Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.16K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
📰 کسی انسان کو داتا گنج بخش کہنا   

Calling a man as Data Ganj Bakhsh (The endower of treasure)
کسی انسان کو داتا گنج بخش کہنا   
جمع و ترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب و سنت بفہم سلف صالحین۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
داتا کا مطلب ہے دینے اور عطاء کرنے والا، اور گنج بخش سے مراد خزانے بخشنے اور عطاء کرنے والا۔ اور یہ صفات اللہ سبحانہ وتعالی کی ربوبیت کا خاصہ ہے، جبکہ بہت سے شرک میں مبتلا جاہل لوگ یہ صفات لاہور کے علی بن عثمان ہجویری کو دیتے ہیں، جن کا مزار بھی داتا دربار کے نام سے قائم ہے اور پورے لاہور کو ہی ایسے لوگ داتا کی نگری کہتے ہيں۔ ان کا سالانہ عرس بھی وہاں منعقد کیا جاتا ہے جہاں ہر قسم کے شرکیات وبدعات وخرافات اور فسق  وفجور کا دوردوراں ہوتا ہے۔  مزارات کی تعمیر اور عرس میلے لگانا ویسے ہی شریعت میں منع ہے اور شرک کی طرف لے جانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔
ایک مومن اچھی طرح سے جانتا ہے اور ایمان رکھتا ہے کہ اس کائنات کے تمام خزانے صرف اللہ تعالی کے ہیں، البتہ منافقین کو اس کی سمجھ نہیں:
﴿وَلِلّٰهِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَهُوْنَ﴾  (المنافقون: 7)
(حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے صرف اللہ ہی کے ہیں، لیکن منافقین نہیں سمجھتے)
اگر کوئی کہے کہ خزانے تو اللہ تعالی ہی کے ہیں لیکن اس نے بعض انسانوں کو عطاء کیے ہیں وہ ہمیں دیتے ہیں، تو اس کے بھی جواب میں فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ  ۡ وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ﴾  (الحجر: 21)
(اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ،اور ہم  اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے)
اوپر اللہ تعالی نے اپنے پاس تمام خزانے ہونے اور اسے خود ہی عطاء کرنے کا اثبات فرمایا، دیگر آیات میں اسے دوسروں  کے پاس ہونے کی نفی بھی فرمائی:
﴿اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيْزِ الْوَهَّابِ﴾  (ص: 9)
(کیا انہی کے پاس تمہارے رب کی رحمت کے خزانے ہیں؟!  جو سب پر غالب ہے، بہت عطاء کرنے والا ہے)
اور فرمایا:
﴿اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ﴾  (الطور: 37)
( یا ان کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں، یا وہی حکم چلانے والےنگران  ہیں ؟!)
اگر کوئی کہے کہ یہ تو مشرکین کو کہا جارہا ہے، لیکن انبیاء و اولیاء کو تو خزانے عطاء کردیے گئے ہیں اور وہی عطاء کرتے ہیں، تو اس کا بھی جواب اللہ تعالی نے خود نبیوں کی زبانی قرآن مجید میں دلوایا ہے کہ:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ  ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ  ۭقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ  ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ﴾  (الانعام: 50)
(کہہ دو میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ یقیناً میں فرشتہ ہوں ، میں پیروی نہیں کرتا مگر اسی کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ کہو کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتے ہیں ؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے)
اور فرمایا:
﴿وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ اللّٰهُ خَيْرًا  ۭ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ښ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ﴾  (ھود: 31)
(اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ یقیناً  میں فرشتہ ہوں، اور نہ میں ان لوگوں کے بارے میں جنہیں تمہاری آنکھیں حقیر سمجھتی ہیں، یہ کہتا ہوں کہ اللہ انہیں ہرگز کوئی بھلائی نہیں دے گا، اللہ تعالی اسے زیادہ جاننے والا ہے جو ان کے دلوں میں ہے، (اور اگر میں ایسا کہوں تو) یقیناً میں تو اس وقت ظالموں سے ہوں گا)
بلکہ اللہ تعالی ہی رب  العالمین ہے جو بے حساب دن رات اپنے خزانے لٹاتا خرچ کرتا ہے مگر اس میں کوئی کمی نہيں آتی۔ انسانوں کا عام حال  تو اللہ تعالی نے یہ ذکر فرمایا کہ اگر ان کے پاس رب کے خزانے بھی ہوں تو بخل کرنے لگیں:
﴿قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ  ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا﴾  (الاسراء: 100)
(کہہ دو اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک بھی ہوتے تب بھی اس وقت تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ضرور روک لیتے، اور انسان واقعی بہت بخیل و تنگ دل ہے)
البتہ جو حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنی اور امت کی بعض خصوصیات ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
”فَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي
يَدِي “([1])
(میں سو رہا تھا کہ  میں زمین کے خزانوں کی چابیاں  دیا گیا، اور وہ میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں)۔
 اس سے مراد  جیسا کہ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے بھی ذکر فرمایا کہ یہ ہے:
زمین کے خزانوں کی چابیوں سے مراد  جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی امت کی فتوحات ہوں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ: زمین میں چھپے خزانے ۔اھ
اسی لیے تو حدیث کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں جو کہ سنت کا صحیح فہم سلف ہے:
” وَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا “
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس دنیا سے ) چلے گئے، اور تم ان خزانوں کو نکال رہے ہو سمیٹ رہے ہو)۔
لہذا اس کا یہی مفہوم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حدیث کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی ربوبیت کی صفات دیتے ہوئے داتا گنج بخش نہیں سمجھنا شروع کردیا تھا۔  ناہی وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اب  سب کچھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاء کردیا ہے اللہ کو چھوڑ کر انہی سے مانگا جائے اور دعاء و پکار جو کے عبادت ہے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ادا کیا جائے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی عقیدے کی تعلیم دی جیسا کہ اوپر قرآن کریم کی آیات گزریں کہ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ فرمائيں میں ان چیزوں کا مالک و مختار نہيں، اسی طرح حدیث قدسی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے:
” أَنْفِقْ، ‌‌‌‌‌‏أُنْفِقْ عَلَيْكَ، ‌‌‌‌‌‏وَقَالَ:‌‌‌‏ يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، ‌‌‌‌‌‏وَقَالَ:‌‌‌‏ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، ‌‌‌‌‌‏فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، ‌‌‌‌‌‏وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، ‌‌‌‌‌‏وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ، ‌‌‌‌‌‏يَخْفِضُ، ‌‌‌‌‌‏وَيَرْفَعُ “([2])
 ((بندو!)  تم خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا۔ اور فرمایا: اللہ کا ہاتھ (ایک روایت میں ہے داہنا ہاتھ) بھرا ہوا ہے۔ دن رات  مسلسل خرچ کرتے رہنے سے بھی اس میں کمی  نہیں آتی ۔اور فرمایا:  تم نے کبھی دیکھا نہیں کہ جب سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن بے شک اس نے اس میں کچھ کمی نہیں کی جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس کا عرش پانی پر تھا، اور اس کے ہاتھ میں میزان ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے)۔
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو ہر قسم کے شرکیات وبدعات سے محفوظ رکھے۔

 


[1] صحیح بخاری 2977، صحیح مسلم 524۔


[2] صحیح بخاری 4684۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/کسی-انسان-کو-داتا-گنج-بخش-کہنا/

Download
📰 جنگ وامن جیسے پیش آمدہ حالات میں ایک سلفی کا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟ – مختلف علماء کرام

What should be the stance of a Salafee regarding current affairs of war or peace? – Various 'Ulamaa
جنگ وامن جیسے پیش آمدہ حالات میں ایک سلفی کا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمن الرحیم
فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾  (النساء:  83)
(اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے وہ اس کی نشر و تشہیر شروع کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے اولی الامر  کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں استنباط کرتے (ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ) ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے)
اولی الامر سے کون مراد ہيں؟
خبروں کے متعلق ہم شرعی طور پر نجی ذرائع کے پابند ہیں یا سرکاری ذرائع کے؟
پیش آنے والے حالات میں اولیٰ الامر کی جانب رجوع نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں؟
اور کیا ایسا کرنے والے سلفی ہوسکتے ہیں؟
ان کے جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالے میں علماء کرام کا کلام پڑھیں۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/جنگ-وامن-جیسے-پیش-آمدہ-حالات-میں-ایک-سلف/

Download
📰 مسلمان پر ہتھیار اٹھاناایک سنگین جرم

Taking up arms against a Muslim is a serious offence
مسلمان پر ہتھیار اٹھاناایک سنگین جرم   
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: احادیث مبارکہ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ابن عمر، ابو موسیٰ اشعری وابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا“([1])
(جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں)۔
ایک روایت میں ہے:
”مَنْ سَلَّ عَلَيْنَا السَّيْفَ، فَلَيْسَ مِنَّا“([2])
(جس نے ہم پر تلوار سونتی وہ ہم میں سے نہیں)۔
اور بعض روایات میں ”مَنْ شَهَرَ عَلَيْنَا۔۔۔ “([3])کے لفظ ہیں یعنی جس نے تلوار ہم پر بے  نیام کی یا ہتھیار لوڈ کیا۔
یہاں تک کہ ابن الزبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
” مَنْ شَهَرَ سَيْفَهُ ثُمَّ وَضَعَهُ فَدَمُهُ هَدَر “([4])
(جس نے تلوار میان سے نکالی پھر لوگوں پر رکھی یا چلائی تو اس کا خون رائیگاں ہے)۔
[یعنی حکومتی قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے شخص کو قتل کرسکتے ہیں]۔
اور اس بارے میں شدید احتیاط وسختی فرمائی ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” لَا يُشِيرُ أَحَدُكُمْ عَلَى أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنْزِعُ فِي يَدِهِ فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ “([5])
(کوئی شخص اپنے کسی بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، کیونکہ بلاشبہ وہ نہیں جانتا ہوسکتا ہے کہ شیطان اس کے ہاتھ سے وہ چھڑوا دے  یا چلوا دے پس وہ (اس مسلمان کو مار کر) جہنم کے گھڑے میں گرپڑے)۔
یہاں تک کہ حکم دیا کہ جو ہماری مسجد یا بازار سے گزرے اور اس کے پاس تیر ہوں تو ان کی نوک کا ذرا خیال رکھے یا قابو میں رکھے، کہیں کوئی مسلمان زخمی نہ ہوجائے۔ جیسا کہ جابر وابو موسیٰ رضی اللہ عنہما کی صحیح بخاری ([6])میں روایات  موجود ہیں۔

 


[1] صحیح بخاری 7070، صحیح مسلم 101۔


[2] صحیح مسلم 102۔


[3] اسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن 2577 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح ابن ماجہ 2106 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔


[4] اسے امام النسائی نے اپنی سنن 4102 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح النسائی 4109 میں اسے صحیح موقوف قرار دیا ہے۔


[5] صحیح بخاری 7072۔


[6] صحیح بخاری 7073-7075۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/مسلمان-پر-ہتھیار-اٹھاناایک-سنگین-جرم/

11735
agar Muslim hakim ilm & koshish k bawajod faislay may ghalati kar jaye?

#salaf #urdusalafidawah #tawheed #sunnah #salaf #salafi #UrduSalafiDawah #urdu #pakistan #indiahttps://t.co/Zk0lKJBHTF