[#SalafiUrduDawah Article] Sometimes #Ulamaa keep silence regarding few personalities out of wisdom – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
بسا اوقات #علماء کرام کسی شخصیت کے متعلق کلام کرنے سے بطور شرعی مصلحت خاموشی اختیار فرماتے ہیں
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المجموع الواضح، ص 143۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/ulama_kabhi_maslihat_khamoshi.pdf
﷽
بے شک خیر خواہ علماء وفقہاء کبھی کبھار بعض شخصیات اور چیزوں پر خاموشی اختیار فرماتے ہیں، جس میں دراصل ان کی جانب سے مصلحتوں اور مفاسد کا لحاظ کیا گیا ہوتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی شخص پر کلام کرنے سے اس پر خاموش رہنے کے بنسبت بہت عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں ۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض منافقین کے نام ذکر کرنے سے سکوت اختیار فرمایا۔ ان سب کے یا بعض کے نام کسی کو نہيں بتائے سوائے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے۔کب آپ نے ایسا دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے ہوں اور کہاں ہو فلاں منافق ہے، اور فلاں منافق ہے۔ یہ سب باتيں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسی مصلحتوں اور مفاسدکا لحاظ کرنے سے متعلق ہيں۔
اسی طرح سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں داخل تھے، لیکن باقی کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی علی رضی اللہ عنہ پر طعن نہيں کیا، اور ناہی عقل مند تابعین میں سے کسی نے ، وہ اس بارے میں اور ان قاتلوں کے احکام کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی تشہیر نہیں کرتے پھرتے تھے۔ اور یہ ان کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں بالکل صحیح عذر اور انصاف ہی تھا۔ کیونکہ اگر وہ ان لوگوں کو اپنی فوج سے نکالتے یا انہیں سزا دیتے تو اس کے نتیجے میں عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں جیسے:
جنگ وجدل اور خون خرابہ، جس کے نتیجے میں امت میں ضعف وکمزوری کا آجانا۔ چناچہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس باب میں سے ہے کہ: (انتہائی مجبوری کی حالت میں جب کوئی چارہ نہ ہو تو) دو مفسدوں میں سے چھوٹے کا ارتکاب کرلیا جائے تاکہ اس بڑے مفسدے سے بچا جاسکے۔
اسی طرح سے یہ دیکھیں امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ ابن القیم رحمہما اللہ کو، کیوں انہوں نے امام النووی : وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا۔ اسی طرح سے آئمہ دعوت نے بھی امام النووی ، ابن حجر، القسطلانی، البیہقی اور السیوطی رحمہم اللہ وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا؟ (اس میں بھی وہی مصلحت کارفرماد تھی)۔
لہذا ہرگز یہ خیال نہ کیجئے کہ: ہر صراحت وبیان نصیحت ہی ہوتا ہے، اور نہ ہی ہر سکوت وخاموشی اسلام ومسلمانوں کے لیے خیانت ہی ہوتی ہے۔
پس ایک عاقل، انصاف پسند وبصیرت کا حامل انسان یہ جان لیتا ہے کہ کب کلام کرنا واجب یا جائز ہے او رکب سکوت اختیار کرنا واجب یا جائز ہے۔
بسا اوقات #علماء کرام کسی شخصیت کے متعلق کلام کرنے سے بطور شرعی مصلحت خاموشی اختیار فرماتے ہیں
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المجموع الواضح، ص 143۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/ulama_kabhi_maslihat_khamoshi.pdf
﷽
بے شک خیر خواہ علماء وفقہاء کبھی کبھار بعض شخصیات اور چیزوں پر خاموشی اختیار فرماتے ہیں، جس میں دراصل ان کی جانب سے مصلحتوں اور مفاسد کا لحاظ کیا گیا ہوتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی شخص پر کلام کرنے سے اس پر خاموش رہنے کے بنسبت بہت عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں ۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض منافقین کے نام ذکر کرنے سے سکوت اختیار فرمایا۔ ان سب کے یا بعض کے نام کسی کو نہيں بتائے سوائے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے۔کب آپ نے ایسا دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے ہوں اور کہاں ہو فلاں منافق ہے، اور فلاں منافق ہے۔ یہ سب باتيں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسی مصلحتوں اور مفاسدکا لحاظ کرنے سے متعلق ہيں۔
اسی طرح سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں داخل تھے، لیکن باقی کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی علی رضی اللہ عنہ پر طعن نہيں کیا، اور ناہی عقل مند تابعین میں سے کسی نے ، وہ اس بارے میں اور ان قاتلوں کے احکام کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی تشہیر نہیں کرتے پھرتے تھے۔ اور یہ ان کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں بالکل صحیح عذر اور انصاف ہی تھا۔ کیونکہ اگر وہ ان لوگوں کو اپنی فوج سے نکالتے یا انہیں سزا دیتے تو اس کے نتیجے میں عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں جیسے:
جنگ وجدل اور خون خرابہ، جس کے نتیجے میں امت میں ضعف وکمزوری کا آجانا۔ چناچہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس باب میں سے ہے کہ: (انتہائی مجبوری کی حالت میں جب کوئی چارہ نہ ہو تو) دو مفسدوں میں سے چھوٹے کا ارتکاب کرلیا جائے تاکہ اس بڑے مفسدے سے بچا جاسکے۔
اسی طرح سے یہ دیکھیں امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ ابن القیم رحمہما اللہ کو، کیوں انہوں نے امام النووی : وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا۔ اسی طرح سے آئمہ دعوت نے بھی امام النووی ، ابن حجر، القسطلانی، البیہقی اور السیوطی رحمہم اللہ وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا؟ (اس میں بھی وہی مصلحت کارفرماد تھی)۔
لہذا ہرگز یہ خیال نہ کیجئے کہ: ہر صراحت وبیان نصیحت ہی ہوتا ہے، اور نہ ہی ہر سکوت وخاموشی اسلام ومسلمانوں کے لیے خیانت ہی ہوتی ہے۔
پس ایک عاقل، انصاف پسند وبصیرت کا حامل انسان یہ جان لیتا ہے کہ کب کلام کرنا واجب یا جائز ہے او رکب سکوت اختیار کرنا واجب یا جائز ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Low number of attendees at the #Duroos of #Ulamaa – Shaykh Muhammad bin Umar #Bazmool
#علماء کے #دروس میں کم لوگوں کی حاضری
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر #بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بازمول ڈاٹ کام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/ulama_duroos_qillat_haziri.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجھے بعض طلبہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ان کے بعد از فجر درس کے متعلق کہا گیا جو کہ طائف میں واقع ان کی مسجد میں ہوتا تھا کہ : یا شیخ اگر آپ فجر کے بعد کچھ آرام کرلیں تو بہتر ہے اور اس کے علاوہ دیگر دروس پر اکتفاء کریں کیونکہ فجر والے درس میں بہت کم لوگ حاضر ہوتےہیں۔ شیخ رحمہ اللہ نے پوچھا: کتنے لوگ آتے ہیں؟ کہا: سات سے زیادہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ان میں خیر وبرکت ہے ان شاء اللہ ہم درس جاری رکھیں گے۔
حالانکہ اگر آپ اس قوم (ہمارے مخالفین) کو دیکھیں تو وہ اپنے دروس وتقاریر میں کثرتِ حاضرین کا ہم پر دھونس جماتے ہیں۔۔۔
مجھے الجزائر سے ایک بھائی نے بتایا کہ فلاں شخص اس نے داعیانِ فتنہ میں سے ایک کا نام لیا اگر اس کاکوئی علمی درس ہوتا ہے تو کوئی حاضر نہيں ہوتا سوائے چند لوگوں کے۔۔۔اور اگر اس کا درس سیاسی مسائل اور حکومت مخالفت محاذ آرائی سے متعلق ہوتا ہے تو لوگوں کی کثیر تعداد آتی ہے۔۔۔میں نے اس سے کہا: یہ بات بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کے متعلق مجھے کسی نے بتایا تھا کہ جدہ میں جب اس کا درس عقیدے کی شرح پرہوتا تھا تو حاضرین بہت قلیل ہوتے تھے اور یہ درس عصر کے بعد ہوا کرتا تھا جبکہ اسی کا درس مغرب کے بعد حالات حاضرہ اور حکومت مخالف محاذ آرائی پر ہوتا تو مسجد کھچا کھچ بھر جاتی۔۔۔
فلا حول و لا قوة إلا بالله۔۔۔اب حاضرین کی کثرت علم کے لیے نہيں دیگر اغراض کے لیے ہوکر رہ گئی ہے۔۔۔اور یہ زیادہ حاضرین جمع کرنے کا حربہ اب ولولہ انگیزی اور تحریکی قسم کے جذبات ابھارنا بن چکا ہے ناکہ قواعد علم وایمان کا لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا۔
#علماء کے #دروس میں کم لوگوں کی حاضری
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر #بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بازمول ڈاٹ کام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/ulama_duroos_qillat_haziri.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجھے بعض طلبہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ان کے بعد از فجر درس کے متعلق کہا گیا جو کہ طائف میں واقع ان کی مسجد میں ہوتا تھا کہ : یا شیخ اگر آپ فجر کے بعد کچھ آرام کرلیں تو بہتر ہے اور اس کے علاوہ دیگر دروس پر اکتفاء کریں کیونکہ فجر والے درس میں بہت کم لوگ حاضر ہوتےہیں۔ شیخ رحمہ اللہ نے پوچھا: کتنے لوگ آتے ہیں؟ کہا: سات سے زیادہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ان میں خیر وبرکت ہے ان شاء اللہ ہم درس جاری رکھیں گے۔
حالانکہ اگر آپ اس قوم (ہمارے مخالفین) کو دیکھیں تو وہ اپنے دروس وتقاریر میں کثرتِ حاضرین کا ہم پر دھونس جماتے ہیں۔۔۔
مجھے الجزائر سے ایک بھائی نے بتایا کہ فلاں شخص اس نے داعیانِ فتنہ میں سے ایک کا نام لیا اگر اس کاکوئی علمی درس ہوتا ہے تو کوئی حاضر نہيں ہوتا سوائے چند لوگوں کے۔۔۔اور اگر اس کا درس سیاسی مسائل اور حکومت مخالفت محاذ آرائی سے متعلق ہوتا ہے تو لوگوں کی کثیر تعداد آتی ہے۔۔۔میں نے اس سے کہا: یہ بات بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کے متعلق مجھے کسی نے بتایا تھا کہ جدہ میں جب اس کا درس عقیدے کی شرح پرہوتا تھا تو حاضرین بہت قلیل ہوتے تھے اور یہ درس عصر کے بعد ہوا کرتا تھا جبکہ اسی کا درس مغرب کے بعد حالات حاضرہ اور حکومت مخالف محاذ آرائی پر ہوتا تو مسجد کھچا کھچ بھر جاتی۔۔۔
فلا حول و لا قوة إلا بالله۔۔۔اب حاضرین کی کثرت علم کے لیے نہيں دیگر اغراض کے لیے ہوکر رہ گئی ہے۔۔۔اور یہ زیادہ حاضرین جمع کرنے کا حربہ اب ولولہ انگیزی اور تحریکی قسم کے جذبات ابھارنا بن چکا ہے ناکہ قواعد علم وایمان کا لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا۔