Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.16K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding showing our anger to those who insult the #prophet through #demonstrations? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#گستاخانِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت میں #احتجاجیمظاہرے کرنے کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/01/gustakh_e_rasool_khilaf_muzahiraat_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم یہ سائل کہتا ہے حال ہی جو واقعہ رونما ہوا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں استہزاء کیا جاتا ہے اس بارے میں ایک مسلمان کا کیا مؤقف ہونا چاہیے اور اس پر کیا واجب ہے؟
الشیخ: میرے بھائی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو اس وقت بھی مذاق اڑایا گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ تھے ان کا مقابلہ مذموم صفات کے ساتھ کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساحر(جادوگر) ہیں، کاہن ہیں، کذاب (بڑےجھوٹے) ہیں اور اس کے علاوہ اور باتیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں اور رسالت کے مستحق نہیں۔ رسالت تو ضروری ہے کہ فرشتوں کو ملے یا پھر بڑے رئیس امیر وکبیر لوگوں کو:
﴿وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ (الزخرف: 31)
(اور انہوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟)
طائف میں سے رئیسِ طائف ہوتا یا رئیسِ مکہ ہوتا تو اسے رسول ہونا چاہیے تھا جبکہ یہ یتیم، فقیر رسول ہو! یہ نازیبا بات ہے! اس طرح سے وہ کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے جواب دیا:
﴿اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ (الزخرف: 32)
(کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟! ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی)
یہ کسی چیز کے مالک نہیں اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کا مستحق ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے)
تم کون ہوتے ہو تجاویز دینے والے؟! اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کے فریضے کو ادا کرسکتا ہے اور کون اس کے لائق ہے ۔ اور وہ یہی یتیم ہیں اور وہ امین شخص ہیں جو رسالت کے لائق ہیں، انہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے چنا ہے۔
(فتاوی نور علی الدرب 14120)
سوال: احسن اللہ الیکم حال ہی میں باتکرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں مختلف طریقوں سےگستاخیاں کی جارہی ہیں کبھی فلموں کے ذریعے تو کبھی اخبارات وغیرہ میں۔ سوال یہ ہے کہ ان گستاخیوں کے تعلق سے کیا شرعی مؤقف ہونا چاہیے ساتھ ہی اسی کے تابع ایک اور سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیے جانے پر اپنے غیض وغصے کے اظہار کے لیے احتجاجی مظاہروں کا کیا حکم ہے؟
جواب: میرےبھائیوں یہ کوئی نئی بات نہيں ہے خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساحر، کذاب، کاہن، شاعر وغیرہ کہا گیا لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر صبر فرمایا عجلت پسندی وجلدبازی کا مظاہرہ نہيں فرمایا، کیونکہ خود اللہ تعالی نے انہیں صبر کرنے کا حکم دیا تھا:
﴿ وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾ (المزمل: 10)
(اور اس پر صبر کر یں جو وہ کہتے ہیں اور انہیں خوبصورت طریقے سے چھوڑ دیں)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب سنتے تھے لیکن اس کے باوجود حکم الہی کے بموجب صبر فرمایا کرتے تھے:
﴿اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ۔۔۔ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ، وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾ (الحجر: 95-99)
(بے شک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔۔۔اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ کا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں، پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں، اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں)
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی صبر فرماتے تھے اور اپنے صحابہ کو بھی کسی قسم کی انتقامی کارروائی کرنے سے منع فرماتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں تھے۔ کیونکہ اگر وہ مشرکین سے انتقام لینے کی کوشش کرتے تو مکہ سے اسلام کا ہی صفایا کردیا جاتا۔ اور اس دعوت کااس کی گود میں ہی خاتمہ کردیا جاتا۔ لیکن صبر کیا یہاں تک کہ ہجرت فرمائی اور انصار (مددگاروں) کوپایا۔ تب اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشرکین کے خلاف ش
[#SalafiUrduDawah Article] The #noble_lineage of #prophet_Muhammad (SalAllaaho alaihi wasallam) – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا #نسب_شریف
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: صحيح السيرة النبوية (ما صح من سيرة رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذكر أيامه وغزواته وسراياه والوفود إليه- للحافظ إبن کثیر)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/nabi_nasab_shareef.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف اور عالی رتبہ اصل کا بیان
فرمان الہی ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے)
اور جب روم کے بادشاہ ہرقل نے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کے متعلق سوالات کیے تو کہا کہ:
’’كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟‘‘
(ان کا تمہارے درمیان نسب کیسا ہے؟)
انہوں نے جواب دیا:
’’هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ‘‘
(وہ ہمارے درمیان بڑے حسب نسب والے ہیں)۔
اس نے کہا:
’’وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أنْسَابِ قَوْمِهَا‘‘
(اسی طرح سے رسول اپنی قوم کے نسب میں سے ہوتا ہے)۔
یعنی وہ حسب نسب کے اعتبار سے بڑے معزز اور قبیلے کے اعتبار سے بہت کثیر ہوتے ہیں (صلوات الله عليهم أجمعين)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید ولد آدم ہیں اور دنیا وآخرت میں ان کے لیے باعث فخر ہیں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوالقاسم، ابو ابراہیم، محمد، احمد، الماحی (جس سے اللہ تعالی کفر کو مٹا دیتا ہے)، العاقب (جس کے بعد کوئی نبی نہیں)، الحاشر (کہ جن کے قدم مبارک ([1])پر لوگوں کا حشر ہوگا)، المقفی، نبی الرحمۃ، نبی التوبۃ، نبی الملحمۃ، خاتم النبیین اور عبداللہ ہیں([2])۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتےہیں: بعض علماء نے ان القاب میں اضافہ فرمایا ہے اور بتایا کہ: اللہ تعالی نے آپ کو قرآن کریم میں رسول، نبی، اُمِّی، شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ باذنہ، سراج منیر، رؤوف ورحیم، مذکر نام دیا اور آپ کو رحمت، نعمت اور ہادی بنایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابن عبداللہ بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب ابن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان جو کہ لامحالہ سیدنا اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد میں سے ہیں البتہ اس میں اختلاف ہے کہ ان کے درمیان کتنے آباء پڑتے ہيں۔
اور یہ جو نسب اس طور پر بیان ہوا ہے اس میں علماء کرام میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا([3])۔ پس عرب حجاز کے تمام قبائل اس نسب کی جانب ہی منسوب ہوتے ہیں۔ اسی لیے سیدنا ابن عباس w وغیرہ نے اس فرمان الہی کی تفسیر میں فرمایا: ﴿قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى﴾ (الشوری: 23) (تو کہہ دیجئے! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا سوائے محبت رشتہ داری کی) کہ قریش کے قبائل میں سے کوئی بھی قبیلہ ایسا نہیں تھا کہ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب نہ ملتا ہو([4])۔
اسی طرح سے مرسل اور موقوف دونوں طور پر روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خَرَجْتُ مِنْ نِكَاحٍ، وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلَى أَنْ وَلَدَنِي أَبِي وَأُمِّي،وَلَمْ يُصِبْنِي مِنْ سِفَاحِ الْجَاهِلِيَّةِ شَيْءٌ‘‘([5])
(سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر میرے پورے نسب کے اعتبار سے میں نکاح کے ذریعے آیا ہوں بدکاری کے ذریعے نہیں یہاں تک کہ میرے ماں باپ نے مجھے پیدا کیا، مجھے جاہلیت کی گندگی میں سے کوئی چیز نہیں پہنچی)۔
اسے ابن عدی نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی مرسل سند جید ہے۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتَّى بُعِثْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ‘‘([6])
(میں بنی آدم کی بہترین نسل سے نسب کے اعتبار سے نسل در نسل چلتا آیا ہوں یہاں تک کہ میں اس نسل یا زمانے میں پیدا ہوا جس میں میں اب ہوں)۔
اور صحیح مسلم میں ہےسیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ بَنِي كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ‘‘([7])