Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.95K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] I don't want to hear anything against my favourite #Aalim or #Daaee! – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
میں اپنے پسندیدہ #عالم یا #داعی کے خلاف کچھ نہيں سن سکتا!
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة ص 67.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/pasandeedah_alim_daee_khilaf_na_sunna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو کسی عالم یا داعی کو پسند کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ: بے شک میں ان سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں، اور ہرگز بھی نہيں سن سکتا کہ کوئی ان پررد کرے، اور میں ان کی ہی بات کو لوں گا چاہے وہ دلیل کے مخالف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ بے شک میرے یہ شیخ ہم سے زیادہ دلیل کو سمجھنے والے ہيں؟
جواب: یہی وہ قابل نفرت ومذمت تعصب ہے، جو کہ بالکل بھی جائز نہیں([1])۔
ہم علماء کرام سے محبت کرتے ہيں الحمدللہ، اسی طرح سے داعیان الی اللہ سے بھی محبت کرتے ہیں، لیکن اگر ان میں سے کوئی کسی مسئلے میں غلطی کرجائے، تو ہم اس مسئلے میں دلیل کے ساتھ حق بیان کرتے ہيں، اور یہ مردود علیہ (جس کا رد کیا گیا) ا س کی محبت اور قدر میں نقص کا سبب نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک رد کرسکتا ہے اور اس کا رد کیا جاسکتا ہے، سوائے اس قبر والے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے‘‘([2])۔
لہذا ہم اگر بعض اہل علم وفضل پر رد کرتے ہيں تو اس کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ ہم ان سے بغض رکھتے ہيں یا ان کی تنقیص کے خواہاں ہیں، بلکہ ہم تو صرف اور صرف حق صواب کی وضاحت کرتے ہيں۔ اسی لیے بعض علماء کرام جب ان کے ساتھیوں میں سے کوئی غلطی کرتا تو یوں فرماتے ہیں:
’’فلاں ہمارا محبوب ہے، لیکن حق ہمیں اس سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘([3])۔
یہ ہے صحیح طریقہ ۔
چناچہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ بعض علماء پر کسی ایسے مسئلے میں جس میں ان سے غلطی ہوئی رد کرنے کا مطلب ان کی تنقیص کرنا یا ان سے بغض کرنا ہے، بلکہ علماء کرام تو ہمیشہ سے ایک دوسرے پر رد کرتے آئے ہيں اس کے باوجود آپس میں محبت اور بھائی چارہ بھی تھا۔
ہمارے لیے جائز نہيں کہ کسی شخص کی ہر بات کو اٹل سمجھ کر لازمی طور پر لیں، چاہے وہ صواب پر ہو یا غلطی پر، کیونکہ بلاشبہ یہ تعصب ہے۔
وہ شخصیت کے جن کے ہر قول کو لیا جائے گا اور اس میں سے کسی بھی چیزکو چھوڑا نہيں جاسکتا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہيں، کیونکہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی طرف سے مبلغ (پہنچانے والے) ہیں، اور وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ نہيں بولتے، لیکن ان کے علاوہ جو ہيں تو ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور صواب کو بھی پاسکتے ہيں، اگرچہ وہ تمام لوگوں میں سے افضل ترین ہی کیوں نہ ہوں، بہرحال وہ مجتہد ہیں جو غلطی بھی کرتے ہيں اور صواب کو بھی پاتے ہیں۔
کوئی بھی معصوم عن الخطاء نہيں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے۔
واجب ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سے سمجھیں، کسی غلطی پر پردہ نہ ڈالیں کسی شخصیت کی ہیبت کی وجہ سے، بلکہ ہمیں چاہیےکہ ہم غلطی کو واضح کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ‘‘([4])
(دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ، ہم نے عرض کی: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، اور حکام مسلمین اور ان کی عوام کے لیے)۔
اور غلطی کو بیان کرنا تمام لوگوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے میں سے ہے، جبکہ اسے چھپانا نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے مخالف ہے۔
[1] محمد سلطان الخجندی رحمہ اللہ صاحب کتاب ’’هل المسلم ملزم باتباع مذهب معين من المذاهب الأربعة‘‘ ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ سے ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: ’’اس امت کے کسی بھی شخص پر یہ واجب نہيں کہ وہ حنفی ہو، یا مالکی، یا شافعی یا حنبلی، بلکہ ہر ایسے فرد پر ضروری ہے کہ جو عالم نہ ہو کہ وہ اہل ذکر (علماء) میں سے کسی بھی سے پوچھ لے، اور یہ آئمہ اربعہ بھی اہل ذکرمیں سے ہيں، اسی لیے کہا جاتا ہے: (جس نے عالم کی اتباع کی اس کی ملاقات اللہ تعالی سے سلامتی کے ساتھ ہوگی)، اور درحقیقت ہر مکلف سیدالانبیاء سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر مامور ہے‘‘۔ ص 57 تحقیقی الہلالی۔
میں یہ کہتا ہوں: اس کے قریب قریب معنی اس کلام کا بھی ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے جو اس کتاب ’’الاجوبۃ المفیدۃ‘‘ کے حاشیہ رقم 67 میں دیکھا جاسکتا ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 2) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

شرح #کتاب_التوحید ، باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_2.pdf

[Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap02.mp3
[#SalafiUrduDawah Article] Should we not take #refutations of #Ulamaa upon each other? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #علماء کا ایک دوسرے پر #رد نہیں لیا جائے گا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نونية ابن القيم شريط 38 الدقيقة 25:12۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/03/ulamaa_radd_bahimi_nahi_lya_jae.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ ، آجکل یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی عالم کسی دوسرے عالم کی غلطی پر رد کرتا ہے، تو کہتے ہيں کہ ’’كلام الأقران يطوى ولا يروى‘‘ (برابری کے علماء کا ایک دوسرے کے خلاف کلام لپیٹ دیا جائے گا آگے روایت نہیں کیا جائے گا) (یا بقول بعض : یہ تو ’’اکابر‘‘ کی باہمی چشمک اور جروح ہیں جن سے ہم لوگوں کو دور رہنا چاہیے) آپ کی اس قاعدے کے متعلق کیا رائے ہے؟ اور کیا اسے مطلقاً لیا جائے گا؟
جواب: میں آپ کے لیے وضاحت کرچکا ہوں کہ حق بیان کرنا اور غلطی کا رد کرنا واجب ہے۔ ہم کسی کی چاپلوسی یا خوشامد نہیں چاہتے اس بارے میں۔ کسی کی خوشامد کو خاطر میں نہيں لایا جائے گا۔ غلطی کو واضح کریں گے اور اس کے مقابل حق کی جانب رہنمائی کریں گے۔ ہمیں کسی فلان علان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
لیکن خاموش رہنا جائز نہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس غلطی کو چھوڑ دیں یونہی، پھر دوسری کو، پھر تیسری کو ۔۔۔تو غلطیوں کی کثرت ہوجائے گی، اور لوگ علماء کرام کا ان پر سکوت اختیار کرنے کو حجت سمجھنے لگے گیں۔
لازم ہے کہ بیان کیا جائے۔ خصوصاً جس نے غلطی کی ہے اگر وہ قدآور شخصیت اور ایسا نمونہ ہو لوگوں کی نظر میں جس کی پیروی کی جاتی ہے یا جس کے پاس سربراہی ہو تو پھر معاملہ اور زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ لہذا غلطی کی بہرحال وضاحت ضرور ہوگی تاکہ کوئی اس سے دھوکے میں نہ آجائے۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ لپیٹ لو بس آگے بیان نہ کرو!! یہ کلام باطل ہے۔جو کلام عام نشر ہورہا ہے اس کا رد ہوگا جسے ناراض ہونا ہے ہو، راضی ہونا ہے ہو۔ کیونکہ ہمارا اصل ہدف حق ہے۔ ناکہ ہمارا ہدف لوگوں کی عزت اچھالنا یا تنقیص کرنا ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 3) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

شرح #کتاب_التوحید ، باب 3: شرک سے ڈرنے کا بیان

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

باب 3: شرک سے ڈرنے کا بیان

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_3.pdf

[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap03.mp3
[#SalafiUrduDawah Audio] "#La_ilaha_illa_Allaah" its status, virtue, pillars, conditions and meaning – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
"#لا_الہ_الا_اللہ" کی منزلت، فضیلت، ارکان، شرائط ومعنی – شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
ترجمہ: طارق علی بروہی
مقدمہ از دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی حفظہ اللہ
مقدمہ از شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
زندگی میں لا الہ الا اللہ مقام ومنزلت
لا الہ الا اللہ کی فضیلت
لا الہ الا اللہ کے اعراب، ارکان وشرائط
لا الہ الا اللہ کا معنی اور اس کے تقاضے
کب لا الہ الا اللہ اپنے پڑھنے والے کو فائدہ دیتا ہے اور کب نہيں
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول
کب لا الہ الا اللہ اپنے پڑھنے والے کو فائدہ دیتا ہے اور کب نہيں
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا قول
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ کا قول
لا الہ الا اللہ کے فرد اور معاشرے پر اہم ترین اثرات

http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D9%84%D8%A7-%D8%A7%D9%84%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%B2%D9%84%D8%AA%D8%8C-%D9%81%D8%B6%DB%8C%D9%84%D8%AA%D8%8C-%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%86/
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 4) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

شرح #کتاب_التوحید ، باب 4: لا الہ الا اللہ کی گواہی کی طرف دعوت دینا

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

باب 4: لا الہ الا اللہ کی گواہی کی طرف دعوت دینا

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_4.pdf

[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap04.mp3
[#SalafiUrduDawah Article] The obligation of love and respect for #Rasoolullaah (SalAllaho alayhi wa sallam) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم کا وجوب
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/nabi_muhabbat_tazeem_wujoob.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بندہ پر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبت ضروری ہے، یہ عبادت کی سب سے عظیم قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ﴾ (البقرۃ:165)
(اور جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ تعالی ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں)
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کا منعمِ حقیقی ہے۔ جس نے ساری ظاہری و باطنی نعمتوں سے بندوں کو نوازا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کے بعد اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت واجب ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، اس کی معرفت سے ہمکنار کیا، اس کی شریعت کو پہنچایا اور اس کے احکامات کو بیان فرمایاہے۔ آج مسلمانوں کو جو دنیاوآخرت کی بھلائی حاصل ہے وہ اسی رسول ِرحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت حاصل ہے۔کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ایک حدیث کے الفاظ ہیں:
’’ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ‘‘([1])
(جس کے اندر تین چیزیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا ، وہ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نزدیک دوسری ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں اور کسی شخص سے محبت کرتا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہو اور کفر کی طرف لوٹنا اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے نکالا ہے ایسا ہی ناپسند کرتا ہو جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے)۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہے اور اس کے ساتھ لازم ہے اور رتبہ کے اعتبار سے دوسرے درجہ پر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دیگر تمام محبوب چیزوں سے آپ کی محبت کو مقدم رکھنے سے متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ‘‘([2])
(تم میں سے کوئی اس وقت تک پکا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کی اولاد اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں)۔
بلکہ ایک حدیث میں تو آیا ہے کہ ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نفس سے زیادہ محبوب رکھے۔ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: الْآنَ يَا عُمَرُ‘‘([3])
(اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ میرے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں بات نہیں بنے گی۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (اگر ایسی بات ہے تو) یقیناً اللہ کی قسم! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب صحیح ہے اے عمر)۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے علاوہ دنیا کی ہر چیز کی محبت پر مقدم ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کو لازم ہے([4])، اس لئے یہ محبت بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اور اسی کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت مومن کے دل میں جتنی بڑھے گی اتنی ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بڑھے گی اور اللہ تعالیٰ کی محبت اگر گھٹے گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی گھٹے گی، اور جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو گا تو اس سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت رکھی جائے گی۔
#SalafiUrduDawah
#nasheed "#tala_al_badru_alayna" ki haqeeqat - shaykh saaleh bin fawzaan #al_fawzaan
#نشید "#طلع_البدر_علینا" کی حقیقت - شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding showing our anger to those who insult the prophet through #demonstrations? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#گستاخانِ_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت میں #احتجاجی_مظاہرے کرنے کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/01/gustakh_e_rasool_khilaf_muzahiraat_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: احسن اللہ الیکم یہ سائل کہتا ہے حال ہی جو واقعہ رونما ہوا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں استہزاء کیا جاتا ہے اس بارے میں ایک مسلمان کا کیا مؤقف ہونا چاہیے اور اس پر کیا واجب ہے؟

الشیخ: میرے بھائی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو اس وقت بھی مذاق اڑایا گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ تھے ان کا مقابلہ مذموم صفات کے ساتھ کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساحر(جادوگر) ہیں، کاہن ہیں، کذاب (بڑےجھوٹے) ہیں اور اس کے علاوہ اور باتیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں اور رسالت کے مستحق نہیں۔ رسالت تو ضروری ہے کہ فرشتوں کو ملے یا پھر بڑے رئیس امیر وکبیر لوگوں کو:
﴿وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ (الزخرف: 31)
(اور انہوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟)
طائف میں سے رئیسِ طائف ہوتا یا رئیسِ مکہ ہوتا تو اسے رسول ہونا چاہیے تھا جبکہ یہ یتیم، فقیر رسول ہو! یہ نازیبا بات ہے! اس طرح سے وہ کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے جواب دیا:
﴿اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ (الزخرف: 32)
(کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟! ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی)
یہ کسی چیز کے مالک نہیں اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کا مستحق ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے)
تم کون ہوتے ہو تجاویز دینے والے؟! اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کے فریضے کو ادا کرسکتا ہے اور کون اس کے لائق ہے ۔ اور وہ یہی یتیم ہیں اور وہ امین شخص ہیں جو رسالت کے لائق ہیں، انہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے چنا ہے۔
(فتاوی نور علی الدرب 14120)
سوال: احسن اللہ الیکم حال ہی میں باتکرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں مختلف طریقوں سےگستاخیاں کی جارہی ہیں کبھی فلموں کے ذریعے تو کبھی اخبارات وغیرہ میں۔ سوال یہ ہے کہ ان گستاخیوں کے تعلق سے کیا شرعی مؤقف ہونا چاہیے ساتھ ہی اسی کے تابع ایک اور سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیے جانے پر اپنے غیض وغصے کے اظہار کے لیے احتجاجی مظاہروں کا کیا حکم ہے؟
جواب: میرےبھائیوں یہ کوئی نئی بات نہيں ہے خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساحر، کذاب، کاہن، شاعر وغیرہ کہا گیا لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر صبر فرمایا عجلت پسندی وجلدبازی کا مظاہرہ نہيں فرمایا، کیونکہ خود اللہ تعالی نے انہیں صبر کرنے کا حکم دیا تھا:
﴿ وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾ (المزمل: 10)
(اور اس پر صبر کر یں جو وہ کہتے ہیں اور انہیں خوبصورت طریقے سے چھوڑ دیں)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب سنتے تھے لیکن اس کے باوجود حکم الہی کے بموجب صبر فرمایا کرتے تھے:
﴿اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ۔۔۔ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ، وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾ (الحجر: 95-99)
(بے شک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔۔۔اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ کا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں، پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں، اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں)