Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.28K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] #Slaughtering with the intention of #protecting oneself from #afflictions – Various #Ulamaa
#بلاؤں_کو_ٹالنے کے لیے #جان_کے_صدقہ کے طور پر#قربانی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ، جمع وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/balaon_ko_talna_qurbani_jan_ka_sadqa.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک سوڈانی بھائی کی طرف سے سوال ہے جس میں کہتے ہیں: ہمارے ملک میں ایک عادت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص جب اپنا گھر بنانا شروع کرتا ہے تو ایک قربانی ذبح کرتا ہے، یا جب وہ نصف مکمل ہوجائے یا پھر اسے مؤخر کرکے عمارت تعمیر ہونے کے بعد کرتا ہے۔ اور جب لوگ اس گھر میں رہائش کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس میں قربانی کرکے دعوت کرتے ہیں جس میں عزیز واقارب وپڑوسیوں کو مدعو کیا جاتا ہے، آپ فضیلۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟او رکیا کوئی مستحب عمل نئے گھر میں منتقل ہونے سے پہلے مشروع ہے؟ ہمیں استفادہ پہنچائیں جزاکم اللہ خیر الجزاء۔
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
اس عمل کے تعلق سے تفصیل ہے۔ اگر اس قربانی سے مقصود جن سے بچاؤ ہو یا کوئی اور مقصد گھر کے مالک کو مقصود ہو کہ اس ذبح کے ذریعے یہ یہ حاصل ہوگا جیسے گھر کی سلامتی یا یہاں رہنے والوں کی سلامتی تو یہ جائز نہیں۔ اور یہ بدعات میں سے ہے۔ اگر یہ جن کے لیے ہو تو شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ غیراللہ کی عبادت ہے۔
لیکن اگر یہ شکر کےباب میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر جو نعمت فرمائی ہے کہ اسے اپنی چھت مل گئی یا گھر کی تکمیل کے وقت وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو جمع کرتا ہے اور کھانے کی دعوت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ اور یہ بہت سے لوگ کرتے ہیں اللہ کے نعمتوں پر شکر کرنے کے طور پر کہ اس نے ان پر اپنا احسان فرمایا کہ انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا اور اس میں رہنا نصیب ہوا بجائے اس کے کہ وہ کہیں کرایوں پر رہتے۔
اور اسی طرح سے بعض لوگ کرتے ہیں جب وہ سفر سے واپس آتے ہیں کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو دعوت دیتے ہيں اللہ تعالی کی شکرگزاری میں کہ اس نے سلامتی سے سفر کروایا اور واپسی ہوئی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جب سفر سے واپس آتے تو ایک اونٹ نحر (ذبح) کرکے لوگوں کی دعوت فرماتے۔
(فتاوی نور علی الدرب 1853، مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 5 / 388 )
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’الشرح الممتع على زاد المستقنع – المجلد السابع، باب الهَدي والأُضحية والعقيقة‘‘ میں فرماتے ہیں:
مسئلہ: جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں قربانی ذبح کرتے ہیں اور پڑوسیوں وعزیز واقارب کی دعوت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی فاسد عقیدہ نہ جڑا ہوا ہو جیسا کہ بعض جگہوں پر کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو سب سے پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ ایک بکری لا کر اسے گھر کی دہلیز پر ذبح کرتے ہیں تاکہ اس کا خون وہاں بہے۔ اور کہتے ہیں: یہ جنات کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا ہے، پس یہ فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی اصل نہیں، لیکن جو محض خوشی ومسرت میں ایسا کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جس کے اہل وعیال اسے کہیں: ایک جانور ذبح کرو (قربانی کرو) اور اسے مساکین میں تقسیم کردو بلاؤں کو دور کرنے کے لیے، کیا ایسی نیت کرنا جائز ہے؟
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ رحمہ اللہ:
اس بارے میں تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ ذبیحہ صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، کسی متوقع چیز کو دور کرنے، یا کسی پیش آنے والی چیز کو رفع کرنے کے لیے نہیں، لیکن بس صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، اور فقراء کو کھلانے کی نیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ان عمومی دلائل میں داخل ہے کہ حن میں کھانے کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور مساکین کو کھلانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
البتہ اگر ذبح کرنا اس لیے ہو کہ گھر والے بیمار ہیں، تو اس لیے ذبح کرنا تاکہ مریض سے وہ تکلیف دور ہوجائے (جان کا صدقہ) تو یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے، سد ذریعہ کے طور پر۔ کیونکہ بہت سے لوگ تب ہی ذبح کرتے ہیں جب کوئی ان پر مرض آپڑے کیونکہ ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی جن کی وجہ سے ہے، یا کسی موذی چیز کی وجہ سے، پس جب وہ ذبیحہ کو ذبح کرتے ہیں اور خون بہاتے ہیں تو اس کا شر دور ہوجاتا ہے یا پھر اس موذی چیز کی وجہ سے جو تکلیف ہے وہ رفع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا اعتقاد حرام ہے جائز نہیں۔ لہذا جو ذبیحہ کسی مرض کو رفع کرنے یا بطور مریض کے جان کے صدقے کے دیا جاتا ہے اس حال میں علماء کرام فرماتےہیں: یہ حرام ہے جائز نہیں، سد ذریعہ کے طور پر۔
اور شیخ علامہ سعد بن حمد بن عتیق رحمہ اللہ کا اس موضوع پر کہ ’’مریض کے لیے ذبح کرنا ‘‘خاص رسالہ بھی ہے([1])۔
اسی طرح سے اگر ذبح کرنا کسی متوقع تکلیف کو روکنے کے لیے
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding taking part in #democratic_election and #voting – Various #Ulamaa
#جمہوری_انتخابات میں حصہ لینے اور #ووٹ ڈالنے کا حکم
مختلف #علماء کرام
مصدر: (ویب سائٹ البیضاء العلمیۃ) سے کچھ تصرفات کے ساتھ منقول
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمن!
’’لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا‘‘([1])
(کبھی بھی امارت وعہدے کا سوال مت کرنا، کیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پر مل گیا تو اسی کے سپرد کردیا جائے گا، اور اگر بغیر مانگے تجھے مل گیا تو اللہ تعالی اس سے بحسن خوبی عہدہ براء ہونے میں تمہاری اعانت فرمائے گا)۔
سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں اور میرے چچازاد بھائیوں میں سے دو اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: یا رسول اللہ! جن علاقوں پر اللہ نے آپ کو حکومت دی ہے ان میں کسی پر ہمیں بھی امیر بنادیں۔ اور دوسرے نے بھی ایسی ہی بات کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّا وَاللَّهِ لَا نُوَلِّي عَلَى هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ‘‘([3])
(اللہ کی قسم! بے شک ہم ہرگز بھی اس عہدے پر اسے فائز نہیں کرتے جو خود اسے طلب کرے اور نہ ہی اسے جو اس کی حرص رکھتا ہو)۔
اس مقالے میں پڑھیں:

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/05/jamhori_intikhabaat_may_hissa_layna.pdf

انتخابات کی تعریف
انتخابات کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں
کیا انتخابات شریعت الہی کے موافق ہیں یا اس سے متصادم ہیں
کیا انتخابات شرعی وسائل میں سے ہے؟
انتخابات کے بعض مفاسد
منصب کے لیے خود کو منتخب کرنے کے لیے پیش کرنا یا عہدہ طلب کرنے کی ممانعت میں احادیث نبویہ اور ان پر تعلیق
انتخابات ، اس میں حصہ لینے یا ووٹ ڈالنے کا حکم
اس شخص کا حکم جو الیکشن کی طرف بلائے، حصہ لے اور ووٹ دے
ان لوگوں کا حکم جو بعض علماء کرام کے فتاوی سے دلیل پکڑتےہیں کہ وہ انتخابات کو جائز کہتے ہیں
کیا انتخابات اجتہادی مسائل میں سے ہے
آخرکار پھر اس نظا م کا نعم البدل کیا ہے؟
[1] صحیح بخاری 6622، صحیح مسلم 1654۔
[2] صحیح بخاری 6409،صحیح مسلم 338۔
[3] صحیح مسلم 1826۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding celebrating new #Hijree year – Various #Ulamaa
نیا #ہجری سال منانے کا شرعی حکم
مختلف #علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/new_hijri_saal_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ
فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ (آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)، اس مبارکبادی کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب:بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على عبده ورسوله، وخيرته من خلقه، وأمينه على وحيه، نبينا وإمامنا وسيدنا محمد بن عبد الله وعلى آله وأصحابه ومن سلك سبيله، واهتدى بهداه إلى يوم الدين. أما بعد:
نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین سے کوئی اصل نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی یا کتاب عزیز اس کی مشروعیت پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ ’’کل عام وأنت بخیر‘‘ یا ’’فی کل عام وأنت بخیر‘‘ کہے تو کوئی مانع نہیں کہ آپ بھی اسے ’’وأنت کذلک‘‘ (آپ بھی ہرسال بخیر رہیں) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور آپ کے لئے دعاءگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی کلمہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔
(نور علی الدرب فتوی متن نمبر 10042 شیخ رحمہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ)
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ
کتاب ’’الضياء اللامع‘‘ ص 702 میں فرماتے ہیں:
یہ سنت میں سے نہیں کہ ہم نئے ہجری سال کی آمد پر عید منائیں یا مبارکبادیوں کا تبادلہ کریں۔
بعض دوسرے مواقع پر بھی شیخ رحمہ اللہ سے یہی سوال کیا گیا:
سوال: فضیلۃ الشیخ! آپ نے نئے سال کا ذکر فرمایا، ذرا یہ بھی بتادیجئے کہ نئے ہجری سال پر مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟ اور مبارکباد دینے والوں سے کیسا سلوک کرنا واجب ہے؟
جواب: اگر کوئی آپ کو مبارکباد دے تو اس کا جواب دے دیجئے، لیکن خود کبھی پہل نہ کریں۔ یہی اس مسئلہ میں صواب مؤقف ہے۔ اگر کوئی شخص مثلاً آپ کو کہے، آپ کو نیا سال مبارک ہو تو آپ جواباً کہیں کہ آپ کو بھی مبارک ہو اور اللہ تعالی آپ کے اس سال کو خیر وبرکت والا بنادے۔ لیکن آپ خود سے اس کی ابتداء نہ کیجئے، کیونکہ مجھے سلف صالحین سے یہ بات نہیں ملی کہ وہ نئے سال پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوں۔بلکہ یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ سلف تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور سے قبل محرم الحرام کو نئے سال کا پہلا مہینہ ہی تصور نہیں کرتے تھے۔
(اللقاء الشھري: 44، سن 1417ھ کے آخر میں)
سوال: فضیلۃ الشیخ آپ کی کیا رائے ہے نئے ہجری سال کی مبارکبادیوں کے تبادلے کے بارے میں؟
جواب: میری رائے میں نئے سال کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ شریعت سے ثابت نہیں۔ یعنی ہم لوگوں سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ کے لئے یہ سنت ہے کہ نئے سال کی ایک دوسرے کو مبارکباد دیں، لیکن اگر کوئی ایسا کرلے تو کوئی حرج نہیں۔ اور چاہیے کہ جب کوئی نیا سال مبارک کہہ دے تو وہ اسے اچھا جواب دے یعنی اللہ تعالی آپ کے اس سال کو خیروبرکت والا بنادے۔ ہماری اس مسئلے میں یہی رائے ہے، اور یہ امورِ عادیہ (عام عادات) میں شمار ہوتے ہیں ناکہ امورِ تعبدیہ (عبادت) میں۔
(لقاء الباب المفتوح: 93، بروز جمعرات 25 ذی الحجۃ سن 1415ھ)
سوال: کیا نئے سال کی مبارکباد دینا جائز ہے؟
جواب: نئے سال کی مبارکباد دینے کی سلف صالحین سے کوئی اصل ثابت نہیں۔ اسی لئے آپ اس کی ابتداء نہ کریں، لیکن اگر کوئی آپ کو مبارکباد کہہ دے تو اس کا جواب دے دیجئے۔ کیونکہ فی زمانہ یہ بہت عام رواج ہوچکا ہے، اگرچہ اب اس میں کچھ کمی آرہی ہے الحمدللہ کیونکہ لوگوں کے پاس علم آنے لگا ہے، حالانکہ اس سے قبل تو نئے سال کی مبارکبادی والے کارڈوں
(new year greetings card) کا تبادلہ ہوا کرتا تھا۔
سائل: وہ کون سا صیغہ یا الفاظ ہیں کہ جس کے ساتھ لوگ نئے سال کی مبارکبادی دیتے ہیں؟
جواب: اگر وہ ایسے کہیں کہ نیا سال مبارک ہو، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ آپ کے گزشتہ برس کے گناہوں سے درگزر فرمائے اور آئندہ برس میں آپ کی مدد فرمائے، یا اس جیسا کوئی کلمہ۔
سائل: کیا یہ کہا جائے ’’كل عام وأنتم بخير‘‘؟
جواب: نہیں ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ نہیں کہنا چاہیے، نہ عیدالاضحی میں، نہ عیدالفطر میں اور نہ ہی اس موقع پر۔
(لقاء الباب المفتوح: 202 بروز جمعرات 6 محرم الحرام سن 1420ھ)
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء
(دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتوی نویسی، سعودی عرب)
نئے ہجری سال کی مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی مبارکباد دینا غیرمشروع ہے۔
(فتوی نمبر 20795)
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الف