تک علم حاصل نہ کیاجائے اور اسے علماء در علماء حاصل کیا جائے اور ان کے ساتھ مل کر اسے پڑھا جائے۔یہ ہے صحیح علم اور صحیح فقہ۔ لہذا ہم پر واجب ہے کہ  ہم اس بات کا  شدت کے ساتھ اور بہت زیادہ خصوصی اہتمام کریں تاکہ ایسا نہ ہو  کہ  مبادہ ہم ان گمراہ جماعتوں میں داخل ہوجائيں کہ جن کا اب اوڑھنا بچھونا ہی بس باہمی لڑائیاں، زبانی بمباریاں، ایک دوسرے کوبلابصیرت و علم و فقہ کے  گمراہ، بدعتی و فاسق قرار دینا بن چکا ہے۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ تو یہ ایک عظیم پہلو ہے  جس کے تعلق سے ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کا اہتمام کریں اور اس پر متنبہ ہوں، اور بغیر معانی کی فقہ، اور علماء کے ہاتھوں احکام کی بصیرت و تفاصیل جانے بغیر صرف کتب کے مطالعے یا متون و نصوص کے حفظ پر اکتفاء نہ کریں۔خوارج تو گمراہ ہی نہ ہو‏ئے مگر اسی طریقے سے یعنی بنا فہم کے محض حفظ۔اسی لیے امام ابن القیمرحمہ اللہان کے متعلق فرماتے ہیں:
ولهم نصوص قصروا في فهمها                 فأتوا من التقصير في العرفان
ان کے یہاں نصوص تو تھے اور حفظ بھی، دن رات قرآن پڑھتے، پوری رات نمازیں پڑھتے، پوری زندگی روزے رکھتے، لیکن ان کے پاس رتی بھر بھی فقہ نہ تھی۔ اس لیے وہ جس چیز میں واقع ہوئے سو ہوئے۔ لہذا فقہ کا معاملہ بہت عظیم ہے۔ فقہ ہی نصوص کا اصل فہم ہے۔ لازم ہے کہ آپ دوائی کے اجزاء کو پہلے جان لیں، پھر اس بیماری کو پہنچانیں  جو کسی مریض کو ہے  اور اسے دوائی اس کے مناسب حال دیں۔ پس اگر دواء بیماری کے موافق ہوئی تو اللہ کے اذن سے نفع دے گی۔ اور اگردواء بیماری کے  موافق نہ ہوئی  تو نقصان دے گی۔ تو ایک عالم کی حیثیت ایسی ہوتی ہے جیسے ایک طبیب کی مریض کےساتھ ۔ جس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دونوں باتوں کی جانکاری رکھتا ہو دوائی کو جانتا ہو اور جن مواقع پر دوائی استعمال ہونی ہے ان کو بھی جانتا ہو۔اور ہر مریض کو اس کے مناسب حال دواء دے۔یہ مثال بالکل صحیح ہے اگر آپ اس پر ذرا غور وفکر کریں لیکن اس کے لیے بھی کچھ فقہ و بصیرت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے بھائی آج یہ سمجھتے ہیں کہ وہ علماء سے زیادہ سمجھ رکھتے ہیں، اسی لیے جس چیز میں وہ مبتلا ہیں سو ہیں، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ یہ خوارج کا طریقہ ہے۔ خوارج نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کی اور یہ سمجھتے رہے کہ صحابہ حق پر نہیں ہیں اور وہ صحیح سمجھ نہيں رکھتے، اور انہیں اللہ کے لیے کوئی غیرت نہیں ہے۔
امام ابن القیمرحمہ اللہفرماتے ہیں:
نص من القرآن أو من سنة           وطبيب ذاك العالم الرباني
بے شک آج خطرہ بہت زیادہ ہے۔ ہم کہتے ہیں الحمدللہ نوجوانوں میں دین کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے، یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں ایک اسلامی بیداری([1]) کی لہر ابھر رہی ہے۔ لیکن اگر اس بیداری  اور اس دینی رجحان کو صحیح رہنمائی نہ ملی  تو یہ گمراہی بن کر رہ جائے گی۔ لازم ہے کہ اس کی اللہ کے دین کے ساتھ صحیح سمت میں رہنمائی و تصحیح و تہذیب ہو تاکہ یہ بیداری بصیرت، علم  و فقہ کے ساتھ ہو۔ورنہ تو یہ بیداری مسلمانوں کو نقصان دے گی اگر انہو ں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور نوجوانوں اور اللہ کے دین میں اپنے بھائیوں  کی رہنمائی نہ کی۔
والحمدللہ، وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ اجمعین۔

 


[1] ہمارے شیخ کی اس اصطلاح ”اسلامی بیداری“ پر تعلیق کتاب الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة 1/194 میں ملاحظہ کریں۔


 
 

🔗 http://tawheedekhaalis.com/نواقض-اسلام-اور-تکفیر-کے-اصول-و-ضوابط-کا/

Download