[#SalafiUrduDawah Article] Preceding and opposing the #scholars in #Ummah_affairs – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
#درپیش_امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
#درپیش_امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ،اور اپنے میں سے ولاۃ امور (حکمرانوں) کی، اگر تم آپس میں کسی معاملے میں اختلاف کرلو تو اسے اللہ او ر رسول کی طرف پھیر دو ،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے)
اہل علم نے فرمايا کہ اللہ تعالی کی طرف لوٹانے کا مطلب يہ ہے اللہ کی کتاب کی طرف لوٹانا اور رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف بذات خود لوٹانا آپ کی زندگی ميں اور آپ کی سنت کی طرف لوٹانا آپ کی وفات کے بعد([2])۔
لہذا آپ کا يہ قول غایت درجے فساد اور بطلان پر مبنی ہے، اور اس قول سے صرف يہ ہی اخذ کيا جا سکتا ہے کہ آپ کا مقصد لوگوں کو اپنے آپ سے اور آپ جيسے دوسرے لوگوں سے جوڑنا ہے جو علم اور دعوت کے ميدان ميں اپنے آپ کو آگے بڑھ کر پيش کرتے ہيں۔ جبکہ آپ پر تو يہ واجب تھاکہ آپ لوگوں کو آئمہِ ہدايت اور ان اہل علم سے جوڑيں جو صحيح وسلیم وسیدھے عقيدہ ومنہج، علم ميں رسوخ اور امت کی خيرخواہی کے بارے ميں معروف ہيں([3])۔
کيونکہ يہی لوگ انبياء کے وارث ہيں، جب بھی يہ لوگ کسی درپيش مسئلے کے بارے ميں کلام کرتے ہيں([4])، يا کسی اور معاملے ميں کوئی بات کرتے ہيں، يا کسی شخص سے خبردار کرتے ہيں، اور اس ميں وہ اس کے فاسد منہج اور برے اصولوں کو دليل کے ساتھ بيان کرتے ہيں تو ان صورتوں ميں ان کے قول کو قبول کرنا واجب ہے، کيونکہ وہ حق ہے جب تک کہ وہ دليل اور برہان پر قائم ہے۔ چناچہ ان سب باتوں سے يہ واضح ہو جاتا ہے کہ يہ مقولہ بلکل باطل اور فاسدہے۔
[1] امام مسلم نے اسے صحيح مسلم ميں، کتاب: الطلاق، باب في الإيلاء واعتزال النساء، وتخييرهن، وقوله تعالى: {وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ}، حديث نمبر ۱۴۷۹ ميں سيدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روايت فرمایا ہے۔
[2] امام ابن القيم رحمہ اللہ اس آيت کے متعلق فرماتے ہيں: ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہو گيا ہے کہ اللہ کی طرف لوٹانے کا مطلب يہ ہے کہ اس کی کتاب کی طرف لوٹايا جائے، اور رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف بذات خود آپ کے لوگوں کے درميان موجود ہونے ميں يا آپ کی زندگی ميں لوٹایا جائے، اور آپ کی سنت کی طرف آپ کے لوگوں کے درميان موجود نا ہونے ميں يا آپ کی وفات کے بعد لوٹایاجائے‘‘۔ (اعلام الموقعين 1/174)۔
اور امام ابن کثير رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’اور يہ اللہ کی طرف سے حکم ہے کہ کوئی بھی معاملہ جس ميں لوگ اختلاف کر جائيں چاہے وہ دين کے اصول ميں سے ہو يا فروع ميں سے، تو اس اختلاف کو کتاب و سنت کی طرف لوٹايا جائے‘‘۔ (تفسير ابن کثير 2/304)۔
[3] یحییٰ بن معاذ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’علماء کرام امت محمد -صلی اللہ عليہ و سلم– پر ان کے اپنے ماں باپ سے زيادہ رحم دل ہيں۔ ان سے پوچھا گيا: ايسا کیسے؟انہوں نے فرمايا: کيونکہ بے شک ان کے ماں باپ ان کی دنيا کی آگ سے حفاظت کرتے ہيں، جبکہ علماء ان کو آخرت کی آگ سے بچاتے ہيں‘‘۔ (مختصر نصيحة أهل الحديث- 167)۔
[4] امام الحسن البصری رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’بے شک يہ فتنہ جب بھی آنے لگتا تو اس کو ہر عالم جان ليتا ہے، اور جب وہ نکل جاتا ہے تب اس کو ہر جاہل بھی جان ليتا ہے‘‘۔(ابن سعد – 7/166) ۔
اہل علم نے فرمايا کہ اللہ تعالی کی طرف لوٹانے کا مطلب يہ ہے اللہ کی کتاب کی طرف لوٹانا اور رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف بذات خود لوٹانا آپ کی زندگی ميں اور آپ کی سنت کی طرف لوٹانا آپ کی وفات کے بعد([2])۔
لہذا آپ کا يہ قول غایت درجے فساد اور بطلان پر مبنی ہے، اور اس قول سے صرف يہ ہی اخذ کيا جا سکتا ہے کہ آپ کا مقصد لوگوں کو اپنے آپ سے اور آپ جيسے دوسرے لوگوں سے جوڑنا ہے جو علم اور دعوت کے ميدان ميں اپنے آپ کو آگے بڑھ کر پيش کرتے ہيں۔ جبکہ آپ پر تو يہ واجب تھاکہ آپ لوگوں کو آئمہِ ہدايت اور ان اہل علم سے جوڑيں جو صحيح وسلیم وسیدھے عقيدہ ومنہج، علم ميں رسوخ اور امت کی خيرخواہی کے بارے ميں معروف ہيں([3])۔
کيونکہ يہی لوگ انبياء کے وارث ہيں، جب بھی يہ لوگ کسی درپيش مسئلے کے بارے ميں کلام کرتے ہيں([4])، يا کسی اور معاملے ميں کوئی بات کرتے ہيں، يا کسی شخص سے خبردار کرتے ہيں، اور اس ميں وہ اس کے فاسد منہج اور برے اصولوں کو دليل کے ساتھ بيان کرتے ہيں تو ان صورتوں ميں ان کے قول کو قبول کرنا واجب ہے، کيونکہ وہ حق ہے جب تک کہ وہ دليل اور برہان پر قائم ہے۔ چناچہ ان سب باتوں سے يہ واضح ہو جاتا ہے کہ يہ مقولہ بلکل باطل اور فاسدہے۔
[1] امام مسلم نے اسے صحيح مسلم ميں، کتاب: الطلاق، باب في الإيلاء واعتزال النساء، وتخييرهن، وقوله تعالى: {وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ}، حديث نمبر ۱۴۷۹ ميں سيدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روايت فرمایا ہے۔
[2] امام ابن القيم رحمہ اللہ اس آيت کے متعلق فرماتے ہيں: ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہو گيا ہے کہ اللہ کی طرف لوٹانے کا مطلب يہ ہے کہ اس کی کتاب کی طرف لوٹايا جائے، اور رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف بذات خود آپ کے لوگوں کے درميان موجود ہونے ميں يا آپ کی زندگی ميں لوٹایا جائے، اور آپ کی سنت کی طرف آپ کے لوگوں کے درميان موجود نا ہونے ميں يا آپ کی وفات کے بعد لوٹایاجائے‘‘۔ (اعلام الموقعين 1/174)۔
اور امام ابن کثير رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’اور يہ اللہ کی طرف سے حکم ہے کہ کوئی بھی معاملہ جس ميں لوگ اختلاف کر جائيں چاہے وہ دين کے اصول ميں سے ہو يا فروع ميں سے، تو اس اختلاف کو کتاب و سنت کی طرف لوٹايا جائے‘‘۔ (تفسير ابن کثير 2/304)۔
[3] یحییٰ بن معاذ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’علماء کرام امت محمد -صلی اللہ عليہ و سلم– پر ان کے اپنے ماں باپ سے زيادہ رحم دل ہيں۔ ان سے پوچھا گيا: ايسا کیسے؟انہوں نے فرمايا: کيونکہ بے شک ان کے ماں باپ ان کی دنيا کی آگ سے حفاظت کرتے ہيں، جبکہ علماء ان کو آخرت کی آگ سے بچاتے ہيں‘‘۔ (مختصر نصيحة أهل الحديث- 167)۔
[4] امام الحسن البصری رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’بے شک يہ فتنہ جب بھی آنے لگتا تو اس کو ہر عالم جان ليتا ہے، اور جب وہ نکل جاتا ہے تب اس کو ہر جاہل بھی جان ليتا ہے‘‘۔(ابن سعد – 7/166) ۔
#SalafiUrduDawah
#صحابہ کی فضیلت اور انہیں سب وشتم کرنے کی مذمت
#sahaba ki fadeelat aur unhe sabb o shatam karne ki muzammat
#صحابہ کی فضیلت اور انہیں سب وشتم کرنے کی مذمت
#sahaba ki fadeelat aur unhe sabb o shatam karne ki muzammat
#SalafiUrduDawah
شیخ #بدیع_الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کا ایک #شیعہ کو لاجواب کرنا
shaykh #badee_ud_deen shaah rashidee ka aik #shia ko lawajab karna
شیخ #بدیع_الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کا ایک #شیعہ کو لاجواب کرنا
shaykh #badee_ud_deen shaah rashidee ka aik #shia ko lawajab karna
[#SalafiUrduDawah Article] Brief biography of Sahabi #Abdullah_bin_Masud (radiAllaho anhu) – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
مختصر سوانح حیات سیدنا #عبداللہ_بن_مسعود رضی اللہ عنہ
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: اصول تفسیر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/02/sawanah_hayat_abdullaah_bin_masood.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عبداللہ بن مسعود بن غافل الھذلی ہیں اور آپ کی والدہ ام عبد تھیں جن کی طرف کبھی کبھار آپ رضی اللہ عنہ کی نسبت کی جاتی ہے([1])۔آپ رضی اللہ عنہ اسلام میں سابقین اولین میں سے تھے اور دونوں ہجرتیں (حبشہ ومدینہ) فرمائیں، اسی طرح سے غزوۂ بدر اور اس کے بعد کے معرکوں میں شریک رہے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست ستر اور اس سے کچھ اوپر قرآنی سورتیں حاصل کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع اسلام ہی میں ان کے لیے فرمایا:
’’إنك لغلام مُعَلَّم‘‘([2])
(تم تو ایک پڑھے پڑھائے سمجھدار لڑکے ہو)۔
اور فرمایا:
’’مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ‘‘([3])
(جو چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح تروتازہ اترا تھا بالکل اسی طرح قرأت کرے تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد(ابن مسعود رضی اللہ عنہ) کےقرأت کی طرح پڑھے)۔
اور صحیح البخاری ([4])میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنِّي مِنْ أَعْلَمِهِمْ بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں ان میں سے سب سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہوں)۔
اور فرمایا:
’’وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ أَيْنَ أُنْزِلَتْ، وَلَا أُنْزِلَتْ آيَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِيمَ أُنْزِلَتْ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنِّي بِكِتَابِ اللَّهِ تُبَلِّغُهُ الْإِبِلُ لَرَكِبْتُ إِلَيْهِ‘‘
(اس اللہ کی قسم کہ جس کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں کہ کتاب اللہ میں سے کوئی بھی سورت نازل نہیں ہوئی مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ کہاں نازل ہوئی، اور نہ ہی کوئی آیت نازل ہوئی مگر مجھے معلوم ہے کہ کس کےبارے میں نازل ہوئی، اور اگر میرےعلم میں کوئی ایساہوتا کہ جو مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو اورمیرا اونٹ اس تک پہنچ سکتا ہو تو میں اس پر سوار ہوکر اس کی طرف سفرکرتا)۔
اور آپ رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے تھے کہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل فرمایا، اور آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوتے، سامان طہارت وتکیہ وغیرہ لے کر ساتھ چلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي مِنْ الْيَمَنِ فَمَكُثْنَا حِينًا مَا نُرَى إِلَّا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِمَا نَرَى مِنْ دُخُولِهِ وَدُخُولِ أُمِّهِ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘([5])
(میں اور میرا بھائی جب یمن سے آئے تو کچھ عرصہ قیام کرنے پر ہم یہ سمجھتے تھے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ اس کثرت سے ان کی اور ان کی والدہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آمد ورفت ہوا کرتی تھی)۔
لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مستقل ملازمت اختیا ر کرنے کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور سنت سے بہت متاثر تھے۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’مَا أَعْرِفُ أَحَدًا أَقْرَبَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا بِالنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ ابْنِ أُمِّ عَبْد‘‘([6])
(میں ابن ام عبد (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیت، طریقے، چال ڈھال ونشت وبرخاست سے قریب تر نہیں جانتا)۔
آپ رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں کو ان کے دینی امور کی تعلیم دیں اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا۔ اور فرمایا:
’’هُمَا مِنَ النُجَبَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ،فَاقْتَدُوا بِهِمَا‘‘([7])
(یہ دو اشخاص اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے قدآور شخصیات ہیں، پس ان کی اقتداء کرنا)۔
مختصر سوانح حیات سیدنا #عبداللہ_بن_مسعود رضی اللہ عنہ
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: اصول تفسیر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/02/sawanah_hayat_abdullaah_bin_masood.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عبداللہ بن مسعود بن غافل الھذلی ہیں اور آپ کی والدہ ام عبد تھیں جن کی طرف کبھی کبھار آپ رضی اللہ عنہ کی نسبت کی جاتی ہے([1])۔آپ رضی اللہ عنہ اسلام میں سابقین اولین میں سے تھے اور دونوں ہجرتیں (حبشہ ومدینہ) فرمائیں، اسی طرح سے غزوۂ بدر اور اس کے بعد کے معرکوں میں شریک رہے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست ستر اور اس سے کچھ اوپر قرآنی سورتیں حاصل کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع اسلام ہی میں ان کے لیے فرمایا:
’’إنك لغلام مُعَلَّم‘‘([2])
(تم تو ایک پڑھے پڑھائے سمجھدار لڑکے ہو)۔
اور فرمایا:
’’مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ‘‘([3])
(جو چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح تروتازہ اترا تھا بالکل اسی طرح قرأت کرے تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد(ابن مسعود رضی اللہ عنہ) کےقرأت کی طرح پڑھے)۔
اور صحیح البخاری ([4])میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنِّي مِنْ أَعْلَمِهِمْ بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں ان میں سے سب سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہوں)۔
اور فرمایا:
’’وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ أَيْنَ أُنْزِلَتْ، وَلَا أُنْزِلَتْ آيَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِيمَ أُنْزِلَتْ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنِّي بِكِتَابِ اللَّهِ تُبَلِّغُهُ الْإِبِلُ لَرَكِبْتُ إِلَيْهِ‘‘
(اس اللہ کی قسم کہ جس کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں کہ کتاب اللہ میں سے کوئی بھی سورت نازل نہیں ہوئی مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ کہاں نازل ہوئی، اور نہ ہی کوئی آیت نازل ہوئی مگر مجھے معلوم ہے کہ کس کےبارے میں نازل ہوئی، اور اگر میرےعلم میں کوئی ایساہوتا کہ جو مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو اورمیرا اونٹ اس تک پہنچ سکتا ہو تو میں اس پر سوار ہوکر اس کی طرف سفرکرتا)۔
اور آپ رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے تھے کہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل فرمایا، اور آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوتے، سامان طہارت وتکیہ وغیرہ لے کر ساتھ چلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي مِنْ الْيَمَنِ فَمَكُثْنَا حِينًا مَا نُرَى إِلَّا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِمَا نَرَى مِنْ دُخُولِهِ وَدُخُولِ أُمِّهِ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘([5])
(میں اور میرا بھائی جب یمن سے آئے تو کچھ عرصہ قیام کرنے پر ہم یہ سمجھتے تھے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ اس کثرت سے ان کی اور ان کی والدہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آمد ورفت ہوا کرتی تھی)۔
لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مستقل ملازمت اختیا ر کرنے کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور سنت سے بہت متاثر تھے۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’مَا أَعْرِفُ أَحَدًا أَقْرَبَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا بِالنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ ابْنِ أُمِّ عَبْد‘‘([6])
(میں ابن ام عبد (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیت، طریقے، چال ڈھال ونشت وبرخاست سے قریب تر نہیں جانتا)۔
آپ رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں کو ان کے دینی امور کی تعلیم دیں اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا۔ اور فرمایا:
’’هُمَا مِنَ النُجَبَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ،فَاقْتَدُوا بِهِمَا‘‘([7])
(یہ دو اشخاص اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے قدآور شخصیات ہیں، پس ان کی اقتداء کرنا)۔
پھر بعدازیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا امیر مقرر فرمایا پھر معزول کرکے انہیں مدینہ نبویہ واپس تشریف لانے کو کہا۔ پس آپ رضی اللہ عنہ نے وہیں سن 32ھ میں وفات پائی اور البقیع قبرستان میں دفن ہوئے جبکہ اس وقت آپ کی عمر ستر اور کچھ اوپر برس کی تھی۔
[1] اوریہ اس لیےکیونکہ آپ کے والدزمانۂجاہلیت ہی میں فوت ہوگئے تھے، لیکن ان کی والدہ نے زمانۂ اسلام پایا اور اسلام لے آئیں۔
[2] اخرجہ احمد (1/389۔ 462)۔
[3] اخرجہ ابن ماجہ (138)۔
[4] اخرجہ البخاری ص 433-434، کتاب فضائل القرآن، باب 8: القراء من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حدیث رقم 5000۔
[5] اخرجہ البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب فضل عائشۃ رضی اللہ عنھا۔ حدیث رقم (3763)، ومسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فی فضائل عبداللہ بن مسعود وامہ رضی اللہ عنھما۔ حدیث رقم (2460)۔
[6] اخرجہ البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب فضل عائشۃ۔ حدیث رقم (2762)۔
[7] مستدرک حاکم 3/388، ارواء الغلیل 8/229۔
[1] اوریہ اس لیےکیونکہ آپ کے والدزمانۂجاہلیت ہی میں فوت ہوگئے تھے، لیکن ان کی والدہ نے زمانۂ اسلام پایا اور اسلام لے آئیں۔
[2] اخرجہ احمد (1/389۔ 462)۔
[3] اخرجہ ابن ماجہ (138)۔
[4] اخرجہ البخاری ص 433-434، کتاب فضائل القرآن، باب 8: القراء من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حدیث رقم 5000۔
[5] اخرجہ البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب فضل عائشۃ رضی اللہ عنھا۔ حدیث رقم (3763)، ومسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فی فضائل عبداللہ بن مسعود وامہ رضی اللہ عنھما۔ حدیث رقم (2460)۔
[6] اخرجہ البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب فضل عائشۃ۔ حدیث رقم (2762)۔
[7] مستدرک حاکم 3/388، ارواء الغلیل 8/229۔
[#SalafiUrduDawah Book] #Aqeedah and #Manhaj necessitates each other - Various #Ulamaa
#عقیدہ اور #منہج لازم ملزوم ہیں
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
﷽
فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب وشیخ ابن باز، شیخ محمد ناصر الدین الالبانی، شیخ محمد بن صالح العثیمین ، شیخ محمد امان الجامی ، شیخ مقبل بن ہادی الوادعی ، شیخ زید بن محمد المدخلی رحمہم اللہ اور شیخ ربیع بن ہادی المدخلی ، شیخ صالح بن فوزان الفوزان ، شیخ عبید بن عبداللہ الجابری ،شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ و شیخ محمد علی فرکوس حفظہم اللہ کے کلام سے ماخوذ۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_manhaj_lazim_malzoom_hain.pdf
#عقیدہ اور #منہج لازم ملزوم ہیں
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
﷽
فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب وشیخ ابن باز، شیخ محمد ناصر الدین الالبانی، شیخ محمد بن صالح العثیمین ، شیخ محمد امان الجامی ، شیخ مقبل بن ہادی الوادعی ، شیخ زید بن محمد المدخلی رحمہم اللہ اور شیخ ربیع بن ہادی المدخلی ، شیخ صالح بن فوزان الفوزان ، شیخ عبید بن عبداللہ الجابری ،شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ و شیخ محمد علی فرکوس حفظہم اللہ کے کلام سے ماخوذ۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_manhaj_lazim_malzoom_hain.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Resemblance between #Shias, Jews and Christians – Various #Ulamaa
#شیعہ اور یہودونصاریٰ میں مشابہت
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: پمفلٹ أوجه الشبه بين اليهود والشيعة، تقریر بعنوان "کتاب وسنت کو تھامنا ہی راہ نجات ہے" از شیخ احمد بن یحیی النجمی کے آخر میں کیے گئے سوالات سے ماخوذ، سوال23۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اور یہود ونصاری کو دو خصلتوں کی وجہ سے رافضہ پر فضیلت حاصل ہےیہود سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: سیدنا موسی علیہ السلام کے صحابہ۔ نصاری سے پوچھا گیا: تمہارے ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: حواریانِ سیدنا عیسی علیہ السلام ۔ اور جب رافضہ سے پوچھا کہا تمہاری ملت کے سب سے بدترین لوگ کون ہیں؟ تو کہا: اصحاب محمد رضی اللہ عنہم!۔ (منہاج السنۃ النبویۃ 1/24).
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/shia_yahood_nasara_me_mushabihat.pdf
#شیعہ اور یہودونصاریٰ میں مشابہت
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: پمفلٹ أوجه الشبه بين اليهود والشيعة، تقریر بعنوان "کتاب وسنت کو تھامنا ہی راہ نجات ہے" از شیخ احمد بن یحیی النجمی کے آخر میں کیے گئے سوالات سے ماخوذ، سوال23۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اور یہود ونصاری کو دو خصلتوں کی وجہ سے رافضہ پر فضیلت حاصل ہےیہود سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: سیدنا موسی علیہ السلام کے صحابہ۔ نصاری سے پوچھا گیا: تمہارے ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: حواریانِ سیدنا عیسی علیہ السلام ۔ اور جب رافضہ سے پوچھا کہا تمہاری ملت کے سب سے بدترین لوگ کون ہیں؟ تو کہا: اصحاب محمد رضی اللہ عنہم!۔ (منہاج السنۃ النبویۃ 1/24).
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/shia_yahood_nasara_me_mushabihat.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding today's #Shia? Various #Ulamaa
موجودہ #روافض (#شیعوں) کا حکم؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیعہ کا عقیدہ کیا ہے؟
شیعہ فرقے کے عقائد کی وضاحت اور انہیں دعوت دینا
کیا ہر شیعہ کافر ہے؟
شیعہ فرقوں کی تفصیل
شیعہ اثنا عشریہ رافضہ کا حکم
کیا تمام موجودہ شیعہ کفار ہیں؟
جو یہ کہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبوت کے مرتبے پر ہیں اور سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے غلطی کی
کیا شیعہ فرقے کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
کیا شیعہ عوام اور علماء کے حکم میں فرق ہے؟
کیاشیعہ ہمارے بھائی ہیں؟
رافضہ کے کفر میں شک کرنا
کیا شیعہ فرقے کا بانی عبداللہ بن سباء یہودی تھا؟
شیعہ کے پیچھے نماز کا حکم
شیعہ سے دنیاوی معاملات کا حکم؟
کیا ایرانی انقلاب یا حکومت اسلامی ہے؟
خمینی کا حکم
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/mojoda_rawafid_shia_hukm.pdf
موجودہ #روافض (#شیعوں) کا حکم؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیعہ کا عقیدہ کیا ہے؟
شیعہ فرقے کے عقائد کی وضاحت اور انہیں دعوت دینا
کیا ہر شیعہ کافر ہے؟
شیعہ فرقوں کی تفصیل
شیعہ اثنا عشریہ رافضہ کا حکم
کیا تمام موجودہ شیعہ کفار ہیں؟
جو یہ کہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبوت کے مرتبے پر ہیں اور سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے غلطی کی
کیا شیعہ فرقے کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
کیا شیعہ عوام اور علماء کے حکم میں فرق ہے؟
کیاشیعہ ہمارے بھائی ہیں؟
رافضہ کے کفر میں شک کرنا
کیا شیعہ فرقے کا بانی عبداللہ بن سباء یہودی تھا؟
شیعہ کے پیچھے نماز کا حکم
شیعہ سے دنیاوی معاملات کا حکم؟
کیا ایرانی انقلاب یا حکومت اسلامی ہے؟
خمینی کا حکم
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/mojoda_rawafid_shia_hukm.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Dangers of #Iranian #Rawafid upon Islaam and Muslims – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#ایرانی #روافض سے اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/irani_rawafid_islaam_muslims_khatra.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جریدے ’’الشرق الأوسط‘‘ نے اپنی اشاعت عدد 13561 جمعرات بتاریخ 4 ربیع الاول/1437ھ میں یہ جو بات نشر کی اس میں سے کچھ یہ تھا کہ:
’’الحرس الثوري‘‘ (سپاه پاسداران انقلاب اسلامی) کے قائد نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ تقریبا ًان کے دو لاکھ جنگجو شام، عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان میں بالکل مستعد وتیار ہیں۔ اس اعتماد پر کہ آخری چند برسوں میں مشرق وسطیٰ میں جو تبدیلیاں اور تغیرات ہوئے ہيں وہ بہت مثبت ہیں۔ جیساکہ حکومتی نیوز ایجنسی ’’مھر‘‘ نے بیان کیا ہے۔ اور جعفری کہتا ہے: وہ اقدامات کررہے ہیں کہ انقلاب کی تیسری نسل کو بھرپور ابھارا جائے ولی الفقیہ (جو اثنی عشریہ شیعہ کے غائب امام کی نیابت کرنے والا لیڈر ہوتا ہے) اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت پر۔اور ایرانی نوجوانوں کو شام، عراق ویمن کے معارکوں میں شرکت کرنے کی اہمیت کی بھی نشاندہی کی۔
میں (شیخ ربیع) یہ کہتا ہوں کہ:
عالم اسلامی میں بسنے والوں تمام مسلمانو! اس عظیم خطرے پر متنبہ رہیں، اس سازش اور منصوبے کے تعلق سے خبردار رہیں جو ایران ان کے خلاف کررہا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو تہس نہس کردے، جس کی وجہ اس کی اسلام اور مسلمانوں سے شدید عداوت ودشمنی ہے۔ اللہ تعالی یہود کے تعلق سے فرماتا ہے:
﴿لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا﴾ (المائدۃ: 82)
(یقیناً آپ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، سب لوگوں سے زیادہ سخت عداوت رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پائے گیں جو شرک کرتے ہیں)
ایک مسلمان کو کچھ بھی شک نہیں ہوسکتا اس بات پر کہ کس قدر یہود ومشرکین اللہ تعالی اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے والوں سے شدید عداوت ودشمنی رکھتے ہیں۔ بلاشبہ یہود کی اپنی لالچ ہے، لیکن ان کی لالچ محدود ہے مسلمانوں کی سرزمین نیل تا فرات ہتھیانے کی، لیکن یہودیت کو نشر کرنا مقصد نہيں۔
جبکہ جو روافض کی عداوت ودشمنی ہے مسلمانوں کے خلاف اس نے یہود ومشرکین کی عداوت کو جمع کردیا ہے۔ ان کے لالچے یہود کے لالچوں سے زیادہ وسیع وبڑھ کر ہیں۔ کیونکہ ان کے منصوبے تو پورے عالم اسلامی پر قبضے کے ہیں۔ اور انہیں بھی ان روافض میں تبدیل کردینے کے ہيں جو اللہ تعالی،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کی پیروی کرنے والے آج تک جو مسلمان چلے آرہے ہيں ان کے دشمن ہيں۔
بے شک روافض کے تو ایسے ایسے کفریہ عقائد ہیں جو یہود ونصاریٰ تک میں نہيں پائے جاتے! جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- ان کے نزدیک ان کے آئمہ بے شک غیب کا علم رکھتے ہیں، اور اس کائنات کے ذرے ذرے میں تصرف کرتے ہيں، اور یہ بات کفر میں یہود ومشرکین کے عقائد سے بھی بڑھ کرہے۔
2- بلاشبہ آئمہ کو شریعت سازی کا حق ہے، اور ان کے ذمے وہ ایسی ایسی کفریہ قسم کی شریعت سازیاں بھی لگا دیتے ہيں کہ جسے زمین اور آسمان تک سہہ نہ سکیں۔ یہ اپنی طرف سے عظیم کفریات کو شریعت بنالیتے ہیں اور اٹھا کر انہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کی طرف منسوب کردیتے ہيں، حالانکہ اللہ تعالی نے انہیں ان سے بری اور منزہ کیا ہے۔
کیونکہ وہ یہ ایمان رکھتے ہيں کہ بلاشبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہيں، اور بے شک آپ کی رسالت کامل ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا﴾ (المائدۃ: 3)
(آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا)
اور اس لیے کہ وہ یہ پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ:
﴿اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ﴾ (الشوری: 21)
(کیا ان لوگوں کےایسے شریک ہیں جنہوں نے دین میں ایسی شریعت ان کے لیے مقرر کر دی ہےجس کی اجازت اللہ تعالی نے نہیں دی)
#ایرانی #روافض سے اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/irani_rawafid_islaam_muslims_khatra.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جریدے ’’الشرق الأوسط‘‘ نے اپنی اشاعت عدد 13561 جمعرات بتاریخ 4 ربیع الاول/1437ھ میں یہ جو بات نشر کی اس میں سے کچھ یہ تھا کہ:
’’الحرس الثوري‘‘ (سپاه پاسداران انقلاب اسلامی) کے قائد نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ تقریبا ًان کے دو لاکھ جنگجو شام، عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان میں بالکل مستعد وتیار ہیں۔ اس اعتماد پر کہ آخری چند برسوں میں مشرق وسطیٰ میں جو تبدیلیاں اور تغیرات ہوئے ہيں وہ بہت مثبت ہیں۔ جیساکہ حکومتی نیوز ایجنسی ’’مھر‘‘ نے بیان کیا ہے۔ اور جعفری کہتا ہے: وہ اقدامات کررہے ہیں کہ انقلاب کی تیسری نسل کو بھرپور ابھارا جائے ولی الفقیہ (جو اثنی عشریہ شیعہ کے غائب امام کی نیابت کرنے والا لیڈر ہوتا ہے) اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت پر۔اور ایرانی نوجوانوں کو شام، عراق ویمن کے معارکوں میں شرکت کرنے کی اہمیت کی بھی نشاندہی کی۔
میں (شیخ ربیع) یہ کہتا ہوں کہ:
عالم اسلامی میں بسنے والوں تمام مسلمانو! اس عظیم خطرے پر متنبہ رہیں، اس سازش اور منصوبے کے تعلق سے خبردار رہیں جو ایران ان کے خلاف کررہا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو تہس نہس کردے، جس کی وجہ اس کی اسلام اور مسلمانوں سے شدید عداوت ودشمنی ہے۔ اللہ تعالی یہود کے تعلق سے فرماتا ہے:
﴿لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا﴾ (المائدۃ: 82)
(یقیناً آپ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، سب لوگوں سے زیادہ سخت عداوت رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پائے گیں جو شرک کرتے ہیں)
ایک مسلمان کو کچھ بھی شک نہیں ہوسکتا اس بات پر کہ کس قدر یہود ومشرکین اللہ تعالی اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے والوں سے شدید عداوت ودشمنی رکھتے ہیں۔ بلاشبہ یہود کی اپنی لالچ ہے، لیکن ان کی لالچ محدود ہے مسلمانوں کی سرزمین نیل تا فرات ہتھیانے کی، لیکن یہودیت کو نشر کرنا مقصد نہيں۔
جبکہ جو روافض کی عداوت ودشمنی ہے مسلمانوں کے خلاف اس نے یہود ومشرکین کی عداوت کو جمع کردیا ہے۔ ان کے لالچے یہود کے لالچوں سے زیادہ وسیع وبڑھ کر ہیں۔ کیونکہ ان کے منصوبے تو پورے عالم اسلامی پر قبضے کے ہیں۔ اور انہیں بھی ان روافض میں تبدیل کردینے کے ہيں جو اللہ تعالی،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کی پیروی کرنے والے آج تک جو مسلمان چلے آرہے ہيں ان کے دشمن ہيں۔
بے شک روافض کے تو ایسے ایسے کفریہ عقائد ہیں جو یہود ونصاریٰ تک میں نہيں پائے جاتے! جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- ان کے نزدیک ان کے آئمہ بے شک غیب کا علم رکھتے ہیں، اور اس کائنات کے ذرے ذرے میں تصرف کرتے ہيں، اور یہ بات کفر میں یہود ومشرکین کے عقائد سے بھی بڑھ کرہے۔
2- بلاشبہ آئمہ کو شریعت سازی کا حق ہے، اور ان کے ذمے وہ ایسی ایسی کفریہ قسم کی شریعت سازیاں بھی لگا دیتے ہيں کہ جسے زمین اور آسمان تک سہہ نہ سکیں۔ یہ اپنی طرف سے عظیم کفریات کو شریعت بنالیتے ہیں اور اٹھا کر انہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کی طرف منسوب کردیتے ہيں، حالانکہ اللہ تعالی نے انہیں ان سے بری اور منزہ کیا ہے۔
کیونکہ وہ یہ ایمان رکھتے ہيں کہ بلاشبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہيں، اور بے شک آپ کی رسالت کامل ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا﴾ (المائدۃ: 3)
(آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا)
اور اس لیے کہ وہ یہ پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ:
﴿اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ﴾ (الشوری: 21)
(کیا ان لوگوں کےایسے شریک ہیں جنہوں نے دین میں ایسی شریعت ان کے لیے مقرر کر دی ہےجس کی اجازت اللہ تعالی نے نہیں دی)
3- اور روافض کی کفریات میں سے یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے شدید عداوت رکھنا اور ان کی تکفیر کرنا۔ جس سے ان کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ پوری شریعت اسلامیہ کتاب وسنت کو باطل قرار دے دیا جائے ۔ کیونکہ یہ وہی روشن شریعت تو ہے جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اٹھایا اور اسے انتہائی حفاظت وباریک بینی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرکے امت تک پہنچایا، اور اس کی تبلیغ میں عظیم جہاد کیا، اور لوگوں کو اس کا پابند بنایا، یہاں تک کہ اس دین میں پوری کی پوری امتیں ان کے ہاتھوں داخل ہوئیں۔
4- اور ان بہت سے کفریات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر طعن کرتے ہيں، اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر وہ تہمت لگاتےہیں جس سے اللہ تعالی نے آپ کو آیات قرآنیہ میں پاک قرار دیا۔ اور ہر مومن کی نگاہ میں یہ طعن دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طعن شمار ہوگا۔
یہ لوگ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بدترین کفریہ صورت میں تصویر کشی کرکے بتاتے ہیں جن کی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طرح طرح سے ایمان، توحید واخلاص پر تربیت فرمائی، اسی طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات، شریف ترین ومتقی ترین خواتین کو بھی بدترین صورت میں پیش کرتے ہيں۔
پس اس سے بڑھ کر خبیث عداوت پھر کونسی عداوت ہوگی اللہ تعالی سے، اس کے رسول اور مومنین سے ؟!
اے ہر جگہ بسنے والے مسلمانو! اس خطرے اور اور تباہ کن ایرانی منصوبے کا سامنا کرنے کے لیے تیاری کررکھو اپنے عقائد میں، عبادات، جہاد، سیاست، اخلاق، الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کے بارے میں اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اور ہر قسم کی بدعات وگمراہیوں سے یکسر دور رہ کر۔
اللہ تعالی کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر جمع ہوجاؤ۔ اگر آپ ان عظیم مطالب پر حقیقی طور پر عمل پیرا ہوجائیں گے تو اللہ تعالی آپ سے راضی ہوگا اور آپ کی آپ کے دشمنوں کے مقابلے میں زبردست نصرت فرمائے گا، جس میں کوئی شک نہيں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ﴾ (محمد: 7)
(اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا)
﴿وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا، سُـنَّةَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ښ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا﴾ (الفتح: 22-23)
(اور اگر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تم سے لڑتے تو یقیناً پیٹھ پھیر جاتے، پھر وہ نہ کوئی حمایتی پائیں گے اور نہ کوئی مددگار، اللہ کے اس طریقے کے مطابق جو پہلے سے گزر چکا ہے اور آپ اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائيں گے)
اے مسلمانو! سب کے سب جن میں اہل یمن، تیونس، عراق اور شام والوں سب شامل ہو توحید کو اپناؤ اس کا حق ادا کرو تو اللہ تعالی تمہیں عزت واکرام سے نوازے کا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور تمہارے دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد ونصرت فرمائے گا۔
اور اسلحہ کی صورت میں بھی تیاری کررکھو۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس جو اسلحہ ہے وہ بھی کافی ہے مگر اس پر مزید اضافہ کرلو تاکہ اس سخت کٹر رافضی دشمن اور اس کے علاوہ اور دشمنوں پر بھی فتح ونصرت کو یقینی بنایا جاسکے۔
اور اس چیز کی میں پھر تاکید کروں گا جو اللہ تعالی نے حتمی طور پر آپ پر واجب قرار دیا ہے کہ آپ اس کی اس کامل روشن شریعت کا التزام کریں اور زندگی کے مختلف میدانوں میں اس کی تطبیق کریں۔ جن میں سے ایک اللہ تعالی کی حاکمیت بھی ہے جس سے اکثر اسلامی ممالک محروم ہیں۔ پس اللہ تعالی نے ان پر دشمنان اسلام کومسلط فرمادیا ہے جو ان کو ذلیل کرتے ہیں اور ان کی عزت کو روند کر رکھ دیتے ہيں۔
لہذا اس مہلک اور تباہ کن بیماری سے جان چھڑاؤ اللہ تعالی کی حاکمیتِ اعلیٰ کا اعلان کرتے ہوئے اور ہر اس چیز کو مسترد کرتے ہوئے جو سب سے اعلیٰ اللہ کی حاکمیت کے مخالف ہو۔
ساتھ ہی ہم اس سعودی حکومت اور اس کے علماء کرام سے امید کرتے ہيں کہ جو توحید اور کامل شریعت کا التزام کرتے ہیں کہ وہ دیگر اسلامی ممالک کو بھی اس بات پر ابھاریں اور ا ن کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ان عظیم مطالب کے حصول کویقینی بنائیں۔
جن مطالب میں سے اللہ تعالی کی یہ حاکمیت بھی ہے، ایسی حاکمیت کہ ہم پر واجب ہے کہ اس کے ذریعے تمام مسلمان فخر کریں جن میں اہل یمن بھی ہيں، اور تیونس، عراق وشام کے لوگ بھی۔ تمام اہم کاموں سے بلند اس اہم ترین کام کو رکھیں اس پر فخر کرتے ہوئے اور اس کا کامل التزام وپابندی کرتے ہوئے، اور اس کے دشمنوں کا سامنا کرتے ہوئے خصوصاً روافض کا۔
4- اور ان بہت سے کفریات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر طعن کرتے ہيں، اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر وہ تہمت لگاتےہیں جس سے اللہ تعالی نے آپ کو آیات قرآنیہ میں پاک قرار دیا۔ اور ہر مومن کی نگاہ میں یہ طعن دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طعن شمار ہوگا۔
یہ لوگ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بدترین کفریہ صورت میں تصویر کشی کرکے بتاتے ہیں جن کی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طرح طرح سے ایمان، توحید واخلاص پر تربیت فرمائی، اسی طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات، شریف ترین ومتقی ترین خواتین کو بھی بدترین صورت میں پیش کرتے ہيں۔
پس اس سے بڑھ کر خبیث عداوت پھر کونسی عداوت ہوگی اللہ تعالی سے، اس کے رسول اور مومنین سے ؟!
اے ہر جگہ بسنے والے مسلمانو! اس خطرے اور اور تباہ کن ایرانی منصوبے کا سامنا کرنے کے لیے تیاری کررکھو اپنے عقائد میں، عبادات، جہاد، سیاست، اخلاق، الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کے بارے میں اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اور ہر قسم کی بدعات وگمراہیوں سے یکسر دور رہ کر۔
اللہ تعالی کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر جمع ہوجاؤ۔ اگر آپ ان عظیم مطالب پر حقیقی طور پر عمل پیرا ہوجائیں گے تو اللہ تعالی آپ سے راضی ہوگا اور آپ کی آپ کے دشمنوں کے مقابلے میں زبردست نصرت فرمائے گا، جس میں کوئی شک نہيں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ﴾ (محمد: 7)
(اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا)
﴿وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا، سُـنَّةَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ښ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا﴾ (الفتح: 22-23)
(اور اگر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تم سے لڑتے تو یقیناً پیٹھ پھیر جاتے، پھر وہ نہ کوئی حمایتی پائیں گے اور نہ کوئی مددگار، اللہ کے اس طریقے کے مطابق جو پہلے سے گزر چکا ہے اور آپ اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائيں گے)
اے مسلمانو! سب کے سب جن میں اہل یمن، تیونس، عراق اور شام والوں سب شامل ہو توحید کو اپناؤ اس کا حق ادا کرو تو اللہ تعالی تمہیں عزت واکرام سے نوازے کا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور تمہارے دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد ونصرت فرمائے گا۔
اور اسلحہ کی صورت میں بھی تیاری کررکھو۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس جو اسلحہ ہے وہ بھی کافی ہے مگر اس پر مزید اضافہ کرلو تاکہ اس سخت کٹر رافضی دشمن اور اس کے علاوہ اور دشمنوں پر بھی فتح ونصرت کو یقینی بنایا جاسکے۔
اور اس چیز کی میں پھر تاکید کروں گا جو اللہ تعالی نے حتمی طور پر آپ پر واجب قرار دیا ہے کہ آپ اس کی اس کامل روشن شریعت کا التزام کریں اور زندگی کے مختلف میدانوں میں اس کی تطبیق کریں۔ جن میں سے ایک اللہ تعالی کی حاکمیت بھی ہے جس سے اکثر اسلامی ممالک محروم ہیں۔ پس اللہ تعالی نے ان پر دشمنان اسلام کومسلط فرمادیا ہے جو ان کو ذلیل کرتے ہیں اور ان کی عزت کو روند کر رکھ دیتے ہيں۔
لہذا اس مہلک اور تباہ کن بیماری سے جان چھڑاؤ اللہ تعالی کی حاکمیتِ اعلیٰ کا اعلان کرتے ہوئے اور ہر اس چیز کو مسترد کرتے ہوئے جو سب سے اعلیٰ اللہ کی حاکمیت کے مخالف ہو۔
ساتھ ہی ہم اس سعودی حکومت اور اس کے علماء کرام سے امید کرتے ہيں کہ جو توحید اور کامل شریعت کا التزام کرتے ہیں کہ وہ دیگر اسلامی ممالک کو بھی اس بات پر ابھاریں اور ا ن کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ان عظیم مطالب کے حصول کویقینی بنائیں۔
جن مطالب میں سے اللہ تعالی کی یہ حاکمیت بھی ہے، ایسی حاکمیت کہ ہم پر واجب ہے کہ اس کے ذریعے تمام مسلمان فخر کریں جن میں اہل یمن بھی ہيں، اور تیونس، عراق وشام کے لوگ بھی۔ تمام اہم کاموں سے بلند اس اہم ترین کام کو رکھیں اس پر فخر کرتے ہوئے اور اس کا کامل التزام وپابندی کرتے ہوئے، اور اس کے دشمنوں کا سامنا کرتے ہوئے خصوصاً روافض کا۔
اللہ تعالی سب کو اس چیز کی توفیق دے جس سے وہ محبت کرتا ہے اور راضی ہوتا ہے۔
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
وكتبه
ربيع بن هادي عمير
(10 ربيع الثاني/1437هـ)
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
وكتبه
ربيع بن هادي عمير
(10 ربيع الثاني/1437هـ)
[#SalafiUrduDawah Article] Mocking with the #scholars and consider them causing partisanship among youth – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#علماء کرام کا مذاق اڑانا اور انہیں نوجوانوں میں تفرقہ بازی کا سبب گرداننا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 25۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/ulama_ka_mazaq_nojawan_tafarqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو لوگ ہمارے علماء کرا م پر طعن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو محض علماءِ حیض ونفاس ہيں ساتھ ہی کہتے ہیں ہم نوجوانانِ امت میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ ہم وحدتِ صف کے خواہاں ہیں۔ پس کیا ان کا یہ کلام اللہ تعالی کی نازل کردہ اس شریعت کا انکار نہیں جسے اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا؟
جواب: نہیں، یہ کفر تو نہیں ہے۔ البتہ یہ غیبت اور علماء کی عزتو ں پر طعن درازی ہے۔ اور یہ بلاشبہ حرام ہے۔ غیبت کی شدید ترین حرمت آئی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں۔ پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس سے سوائے شر کے کچھ حاصل نہ ہوگا کہ لوگ علماء سے نفرت کریں گے اور ان پر اعتبار واعتماد کم ہوجائے گا۔ پھر لوگ اگر علماء کی جانب رجوع نہ کریں تو آخر کہاں جائیں؟ چناچہ یہ بہت عظیم خطرہ ہے۔
اولاً: یہ غیبت ہے اور غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔
ثانیاً: اس سے علماء پر اعتماد کم ہوجاتا ہے اور لوگوں کی نظر میں ان کی قدرومنزلت گر جاتی ہے اور یہ باتیں جائز نہیں۔ اس کا معنی تو یہ ہوا کہ لوگ غیر علماء کی طرف رجوع کریں جس سے شر وفساد برپا ہو۔ اور یہی داعیان شر کی نیت وارادہ ہے([1])۔
اور یہ کہنا کہ ہم نوجوانوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ اس کا جواب ہے: ہم تو مسلمانوں میں تفرقہ بازی سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ ہم تو نوجوانوں کے لیے یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ متحد رہیں۔ دینی بھائی چارے میں جڑے رہیں۔ اور ایک امت بن کر رہیں اور ہم انہیں اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور انہیں جمع کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا جمع ہونا حق بات پر ہو۔ ناکہ جیسے یہ گمراہ لوگ کہتے ہیں کہ: جس چیز میں اتفاق ہے اس پر تعاون کرتے ہیں اور جس میں اختلاف ہے اس میں ایک دوسرے کو معذور سمجھتے ہیں۔ یہ بات باطل ہے۔ بلکہ ہم حق پر جمع ہوں اور ہر اس اختلاف کو چھوڑ دیں جو حق کے مخالف ہو۔
[1] اور یہی حزبی اور تحریکیں چلانے والے لوگوں کا شعار ہے کہ اپنے سے پہلے والے اہل بدعت وتفرقہ کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے علماء پر طعن وتشنیع کرنا۔ ان میں سے ایک اپنی کیسٹ میں کہتا ہے: (کیا تم ایک عالم سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ محض ذبح وشکار، مناسک، حیض ونفاس، وضوء وغسل اور موزوں پر مسح کرنے کے احکامات تک محصور رہے)۔۔ اسی کیسٹ میں دوسری جگہ کہتا ہے: (کسی عالم کی کیا قدروقیمت ہے اگر وہ لوگوں کو ان کے سیاسی معاملات نہیں بیان کرتا جو کہ سب سے اہم مسائل ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے)۔
میں یہ کہتا ہوں: یہ تو علماء کے علم کی تخفیفِ شان کرنا ہے اور وہ جس نبوی علمی ورثے کے حامل ہیں اس کی بے قدری ہے۔ یہ تو قدیم وجدید معتزلہ کا قول ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اسماعیل بن علیہ سے روایت کی جاتی ہے، فرمایا: مجھے الیسع نے بتایا، ایک دن واصل بن عطاء معتزلی نے کلام کیا جس پر عمرو بن عبید نے نے کہا: کیا تم سنتے نہیں(کیا عمدہ کلام ہے)؟ (دوسری طرف) حسن بصری اور ابن سیرین (علماء اہل سنت) رحمہما اللہ کا جب کلام سنو تو لگتا ہے جیسے حیض کا کپڑا دے مارا ہو۔ یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ اہل بدعت کے بڑوں میں سے کوئی بڑا فقہ پر علم الکلام کی فضیلت بیان کرنا چاہتا تھا۔ تو کہنے لگا: الشافعی اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا علم جملۃً عورت کی شلوار سے ہی باہر نہیں نکلتا یعنی بس حیض ونفاس کے مسائل آتے ہیں۔ یہ ہے ان گمراہوں کا کلام، اللہ انہيں برباد کرے)۔ (الاعتصام للشاطبی 2/741-742)۔ (الحارثی)
#علماء کرام کا مذاق اڑانا اور انہیں نوجوانوں میں تفرقہ بازی کا سبب گرداننا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 25۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/ulama_ka_mazaq_nojawan_tafarqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو لوگ ہمارے علماء کرا م پر طعن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو محض علماءِ حیض ونفاس ہيں ساتھ ہی کہتے ہیں ہم نوجوانانِ امت میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ ہم وحدتِ صف کے خواہاں ہیں۔ پس کیا ان کا یہ کلام اللہ تعالی کی نازل کردہ اس شریعت کا انکار نہیں جسے اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا؟
جواب: نہیں، یہ کفر تو نہیں ہے۔ البتہ یہ غیبت اور علماء کی عزتو ں پر طعن درازی ہے۔ اور یہ بلاشبہ حرام ہے۔ غیبت کی شدید ترین حرمت آئی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں۔ پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس سے سوائے شر کے کچھ حاصل نہ ہوگا کہ لوگ علماء سے نفرت کریں گے اور ان پر اعتبار واعتماد کم ہوجائے گا۔ پھر لوگ اگر علماء کی جانب رجوع نہ کریں تو آخر کہاں جائیں؟ چناچہ یہ بہت عظیم خطرہ ہے۔
اولاً: یہ غیبت ہے اور غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔
ثانیاً: اس سے علماء پر اعتماد کم ہوجاتا ہے اور لوگوں کی نظر میں ان کی قدرومنزلت گر جاتی ہے اور یہ باتیں جائز نہیں۔ اس کا معنی تو یہ ہوا کہ لوگ غیر علماء کی طرف رجوع کریں جس سے شر وفساد برپا ہو۔ اور یہی داعیان شر کی نیت وارادہ ہے([1])۔
اور یہ کہنا کہ ہم نوجوانوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ اس کا جواب ہے: ہم تو مسلمانوں میں تفرقہ بازی سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ ہم تو نوجوانوں کے لیے یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ متحد رہیں۔ دینی بھائی چارے میں جڑے رہیں۔ اور ایک امت بن کر رہیں اور ہم انہیں اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور انہیں جمع کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا جمع ہونا حق بات پر ہو۔ ناکہ جیسے یہ گمراہ لوگ کہتے ہیں کہ: جس چیز میں اتفاق ہے اس پر تعاون کرتے ہیں اور جس میں اختلاف ہے اس میں ایک دوسرے کو معذور سمجھتے ہیں۔ یہ بات باطل ہے۔ بلکہ ہم حق پر جمع ہوں اور ہر اس اختلاف کو چھوڑ دیں جو حق کے مخالف ہو۔
[1] اور یہی حزبی اور تحریکیں چلانے والے لوگوں کا شعار ہے کہ اپنے سے پہلے والے اہل بدعت وتفرقہ کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے علماء پر طعن وتشنیع کرنا۔ ان میں سے ایک اپنی کیسٹ میں کہتا ہے: (کیا تم ایک عالم سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ محض ذبح وشکار، مناسک، حیض ونفاس، وضوء وغسل اور موزوں پر مسح کرنے کے احکامات تک محصور رہے)۔۔ اسی کیسٹ میں دوسری جگہ کہتا ہے: (کسی عالم کی کیا قدروقیمت ہے اگر وہ لوگوں کو ان کے سیاسی معاملات نہیں بیان کرتا جو کہ سب سے اہم مسائل ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے)۔
میں یہ کہتا ہوں: یہ تو علماء کے علم کی تخفیفِ شان کرنا ہے اور وہ جس نبوی علمی ورثے کے حامل ہیں اس کی بے قدری ہے۔ یہ تو قدیم وجدید معتزلہ کا قول ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اسماعیل بن علیہ سے روایت کی جاتی ہے، فرمایا: مجھے الیسع نے بتایا، ایک دن واصل بن عطاء معتزلی نے کلام کیا جس پر عمرو بن عبید نے نے کہا: کیا تم سنتے نہیں(کیا عمدہ کلام ہے)؟ (دوسری طرف) حسن بصری اور ابن سیرین (علماء اہل سنت) رحمہما اللہ کا جب کلام سنو تو لگتا ہے جیسے حیض کا کپڑا دے مارا ہو۔ یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ اہل بدعت کے بڑوں میں سے کوئی بڑا فقہ پر علم الکلام کی فضیلت بیان کرنا چاہتا تھا۔ تو کہنے لگا: الشافعی اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا علم جملۃً عورت کی شلوار سے ہی باہر نہیں نکلتا یعنی بس حیض ونفاس کے مسائل آتے ہیں۔ یہ ہے ان گمراہوں کا کلام، اللہ انہيں برباد کرے)۔ (الاعتصام للشاطبی 2/741-742)۔ (الحارثی)
[#SalafiUrduDawah Article] Is Jannah or Jahannam depend upon correct or incorrect #Manhaj – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا جنت یا جہنم عقیدے کی طرح صحیح یا غلط #منہج پر بھی موقوف ہیں؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة س 47۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_k_sath_manhaj_jannat_jahannam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:کیا جنت یا جہنم منہج کی صحت (یا عدم صحت ) پر موقوف ہيں؟
جواب: جی بالکل، اگر منہج صحیح ہوگا تو صحیح منہج والا جنت میں ہوگا، اگر وہ منہج رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور منہج سلف صالحین پر رہے گا تو وہ باذن اللہ اہل جنت میں سے ہوجائےگا، اور اگر گمراہوں کے منہج پر چلے گا تو اس کے لیے آگ (جہنم) کی وعید ہے([1])۔
پس منہج کی صحت یا عدم صحت پر جنت یا جہنم مرتب ہوتی ہیں۔
[1] یعنی وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے ماتحت ہے، اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ اور اگر غلط منہج چھوڑ کر صحیح منہج اپنانے پر جنت وجہنم مرتب نہ ہوتیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کا کیا فائدہ ہوتا کہ:
”عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، وہ سب کے سب آتش جہنم میں جائیں گے، سوائے ایک کے، پوچھا: وہ ایک کون سا ہوگا؟ فرمایا: جس پر میں اور میرے صحابہ ہيں“۔ (اس حدیث کی تخریج کئی بار گزر چکی ہے)۔
پس جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ کی ہدایت پر ہوگا تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا، اور جو اس کے علاوہ کسی اور طریقے پر ہوگا تو وہ وعید کے تحت ہے۔ اور یہ بات اہل سنت والجماعت کے یہاں معلوم اور ثابت ہے کہ جو ہلاک ہونے والے بہتّر فرقے ہيں وہ سب ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم واصل ہونے والے نہیں ہیں، اہل حدیث میں سے کوئی بھی یہ نہيں کہتا، لہذا اس بات پر ذرا غوروفکر کیجئے، الا یہ کہ اس کی بدعت کفریہ بدعت ہو اور اس کا فرقے مرتد قسم کا فرقہ ہو، اللہ اعلم۔ (الحارثی)
کیا جنت یا جہنم عقیدے کی طرح صحیح یا غلط #منہج پر بھی موقوف ہیں؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة س 47۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_k_sath_manhaj_jannat_jahannam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:کیا جنت یا جہنم منہج کی صحت (یا عدم صحت ) پر موقوف ہيں؟
جواب: جی بالکل، اگر منہج صحیح ہوگا تو صحیح منہج والا جنت میں ہوگا، اگر وہ منہج رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور منہج سلف صالحین پر رہے گا تو وہ باذن اللہ اہل جنت میں سے ہوجائےگا، اور اگر گمراہوں کے منہج پر چلے گا تو اس کے لیے آگ (جہنم) کی وعید ہے([1])۔
پس منہج کی صحت یا عدم صحت پر جنت یا جہنم مرتب ہوتی ہیں۔
[1] یعنی وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے ماتحت ہے، اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ اور اگر غلط منہج چھوڑ کر صحیح منہج اپنانے پر جنت وجہنم مرتب نہ ہوتیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کا کیا فائدہ ہوتا کہ:
”عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، وہ سب کے سب آتش جہنم میں جائیں گے، سوائے ایک کے، پوچھا: وہ ایک کون سا ہوگا؟ فرمایا: جس پر میں اور میرے صحابہ ہيں“۔ (اس حدیث کی تخریج کئی بار گزر چکی ہے)۔
پس جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ کی ہدایت پر ہوگا تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا، اور جو اس کے علاوہ کسی اور طریقے پر ہوگا تو وہ وعید کے تحت ہے۔ اور یہ بات اہل سنت والجماعت کے یہاں معلوم اور ثابت ہے کہ جو ہلاک ہونے والے بہتّر فرقے ہيں وہ سب ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم واصل ہونے والے نہیں ہیں، اہل حدیث میں سے کوئی بھی یہ نہيں کہتا، لہذا اس بات پر ذرا غوروفکر کیجئے، الا یہ کہ اس کی بدعت کفریہ بدعت ہو اور اس کا فرقے مرتد قسم کا فرقہ ہو، اللہ اعلم۔ (الحارثی)
[#SalafiUrduDawah Article] Sometimes #Ulamaa keep silence regarding few personalities out of wisdom – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
بسا اوقات #علماء کرام کسی شخصیت کے متعلق کلام کرنے سے بطور شرعی مصلحت خاموشی اختیار فرماتے ہیں
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المجموع الواضح، ص 143۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/ulama_kabhi_maslihat_khamoshi.pdf
﷽
بے شک خیر خواہ علماء وفقہاء کبھی کبھار بعض شخصیات اور چیزوں پر خاموشی اختیار فرماتے ہیں، جس میں دراصل ان کی جانب سے مصلحتوں اور مفاسد کا لحاظ کیا گیا ہوتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی شخص پر کلام کرنے سے اس پر خاموش رہنے کے بنسبت بہت عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں ۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض منافقین کے نام ذکر کرنے سے سکوت اختیار فرمایا۔ ان سب کے یا بعض کے نام کسی کو نہيں بتائے سوائے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے۔کب آپ نے ایسا دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے ہوں اور کہاں ہو فلاں منافق ہے، اور فلاں منافق ہے۔ یہ سب باتيں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسی مصلحتوں اور مفاسدکا لحاظ کرنے سے متعلق ہيں۔
اسی طرح سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں داخل تھے، لیکن باقی کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی علی رضی اللہ عنہ پر طعن نہيں کیا، اور ناہی عقل مند تابعین میں سے کسی نے ، وہ اس بارے میں اور ان قاتلوں کے احکام کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی تشہیر نہیں کرتے پھرتے تھے۔ اور یہ ان کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں بالکل صحیح عذر اور انصاف ہی تھا۔ کیونکہ اگر وہ ان لوگوں کو اپنی فوج سے نکالتے یا انہیں سزا دیتے تو اس کے نتیجے میں عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں جیسے:
جنگ وجدل اور خون خرابہ، جس کے نتیجے میں امت میں ضعف وکمزوری کا آجانا۔ چناچہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس باب میں سے ہے کہ: (انتہائی مجبوری کی حالت میں جب کوئی چارہ نہ ہو تو) دو مفسدوں میں سے چھوٹے کا ارتکاب کرلیا جائے تاکہ اس بڑے مفسدے سے بچا جاسکے۔
اسی طرح سے یہ دیکھیں امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ ابن القیم رحمہما اللہ کو، کیوں انہوں نے امام النووی : وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا۔ اسی طرح سے آئمہ دعوت نے بھی امام النووی ، ابن حجر، القسطلانی، البیہقی اور السیوطی رحمہم اللہ وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا؟ (اس میں بھی وہی مصلحت کارفرماد تھی)۔
لہذا ہرگز یہ خیال نہ کیجئے کہ: ہر صراحت وبیان نصیحت ہی ہوتا ہے، اور نہ ہی ہر سکوت وخاموشی اسلام ومسلمانوں کے لیے خیانت ہی ہوتی ہے۔
پس ایک عاقل، انصاف پسند وبصیرت کا حامل انسان یہ جان لیتا ہے کہ کب کلام کرنا واجب یا جائز ہے او رکب سکوت اختیار کرنا واجب یا جائز ہے۔
بسا اوقات #علماء کرام کسی شخصیت کے متعلق کلام کرنے سے بطور شرعی مصلحت خاموشی اختیار فرماتے ہیں
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المجموع الواضح، ص 143۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/ulama_kabhi_maslihat_khamoshi.pdf
﷽
بے شک خیر خواہ علماء وفقہاء کبھی کبھار بعض شخصیات اور چیزوں پر خاموشی اختیار فرماتے ہیں، جس میں دراصل ان کی جانب سے مصلحتوں اور مفاسد کا لحاظ کیا گیا ہوتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی شخص پر کلام کرنے سے اس پر خاموش رہنے کے بنسبت بہت عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں ۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض منافقین کے نام ذکر کرنے سے سکوت اختیار فرمایا۔ ان سب کے یا بعض کے نام کسی کو نہيں بتائے سوائے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے۔کب آپ نے ایسا دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے ہوں اور کہاں ہو فلاں منافق ہے، اور فلاں منافق ہے۔ یہ سب باتيں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسی مصلحتوں اور مفاسدکا لحاظ کرنے سے متعلق ہيں۔
اسی طرح سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں داخل تھے، لیکن باقی کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی علی رضی اللہ عنہ پر طعن نہيں کیا، اور ناہی عقل مند تابعین میں سے کسی نے ، وہ اس بارے میں اور ان قاتلوں کے احکام کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی تشہیر نہیں کرتے پھرتے تھے۔ اور یہ ان کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں بالکل صحیح عذر اور انصاف ہی تھا۔ کیونکہ اگر وہ ان لوگوں کو اپنی فوج سے نکالتے یا انہیں سزا دیتے تو اس کے نتیجے میں عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں جیسے:
جنگ وجدل اور خون خرابہ، جس کے نتیجے میں امت میں ضعف وکمزوری کا آجانا۔ چناچہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس باب میں سے ہے کہ: (انتہائی مجبوری کی حالت میں جب کوئی چارہ نہ ہو تو) دو مفسدوں میں سے چھوٹے کا ارتکاب کرلیا جائے تاکہ اس بڑے مفسدے سے بچا جاسکے۔
اسی طرح سے یہ دیکھیں امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ ابن القیم رحمہما اللہ کو، کیوں انہوں نے امام النووی : وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا۔ اسی طرح سے آئمہ دعوت نے بھی امام النووی ، ابن حجر، القسطلانی، البیہقی اور السیوطی رحمہم اللہ وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا؟ (اس میں بھی وہی مصلحت کارفرماد تھی)۔
لہذا ہرگز یہ خیال نہ کیجئے کہ: ہر صراحت وبیان نصیحت ہی ہوتا ہے، اور نہ ہی ہر سکوت وخاموشی اسلام ومسلمانوں کے لیے خیانت ہی ہوتی ہے۔
پس ایک عاقل، انصاف پسند وبصیرت کا حامل انسان یہ جان لیتا ہے کہ کب کلام کرنا واجب یا جائز ہے او رکب سکوت اختیار کرنا واجب یا جائز ہے۔