[#SalafiUrduDawah Article] Displaying #Muslims_wounds_and_casualties in exhibitions is not allowed – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
فلسطین وغیرہ کے #مسلمان_مقتولین_وزخمیوں کی #تصاویر_وویڈوز_کی_نمائش جائز نہیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تقریر بعنوان : التوحيد مفتاح السعادة في الدنيا والآخرة للشيخ صالح الفوزان بواسطة كتاب الإجابات المهمة في المشاكل الملمة (2/105 )
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/musalman_maqtoleen_ki_tasaweer_videos_numaish.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض ایسی نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں فلسطینی وغیرہ مسلمانوں کے زخموں کو دکھایا جاتا ہے، جو زخمیوں اور مقتولین کی تصاویر ہوتی ہیں اور بعض اوقات ویڈیوز کے ذریعے بھی دکھائے جاتے ہیں، جس کا مقصد مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کی امداد پر ابھارنا ہوتا ہے، تو کیا یہ عمل جائز ہے؟
جواب: یہ عمل غیر مناسب ہے۔ جائز نہیں کہ ہم زخمیوں کی تصاویر کی نمائش کریں، لیکن مسلمانوں کو اس بات کی دعوت ضرور دیں کہ وہ اپنے بھائیوں پر صدقہ کریں ، اور انہیں بتائیں کہ ان کے بھائی تنگی میں ہیں اور یہودی ان کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں، مگر بنا تصاویر یا زخمیوں کی نمائش کےکیونکہ :
1- اس میں تصویر کا استعمال ہے۔
2- اس میں ایسا تکلف ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم نہیں فرمایا۔
3- اس کی وجہ سے مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہےکیونکہ اگر آپ لوگوں کے سامنے کسی مسلمان کی مثلہ شدہ لاش یا کٹے ہوئے اعضاء پیش کریں گے تو کافروں کے اس فعل سے مسلمان رعب زدہ اور دہشت زدہ ہوجائیں گے۔
پس جو چیز واجب ہے وہ یہ کہ مسلمان اپنی کمزوری، جانی نقصان یا یہ جو کچھ دکھایا جاتا ہے ظاہر نہ کریں بلکہ اسے مخفی رکھیں تاکہ مسلمانوں کی قوت اورشان وشوکت کو کمزور ثابت کرنے کا باعث نہ بنیں۔
فلسطین وغیرہ کے #مسلمان_مقتولین_وزخمیوں کی #تصاویر_وویڈوز_کی_نمائش جائز نہیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تقریر بعنوان : التوحيد مفتاح السعادة في الدنيا والآخرة للشيخ صالح الفوزان بواسطة كتاب الإجابات المهمة في المشاكل الملمة (2/105 )
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/musalman_maqtoleen_ki_tasaweer_videos_numaish.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض ایسی نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں فلسطینی وغیرہ مسلمانوں کے زخموں کو دکھایا جاتا ہے، جو زخمیوں اور مقتولین کی تصاویر ہوتی ہیں اور بعض اوقات ویڈیوز کے ذریعے بھی دکھائے جاتے ہیں، جس کا مقصد مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کی امداد پر ابھارنا ہوتا ہے، تو کیا یہ عمل جائز ہے؟
جواب: یہ عمل غیر مناسب ہے۔ جائز نہیں کہ ہم زخمیوں کی تصاویر کی نمائش کریں، لیکن مسلمانوں کو اس بات کی دعوت ضرور دیں کہ وہ اپنے بھائیوں پر صدقہ کریں ، اور انہیں بتائیں کہ ان کے بھائی تنگی میں ہیں اور یہودی ان کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں، مگر بنا تصاویر یا زخمیوں کی نمائش کےکیونکہ :
1- اس میں تصویر کا استعمال ہے۔
2- اس میں ایسا تکلف ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم نہیں فرمایا۔
3- اس کی وجہ سے مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہےکیونکہ اگر آپ لوگوں کے سامنے کسی مسلمان کی مثلہ شدہ لاش یا کٹے ہوئے اعضاء پیش کریں گے تو کافروں کے اس فعل سے مسلمان رعب زدہ اور دہشت زدہ ہوجائیں گے۔
پس جو چیز واجب ہے وہ یہ کہ مسلمان اپنی کمزوری، جانی نقصان یا یہ جو کچھ دکھایا جاتا ہے ظاہر نہ کریں بلکہ اسے مخفی رکھیں تاکہ مسلمانوں کی قوت اورشان وشوکت کو کمزور ثابت کرنے کا باعث نہ بنیں۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Muslims are being killed everywhere and you people always speak on #Tawheed? - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#مسلمان ہر جگہ مررہے ہيں اور آپ بس #توحید توحید کرتے رہتے ہیں؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: دروس من القرآن الكريم (الدرس الأول، التوحيد فى القرآن الكريم)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/musalman_mar_rahay_hain_aur_aap_tawheed_krte_rehte_hain.pdf
توحید کی اہمیت اور اس سے روگردانی کرنے کا انجام
کہنے والا کہہ سکتا ہے بلکہ کہا بھی جاتا ہے کہ آپ لوگوں کا کیا مسئلہ ہے جب دیکھو توحید کا اہتمام کرتے رہتے ہو اور اس پر بہت زیادہ کلام کرتے ہو؟! اور موجودہ دور میں جو مسلمانوں کے مسائل ہيں ان پر توجہ نہيں دیتے، کہ وہ ہر طرف مارے جارہے ہيں اور بے گھر کیے جارہے ہیں، اور ہر طرف سے کفار ممالک ان کے درپے ہيں۔
اللہ کی توفیق سے ہم یہ جواب دیتے ہيں کہ:
توحید ہی وہ بنیاد ہے جس پر ملت حنیفیت قائم ہے، لہذا اس کا اہتمام کرنا دراصل اصل اصول، جڑ وبنیاد کا اہتمام کرنا ہے۔ اور اگر آپ قرآن کریم پر غور وتدبر کریں گے تو پائیں گے کہ بلاشبہ اس نے بہت کھول کھول کر مکمل طرح سے توحید کو بیان کیا ہے یہاں تک کہ قرآن کی سورتوں میں سے کوئی سورۃ بھی ایسی نہیں جس میں توحید کی بات نہ کی گئی ہو، اور اس کا بیان و وضاحت اور ساتھ ساتھ اس کی ضد (یعنی شرک) سے منع نہ کیا گیا ہو۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے یہ بات مقرر فرمائی کہ:
"قرآن پورے کا پورا ہی توحید ہے، کیونکہ یا تو اس میں خبریں ہيں اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے تعلق سے ، اور یہ توحید علمی ہے جو کہ توحید ربوبیت ہے، یا پھر ایک اللہ کی بلاشرکت عبادت کا حکم ہے اور شرک سے منع کیا گیا ہے، اور یہ توحید عملی وطلبی ہے جو کہ توحید الوہیت ہے، یا پھر اللہ تعالی کی اور اس کے رسو لﷺ کی اطاعت کا حکم ہے اور اللہ تعالی کی اور اس کے رسول ﷺ کی معصیت سے منع کیا گیا ہے ، اور یہ توحید کے حقوق اور اس کی تکمیل میں سے ہے۔
یا خبر ہے اس کی جو کچھ اللہ تعالی نے توحید پرستوں کے لیے دنیا وآخرت میں نعمتیں، فوز وفلاح، نجات ونصرت عطاء فرمائیں ہيں، یا پھر خبر ہے جو کچھ مشرکین کو عبرتناک انجام سے دنیا وآخرت میں شکار ہونا پڑا، یا پھر خبر ہے جو کچھ مشرکین کو اس دنیا میں عبرتناک انجام کا سامنا ہوا اور جو کچھ آخرت میں ان کے لیے دائمی وابدی، ہمیشہ ہمیش کا عذاب جہنم تیار ہے۔ یہ (خیر) اس کے لیے جو توحید کا حق ادا کرے اور (یہ عذاب) اس کے لیے جو توحید سے لاپرواہی برتے"([1])۔
چناچہ قرآن سارے کا سارا توحید کے گرد ہی گردش کرتا ہے۔ اورآپ اگر مکی سورتو ں پر غوروفکر کریں گے تو پائیں گے کہ ان میں غالباً توحید کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں تیرہ برس رہے اور توحید کی جانب دعوت دیتے اور شرک سے روکتے رہے۔ زیادہ تر فرائض جیسے زکوٰۃ، روزے اور حج اور اس کے علاہ دیگر حلال وحرام کے امور، اور معاملات وغیرہ آپ ﷺ پر نازل نہیں ہوئے مگر مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد، سوائے نماز کے، وہ آپ ﷺ پر شب معراج میں فرض ہوئی کہ جب آپ ﷺ کو اسراء ومعراج ہوئی تھی([2])، لیکن یہ بھی ہجرت سے کچھ عرصہ قبل ہی ہوا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ مکی سورتیں جو نبی کریم ﷺ پر قبل از ہجرت نازل ہوئیں میں غالباً توحید کے مسائل پر ہی بات ہوتی ہے، جو اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے۔ اور دیگر فرائض نازل نہيں ہوئے مگر توحید کے مقرر ہوجانے ،دلوں میں راسخ ہوجانے اور صحیح عقیدے کے ظاہر اور واضح ہوجانے کے بعد ہی، کیونکہ اعمال بغیر توحید کے صحیح نہیں ہوسکتے، اور نہیں قائم ہوسکتے مگر توحید ہی کی بنیاد پر۔
قرآن نے یہ بات واضح کی ہے کہ جتنے بھی رسول علیہم الصلاۃ والسلام تھے انہوں نے اپنے دعوت میں تمام چیزوں سے پہلے توحیدہی سے شروع فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36)
(اور بلاشبہ یقینا ًہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو)
اور فرمایا:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: 25)
(اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہی وحی فرمائی کہ بےشک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں، سو میری ہی عبادت کرو)
اور ہر نبی اپنی قوم کو کہتا:
﴿يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ﴾ (الاعراف: 59)
(اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں)
یہ تھی رسولوں کی ذمہ داری، کہ سب سے پہلے توحید سے
#مسلمان ہر جگہ مررہے ہيں اور آپ بس #توحید توحید کرتے رہتے ہیں؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: دروس من القرآن الكريم (الدرس الأول، التوحيد فى القرآن الكريم)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/musalman_mar_rahay_hain_aur_aap_tawheed_krte_rehte_hain.pdf
توحید کی اہمیت اور اس سے روگردانی کرنے کا انجام
کہنے والا کہہ سکتا ہے بلکہ کہا بھی جاتا ہے کہ آپ لوگوں کا کیا مسئلہ ہے جب دیکھو توحید کا اہتمام کرتے رہتے ہو اور اس پر بہت زیادہ کلام کرتے ہو؟! اور موجودہ دور میں جو مسلمانوں کے مسائل ہيں ان پر توجہ نہيں دیتے، کہ وہ ہر طرف مارے جارہے ہيں اور بے گھر کیے جارہے ہیں، اور ہر طرف سے کفار ممالک ان کے درپے ہيں۔
اللہ کی توفیق سے ہم یہ جواب دیتے ہيں کہ:
توحید ہی وہ بنیاد ہے جس پر ملت حنیفیت قائم ہے، لہذا اس کا اہتمام کرنا دراصل اصل اصول، جڑ وبنیاد کا اہتمام کرنا ہے۔ اور اگر آپ قرآن کریم پر غور وتدبر کریں گے تو پائیں گے کہ بلاشبہ اس نے بہت کھول کھول کر مکمل طرح سے توحید کو بیان کیا ہے یہاں تک کہ قرآن کی سورتوں میں سے کوئی سورۃ بھی ایسی نہیں جس میں توحید کی بات نہ کی گئی ہو، اور اس کا بیان و وضاحت اور ساتھ ساتھ اس کی ضد (یعنی شرک) سے منع نہ کیا گیا ہو۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے یہ بات مقرر فرمائی کہ:
"قرآن پورے کا پورا ہی توحید ہے، کیونکہ یا تو اس میں خبریں ہيں اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے تعلق سے ، اور یہ توحید علمی ہے جو کہ توحید ربوبیت ہے، یا پھر ایک اللہ کی بلاشرکت عبادت کا حکم ہے اور شرک سے منع کیا گیا ہے، اور یہ توحید عملی وطلبی ہے جو کہ توحید الوہیت ہے، یا پھر اللہ تعالی کی اور اس کے رسو لﷺ کی اطاعت کا حکم ہے اور اللہ تعالی کی اور اس کے رسول ﷺ کی معصیت سے منع کیا گیا ہے ، اور یہ توحید کے حقوق اور اس کی تکمیل میں سے ہے۔
یا خبر ہے اس کی جو کچھ اللہ تعالی نے توحید پرستوں کے لیے دنیا وآخرت میں نعمتیں، فوز وفلاح، نجات ونصرت عطاء فرمائیں ہيں، یا پھر خبر ہے جو کچھ مشرکین کو عبرتناک انجام سے دنیا وآخرت میں شکار ہونا پڑا، یا پھر خبر ہے جو کچھ مشرکین کو اس دنیا میں عبرتناک انجام کا سامنا ہوا اور جو کچھ آخرت میں ان کے لیے دائمی وابدی، ہمیشہ ہمیش کا عذاب جہنم تیار ہے۔ یہ (خیر) اس کے لیے جو توحید کا حق ادا کرے اور (یہ عذاب) اس کے لیے جو توحید سے لاپرواہی برتے"([1])۔
چناچہ قرآن سارے کا سارا توحید کے گرد ہی گردش کرتا ہے۔ اورآپ اگر مکی سورتو ں پر غوروفکر کریں گے تو پائیں گے کہ ان میں غالباً توحید کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں تیرہ برس رہے اور توحید کی جانب دعوت دیتے اور شرک سے روکتے رہے۔ زیادہ تر فرائض جیسے زکوٰۃ، روزے اور حج اور اس کے علاہ دیگر حلال وحرام کے امور، اور معاملات وغیرہ آپ ﷺ پر نازل نہیں ہوئے مگر مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد، سوائے نماز کے، وہ آپ ﷺ پر شب معراج میں فرض ہوئی کہ جب آپ ﷺ کو اسراء ومعراج ہوئی تھی([2])، لیکن یہ بھی ہجرت سے کچھ عرصہ قبل ہی ہوا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ مکی سورتیں جو نبی کریم ﷺ پر قبل از ہجرت نازل ہوئیں میں غالباً توحید کے مسائل پر ہی بات ہوتی ہے، جو اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے۔ اور دیگر فرائض نازل نہيں ہوئے مگر توحید کے مقرر ہوجانے ،دلوں میں راسخ ہوجانے اور صحیح عقیدے کے ظاہر اور واضح ہوجانے کے بعد ہی، کیونکہ اعمال بغیر توحید کے صحیح نہیں ہوسکتے، اور نہیں قائم ہوسکتے مگر توحید ہی کی بنیاد پر۔
قرآن نے یہ بات واضح کی ہے کہ جتنے بھی رسول علیہم الصلاۃ والسلام تھے انہوں نے اپنے دعوت میں تمام چیزوں سے پہلے توحیدہی سے شروع فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36)
(اور بلاشبہ یقینا ًہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو)
اور فرمایا:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: 25)
(اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہی وحی فرمائی کہ بےشک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں، سو میری ہی عبادت کرو)
اور ہر نبی اپنی قوم کو کہتا:
﴿يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ﴾ (الاعراف: 59)
(اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں)
یہ تھی رسولوں کی ذمہ داری، کہ سب سے پہلے توحید سے