الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43، الانبیاء 7)
(اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو)
لہذا ایک عام مسلمان جو دلائل پر نظر رکھنے اور اجتہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس پر واجب ہے کہ وہ اہل علم سے سوال کرے اور بناکسی خاص مذہب کی پابندی کے ان سے جن دینی مسائل کی اسے ضرورت ہے سیکھے۔ اسی وجہ سے بعض علماء کہتے ہیں کہ: ایک عامی کا مذہب وہی ہوتا ہے جو اس کے مفتی کا مذہب ہوتا ہے۔
دوسرے موضوع پر جانے سے پہلے آخری بات عرض کروں گا کہ ہمارے زمانے میں یا اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے نامور آئمہ وعلماء کرام گزرے ہیں جو مختلف مذاہب کی جانب منسوب ہوتے تھے، جبکہ درحقیقت وہ دلائل کی پیروی کرتے تھے (خود مجتہد تھے)۔ دراصل ان کے اپنے مذہب کی جانب نسبت کی وجہ صرف یہی ہوا کرتی تھی کہ انہوں نے اس خاص مذہب کو خصوصی طور پر پڑھا ہے (یعنی فقہی قواعد) یا پھر وہ ان کے ملکوں یا علاقوں کا عام مذہب ہوا کرتاتھا، جس کی وجہ سے انہیں بھی یہ نسبت دے دی گئی، ناکہ اندھی تقلید کی وجہ سے۔
مثال کے طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ حنبلی تھے حالانکہ درحقیقت وہ تو دلائل کی پیروی کیا کرتے تھے۔یا پھر حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حنبلی تھے حالانکہ وہ بھی دلائل کی اتباع کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ شافعی تھے مگر وہ بھی دلائل کی ہی پیروی کیا کرتے تھے۔ اور عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ حنفی تھے مگر درحقیقت وہ دلائل کی پیروی کیا کرتے تھے۔یا ہمارے شیخ ابن باز وابن عثیمین رحمہما اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حنبلی تھے اسی طرح سے ان سے پہلے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے بارے میں کہ وہ بھی حنبلی تھے مگر سب جانتے ہیں کہ وہ دلائل کی پیروی کرتے تھے۔ یا ابھی شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حنبلی ہیں مگر وہی بات کہ وہ بھی دلائل ونصوص کی اتباع کرتےہیں۔
ان عظیم وکبار علماء کرام کا منہج یہی ہے کہ وہ دلائل کے موافق ومطابق فتویٰ صادر فرماتے ہیں۔ جب کبھی بھی ان کے سامنے کوئی صحیح دلیل آتی ہے تو وہ اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہ ہو تو پھر وہ اپنے مذہب کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔یعنی وہ کسی چیز کے متعلق اپنے مذہب کے احکام بیان کردیتے ہیں۔
پس جب ہم کسی مذہب کی جانب نسبت کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھنے کے لیے یہ بہت اہم نکتہ ہے۔
ہم ہرگز بھی یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص کو مجتہدہونا چاہیے اور دلائل کی تحقیق کرنی چاہیے۔ بلاشبہ ایک عام انسان اجتہاد کرنے یا دلائل کی تحقیق کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ کسی خاص مذہب کی تقلید کرے۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ خود سے دلائل کو پرکھے اور ان سے مسائل اخذ کرے تو اسے ضرور اجتہاد کرنا چاہیے کہ وہ دلائل کو دیکھے ان کی تحقیق کرے اور پھر ان کی پیروی کرے۔
اور اس کا مجتہد ہونا یا دلائل پر نظر رکھنا اس بات کو مانع نہیں کہ وہ اس مذہب کی جانب منسوب ہوجائےجو اس نے پڑھا ہے، یا جو اس کے ملک میں عام ہے، یا پھر جو اس کی نظر میں حق سے زیادہ قریب تر ہے اگر وہ کسی مسئلہ میں خود دلائل سے استنباط نہیں کرسکتا ہو۔یہ باتیں ان مجتہدین کے لیے ضرررساں نہیں ہیں۔
اور جو اس مقام تک نہ پہنچ سکتے ہوں تو انہیں چاہیے کہ علماء کرام سے سوال کریں، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43، الانبیاء 7)
(اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو)
جب وہ سوال کرے تو اس بات کی بھرپور طریقے سے تصدیق کرلے کہ جس سے وہ سوال کرنے جارہا ہے وہ واقعتا ًعلماء کرام میں سے ہو اور وہ شرط بھی نہ لگائے کہ جس عالم میں پوچھنے جارہا ہوں وہ لازما ًکسی خاص مذہب کا پیروکار ہونا چاہیے۔بلکہ اسے عالم جو فتویٰ دے تو وہ اسی کی پیروی کرے جب تک عالم کا فتویٰ اس عالم کے پاس موجود دلیل کی روشنی میں ہو۔ اللہ اعلم۔
جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے جو کہ ان تحریکوں سے وابستگی کے بارے میں ہے کہ جو اپنی طرف دعوت دیتی ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلفی/سنی منہج کی جانب منسوب کرے۔ مزید برآں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ حقیقی اسلام یہی ہے، کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی پیروی کی جاتی ہے، اس میں دین کو فہم سلف صالحین کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔پس یقینا ًایک مسلمان سےاس منہج کی اتباع ضرور مطلوب ہے۔
کسی بھی مسلمان کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو جس پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ تھے چھوڑ دے خواہ کوئی بھی وجہ ہو۔
کیونکہ یہی وہ صراط مستقیم ہے کہ جس پر چل کر انسان بروز قیامت نجات حاصل کرسکتا ہ
(اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو)
لہذا ایک عام مسلمان جو دلائل پر نظر رکھنے اور اجتہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس پر واجب ہے کہ وہ اہل علم سے سوال کرے اور بناکسی خاص مذہب کی پابندی کے ان سے جن دینی مسائل کی اسے ضرورت ہے سیکھے۔ اسی وجہ سے بعض علماء کہتے ہیں کہ: ایک عامی کا مذہب وہی ہوتا ہے جو اس کے مفتی کا مذہب ہوتا ہے۔
دوسرے موضوع پر جانے سے پہلے آخری بات عرض کروں گا کہ ہمارے زمانے میں یا اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے نامور آئمہ وعلماء کرام گزرے ہیں جو مختلف مذاہب کی جانب منسوب ہوتے تھے، جبکہ درحقیقت وہ دلائل کی پیروی کرتے تھے (خود مجتہد تھے)۔ دراصل ان کے اپنے مذہب کی جانب نسبت کی وجہ صرف یہی ہوا کرتی تھی کہ انہوں نے اس خاص مذہب کو خصوصی طور پر پڑھا ہے (یعنی فقہی قواعد) یا پھر وہ ان کے ملکوں یا علاقوں کا عام مذہب ہوا کرتاتھا، جس کی وجہ سے انہیں بھی یہ نسبت دے دی گئی، ناکہ اندھی تقلید کی وجہ سے۔
مثال کے طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ حنبلی تھے حالانکہ درحقیقت وہ تو دلائل کی پیروی کیا کرتے تھے۔یا پھر حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حنبلی تھے حالانکہ وہ بھی دلائل کی اتباع کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ شافعی تھے مگر وہ بھی دلائل کی ہی پیروی کیا کرتے تھے۔ اور عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ حنفی تھے مگر درحقیقت وہ دلائل کی پیروی کیا کرتے تھے۔یا ہمارے شیخ ابن باز وابن عثیمین رحمہما اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حنبلی تھے اسی طرح سے ان سے پہلے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے بارے میں کہ وہ بھی حنبلی تھے مگر سب جانتے ہیں کہ وہ دلائل کی پیروی کرتے تھے۔ یا ابھی شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حنبلی ہیں مگر وہی بات کہ وہ بھی دلائل ونصوص کی اتباع کرتےہیں۔
ان عظیم وکبار علماء کرام کا منہج یہی ہے کہ وہ دلائل کے موافق ومطابق فتویٰ صادر فرماتے ہیں۔ جب کبھی بھی ان کے سامنے کوئی صحیح دلیل آتی ہے تو وہ اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہ ہو تو پھر وہ اپنے مذہب کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔یعنی وہ کسی چیز کے متعلق اپنے مذہب کے احکام بیان کردیتے ہیں۔
پس جب ہم کسی مذہب کی جانب نسبت کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھنے کے لیے یہ بہت اہم نکتہ ہے۔
ہم ہرگز بھی یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص کو مجتہدہونا چاہیے اور دلائل کی تحقیق کرنی چاہیے۔ بلاشبہ ایک عام انسان اجتہاد کرنے یا دلائل کی تحقیق کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ کسی خاص مذہب کی تقلید کرے۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ خود سے دلائل کو پرکھے اور ان سے مسائل اخذ کرے تو اسے ضرور اجتہاد کرنا چاہیے کہ وہ دلائل کو دیکھے ان کی تحقیق کرے اور پھر ان کی پیروی کرے۔
اور اس کا مجتہد ہونا یا دلائل پر نظر رکھنا اس بات کو مانع نہیں کہ وہ اس مذہب کی جانب منسوب ہوجائےجو اس نے پڑھا ہے، یا جو اس کے ملک میں عام ہے، یا پھر جو اس کی نظر میں حق سے زیادہ قریب تر ہے اگر وہ کسی مسئلہ میں خود دلائل سے استنباط نہیں کرسکتا ہو۔یہ باتیں ان مجتہدین کے لیے ضرررساں نہیں ہیں۔
اور جو اس مقام تک نہ پہنچ سکتے ہوں تو انہیں چاہیے کہ علماء کرام سے سوال کریں، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43، الانبیاء 7)
(اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو)
جب وہ سوال کرے تو اس بات کی بھرپور طریقے سے تصدیق کرلے کہ جس سے وہ سوال کرنے جارہا ہے وہ واقعتا ًعلماء کرام میں سے ہو اور وہ شرط بھی نہ لگائے کہ جس عالم میں پوچھنے جارہا ہوں وہ لازما ًکسی خاص مذہب کا پیروکار ہونا چاہیے۔بلکہ اسے عالم جو فتویٰ دے تو وہ اسی کی پیروی کرے جب تک عالم کا فتویٰ اس عالم کے پاس موجود دلیل کی روشنی میں ہو۔ اللہ اعلم۔
جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے جو کہ ان تحریکوں سے وابستگی کے بارے میں ہے کہ جو اپنی طرف دعوت دیتی ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلفی/سنی منہج کی جانب منسوب کرے۔ مزید برآں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ حقیقی اسلام یہی ہے، کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی پیروی کی جاتی ہے، اس میں دین کو فہم سلف صالحین کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔پس یقینا ًایک مسلمان سےاس منہج کی اتباع ضرور مطلوب ہے۔
کسی بھی مسلمان کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو جس پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ تھے چھوڑ دے خواہ کوئی بھی وجہ ہو۔
کیونکہ یہی وہ صراط مستقیم ہے کہ جس پر چل کر انسان بروز قیامت نجات حاصل کرسکتا ہ
ے ان شاء اللہ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘([1]) (یہودی اکہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بہتّرفرقوں میں بٹ گئے اور میری یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ انہوں نے پوچھا کہ : وہ ایک کون سا فرقہ ہوگا یا رسول اللہ!۔ فرمایا: جو اس چیز پر ہوگا جس چیز پر میں اور میرے صحابہ ہیں)۔
یہ ہے سلفی منہج کی حقیقت ۔کہ آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنی ہے۔ لہذا کیا پھر ہم ایک نومسلم سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ : تمہیں اس منہج پر چلنے کی ضرورت نہیں؟ نہیں! بلکہ ہم کہیں گے کہ: تمہارا اسلام اس وقت تک سچا، صحیح اور بدعات سے پاک ہو نہیں سکتا جب تک تم س منہج کی پیروی نہیں کروگے، جب تک تم اس چیز کی پیروی نہیں کروگے کہ جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔
جو کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی مخالفت کرے گا تو وہ فرقہ پرست حزبیوں میں سے ہوگا اور ان بہّتر (72) جہنم میں جانے والے فرقوں میں ہوگا۔اگرچہ وہ مسلمان ہے مگر وہ حدیث میں وارد اس شدید وعید کے خدشے سے محفوظ نہیں کہ: سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔
جب میں نے کہا کہ وہ اس خدشے سے محفوظ نہیں اس سے میری مراد ہے کہ وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے ماتحت ہے، کہ اگر اللہ تعالی چاہے گا تو اسے بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو عذاب دے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام جس چیز پر تھے اس کی مخالفت کی بنا پر یہ دو میں سے ایک قسم میں ہوگا:
1- اس کی مخالفت اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج کردینے والی ہو تو اس صورت میں وہ کافر ہوگا۔
2- اس کی مخالفت اسے دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی تو اس صورت میں وہ نافرمان وبدعتی ہوگا اور ان بہّتر (72) فرقوں میں سے ہوگا جن پر اس وعید کا خدشہ ہے۔ اللہ اعلم
پس اس طرح سے ہم نے مختلف فقہی مذاہب کی تقلید کرنے اور سلفی منہج کی پیروی کرنے میں فرق کی وضاحت کردی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان سے کسی خاص مذہب کی تقلید مطلوب نہیں۔ لیکن سلفی منہج پر چلنا مطلوب ہے یعنی دین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے کے مطابق سمجھنا، سلف کے طریقے کو اپنانا، یہی صحیح اسلام ہے۔ اور اس صحیح اسلام سے اس کا الگ ہونا یا تو مکمل طور پر ہوگا یا صراط مستقیم سے کسی درجے کا انحراف ہوگا جو اسے بدعتی، نافرمان، خطاء کار بنادے گا اور وہ ان بہتّر (72) گمراہ فرقوں میں سے ہوجائے گا۔ اللہ اعلم
[1] ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ۔ شیخ البانی نے سلسلہ احادیث صحیحہ 203-204 میں اس پر کلام کیا ہے اور تصحیح فرمائی ہے۔
’’افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘([1]) (یہودی اکہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بہتّرفرقوں میں بٹ گئے اور میری یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ انہوں نے پوچھا کہ : وہ ایک کون سا فرقہ ہوگا یا رسول اللہ!۔ فرمایا: جو اس چیز پر ہوگا جس چیز پر میں اور میرے صحابہ ہیں)۔
یہ ہے سلفی منہج کی حقیقت ۔کہ آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنی ہے۔ لہذا کیا پھر ہم ایک نومسلم سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ : تمہیں اس منہج پر چلنے کی ضرورت نہیں؟ نہیں! بلکہ ہم کہیں گے کہ: تمہارا اسلام اس وقت تک سچا، صحیح اور بدعات سے پاک ہو نہیں سکتا جب تک تم س منہج کی پیروی نہیں کروگے، جب تک تم اس چیز کی پیروی نہیں کروگے کہ جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔
جو کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی مخالفت کرے گا تو وہ فرقہ پرست حزبیوں میں سے ہوگا اور ان بہّتر (72) جہنم میں جانے والے فرقوں میں ہوگا۔اگرچہ وہ مسلمان ہے مگر وہ حدیث میں وارد اس شدید وعید کے خدشے سے محفوظ نہیں کہ: سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔
جب میں نے کہا کہ وہ اس خدشے سے محفوظ نہیں اس سے میری مراد ہے کہ وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے ماتحت ہے، کہ اگر اللہ تعالی چاہے گا تو اسے بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو عذاب دے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام جس چیز پر تھے اس کی مخالفت کی بنا پر یہ دو میں سے ایک قسم میں ہوگا:
1- اس کی مخالفت اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج کردینے والی ہو تو اس صورت میں وہ کافر ہوگا۔
2- اس کی مخالفت اسے دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی تو اس صورت میں وہ نافرمان وبدعتی ہوگا اور ان بہّتر (72) فرقوں میں سے ہوگا جن پر اس وعید کا خدشہ ہے۔ اللہ اعلم
پس اس طرح سے ہم نے مختلف فقہی مذاہب کی تقلید کرنے اور سلفی منہج کی پیروی کرنے میں فرق کی وضاحت کردی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان سے کسی خاص مذہب کی تقلید مطلوب نہیں۔ لیکن سلفی منہج پر چلنا مطلوب ہے یعنی دین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے کے مطابق سمجھنا، سلف کے طریقے کو اپنانا، یہی صحیح اسلام ہے۔ اور اس صحیح اسلام سے اس کا الگ ہونا یا تو مکمل طور پر ہوگا یا صراط مستقیم سے کسی درجے کا انحراف ہوگا جو اسے بدعتی، نافرمان، خطاء کار بنادے گا اور وہ ان بہتّر (72) گمراہ فرقوں میں سے ہوجائے گا۔ اللہ اعلم
[1] ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ۔ شیخ البانی نے سلسلہ احادیث صحیحہ 203-204 میں اس پر کلام کیا ہے اور تصحیح فرمائی ہے۔
[Urdu Article] Does Shaykh Rabee' call towards blind following Him (Taqleed)? – Tawheedekhaalis.com
کیا شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ لوگوں کو اندھی تقلید کی دعوت دیتے ہیں؟
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ پر تقلید کی دعوت دینے کا اور ان کے تلامیذ وغیرہ پر تقلیدی سلفی ہونے کا الزام
شیخ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ المتوفی 1414ھ اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ ربیع مقلدین کا رد کرتے ہیں
شیخ ربیع کا شیخ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ المتوفی 1420ھ کے سامنے تقلید کا رد فرمانا
شیخ ربیع حفظہ اللہ نے فالح الحربی کا رد تقلید کے مسئلے ہی پر کیا تھا!
کیا جرح وتعدیل میں کسی ثقہ عالم کے قول کو لینا مذموم تقلید کہلاتا ہے؟
جرح وتعدیل میں ثقہ عالم کے قول کو ماننا تقلید نہیں اس کے باوجود شیخ ربیع کسی کو اپنی جرح ماننے پر مجبور نہیں کرتے
کیا شیخ ربیع کے طلاب صحیح سلفی نہیں؟ شیخ احمد بن یحیی النجمی رحمہ اللہ المتوفی 1429ھ
البتہ اس مذکورہ حالت سے توتقلید ہی بھلی!
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/kiya_sh_rabee_taqleed_dawat_dayte_hain.pdf
کیا شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ لوگوں کو اندھی تقلید کی دعوت دیتے ہیں؟
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ پر تقلید کی دعوت دینے کا اور ان کے تلامیذ وغیرہ پر تقلیدی سلفی ہونے کا الزام
شیخ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ المتوفی 1414ھ اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ ربیع مقلدین کا رد کرتے ہیں
شیخ ربیع کا شیخ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ المتوفی 1420ھ کے سامنے تقلید کا رد فرمانا
شیخ ربیع حفظہ اللہ نے فالح الحربی کا رد تقلید کے مسئلے ہی پر کیا تھا!
کیا جرح وتعدیل میں کسی ثقہ عالم کے قول کو لینا مذموم تقلید کہلاتا ہے؟
جرح وتعدیل میں ثقہ عالم کے قول کو ماننا تقلید نہیں اس کے باوجود شیخ ربیع کسی کو اپنی جرح ماننے پر مجبور نہیں کرتے
کیا شیخ ربیع کے طلاب صحیح سلفی نہیں؟ شیخ احمد بن یحیی النجمی رحمہ اللہ المتوفی 1429ھ
البتہ اس مذکورہ حالت سے توتقلید ہی بھلی!
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/kiya_sh_rabee_taqleed_dawat_dayte_hain.pdf
[Urdu Article] Even Taqleed (blind following) of a scholar is better than this condition! – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
ایسی حالت سے تو تقلید ہی بھلی!
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب ’’مرحبا ًیا طالب العلم‘‘ ص 60-62۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/is_say_to_taqleed_bhali.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ ’’فضل العلم والعلماء‘‘ میں فرماتے ہیں:
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’بلاشبہ علماء کرام کا احترام ، ان سے محبت اور اللہ تعالی کی فرمانبرداری میں ان کی اطاعت ایسی بات ہے جسے اللہ تعالی نے مشروع قرار دیا ہے، اور ایسا امر ہے جسے اللہ تعالی نے واجب قرار دیا ہے‘‘([1])۔
میں یہ کہتا ہوں: امت پر واجب ہےکہ وہ علماء کرام کی قدرومنزلت کو پہچانے اور اس کا اعتراف کرے، اور یہ بھی جانے کہ بے شک ان پر ان کی محبت اور اطاعت واجب ہے، اور ان سے بغض دراصل اللہ تعالی کے دین سے بغض ہے، اور اس دین کے حاملین سے بغض ہے۔ علماء سے بغض رکھنا آخرکار اس حق کے علم سے بغض پر منتج ہوتا ہے جو انہيں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے وراثت میں ملا ہے۔ پس ہلاکت وبربادی ہے ان کے لیے جو ان سے اور ان کے عقائد سے بغض رکھتا ہے!
آجکل علماء کرام کے پاس جو کچھ ہے اسے قبول نہ کرنے کے تعلق سے یہ باطل مقولہ زبان زد عام ہے جس کا ظاہر حق معلوم ہوتا ہے لیکن باطن میں باطل وشر ہے، اور وہ یہ ہے کہ: ’’میں کسی کی تقلید نہيں کرتا‘‘!!۔ آپ اسے پائیں گے کہ نرا جاہل ہےاللہ کے دین میں سے کچھ سمجھتا نہيں، حالانکہ اسے تمام لوگوں سے بڑھ کر علماء کرام کی تقلید کی حاجت ہے، ان کی اتباع تو دور کی بات رہی۔
ایک تو ہوتی ہے تقلید اور ایک ہوتی ہے اتباع۔ ایک ایسا انسان تو بالکل احمق ہے اسے تقلید کی ضرورت ہے، تقلید اس کی ضروریات میں سے ایک ضرورت ہے، اسے چاہیے کہ علماء کرام کی تقلید کرے۔
البتہ جو طالبعلم ہے جو دلیل کے توسط سے اس بات کا ادراک کرسکتا ہے کہ یہ عالم صواب پر ہے تو پھر وہ عالم صاحبِ دلیل کی اتباع کرے۔ یہ درجہ تقلید سے بلند ہے، لیکن مجتہد کے درجے سے کم ہے۔ چناچہ بعض یونہی کہہ دیتے ہيں میں کسی کی تقلید نہيں کرتا حالانکہ درحقیقت وہ عامی وجاہل ہوتا ہے، بلکہ کبھی تو فاسق وفاجر وخبیث ہوتا ہے اور ان مکارانہ اسالیب کے ذریعے وہ علماء کرام پر طعن اور ان سے لوگوں کو متنفر کرنا چاہتا ہے۔
پس نوجوانوں کو چاہیے کہ اس قسم کے بیوقوفوں کے دام فریب سے بچیں کہ جو علماء کرام پر طعن اس خوبصورت جملے کے ساتھ لپیٹ کرکررہے ہوتے ہیں کہ : میں فلاں کی تقلید نہيں کرتا۔ ہم ان سے کہتے ہیں: تمہیں کہتا کون تقلید کرنے کو اگر تم واقعی طالبعلم ہوتے؟! لیکن اگر یہ عالم جس کے بارے میں تم کہہ رہے ہو کہ میں اس کی تقلید نہيں کرتا، اس کے پاس حق ہو، تو کیا تمہارے لیے جائز ہوگا کہ اس حق کو ٹھکرا دو جو اس کے پاس ہے اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتوں کے ذریعے جسے تم کہتے تو تقلید ہو مگر مراد اس سے باطل ہوتی ہے؟!!
ہم نوجوانوں کو اس خسیس قسم کے اسلوب سے خبردار کرتے ہیں، یہ بات بہت ہی زیادہ کثرت کے ساتھ عوام جیسے لوگوں بلکہ بعض تو عوام کے اخلاقی و دینی درجے سے بھی گرے ہوئے لوگوں میں عام ہے۔یہ بیماری بہت سے لوگوں کے دلوں میں پھیل چکی ہے: میں تقلید نہیں کرتا، میں تقلید نہیں کرتا! انٹرنیٹ پر، منظر عام پر اور بہت سی جگہوں پر یہ بالکل عام ہوچکا ہے کہ: میں تقلید نہیں کرتا۔ حالانکہ ہوتا وہ جاہل ہے، بلکہ ممکن ہے تقلید تک صحیح طو رپر اسے کرنا نہ آتی ہو اتباع تو دور کی بات رہی، اور اجتہاد تو اس سے بعید بات ہے۔
پس میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ادب سیکھیں اور تواضع اختیار کریں، اور علماء کرام کا احترام کریں، اور اس برے لہجے کو دور پھینک دیں جو وہ رٹتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارج رٹا کرتے تھے کہ: ’’لاحکم الا للہ‘‘ (نہيں ہے حکم مگر صرف اللہ تعالی کا) جس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
’’كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ‘‘([2])
(بات تو حق ہے لیکن اس سے مراد باطل لی گئی ہے)۔
میں ا س پر اللہ تعالی کی قسم کھاتا ہوں کہ جہاں تک میں نے اس کا کھوج لگایا اور اندازہ کیا ہے تو واقعی یہ لوگ اس سے باطل چاہتے ہیں، اور چاہتے ہيں کہ نوجوان علماء کرام سے بے نیاز ہوجائيں۔ پس اللہ تعالی اہل مکرو فریب کو تباہ وبرباد کرے، اور اللہ تعالی ان کے مکرو فریب کو اس امت اور اس دین پر سے پھیر دے۔
[1] اعلام الموقعین 2/237-238۔
[2] صحیح مسلم 1068۔
ایسی حالت سے تو تقلید ہی بھلی!
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب ’’مرحبا ًیا طالب العلم‘‘ ص 60-62۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/is_say_to_taqleed_bhali.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ ’’فضل العلم والعلماء‘‘ میں فرماتے ہیں:
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’بلاشبہ علماء کرام کا احترام ، ان سے محبت اور اللہ تعالی کی فرمانبرداری میں ان کی اطاعت ایسی بات ہے جسے اللہ تعالی نے مشروع قرار دیا ہے، اور ایسا امر ہے جسے اللہ تعالی نے واجب قرار دیا ہے‘‘([1])۔
میں یہ کہتا ہوں: امت پر واجب ہےکہ وہ علماء کرام کی قدرومنزلت کو پہچانے اور اس کا اعتراف کرے، اور یہ بھی جانے کہ بے شک ان پر ان کی محبت اور اطاعت واجب ہے، اور ان سے بغض دراصل اللہ تعالی کے دین سے بغض ہے، اور اس دین کے حاملین سے بغض ہے۔ علماء سے بغض رکھنا آخرکار اس حق کے علم سے بغض پر منتج ہوتا ہے جو انہيں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے وراثت میں ملا ہے۔ پس ہلاکت وبربادی ہے ان کے لیے جو ان سے اور ان کے عقائد سے بغض رکھتا ہے!
آجکل علماء کرام کے پاس جو کچھ ہے اسے قبول نہ کرنے کے تعلق سے یہ باطل مقولہ زبان زد عام ہے جس کا ظاہر حق معلوم ہوتا ہے لیکن باطن میں باطل وشر ہے، اور وہ یہ ہے کہ: ’’میں کسی کی تقلید نہيں کرتا‘‘!!۔ آپ اسے پائیں گے کہ نرا جاہل ہےاللہ کے دین میں سے کچھ سمجھتا نہيں، حالانکہ اسے تمام لوگوں سے بڑھ کر علماء کرام کی تقلید کی حاجت ہے، ان کی اتباع تو دور کی بات رہی۔
ایک تو ہوتی ہے تقلید اور ایک ہوتی ہے اتباع۔ ایک ایسا انسان تو بالکل احمق ہے اسے تقلید کی ضرورت ہے، تقلید اس کی ضروریات میں سے ایک ضرورت ہے، اسے چاہیے کہ علماء کرام کی تقلید کرے۔
البتہ جو طالبعلم ہے جو دلیل کے توسط سے اس بات کا ادراک کرسکتا ہے کہ یہ عالم صواب پر ہے تو پھر وہ عالم صاحبِ دلیل کی اتباع کرے۔ یہ درجہ تقلید سے بلند ہے، لیکن مجتہد کے درجے سے کم ہے۔ چناچہ بعض یونہی کہہ دیتے ہيں میں کسی کی تقلید نہيں کرتا حالانکہ درحقیقت وہ عامی وجاہل ہوتا ہے، بلکہ کبھی تو فاسق وفاجر وخبیث ہوتا ہے اور ان مکارانہ اسالیب کے ذریعے وہ علماء کرام پر طعن اور ان سے لوگوں کو متنفر کرنا چاہتا ہے۔
پس نوجوانوں کو چاہیے کہ اس قسم کے بیوقوفوں کے دام فریب سے بچیں کہ جو علماء کرام پر طعن اس خوبصورت جملے کے ساتھ لپیٹ کرکررہے ہوتے ہیں کہ : میں فلاں کی تقلید نہيں کرتا۔ ہم ان سے کہتے ہیں: تمہیں کہتا کون تقلید کرنے کو اگر تم واقعی طالبعلم ہوتے؟! لیکن اگر یہ عالم جس کے بارے میں تم کہہ رہے ہو کہ میں اس کی تقلید نہيں کرتا، اس کے پاس حق ہو، تو کیا تمہارے لیے جائز ہوگا کہ اس حق کو ٹھکرا دو جو اس کے پاس ہے اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتوں کے ذریعے جسے تم کہتے تو تقلید ہو مگر مراد اس سے باطل ہوتی ہے؟!!
ہم نوجوانوں کو اس خسیس قسم کے اسلوب سے خبردار کرتے ہیں، یہ بات بہت ہی زیادہ کثرت کے ساتھ عوام جیسے لوگوں بلکہ بعض تو عوام کے اخلاقی و دینی درجے سے بھی گرے ہوئے لوگوں میں عام ہے۔یہ بیماری بہت سے لوگوں کے دلوں میں پھیل چکی ہے: میں تقلید نہیں کرتا، میں تقلید نہیں کرتا! انٹرنیٹ پر، منظر عام پر اور بہت سی جگہوں پر یہ بالکل عام ہوچکا ہے کہ: میں تقلید نہیں کرتا۔ حالانکہ ہوتا وہ جاہل ہے، بلکہ ممکن ہے تقلید تک صحیح طو رپر اسے کرنا نہ آتی ہو اتباع تو دور کی بات رہی، اور اجتہاد تو اس سے بعید بات ہے۔
پس میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ادب سیکھیں اور تواضع اختیار کریں، اور علماء کرام کا احترام کریں، اور اس برے لہجے کو دور پھینک دیں جو وہ رٹتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارج رٹا کرتے تھے کہ: ’’لاحکم الا للہ‘‘ (نہيں ہے حکم مگر صرف اللہ تعالی کا) جس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
’’كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ‘‘([2])
(بات تو حق ہے لیکن اس سے مراد باطل لی گئی ہے)۔
میں ا س پر اللہ تعالی کی قسم کھاتا ہوں کہ جہاں تک میں نے اس کا کھوج لگایا اور اندازہ کیا ہے تو واقعی یہ لوگ اس سے باطل چاہتے ہیں، اور چاہتے ہيں کہ نوجوان علماء کرام سے بے نیاز ہوجائيں۔ پس اللہ تعالی اہل مکرو فریب کو تباہ وبرباد کرے، اور اللہ تعالی ان کے مکرو فریب کو اس امت اور اس دین پر سے پھیر دے۔
[1] اعلام الموقعین 2/237-238۔
[2] صحیح مسلم 1068۔
[Urdu Article] Attitude of mocking and belittling Fiqh and Fuqahaa – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
فقہ اور فقہاء کا مذاق اڑانے اور حقیر جاننے کی روش
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: حوار مع مجلة الإصلاح العدد 241-17۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/fiqh_fuqaha_mazaq_haqarat_rawish.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض اسلامی مکتبۂ فکر کتب فقہ کا مذاق اڑاتے ہیں اور فقہاء کرام کے درپے ہوتے ہیں، اور ان سے متنفر کرتے ہیں، ان کے بارے میں کیا مؤقف ہونا چاہیے؟
جواب: ایک داعی پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرے اور ہمیشہ اس کا خیال دل میں رکھے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اور حساب لے گا، چناچہ فقہاء کی کتب کا مذاق نہ اڑائے اور نہ ہی ان سے متنفر کرے۔ لیکن ہاں تعصب واندھی تقلید سے متنفر کرے اور لوگوں کو شرعی دلائل کے علم کی ترغیب دے، اور تعصب واندھی تقلید سے خبردار کرے۔
کتب فقہ مختلف انواع کی ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں دلیل اور علماء کا کلام ذکر ہوتا ہے، او رایسی بھی ہوتی ہيں جو اس کا اہتمام نہیں کرتیں۔ لہذا ایک طالبعلم کو چاہیے کہ ان کتب کو تلاش کرے جو دلیل کا اہتمام کرتی ہيں، دلائل ذکر کرتی ہیں، اجماع اور اختلاف ذکر کرتی ہيں تاکہ ایک مومن ان سے نفع حاصل کرسکے، ساتھ ہی تعصب اور اندھی تقلید سے بچے، یہ بات مطلوب ہے۔
البتہ ان کا مذاق اڑانا بالکل بے محل ہے([1])۔ البتہ لوگوں کی یہ رہنمائی کیجئے کہ بلاشبہ شرعی دلائل کا اہتمام کرنا واجب ہے اور تعصب واندھی تقلید سے خبردار کیجئے کہ جس سے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردار فرمایا ہے۔
[1] بعض تو اتنی شدت اپناتے ہيں کہ مطلقاً فقہ کو باقاعدہ جہنم سے تعبیر کرکے تصویر کشی کرتے ہيں، اللہ المستعان۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
فقہ اور فقہاء کا مذاق اڑانے اور حقیر جاننے کی روش
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: حوار مع مجلة الإصلاح العدد 241-17۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/fiqh_fuqaha_mazaq_haqarat_rawish.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض اسلامی مکتبۂ فکر کتب فقہ کا مذاق اڑاتے ہیں اور فقہاء کرام کے درپے ہوتے ہیں، اور ان سے متنفر کرتے ہیں، ان کے بارے میں کیا مؤقف ہونا چاہیے؟
جواب: ایک داعی پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرے اور ہمیشہ اس کا خیال دل میں رکھے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اور حساب لے گا، چناچہ فقہاء کی کتب کا مذاق نہ اڑائے اور نہ ہی ان سے متنفر کرے۔ لیکن ہاں تعصب واندھی تقلید سے متنفر کرے اور لوگوں کو شرعی دلائل کے علم کی ترغیب دے، اور تعصب واندھی تقلید سے خبردار کرے۔
کتب فقہ مختلف انواع کی ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں دلیل اور علماء کا کلام ذکر ہوتا ہے، او رایسی بھی ہوتی ہيں جو اس کا اہتمام نہیں کرتیں۔ لہذا ایک طالبعلم کو چاہیے کہ ان کتب کو تلاش کرے جو دلیل کا اہتمام کرتی ہيں، دلائل ذکر کرتی ہیں، اجماع اور اختلاف ذکر کرتی ہيں تاکہ ایک مومن ان سے نفع حاصل کرسکے، ساتھ ہی تعصب اور اندھی تقلید سے بچے، یہ بات مطلوب ہے۔
البتہ ان کا مذاق اڑانا بالکل بے محل ہے([1])۔ البتہ لوگوں کی یہ رہنمائی کیجئے کہ بلاشبہ شرعی دلائل کا اہتمام کرنا واجب ہے اور تعصب واندھی تقلید سے خبردار کیجئے کہ جس سے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردار فرمایا ہے۔
[1] بعض تو اتنی شدت اپناتے ہيں کہ مطلقاً فقہ کو باقاعدہ جہنم سے تعبیر کرکے تصویر کشی کرتے ہيں، اللہ المستعان۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Ruling regarding narrating speech accusing Imaam Abu Haneefah (rahimaullaah) with Kufr – Shaykh Saaleh bin Abdul Azeez Aal-Shaykh
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق کفر کی تہمت پر مبنی اقوال نقل کرنے کا حکم
فضیلۃ الشیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ
(وزیر وزارت مذہبی امورواوقاف ورکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح عقیدۃ الطحاویۃ درس 9 س 4، إتحاف السائل بما في الطحاوية من مسائل ج 1 ص 675۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/imam_abu_hanifah_takfeer_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کی کتاب میں وارد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اتہام اور ان کے بارے میں خلقِ قرآن کے (کفریہ) عقیدے کی نسبت اور آخر تک جو ان کے بارے میں لکھا ہے کے بارےکیا رائے ہے؟
جواب: یہ ایک اچھا سوال ہے، اور واقعی یہ عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کی کتاب ’’کتاب السنۃ‘‘ میں موجود ہے۔ بات یہ ہے کہ عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کے دور میں فتنۂ خلق قرآن بہت بڑھ چکا تھا، اور لوگ اکثر خلق قرآن سے متعلق باتوں پراستدلال امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب چیزں کے ذریعے کرتے، حالانکہ درحقیقت آپ ان سے بری تھے۔اس کے علاوہ بھی اور چیزیں تھیں جیسے معتزلہ تاویلِ صفات وغیرہ کے بارے میں آپ سے ہی ایسی باتیں نقل کیا کرتے تھے، جن سے درحقیقت آپ بری تھے۔انہی میں سے بعض باتیں عوام میں اتنی زبان زد عام ہوگئی کہ یہی باتیں بعض علماء کرام کے سامنے پیش ہوئی اور انہوں نے لوگوں کے ظاہر قول پر ہی حکم فرمادیا۔ یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے باقاعدہ مذہب اور مکتبۂ فکر بننے سے پہلے کی بات ہے۔چونکہ وہ امام صاحب کی وفات سے قریب کا ہی زمانہ تھااور اقوال نقل کیے جاتے تھے جیسے امام سفیان الثوری، سفیان بن عیینہ، وکیع اور فلاں فلاں جیسے بڑے علماء کرام سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں اقوال نقل کرتے۔ لہذا اس زمانے میں امام عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کے اجتہاد کے مطابق اس بات کی حاجت پائی جاتی تھی کہ امام صاحب کے بارے میں علماء کرام کے اقوال نقل فرمائیں۔
لیکن اس زمانے کے بعد جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ علماء کرام کا اب اس بات پر اجماع ہوگیا ہے کہ اسے مزید روایت نہ کیا جائے، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اب ہمیشہ صرف ذکرِ خیروذکر ِجمیل ہی کیا جائے۔ یہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے زمانے کے بھی بعد کی بات ہے، یعنی امام احمد رحمہ اللہ کے بعض اصحاب کے دور میں ہوسکتا ہے انہو ں نے کلام کیا اور امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے دور میں انہی لوگوں سے منقول باتيں اپنی مشہور ومعروف تاریخ میں روایات نقل فرمائی ہیں۔جن پر اس کے بعد بھی رد ہوتا رہا یہاں تک کہ چھٹی اور ساتویں ہجری میں منہج ِسلف کو استقراء حاصل ہوا (یعنی مکمل اصولوں پر کتابیں مدون ہوئیں وغیرہ)، اور اسی سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنا مشہور ومعروف رسالہ’’رفع الملام عن الأئمة الأعلام‘‘ (مشہورآئمہ کرام پر کی جانے والی ملامتوں کا ازالہ )تصنیف فرمایا ۔ اسی طرح اپنی باقی تمام کتابوں میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر خیر وذکر جمیل ہی فرمایا، ان کے ساتھ رحمدلانہ سلوک فرمایا اور رحمت کی دعاء کی، اور سوائے ایک بات کے اور کوئی چیز آپ کے جانب منسوب نہ فرمائی اور وہ یہ ارجاء کا قول، ارجاء الفقہاء (نہ کہ غالیوں کی الارجاء)([1])، اس کے سوا ان تمام تہمات کا جو سلسلہ چلا آرہا تھا اسے نقل نہیں فرمایا۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب بنام ’’فقہ الاکبر‘‘ اور دوسرے رسائل موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ بالجملہ سلف صالحین کے ہی عقیدے ومنہج کے تابع تھے سوائے اس مسئلے ارجاء یعنی ایمان کے نام میں عمل کو داخل نہ سمجھنا کے۔
چناچہ اسی نہج پر علماء کرام گامزن رہے جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے فرمایا سوائے (جیسا کہ میں نے بیان کیا) جانبین (یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں غلو کرنے والوں اور دوسری جانب ان کی شان میں تنقیص کرنے والوں) کی طرف سے کچھ باتیں ہوتی رہیں:
ایک جانب وہ اہل نظر جو اہلحدیثوں کو حشویہ اور جاہل پکارتے تھے۔
اور دوسری جانب ان کی طرف سے بھی جو اہلحدیث اور اثر کی جانب منسوب تھے انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام کیا یا پھر حنفیہ پر بطور ایک فقہی مکتبۂ فکر یا ان کے علماء پر کلام کیا۔
جبکہ اعتدال ووسط پر مبنی نکتۂ نظر وہ ہے جو امام طحاوی رحمہ اللہ نے بیان فرمایا اور اسی پر آئمہ سلف قائم تھے۔
پھر جب امام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ تشریف لائے تو اسی منہج کو لوگوں میں مزید پختہ فرمایا، اور یہ کہ کسی امام کا ذکرنہ کیا جائے مگر خیر وبھلائی کے ساتھ، اور یہ کہ تمام آئمہ کرام کے اقوال کو دیکھاجائےاو ر جو دلیل کے موافق راجح ہو اسے
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق کفر کی تہمت پر مبنی اقوال نقل کرنے کا حکم
فضیلۃ الشیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ
(وزیر وزارت مذہبی امورواوقاف ورکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح عقیدۃ الطحاویۃ درس 9 س 4، إتحاف السائل بما في الطحاوية من مسائل ج 1 ص 675۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/imam_abu_hanifah_takfeer_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کی کتاب میں وارد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اتہام اور ان کے بارے میں خلقِ قرآن کے (کفریہ) عقیدے کی نسبت اور آخر تک جو ان کے بارے میں لکھا ہے کے بارےکیا رائے ہے؟
جواب: یہ ایک اچھا سوال ہے، اور واقعی یہ عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کی کتاب ’’کتاب السنۃ‘‘ میں موجود ہے۔ بات یہ ہے کہ عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کے دور میں فتنۂ خلق قرآن بہت بڑھ چکا تھا، اور لوگ اکثر خلق قرآن سے متعلق باتوں پراستدلال امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب چیزں کے ذریعے کرتے، حالانکہ درحقیقت آپ ان سے بری تھے۔اس کے علاوہ بھی اور چیزیں تھیں جیسے معتزلہ تاویلِ صفات وغیرہ کے بارے میں آپ سے ہی ایسی باتیں نقل کیا کرتے تھے، جن سے درحقیقت آپ بری تھے۔انہی میں سے بعض باتیں عوام میں اتنی زبان زد عام ہوگئی کہ یہی باتیں بعض علماء کرام کے سامنے پیش ہوئی اور انہوں نے لوگوں کے ظاہر قول پر ہی حکم فرمادیا۔ یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے باقاعدہ مذہب اور مکتبۂ فکر بننے سے پہلے کی بات ہے۔چونکہ وہ امام صاحب کی وفات سے قریب کا ہی زمانہ تھااور اقوال نقل کیے جاتے تھے جیسے امام سفیان الثوری، سفیان بن عیینہ، وکیع اور فلاں فلاں جیسے بڑے علماء کرام سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں اقوال نقل کرتے۔ لہذا اس زمانے میں امام عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کے اجتہاد کے مطابق اس بات کی حاجت پائی جاتی تھی کہ امام صاحب کے بارے میں علماء کرام کے اقوال نقل فرمائیں۔
لیکن اس زمانے کے بعد جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ علماء کرام کا اب اس بات پر اجماع ہوگیا ہے کہ اسے مزید روایت نہ کیا جائے، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اب ہمیشہ صرف ذکرِ خیروذکر ِجمیل ہی کیا جائے۔ یہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے زمانے کے بھی بعد کی بات ہے، یعنی امام احمد رحمہ اللہ کے بعض اصحاب کے دور میں ہوسکتا ہے انہو ں نے کلام کیا اور امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے دور میں انہی لوگوں سے منقول باتيں اپنی مشہور ومعروف تاریخ میں روایات نقل فرمائی ہیں۔جن پر اس کے بعد بھی رد ہوتا رہا یہاں تک کہ چھٹی اور ساتویں ہجری میں منہج ِسلف کو استقراء حاصل ہوا (یعنی مکمل اصولوں پر کتابیں مدون ہوئیں وغیرہ)، اور اسی سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنا مشہور ومعروف رسالہ’’رفع الملام عن الأئمة الأعلام‘‘ (مشہورآئمہ کرام پر کی جانے والی ملامتوں کا ازالہ )تصنیف فرمایا ۔ اسی طرح اپنی باقی تمام کتابوں میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر خیر وذکر جمیل ہی فرمایا، ان کے ساتھ رحمدلانہ سلوک فرمایا اور رحمت کی دعاء کی، اور سوائے ایک بات کے اور کوئی چیز آپ کے جانب منسوب نہ فرمائی اور وہ یہ ارجاء کا قول، ارجاء الفقہاء (نہ کہ غالیوں کی الارجاء)([1])، اس کے سوا ان تمام تہمات کا جو سلسلہ چلا آرہا تھا اسے نقل نہیں فرمایا۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب بنام ’’فقہ الاکبر‘‘ اور دوسرے رسائل موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ بالجملہ سلف صالحین کے ہی عقیدے ومنہج کے تابع تھے سوائے اس مسئلے ارجاء یعنی ایمان کے نام میں عمل کو داخل نہ سمجھنا کے۔
چناچہ اسی نہج پر علماء کرام گامزن رہے جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے فرمایا سوائے (جیسا کہ میں نے بیان کیا) جانبین (یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں غلو کرنے والوں اور دوسری جانب ان کی شان میں تنقیص کرنے والوں) کی طرف سے کچھ باتیں ہوتی رہیں:
ایک جانب وہ اہل نظر جو اہلحدیثوں کو حشویہ اور جاہل پکارتے تھے۔
اور دوسری جانب ان کی طرف سے بھی جو اہلحدیث اور اثر کی جانب منسوب تھے انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام کیا یا پھر حنفیہ پر بطور ایک فقہی مکتبۂ فکر یا ان کے علماء پر کلام کیا۔
جبکہ اعتدال ووسط پر مبنی نکتۂ نظر وہ ہے جو امام طحاوی رحمہ اللہ نے بیان فرمایا اور اسی پر آئمہ سلف قائم تھے۔
پھر جب امام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ تشریف لائے تو اسی منہج کو لوگوں میں مزید پختہ فرمایا، اور یہ کہ کسی امام کا ذکرنہ کیا جائے مگر خیر وبھلائی کے ساتھ، اور یہ کہ تمام آئمہ کرام کے اقوال کو دیکھاجائےاو ر جو دلیل کے موافق راجح ہو اسے
لے لیا جائے،اور کسی عالم کی غلطی یا لغزش میں اس کی پیروی نہ کی جائے؛ بلکہ ہم اس طرح کہیں کہ یہ ایک عالم کا کلام ہے اور اس کا اجتہاد ہے لیکن جو دوسرا قول ہے وہ راجح ہے۔
اسی لئے اس دعوت سلفیہ کے مکتبۂ مفکر میں آپ باکثرت دیکھیں گے کہ : یہ قول راجح ہے اور یہ مرجوح ہے، اور اسی اصل اصول کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اہل علم تربیت پاتے رہے۔
یہاں تک ہم ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور کی ابتداء میں آتے ہیں جب وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئےتو علماء کرام نے کتاب السنۃ از عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ شائع کرنے کا ارادہ فرمایا ، اس وقت اس کی طباعت کی نگرانی اور مراجع پر جلیل القدر شیخ علامہ عبداللہ بن حسن آل الشیخ رحمہ اللہ مامور تھے جو اس وقت مکہ مکرمہ کے رئیس القضاۃ (چیف جسٹس) تھے۔پس آپ نے وہ پوری فصل ہی طباعت سے نکلوا دی (جس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام تھا)، تو اسے طبع ہی نہيں کیا گیا کیونکہ شرعی حکمت کے تحت اس قسم کی باتوں کا اپنا وقت تھا جو گزر چکا۔ اس کے علاوہ یہی اجتہاد، شرعی سیاست اور لوگوں کے مصالح کی رعایت کرنے کا تقاضہ تھا کے اسے حذف کرلیا جائے اور باقی نہ رکھا جائے، لہذا یہ امانت میں خیانت نہیں تھی، بلکہ امانت تو یہ ہے کہ لوگ ان نقول کی وجہ سے جو اس کتاب میں(امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف) منقول تھے عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ نے جو اپنی کتاب میں سنت وصحیح عقیدہ بیان فرمایا ہے اس کے پڑھنے سے رک جاتے۔
پس یہ کتاب اس پوری فصل کے بغیر شائع ہوئی جو لوگوں میں اور علماء کرام میں عام ہوئی اور یہی عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کی کتاب السنۃ سمجھی جاتی رہی۔
یہاں تک کہ اب آخر میں یہ کتاب ایک علمی رسالہ یا علمی ریسرچ میں شائع ہوئی اور اس میں وہ فصل داخل کردی گئی ہے، اور یہ مخطوطات میں موجود ہے معروف ہے، چناچہ اس فصل کو نئی سرے سے داخل کیا گیایعنی اس میں واپس لوٹا دی گئی اس دعوے کے ساتھ کے امانت کا یہی تقاضہ ہے۔
حالانکہ بلاشبہ یہ بات صحیح نہیں، کیونکہ علماء کرام نے شرعی سیاست کو بروئے کار لاتے ہوئے، اسی طرح کتابوں کی تالیف سے جو علماء کرام کا اصل مقصد ہوتا ہے اسے جانتے ہوئے، زمان ومکان وحال کے اختلاف کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسا کیا تھا۔ ساتھ ہی جو آخر میں عقیدہ مقرر ہوچکا ہے اور اہل علم کا اس بارے میں جو کلام ہے سے وہ علماء کرام واقف تھے۔
جب یہ طبع ہوا تو ہم فضیلۃ الشیخ جلیل القدر شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے گھر پر دعوت میں شریک تھے، آپ نے سماحۃ الشیخ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی دعوت فرمائی تھی، پس ان کے سامنے حال میں طبع ہوئی کتاب السنۃ کی اول نسخے پیش کیے گئے جو دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور اس میں یہ فصل شامل کی گئی ہے جس میں کتاب میں جو کچھ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق تھا داخل کردیا گیا ہے، جبکہ پہلی طباعتیں اس سے خالی ہوا کرتی تھیں مشایخ کے اس عمل کی بنا پر۔
پس شیخ اللہ ان پر رحم کرے مجھ سے شیخ فوزان حفظہ اللہ کی مجلس میں فرمایا کہ:
’’جو کام (فصل کو حذف کرنے کا) مشایخ کرام نے کیا تھا وہی متعین بات تھی اوراسے حذف کرنا شرعی سیاست کے عین مطابق تھا، جبکہ اسے واپس سے داخل کردینا مناسب نہیں، یہی وہ بات ہے جس پر علماء کرام کا منہج ہے‘‘۔
تو اب معاملہ اور بڑھ گیا اور ایسی تالیفات ہونے لگیں جن میں امام ابو حنیفہرحمہ اللہ پر طعن کیا گیا ہے یہاں تک انہیں ابو جیفہ تک کہا جانے لگا اور اس جیسی دوسری باتیں، جو بلاشبہ ہمارے منہج میں سے ہے نہ ہی علماء دعوت اور علماء سلف کا یہ طریقہ تھا۔ کیونکہ ہم تو علماء کرام کا ذکر نہیں کرتے مگر خیر وبھلائی ہی کے ساتھ البتہ اگر وہ غلطی کرجائیں تو ان کی غلطی میں ان کی پیروی نہیں کرتے، خصوصاً آئمہ اربعہ کا کیونکہ ان کی ایسی شان اور مقام ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
ہم اسی قدر پر اکتفاء کرتے ہیں میں اللہ تعالی سے آپ کے لیے توفیق اور راست بازی کا سوا ل کرتا ہوں، وصلى الله وسلم على نبينا محمد۔
[1] ارجاء کا عقیدہ رکھنے والوں کو مرجئہ کہا جاتا ہے، جن کے نزدیک ایمان کم زیادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی عمل ایمان میں شامل ہیں۔ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ مرجئہ کی چاراقسام ہیں: 1- جہمیہ: جو یہ کہتے ہیں کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے اگرچہ دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار نہ بھی کیا جائے۔ اور یہ سب سے بدترین قول ہے۔ اس صورت میں فرعون وابلیس بھی مومن ہوں گے۔ 2- اشاعرہ: جو یہ کہتے ہیں کہ ایمان صرف دل کی تصدیق کا نام ہے۔ پھر تو ابوطالب بھی مسلمان شمار ہوگا حالانکہ اس نے زبان سے اقرار نہ کیا۔ 3- کرامیہ: ان کے نزدیک ایمان صرف زبان سے اقرار کا نام ہے اگرچہ دلی تصدیق نہ ہو۔ پھر تو ان کے نزدیک منافق بھی مومن شمار ہوں گے۔ 4- مرجئۃ الفقھاء: اور یہ مرجئہ کے گروہوں میں سے سب سے خفیف ترین ارجاء میں مبتلا ہیں مگر بہرحال یہ بھی باطل وگمراہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایمان دلی اعتقاد اور زبان سے اقرار کا نام ہے، ع
اسی لئے اس دعوت سلفیہ کے مکتبۂ مفکر میں آپ باکثرت دیکھیں گے کہ : یہ قول راجح ہے اور یہ مرجوح ہے، اور اسی اصل اصول کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اہل علم تربیت پاتے رہے۔
یہاں تک ہم ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور کی ابتداء میں آتے ہیں جب وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئےتو علماء کرام نے کتاب السنۃ از عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ شائع کرنے کا ارادہ فرمایا ، اس وقت اس کی طباعت کی نگرانی اور مراجع پر جلیل القدر شیخ علامہ عبداللہ بن حسن آل الشیخ رحمہ اللہ مامور تھے جو اس وقت مکہ مکرمہ کے رئیس القضاۃ (چیف جسٹس) تھے۔پس آپ نے وہ پوری فصل ہی طباعت سے نکلوا دی (جس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام تھا)، تو اسے طبع ہی نہيں کیا گیا کیونکہ شرعی حکمت کے تحت اس قسم کی باتوں کا اپنا وقت تھا جو گزر چکا۔ اس کے علاوہ یہی اجتہاد، شرعی سیاست اور لوگوں کے مصالح کی رعایت کرنے کا تقاضہ تھا کے اسے حذف کرلیا جائے اور باقی نہ رکھا جائے، لہذا یہ امانت میں خیانت نہیں تھی، بلکہ امانت تو یہ ہے کہ لوگ ان نقول کی وجہ سے جو اس کتاب میں(امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف) منقول تھے عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ نے جو اپنی کتاب میں سنت وصحیح عقیدہ بیان فرمایا ہے اس کے پڑھنے سے رک جاتے۔
پس یہ کتاب اس پوری فصل کے بغیر شائع ہوئی جو لوگوں میں اور علماء کرام میں عام ہوئی اور یہی عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کی کتاب السنۃ سمجھی جاتی رہی۔
یہاں تک کہ اب آخر میں یہ کتاب ایک علمی رسالہ یا علمی ریسرچ میں شائع ہوئی اور اس میں وہ فصل داخل کردی گئی ہے، اور یہ مخطوطات میں موجود ہے معروف ہے، چناچہ اس فصل کو نئی سرے سے داخل کیا گیایعنی اس میں واپس لوٹا دی گئی اس دعوے کے ساتھ کے امانت کا یہی تقاضہ ہے۔
حالانکہ بلاشبہ یہ بات صحیح نہیں، کیونکہ علماء کرام نے شرعی سیاست کو بروئے کار لاتے ہوئے، اسی طرح کتابوں کی تالیف سے جو علماء کرام کا اصل مقصد ہوتا ہے اسے جانتے ہوئے، زمان ومکان وحال کے اختلاف کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسا کیا تھا۔ ساتھ ہی جو آخر میں عقیدہ مقرر ہوچکا ہے اور اہل علم کا اس بارے میں جو کلام ہے سے وہ علماء کرام واقف تھے۔
جب یہ طبع ہوا تو ہم فضیلۃ الشیخ جلیل القدر شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے گھر پر دعوت میں شریک تھے، آپ نے سماحۃ الشیخ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی دعوت فرمائی تھی، پس ان کے سامنے حال میں طبع ہوئی کتاب السنۃ کی اول نسخے پیش کیے گئے جو دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور اس میں یہ فصل شامل کی گئی ہے جس میں کتاب میں جو کچھ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق تھا داخل کردیا گیا ہے، جبکہ پہلی طباعتیں اس سے خالی ہوا کرتی تھیں مشایخ کے اس عمل کی بنا پر۔
پس شیخ اللہ ان پر رحم کرے مجھ سے شیخ فوزان حفظہ اللہ کی مجلس میں فرمایا کہ:
’’جو کام (فصل کو حذف کرنے کا) مشایخ کرام نے کیا تھا وہی متعین بات تھی اوراسے حذف کرنا شرعی سیاست کے عین مطابق تھا، جبکہ اسے واپس سے داخل کردینا مناسب نہیں، یہی وہ بات ہے جس پر علماء کرام کا منہج ہے‘‘۔
تو اب معاملہ اور بڑھ گیا اور ایسی تالیفات ہونے لگیں جن میں امام ابو حنیفہرحمہ اللہ پر طعن کیا گیا ہے یہاں تک انہیں ابو جیفہ تک کہا جانے لگا اور اس جیسی دوسری باتیں، جو بلاشبہ ہمارے منہج میں سے ہے نہ ہی علماء دعوت اور علماء سلف کا یہ طریقہ تھا۔ کیونکہ ہم تو علماء کرام کا ذکر نہیں کرتے مگر خیر وبھلائی ہی کے ساتھ البتہ اگر وہ غلطی کرجائیں تو ان کی غلطی میں ان کی پیروی نہیں کرتے، خصوصاً آئمہ اربعہ کا کیونکہ ان کی ایسی شان اور مقام ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
ہم اسی قدر پر اکتفاء کرتے ہیں میں اللہ تعالی سے آپ کے لیے توفیق اور راست بازی کا سوا ل کرتا ہوں، وصلى الله وسلم على نبينا محمد۔
[1] ارجاء کا عقیدہ رکھنے والوں کو مرجئہ کہا جاتا ہے، جن کے نزدیک ایمان کم زیادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی عمل ایمان میں شامل ہیں۔ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ مرجئہ کی چاراقسام ہیں: 1- جہمیہ: جو یہ کہتے ہیں کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے اگرچہ دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار نہ بھی کیا جائے۔ اور یہ سب سے بدترین قول ہے۔ اس صورت میں فرعون وابلیس بھی مومن ہوں گے۔ 2- اشاعرہ: جو یہ کہتے ہیں کہ ایمان صرف دل کی تصدیق کا نام ہے۔ پھر تو ابوطالب بھی مسلمان شمار ہوگا حالانکہ اس نے زبان سے اقرار نہ کیا۔ 3- کرامیہ: ان کے نزدیک ایمان صرف زبان سے اقرار کا نام ہے اگرچہ دلی تصدیق نہ ہو۔ پھر تو ان کے نزدیک منافق بھی مومن شمار ہوں گے۔ 4- مرجئۃ الفقھاء: اور یہ مرجئہ کے گروہوں میں سے سب سے خفیف ترین ارجاء میں مبتلا ہیں مگر بہرحال یہ بھی باطل وگمراہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایمان دلی اعتقاد اور زبان سے اقرار کا نام ہے، ع
مل اس میں داخل نہیں اور نہ ہی اس میں نیک عمل سے اضافہ اور بدعملی سے کمی ہوتی ہے۔ جبکہ ایمان کے متعلق اہل سنت والجماعت کا جو قول حق ہے وہ یہ ہے کہ: ایمان دل کی تصدیق، زبان سے اقرار، اعضاء وجوارح سے عمل کا نام ہے جو نیکی کرنے سے بڑھتا ہے اور نافرمانی کرنے سے گھٹتا ہے۔ (کتاب: ’’ایمان وکفر سے متعلق اہم سوال وجواب‘‘) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Who are the Dhahiriyyah? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
ظاہریہ کون ہوتے ہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التعريف بالطريقة الظاهرية
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/dhahiriyyah_kon_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ہم طریقۂ ظاہریہ کے بارے میں سنتے ہیں، انہيں ظاہری کیوں کہا جاتا ہے؟ اور کیا یہ سنت مخالف طریقہ ہے؟
جواب: ظاہریہ طریقہ معروف ہے، جس پر امام داود الظاہری چلے تھے اسی طرح سے امام ابو محمد ابن حزم (الاندلسی) رحمہما اللہ، اور جو کوئی بھی ان دونوں جیسے اقوال کا قائل ہے۔ اس کا معنی ہے کہ نصوص کا صرف ظاہر لینا اور اس کی تعلیل وقیاس پر نظر نہ کرنا۔ ان کے نزدیک قیاس نہيں نہ ہی تعلیل موجود ہے ۔بلکہ وہ محض اوامر ونواہی کے ظاہر کے قائل ہيں، اس کی علتوں ومعانی کو نہيں دیکھتے، چناچہ اس معنی کے اعتبارسے انہيں ظاہری کہا جاتا ہے۔
کیونکہ وہ صرف ظاہر کو لیتے ہیں اور علتوں وحکمتوں و شرعی قیاس جس پرکتاب وسنت دلالت کرتے ہیں کو نہيں لیتے۔ لیکن ان کا قول بالجملۃ محض رائے والوں اہل رائے کے قول سے بہتر ہے کہ جو اپنی آراء وقیاسات کو فیصلہ کن سمجھتے ہیں، اور کتاب وسنت کے شرعی دلائل پر توجہ دینے سے روگردانی کرتے ہيں۔
لیکن بہرحال ظاہریت کا اپنا نقصان اور ان پر مؤاخذات ہیں کہ وہ ظاہر پر بالکل جمود اختیار کرلیتے ہيں، اور ان علتوں ، حکمتوں اور اسرار کی کوئی رعایت نہيں کرتے جن پر خود شارع نے تنبیہ کی ہے اور ان کا قصد فرمایا ہے۔ اسی لیے وہ بہت سے مسائل میں غلطی کرگئے ہيں جن پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہیں([1])۔
والله ولي التوفيق۔
[1] مثال کے طور پر قرآن کریم میں ہے جو مومن عورتوں پر برائی کی تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ نہیں لاتے ان کے لیے یہ یہ سزا ہے، لہذا ان کے مذہب کے مطابق چونکہ مرد کا ذکر نہيں کہ جو مومن مردوں پر برائی کی تہمت لگائے تو اس کے لیے بھی یہ یہ سزا ہے لہذا نص کے مطابق صرف عورت کے تعلق سے ایسا ہوگا! حالانکہ دونوں میں علت ایک ہی ہے۔ یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے ظاہر ہے اس کے نجس ہوجانے کے سبب سے تو ان کے نزدیک بس کھڑے پانی میں براہ راست پیشاب کرنا منع ہے پائخانہ منع نہیں! اور یہ بھی کہ کسی برتن میں بہت سا پیشاب بھر کر کھڑے پانی میں پھینک دیا جائے تو وہ بھی اس نہی میں داخل نہیں، یا پھر کانے جانور کی قربانی سے منع کیا گیا تو ظاہر ہے عیب کی وجہ سے اب چونکہ حدیث میں لفظ کانے کا ہے تو اس سے بھی بدتر اندھے کی قربانی ان کے نزدیک جائز ہوگی کیونکہ اندھے کا لفظ حدیث میں نہيں! اسی طرح سونے چاندی کے برتوں میں پینے سے منع کرنے کے الفاظ آئے ہيں جبکہ ظاہر ہے کہ کھانا پینا دونوں منع ہے مگر چونکہ لفظ صرف پینے کے آئے ہيں تو ان کے مطابق کھانا جائز ہوگا پینا نہيں وغیرہ اور اس طرح کی بہت سے مثالیں ہيں، جو شرعاً وعقلاً اس کے بطلان کو ظاہر کرتی ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیں شیخ الشنقیطی " کی تفسیر ’’اضواء البیان‘‘ 4/175-228۔ (توحیدخالص ڈاٹ کام)
ظاہریہ کون ہوتے ہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التعريف بالطريقة الظاهرية
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/dhahiriyyah_kon_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ہم طریقۂ ظاہریہ کے بارے میں سنتے ہیں، انہيں ظاہری کیوں کہا جاتا ہے؟ اور کیا یہ سنت مخالف طریقہ ہے؟
جواب: ظاہریہ طریقہ معروف ہے، جس پر امام داود الظاہری چلے تھے اسی طرح سے امام ابو محمد ابن حزم (الاندلسی) رحمہما اللہ، اور جو کوئی بھی ان دونوں جیسے اقوال کا قائل ہے۔ اس کا معنی ہے کہ نصوص کا صرف ظاہر لینا اور اس کی تعلیل وقیاس پر نظر نہ کرنا۔ ان کے نزدیک قیاس نہيں نہ ہی تعلیل موجود ہے ۔بلکہ وہ محض اوامر ونواہی کے ظاہر کے قائل ہيں، اس کی علتوں ومعانی کو نہيں دیکھتے، چناچہ اس معنی کے اعتبارسے انہيں ظاہری کہا جاتا ہے۔
کیونکہ وہ صرف ظاہر کو لیتے ہیں اور علتوں وحکمتوں و شرعی قیاس جس پرکتاب وسنت دلالت کرتے ہیں کو نہيں لیتے۔ لیکن ان کا قول بالجملۃ محض رائے والوں اہل رائے کے قول سے بہتر ہے کہ جو اپنی آراء وقیاسات کو فیصلہ کن سمجھتے ہیں، اور کتاب وسنت کے شرعی دلائل پر توجہ دینے سے روگردانی کرتے ہيں۔
لیکن بہرحال ظاہریت کا اپنا نقصان اور ان پر مؤاخذات ہیں کہ وہ ظاہر پر بالکل جمود اختیار کرلیتے ہيں، اور ان علتوں ، حکمتوں اور اسرار کی کوئی رعایت نہيں کرتے جن پر خود شارع نے تنبیہ کی ہے اور ان کا قصد فرمایا ہے۔ اسی لیے وہ بہت سے مسائل میں غلطی کرگئے ہيں جن پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہیں([1])۔
والله ولي التوفيق۔
[1] مثال کے طور پر قرآن کریم میں ہے جو مومن عورتوں پر برائی کی تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ نہیں لاتے ان کے لیے یہ یہ سزا ہے، لہذا ان کے مذہب کے مطابق چونکہ مرد کا ذکر نہيں کہ جو مومن مردوں پر برائی کی تہمت لگائے تو اس کے لیے بھی یہ یہ سزا ہے لہذا نص کے مطابق صرف عورت کے تعلق سے ایسا ہوگا! حالانکہ دونوں میں علت ایک ہی ہے۔ یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے ظاہر ہے اس کے نجس ہوجانے کے سبب سے تو ان کے نزدیک بس کھڑے پانی میں براہ راست پیشاب کرنا منع ہے پائخانہ منع نہیں! اور یہ بھی کہ کسی برتن میں بہت سا پیشاب بھر کر کھڑے پانی میں پھینک دیا جائے تو وہ بھی اس نہی میں داخل نہیں، یا پھر کانے جانور کی قربانی سے منع کیا گیا تو ظاہر ہے عیب کی وجہ سے اب چونکہ حدیث میں لفظ کانے کا ہے تو اس سے بھی بدتر اندھے کی قربانی ان کے نزدیک جائز ہوگی کیونکہ اندھے کا لفظ حدیث میں نہيں! اسی طرح سونے چاندی کے برتوں میں پینے سے منع کرنے کے الفاظ آئے ہيں جبکہ ظاہر ہے کہ کھانا پینا دونوں منع ہے مگر چونکہ لفظ صرف پینے کے آئے ہيں تو ان کے مطابق کھانا جائز ہوگا پینا نہيں وغیرہ اور اس طرح کی بہت سے مثالیں ہيں، جو شرعاً وعقلاً اس کے بطلان کو ظاہر کرتی ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیں شیخ الشنقیطی " کی تفسیر ’’اضواء البیان‘‘ 4/175-228۔ (توحیدخالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Ruling regarding who rejects Ijma' (consensus of Muslim scholars) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
اجماع کا انکار کرنے والے کا حکم
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: "حكم إنكار الإجماع مطلقاً أو إنكار بعض صوره" اور شیخ کی ویب سائٹ سے دیگر فتاوی۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/ijma_inkar_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: فضیلۃ الشیخ بعض علماء کرام کہتے ہیں کہ اجماع حجت نہيں ہے، بلکہ اس کی جانب میلان صرف اور صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کوئی بھی ایسا اجماع نہیں مگر اس کے پیچھے نص ہوتی ہے جس پر اعتماد کیا گیا ہوتا ہے، پھر یہ بات بھی ہے کہ بہت سے مسائل میں اجماع کا دعویٰ کرنا خود محل نظر ہوتا ہے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اجماع کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے اور اسلام سے ارتداد ہے، مطلقاً اجماع کا انکار کرنا جیسے کوئی کہے مطلقاً اجماع ہے ہی نہیں تو ایسا شخص کافر ہے۔ البتہ جو اجماع کی بعض صورتوں کا انکار کرتا ہے تو اس بارے میں نظر ہے، اس کے کلام کو دیکھا جائے گا، کیا وہ صحیح کہہ رہا ہے یا نہیں؟
کیونکہ بعض چیزیں ہيں جن کے بارے میں اجماع کا بس دعویٰ ہوتا ہے حالانکہ اس پر اجماع ہوا نہیں ہوتا۔ مگرجو مطلقاً اجماع کا انکاری ہو اور کہے اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی تو ایسا شخص کافر ہے، اللہ عزوجل کے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔ کیونکہ الحمدللہ اجماع کا وجود تو ہے۔ چناچہ علماء کا اجماع ہے عقیدے پر، اجماع ہے اللہ تعالی کی توحید پر، اجماع ہے سود کی حرمت پر، اجماع ہے زنا کی حرمت پر، اور ایسے مسائل جو ’’معلومة من الدين بالضرورة‘‘([1]) ہوتے ہیں۔ پس جو مطلقاً اجماع کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ البتہ جو اس کی بعض صورتوں کا انکار کرے تو ہوسکتا ہے اس کی کچھ گنجائش بنتی ہو، یعنی اس کے معاملے کو پھر دیکھا جائے گا۔
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ، یہ سائل کہتا ہے: جو اجماع وقیاس کا انکار کرتا ہے، کیا وہ بدعتی ہوگا؟
جواب: اجماع کا تو اہل سنت میں سے کوئی بھی انکار نہيں کرتا۔ یعنی صحیح اور قطعی اجماع کا اہل سنت میں سے کوئی بھی انکار نہيں کرتا۔ البتہ جو قیاس ہے تو یہ بات ٹھیک ہے کہ اس بارے میں اختلاف ہے، اگرچہ جمہور اس کے صحیح ہونے کے قائل ہيں، اور یہ احکام کے ادراک کرنے کا ایک مدرک ہے۔ لیکن اس کا انکار والے پر کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، جو کوئی بھی قیاس کا انکار کرتا ہے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ ہاں جو اجماع کی مخالفت کرے (یعنی اجماع کو مطلقاً مانتا ہی نہیں) تو دیکھیں آپ (قیاس اور اس میں) فرق ، اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: 115)
(جو کوئی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ چلے، تو ہم اسےوہیں پھیر دیں گے جہاں وہ خود پھرا اور اسے جہنم پہنچا دیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے)۔
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ، یہ سائل کہتا ہے: کیا ظاہریوں کا اختلاف کرنا اہل سنت کے اجماع کو توڑ سکتا ہے؟
جواب: نہيں، وہ ان کے اجماع کو نہيں توڑتا، بلکہ وہ اہل سنت میں سے ہی ہيں، لیکن ان کے یہاں ایک رائے پائی جاتی ہے وہ یہ کہ صرف ظاہر پر عمل ہوگا اور قیاس کو بالکل بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا ، اس چیز میں وہ مخالفت کرتے ہيں۔ تو ان کی مخالفت کو شمار نہیں کیاجائے گا اور خاطر میں نہیں لایا جائے گا([2])، لیکن یہ نہيں کہا جائے گا کہ وہ اہل سنت میں سے نہيں۔
[1] اس کا مطلب ہوتا ہے ایسے عقائد، مسائل واحکام جو ہر خاص وعام جانتا ہے اگرچہ اس کا تفصیلی فقہی حکم نہ بھی جانتا ہو، البتہ یہ زمانے، جگہوں اور قوموں کے اعتبار سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے ایک نو مسلم کو ہوسکتا ہے ارکان اسلام کا علم نہ ہو مگر ایک مسلمان معاشرے میں پلے بڑھے پیدائشی مسلمان کو ان کا علم ضرور ہوتا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: ظاہریوں کا اختلاف کب معتبر سمجھا جائے گا؟
جواب: ظاہریہ مسلمانوں کے فقہاء میں سے ہی ہیں، اور ان کے امام داود بن علی الظاہری ہیں او ر ان کے کبار آئمہ میں سےامام ابن حزم ابو علی رحمہما اللہ ہيں، یہ فقہاء ہيں، اور ان کے پاس عظیم فقہ ہے، لیکن یہ قیاس کی نفی کرتے ہیں، اور کہتے ہیں: بلاشبہ قیاس حجت نہیں ہے۔ حالانکہ قیاس کا انکار دراصل بدعت ہے۔ کیونکہ بلاشبہ صحابہ کرام اور سلف قیاس کا اقرار کرتے تھے، اور قیاس کو حجت مانتے تھے۔ سب سے پہلے جس نے قیاس کے انکار کی روش اپنائی وہ النظام تھا معتزلہ میں سے، اور اس میں بعض معتزلہ نے اس کی
اجماع کا انکار کرنے والے کا حکم
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: "حكم إنكار الإجماع مطلقاً أو إنكار بعض صوره" اور شیخ کی ویب سائٹ سے دیگر فتاوی۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/ijma_inkar_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: فضیلۃ الشیخ بعض علماء کرام کہتے ہیں کہ اجماع حجت نہيں ہے، بلکہ اس کی جانب میلان صرف اور صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کوئی بھی ایسا اجماع نہیں مگر اس کے پیچھے نص ہوتی ہے جس پر اعتماد کیا گیا ہوتا ہے، پھر یہ بات بھی ہے کہ بہت سے مسائل میں اجماع کا دعویٰ کرنا خود محل نظر ہوتا ہے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اجماع کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے اور اسلام سے ارتداد ہے، مطلقاً اجماع کا انکار کرنا جیسے کوئی کہے مطلقاً اجماع ہے ہی نہیں تو ایسا شخص کافر ہے۔ البتہ جو اجماع کی بعض صورتوں کا انکار کرتا ہے تو اس بارے میں نظر ہے، اس کے کلام کو دیکھا جائے گا، کیا وہ صحیح کہہ رہا ہے یا نہیں؟
کیونکہ بعض چیزیں ہيں جن کے بارے میں اجماع کا بس دعویٰ ہوتا ہے حالانکہ اس پر اجماع ہوا نہیں ہوتا۔ مگرجو مطلقاً اجماع کا انکاری ہو اور کہے اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی تو ایسا شخص کافر ہے، اللہ عزوجل کے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔ کیونکہ الحمدللہ اجماع کا وجود تو ہے۔ چناچہ علماء کا اجماع ہے عقیدے پر، اجماع ہے اللہ تعالی کی توحید پر، اجماع ہے سود کی حرمت پر، اجماع ہے زنا کی حرمت پر، اور ایسے مسائل جو ’’معلومة من الدين بالضرورة‘‘([1]) ہوتے ہیں۔ پس جو مطلقاً اجماع کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ البتہ جو اس کی بعض صورتوں کا انکار کرے تو ہوسکتا ہے اس کی کچھ گنجائش بنتی ہو، یعنی اس کے معاملے کو پھر دیکھا جائے گا۔
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ، یہ سائل کہتا ہے: جو اجماع وقیاس کا انکار کرتا ہے، کیا وہ بدعتی ہوگا؟
جواب: اجماع کا تو اہل سنت میں سے کوئی بھی انکار نہيں کرتا۔ یعنی صحیح اور قطعی اجماع کا اہل سنت میں سے کوئی بھی انکار نہيں کرتا۔ البتہ جو قیاس ہے تو یہ بات ٹھیک ہے کہ اس بارے میں اختلاف ہے، اگرچہ جمہور اس کے صحیح ہونے کے قائل ہيں، اور یہ احکام کے ادراک کرنے کا ایک مدرک ہے۔ لیکن اس کا انکار والے پر کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، جو کوئی بھی قیاس کا انکار کرتا ہے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ ہاں جو اجماع کی مخالفت کرے (یعنی اجماع کو مطلقاً مانتا ہی نہیں) تو دیکھیں آپ (قیاس اور اس میں) فرق ، اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: 115)
(جو کوئی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ چلے، تو ہم اسےوہیں پھیر دیں گے جہاں وہ خود پھرا اور اسے جہنم پہنچا دیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے)۔
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ، یہ سائل کہتا ہے: کیا ظاہریوں کا اختلاف کرنا اہل سنت کے اجماع کو توڑ سکتا ہے؟
جواب: نہيں، وہ ان کے اجماع کو نہيں توڑتا، بلکہ وہ اہل سنت میں سے ہی ہيں، لیکن ان کے یہاں ایک رائے پائی جاتی ہے وہ یہ کہ صرف ظاہر پر عمل ہوگا اور قیاس کو بالکل بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا ، اس چیز میں وہ مخالفت کرتے ہيں۔ تو ان کی مخالفت کو شمار نہیں کیاجائے گا اور خاطر میں نہیں لایا جائے گا([2])، لیکن یہ نہيں کہا جائے گا کہ وہ اہل سنت میں سے نہيں۔
[1] اس کا مطلب ہوتا ہے ایسے عقائد، مسائل واحکام جو ہر خاص وعام جانتا ہے اگرچہ اس کا تفصیلی فقہی حکم نہ بھی جانتا ہو، البتہ یہ زمانے، جگہوں اور قوموں کے اعتبار سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے ایک نو مسلم کو ہوسکتا ہے ارکان اسلام کا علم نہ ہو مگر ایک مسلمان معاشرے میں پلے بڑھے پیدائشی مسلمان کو ان کا علم ضرور ہوتا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: ظاہریوں کا اختلاف کب معتبر سمجھا جائے گا؟
جواب: ظاہریہ مسلمانوں کے فقہاء میں سے ہی ہیں، اور ان کے امام داود بن علی الظاہری ہیں او ر ان کے کبار آئمہ میں سےامام ابن حزم ابو علی رحمہما اللہ ہيں، یہ فقہاء ہيں، اور ان کے پاس عظیم فقہ ہے، لیکن یہ قیاس کی نفی کرتے ہیں، اور کہتے ہیں: بلاشبہ قیاس حجت نہیں ہے۔ حالانکہ قیاس کا انکار دراصل بدعت ہے۔ کیونکہ بلاشبہ صحابہ کرام اور سلف قیاس کا اقرار کرتے تھے، اور قیاس کو حجت مانتے تھے۔ سب سے پہلے جس نے قیاس کے انکار کی روش اپنائی وہ النظام تھا معتزلہ میں سے، اور اس میں بعض معتزلہ نے اس کی
پیروی کی، اور ظاہریوں نے بھی یہی قول اپنایا۔ پس ان کا یہ قول بے شک غلطی پر مبنی ہے۔ لہذا وہ مسائل جن میں قیاس کی ضرورت پڑتی ہے ان میں ظاہریوں کا اجتہاد معتبر نہيں۔ لیکن جو دوسرے مسائل ہيں تو ان کا قول ایسے ہی معتبر ہے جیسے دیگر فقہاء اسلام کا، حسب ادلہ انہیں دیکھا جائے گا۔ اور ظاہریہ نے بہت سے ان مسائل میں صواب کو پایا ہے جو کہ ظاہری دلائل سے متعلق ہوتے ہيں، اگرچہ بہت سے ان مسائل میں غلطی کرگئے ہيں جن میں قیاس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور عدل وانصاف کا تقاضہ ہے کہ ہر چیز کو اس کے لائق مقام پر رکھا جائے۔
سوال: کیا انہيں ظاہری کے وصف سے متصف کرنا بطور مذمت ہوتا ہے؟
جواب: نہیں مذمت نہيں، لیکن ظاہریہ خود اسی سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ وہ نصوص کا صرف ظاہر لیتے ہيں۔ بلکہ وہ خود بھی اپنے آپ کو ظاہری کہتے ہیں امام ابن حزم رحمہ اللہ کے بہت سے اشعار ہيں اس بارے میں کہ وہ خود کو ظاہری کہتے ہيں۔ الغرض یہ لوگ ظاہر نص کو لیتے ہيں۔ اور اس میں وہ بہت اچھے رہتے ہيں جن میں واقعی مسئلہ ظاہری نص کے مطابق ہوتا ہے اور ایسے دلائل نہیں ہوتے جو اس کے ظاہر کو پھیر سکیں، لیکن ان مسائل میں ظاہر سے چمٹے رہنے میں غلطی کرجاتے ہيں جن میں ان کے ظاہر کو پھیرنے والے دلائل موجود ہوتے ہيں۔ اور ظاہریوں کی خطرناکی وغلطیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی شریعت اور اس کے افعال میں حکمت وتعلیل کی نفی کرتے ہيں۔ لہذا ظاہریہ کو ان کے حسب حال ہی دیکھا جاتا ہے۔
(من شرح الأصول الثلاثة في درسه في المسجد النبوي في موسم حج 1429-1430هـ)
سوال: کیا انہيں ظاہری کے وصف سے متصف کرنا بطور مذمت ہوتا ہے؟
جواب: نہیں مذمت نہيں، لیکن ظاہریہ خود اسی سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ وہ نصوص کا صرف ظاہر لیتے ہيں۔ بلکہ وہ خود بھی اپنے آپ کو ظاہری کہتے ہیں امام ابن حزم رحمہ اللہ کے بہت سے اشعار ہيں اس بارے میں کہ وہ خود کو ظاہری کہتے ہيں۔ الغرض یہ لوگ ظاہر نص کو لیتے ہيں۔ اور اس میں وہ بہت اچھے رہتے ہيں جن میں واقعی مسئلہ ظاہری نص کے مطابق ہوتا ہے اور ایسے دلائل نہیں ہوتے جو اس کے ظاہر کو پھیر سکیں، لیکن ان مسائل میں ظاہر سے چمٹے رہنے میں غلطی کرجاتے ہيں جن میں ان کے ظاہر کو پھیرنے والے دلائل موجود ہوتے ہيں۔ اور ظاہریوں کی خطرناکی وغلطیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی شریعت اور اس کے افعال میں حکمت وتعلیل کی نفی کرتے ہيں۔ لہذا ظاہریہ کو ان کے حسب حال ہی دیکھا جاتا ہے۔
(من شرح الأصول الثلاثة في درسه في المسجد النبوي في موسم حج 1429-1430هـ)