Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Article] Reaction upon the #disparagement of a Salafee scholar - Shaykh Muhammad bin Umar Bazmool

کسی سلفی شیخ کی #جرح ہوجانے پر رد عمل

فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ

(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: سؤال و جواب 39-41 - على جدران الفيسبوك، الأصدار الأول۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/salafi_shaykh_jarh_hojanay_pr_raddemal.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال:آجکل ایک خطرناک شبہہ سلفیوں کے مابین عام ہوگیا ہے، کہتے ہیں: جب کبھی بھی ہم کسی سلفی شیخ پر اعتماد کرتے ہیں کہ اسے علماء نے تزکیہ دیا ہوتا ہے، وجہ اعتماد کی یہ ہوتی ہے کہ ہم اس کے علم پر اعتماد کرتے ہيں ناکہ شخصیت پرستی، مگر اچانک ہی اسے ساقط قرار دے دیا جاتا ہے، ہمیں سبب بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کہ آخر ہم اس کی غلطی سے احتیاط کریں، اور ہمارے گھروں میں ذاتی مکتبات کا یہ حال ہوتا ہے جب کبھی کچھ مشایخ کے کلام سے اسے بھرتے ہيں پھر دوبارہ سے ان کے کلام سے اسے خالی کرنا پڑتا ہے۔ اس شبہہ کا ہم کس طرح رد کریں گے کہ جو اب ایک ایسی متعدی بیماری کی صورت اختیار کرگیا ہے کہ جس نے سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان پر شیطان مسلط ہوگیا ہے۔ آپ کی اپنے سلفی فرزندوں کے لیے کیا نصیحت ہے ؟

جواب: یہ بات واقعی موجود ہے اور ہم نے بھی محسوس کی ہے۔ اور شاید کہ سائل کی مراد کو صحیح طور پر مندرجہ ذیل امور واضح کریں گے:

1- سلفیت کا معنی اور اس کی طرف انتساب کرنے کا معنی یہ نہيں کہ خود سلفی غلطی میں نہيں پڑ سکتا۔ برابر ہے کہ چھوٹا طالبعلم ہو یا بہت بڑا عالم ہو، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ‘‘([1])

(ہر بنی آدم خطاءکار ہے، اور بہترین خطاءکار وہ ہیں جو توبہ کرتے رہتے ہیں)۔

2- ہر غلطی کے سبب اس غلطی کرنے والے سے اہل بدعت والا معاملہ نہيں کیا جاتا، اور یہ بہت اہم مسئلہ ہے، اور سلفیوں اور اس باب میں متشدد لوگو ں کے مابین فرق کا مقام ہے، جن متشدد لوگوں میں سے حدادی لوگ بھی ہیں۔ کیونکہ جن باتوں پر ا ن (حدادیوں) کا انکار کیا جاتا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ایسی غلطی جس میں سلفی مبتلا ہوا اس میں اور ایسی غلطی جس میں صاحب بدعت و ہویٰ مبتلا ہوفرق نہیں کرتے، اور ان کے نزدیک ان دونوں سے یکساں معاملہ کیا جاتا ہے! حالانکہ بے شک صاحب سنت کو تو نصیحت و رہنمائی کی جاتی ہے، اور اس کے بارے میں یہ گمان رکھا جاتا ہے کہ وہ ضرور حق کو قبول کرے گا اور اس کی طرف رجوع کرے گا۔ اور یہ کوئی کمزوری یا بزدلی نہيں بلکہ یہ ایک ادبی شجاعت و بہادری ہے کہ جس کا اعتقاد ایک مسلمان اپنے رب کے لیے رکھتا ہے۔کیونکہ حق سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اتباع و پیروی کی جائے!

3- سلفیت کا معنی یہ نہیں ہے کہ سلفیوں کے مابین اجتہادی علمی مسائل میں اختلاف واقع نہیں ہوسکتا ۔ اور سلفی کا کتاب و سنت کی فہم سلف صالحین کے مطابق اتباع کرنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اجتہادی مسائل میں ان میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ آپ آئمہ اربعہ کو دیکھ لیں وہ سلف صالحین کے متبعین میں سے تھے لیکن ان کے مابین علمی اجتہادی مسائل میں وہ اختلافات ہوئے جو معلوم و معروف ہیں!

4- سلفیت کا یہ معنی نہيں ہے کہ کوئی سلفی دل کے امراض جیسے خفیہ شہوات میں مبتلا نہيں ہوسکتا مثلًا شہرت پسندی، اپنے بھائیوں کے ساتھ سختی کا معاملہ۔ جب حقیقت حال یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کا آئینہ ہوتا ہے، تو چاہیے کہ آپس میں نصیحت و رہنمائی کرتے رہيں۔ واللہ المستعان۔

5- سلف صالحین کے منہج میں سے نہيں کہ کسی کے قول کی اتباع کو لازم قرار دیا جائے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، خصوصا ً اجتہادی مسائل میں۔

6- ہوسکتا ہے ایک سلفی عالم کسی دوسرے سلفی پر کلام کرے اور کسی قصور وکوتاہی کے سبب اس پر زیادتی بھی کر بیٹھے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ساقط کردیا جائے۔ اس بارے میں مؤقف حسن ظن کا ہوتا ہے۔ تو ہم یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس عالم کا کلام اس کے اجتہاد کا نتیجہ ہے جو اسے صحیح لگتا ہے۔ لہذا وہ دو اجروں کے درمیان ہی ہے اگر صواب کو پایا تو دوہرا اجر، اور اگر غلطی کرگیا تو ایک اجر۔

7- اگر کسی ایسے پر کلام کیا گیا جس کی عدالت و ثقاہت کو آپ جانتے تھے تو ان کے بارے میں کلام اس وقت تک قبول نہ کریں جب تک اس کا سبب اور جرح کی تفسیر بیان نہ کی جائے۔ ان کے ساتھ وہ معاملہ نہيں کیا جائے گا جو اصلاً ہی متکلم فیہ ہو، یا ان جیسا جن کی عدالت و ثقاہت کو آپ جانتے ہی نہيں۔

8- حسن ظن کو مقدم رکھا جائے گا، اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں سوء ظن نہ رکھیں جب تک خیر پر محمول رکھنے کے کوئی نہ کوئی مواقع آپ کو میسر ہوں۔
9- شخصیات کا تقدس (شخصیت پرستی ) نہيں۔ اور سائل نے (جزاہ اللہ خیراً) اپنے سوال میں ہی اس پر تنبیہ کردی تھی اپنے اس قول سے کہ: اس کی شخصیت پرستی کی وجہ سے نہیں۔

10- ہر وہ جس کے بارے میں کلام کردیا گیا ہو ساقط نہیں ہوتا، اور نہ ہی ہر کلام کسی کے حق میں جرح ہی ہوتا ہے۔

11- (جہاں تک تزکیو ں کا حوالہ ہے تو) یہ سلفیت میں سے نہیں کہ علماء سے تزکیات حاصل کرنے کے لیے الحاح و زاری کی جائے اور ان کے پیچھے پڑا جائے۔ ایک مسلمان کا اپنا علم و عمل ہر چیز سے قبل اس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ چناچہ کوئی مقدس سرزمین کسی کو مقدس نہيں بنادیتی نہ ہی کسی کا نسب اس کو مقدس بناتا ہے، اسی طرح سے لوگوں کی جرح سے متعلق کلام بھی کسی کو مقدس نہيں بنادیتا۔

12- سلفیت میں سے نہيں کہ لوگوں کے عیوب پر اور ان کی جرح ہوجانے پر خوش ہوا جائے، اور بلاضرورت اس کے لیے دوڑ دھوپ کی جائے۔ ایک طالبعلم کو چاہیےکہ اس میں منہمک ہونے سے پرہیز کرے ، اور اس معاملے کو اہل علم کے ہاتھوں میں ہی چھوڑ دے، کسی فتنے کی آگ کو بھڑکانے اور اس کے شعلے اڑانے کا سبب نہ بنے، بلکہ فتنے کو بجھانے کا سبب بنے اس کی آگ سے دوری اختیار کرکے، صبر اور حسن ظن کے ذریعے، اور اس معاملے کو اہل علم کے سپرد کرنے کے ذریعے۔ واللہ الموفق۔

سوال: کیا جرح و تعدیل اجتہادی یا اختلافی مسائل میں سے ہے ؟

جواب: جرح وتعدیل کے بارے میں جو اصل ہے وہ یہ کہ بے شک یہ ایک خبر ہے، جسے کوئی عالم آپ کے لیے نقل کرتا ہے۔ یا وہ مجروح (جس کی جرح کی گئی) یا معدل (جس کی تعدیل کی گئی) کے متعلق خبر دیتا ہے۔ اس میں اجتہاد دو پہلوؤں سے داخل ہوتا ہے:

ایک پہلو: اسے ا س (شخص) پر مرتب ہونے والے اس کے مناسب ِحال اس پر فٹ کرنا ۔

دوسرا پہلو: ایک عالم کی اس کی عبارت سے مراد کا فہم۔

واللہ اعلم

سوال: کوئی شخص کب سلفیت سے خارج ہوتا ہے؟

جواب: سلفیت سے خروج یا تو کلی طور پر ہوتا ہے اگر وہ سلفیت کے اصول کی مخالفت کرتا ہے۔

اور اس سے خروج جزئی بھی ہوتا ہے اگر وہ سلفی منہج کے بعض جزئی مسائل کی مخالفت کرتا ہے۔

اور اگر یہ جزئی مسائل بھی باکثرت ہوتے جائيں کہ جس میں وہ سلف کی مخالفت کرتا ہے ، تو وہ کثرت مخالفت کے سبب سلفیت سے خارج ہوجاتا ہے۔

واللہ اعلم۔



[1] الترمذي صفة القيامة والرقائق والورع 2499, إبن ماجه الزهد 4251, أحمد 3/198, الدارمي برقم 2727 كلهم من حديث أنس.
[Urdu Article] An explicit speech falsifying the accusation against Salafees as "#Ghulat_ut_Tajreeh" – Shaykh Muhammad bin Hadee Al-Madkhalee

کھلامقال برائے سلفیوں پر سے ’’#غلاۃ_التجریح‘‘ کی تہمت کا ابطال

فضیلۃ الشیخ محمد بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ

(رکن تعلیمی کمیٹی، کلیۃ حدیث شریف ودراسات اسلامیہ، مدینہ نبویہ)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: القول الصريح في إبطال نبز أهل السنة بغلاة التجريح.

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/ghulaat_ut_tajreeh_tohmat_izalah.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمين، والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسانٍ ألى يوم الدين، أما بعد:

احباب کرام! ایک ایسی بات ہے جس پر تنبیہ کرنا ضروری ہے، جس کی وجہ اس بارے میں التباس (حق وباطل میں خلط ملط) کا واقع ہونا ہے، اور ناقابل ستائش اغراض ومقاصد رکھنے والے اوراہواء پرستی میں مبتلا لوگ اس کو لے کر لوگوں پر تلبیس (حق وباطل میں خلط ملط) کرتے ہيں۔اور یہ مسئلہ ہے بعض طعن کرنے والوں کا طعنہ زنی کرنا ان علماء سنت اور اہل سنت پر جو کہ امت کے خیرخواہ ہیں، اسے بدعات اور اہل بدعت سے خبردار کرتے ہيں، کہ یہ علماء سنت اور اہل سنت متشدد ہیں۔ پھر اس سے یہ اصول مقرر کردیا انہوں نے کہ علماء سنت میں سے بعض معتدل ہیں، بعض متشدد اور بعض متساہل ہیں، اور اس بات کو انہوں نے اصل اصول ہی بنالیا۔پھر وہ اس بنیاد پر متشدد کہنے پر بھی بس نہیں کرتے بلکہ اس لفظ سے آگے منتقل ہوکر غلاۃ التجریح (جرح کرنے میں غلو سے کام لینے والے) کہتے ہیں۔ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہے جس نے ان کے اس جھوٹ کا بھانڈا واضح طور پر پھوڑ دیا۔ اور ہم اللہ تعالی سے دعاء کرتے ہيں کہ وہ ہمیں اور آپ کو حق وہدایت پر قائم رکھے یہاں تک کہ ہماری اس سے ملاقات ہو۔

میں یہ کہتا ہوں کہ: بلاشبہ جو لوگ یہ کہتے ہيں اور علماء جرح وتعدیل کی تقسیم بطور معتدل، متساہل اور متشدد کرتے ہیں تو یہ بات صحیح ہے۔ اور اس بارے میں علماء کرا م کا کلام بھی معروف ہے لیکن اس کا باب ہے روایت پر طعن کا باب جو کہ حفظ اور ضبط سے متعلق ہوتا ہے۔ لیکن جو بدعت ہے تو اس کا باب علیحدہ باب ہے۔ اُس کا باب تو باب ضبط ہے جیسا کہ ہم کہتے ہيں کہ صحیح حدیث وہ ہے جسے عادل وضابط روایت کریں، کیا ایسا نہیں؟ تو یہاں مروی سےمتعلق ضبط پر جو کلام کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہوتا ہے جیسے ثقةٌ، ثقةٌ ثقة، ثقةٌ ثقةٌ ثقةٌ ثقة، جبل، ثقةٌ حافظ، ضعيف، صدوق يخطىءُ، صدوق يخطىءُ كثيراً، صدوق سيء الحفظ، صدوق له أوهام، فاحش الغلط … الخ. تو یہ راوی پر طعن کے دس اسباب ہيں۔ پس ہمارے پاس ضبط سے متعلق جو کچھ ہے یہ اس کا باب ہے۔ لہذا اس باب میں جو علماء جرح وتعدیل متشدد ہیں وہ راوی کے ادنیٰ سے غلط پربھی رد کردیتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ، بعض آئمہ جرح فرماتے ہیں: میں تمام لوگوں کا کلام قبول کرسکتا ہوں سوائے امام عفان بن مسلم اور ابو نُعیم رحمہما اللہ کے کلام کے، میں اسے قبول نہيں کرتا، (پوچھا گیا) کیوں؟ فرمایا: انہوں نے تو کسی کو بھی نہيں چھوڑا مگر یہ کہ اس پر طعن ضرور کیا ہے۔ کیونکہ دراصل وہ خود حفظ کے بڑے اعلیٰ درجے پر تھے تو چاہتے تھے کہ سب لوگ بھی اسی درجے پر ہوں، حالانکہ یہ ناممکن بات ہے۔ اب فلاں کے پاس بہت کم غلطی ہے، فلاں کے پاس وہم ہے لیکن بے ضرر سا، یعنی خفیف وہم جس کی وجہ سے اس کا ضبط کچھ کم ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے وہ اتر کر کس درجے پر پہنچ جاتاہے؟ حسن کے درجے پر۔ تو اس کی حدیث قبول کی جاتی ہے۔ اور اسی طرح سلسلہ چلتا ہے یہاں تک کہ اس باب میں متساہل تک پہنچتا ہے۔ ہمارے پاس اس میں متساہل بھی ہیں کہ جن کا گزر کسی مجہول راوی پر سے ہو تو اس کی بھی توثیق کردیتے ہیں۔ اور کبھی آپ ان کو پائیں گے کہ وہ کہہ رہے ہوں گے: میں اسے نہيں جانتا، نہ اس کی باپ کو جانتا ہوں، نہ اس کے دادا کو جانتا ہوں لیکن پھر بھی اسے اپنی اس کتاب میں ذکر کردیں گے جس کا نام انہوں نے ’’کتاب الثقات‘‘ رکھا ہے۔ وہ کیسے ثقہ ہوسکتا ہے جبکہ آپ اسے جانتے ہی نہيں، نہ اس کے باپ کو نہ دادا کو؟! یہ تو مجہول ہوا۔ تو پھر کیا یہ تساہل نہیں؟ جی ہاں یہ تساہل میں شمار ہوگا۔
پہلی نوع ہم نے ذکرکردی ان میں سے امام ابن حبان رحمہ اللہ ہیں۔ اور یہ بات ان کے ان تراجم (سوانح) میں پائی جاتی ہے جو ان کی کتاب الثقات میں ہیں۔ جس وجہ سے ان کی توثیق کو ان کے تساہل کی وجہ سے محل نظر بنا دیا گیا۔ اور دوسری طرف یہ آئمہ عفان وابو نعیم رحمہما اللہ اور ان جیسے ہیں۔ جبکہ امام احمد رحمہ اللہ اور ان جیسے معتدلین میں سے ہیں۔ تو یہ باب ہے ضبط وحفظ کا باب۔ اس میں کہا جاتا ہےکہ فلاں معتدل ہے، متساہل ہے اور متشدد ہے۔ ہم نے ان میں سے کسی سے نہیں سنا کہ جس نے کبھی کہا ہو: فلاں جرح میں غلاۃ ہيں! یہ تو اس پندرہویں صدی کا گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔کسی نے نہیں کہا: غلاۃ التجریح۔ البتہ یہ کہا کہ: متشددین ہيں، اور یہ حق بات ہے۔جبکہ غلو تو مذموم ہے، یہ لفظ تو شرعا ًہی مذموم ہے۔چناچہ یہ لوگ ایک مذمت خود سے گڑھ کر اسے اہل سنت پر چسپاں کرنا چاہتے ہیں، لیکن ھیہات ھیہات(بہت بعید ہے یہ بات)! اللہ سبحانہ وتعالی ان کا پردہ چاک فرماتا رہے گا۔

جبکہ جو دوسری نوع ہے:وہ ہے جو ضبط روایت کے بارے میں حفظ سے متعلق معاملہ ہے اسے وہ ان پر لاگو کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو اس میں سے نہيں۔ اور یہ وہ بات ہے جس پر رجال کے متعلق جرح وتعدیل کے مکمل ہوجانے پر علماء سنت گامزن ہیں کہ انہی کی جرح وتعدیل کو لیتے ہيں۔

تو ہم آج جرح اور تعدیل کرتے ہيں لیکن اولین کے کلام ہی سے، اس بارے میں ہم ان سے الگ خود مستقل طور پر یہ نہیں کرسکتے، بلکہ انہی کا کلام جمع کرتے ہيں اگر اختلاف ہو ان میں اور پھر راجح قرار دیتے ہیں۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ آکر کسی کو ضعیف قرار دیں اور آپ آج آکر اپنی طرف سے اس کی توثیق کرلیں؟ نہیں۔ اگر آپ ان کی مخالفت کریں تو لازم ہےکہ اس کی بنیاد ان قواعد پر ہو اور آپ اس کی طرف رجوع کریں جس نے امام احمد کی اس میں مخالفت کی ہو۔ لہذا درحقیقت جرح وتعدیل باقی ہيں اس زاویے سے کہ ہم اسے استعمال کرتے ہيں جس کے ذریعے ہم روایات کو ضعیف قرار دیتے ہيں اور کہتے ہيں کہ فلاں معتدل ہے، فلاں متوسط ہے اور فلاں متشدد ہے۔ لیکن اس کی اصل ابتداء ہماری طرف سے نہیں ہوتی بلکہ ہم تو صرف ان اقوال ہی کی طرف دیکھتے ہيں جو اس بارے میں مدون کیے گئے۔ اور ان راویوں اور ان کے احوال کی تدوین تو ختم ہوچکی ہے۔ ہم تو بس ان کے اقوال ہی نقل کرتے ہيں، پھر اگر ان میں اختلاف ہوجائے توہم ان میں ترجیح دیتے ہيں ، جیسا کہ فقہی مسائل میں بھی ایسا کرتے ہيں کہ اگر علماء کرام میں اختلاف ہوجائے تو ہم معروف قواعد اور دلائل کی روشنی میں ان میں ترجیح دیتے ہیں۔

لیکن جہاں تک معاملہ ہے بدعت پر طعن کرنے کا تو وہ آج تک باقی ہے۔ اور یہی وہ ہے کہ جس کی وجہ سے علماء سنت امت کی خیرخواہی چاہتے ہوئے اور انہیں خبردار کرتے ہوئے اہل اہواء کے خلاف کلام کرتے ہیں۔ تو انہوں نے ضبط سے متعلق جو یہ کلام تھا اسے اٹھا کر بدعت سے متعلق طعن پر فٹ کردیا۔ راوی پر طعن کے کتنے اسباب ہیں، دس؟ پانچ کس سے متعلق ہیں؟ جواب دیں؟ پانچ ضبط سے متعلق ہيں ، اور پانچ عدالت سے متعلق ہیں۔ اور یہ جو انسان پر اس کی بدعت کی وجہ طعن کیا جاتا ہے وہ اس کی دینداری اور عدالت سے متعلق ہوتا ہے، پس یہ تاقیامت باقی رہے گا۔ (علماء کرام)عصر ِروایت سے ہی کہتے چلے آئے ہیں فلاں ثقہ ناصبی ہے، ثقہ خارجی ہے، ثقہ مرجئی ہے، ثقہ قدری ہے تو آپ ملاحظہ کریں ان کی توثیق ضبط کے زاویے سے ہے جبکہ طعن عدالت کے زاویے سے ہے۔ تو انہوں نے دونوں کو جمع کردیا۔ اس کے ضبط وحفظ میں تزکیہ دیا لیکن اس کی عدالت پر طعن کیا۔ کیونکہ بدعت کے باب میں ان کے یہاں وہ مخدوش تھا۔اور یہ اس لیے کیا گیا تاکہ راویوں کے اختلاف کی صورت میں اس روایت کے بارے میں جس کا راوی بدعت میں ملوث ہواستفادہ کیا جائے۔ اور اس بارے میں اختلاف معروف ہے کہ کیا اس سے مطلقاً روایت کی جائے گی یا مطلقاً نہیں کی جائے گی، یا پھر تفصیل کی جائے گی، اور یہ کلام تو معروف ہے۔ پس جو تفصیل کے قائل ہيں وہ کہتے ہيں اگر اس کی مروی روایت ایسی آئے جو اس کی بدعت کی موافقت میں ہو تو ہم اسے رد کردیں گے، لیکن اگر ایسی آئے جو اس کی بدعت کی موافقت میں نہ ہو، یا پھر ایسی آئے جو اس کی بدعت کی تائید میں نہ ہو تو ہم اسے قبول کرلیں گے۔ یعنی تہمت رفع ہوجائے گی تو بدعت ہونے کے باوجود اس کی اس جانب سے استفادہ کیا جائے گا۔ اسی لیے وہ کہتے تھے کہ ثقہ ناصبی ہے، ثقہ قدری ہے، ثقہ خارجی ہے اور اسی طرح باقی دوسرے۔
شاہد یہ ہے کہ یہ ایک عظیم مصیبت ہے اس طرح کہ اس کی وجہ سے نوجوانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کیا جاتا ہے، طالبعلموں کی بھی اور عوام الناس کی بھی۔ یہ جو خبیث مقولہ ہےجو اس زمانے میں ظاہر ہوا ہے، جس کے منبع وایجاد کرنے والے یہی اہل اہواء وبدعت ہيں کہ جنہوں نے اسے موجودہ جدید احزاب میں پائے جانے والے بدعتیوں کے دفاع کےلیے کھڑا کیا ہے، تاکہ اس کے ذریعے سے نظروں کو ان کی عیب دیکھنے سے روک دیا جائے۔ لیکن الحمدللہ اہل حدیث وسنت واثر تمام لوگوں سے بڑھ کر ذہین وفطین ہيں، اور سب سے سچے بھی، اور سب سے شجاع وبہادر بھی، ساتھ ہی تمام لوگوں سے بڑھ کر لوگوں کے خیرخواہ ہیں لہذا ان میں یہ زہر سرایت نہیں ہوا۔ میرے عزیز نوجوانوں آپ کے اندر بھی یہ خبیث مقولہ سرایت نہ کرجائے۔ ان لوگوں کی جو اس سے مراد ہے اسے اچھی طرح سے سمجھ جاؤ ،اور انہوں نے صرف اسی لیے اسے کھڑا کیا ہے اور اس کا علم بلند کیا ہے تاکہ ان اہل بدعت کا دفاع کیا جاسکے جن کے ساتھ یہ لوگ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور صحبت اختیار کرتے ہیں، پھر اس کے بعد وہ اور یہ دونوں ایک ہی چیز بن کر رہ جاتےہيں اور یہ انہیں اٹھا کر سنت میں داخل کردیتے ہيں، اور ان پر اپنے اس خبیث مقولے سے تہمت لگاتے اور طعن کرتے ہیں جو ان سے تحذیر کرتے ہيں یہ کہتے ہوئے کہ یہ غلاۃ التجریح ہيں۔ ان سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہتا۔ ہم ان سے کہتے ہیں: ٹھیک ہے، لاؤ جس جس پر ہم نے طعن کیا ہے یا علماء سنت نے طعن کیا ہے، پھر لوگوں کو بیان کرو ہمارے طعن کرنے کا سبب؟ اگر تم واقعی سچے ہو، تو وضاحت کرو بیان کرو، کہو ان سے کہ فلاں پر طعن کیا ہے، مگر کیوں؟ کیونکہ بلاشبہ اس نے ایسا ایسا کہا تھا اس لیے۔ طعن کا سبب تو ذرا بیان کرو۔ اب یہ لوگ کیوں یہاں مطالبہ نہیں کرتے جرحِ مفسر کا؟ تفصیل کرو اب لوگوں کے لیے کہ ہم نے کیوں کہا ہے فلاں میں یہ یہ اور یہ بات ہے؟ کچھ اس کی رسوا کن باتیں تو بیان کریں کہ جنہیں اگر لوگ جان لیں تو ان پر کہنے والے کی یہ بات صادق آئے کہ:

مساوٍ لو قسمن على الغواني لما أمهرن إلا بالطلاق

(ایسی برائیاں ہيں کہ اگر انہیں خوبرو حسینائوں میں بھی تقسیم کردیا جائے، تو ان کا مہر سوائے طلاق کے کچھ نہ ہو)

اگر ان کی رسوا کن باتیں علماء سنت کی طرف سے امت کی عام عوام کے سامنے پڑھی جائیں ، صرف طالبعلم نہيں بلکہ عام عوام تک ان سے ایسے بھاگيں گے جیسے صحیح سالم شخص خارش زدہ سے بھاگتا ہے، اہل اہواء کا ناسور خارشی ناسور کی طرح ہی ہوتا ہے:

وما ينفع الجرباء قُربُ صحيحةٍ إليها ولكنَّ الصحيحة تُجْرَبُ.

(خارش زدہ کو صحیح سالم لوگوں کا قرب کوئی فائدہ نہيں دیتا، بلکہ صحیح لوگ بھی خارشی ہوجاتے ہیں)

ہم اللہ تعالی سے اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ کے وسیلے سے دعاء کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو ان اہل سنت اور ان کے داعیان میں سے کردے کہ جو اس پر ثابت قدم رہتے ہیں، اس کا دفاع کرتے ہيں، اس کی راہ میں جہاد کرتے ہيں، بے شک وہ جواد وکریم ہے۔

وصلى الله وسلم وبارك على عبده ورسوله نبينا محمد، وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان.
لیکن آج یہ چاہتے ہيں اِس بات کو اٹھا کر اُس بات پر فٹ کردیں۔ اللہ کی قسم! یہ جھوٹ بولتے ہیں، ہمارے اور ان کے درمیان کتب سنت وکتب تاریخ ہیں، ہمارے اور ان کے درمیان کتب اعتقاد ہیں، اگر وہ ایک حرف بھی پالیں ان میں کہ آئمہ ہدایت نے اِس والی جانب کو اُس والی جانب پر لاگو کردیا ہو تو ہمارے سامنے پیش کریں۔تمام اہل سنت کا بدعت کے زاویے سے جو طعن ہوتا ہے اس بارے میں اتفاق ہے کہ اہل بدعت سےہجر (بائیکاٹ) کیا جائے، ان سے دور رہا جائے، ان سے تحذیر(خبردار) کیا جائے، ان کو معیوب وحقیر سمجھا جائے، انہیں چھوڑ دیا جائے، اور ان کی مجالس سے متنفر کیا جائے، وہ سب کے سب اس بارے میں متفق تھے۔ کسی نے بھی کبھی اس میں اختلاف نہيں کیا۔ لیکن آج اس خبیث، بے تکے، ظالمانہ ومجرمانہ مقولے کے ذریعے یہ چاہتے ہيں کہ ان علماء سنت سے لوگوں کو متنفر کریں جو امت کے اہل اہواء وبدعت کے مقابلے میں خیرخواہ ہيں۔ میں ان کو کہتا ہوں کہ بہت بعید ہے باذن اللہ کے تم اس غرض کو پاسکو۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھیں، جب صبیغ کو ان کے پاس لایا گیا تو انہوں نے اسے خوب مارا پیٹا، کیا آپ رضی اللہ عنہ غلاۃ میں سے تھے؟! اور جب اسے جلاوطن کردیا اور وہ بصرہ، عراق چلا گیا ، تب بھی اپنے گورنر کو وہاں لکھا، کون تھے؟ سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ، ان سے فرمایا کہ: لوگ اس کے ساتھ نہ بیٹھیں، پس کیا ان لوگوں کے مذہب کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ بھی غلاۃ التجریح تھے؟! ہاں، پھر یہاں تک کہ اس نے توبہ کی اور اس کی سچی توبہ رہی، تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو سب لکھ بھیجا ، پھر کہیں جاکر انہوں نے لوگوں کو اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی اجازت دی۔

امام سفیان الثوری رحمہ اللہ اہل بصرہ کے پاس آئے اور ان سے الربیع بن صبیح کے متعلق دریافت کیا اور پوچھا کہ وہ کن کے ساتھ بیٹھتا ہے؟ لوگوں نے کہا: اس کا معاملہ تو سوائے سنت کے کچھ نہیں (یعنی ہم تو اسے سنت پر ہی جانتے ہیں) آپ نے پھر فرمایا: بس یہ بتاؤ کہ وہ بیٹھتا کس کے ساتھ ہے؟ لوگوں نے کہا: قدریہ کے ساتھ۔ آپ نے فرمایا: تو وہ بھی قدری ہے۔ تو کیا امام سفیان الثوری غلاۃ التجریح میں سے تھے! چلیں آگے بڑھتے ہيں کیونکہ یہ بتانے کا مقصد بعض مثالیں ہيں ناکہ سب کو جمع کرنا (ورنہ تو اتنی مثالیں ہیں کہ بات طویل ہوجائے گی)۔

امام احمد رحمہ اللہ کو دیکھیں، (پوچھا گیا):

’’اے ابا عبداللہ! میں اہل سنت میں سے کسی شخص کو دیکھوں کہ وہ اہل بدعت میں سے کسی کے ساتھ چل رہا ہے، کیا میں اس سے ہجر کروں؟ فرمایا: یا ایسا کرو کہ پہلے اسے خبردار کردو، پھر اس کے بعد بھی اگر اسے اس کے ساتھ چلتا دیکھو، تو اسے بھی اسی کے ساتھ ملا لو (یعنی وہ بھی انہی میں سے ہے)‘‘۔

کیا امام احمد رحمہ اللہ غلاۃ التجریح میں سے تھے؟! ماشاء اللہ۔

تمام اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ اہل بدعت سے تحذیر کی جائے اور ان سے متنفر کیا جائے، ان کو معیوب وحقیر سمجھا جائے، ان کی مجالس سے تحذیر کرنا بلکہ ان سے بھی جو ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں، تو پھر اس کا کیا کہنا کہ جو الٹا ان کے لیے عذر تراشے، اور اس کا کیا کہنا کہ جو ان کا دفاع کرتا پھرے، اور اس سے بھی بڑھ کر اس کا کیا کہنا کہ جو اس کی وجہ سے علماء سنت پر طعن کرے! وہ انہی میں سے اگرچہ اعتراض کرنے والے کتنا ہی برا کیوں نہ مانیں(یہی حقیقت ہے)۔ ہمارے اور ان کے درمیان سنن وعقائد کی کتب ہيں، کتب رجال ہیں اور یہ رہا گھوڑا اور وہ رہا میدان(آجاؤ)۔

چناچہ احباب کرام کہیں یہ آپ پر معاملہ ملتبس نہ کرلیں کہ اہل سنت پر ان تہمتوں کے ساتھ زبان طعن دراز کریں، جو کہ بالکل گھٹیا اور ایسا طعن ہے کہ جس کا باطل ہونا واضح ہے۔ لیکن صد افسوس یہ بعض ان لوگوں تک میں سرایت کرگیا ہے جو سنت کی طرف منسوب ہوتے ہيں، تو ان کی حالت طوطوں جیسی ہوکر رہ گئی ہے کہ جو کہا جاتا ہے بس اسے بلاسوچے سمجھے رٹے چلے جاتے ہيں، لیکن پھر بھی کوئی طویل جملہ کہنے کی سکت نہيں، بس اکا دکا کلمات، تو وہ اسی کلمے کو طوطوں کی طرح رٹے جاتا ہے، لیکن اس میدان میں وہ اس کے ساتھ نہيں چل سکتا (مقابلہ نہيں کرسکتا) کیونکہ یہ اس کا میدان ہی نہيں، اسے صحیح طور پر سمجھنے سے ہی قاصر ہے اس کی پوری معرفت تو دور کی بات رہی۔
[Urdu Article] Doesn't Shaykh Saaleh #Al_Fawzaan (hafidaullaah) hold that misguided individuals and groups should be disparaged and refuted?

کیا شیخ صالح #الفوزان حفظہ اللہ گمراہ لوگوں کی جرح ونقد وردکے قائل نہیں؟

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وجۂ نشر

بعض حزبیات اور سلفی منہج سے منحرف مناہج کے حاملین اور ان کا دفاع کرنے والے کچھ عرصے سے شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بعض فتاویٰ سے یہ باور کروانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ فی زمانہ جرح وتعدیل کے قائل نہيں اور جو علماء، طلبہ اور داعیان خصوصاً شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ وغیرہ یہ کام کرتے ہيں ان کے اس عمل کو محض غیبت اور چغلی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جو شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بہت سے منہجی فتاویٰ جس میں ان کی حزبیات اور شخصیات کا رد ہوتا ہے نہیں لیتے، مگر چونکہ اہواء پرستی کا شکار ہيں تو اپنے مطلب کے فتاویٰ نشر کرتے ہیں، مگر وہ بھی اپنے غلط مفہوم کے مطابق۔ لہذا ہم یہ ثابت کریں گے شیخ حفظہ اللہ اور دیگر علماء کرام کے کلام سے جس مقصد کے لیے اس قسم کے افراد ایسی باتيں نکالتے ہیں کہ ’’غلطیوں اور غلط مناہج اور شخصیات کا رد نہ کیا جائے‘‘ اس کے تو شیخ الفوزان حفظہ اللہ نہ صرف قائل ہيں بلکہ فاعل ہيں۔لہذا ان حزبیوں کا جو مقصود تھا وہ تو پھر بھی حاصل نہ ہوا!

ان شاء اللہ ہم خود شیخ کے اور دیگر علماء کرام کے کلام سے ان فتاویٰ کی بہترین توجیہ ووضاحت کریں گے جو اس ضمن میں پیش کیے جاتے ہیں، اللہ تعالی ہی سے توفیق اور راست بازی کا سوال ہے۔

فی زمانہ جرح وتعدیل کے بارے میں شیخ حفظہ اللہ کے بعض وہ فتاوی ٰجس سے مخالفین استدلال کرتے ہیں

ان فتاویٰ سے ثابت ہونے والے بعض نکات اور وضاحت

شیخ حفظہ اللہ کا جائز وناجائز تجسس میں فرق کرنا

کیا جرح وتعدیل کا زمانہ ختم ہوچکا ہے؟

مختلف علماء کرام کا مختصر کلام

کلمۂ حق سے کہیں باطل مراد نہ لے لی جائے، اس وجہ سے بھی علماء کرام فتاویٰ میں احتیاط کرتے ہيں

جس عالم نے کہا جرح وتعدیل اس دور میں ختم ہوچکا ہے، ان کے کلام کی صحیح تشریح ایک عالم کی زبانی

منہج جرح وتعدیل تاقیامت ختم نہيں ہوسکتا!

خود علم الاسناد اور روایت ِحدیث کے ماہرین علماء کا قول اس بارے میں دیکھا جائے

جرح وتعدیل کے بارے میں حزبیوں کا عجیب تضاد!

اگر محض بات ’’جرح ‘‘ کے بجائے ’’نقد ‘‘ کا لفظ استعمال کرنے ہی کی ہے تو ۔۔ ۔!

شیخ صالح الفوزا نحفظہ اللہ کے کلام کو غلط مفہوم دے کر شیخ ربیع حفظہ اللہ کے خلاف استعمال کرنا

حزبیوں کے لیے ایک اور لمحۂ فکریہ!

شیخ فوزان حفظہ اللہ ہر قسم کے گمراہ داعیان کے رد وتحذیر کے قائل ہیں

ردود اہل علم ومعرفت کی طرف سے ہوں اور اسے عوام تک میں نشر کرنا ضروری ہے

شیخ حفظہ اللہ حرام اور جائز غیبت میں فرق کرتے ہیں

صحیح سلفی ردود سے بیزاری دکھانے والے جھوٹی پرہیزگاری میں مبتلا ہیں

جرح اور مخالفین پر رد کے مقاصد مشترکہ ہیں

زیادہ مشہور اور عوام میں مقبول شخصیات کی غلطی کا رد اور بھی زیادہ ضروری ہے

اگر حالات متقاضی ہوں تو نام لے کر بھی رد کیا جاسکتا ہے

کیا منہج سلف کے مخالف مناہج اور ان کے داعیان سے خبردار کرنا مسلمانوں میں تفرقہ مچانے میں شمار ہوگا؟

کیا حزبیت کے خلاف خبردار کرنا ضروری ہے؟

کیا بدعتیوں اور حزبیوں سے خبردار کرنے میں کوئی حرج ہے؟

منہج موازنات کا رد

بہت سے حزبی بھی سلفیت کے جھوٹے دعویدار ہوسکتے ہیں

اہل بدعت اور گمراہوں کی کیسٹیں سننا یا کتب پڑھنا جائز نہيں

حزبی کتابوں اور جماعتوں کی غلطیوں کا رد کرنا داعیان کی عزت اچھالنا شمار نہیں ہوگا

اور شیخ حفظہ اللہ کی کتاب میں مشہور داعیان کا نام لے کر رد ہے

شیخ خود محدثین کا راویوں پر نام لے کر جرح کرنے کو دلیل بناتے ہيں کہ مخالفین کا رد کرنا چاہیے، اور یہ شخصیات سے ذاتی دشمنی نہيں بلکہ دین کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے

مخالف مناہج اور ان کے داعیان سے تحذیر امت میں تفرقے کا نہيں بلکہ کلمے کے جمع ہونے کا سبب ہے

جو کوئی سلفی منہج کے اصول کی مخالفت کرتے ہيں اور اپنی جماعتوں کے بڑوں اور بانیوں کی تعریف وحمایت کرتے ہيں وہ انہی میں سے ہیں نصیحت قبول نہ کرنےکی صورت میں ان کا بائیکاٹ کیا جائے

معتبر اور غیر معتبر علماء میں عقیدہ ومنہج کے اعتبار سے فرق وامتیاز کرنا

علماء کا کسی جماعت پر رد کردینے پر ان کے حامیان کا یہ کہنا کہ ہم نے یہ باتیں ان میں نہيں دیکھیں!

ایسے مدرس کا رد جو سید قطب کی کتب پڑھنے کا کہتا ہے اور اس پر رد کرنے والوں کو برا کہتا ہے

یوسف قرضاوی وغیرہ کا نام لے کر رد، یہ حجت کے ان سے نفع بھی ہوا ہے ان کے رد میں مانع نہیں

محمد عبدہ مصری کا رد
عقیدہ ومنہج میں گمراہ لوگوں کا ان کی بھلائیوں کے ساتھ بلاموازنہ رد کرنا

اہل بدعت اور گمراہ مناہج والوں سے اور ان کی کتب وکیسٹوں سے دور رہا جائے اور ایسوں کے پاس نہ پڑھا جائے

بیان میں تاثیر ہونے کے باوجود گمراہ مناہج والوں سے اجتناب کیا جائے

علماء کی بھی غلطی پر اسے باہمی چشمک قرار دے کر خاموش رہنا جائز نہيں

کس قسم کے ردود کی شیخ حوصلہ شکنی کرتے ہيں اور کس قسم کے ردود کی حمایت کرتے ہیں

اہل باطل کا رد کرتے رہنے سے دل سخت نہیں ہوتے بلکہ ان کا رد نہ کرنے سے دل سخت ہوجاتے ہیں!

افکار اور صاحب افکار دونوں کا رد مطلوب ہے

اہل باطل کا رد نہ کرنا مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑی دھوکہ بازی ہے

عوامی جذبات کا خیال رکھنے کے بہانے غلطی اور باطل کا رد نہیں چھوڑا جاسکتا

اپنی پسندیدہ شخصیات کے رد ہونے سے راضی نہ ہونا ایک معیوب منہج ہے

ضرورت کے تحت نام لے کر رد کرنے کی تائید فرمانا

منحرف داعیان کا رد ان کی عزت اچھالنا یا شخصیت کو مسخ کرنا وتجریح نہیں بلکہ امت کی خیرخواہی ہے

یہ باطل فکر ہےکہ تمام افکار وفرقوں کا احترام کیا جائے کسی کا رد نہ ہو

شخصیات اور جماعتوں کی غلطیوں کا رد کرنے سے فتنہ نہیں ہوتا بلکہ رد نہ کرنے سے ہوتا ہے

بدعات جس کے پاس ہوں گی اس کا رد ہوگا، اگرچہ وہ کافروں کو ہی کیوں نہ دعوت دیتا ہو

اہل اہواء کا رد کرنے کو وقت کا ضیاع کہنے والا شخص خود ایک ضیاع ہے!

بلکہ شیخ جن علماء کے بارے میں کلام کرنے سے منع کرتے ہیں وہ وہی ہیں جنہیں حزبی لوگ شیخ حفظہ اللہ کے رد کا مصداق باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں!

کیا شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ مشایخ ِمدینہ کے منہج ِرد کی تائید نہیں فرماتے؟

شیخ حفظہ اللہ مشہور گمراہ داعیان کے نام لے کر رد کی تائید فرماتے ہیں

آپ کسی داعی کی غلطیاں جمع کرکے ان پررد کرنے کے منہج کو اگر حق بیان کرنا اور باطل سے تحذیر مقصود ہو سراہتے ہيں

علمی ردود کے فوائد اور ترک کرنے کے نقصانات

تفصیل جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/kiya_sh_fawzaan_gumrah_logo_jarh_qail_nahi.pdf
[Urdu Article] Does Shaykh Al-Fawzaan (hafidaullaah) not support the scholars of Madeenah in their Manhaj of refuting?

کیا شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ مشایخ ِمدینہ کے منہج ِرد کی تائید نہیں فرماتے؟

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة س 101.

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/fawzaan_madeenah_ulamaa_manhaj_radd_taeed.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: ہم امید کرتے ہيں کہ آپ ہمارے لیے مدینہ کے علماء کے تعلق سےاپنے قول کی وضاحت فرمائیں ، یعنی ان (علماء) کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو سلفی کہلاتے ہیں، کیا وہ جو کررہے ہيں اس میں صواب راہ پر ہیں، ہمارے لیے اس مسئلے میں حق کی وضاحت فرمائيں؟

جواب: مدینہ کے علماء ([1])کے بارے میں میں خیر کے سوا کچھ نہيں جانتا۔اور ان کا ارادہ محض نصیحت وخیرخواہی کی غرض سے لوگوں کے سامنے بعض مؤلفین یا بعض اشخاص کی ان غلطیوں کا ذکر ہوتا ہے جس میں وہ واقع ہوئے۔ وہ کسی پر جھوٹ نہيں بولتے، بلکہ وہ تو صرف انہی کا کلام باقاعدہ تصدیق شدہ منصوص ذکر کرتے ہيں فلاں صفحہ، فلاں جزء اور فلاں سطر پر، آپ جاکر اس حوالے کو چیک کرسکتے ہيں۔ اگر وہ جھوٹ بولتے ہيں اس میں تو ہمارے سامنے آپ اس کو ثابت کریں جزاکم اللہ خیراً، ہم تو کبھی بھی جھوٹ سے راضی نہیں ہوتے۔ آپ جائیں ان کتابوں کی طرف مراجع کریں جن پر انہوں نے تنقید کی ہے، میرے سامنے ایک بھی نقل لے کر آئیں کہ جس میں انہوں نے جھوٹ بہتان لگایا ہو یا کوئی تقصیر کی ہو تو پھر میں بھی اس میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔

لیکن یہ چاہنا کہ لوگوں سے کہیں: بس چپ ہوجاؤ، باطل کو یونہی چھوڑ دو، اس پر رد نہ کرو، وضاحت وبیان نہ کرو، تو یہ بات صحیح نہیں ہے۔ یہ تو کتمانِ حق ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی تو فرماتے ہیں:

﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ﴾ (آل عمران: 187)

(اور جب اللہ تعالی نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے)

اور فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 159)

(بےشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے نازل فرمایا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ تعالی لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں)

ہم غلطیاں دیکھیں اور چپ بیٹھے رہیں، اور لوگوں کو یونہی سرگرداں چھوڑ دیں؟ نہيں، ایسا کبھی بھی جائز نہيں ہوسکتا۔ بلکہ واجب ہے کہ باطل سے حق کو علیحدہ کرکے بیان کیا جائے، خواہ جو راضی ہو سو ہو، ناراض ہو سو ہو۔



[1] اس سے مقصود یہ تمام مشایخ ہیں: شیخ محمد امان الجامی رحمہ اللہ، ربیع بن ہادی المدخلی، عبید الجابری، علی الفقہی، صالح السحیمی اور محمد بن ہادی حفظہم اللہ، جن کا اللہ تعالی کے بعد بہت بڑا احسان ہے کہ وہ سبب بنے بہت سے طلاب علم کو فرقہ اخوان المسلمین کے بارے میں بصیرت دینے کا، اور ان کے بڑوں پر یہاں وہاں رد کرنے کا۔ (الحارثی)
[Urdu Article] The sayings of Salaf on the importance of Arabic language - Various 'Ulamaa

عربی زبان کی اہمیت کے متعلق سلف کے اقوال

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/02/arabic_zaban_ki_ahmiyat.pdf
[Urdu Article] Ruling regarding the followers of the #innovators? – Shaykh Rabee' bin Hadee Al-Madkhalee

#بدعتیوں کے پیروکاروں کا حکم؟

فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ

(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: کیسٹ ’’المنهج التمييعي وقواعده‘‘، محاضرہ ’’إن الله يرضى لكم ثلاثاً‘‘

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/11/bidati_perokaar_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: کیا بدعتی کی اتباع کرنے والے کا بھی اس بدعتی کی طرح ہجر(بائیکاٹ ) کیا جائے گا؟

جواب: میرے بھائیوں ان میں سے جو فریب خوردہ ہے اسے تعلیم دی جائے گی، جلد بازی سے کام نہ لیں، اسے علم دیں اور اس کے لیے وضاحت کریں۔ کیونکہ ان میں سے بہت سارے لوگ خیر ہی چاہتے ہیں حتی کہ ان صوفیوں میں بھی۔ اللہ کی قسم اگر صحیح معنوں میں سلفی دعوت کھڑی ہو تو آپ ان لوگوں کو سلفیہ میں جوق در جوق داخل ہوتا پائیں گے۔

آپ کے نزدیک محض یہی کلی قاعدہ نہیں ہونا چاہیے کہ بس ہجر،ہجراورہجریعنی بنیادکیا ہے؟ بس ہجر(بائیکاٹ)! حالانکہ اساس کیا ہے؟ لوگوں کی ہدایت اور لوگوں کو اس خیر میں داخل کرنا۔ ہجر کے معاملے کو بسااوقات غلط طور پر سمجھا گیا ہے۔ اگر آپ تمام لوگوں سے ہی ہجر کرجائیں گے تو پھر سنت میں کون داخل ہوگا؟ اگر ہم ہجر کے ذریعے اپنے اور ان کے درمیان یہ دیواریں کھڑی کرلیں گے اور ایسے بند باندھ دیں گے ۔ ایسی ہجر تو میرے پیارے بھائیوں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے دور میں ہوا کرتی تھی۔ جب دنیا سلفیوں سے بھری ہوتی تھی۔ اگر امام احمد رحمہ اللہ کہہ دیں کہ فلاں بدعتی ہے تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور اس کا معاملہ ختم ہوجاتا۔ لیکن اب سلفیہ آپ کے یہاں ایسے ہے جیسے کالے بیل میں سفید بال۔ تو ہجر نہیں کیا جائے گا مگر صرف متکبر ومعاند بدعتی سے۔ لیکن جو ان کے دھوکے میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ تھوڑا تحمل سے معاملہ کیا جائے، انہیں حکمت اور اچھے وعظ ونصیحت کے ساتھ اللہ تعالی کی راہ کی طرف بلایا جائے، یقیناً ان میں سے بہت سے لوگ اس دعوت کوقبول کریں گے۔

لہذا آپ کے یہاں اساس لوگوں کی ہدایت اورانہیں باطل سے نکالنا ہو۔ لوگوں سے نرمی سے پیش آئیں، انہیں دعوت دیں ان کے قریب ہونے کی کوشش کریں، اور لوگوں کو نفع بخش علمی کتب ورسائل اور کیسٹیں پیش کریں اور تمام شرعی وسائل دعوت کو بروئے کار لائیں جیسے خطبہ، تقریریں ودروس تو ان سے ان شاء اللہ خیر کثیر کا حصول ہوگا۔ اور ان شاء اللہ سلفیوں کے گروہ میں اضافہ ہوگا۔ اور بہت سے لوگ آپ سے نہیں چھوٹیں گے۔ (مگر یہ حال کہ) تمام لوگ آپ کے نزدیک گمراہ ہیں، نہ کوئی نصیحت، نہ وضاحت ، نہ کچھ؟! یہ بات غلط ہے! اس کا معنی تو یہ ہوا کہ لوگوں پر خیر کے دروازوں کو بند کیا جارہا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کے پاس بس ہجر ہجر ہی ہو۔

اساسی قاعدہ لوگوں کی ہدایت ، انہیں سنت میں داخل کرنا اور گمراہی سے بچانا ہے ۔ یہ قاعدہ ہونا چاہیے آپ کے پاس۔صبر کریں تحمل مزاجی سے کام لیں جب یہ سب کرلیں تو پھر اگر اس واضح بیان کے بعد بھی کوئی عناد کرے پھر کہیں جاکر آخری دواء داغنا ہوتا ہے، لیکن پہلی ہی باری میں داغ دینا یہ غلط ہے، بارک اللہ فیکم۔

پس چاہیے کہ میرے بھائیوں آپ کے نزدیک قاعدہ لوگوں کو بچانا ہو۔ اللہ کی قسم! بہت سے لوگ خیر چاہتے ہیں، وہ جنت کے طالب ہیں میرے بھائیوں، خیر کی چاہت رکھتے ہیں۔ چناچہ ضروری ہے کہ آپ کے اسلوب حکیمانہ ہوں۔ اللہ کی قسم ! ایسا حکیم ورحیم اسلوب کہ اسے محسوس ہو کہ آپ اس پر بڑائی نہیں چاہتے، نہ ہی اس کی توہین کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا اس کے لیے تواضع اختیار کریں ، نرمی اپنائیں، مہربانی کریں اور حکمت کے ساتھ تبلیغ کریں۔ کتنے ہی لوگوں کو جو قبرپرست تھے اللہ تعالی نے بہت قلیل اہلحدیثوں کے ذریعے ہدایت نصیب فرمائی کہ جب انہوں نے علم، حکمت اوربہترین انداز میں وعظ ونصیحت کو اپنایا۔

میں آپ کے سامنے ان داعیان میں سے ایک کی مثال پیش کرتا ہوں:
پس اتباع کرنے والے پیروکار وہ کمزور لوگ ہوتے ہیں جنہیں اہل باطل نےدھوکے میں مبتلا کررکھا ہوتا ہے۔ جو حق کی مخالفت اور اہل حق کے خلاف لڑائی میں ان کی قیادت کرتے ہیں۔ ان کاحکم ان کے بڑوں اور لیڈروں کا سا حکم ہے ۔ لیکن اگر بعض لوگوں کو دیکھیں جو ان کے دام فریب میں آچکے ہیں تو کوئی حرج نہیں کہ آپ انہیں بصیرت دیں او ران کے سامنے حق کو واضح کریں۔ پھر اگر وہ اپنے بڑوں کے ساتھ ہی چپکا رہتا ہے اور اسی ڈگر پر قائم رہتا ہے تو وہ اسی کے حکم میں ہے۔

(کیسٹ المنهج التمييعي و قواعده سوال 5)
شیخ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ ہندوستان کے بڑے علماء اور حکماء میں سے تھے جو حکمت واچھی وعظ ونصیحت کے ساتھ دعوت الی اللہ کیا کرتے تھے۔ اور حکمت، حجت وبرہان کو اعلیٰ اخلاق کے ساتھ پیش کرکے مناظرے بھی کیا کرتے تھے۔ لہذا خلق کثیر آپ کی دعوت کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے قبول کیا۔ اس بات نے علماء سوء وضلالت کو غیض وغصے میں بھر دیا جو اس دعوت سے عناد رکھتے تھے چناچہ انہوں نے ایک جاہل وفاجر شخص کو ان کے قتل کی ذمہ داری سونپی۔ پس وہ شخص شیخ ثناء اللہ کے پاس آیا جبکہ آپ درس دے رہے تھے تو اس نے ایک بیلچے کے ذریعے آپ پر حملہ کردیا اور ایسی جان لیوا ضرب لگائی کہ وہ بیہوش ہوکر گر گئے۔ پھر حکومتی کارندے (پولیس والے) آئے (دیکھیں تو کس طرح شیخ نذیر حسین رحمہ اللہ کے تین چار کبار تلامذہ نے پورے ہندوستان کی اپنے علم وحکمت کے ذریعے کایا پلٹ دی!) بہرحال انہوں نے اس مجرم کو پکڑااور اسے جیل میں پھینک دیا۔ جیسے ہی شیخ رحمہ اللہ بیہوشی سے ہوش میں آتے ہیں تو کہتے ہیں: وہ شخص کہاں ہے جس نے مجھے مارا تھا؟ لوگ کہتے ہیں: وہ تو جیل میں ہے۔ فرماتے ہیں: اسے جیل میں کبھی نہیں ڈالنا چاہیے۔ لیکن حکومت اسے جیل میں رکھنے پر مصر رہتی ہے۔ تو یہ حلیم صفت شیخ اس مجرم کی اولاد پر خرچ کرتے رہتے ہیں جب تک وہ جیل میں رہتا ہے۔ پھر جب اسے آزادی ملتی ہے تو سب سے پہلا جو کام وہ کرتا ہے وہ ان شیخ کی زیارت ہوتی ہے اور بدعات کو پھینک کر سلفیہ میں داخل ہونے کا اعلان کرتا ہے۔

دوسری مثال:

اس زمانے میں سوڈان میں سلفیہ کے سب سے پہلے داعی شیخ حسونہ رحمہ اللہ تھے۔ آپ تو صبر، حلم اور حکمت میں ضرب المثل تھے۔ وہ مساجد وغیرہ میں دعوت الی اللہ میں بڑے فعال تھے۔ ان پر اہل بدعت نے دھاوا بول دیا اور شدید مارپیٹ کی یہاں تک کہ ان لوگوں کو یقین ہوگیا کہ وہ مرچکے ہیں۔ تو انہیں ٹانگوں سے گھسیٹ کر مسجد سے باہر پھینک دیا۔ جب وہ ہوش میں آئے تو ہوش میں آتے ہی جو بات لوگوں نے سب سےپہلے دیکھی وہ ان کا مسکرانا تھا، نہ کوئی گالم گلوچ، نہ غصہ، نہ کسی سے نفرت، نہ انتقام، نہ کچھ۔ پس بہت سے لوگ ان اعلیٰ اخلاق کے سبب دعوت سلفیہ میں داخل ہوئے۔

اور ایک مرتبہ آپ ریل گاڑی میں سفر کررہے تھے کہ مغرب یا عشاء کی نماز کا وقت ہوگیا پس آپ نے لوگوں کی امامت کروائی اور بہت ہی میٹھی آواز میں قرآن کی تلاوت کی، کہ لوگوں کو بہت پیاری لگی۔ اس پر لوگوں نے مقتدیوں سے پوچھا کس نے تمہیں نماز پڑھائی ہے؟ کہا: میں فلاں۔ پس وہ سب اس پر ٹوٹ پڑے اور شدید طریقے سے مارا پیٹا کہ آپ بیہوش ہوگئے۔ مگر حسب عادت جب ہوش آیا مطمئن تھےمسکرا رہےتھے۔

شاہد یہ ہے کہ آپ پر واجب ہے کہ آپ کےپاس حکمت، حلم وبردباری، صبر اور نیک نیتی ہو ، بارک اللہ فیکم، تو اللہ کی قسم حکیمانہ اخلاق اور حلم ونرمی سے لوگ آپ کی دعوت کی طرف لپکے آئیں گے۔ لیکن اگر آپ کے پاس محض روکھے پن وسختی کے سوا کچھ نہ ہو تو فرمان الہی ہے:

﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران: 159)

(پس یہ اللہ کی طرف سے رحمت ہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم ہوگئے ہیں اور اگر آ پ بد خلق اور سخت دل ہوتے تو یقیناً وہ آپ کے اردگرد سے منتشر ہو جاتے)

اے بھائیو! بارک اللہ فیکم ہمارے بعض بھائیوں کے یہاں حد سے بڑھ کر شدت پائی جاتی ہے جو لوگوں کو سلفیہ سے نکال دیتی ہے اس میں کسی کو داخل نہیں کرتی۔ یہ حالت آج موجود ہے۔ لہذا یہ بھائی جو لوگوں کو دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں، اور اپنے اخلاق کو سنواریں اور اللہ تعالی کی راہ کی جانب ہدایت کرنے والے بنیں، بارک اللہ فیکم۔ آپ پر لازم ہے ان اخلاق کو اپنانااور محض ہجر پر توجہ مرکوز رکھنے کو ترک کردو۔ ہجر کرنا مشروع ہے لیکن جب صبر اور نرمی سب کوآزما لیا گیاہو، بارک اللہ فیکم۔ پس آپ کو چاہیے کہ لوگوں کو خیر کی جانب ترغیب دیں اور اس خیر میں داخل کرنے کی کوشش کریں۔

(درس بعنوان’’إن الله يرضى لكم ثلاثاً‘‘ سوال 14)

سوال: کیا بدعتی کی اتباع کرنے والے بھی اسی کے حکم میں داخل ہیں؟

جواب: جی ہاں، اسی کے ساتھ داخل ہیں اگر وہ اس کی نصرت وتائید کریں اور اس کا دفاع کریں تو وہ اسی کا گروہ ہیں۔ وہ انہی میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ فرعون کا گروہ تھا:

﴿وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا، رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا﴾ (الاحزاب: 67-68)

(اور کہیں گے اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہنامانا تو انہوں نے ہمیں اصل راہ سے گمراہ کر دیا، اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور ان پر لعنت کر، بہت بڑی لعنت)
[Urdu Article] A comment on the manners of Duaat to #criticize each other nowadays - Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz

داعیان کی ایک دوسرے پر #تنقید کرنے کا موجودہ اسلوب اور اس کا تعاقب

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ

(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: أسلوب النقد بين الدعاة والتعقيب عليه۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/ghair_salafi_manhaj_e_rad_ka_taqub.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على نبينا محمد النبي الأمين ، وعلى آله وصحبه ومن اتبع سنته إلى يوم الدين . أما بعد :
بے شک اللہ تعالی عدل واحسان کا حکم فرماتا ہے اور ظلم، بغاوت وزیادتی سے منع فرماتاہے، اور اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی چیز کے ساتھ مبعوث فرمایا جس کے ساتھ تمام رسولوں کو مبعوث فرمایا تھا یعنی توحید اور اکیلے اللہ تعالی کے لئے تمام عبادات کو خالص کردینے کی دعوت۔ ساتھ ہی انہیں انصاف کا حکم فرمایا اور اس کی متضاد باتوں سے منع فرمایا جیسے غیراللہ کی عبادت، تفرقہ بازی واختلاف اور بندوں کے حقوق کی حق تلفی کرنا۔

موجودہ دور میں یہ بات بہت عام ہوتی جارہی ہے کہ بہت سے علم اور دعوت الی الخیر کی جانب منتسب لوگ اپنے ہی ایسےبھائیوں کی عزت کے درپے ہوگئے ہیں جومیدان دعوت میں بہت مشہور ہیں، اور وہ بہت سے طالبعلموں، داعیان اور مقررین کی عزت ومقام پر کلام کرتے ہیں۔ یہ سب وہ (عموماً) خفیہ طور پر اپنی مجالس میں کیا کرتے ہیں، اور کبھی تو اسے کیسٹوں پر ریکارڈ کرکے لوگوں میں نشر تک کردیتے ہیں، اسی طرح کبھی ایسا علانیہ طور پر مساجد میں منعقد ہونے والی تقاریر میں کرجاتے ہیں، جبکہ یہ مسلک (منہج) کئی ایک وجوہات کی بناء پر اس مسلک کے مخالف ہے جس کا ہمیں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا ہے:

1- یہ مسلمانوں کے حقوق کے سلسلے میں زیادتی کرنا ہے، بلکہ خصوصاً ان طالبعلموں اور داعیان کے حق میں ایسا کرنا (زیادہ بڑا جرم ہے) جو اپنی تمام تر جدوجہد لوگوں کو رشدوہدایت کی طرف بلانے اور عقائد ومناہج کی تصحیح کرنے میں لگاتے ہیں، اسی طرح دروس وتقاریر اور مفید کتابوں کی نشرواشاعت کا انتظام کرتے ہیں۔



2- یہ (ایسے موقع پر) وحدتِ مسلمین کو پارہ پارہ کرنا ہے اور ان کی صفوں میں دراڑ ڈالنا ہے، جب انہیں سب سے زیادہ وحدت کو قائم رکھنےاور تفرقہ وکثرتِ قیل وقال سے دور رہنے کی احتیاج ہے،خاص طور پر جن کا رد کیا جارہا ہے وہ اہل سنت والجماعت میں سے ہیں جو کہ بدعات وخرافات کے خلاف جنگ کرنے اور بدعتیوں کا مقابلہ کرکے ان کی غلطیوں اور عیبوں کا پردہ چاک کرنے کے بارے میں مشہورومعروف ہیں۔ ہم اس عمل کی کوئی مصلحت نہیں سمجھتے کیونکہ یہ تو اہل کفرونفاق یا پھر اہل بدعت وضلالت کو خوامخواہ میں موقع فراہم کرنا ہے جو (اہلسنت والجماعت کے خلاف) اس قسم کے مواقع کی گھات میں رہتےہیں۔

3- اس عمل میں ایسے سیکولر ومغرب زدہ وغیرہ جیسے ملحد وبے دین مغرض لوگوں کی معاونت ہے جوکہ داعیان کے خلاف پروپیگینڈہ کرنے، ان کے خلاف جھوٹ بولنےاور جو کچھ یہ داعیان لکھتے یا بولتے ہیں اس کے خلاف لوگوں کو ابھارنے کے بارے میں مشہور ہیں۔ یہ اسلامی اخوت میں سے ہرگز نہیں کہ ایسے (رد کرنے والے) جلدباز لوگ اپنے طالبعلم اور داعیان بھائیوں کے خلاف دشمنوں کی مدد کریں۔

4- اس میں عوام وخواص کے دلوں میں میل اور فساد پیدا کرنا ہے، باطل اور اکاذیب کی نشروترویج ہے۔ اسی طرح یہ سبب ہے غیبت وچغل خوری کی کثرت کا، اور ان ضعیف الایمان لوگوں کے لئے شرکا دروازہ کھول دینے کا جو شبہات ابھار کر فتنہ کی آگ بھڑکانے کی گھات میں بیٹھے رہتےہیں، اور اس بات کے بڑے خواہشمند ہوتے ہیں کہ مومنین کو ان کے نہ کئے ہوئے عمل پر بھی ایذارسانی کریں۔

5- بہت سا کلام جو کیا جاتا ہے ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہوتی، بلکہ وہ تو محض توہمات ہوتے ہیں جنہیں شیطان نے ان لوگوں کی نظر میں مزین کرکے پیش کیا ہوتا ہےتاکہ وہ اس کے ذریعہ سے انہیں دھوکہ دے، اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلا تَجَسَّسُوا وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا﴾ (الحجرات: 12)

(اے ایمان والو! بہت زیادہ گمانوں سے بچو کیونکہ بے شک بعض گمان تو گناہ ہوتے ہیں، اور نہ ہی تجسس کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبتیں کیا کرو)

ایک مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی کسی بھی بات کا جو سب سے بہترین احتمال ہوسکتا ہے اسے اختیار کرے، بعض سلف صالحین کا قول ہے:

’’لا تظن بكلمة خرجت من أخيك سوء وأنت تجد لها في الخير محملا‘‘

(تم اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے نکلی کسی بھی بات برا مت سوچو جبکہ تمہارے لیے اسے خیر پر محمول کرنا ممکن ہو)۔
”میں نے شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے جب ملاقات کی تو آپ نے مجھے ہر حق وسنت مخالف پر رد کرتے رہنے کی نصیحت فرمائی اور یہ کیا ہی سنہری نصیحت ہے ،اور کتنی ہی عظیم بات اور کتنا ہی عظیم واجب ہے اس شخص پر جو اسے نبھانے کی استطاعت رکھتا ہو“۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ شیخ ربیع کی ان کے یہاں ثقاہت واعتماد کی بنیاد پر بعض اشخاص اور ان کے منہج کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے، اور اس بارے میں انہیں خطوط ارسال فرمایا کرتے تھے۔ جیسے:

رقم: 2352/2، بتاریخ 8/2/1413ھ میں سید ابو الاعلیٰ مودودی پر لکھا گیا شیخ کا کلام طلب فرمایا۔

رقم: 1744/1، بتاریخ 25/5/1415ھ میں ایک داعی سے متعلق دریافت فرمایا۔

رقم: 2203/1 بتاریخ 24/7/1415ھ کے خط میں اللہ تعالی کی صفات کی تاویل کرنے والے ایک داعی پر شیخ کو رد کرنے کی ترغیب دلائی۔

لہذا سلفی علماء کرام کے کلام کو صحیح تناظر میں سمجھنا چاہیے، ناکہ اپنے حق میں اور دوسرے کے خلاف پہلے سے دل میں بیٹھے کسی نظریے کے تناظر میں۔ اللہ تعالی توفیق دے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
6- بعض علماء کرام یا طالبعلموں کا ایسے معاملوں میں اجتہاد کرنا جس میں اجتہاد کی گنجائش ہے تو اس صورت میں اجتہاد کرنے والے پر کوئی مؤاخذہ اور پکڑ نہیں کی جائے گی اگر وہ واقعی اجتہاد کرنے کا اہل ہے۔ پس اگر کوئی اس کی ایسے اجتہادی معاملے میں مخالفت کرے تویہ معاملہ زیادہ لائق ہے کہ اس کے بارے میں احسن طور پر جدال کیا جائے جس میں حق بات تک پہنچنے کا قریب ترین راستہ اپنایا جائے تاکہ شیطانی وساوس اوراس کا مومنین کے درمیان بغض وعداوت ڈالنے کو روکا جاسکے۔لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو، اور دوسرا یہ مؤقف رکھے کہ اس مخالفت کو بیان کرنا لازم ہے تو یہ بھی بہترین عبارت ولطیف اشاروں سے ہونا چاہیےناکہ اس کی عزت پر حملہ کرکے شدید جرح کی جائے اور بدکلامی کی جائے جو اس کے حق بات قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے اور وہ اس سے اعراض برتے۔ اسی طرح شخصیات پر اعتراض ، نیتوں پر الزام تراشی یا کلام میں ایسی زیادتی کرنے سےجس کی گنجائش نہ ہو بچتے ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے امور میں فرمایا کرتے تھے:

’’مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا‘‘

(قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ فلاں فلاں باتیں کرتی ہے)۔

جس چیز کی میں نصیحت کرتا ہوں ان بھائیوں کو جو داعیان کی عزت پر حملہ آور ہوتے ہیں انہیں چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں ان باتوں سے جو ان کے ہاتھوں نے لکھی، یا ان کی زبانوں نے کہی، جو کہ سبب بنی بعض نوجوانوں کے دلوں کو فاسد کرنے اور ان کے سینوں کو حسد وکینے سے بھرنےکا، اور انہیں علم ِنافع سے پھیر کر ان باتوں میں مشغول کردیا، اور دعوت الی اللہ سے پھیر کر انہیں قیل وقال اور فلاں فلاں کے بارے میں کلام میں مشغول کردیا، اسی طرح اس بات میں مگن کردیا کے جنہیں وہ دوسروں میں غلطیاں شمار کرتے ہیں انہی کی ٹوہ میں رہنا اور انہی (غلطیوں یا الفاظوں) کو پکڑنا ، اور اس میں تکلف کرنا۔

اسی طرح میں انہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ان افعال کا کفارہ کتابت وغیرہ کے ذریعہ ادا کریں، جس میں وہ اپنے آپ کو اس قسم کے فعل سے بری ظاہر کریں تاکہ ان کا کلام سننے والے لوگوں کے ذہنوں میں جو باتیں گھر کرگئی ہیں وہ زائل ہوجائیں۔پھر ایسے ثمر آوراعمال کی جانب رغبت کریں جو خودان کے لئے تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہوں اور بندوں کے لئے بھی نافع ہوں، اور اس بات سے بچیں کے دوسروں کی بنا دلیل وبرہان کے تکفیر، تفسیق اور تبدیع کے اطلاق میں جلد بازی کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ مَنْ قَالَ لِأَخِيهِ: يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا ‘‘([1])

(جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کو کہا: اے کافر! پس یہ تکفیر ان میں سے کسی پر لوٹ کر آجاتی ہے)۔

جو بات داعیانِ حق اور طالبعلموں کے حق میں مشروع ہے وہ یہ ہے کہ اگر ان پر اہل علم وغیرہ کے کسی کلام کو سمجھنے میں اشکال پیدا ہو تو اس سلسلے میں وہ معتبرترین علماء کرام سے رجوع کریں اور اس بارے میں ان سے سوال کریں تاکہ ان کے سامنے یہ امر بالکل واضح ہوجائے اور وہ اس کی حقیقت کو جان جائیں، اور ان کے نفس میں جو تردد اور شبہہ ہے وہ زائل ہوجائےسورۂ نساء میں اللہ تعالی کے اس فرمان کے بموجب:

﴿وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء: 83)

(جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں (اولی الامر/حکومت/اہل علم) کے حوالے کردیتے، تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں، اور اگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے)

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کے احوال کی اصلاح فرمائے اور ان کے دلوں اور اعمال کو تقوی پر جمع فرمادے، اور تمام علماء ِمسلمین اور داعیانِ حق کو ہر اس بات کی توفیق عنایت فرمائے جس سے وہ راضی ہوتا ہے اور جوبندوں کے لئے نافع ہو۔ یاالہی! ان کے کلمے کو ہدایت پر جمع کردے اور انہیں تفرقہ اور اختلاف کے اسباب سے محفوظ فرما، ان کے ذریعہ سے حق کی نصرت اور باطل کو شکست دے، بے شک تو ہی اس بات کا والی ہے اور اس پر قادر ہے، اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد آپ کی آل واصحاب پر، اور جو تاقیامِ قیامت ان کے نقش قدم پر چلے۔

سوال 1: فضیلۃ الشیخ کچھ ہفتوں قبل داعیان کے آپس میں نقدورد کے اسلوب کے بارے میں آپ کا ایک بیان صادر ہوا جس کی بعض لوگوں نے مختلف تاویلات پیش کیں، سماحۃ الشیخ آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ سائل: ع۔ ف۔ ع۔
جواب: الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله ومن اهتدى بهداه أما بعد :

وہ بیان جس کی جانب سائل نے اشارہ کیا ہے اس بیان سے ہم نے یہی چاہا تھا کہ اپنے علماء اور داعیان بھائیوں کو نصیحت کریں کہ ان کا اپنے بھائیوں پر تنقید کرنا خواہ وہ مقالات، کانفرنسوں یا تقاریر میں صادر ہوں بہرحال اسےشدید تجریح(کردارکشی) اور شخصیات کے نام لینے سے پاک ہونا چاہیے؛ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کے وجہ سے سب کی آپس میں نفرت وعداوت پیدا ہو۔ کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت ِمبارک تھی جب کبھی کوئی خلافِ شریعت بات صحابہ کی جانب سے انہیں پہنچتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر اپنے اس قول کے ذریعہ تنبیہ فرماتے تھے:

’’مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا‘‘

(قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ فلاں فلاں باتیں کرتی ہے)۔

پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ شرعی مسئلہ بیان فرماتے تھے جس پر تنبیہ مقصود ہوتی۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایک صحابی نے فرمایا میں نماز پڑھتا رہوں گا اور کبھی سوؤ ں گا نہیں، اور دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی افطار نہیں کروں گا، اور تیسرے نے کہا میں کبھی عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا، چناچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا اللہ تعالی کی حمدوثناء بیان فرمائی اور فرمایا:

’’مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا؟ لَكِنِّي أُصَلِّي، وَأَنَامُ، وَأَصُومُ، وَأُفْطِرُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي، فَلَيْسَ مِنِّي‘‘

(قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں حالانکہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں)۔

پس میرا مقصود وہی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یعنی تنبیہ ایسے کلام کے ساتھ ہونی چاہیےکہ بعض لوگوں نے ایسا کہا یا بعض لوگ ایسا کہتے ہیں، اور شرعی مسئلہ ایسے ہے، اور واجب ایسے ہےوغیرہ پس تنقیدکسی معین شخص کی تجریح کے بغیرصحیح شرعی مسئلے کو بیان کرنے کے لئےہوتاکہ مسلمان بھائیوں میں اسی طرح داعیان وعلماء کرام کے درمیان بھی محبت ومودت قائم رہے۔ میری اس سے معین افراد مراد ہرگزنہیں تھے([2])، بلکہ میرا مقصود تو عموم تھا تمام کے تمام داعیان اور علماء کرام ہمارے ملک میں ہوں یابیرون ملک۔ پس میری یہی نصیحت تھی سب کو کہ کسی کو نصیحت کرتے وقت جو تخاطب ہو اورتنقید میں بھی وہ ابہام کے طریقے پر ہو نہ کہ تعین کے طور پر، کیونکہ مقصود تو خطاء اور غلطی پر تنبیہ کرنا ہے اور صواب وحق میں سے جس کا بیان کرنا لازم ہے اسے بیان کرنا ہے بنا فلاں وفلاں کی تجریح کئے ہوئے۔ اللہ تعالی سب کو توفیق دے۔



[1] صحیح بخاری 6104، صحیح مسلم 63 میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: "إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ، وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ" (اگر جو اس نے کہا صحیح ہے تو صحیح، بصورت دیگر وہ تکفیر خود کرنے والے پر لوٹ آتی ہے)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)





[2] کیونکہ شیخ کی عمومی نصیحت کو بہت سے منحرف لوگ اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کرتے ہیں، حالانکہ یہ وہی لوگ ہوتے ہيں جو سلفیوں کو مطعون کرتے ہيں کہ تم عام کلام کو مختلف حزبیات والوں پر معین چسپاں کردیتے ہو! چناچہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نہ صرف ضرورت کے تحت گمراہ داعیان کا تعین کے ساتھ رد کرنے کی تائید کرتے تھے بلکہ خود بھی فرمایا کرتے تھے جیسا کہ ہماری ویب سائٹ پر شیخ ابن باز رحمہ اللہ ہی کی طرف سے اسامہ بن لادن و مودودی وغیرہ کا رد موجود ہے۔ بلکہ مودودی کی اس بات کا رد فرمایا کہ وہ کہتا ہے میں تو داعیان و علماء کا رد نہيں کرتا اور اسے وہ خوبی گنوا رہا تھا تو شیخ نے فرمایا:

”میں بھی آپ فضیلت مآب کے بارے میں یہی کچھ جانتا ہوں اور مجھے نہيں یاد کہ آپ خیر کے ساتھ معروف علماء کرام کے کبھی یوں درپے ہوئے ہوں حالانکہ بلاشبہ اہل علم کی جانب سے کسی پر نقد کرنا یا جرح کے مستحق لوگوں پر جرح کرنا امت کے لیے خیرخواہی چاہنے کے باب میں سے ہے، اور اس کی بدعت یا انحراف سے تحذیر وخبردار کرنا بالکل متعین وحتمی امر ہے جیسا کہ سابقہ لاحقہ تمام علماء اسلام کرتے آئے ہیں(یعنی یہ کوئی معیوب بات نہیں)“۔ دیکھیں مقالہ: " ابو الاعلیٰ مودودی اور حاکمیت واطاعت میں شرک کے معنی میں غلو " ۔

اسی طرح آ پ نے خود شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی اسی موضوع پر کتاب ’’منهج أهل السنة والجماعة في نقد الرجال والكتب والطوائف‘‘ (رجال، کتب اور طوائف پر نقد کرنے کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا منہج) کے مقدمے میں آپ کی تعریف اور کتاب کی تائید فرمائی۔

شیخ ربیع حفظہ اللہ اپنی کتاب ’’إزهاق أباطيل عبداللطيف باشميل‘‘ (عبداللطیف باشمیل کے اباطیل کا رد) کے صفحہ 104 میں فرماتے ہیں:
Photo from Tariq Ali Brohi
اصحاب الحدیث ڈاٹ کام کی جانب سے شائع کردہ پمفلٹ "سبیل المؤمنین" پاکستان میں جن ساتھیوں کو درکار ہے، وہ اپنا نام پتہ جلد از جلد میسج کردیں۔

وجزاکم اللہ خیرا