[Urdu Pamphlet] Suicide attacks are Haraam (Unlawful) (Pamphlet) – Various 'Ulamaa
خود کش اور فدائی حملے حرام ہیں (پمفلٹ)
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/khudkash_fidai_hamlay_haram_hain_pamphlet.pdf
خود کش اور فدائی حملے حرام ہیں (پمفلٹ)
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/khudkash_fidai_hamlay_haram_hain_pamphlet.pdf
[Urdu Video] #ahlebidat kay baray may saheeh #salafi_moaqqaf
https://safeshare.tv/x/NxHTugKuXr4
[Urdu Audio] Correct Salafee stance regarding Ahl-ul-Bida’ah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
اہلِ بدعت کے بارے میں صحیح سلفی مؤقف – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/10/ahlebidat_khilaf_sahih_salafi_moaqqaf.mp3
https://safeshare.tv/x/NxHTugKuXr4
[Urdu Audio] Correct Salafee stance regarding Ahl-ul-Bida’ah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
اہلِ بدعت کے بارے میں صحیح سلفی مؤقف – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/10/ahlebidat_khilaf_sahih_salafi_moaqqaf.mp3
SafeShare.tv
SafeShare.tv - #ahlebidat kay baray may saheeh #salafi_...
#اہل_بدعت کے بارے میں صحیح #سلفی_مؤقف...
[Urdu Article] Abul 'Alaa Maududee and his exaggeration in the meaning of Shirk in rulership and obedience – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
ابو الاعلیٰ مودودی اور حاکمیت واطاعت میں شرک کے معنی میں غلو
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ وترتیب وفوائد: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/mawdudee_hakimiyyat_shirk_mana_ghulo.pdf
ابو الاعلیٰ مودودی اور حاکمیت واطاعت میں شرک کے معنی میں غلو
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ وترتیب وفوائد: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/mawdudee_hakimiyyat_shirk_mana_ghulo.pdf
[Urdu Article] The correct meaning of testimony and its false Interpretations – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
شہادتین کا صحیح مطلب اور اس کی باطل تفسیرات
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/shahadatain_sahi_mana_batil_tafseer.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1- ’’شھادۃ ان لا الہ الا اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ :
’’الاعتقاد والإقرار أنه لا يستحقُّ العبادةَ إلا الله ، والتزام ذلك والعمل به ‘‘
(اس بات کا اقرار کرنا اور اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کا التزام کرنا اوراس پرعمل کرنا)۔
چناچہ ’’لا الہ ‘‘ اس بات کی نفی ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کا مستحق ہو خواہ کوئی بھی ہو ، ’’الا اللہ‘‘ اس بات کا اثبات ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالی ہے ، اور اس کلمہ کا اجمالی مطلب یہ ہے کہ: ’’لا معبودَ بحقٍّ إلا الله‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں) ، اور ’’لا‘‘ کی خبر کو ’’بحقٍّ‘‘ (برحق) سے ہی تعبیر کیا جائے گا ، اس کو موجود سے تعبیر کرنا درست نہیں ([1])، کیونکہ یہ حقیقتِ حال کے خلاف ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کے سوا معبودات تو باکثرت موجود ہیں اور اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ ان معبودات کی عبادت کرنا بھی گویا اللہ تعالی کی ہی عبادت ہے ،جبکہ یہ باطل ترین بات ہوگی۔ اور یہ وحدة الوجود کے قائل لوگوں کا مذہب ہے جوکہ اس زمین کے سب سے بڑے کافر لوگ ہیں ۔
اس کلمہ کی بہت سی باطل تفسیرات بھی کی گئیں ، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
1. اس کا مطلب ہے : ’’لا معبودَ إلا الله‘‘ (کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالی کے )۔
جبکہ یہ باطل تفسیر ہے ، اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ : ہر معبودخواہ حق ہو یا باطل وہ اللہ ہے ، جیسا کہ ہم نے پہلے کچھ اس کا بیان کیا ہے۔
2. اس کا مطلب ہے :’’لا خالقَ إلا الله‘‘ (کوئی پیدا کرنے والا نہیں سوائے اللہ تعالی کے)۔
یہ اس کلمہ کے معنی کا صرف ایک جزء ہے ،حالانکہ یہ اصل مقصود نہیں ، کیونکہ اس سے صرف توحیدِ ربوبیت ثابت ہوتی ہے ، اور محض یہ توحید کافی نہیں یہ تو مشرکین کی بھی توحید ہے۔
3- اس کا مطلب ہے :’’لا حاكميّةَ إلا لله‘‘ (کسی کی حاکمیتِ اعلیٰ نہیں سوائے اللہ تعالی کے)۔
یہ بھی در حقیقت اس کلمہ کے معنی کا صرف ایک جزء ہے ، اصل مقصود نہیں ، اور نا ہی یہ کافی ہے ،کیونکہ اگر کوئی اللہ تعالی کو صرف حاکمیتِ اعلی میں اکیلا تسلیم بھی کرلے لیکن ساتھ ہی اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارے، اس سے دعاء کرے یا کچھ عبادت اس کے لیے ادا کرے تو وہ موحد نہیں ہوگا۔ پس اس قسم کی تمام تفسیرات باطل یا ناقص ہیں ، ہم نے اس پر اس لئے تنبیہ کی ہےکیونکہ یہ بعض عام طور پر پڑھی جانے والی کتابوں میں موجود ہے ۔
چناچہ اس کلمے کی صحیح تفسیر سلف صالحین اور محققین کی نظر میں یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے : ’’لا معبود بحق إلا الله ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں) جیسا کہ اس کاپہلے ذکر ہوچکا ہے([2]) ۔
2- ’’شھادۃ ان محمدا رسول اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے: اس بات کا اعتراف باطن اور ظاہر میں کیا جائے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں ، اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جائے اس طرح کہ:
’’طاعته فيما أمر ، وتصديقه فيما أخبر ، واجتناب ما نهى عنه وزجر ، وألا يُعبدَ الله إلا بما شرع‘‘
(جن باتوں کا وہ حکم فرمائیں ان کی اطاعت کی جائے، جن باتوں کی وہ خبر فرمائیں ان کی تصدیق کی جائے، جن باتوں سے منع اور خبردار فرمائیں ان سے اجتناب کیا جائے اور اللہ تعالی کی عبادت نہ کی جائے مگر صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق)۔
[1]یعنی ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کا معنی ’’لامعبود بحق الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں) کیا جائے گا نہ کہ ’’لامعبودالااللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں) یا پھر ’’لامعبود موجود الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود موجود نہیں)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اسکی تفصیل جاننے کے لیے پڑھیں کتاب ’’فتح الملک الوھاب فی رد شبہ المرتاب‘‘ از شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوہابs ، ’’دروس من القرآن الکریم‘‘ از شیخ صالح الفوزان﷾، ’’دینی سیاسی جماعتوں کا انبیاء کرام کے منہج سے انحراف‘‘ از شیخ ربیع المدخلی ﷾وغیرہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
شہادتین کا صحیح مطلب اور اس کی باطل تفسیرات
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/shahadatain_sahi_mana_batil_tafseer.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1- ’’شھادۃ ان لا الہ الا اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ :
’’الاعتقاد والإقرار أنه لا يستحقُّ العبادةَ إلا الله ، والتزام ذلك والعمل به ‘‘
(اس بات کا اقرار کرنا اور اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کا التزام کرنا اوراس پرعمل کرنا)۔
چناچہ ’’لا الہ ‘‘ اس بات کی نفی ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کا مستحق ہو خواہ کوئی بھی ہو ، ’’الا اللہ‘‘ اس بات کا اثبات ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالی ہے ، اور اس کلمہ کا اجمالی مطلب یہ ہے کہ: ’’لا معبودَ بحقٍّ إلا الله‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں) ، اور ’’لا‘‘ کی خبر کو ’’بحقٍّ‘‘ (برحق) سے ہی تعبیر کیا جائے گا ، اس کو موجود سے تعبیر کرنا درست نہیں ([1])، کیونکہ یہ حقیقتِ حال کے خلاف ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کے سوا معبودات تو باکثرت موجود ہیں اور اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ ان معبودات کی عبادت کرنا بھی گویا اللہ تعالی کی ہی عبادت ہے ،جبکہ یہ باطل ترین بات ہوگی۔ اور یہ وحدة الوجود کے قائل لوگوں کا مذہب ہے جوکہ اس زمین کے سب سے بڑے کافر لوگ ہیں ۔
اس کلمہ کی بہت سی باطل تفسیرات بھی کی گئیں ، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
1. اس کا مطلب ہے : ’’لا معبودَ إلا الله‘‘ (کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالی کے )۔
جبکہ یہ باطل تفسیر ہے ، اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ : ہر معبودخواہ حق ہو یا باطل وہ اللہ ہے ، جیسا کہ ہم نے پہلے کچھ اس کا بیان کیا ہے۔
2. اس کا مطلب ہے :’’لا خالقَ إلا الله‘‘ (کوئی پیدا کرنے والا نہیں سوائے اللہ تعالی کے)۔
یہ اس کلمہ کے معنی کا صرف ایک جزء ہے ،حالانکہ یہ اصل مقصود نہیں ، کیونکہ اس سے صرف توحیدِ ربوبیت ثابت ہوتی ہے ، اور محض یہ توحید کافی نہیں یہ تو مشرکین کی بھی توحید ہے۔
3- اس کا مطلب ہے :’’لا حاكميّةَ إلا لله‘‘ (کسی کی حاکمیتِ اعلیٰ نہیں سوائے اللہ تعالی کے)۔
یہ بھی در حقیقت اس کلمہ کے معنی کا صرف ایک جزء ہے ، اصل مقصود نہیں ، اور نا ہی یہ کافی ہے ،کیونکہ اگر کوئی اللہ تعالی کو صرف حاکمیتِ اعلی میں اکیلا تسلیم بھی کرلے لیکن ساتھ ہی اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارے، اس سے دعاء کرے یا کچھ عبادت اس کے لیے ادا کرے تو وہ موحد نہیں ہوگا۔ پس اس قسم کی تمام تفسیرات باطل یا ناقص ہیں ، ہم نے اس پر اس لئے تنبیہ کی ہےکیونکہ یہ بعض عام طور پر پڑھی جانے والی کتابوں میں موجود ہے ۔
چناچہ اس کلمے کی صحیح تفسیر سلف صالحین اور محققین کی نظر میں یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے : ’’لا معبود بحق إلا الله ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں) جیسا کہ اس کاپہلے ذکر ہوچکا ہے([2]) ۔
2- ’’شھادۃ ان محمدا رسول اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے: اس بات کا اعتراف باطن اور ظاہر میں کیا جائے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں ، اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جائے اس طرح کہ:
’’طاعته فيما أمر ، وتصديقه فيما أخبر ، واجتناب ما نهى عنه وزجر ، وألا يُعبدَ الله إلا بما شرع‘‘
(جن باتوں کا وہ حکم فرمائیں ان کی اطاعت کی جائے، جن باتوں کی وہ خبر فرمائیں ان کی تصدیق کی جائے، جن باتوں سے منع اور خبردار فرمائیں ان سے اجتناب کیا جائے اور اللہ تعالی کی عبادت نہ کی جائے مگر صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق)۔
[1]یعنی ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کا معنی ’’لامعبود بحق الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں) کیا جائے گا نہ کہ ’’لامعبودالااللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں) یا پھر ’’لامعبود موجود الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود موجود نہیں)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اسکی تفصیل جاننے کے لیے پڑھیں کتاب ’’فتح الملک الوھاب فی رد شبہ المرتاب‘‘ از شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوہابs ، ’’دروس من القرآن الکریم‘‘ از شیخ صالح الفوزان﷾، ’’دینی سیاسی جماعتوں کا انبیاء کرام کے منہج سے انحراف‘‘ از شیخ ربیع المدخلی ﷾وغیرہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Refuting the deviant groups and organizations – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
منحرف جماعتوں کا رد کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/03/munharif_jamato_ka_rad_karna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: میں بعض گمراہ جماعتوں کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں اور ان سے خبردار کرنا چاہتا ہوں، لیکن یہ جماعتیں اپنی گمراہی کے باوجود ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہیں، اور بعض علماء نے ان کی مدح وتعریف بھی کی ہوئی ہے۔ لہذا میں ڈرتا ہوں کہیں یہ مجھ پر بددعاء نہ کرلیں۔ آپ اس بارے میں کیا رہنمائی فرمائیں گے یہ بات علم میں رہے کہ یہ یقیناً ایک گمراہ جماعت ہےجس کا رد مقصود ہے؟
الشیخ: آپ پر حق بات بیان کرنا واجب ہے۔ اگر آپ کو ان کے پاس موجود غلطیوں اور گمراہیوں کے بارے میں سو فیصد یقین ہے اور آپ کے پاس اس کی قدرت وصلاحیت اور ایسا علم ہے جس سے اسے بیان کرسکیں تو آپ پر واجب ہے کہ بیان کریں۔
فرمان الہی ہے:
﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ﴾ (آل عمران: 187)
(اور یا د کرو اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں)
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ، اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ﴾ (البقرۃ: 159-160)
(بے شک جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں)
کتمانِ علم (علم کو چھپانا) جائز نہیں۔ اگر آپ کے پاس علم ہے اور آپ کسی جماعتوں کی گمراہی کے بارے میں متیقن ہیں تو ضرور اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں تاکہ وہ ان سے خبردار رہیں اور یہ تو مسلمانوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے باب میں سے ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ ‘‘([1])
(دین تو نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے؟ ہم نے کہا: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور ان کی عوام کے لیے)۔
لوگوں سے نہ ڈریں۔ آپ پر واجب ہے کہ صرف اللہ تعالی سے ڈریں اور حق کو بیان کریں ،باطل کا رد کریں، اورلوگوں سے نہ ڈریں۔
[1] صحیح مسلم 55۔
منحرف جماعتوں کا رد کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/03/munharif_jamato_ka_rad_karna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: میں بعض گمراہ جماعتوں کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں اور ان سے خبردار کرنا چاہتا ہوں، لیکن یہ جماعتیں اپنی گمراہی کے باوجود ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہیں، اور بعض علماء نے ان کی مدح وتعریف بھی کی ہوئی ہے۔ لہذا میں ڈرتا ہوں کہیں یہ مجھ پر بددعاء نہ کرلیں۔ آپ اس بارے میں کیا رہنمائی فرمائیں گے یہ بات علم میں رہے کہ یہ یقیناً ایک گمراہ جماعت ہےجس کا رد مقصود ہے؟
الشیخ: آپ پر حق بات بیان کرنا واجب ہے۔ اگر آپ کو ان کے پاس موجود غلطیوں اور گمراہیوں کے بارے میں سو فیصد یقین ہے اور آپ کے پاس اس کی قدرت وصلاحیت اور ایسا علم ہے جس سے اسے بیان کرسکیں تو آپ پر واجب ہے کہ بیان کریں۔
فرمان الہی ہے:
﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ﴾ (آل عمران: 187)
(اور یا د کرو اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں)
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ، اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ﴾ (البقرۃ: 159-160)
(بے شک جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں)
کتمانِ علم (علم کو چھپانا) جائز نہیں۔ اگر آپ کے پاس علم ہے اور آپ کسی جماعتوں کی گمراہی کے بارے میں متیقن ہیں تو ضرور اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں تاکہ وہ ان سے خبردار رہیں اور یہ تو مسلمانوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے باب میں سے ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ ‘‘([1])
(دین تو نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے؟ ہم نے کہا: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور ان کی عوام کے لیے)۔
لوگوں سے نہ ڈریں۔ آپ پر واجب ہے کہ صرف اللہ تعالی سے ڈریں اور حق کو بیان کریں ،باطل کا رد کریں، اورلوگوں سے نہ ڈریں۔
[1] صحیح مسلم 55۔
[Urdu Article] Tafseer of Ayat-ul-Kursee – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تفسیر آیۃ الکرسی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تفسير العلامة محمد بن صالح العثيمين
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾ (البقرۃ: 255)
(اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبودحقیقی نہیں، زندہ ہے، خود قائم ہے اور ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر وسیع ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے عظیم ہے)
تفسیر کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/tafseer_ayat_ul_kursi.pdf
تفسیر آیۃ الکرسی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تفسير العلامة محمد بن صالح العثيمين
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾ (البقرۃ: 255)
(اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبودحقیقی نہیں، زندہ ہے، خود قائم ہے اور ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر وسیع ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے عظیم ہے)
تفسیر کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/tafseer_ayat_ul_kursi.pdf
[Urdu Article] Can Salafi Dawa'ah not spread without making Jamiat? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا بغیر جمعیت بنائے سلفی دعوت نہیں پھیل سکتی؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ: سلفيتنا أقوى من سلفية الألباني : شبة والرد عليها۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/02/bina_jamiat_salafi_dawat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سلفی دعوت کے مقدر میں پھیلنااور منتشر ہونا سوائے جمعیات بنانے کے رقم نہیں ہوسکتا۔ جبکہ دوسرے ساتھی ان سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جمعیات تو سلفیوں کے درمیان تفرقہ کا سبب ہيں، پس آپ کی اس قسم کی عبارت کے بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اللہ کی قسم ہم تو یہی کہتے ہيں کہ: ’’وكل خير في اتباع من سلف، وكل شر في ابتداع من خلف‘‘ (ہر خیر سلف کی اتباع میں ہے اور ہر شر خلف کی ایجاد کردہ بدعتوں میں ہے)۔ کیونکہ سلف نے اس دین کی نشر واشاعت کی اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کے ذریعہ پوری دنیا فتح کرلی۔ پس وہ جہاد میں جان ومال کے ساتھ تعاون کرتے۔ لیکن اس منظم اور تنظیمی طریقے سے نہیں جو مغرب سے ہماری طرف آئے ہیں۔ تم اپنا جان اور مال پیش کرو کوئی دوسرا بھی پیش کرے تو میری جدوجہد تمہاری جدوجہد سے مل جائے اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کی شکل بن جائے۔ اور کلمۃ اللہ کو آگے پہنچاتے گئے۔ اِس ملک کو فتح کیا اُس ملک کو فتح کیا۔ پھر علماء نے ان کے نقش قدم پرچل کر ایک دنیا کو فتح کرلیا۔ پس علماء کرام نے علم کا جھنڈا لہرایا اور پورے عالم میں اسے نشر کیا۔ یہ اِس مسجد میں پڑھا رہا ہے اور وہ اُس مسجد میں پڑھا رہا ہے۔ اور ان سب کی جدوجہد باہم یکجا ہوجاتی ہیں۔ پس فلاں طالبعلم اور فلاں طالبعلم ایک ہی منہج کتاب وسنت پر پروان چڑھتے ہیں۔ لہذا اس کا نتیجہ، آثار اور ثمر ان جمعیات سے کئی گنا افضل ہوتا ہےجوکسی طالبعلم کو صحیح پروان چڑھانے تک سے عاجز ہیں علماء بنانا تو دور کی بات رہی۔
میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں شیخ مقبل رحمہ اللہ ان جمعیات اور ان کے اسلوب کا انکار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا ایک علمی مرکز بنایا اور طلبہ کو علم دیا۔ تو وہاں سے طلبہ سے بڑھ کر علماء تک پیدا ہوئے اور ہرکوئی اپنے اپنے وطن لوٹ گیا۔ اور وہا ں کسی مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ جس کی وجہ سےانہوں نے ایک نئی نسل کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پروان چڑھائی۔ جبکہ دوسری طرف دنیا کے مشرق ومغرب میں پھیلی ان جمعیات کے بارے میں آپ مجھے بتائیں کتنے عالم انہوں نے پیدا کیے۔ کچھ نہیں! اور اس کمزور شخص نے کہ جس کے پاس نہ مال تھا نہ کچھ اپنے اخلاص اور محنت سے اللہ کی قسم یہ سب کچھ کیا جس سے یہ جمعیات عاجزہیں۔ بلکہ اس کے عشر عشیر تک کرنے سے عاجز ہیں کہ کسی عالم کو پیدا نہ کرسکیں۔ پھر ان پر حزبیت کا غلبہ ہوتا ہے اور اپنی جمعیت کی بنیاد پر الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کرتے ہیں۔، اور تفرقہ ہوتا ہے اور انہی کے سبب سے کئی مسلم ممالک میں سلفیوں کے درمیان پھوٹ پڑی ہے۔ میرے سامنے کسی بھی جمعیت کا نام پیش کریں سوائے جمعیت البر کے جو ابھی تک محفوظ ہے اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائے انہیں بھی ہم نصیحت کرتے ہیں کہ جمعیت والا مسلک چھوڑدیں جس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ ان جمعیات نے اسلام اور سلفی منہج کا صفایا کردیا ہے، اور سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ اور مسلمانوں کی جیبوں میں سے ان کا مال ہتھیا کر اپنی جیبیں بھر لی ہیں جسے وہ یہاں اور وہاں سلفیت کے خاتمے کے لیے استعمال کرتے ہیں چاہے یہ سوڈان میں ہو یا صومالیہ، اریٹیریا، پاکستان، ہندوستان یا افغانستان میں۔ یہ مال (فنڈز) کو جمع کرتے ہیں اور غایت درجے مکر سے کام لیتے ہوئے اسے سلفی منہج کے خاتمے کے لیے استعمال کرتےہیں۔ اور اس بات میں یہ ماہر ہیں۔ پھر کیسے یہ توقع کی جائے کہ یہ جمعیات سلف صالحین کےمنہج کی تعلیم دیں گی جبکہ یہ خود اس میں ناکام ہيں اور سلفی منہج کے ذریعے ترقی کرنے سے عاجز ہیں۔ پس ہم ہر اس شخص کو نصیحت کرتے ہیں کہ جسے اللہ تعالی نے کچھ علم دیا ہے کہ وہ ایک مسجد لے اور اچھے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرے جنہیں وہ جانتا ہے پھر انہیں تعلیم دے۔ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ اگر میں اپنی مسجد سے دس علماء فارغ کروں اور آپ اپنے مسجد سے دس علماء فارغ کریں اور وہ بھی دس کرے وغیرہ جبکہ ہم ایک ہی شہر یا ملک میں ہیں تو ہم چالیس پچاس علماء پیدا کرسکتے ہيں۔ اللہ کی قسم جو ایسی ہزار جمعیت سے بہتر ہے اور ان جمعیت کے قائم کردہ معاہد سے بہتر ہے۔
کیا بغیر جمعیت بنائے سلفی دعوت نہیں پھیل سکتی؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ: سلفيتنا أقوى من سلفية الألباني : شبة والرد عليها۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/02/bina_jamiat_salafi_dawat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سلفی دعوت کے مقدر میں پھیلنااور منتشر ہونا سوائے جمعیات بنانے کے رقم نہیں ہوسکتا۔ جبکہ دوسرے ساتھی ان سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جمعیات تو سلفیوں کے درمیان تفرقہ کا سبب ہيں، پس آپ کی اس قسم کی عبارت کے بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اللہ کی قسم ہم تو یہی کہتے ہيں کہ: ’’وكل خير في اتباع من سلف، وكل شر في ابتداع من خلف‘‘ (ہر خیر سلف کی اتباع میں ہے اور ہر شر خلف کی ایجاد کردہ بدعتوں میں ہے)۔ کیونکہ سلف نے اس دین کی نشر واشاعت کی اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کے ذریعہ پوری دنیا فتح کرلی۔ پس وہ جہاد میں جان ومال کے ساتھ تعاون کرتے۔ لیکن اس منظم اور تنظیمی طریقے سے نہیں جو مغرب سے ہماری طرف آئے ہیں۔ تم اپنا جان اور مال پیش کرو کوئی دوسرا بھی پیش کرے تو میری جدوجہد تمہاری جدوجہد سے مل جائے اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کی شکل بن جائے۔ اور کلمۃ اللہ کو آگے پہنچاتے گئے۔ اِس ملک کو فتح کیا اُس ملک کو فتح کیا۔ پھر علماء نے ان کے نقش قدم پرچل کر ایک دنیا کو فتح کرلیا۔ پس علماء کرام نے علم کا جھنڈا لہرایا اور پورے عالم میں اسے نشر کیا۔ یہ اِس مسجد میں پڑھا رہا ہے اور وہ اُس مسجد میں پڑھا رہا ہے۔ اور ان سب کی جدوجہد باہم یکجا ہوجاتی ہیں۔ پس فلاں طالبعلم اور فلاں طالبعلم ایک ہی منہج کتاب وسنت پر پروان چڑھتے ہیں۔ لہذا اس کا نتیجہ، آثار اور ثمر ان جمعیات سے کئی گنا افضل ہوتا ہےجوکسی طالبعلم کو صحیح پروان چڑھانے تک سے عاجز ہیں علماء بنانا تو دور کی بات رہی۔
میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں شیخ مقبل رحمہ اللہ ان جمعیات اور ان کے اسلوب کا انکار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا ایک علمی مرکز بنایا اور طلبہ کو علم دیا۔ تو وہاں سے طلبہ سے بڑھ کر علماء تک پیدا ہوئے اور ہرکوئی اپنے اپنے وطن لوٹ گیا۔ اور وہا ں کسی مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ جس کی وجہ سےانہوں نے ایک نئی نسل کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پروان چڑھائی۔ جبکہ دوسری طرف دنیا کے مشرق ومغرب میں پھیلی ان جمعیات کے بارے میں آپ مجھے بتائیں کتنے عالم انہوں نے پیدا کیے۔ کچھ نہیں! اور اس کمزور شخص نے کہ جس کے پاس نہ مال تھا نہ کچھ اپنے اخلاص اور محنت سے اللہ کی قسم یہ سب کچھ کیا جس سے یہ جمعیات عاجزہیں۔ بلکہ اس کے عشر عشیر تک کرنے سے عاجز ہیں کہ کسی عالم کو پیدا نہ کرسکیں۔ پھر ان پر حزبیت کا غلبہ ہوتا ہے اور اپنی جمعیت کی بنیاد پر الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کرتے ہیں۔، اور تفرقہ ہوتا ہے اور انہی کے سبب سے کئی مسلم ممالک میں سلفیوں کے درمیان پھوٹ پڑی ہے۔ میرے سامنے کسی بھی جمعیت کا نام پیش کریں سوائے جمعیت البر کے جو ابھی تک محفوظ ہے اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائے انہیں بھی ہم نصیحت کرتے ہیں کہ جمعیت والا مسلک چھوڑدیں جس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ ان جمعیات نے اسلام اور سلفی منہج کا صفایا کردیا ہے، اور سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ اور مسلمانوں کی جیبوں میں سے ان کا مال ہتھیا کر اپنی جیبیں بھر لی ہیں جسے وہ یہاں اور وہاں سلفیت کے خاتمے کے لیے استعمال کرتے ہیں چاہے یہ سوڈان میں ہو یا صومالیہ، اریٹیریا، پاکستان، ہندوستان یا افغانستان میں۔ یہ مال (فنڈز) کو جمع کرتے ہیں اور غایت درجے مکر سے کام لیتے ہوئے اسے سلفی منہج کے خاتمے کے لیے استعمال کرتےہیں۔ اور اس بات میں یہ ماہر ہیں۔ پھر کیسے یہ توقع کی جائے کہ یہ جمعیات سلف صالحین کےمنہج کی تعلیم دیں گی جبکہ یہ خود اس میں ناکام ہيں اور سلفی منہج کے ذریعے ترقی کرنے سے عاجز ہیں۔ پس ہم ہر اس شخص کو نصیحت کرتے ہیں کہ جسے اللہ تعالی نے کچھ علم دیا ہے کہ وہ ایک مسجد لے اور اچھے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرے جنہیں وہ جانتا ہے پھر انہیں تعلیم دے۔ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ اگر میں اپنی مسجد سے دس علماء فارغ کروں اور آپ اپنے مسجد سے دس علماء فارغ کریں اور وہ بھی دس کرے وغیرہ جبکہ ہم ایک ہی شہر یا ملک میں ہیں تو ہم چالیس پچاس علماء پیدا کرسکتے ہيں۔ اللہ کی قسم جو ایسی ہزار جمعیت سے بہتر ہے اور ان جمعیت کے قائم کردہ معاہد سے بہتر ہے۔
[Urdu Article] Can the Jamiat Ahlehadees be dissolved after its formation? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا جمعیت اہلحدیث کے قیام کے بعد اسے تحلیل کیا جاسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی
مصدر: مكالمة هاتفية ویب سائٹ منابر النور (تفریغ: خمیس بن ابراہیم المالکی)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/jamiat_ahlehadees_qiyam_baad_tehleel.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا حکومت کے مخالف نہیں بلکہ اس کے تابع ہونا جمعیت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے؟
کیا سعودی مشایخ کو دیگر ممالک کے نظام اور جمعیات کا علم نہیں؟([1])
یہ ٹیلی فونک مکالمہ ہے جو ابو عبدالاعلیٰ خالد عثمان المصری اور علامہ شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ کے مابین ہوئی،چونکہ یہ مکالمہ خصوصی طور پر جمعیات اور اس کے نتیجے میں مرتب ہونے والے معاملات کے متعلق تھا اسی لیے اسے من وعن نقل کیا جارہا ہے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آپ کے ساتھ محمود بھائی بات کریں گے بارک اللہ فیکم یا شیخ۔
محمود: السلام علیکم فضیلۃ الشیخ۔
شیخ ربیع: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محمود: شیخ آپ کی جمعیت اہلحدیث والاثر وغیرہ جمعیات جو کہ مصر میں وزارت سماجی یکجہتی اور اجتماعی امورکے تابع ہے کا کیا حکم ہے؟
شیخ ربیع: بارک اللہ فیک، میرے پاس مکمل معرفت ہے ان جمعیات کے تعلق سے اس ملک کے اندر ہو یا دیگر ممالک میں کوئی بھی سلفی (اہلحدیث) جمعیت نہیں بنتی مگر وہ منحرف ہوہی جاتی ہے چاہے مصر میں ہو یا سوڈان، یمن یا دیگر ممالک میں۔ ان کا اہم ترین ہدف پھر جمعیت کے عہدوں،امارت اور مال(چندہ وفنڈنگ) کے لیے لڑنا جھگڑنا رہ جاتا ہے اور نتیجتاً سب کچھ ضائع ہوجاتا ہے۔۔۔اور بہت دور کے انحراف میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سلف کی دعوت جمعیات کے ذریعے نہيں پھیلی
شیخ ربیع فرماتے ہیں کہ:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب: 21)
(یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں ہمیشہ سے(او رہر زمان ومکان کے لیے) عمدہ نمونہ (موجود) ہے)
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت جمعیات کے ذریعے نہیں چلی تھی!! بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت مسجد کے ذریعے چلی تھی، پھر دیگر مساجد تک پھیلتی گئی پھر اس نے پوری دنیا کو بھر دیا اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالی نے پوری دنیا کو فتح کروادیا۔
پھر سلف صالحین میں سے آئمہ حدیث وفقہ وتفسیر نے بھی علم انہی مساجد یا اپنے گھروں کے ذریعے پھیلایا اور ان کے ذریعے سے اللہ تعالی نے لوگوں کو نفع پہنچایا۔ ان کے ہاتھوں ہی سلفی دعوت پھیلی یہاں تک کہ ہم تک پہنچی جو کہ اپنی بہترین حالت میں تھی۔پھر جب ان کی جگہ ان جمعیات نے لے لی تو یہ ضائع ہوگئی اور پھوٹ کا شکار ہوگئی۔
اور مجھ سے ابوعبدالاعلی بھائی نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ ہم کوئی جمعیت کھولتے ہیں وغیرہ۔ تو میں نے ان سے کہا: آپ نے پہلے بھی مجھ سے مشورہ لیا تھا تو میں نے نہیں کہا تھا یا جو بھی میں نے اس وقت کہا تھا۔
محمود: جی۔
اگر کوئی سلفی عالم نیک نیتی سے جمعیت قائم کرے اور اس کے فوائد بھی ہوں مگر جب آگے چل کر وہ حزبیت کی صورت اختیار کرلے تو اسے ختم کردینا چاہیے
جمعیت کا قدیم ہونا بھی اس کے صحیح ہونے یا چلتے رہنے کی دلیل نہیں
شیخ ربیع: (تمہاری جمعیت) ابھی شروع ہوئی۔۔۔ اور تم اس سے محبت کرتے ہو! اور برائی کی نشانیاں دِکھنا شروع ہوگئی!! پھر آخر تم چاہتے کیا ہو؟!! یہ کیا بات ہے۔۔۔؟ بارک اللہ فیک۔ جمعیت میں جمعیت انصار السنۃ کو ہی لےلو جو شیخ محمد حامد الفقی رحمہ اللہ اور ان جیسے اشخاص کے ہاتھوں (سن1926ع میں) قائم ہوئی اور اللہ تعالی نے اس کے ذریعے بہت نفع پہنچایا، بارک اللہ فیک۔ پھروہ لوگ اس سے تجاوز کر گئے۔۔۔۔! اللہ کی قسم میں انصار السنۃ کے مرکز میں داخل ہوا تو پھر چیخ وپکار، لڑائی جھگڑے، مشاکل وفتنے ہی سننے کو ملے!! سب کے سب مال اور دنیا کے متعلق تھے! اور یہ تو بہت پرانی بات ہے تیس سال پرانی، اس سے اندازہ لگائیں اب اس کا کیا حال ہوگا؟۔۔۔!! میرے بھائی۔
محمود: جی۔
دعویٰ: جمعیت کے بغیر تو دعوتی کام ہو ہی نہیں سکتا!([2])
ہماری جمعیت میں دیگر جمعیت جیسی حزبی خرابیاں نہ ہوں تو؟
اگر جمعیت نہیں تو پھر کیا کیا جائے؟
شیخ ربیع: جس کے پاس علم ہو اسے ایک مسجد لے دو۔ وہ اس مسجد سے جڑا رہے اور اس میں تدریس کرتا رہےجتنا میسر ہو دس کو بیس کو، تیس کو غرض جتنا ہوسکے، انہیں تعلیم دو انہیں علمی متون یاد کرواؤ۔ انہیں کتاب وسنت کے نصوص یاد کرواؤ اور انہیں فقہ، حدیث، تفسیر اور لغت وغیرہ کی تعلیم دو۔ انہی میں سے علماء پیدا ہوں گے۔ اور ایسے دس علماء ان سینکڑوں جمعیتوں سے بہتر ہیں۔ یہ جمعیات محض تخریبکاری وضیاع کاری کے لیے آلۂ کار پیدا کرتی ہیں اور کچھ نہیں۔
محمود: شیخ اگر ہمارے لیے ممکن ہی نہیں د
کیا جمعیت اہلحدیث کے قیام کے بعد اسے تحلیل کیا جاسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی
مصدر: مكالمة هاتفية ویب سائٹ منابر النور (تفریغ: خمیس بن ابراہیم المالکی)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/jamiat_ahlehadees_qiyam_baad_tehleel.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا حکومت کے مخالف نہیں بلکہ اس کے تابع ہونا جمعیت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے؟
کیا سعودی مشایخ کو دیگر ممالک کے نظام اور جمعیات کا علم نہیں؟([1])
یہ ٹیلی فونک مکالمہ ہے جو ابو عبدالاعلیٰ خالد عثمان المصری اور علامہ شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ کے مابین ہوئی،چونکہ یہ مکالمہ خصوصی طور پر جمعیات اور اس کے نتیجے میں مرتب ہونے والے معاملات کے متعلق تھا اسی لیے اسے من وعن نقل کیا جارہا ہے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آپ کے ساتھ محمود بھائی بات کریں گے بارک اللہ فیکم یا شیخ۔
محمود: السلام علیکم فضیلۃ الشیخ۔
شیخ ربیع: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محمود: شیخ آپ کی جمعیت اہلحدیث والاثر وغیرہ جمعیات جو کہ مصر میں وزارت سماجی یکجہتی اور اجتماعی امورکے تابع ہے کا کیا حکم ہے؟
شیخ ربیع: بارک اللہ فیک، میرے پاس مکمل معرفت ہے ان جمعیات کے تعلق سے اس ملک کے اندر ہو یا دیگر ممالک میں کوئی بھی سلفی (اہلحدیث) جمعیت نہیں بنتی مگر وہ منحرف ہوہی جاتی ہے چاہے مصر میں ہو یا سوڈان، یمن یا دیگر ممالک میں۔ ان کا اہم ترین ہدف پھر جمعیت کے عہدوں،امارت اور مال(چندہ وفنڈنگ) کے لیے لڑنا جھگڑنا رہ جاتا ہے اور نتیجتاً سب کچھ ضائع ہوجاتا ہے۔۔۔اور بہت دور کے انحراف میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سلف کی دعوت جمعیات کے ذریعے نہيں پھیلی
شیخ ربیع فرماتے ہیں کہ:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب: 21)
(یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں ہمیشہ سے(او رہر زمان ومکان کے لیے) عمدہ نمونہ (موجود) ہے)
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت جمعیات کے ذریعے نہیں چلی تھی!! بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت مسجد کے ذریعے چلی تھی، پھر دیگر مساجد تک پھیلتی گئی پھر اس نے پوری دنیا کو بھر دیا اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالی نے پوری دنیا کو فتح کروادیا۔
پھر سلف صالحین میں سے آئمہ حدیث وفقہ وتفسیر نے بھی علم انہی مساجد یا اپنے گھروں کے ذریعے پھیلایا اور ان کے ذریعے سے اللہ تعالی نے لوگوں کو نفع پہنچایا۔ ان کے ہاتھوں ہی سلفی دعوت پھیلی یہاں تک کہ ہم تک پہنچی جو کہ اپنی بہترین حالت میں تھی۔پھر جب ان کی جگہ ان جمعیات نے لے لی تو یہ ضائع ہوگئی اور پھوٹ کا شکار ہوگئی۔
اور مجھ سے ابوعبدالاعلی بھائی نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ ہم کوئی جمعیت کھولتے ہیں وغیرہ۔ تو میں نے ان سے کہا: آپ نے پہلے بھی مجھ سے مشورہ لیا تھا تو میں نے نہیں کہا تھا یا جو بھی میں نے اس وقت کہا تھا۔
محمود: جی۔
اگر کوئی سلفی عالم نیک نیتی سے جمعیت قائم کرے اور اس کے فوائد بھی ہوں مگر جب آگے چل کر وہ حزبیت کی صورت اختیار کرلے تو اسے ختم کردینا چاہیے
جمعیت کا قدیم ہونا بھی اس کے صحیح ہونے یا چلتے رہنے کی دلیل نہیں
شیخ ربیع: (تمہاری جمعیت) ابھی شروع ہوئی۔۔۔ اور تم اس سے محبت کرتے ہو! اور برائی کی نشانیاں دِکھنا شروع ہوگئی!! پھر آخر تم چاہتے کیا ہو؟!! یہ کیا بات ہے۔۔۔؟ بارک اللہ فیک۔ جمعیت میں جمعیت انصار السنۃ کو ہی لےلو جو شیخ محمد حامد الفقی رحمہ اللہ اور ان جیسے اشخاص کے ہاتھوں (سن1926ع میں) قائم ہوئی اور اللہ تعالی نے اس کے ذریعے بہت نفع پہنچایا، بارک اللہ فیک۔ پھروہ لوگ اس سے تجاوز کر گئے۔۔۔۔! اللہ کی قسم میں انصار السنۃ کے مرکز میں داخل ہوا تو پھر چیخ وپکار، لڑائی جھگڑے، مشاکل وفتنے ہی سننے کو ملے!! سب کے سب مال اور دنیا کے متعلق تھے! اور یہ تو بہت پرانی بات ہے تیس سال پرانی، اس سے اندازہ لگائیں اب اس کا کیا حال ہوگا؟۔۔۔!! میرے بھائی۔
محمود: جی۔
دعویٰ: جمعیت کے بغیر تو دعوتی کام ہو ہی نہیں سکتا!([2])
ہماری جمعیت میں دیگر جمعیت جیسی حزبی خرابیاں نہ ہوں تو؟
اگر جمعیت نہیں تو پھر کیا کیا جائے؟
شیخ ربیع: جس کے پاس علم ہو اسے ایک مسجد لے دو۔ وہ اس مسجد سے جڑا رہے اور اس میں تدریس کرتا رہےجتنا میسر ہو دس کو بیس کو، تیس کو غرض جتنا ہوسکے، انہیں تعلیم دو انہیں علمی متون یاد کرواؤ۔ انہیں کتاب وسنت کے نصوص یاد کرواؤ اور انہیں فقہ، حدیث، تفسیر اور لغت وغیرہ کی تعلیم دو۔ انہی میں سے علماء پیدا ہوں گے۔ اور ایسے دس علماء ان سینکڑوں جمعیتوں سے بہتر ہیں۔ یہ جمعیات محض تخریبکاری وضیاع کاری کے لیے آلۂ کار پیدا کرتی ہیں اور کچھ نہیں۔
محمود: شیخ اگر ہمارے لیے ممکن ہی نہیں د
عوت دینا سوائے ان جمعیات کے طریقے سے؟ اور اگر ۔۔۔ہم ایسے امور جن میں دیگر جمعیات مبتلا ہیں (نہ پڑیں)؟ اس صورت میں آخر حل کیا ہے؟
شیخ ربیع: اللہ کی قسم! اس کا حل یہی ہے کہ مساجد حاصل کرو اور اس میں تعلیم دو۔ شیخ مقبل رحمہ اللہ نے کوئی جمعیت نہيں بنائی! بلکہ وہ تو جمعیات کے خلاف لڑتے تھے! کیا آپ کو شیخ مقبل رحمہ اللہ یاد ہیں؟ انہوں نے کوئی جمعیت نہیں بنائی بس مسجد بنائی اور اللہ تعالی نے ان کے ذریعے سے نفع پہنچایا۔ پھر پورے یمن میں مساجد بننا شروع ہوگئی۔ جو سب کی سب مراکز کے نام سے عبارت تھیں، بارک اللہ فیک۔ جو کہ مدارس تھے جمعیت نہیں بارک اللہ فیک!۔ اور یہ اب نبردآزما ہیں۔۔۔جمعیات سے اور اللہ تعالی نے ان کے ذریعے نفع پہنچایا اور جمعیات کو تہس نہس کیا، بارک اللہ فیکم۔ آپ لوگ کوشش کریں کہ عقیدہ ومنہج اور صحیح علم کی نشرواشاعت کے لیے سلفی طریقے کو اپنائیں، بارک اللہ فیکم۔ آج نوجوانوں میں علماء موجود نہیں! جمعیات کھڑی کرتے ہیں! پھر ان میں سے کیا پیدا ہوتا ہے؟! ان میں سے کون نکلتے ہیں؟! وہ ابھی تک جاہل لوگ ہیں!! پھر لوگوں کو کیسے پروان چڑھائیں گے؟!! کیا انہیں بطور علماء پروان چڑھائیں گے اور ان میں سے علماء متخرج ہوں گے؟
محمود: جی بالکل فضیلۃ الشیخ ۔
شیخ ربیع: یا شیخ کیا اس طرح علماء کی تخریج ہوتی ہے؟!
محمود: نہیں نہیں ظاہر بات ہے۔ لیکن اگر ہم کوئی علمی مرکز قائم کریں گے تو دوسرے مسائل یہاں درپیش ہوجاتےہیں کہ جن میں واقع ہونا ممکن ہے جیسے ٹیکس اور انشورنس اور اس قسم کی دیگر چیزیں جو مصر کے وضعی قانون میں موجود ہیں۔
شیخ ربیع: صحیح ہے، تو کیا جمعیات میں ٹیکس نہیں؟
محمود: نہیں، جمعیات پر ٹیکس اور انشورنس منع ہے لیکن فنڈز بینک میں رکھنے ہوتے ہیں۔
شیخ ربیع: تم میں سے ہر کوئی ایک مسجد بنالے بس۔ نہ مرکز بنائے اور نہ جمعیات۔ ہر کوئی ایک مسجد پکڑے اور اس میں تدریس کرے بس۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: کوشش کرو ساتھیوں کی جماعت کے ساتھ کسی بات پر اتفاق کرلو، بارک اللہ فیک، اور جسے ان میں سے کچھ علم ہے تو وہ تدریس کے فرائض انجام دے۔ اور اللہ تعالی اس کوشش یا ان کوششوں میں برکت دے گا۔ اور آپ کے ہاتھوں علماء متخرج ہوں گے ان شاء اللہ جو خالص سلفیت کے حامل ہوں گے۔
جمعیت کے امراء کونصیحت کرنا
کیا شیخ ربیع جمعیت اہلحدیث اور ان کے امراء کو نصیحت نہیں کرچکے؟
کیا وہ ان کی نصیحت سنتے بھی ہیں؟!
محمود: جی بالکل اچھی بات ہے۔ یا شیخ مصر کی ان جمعیات کے امراء کو کوئی عمومی نصیحت فرمائیں جسے ہم ابھی ریکارڈ کرسکیں؟
شیخ ربیع: اللہ کی قسم! جمعیت کے امیر میری نصیحتیں نہیں سنتے!! اگر وہ میری نصیحتیں سنتے ہوتے تو ان جمعیات کے بغیر علم کو نشر کرتے! یا شیخ ہم انہیں نصیحت کرچکے ہیں۔
محمود: یعنی اب ہم یہ کرتے ہیں کہ۔۔۔
شیخ ربیع:۔۔۔ہم نے انہیں نصیحت کی ہے! دین کے تعلق سے نصیحت کی ہے۔۔۔! اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی نصیحت کی ہے! انصار السنۃ کو سوڈان میں بھی نصیحت کی ہے! لیکن ان کا انجام یہی خسارہ رہا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔
کیا جمعیت کو ختم کردینا چاہیے؟
اگر جمعیت کو علماء کرام نے قائم کیا ہو پھر بھی؟
جمعیات کے اثرات
محمود: ابھی ہم اس جمعیت اہلحدیث والاثر کی تحلیل کا عمل شروع کریں گے۔
شیخ ربیع: اللہ کی قسم!اگر آپ ابھی سے فساد وشر کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں جیسا کہ بتایا (۔۔۔ابھی تک محبت ہے)؛ تو اس سے جان چھڑا کر راحت پائیں، بارک اللہ فیک۔ یعنی ایک عالم ایسی دسیوں جمعیات سے بہتر ہے یا شیخ۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: ایک عالم جو بہت معمولی تعداد میں علماء فارغ کرے ایسی سینکڑوں جمعیات سے بہتر ہے۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: ایسی جمعیات جودنیا پر اور اس کے مال ومتاع پر لڑمرتی ہیں پھر دعوت کو ضائع کردیتی ہیں!
محمود: جی۔
شیخ ربیع: یعنی اب ایسی جمعیات موجود ہیں کہ جن کی مالی حالت بہت قوی ہے لہذا جب کبھی اہل سنت کوئی جمعیت بناتےہیں تو وہ اس پر حاوی ہوجاتے ہیں اور انہیں جادۂ حق سے منحرف کردیتے ہیں! کیسے!پس ایسوں کے ہاتھوں دعوت ضائع ہوکر رہ جاتی ہے!! جیسا کہ انصار السنۃ کے ساتھ ہوا مصر اور سوڈان میں اور یمن میں بھی شیخ مقبل رحمہ اللہ کی دعوت کے علاوہ ہوا۔
محمود: جی رحمہ اللہ۔
شیخ ربیع: بارک اللہ فیک۔
محمود: وفیکم بارک اللہ۔
شیخ ربیع:اس مسئلہ میں یہ بھی ہوتا ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ،جیسے انصار السنۃ کہ اب انہوں نے بھی سیاسی رخ اختیار کرلیا ہے۔
محمود: ہمم۔۔۔
شیخ ربیع: انصار السنۃ جو آپ کے یہاں ہے یعنی جو انصار السنۃ کہلاتے ہیں آپ کے ملک میں ان کا اب سیاسی رخ ہوگیا ہے؟
محمود: جی اس میں بھی حزبیت آچکی ہے۔۔۔
شیخ ربیع: ان کااخوان المسلمین کے متعلق کیا مؤقف ہے؟! اور قطبیوں کے تعلق سے کیا مؤقف ہے؟! اور کیا۔۔۔؟
محمود: جی، ان میں حزبیت آچکی ہے حتی کہ فروع میں بھی یا شیخ!
شیخ ربیع: ان میں کیا آچکی ہے!! یہ سب ایسی ہی بن چکی ہیں۔
محمود: جی بالکل۔
شیخ ربیع: جی، بارک اللہ فیک۔۔۔بارک اللہ فیک، اگر ان جمعیات ک
شیخ ربیع: اللہ کی قسم! اس کا حل یہی ہے کہ مساجد حاصل کرو اور اس میں تعلیم دو۔ شیخ مقبل رحمہ اللہ نے کوئی جمعیت نہيں بنائی! بلکہ وہ تو جمعیات کے خلاف لڑتے تھے! کیا آپ کو شیخ مقبل رحمہ اللہ یاد ہیں؟ انہوں نے کوئی جمعیت نہیں بنائی بس مسجد بنائی اور اللہ تعالی نے ان کے ذریعے سے نفع پہنچایا۔ پھر پورے یمن میں مساجد بننا شروع ہوگئی۔ جو سب کی سب مراکز کے نام سے عبارت تھیں، بارک اللہ فیک۔ جو کہ مدارس تھے جمعیت نہیں بارک اللہ فیک!۔ اور یہ اب نبردآزما ہیں۔۔۔جمعیات سے اور اللہ تعالی نے ان کے ذریعے نفع پہنچایا اور جمعیات کو تہس نہس کیا، بارک اللہ فیکم۔ آپ لوگ کوشش کریں کہ عقیدہ ومنہج اور صحیح علم کی نشرواشاعت کے لیے سلفی طریقے کو اپنائیں، بارک اللہ فیکم۔ آج نوجوانوں میں علماء موجود نہیں! جمعیات کھڑی کرتے ہیں! پھر ان میں سے کیا پیدا ہوتا ہے؟! ان میں سے کون نکلتے ہیں؟! وہ ابھی تک جاہل لوگ ہیں!! پھر لوگوں کو کیسے پروان چڑھائیں گے؟!! کیا انہیں بطور علماء پروان چڑھائیں گے اور ان میں سے علماء متخرج ہوں گے؟
محمود: جی بالکل فضیلۃ الشیخ ۔
شیخ ربیع: یا شیخ کیا اس طرح علماء کی تخریج ہوتی ہے؟!
محمود: نہیں نہیں ظاہر بات ہے۔ لیکن اگر ہم کوئی علمی مرکز قائم کریں گے تو دوسرے مسائل یہاں درپیش ہوجاتےہیں کہ جن میں واقع ہونا ممکن ہے جیسے ٹیکس اور انشورنس اور اس قسم کی دیگر چیزیں جو مصر کے وضعی قانون میں موجود ہیں۔
شیخ ربیع: صحیح ہے، تو کیا جمعیات میں ٹیکس نہیں؟
محمود: نہیں، جمعیات پر ٹیکس اور انشورنس منع ہے لیکن فنڈز بینک میں رکھنے ہوتے ہیں۔
شیخ ربیع: تم میں سے ہر کوئی ایک مسجد بنالے بس۔ نہ مرکز بنائے اور نہ جمعیات۔ ہر کوئی ایک مسجد پکڑے اور اس میں تدریس کرے بس۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: کوشش کرو ساتھیوں کی جماعت کے ساتھ کسی بات پر اتفاق کرلو، بارک اللہ فیک، اور جسے ان میں سے کچھ علم ہے تو وہ تدریس کے فرائض انجام دے۔ اور اللہ تعالی اس کوشش یا ان کوششوں میں برکت دے گا۔ اور آپ کے ہاتھوں علماء متخرج ہوں گے ان شاء اللہ جو خالص سلفیت کے حامل ہوں گے۔
جمعیت کے امراء کونصیحت کرنا
کیا شیخ ربیع جمعیت اہلحدیث اور ان کے امراء کو نصیحت نہیں کرچکے؟
کیا وہ ان کی نصیحت سنتے بھی ہیں؟!
محمود: جی بالکل اچھی بات ہے۔ یا شیخ مصر کی ان جمعیات کے امراء کو کوئی عمومی نصیحت فرمائیں جسے ہم ابھی ریکارڈ کرسکیں؟
شیخ ربیع: اللہ کی قسم! جمعیت کے امیر میری نصیحتیں نہیں سنتے!! اگر وہ میری نصیحتیں سنتے ہوتے تو ان جمعیات کے بغیر علم کو نشر کرتے! یا شیخ ہم انہیں نصیحت کرچکے ہیں۔
محمود: یعنی اب ہم یہ کرتے ہیں کہ۔۔۔
شیخ ربیع:۔۔۔ہم نے انہیں نصیحت کی ہے! دین کے تعلق سے نصیحت کی ہے۔۔۔! اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی نصیحت کی ہے! انصار السنۃ کو سوڈان میں بھی نصیحت کی ہے! لیکن ان کا انجام یہی خسارہ رہا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔
کیا جمعیت کو ختم کردینا چاہیے؟
اگر جمعیت کو علماء کرام نے قائم کیا ہو پھر بھی؟
جمعیات کے اثرات
محمود: ابھی ہم اس جمعیت اہلحدیث والاثر کی تحلیل کا عمل شروع کریں گے۔
شیخ ربیع: اللہ کی قسم!اگر آپ ابھی سے فساد وشر کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں جیسا کہ بتایا (۔۔۔ابھی تک محبت ہے)؛ تو اس سے جان چھڑا کر راحت پائیں، بارک اللہ فیک۔ یعنی ایک عالم ایسی دسیوں جمعیات سے بہتر ہے یا شیخ۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: ایک عالم جو بہت معمولی تعداد میں علماء فارغ کرے ایسی سینکڑوں جمعیات سے بہتر ہے۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: ایسی جمعیات جودنیا پر اور اس کے مال ومتاع پر لڑمرتی ہیں پھر دعوت کو ضائع کردیتی ہیں!
محمود: جی۔
شیخ ربیع: یعنی اب ایسی جمعیات موجود ہیں کہ جن کی مالی حالت بہت قوی ہے لہذا جب کبھی اہل سنت کوئی جمعیت بناتےہیں تو وہ اس پر حاوی ہوجاتے ہیں اور انہیں جادۂ حق سے منحرف کردیتے ہیں! کیسے!پس ایسوں کے ہاتھوں دعوت ضائع ہوکر رہ جاتی ہے!! جیسا کہ انصار السنۃ کے ساتھ ہوا مصر اور سوڈان میں اور یمن میں بھی شیخ مقبل رحمہ اللہ کی دعوت کے علاوہ ہوا۔
محمود: جی رحمہ اللہ۔
شیخ ربیع: بارک اللہ فیک۔
محمود: وفیکم بارک اللہ۔
شیخ ربیع:اس مسئلہ میں یہ بھی ہوتا ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ،جیسے انصار السنۃ کہ اب انہوں نے بھی سیاسی رخ اختیار کرلیا ہے۔
محمود: ہمم۔۔۔
شیخ ربیع: انصار السنۃ جو آپ کے یہاں ہے یعنی جو انصار السنۃ کہلاتے ہیں آپ کے ملک میں ان کا اب سیاسی رخ ہوگیا ہے؟
محمود: جی اس میں بھی حزبیت آچکی ہے۔۔۔
شیخ ربیع: ان کااخوان المسلمین کے متعلق کیا مؤقف ہے؟! اور قطبیوں کے تعلق سے کیا مؤقف ہے؟! اور کیا۔۔۔؟
محمود: جی، ان میں حزبیت آچکی ہے حتی کہ فروع میں بھی یا شیخ!
شیخ ربیع: ان میں کیا آچکی ہے!! یہ سب ایسی ہی بن چکی ہیں۔
محمود: جی بالکل۔
شیخ ربیع: جی، بارک اللہ فیک۔۔۔بارک اللہ فیک، اگر ان جمعیات ک
و علماء نے قائم کیا۔۔۔اور آپ نے اس کی تصدیق کی لیکن عنقریب ان کے بعد وہ لوگ جانشین بنیں گے۔۔۔جو اس قسم کی (مذموم) جمعیت (بن جائے گی)۔۔۔علم، حجت، برہان اور طریقۂ سلف پر ہو تو یہ واللہ اعلم میرے رائے میں خیر سے قریب تر اور سلامت ترین ہے۔(ریکارڈنگ خراب ہونے کی وجہ سے کچھ کلام غیر مفہوم ہے)۔
بارک اللہ فیک، میرے نزدیک ۔۔۔یہ جو جمعیات ہیں ان کے بہت ہی منفی اثرات ہیں! نہ صرف خود ان پر بلکہ ان کے ساتھ ساتھ جو بھی جڑتا ہے اس پر بھی۔۔۔
حکومتی اجازت تو درکنار اگر اس کی تائید وتعریف تک جمعیت کوحاصل ہو پھر بھی؟
اگر ہم جمعیت ختم کردیں گے تو لوگوں کو کیا جواب دیں گے؟!
اگر جمعیت میں کچھ جانی پہچانی علمی شخصیات بھی ہوں؟
فی زمانہ جمعیات کا انجام کار شر ہی دیکھا ہے
محمود: ٹھیک ہے مگر ایک اور بھی مسئلہ ہے حکمرانوں کے تعلق سے یہاں مصرمیں انہوں نے اس جمعیت اہلحدیث والاثر کی قدر کو بہت چڑھایا ہے اور طالبعلموں کو نصیحت کی کہ وہ اس جمعیت کے گرد جمع ہوجائیں، اب ہم ان سے کیا کہیں؟
شیخ ربیع: آپ کی اس جمعیت میں کتنے علماء ہیں؟
محمود: ہمارے ساتھ شیخ خالد ابو عبدالاعلی، شیخ محمود لطفی عامر، شیخ حسن بن عبدالوہاب البنا ہیں۔
شیخ ربیع: ۔۔۔۔
محمود: نہیں، وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں اس جمعیت اہلحدیث والاثر میں۔
شیخ ربیع: ممکن ہے وہاں کوئی مستقل جمعیت ہو اور وہ آپ کے ساتھ اس میں مشارکت کرتی ہو۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: ہمم بارک اللہ فیک۔
محمود: شیخ ہم پھر حکمرانوں کو اس مسئلے کے بارے میں اب کیا کہیں؟
شیخ ربیع: یہ مسئلہ تو آپ لوگوں کی طرف ہی لوٹتا ہے آپس میں مشاورت کریں اور اس کے حل کے بارے میں سوچیں۔
محمود: جی بالکل۔
شیخ ربیع: میری جو رائے تھی وہ میں نے بتادی ہے آپ کو۔
محمود: جی بالکل، ٹھیک فرمایا آپ نے۔
شیخ ربیع: یہاں آپ جانتے بھی ہیں کہ ۔۔۔ان جمعیات کا آخر انجام کار کیا ہوتا ہے۔ اگر اس کا انجام کار اچھا ہوتا تو ٹھیک ہے ہم بہت کثیر مصالح کی خاطر کچھ مفاسد کو برداشت کرلیتے لیکن ان کی تو بنیاد اور قیام ہی شر سے ہوتا ہے اور انتہاء بھی شر پر ہوتی ہے!
محمود: جی یا شیخ جزاکم اللہ خیراً! ابھی آپ کے ساتھ ابو عبدالاعلی بات کریں گے۔
شیخ ربیع: حیاکم اللہ اور مجھے بات کرنے میں کچھ تکلیف ہورہی ہے۔
جمعیت کو نصیحت
اگرچہ جمعیت کو نیک نیتی سے شروع کیا گیا ہو۔۔۔
جمعیات کا آخر انجام کیا ہوتا ہے؟
ان جمعیات سے مساجد بہتر ہیں
شیخ ابو عبدالاعلی: جزاک اللہ خیراً یا شیخ وبارک اللہ فیکم اور اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ اس نصیحت کے ذریعے ہمیں نفع پہنچائے اور۔۔۔
شیخ ربیع:۔۔۔علماء لوگوں کی تربیت کرنے میں محنت کر تے ہیں اور ایسے علماء فارغ کرتے ہیں جو اس خلاء کو پر کرتے ہیں۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی بالکل۔
شیخ ربیع: بارک اللہ فیکم، جبکہ یہ جمعیات ان مطلوبہ خلاء کو پر نہیں کرپاتیں!۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی، اللہ اکبر! واللہ ! یا شیخ یہ جو کچھ آپ نے وضاحت فرمائی ہماری بھی شروع میں یہی نیت تھی کہ ہماری جمعیت ان جمعیات کی طرح نہیں ہوگی! لیکن میرا گمان تھا کہ وہ ایک علمی مرکز ہوگا جیسا کہ شیخ مقبل رحمہ اللہ کا تھا لیکن یہ بات واضح ہوگئی کہ واقعی یہ جمعیات ان سے متعلق جو قانون ہے اس سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کو موقع ملتا ہے کہ ان کی تربیت صدارت وامارت کی چاہت پر ہو!
شیخ ربیع: شیخ مقبل رحمہ اللہ تو یہ بھی قبول نہيں کرتے تھے کہ ان کی مسجد کو مرکز کہا جائے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: ہمم۔
شیخ ربیع: لوگو ں نے اسے مرکز کہنا شروع کردیا! ورنہ تو ایک مسجد ہی تھی۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی جی۔
شیخ ربیع: جب دور آیا ۔۔۔ ان جمعیات اور مراکز کا، تو انہوں نے معذرت چاہی کہ بھائی ہمارے پاس مسجد ہے کوئی مرکز نہیں اور۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: واللہ! شیخ صاحب میں نے آخر میں یہی نصیحت کی تھی اپنے بھائیوں ساتھیو ں کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت مسجد سے شروع ہوئی، اسی لیے تمہارے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنے جدوجہد کو طالبعلم بنانے میں مرکوز رکھو نہ کہ۔۔۔
شیخ ربیع: تمہارے لیے تین یا چار ہوں مسجد میں تو صبح درس ہو، ظہر میں درس ہو، اور مغرب میں درس دو، علم علم اور صرف علم، کیا یہ ان جمعیات سے بہتر نہیں؟! اور۔۔۔ آخر تک جو ہے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی بالکل، واللہ! یا شیخ یعنی اللہ تعالی کی ہی حمد ہے کہ اس نے ہمیں توفیق دی آپ کی اس گرانقدر نصیحت کو سننے کی اور وہ ہمارے لیے آپ میں برکت دے اور ہمیں آپ کے علم سے نفع حاصل کرنے کی توفیق دے یا شیخ۔
شیخ ربیع: الحمدللہ رب العالمین۔
شیخ ابو عبدالاعلی: اور ہم ان شاء اللہ آپ کو خیر کی بشارت دیتے ہیں ان شاء اللہ۔
شیخ ربیع: اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کے قدموں کو سیدھی راہ پر جمائے رکھے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آمین آمین۔
شیخ ربیع: اور آپ کی جدوجہد میں برکت دے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آمین آمین۔
شیخ ربیع: اور۔۔اس کے ثمرات بہت عمدہ ہوں گے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آمین، آمین۔
شیخ ربیع: وحیا
بارک اللہ فیک، میرے نزدیک ۔۔۔یہ جو جمعیات ہیں ان کے بہت ہی منفی اثرات ہیں! نہ صرف خود ان پر بلکہ ان کے ساتھ ساتھ جو بھی جڑتا ہے اس پر بھی۔۔۔
حکومتی اجازت تو درکنار اگر اس کی تائید وتعریف تک جمعیت کوحاصل ہو پھر بھی؟
اگر ہم جمعیت ختم کردیں گے تو لوگوں کو کیا جواب دیں گے؟!
اگر جمعیت میں کچھ جانی پہچانی علمی شخصیات بھی ہوں؟
فی زمانہ جمعیات کا انجام کار شر ہی دیکھا ہے
محمود: ٹھیک ہے مگر ایک اور بھی مسئلہ ہے حکمرانوں کے تعلق سے یہاں مصرمیں انہوں نے اس جمعیت اہلحدیث والاثر کی قدر کو بہت چڑھایا ہے اور طالبعلموں کو نصیحت کی کہ وہ اس جمعیت کے گرد جمع ہوجائیں، اب ہم ان سے کیا کہیں؟
شیخ ربیع: آپ کی اس جمعیت میں کتنے علماء ہیں؟
محمود: ہمارے ساتھ شیخ خالد ابو عبدالاعلی، شیخ محمود لطفی عامر، شیخ حسن بن عبدالوہاب البنا ہیں۔
شیخ ربیع: ۔۔۔۔
محمود: نہیں، وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں اس جمعیت اہلحدیث والاثر میں۔
شیخ ربیع: ممکن ہے وہاں کوئی مستقل جمعیت ہو اور وہ آپ کے ساتھ اس میں مشارکت کرتی ہو۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: ہمم بارک اللہ فیک۔
محمود: شیخ ہم پھر حکمرانوں کو اس مسئلے کے بارے میں اب کیا کہیں؟
شیخ ربیع: یہ مسئلہ تو آپ لوگوں کی طرف ہی لوٹتا ہے آپس میں مشاورت کریں اور اس کے حل کے بارے میں سوچیں۔
محمود: جی بالکل۔
شیخ ربیع: میری جو رائے تھی وہ میں نے بتادی ہے آپ کو۔
محمود: جی بالکل، ٹھیک فرمایا آپ نے۔
شیخ ربیع: یہاں آپ جانتے بھی ہیں کہ ۔۔۔ان جمعیات کا آخر انجام کار کیا ہوتا ہے۔ اگر اس کا انجام کار اچھا ہوتا تو ٹھیک ہے ہم بہت کثیر مصالح کی خاطر کچھ مفاسد کو برداشت کرلیتے لیکن ان کی تو بنیاد اور قیام ہی شر سے ہوتا ہے اور انتہاء بھی شر پر ہوتی ہے!
محمود: جی یا شیخ جزاکم اللہ خیراً! ابھی آپ کے ساتھ ابو عبدالاعلی بات کریں گے۔
شیخ ربیع: حیاکم اللہ اور مجھے بات کرنے میں کچھ تکلیف ہورہی ہے۔
جمعیت کو نصیحت
اگرچہ جمعیت کو نیک نیتی سے شروع کیا گیا ہو۔۔۔
جمعیات کا آخر انجام کیا ہوتا ہے؟
ان جمعیات سے مساجد بہتر ہیں
شیخ ابو عبدالاعلی: جزاک اللہ خیراً یا شیخ وبارک اللہ فیکم اور اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ اس نصیحت کے ذریعے ہمیں نفع پہنچائے اور۔۔۔
شیخ ربیع:۔۔۔علماء لوگوں کی تربیت کرنے میں محنت کر تے ہیں اور ایسے علماء فارغ کرتے ہیں جو اس خلاء کو پر کرتے ہیں۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی بالکل۔
شیخ ربیع: بارک اللہ فیکم، جبکہ یہ جمعیات ان مطلوبہ خلاء کو پر نہیں کرپاتیں!۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی، اللہ اکبر! واللہ ! یا شیخ یہ جو کچھ آپ نے وضاحت فرمائی ہماری بھی شروع میں یہی نیت تھی کہ ہماری جمعیت ان جمعیات کی طرح نہیں ہوگی! لیکن میرا گمان تھا کہ وہ ایک علمی مرکز ہوگا جیسا کہ شیخ مقبل رحمہ اللہ کا تھا لیکن یہ بات واضح ہوگئی کہ واقعی یہ جمعیات ان سے متعلق جو قانون ہے اس سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کو موقع ملتا ہے کہ ان کی تربیت صدارت وامارت کی چاہت پر ہو!
شیخ ربیع: شیخ مقبل رحمہ اللہ تو یہ بھی قبول نہيں کرتے تھے کہ ان کی مسجد کو مرکز کہا جائے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: ہمم۔
شیخ ربیع: لوگو ں نے اسے مرکز کہنا شروع کردیا! ورنہ تو ایک مسجد ہی تھی۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی جی۔
شیخ ربیع: جب دور آیا ۔۔۔ ان جمعیات اور مراکز کا، تو انہوں نے معذرت چاہی کہ بھائی ہمارے پاس مسجد ہے کوئی مرکز نہیں اور۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: واللہ! شیخ صاحب میں نے آخر میں یہی نصیحت کی تھی اپنے بھائیوں ساتھیو ں کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت مسجد سے شروع ہوئی، اسی لیے تمہارے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنے جدوجہد کو طالبعلم بنانے میں مرکوز رکھو نہ کہ۔۔۔
شیخ ربیع: تمہارے لیے تین یا چار ہوں مسجد میں تو صبح درس ہو، ظہر میں درس ہو، اور مغرب میں درس دو، علم علم اور صرف علم، کیا یہ ان جمعیات سے بہتر نہیں؟! اور۔۔۔ آخر تک جو ہے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی بالکل، واللہ! یا شیخ یعنی اللہ تعالی کی ہی حمد ہے کہ اس نے ہمیں توفیق دی آپ کی اس گرانقدر نصیحت کو سننے کی اور وہ ہمارے لیے آپ میں برکت دے اور ہمیں آپ کے علم سے نفع حاصل کرنے کی توفیق دے یا شیخ۔
شیخ ربیع: الحمدللہ رب العالمین۔
شیخ ابو عبدالاعلی: اور ہم ان شاء اللہ آپ کو خیر کی بشارت دیتے ہیں ان شاء اللہ۔
شیخ ربیع: اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کے قدموں کو سیدھی راہ پر جمائے رکھے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آمین آمین۔
شیخ ربیع: اور آپ کی جدوجہد میں برکت دے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آمین آمین۔
شیخ ربیع: اور۔۔اس کے ثمرات بہت عمدہ ہوں گے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آمین، آمین۔
شیخ ربیع: وحیا
ں اور سلفی منہج کے ذریعے ترقی کرنے سے عاجز ہیں۔ پس ہم ہر اس شخص کو نصیحت کرتے ہیں کہ جسے اللہ تعالی نے کچھ علم دیا ہے کہ وہ ایک مسجد لے اور اچھے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرے جنہیں وہ جانتا ہے پھر انہیں تعلیم دے۔ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ اگر میں اپنی مسجد سے دس علماء فارغ کروں اور آپ اپنی مسجد سے دس علماء فارغ کریں اور وہ بھی دس کرے وغیرہ جبکہ ہم ایک ہی شہر یا ملک میں ہیں تو ہم چالیس پچاس علماء تیار کرسکتے ہيں۔ اللہ کی قسم! جو ایسی ہزار جمعیت سے بہتر ہے اور ان جمعیت کے قائم کردہ معاہد سے بہتر ہے۔ (کیسٹ: سلفيتنا أقوى من سلفية الألباني : شبة والرد عليها) (توحید خالص ڈاٹ کام)
کم اللہ۔
شیخ ابو عبدالاعلی: اللہ یبارک فیکم یا شیخ۔
شیخ ربیع: اب مجھے اجازت دیجئے بارک اللہ فیک۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جزاکم اللہ خیرا ًیا شیخ، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کی مدد کرے، اللہ تعالی آپ کو مزید عزت سے نوازے یا شیخ۔
شیخ ربیع: اللہ آپ کی حفاظت فرمائے، حیاکم اللہ۔
شیخ ابو عبدالاعلی: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یا شیخ بس آج کی تاریخ کے ساتھ اسے ریکارڈ کرلیں۔
شیخ ربیع: جی۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آج کی تاریخ رمضان المبارک کی دسویں رات سن 1429ھ (ستمبر 2008ع)۔
شیخ ربیع: بارک اللہ فیک، جی۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جزاک اللہ خیراً یا شیخ۔
شیخ ربیع: حیاکم اللہ۔
شیخ ابو عبدالاعلی: ہم آپ سے اس ریکارڈنگ کے نشر کرنے کی اجازت چاہتے ہیں، اللہ یبارک فیکم۔
شیخ ربیع: حیاکم اللہ۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: ان شاء اللہ، جزاکم اللہ خیراً یا شیخ، اللہ یحفظکم، بارک اللہ فیکم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
[1] ان عناوین کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات شیخ کے کلام میں ثابت کی گئی ہے یا ان مذکورہ سوالات کے جوابات شیخ کے مندرجہ ذیل کلام میں موجود ہیں، جو جمعیت سازی کے قائلین کے بہت سے مشہور ومعروف عذر واستدلالات کا شافی جواب بن جاتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اس شبہہ کے جواب میں شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
سوال: بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سلفی دعوت کے مقدر میں پھیلنااور منتشر ہونا سوائے جمعیات بنانے کے رقم نہیں ہوسکتا۔ جبکہ دوسرے ساتھی ان سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جمعیات تو سلفیوں کے درمیان تفرقہ کا سبب ہيں، پس آپ کی اس قسم کی عبارت کے بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اللہ کی قسم ! ہم تو یہی کہتے ہيں کہ: ’’وكل خير في اتباع من سلف، وكل شر في ابتداع من خلف‘‘ (ہر خیر سلف کی اتباع میں ہے اور ہر شر خلف کی ایجاد کردہ بدعتوں میں ہے)۔ کیونکہ سلف نے اس دین کی نشر واشاعت کی اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کے ذریعہ پوری دنیا فتح کرلی۔ پس وہ جہاد میں جان ومال کے ساتھ تعاون کرتے۔ لیکن اس منظم اور تنظیمی طریقے سے نہیں جو مغرب سے ہماری طرف آئے ہیں۔ تم اپنا جان اور مال پیش کرو کوئی دوسرا بھی پیش کرے تو میری جدوجہد تمہاری جدوجہد سے مل جائے اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کی شکل بن جائے۔ اور کلمۃ اللہ کو آگے پہنچاتے گئے۔ اِس ملک کو فتح کیا اُس ملک کو فتح کیا۔ پھر علماء نے ان کے نقش قدم پرچل کر ایک دنیا کو فتح کرلیا۔ پس علماء کرام نے علم کا جھنڈا لہرایا اور پورے عالم میں اسے نشر کیا۔ یہ اِس مسجد میں پڑھا رہا ہے اور وہ اُس مسجد میں پڑھا رہا ہے۔ اور ان سب کی جدوجہد باہم یکجا ہوجاتی ہیں۔ پس فلاں طالبعلم اور فلاں طالبعلم ایک ہی منہج کتاب وسنت پر پروان چڑھتے ہیں۔ لہذا اس کا نتیجہ، آثار اور ثمر ان جمعیات سے کئی گنا افضل ہوتا ہےجوکسی طالبعلم کو صحیح پروان چڑھانے تک سے عاجز ہیں علماء بنانا تو دور کی بات رہی۔
میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں شیخ مقبل رحمہ اللہ ان جمعیات اور ان کے اسلوب کا انکار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا ایک علمی مرکز بنایا اور طلبہ کو علم دیا۔ تو وہاں سے طلبہ سے بڑھ کر علماء تک پیدا ہوئے اور ہرکوئی اپنے اپنے وطن لوٹ گیا۔ اور وہا ں کسی مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ جس کی وجہ سےانہوں نے ایک نئی نسل کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروان چڑھائی۔ جبکہ دوسری طرف دنیا کے مشرق ومغرب میں پھیلی ان جمعیات کے بارے میں آپ مجھے بتائیں کتنے عالم انہوں نے پیدا کیے۔ کچھ نہیں! اور اس کمزور شخص نے کہ جس کے پاس نہ مال تھا نہ کچھ اپنے اخلاص اور محنت سے اللہ کی قسم! یہ سب کچھ کیا جس سے یہ جمعیات عاجزہیں (اسی طرح سے شیخ البانی رحمہ اللہ کی مثال بھی لی جاسکتی ہے)۔ بلکہ اس کے عشر عشیر تک کرنے سے عاجز ہیں کہ کسی عالم کو پیدا نہ کرسکیں۔ پھر ان پر حزبیت کا غلبہ ہوتا ہے اور اپنی جمعیت کی بنیاد پر الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کرتے ہیں۔، اور تفرقہ ہوتا ہے اور انہی کے سبب سے کئی مسلم ممالک میں سلفیوں کے درمیان پھوٹ پڑی ہے۔ میرے سامنے کسی بھی جمعیت کا نام پیش کریں سوائے جمعیت البر کے جو ابھی تک محفوظ ہے اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائے انہیں بھی ہم نصیحت کرتے ہیں کہ جمعیت والا مسلک چھوڑدیں جس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ ان جمعیات نے اسلام اور سلفی منہج کا صفایا کردیا ہے، اور سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ اور مسلمانوں کی جیبوں میں سے ان کا مال ہتھیا کر اپنی جیبیں بھر لی ہیں جسے وہ یہاں اور وہاں سلفیت کے خاتمے کے لیے استعمال کرتے ہیں چاہے یہ سوڈان میں ہو یا صومالیہ، اریٹیریا، پاکستان، ہندوستان یا افغانستان میں۔ یہ مال (فنڈز) کو جمع کرتے ہیں اور غایت درجے مکر سے کام لیتے ہوئے اسے سلفی منہج کے خاتمے کے لیے استعمال کرتےہیں۔ اور اس بات میں یہ ماہر ہیں۔ پھر کیسے یہ توقع کی جائے کہ یہ جمعیات سلف صالحین کےمنہج کی تعلیم دیں گی جبکہ یہ خود اس میں ناکام ہي
شیخ ابو عبدالاعلی: اللہ یبارک فیکم یا شیخ۔
شیخ ربیع: اب مجھے اجازت دیجئے بارک اللہ فیک۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جزاکم اللہ خیرا ًیا شیخ، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کی مدد کرے، اللہ تعالی آپ کو مزید عزت سے نوازے یا شیخ۔
شیخ ربیع: اللہ آپ کی حفاظت فرمائے، حیاکم اللہ۔
شیخ ابو عبدالاعلی: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یا شیخ بس آج کی تاریخ کے ساتھ اسے ریکارڈ کرلیں۔
شیخ ربیع: جی۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آج کی تاریخ رمضان المبارک کی دسویں رات سن 1429ھ (ستمبر 2008ع)۔
شیخ ربیع: بارک اللہ فیک، جی۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جزاک اللہ خیراً یا شیخ۔
شیخ ربیع: حیاکم اللہ۔
شیخ ابو عبدالاعلی: ہم آپ سے اس ریکارڈنگ کے نشر کرنے کی اجازت چاہتے ہیں، اللہ یبارک فیکم۔
شیخ ربیع: حیاکم اللہ۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: ان شاء اللہ، جزاکم اللہ خیراً یا شیخ، اللہ یحفظکم، بارک اللہ فیکم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
[1] ان عناوین کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات شیخ کے کلام میں ثابت کی گئی ہے یا ان مذکورہ سوالات کے جوابات شیخ کے مندرجہ ذیل کلام میں موجود ہیں، جو جمعیت سازی کے قائلین کے بہت سے مشہور ومعروف عذر واستدلالات کا شافی جواب بن جاتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اس شبہہ کے جواب میں شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
سوال: بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سلفی دعوت کے مقدر میں پھیلنااور منتشر ہونا سوائے جمعیات بنانے کے رقم نہیں ہوسکتا۔ جبکہ دوسرے ساتھی ان سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جمعیات تو سلفیوں کے درمیان تفرقہ کا سبب ہيں، پس آپ کی اس قسم کی عبارت کے بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اللہ کی قسم ! ہم تو یہی کہتے ہيں کہ: ’’وكل خير في اتباع من سلف، وكل شر في ابتداع من خلف‘‘ (ہر خیر سلف کی اتباع میں ہے اور ہر شر خلف کی ایجاد کردہ بدعتوں میں ہے)۔ کیونکہ سلف نے اس دین کی نشر واشاعت کی اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کے ذریعہ پوری دنیا فتح کرلی۔ پس وہ جہاد میں جان ومال کے ساتھ تعاون کرتے۔ لیکن اس منظم اور تنظیمی طریقے سے نہیں جو مغرب سے ہماری طرف آئے ہیں۔ تم اپنا جان اور مال پیش کرو کوئی دوسرا بھی پیش کرے تو میری جدوجہد تمہاری جدوجہد سے مل جائے اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کی شکل بن جائے۔ اور کلمۃ اللہ کو آگے پہنچاتے گئے۔ اِس ملک کو فتح کیا اُس ملک کو فتح کیا۔ پھر علماء نے ان کے نقش قدم پرچل کر ایک دنیا کو فتح کرلیا۔ پس علماء کرام نے علم کا جھنڈا لہرایا اور پورے عالم میں اسے نشر کیا۔ یہ اِس مسجد میں پڑھا رہا ہے اور وہ اُس مسجد میں پڑھا رہا ہے۔ اور ان سب کی جدوجہد باہم یکجا ہوجاتی ہیں۔ پس فلاں طالبعلم اور فلاں طالبعلم ایک ہی منہج کتاب وسنت پر پروان چڑھتے ہیں۔ لہذا اس کا نتیجہ، آثار اور ثمر ان جمعیات سے کئی گنا افضل ہوتا ہےجوکسی طالبعلم کو صحیح پروان چڑھانے تک سے عاجز ہیں علماء بنانا تو دور کی بات رہی۔
میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں شیخ مقبل رحمہ اللہ ان جمعیات اور ان کے اسلوب کا انکار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا ایک علمی مرکز بنایا اور طلبہ کو علم دیا۔ تو وہاں سے طلبہ سے بڑھ کر علماء تک پیدا ہوئے اور ہرکوئی اپنے اپنے وطن لوٹ گیا۔ اور وہا ں کسی مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ جس کی وجہ سےانہوں نے ایک نئی نسل کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروان چڑھائی۔ جبکہ دوسری طرف دنیا کے مشرق ومغرب میں پھیلی ان جمعیات کے بارے میں آپ مجھے بتائیں کتنے عالم انہوں نے پیدا کیے۔ کچھ نہیں! اور اس کمزور شخص نے کہ جس کے پاس نہ مال تھا نہ کچھ اپنے اخلاص اور محنت سے اللہ کی قسم! یہ سب کچھ کیا جس سے یہ جمعیات عاجزہیں (اسی طرح سے شیخ البانی رحمہ اللہ کی مثال بھی لی جاسکتی ہے)۔ بلکہ اس کے عشر عشیر تک کرنے سے عاجز ہیں کہ کسی عالم کو پیدا نہ کرسکیں۔ پھر ان پر حزبیت کا غلبہ ہوتا ہے اور اپنی جمعیت کی بنیاد پر الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کرتے ہیں۔، اور تفرقہ ہوتا ہے اور انہی کے سبب سے کئی مسلم ممالک میں سلفیوں کے درمیان پھوٹ پڑی ہے۔ میرے سامنے کسی بھی جمعیت کا نام پیش کریں سوائے جمعیت البر کے جو ابھی تک محفوظ ہے اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائے انہیں بھی ہم نصیحت کرتے ہیں کہ جمعیت والا مسلک چھوڑدیں جس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ ان جمعیات نے اسلام اور سلفی منہج کا صفایا کردیا ہے، اور سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ اور مسلمانوں کی جیبوں میں سے ان کا مال ہتھیا کر اپنی جیبیں بھر لی ہیں جسے وہ یہاں اور وہاں سلفیت کے خاتمے کے لیے استعمال کرتے ہیں چاہے یہ سوڈان میں ہو یا صومالیہ، اریٹیریا، پاکستان، ہندوستان یا افغانستان میں۔ یہ مال (فنڈز) کو جمع کرتے ہیں اور غایت درجے مکر سے کام لیتے ہوئے اسے سلفی منہج کے خاتمے کے لیے استعمال کرتےہیں۔ اور اس بات میں یہ ماہر ہیں۔ پھر کیسے یہ توقع کی جائے کہ یہ جمعیات سلف صالحین کےمنہج کی تعلیم دیں گی جبکہ یہ خود اس میں ناکام ہي
[Urdu Article] Is anything authentically proved regarding "Salat-ul-Hajah"? – Various 'Ulamaa
کیا ’’صلاۃ الحاجۃ‘‘ ثابت ہے؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/kiya_salat_ul_hajah_sabit_hai.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: صلاۃ الحاجۃ کا کیا حکم ہےکیونکہ میں نے بعض بھائیوں سے سنا ہےکہ یہ سنت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ تَوَضَّأَ، فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ يُتِمُّهُمَا، أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا سَأَلَ مُعَجِّلًا أَوْ مُؤَخِّرًا‘‘([1])
(جس نے وضوء کیا اور بہت اچھی طرح سے کیا، پھر دو رکعات پڑھیں اور انہیں مکمل کیا، تو اللہ تعالی اسے جو وہ مانگے گا دے گا، خواہ جلد ہو یا بادیر)؟
جواب از شیخ ابن باز رحمہ اللہ:
میں اسے (صلاۃ الحاجۃکو)نہیں جانتا۔ جو نمازیں اس بارے میں ثابت ہیں وہ صلاۃ التوبۃ اور صلاۃ الاستخارہ ہیں۔ صلاۃ التوبۃ تو یہ ہے اگر کسی بندے سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ طہارت حاصل کرے پھر دورکعات نماز پڑھے اور اپنے رب سے دعاء کرے کہ وہ اسے بخش دے تو اللہ تعالی نے اس پر مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے۔
اور صلاۃ الاستخارہ یہ ہے کہ اگر انسان کو کوئی امر درپیش ہو اور اسے اس بارے میں اشکال ہو تو اپنے رب سے استخارہ کرے۔ دو رکعات ادا کرے پھر سلام پھیرنے کے بعد استخارہ کرے۔ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور یہ دعاء پڑھے:
’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ ۔۔۔ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ ۔۔۔ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ‘‘([2])
(اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ استخارہ(خیر کو اختیار کرنے میں رہنمائی طلب) کرتا ہوں اور تجھ سے تیری قدرت کے ساتھ ہمت طلب کرتا ہوں، اور میں تیرے فضل عظیم میں سے فضل پالینے کا تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور تو علم رکھتا ہے اور میں علم نہیں رکھتا اور تو تمام غیبوں کاخوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یہاں اس کام کا نام لے جیسے شادی یا سفر وغیرہ) میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کردے اور اسے میرے لیے آسان فرمادے، پھر میرے لیے اس میں برکت ڈال دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کردے اور مجھے اس سے دور کردے اور میرے لیے بھلائی مقدر کردے جہاں کہیں بھی وہ ہو، پھر مجھے اس پر راضی بھی کردے)۔
یہ با ت معروف ہے صلاۃ الاستخارہ کے تعلق سے لیکن ہر حاجت پر (صلاۃ الحاجۃکے نام سےخاص) نمازپڑھنے کے بارے میں مجھے کوئی ثابت شدہ چیز یاد نہیں۔
(نور علی الدرب 21089 شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے)
اسی طرح سے فتاوی نور علی الدرب 15434 میں بھی صلاۃالحاجۃ اورصلاۃ التسبیح کو غیر صحیح کہا ہے اور فرماتے ہيں کہ ثابت شدہ نوافل جیسے ضحیٰ اور تہجد کی نماز وغیرہ پر اکتفاء کیا جائے۔
سوال:’’صلاۃ الحاجۃ‘‘کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:
صلاۃ الحاجۃ غیر مشروع ہے۔
(مجموع فتاوى ورسائل الشيخ محمد صالح العثيمين – المجلد الرابع عشر – باب صلاة التطوع)
سوال: ایک سائلہ پوچھتی ہے: کیا صلاۃالحاجۃ کی کوئی خاص دعاء ثابت ہے جسے انسان اس نماز میں مانگے؟
جواب از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:
صلاۃالحاجۃ صحیح نہیں ہے۔
سائلہ: صحیح نہیں ہے؟!
شیخ: جی، صحیح نہيں ہے۔
سائلہ: جی؟
شیخ: صلاۃالحاجۃ نہیں پڑھیں، کیونکہ ایسی کوئی چیز ثابت نہيں جس کا نام صلاۃالحاجۃ ہو۔
سائلہ: کیا میں اسے نہ پڑھوں!
شیخ: جی ہاں، اسے نہ پڑھیں۔
سائلہ: مجھے اگر کسی چیز کی حاجت ہو اور میں اللہ تعالی سے مانگنا چاہتی ہوں؟
شیخ : سجدے کی حالت میں مانگ لیں۔
سائلہ: سجدے کی حالت میں؟
شیخ: جی، چاہے فرض نماز میں ہوں یا نفل میں۔
سائلہ: یعنی میں صلاۃالحاجۃ کی دو رکعت نفل پڑھ کر اس کے بعد دعاء نہ کروں؟
شیخ: نہیں، بارک اللہ فیک، دیکھیں جب آپ نماز میں سجدہ کرتی ہیں تو جو چاہیں اللہ تعالی سے دعاء کریں۔
سائلہ: جزاک اللہ خیراً۔
شیخ: کیا آپ اچھی طرح سے سمجھ گئیں یا نہیں؟
سائلہ: جی، میں سمجھ گئی ہوں۔
شیخ: یعنی سجدے کی حالت میں جو چاہیں اللہ تعالی سے دعاء
کیا ’’صلاۃ الحاجۃ‘‘ ثابت ہے؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/kiya_salat_ul_hajah_sabit_hai.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: صلاۃ الحاجۃ کا کیا حکم ہےکیونکہ میں نے بعض بھائیوں سے سنا ہےکہ یہ سنت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ تَوَضَّأَ، فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ يُتِمُّهُمَا، أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا سَأَلَ مُعَجِّلًا أَوْ مُؤَخِّرًا‘‘([1])
(جس نے وضوء کیا اور بہت اچھی طرح سے کیا، پھر دو رکعات پڑھیں اور انہیں مکمل کیا، تو اللہ تعالی اسے جو وہ مانگے گا دے گا، خواہ جلد ہو یا بادیر)؟
جواب از شیخ ابن باز رحمہ اللہ:
میں اسے (صلاۃ الحاجۃکو)نہیں جانتا۔ جو نمازیں اس بارے میں ثابت ہیں وہ صلاۃ التوبۃ اور صلاۃ الاستخارہ ہیں۔ صلاۃ التوبۃ تو یہ ہے اگر کسی بندے سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ طہارت حاصل کرے پھر دورکعات نماز پڑھے اور اپنے رب سے دعاء کرے کہ وہ اسے بخش دے تو اللہ تعالی نے اس پر مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے۔
اور صلاۃ الاستخارہ یہ ہے کہ اگر انسان کو کوئی امر درپیش ہو اور اسے اس بارے میں اشکال ہو تو اپنے رب سے استخارہ کرے۔ دو رکعات ادا کرے پھر سلام پھیرنے کے بعد استخارہ کرے۔ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور یہ دعاء پڑھے:
’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ ۔۔۔ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ ۔۔۔ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ‘‘([2])
(اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ استخارہ(خیر کو اختیار کرنے میں رہنمائی طلب) کرتا ہوں اور تجھ سے تیری قدرت کے ساتھ ہمت طلب کرتا ہوں، اور میں تیرے فضل عظیم میں سے فضل پالینے کا تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور تو علم رکھتا ہے اور میں علم نہیں رکھتا اور تو تمام غیبوں کاخوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یہاں اس کام کا نام لے جیسے شادی یا سفر وغیرہ) میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کردے اور اسے میرے لیے آسان فرمادے، پھر میرے لیے اس میں برکت ڈال دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کردے اور مجھے اس سے دور کردے اور میرے لیے بھلائی مقدر کردے جہاں کہیں بھی وہ ہو، پھر مجھے اس پر راضی بھی کردے)۔
یہ با ت معروف ہے صلاۃ الاستخارہ کے تعلق سے لیکن ہر حاجت پر (صلاۃ الحاجۃکے نام سےخاص) نمازپڑھنے کے بارے میں مجھے کوئی ثابت شدہ چیز یاد نہیں۔
(نور علی الدرب 21089 شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے)
اسی طرح سے فتاوی نور علی الدرب 15434 میں بھی صلاۃالحاجۃ اورصلاۃ التسبیح کو غیر صحیح کہا ہے اور فرماتے ہيں کہ ثابت شدہ نوافل جیسے ضحیٰ اور تہجد کی نماز وغیرہ پر اکتفاء کیا جائے۔
سوال:’’صلاۃ الحاجۃ‘‘کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:
صلاۃ الحاجۃ غیر مشروع ہے۔
(مجموع فتاوى ورسائل الشيخ محمد صالح العثيمين – المجلد الرابع عشر – باب صلاة التطوع)
سوال: ایک سائلہ پوچھتی ہے: کیا صلاۃالحاجۃ کی کوئی خاص دعاء ثابت ہے جسے انسان اس نماز میں مانگے؟
جواب از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:
صلاۃالحاجۃ صحیح نہیں ہے۔
سائلہ: صحیح نہیں ہے؟!
شیخ: جی، صحیح نہيں ہے۔
سائلہ: جی؟
شیخ: صلاۃالحاجۃ نہیں پڑھیں، کیونکہ ایسی کوئی چیز ثابت نہيں جس کا نام صلاۃالحاجۃ ہو۔
سائلہ: کیا میں اسے نہ پڑھوں!
شیخ: جی ہاں، اسے نہ پڑھیں۔
سائلہ: مجھے اگر کسی چیز کی حاجت ہو اور میں اللہ تعالی سے مانگنا چاہتی ہوں؟
شیخ : سجدے کی حالت میں مانگ لیں۔
سائلہ: سجدے کی حالت میں؟
شیخ: جی، چاہے فرض نماز میں ہوں یا نفل میں۔
سائلہ: یعنی میں صلاۃالحاجۃ کی دو رکعت نفل پڑھ کر اس کے بعد دعاء نہ کروں؟
شیخ: نہیں، بارک اللہ فیک، دیکھیں جب آپ نماز میں سجدہ کرتی ہیں تو جو چاہیں اللہ تعالی سے دعاء کریں۔
سائلہ: جزاک اللہ خیراً۔
شیخ: کیا آپ اچھی طرح سے سمجھ گئیں یا نہیں؟
سائلہ: جی، میں سمجھ گئی ہوں۔
شیخ: یعنی سجدے کی حالت میں جو چاہیں اللہ تعالی سے دعاء
کریں۔
سائلہ: لیکن میں اس کے لیے خاص طور پر دو رکعات صلاۃالحاجۃ نہ پڑھوں۔
شیخ: (جی صحیح سمجھیں آپ )سجدے میں دعاء کریں۔
سائلہ: جزاک اللہ خیراً۔
(دروس وفتاوى سؤال من حاج – 5)
سوال: کیا ’’صلاۃ الحاجۃ‘‘ سے متعلق کوئی چیز ثابت ہے، بارک اللہ فیکم؟
جواب از شیخ محمد بازمول حفظہ اللہ:
صلاۃ الحاجۃ سے متعلق حدیث سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى اللَّهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنْ الْوُضُوءَ، ثُمَّ لِيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ لِيُثْنِ عَلَى اللَّهِ وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثُمَّ لِيَقُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ‘‘
(جس کسی کی اللہ تعالی سے یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی حاجت وضرورت ہو تو اسے چاہیے کہ بہت اچھی طرح سے وضوء کرے ، پھر دو رکعات پڑھے، پھر اللہ تعالی کی ثناء بیان کرے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے، پھر کہے: اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں جو حلیم وکریم ہے، اللہ تعالی پاک ہے جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے جو رب العالمین ہے، میں تجھ سے تیری رحمت اور مغفرت کے اسباب کا، اور ہر نیکی کی غنیمت کا، اور ہر گناہ سے سلامتی کاسوال کرتا ہوں۔ میرا کوئی گناہ نہ چھوڑنا مگر اسے تو بخش دینا، نہ کوئی غم چھوڑنا مگر اس کا ازالہ فرمادینا، اور کوئی بھی حاجت جس میں تیری رضا ہو نہ چھوڑنا مگر اسے پوری فرمادینا یا ارحم الراحمین)۔
اسے ترمذی اور ابن ماجہ دونوں نے فائد بن عبدالرحمن بن ابی الورقاء کی روایت سے بیان کیا ہے اور ابن ماجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول: ’’يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ‘‘ کے بعد: ’’ثُمَّ يَسْأَلُ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مَا شَاءَ فَإِنَّهُ يَقْدِرُ‘‘ کا اضافہ کیا ہے یعنی (پھر دنیا وآخرت کے متعلق جو چاہے مانگے وہ ضرور مقدر ہوگا)۔
اسے حاکم نے بالاختصار روایت کرکے فرمایا میں اسے بطور شاہد لایا ہوں اور فائد مستقیم الحدیث ہےاور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول : ’’وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ‘‘ کے بعد ’’وَالْعِصْمَةَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ‘‘ کا اضافہ فرمایا ہے۔
دیکھیں سلسلة الأحاديث الضعيفة للألبانيحدیث رقم 2908جس میں انہوں نے اس کا ضعف اور عدم صحت کا بیان فرمایا ہے۔ سابقہ نص اور اس پر تعلیق ضعيف الترغيب والترهيب (1/105) سے لی گئی ہے۔ (یعنی ضعیف ہونے کی وجہ سے اس حدیث پر عمل نہيں کیا جانا چاہیے)۔
(بازمول ڈاٹ کام سے)
[1] مسند احمد 26950، شیخ البانی نے اس کی اسناد کو ضعیف کہا ہے، اس کے علاوہ مجلۃ البحوث الاسلامیۃ، مصطلح الحدیث، مسائل فی التصحیح والتضعیف (فتویٰ کمیٹی کی آفیشل ویب سائٹ) میں اس حدیث کی تحقیق پیش کی گئی ہے راوی میمون ابومحمد کو مجہول قرار دیا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح بخاری 1166۔
سائلہ: لیکن میں اس کے لیے خاص طور پر دو رکعات صلاۃالحاجۃ نہ پڑھوں۔
شیخ: (جی صحیح سمجھیں آپ )سجدے میں دعاء کریں۔
سائلہ: جزاک اللہ خیراً۔
(دروس وفتاوى سؤال من حاج – 5)
سوال: کیا ’’صلاۃ الحاجۃ‘‘ سے متعلق کوئی چیز ثابت ہے، بارک اللہ فیکم؟
جواب از شیخ محمد بازمول حفظہ اللہ:
صلاۃ الحاجۃ سے متعلق حدیث سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى اللَّهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنْ الْوُضُوءَ، ثُمَّ لِيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ لِيُثْنِ عَلَى اللَّهِ وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثُمَّ لِيَقُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ‘‘
(جس کسی کی اللہ تعالی سے یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی حاجت وضرورت ہو تو اسے چاہیے کہ بہت اچھی طرح سے وضوء کرے ، پھر دو رکعات پڑھے، پھر اللہ تعالی کی ثناء بیان کرے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے، پھر کہے: اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں جو حلیم وکریم ہے، اللہ تعالی پاک ہے جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے جو رب العالمین ہے، میں تجھ سے تیری رحمت اور مغفرت کے اسباب کا، اور ہر نیکی کی غنیمت کا، اور ہر گناہ سے سلامتی کاسوال کرتا ہوں۔ میرا کوئی گناہ نہ چھوڑنا مگر اسے تو بخش دینا، نہ کوئی غم چھوڑنا مگر اس کا ازالہ فرمادینا، اور کوئی بھی حاجت جس میں تیری رضا ہو نہ چھوڑنا مگر اسے پوری فرمادینا یا ارحم الراحمین)۔
اسے ترمذی اور ابن ماجہ دونوں نے فائد بن عبدالرحمن بن ابی الورقاء کی روایت سے بیان کیا ہے اور ابن ماجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول: ’’يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ‘‘ کے بعد: ’’ثُمَّ يَسْأَلُ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مَا شَاءَ فَإِنَّهُ يَقْدِرُ‘‘ کا اضافہ کیا ہے یعنی (پھر دنیا وآخرت کے متعلق جو چاہے مانگے وہ ضرور مقدر ہوگا)۔
اسے حاکم نے بالاختصار روایت کرکے فرمایا میں اسے بطور شاہد لایا ہوں اور فائد مستقیم الحدیث ہےاور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول : ’’وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ‘‘ کے بعد ’’وَالْعِصْمَةَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ‘‘ کا اضافہ فرمایا ہے۔
دیکھیں سلسلة الأحاديث الضعيفة للألبانيحدیث رقم 2908جس میں انہوں نے اس کا ضعف اور عدم صحت کا بیان فرمایا ہے۔ سابقہ نص اور اس پر تعلیق ضعيف الترغيب والترهيب (1/105) سے لی گئی ہے۔ (یعنی ضعیف ہونے کی وجہ سے اس حدیث پر عمل نہيں کیا جانا چاہیے)۔
(بازمول ڈاٹ کام سے)
[1] مسند احمد 26950، شیخ البانی نے اس کی اسناد کو ضعیف کہا ہے، اس کے علاوہ مجلۃ البحوث الاسلامیۃ، مصطلح الحدیث، مسائل فی التصحیح والتضعیف (فتویٰ کمیٹی کی آفیشل ویب سائٹ) میں اس حدیث کی تحقیق پیش کی گئی ہے راوی میمون ابومحمد کو مجہول قرار دیا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح بخاری 1166۔
[Urdu Article] Rulings regaring Salat-ul-Istikharah – Shaykh Muhammad bin Umar Bazmool
نماز استخارہ کے احکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بازمول ڈاٹ کام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/namaz_istikharah_k_ahkaam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے امت کے لیے مشروع فرمایا کہ انہیں ان کی زندگی میں جن امور کا سامنا ہوتا ہے اس بارے میں وہ اللہ تعالی سے کس طرح سوال کریں اور اس سے کسی بات کو اختیار کرنے کے بارے میں کس طرح رہنمائی طلب کریں۔ اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں جاہلیت میں استعمال ہونے والے طریقوں جیسے الطِّيَرَة (پرندے اڑا کر قسمت کا حال معلوم کرنااور کام کرنے نہ کرنے کا فیصلہ کرنا) اور الاسْتِقْسَامِ بِالأَزْلَامِ وَالقِدَاحِ (تیروں کے ذریعے یہی کام کرنا) کی جگہ انہیں استخارہ سکھایا۔
اور اس نماز استخارہ کے بارے میں جو روایت آئی ہے وہ یہ ہے:
’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا، كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، يَقُولُ: إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي، قَالَ: وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ‘‘([1])
(سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ہمارے کاموں کے بارے میں اسی طرح سے استخارہ سکھلایا کرتےتھے جیسے قرآن مجید کی کوئی سورۃ سکھاتے تھے،اور فرماتے: اگر تم میں سے کسی کا کوئی کام کرنے کا ارادہ ہو تو دو رکعات نماز فرض کے علاوہ ادا کرے۔ پھر یہ کہے: اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ استخارہ(خیر کو اختیار کرنے میں رہنمائی طلب) کرتا ہوں اور تجھ سے تیری قدرت کے ساتھ ہمت طلب کرتا ہوں، اور میں تیرے فضل عظیم میں سے فضل پالینے کا تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور تو علم رکھتا ہے اور میں علم نہیں رکھتا اور تو تمام غیبوں کاخوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے یا فرمایا جلد یا بادیر (یعنی وقتی طور پر یا انجام کار کے لحاظ سے) بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کردے اور اسے میرے لیے آسان فرمادے، پھر میرے لیے اس میں برکت ڈال دے ۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے جلد یا بادیر برا ہے تو اسے مجھ سے دور کردے اور مجھے اس سے دور کردے اور میرے لیے بھلائی مقدر کردے جہاں کہیں بھی وہ ہو، پھر مجھے اس پر راضی بھی کردے۔ اور اپنی حاجت کا نام لے)۔
میں یہ کہتا ہوں کہ اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں:
1- اس میں نماز استخارہ کی مشروعیت کابیان ہے اور الفاظ ایسے ہیں کہ جن سے اس کے وجوب کا احساس ہوتا ہے([2])۔
2- اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ استخارہ ہر قسم کے کام کے لیے مشروع ہے خواہ کوئی بہت بڑا اور عظیم کام ہو یا معمولی وحقیر نوعیت کا کام ہو۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: استخارہ تمام امور میں کرنا مستحب ہے جیساکہ اس صحیح حدیث کی نص اس بات کی صراحت کرتی ہے([3])۔
میں یہ کہتا ہوں کہ جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ واجبات کی ادائیگی اور محرمات کے ترک اسی طرح سے مستحبات کی ادائیگی اور مکروہات کے ترک کے لیے ایک جہت سے استخارہ نہيں کرناچاہیے۔البتہ ہاں، ایسے واجب یا مستحب میں استخارہ داخل ہوسکتا ہے جس میں اختیار ہو یا پھر جس کی ادائیگی کا زمانہ کچھ وسیع ہو([4])۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ دونوں امور کو شامل ہے خواہ عظیم ہوں یا حقیر بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی حقیر کام کے نتیجے میں کوئی عظیم کام مرتب ہو([5])۔
3- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز استخارہ دو رکعات ہیں فرائض کے علاوہ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ظاہر حدی
نماز استخارہ کے احکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بازمول ڈاٹ کام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/namaz_istikharah_k_ahkaam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے امت کے لیے مشروع فرمایا کہ انہیں ان کی زندگی میں جن امور کا سامنا ہوتا ہے اس بارے میں وہ اللہ تعالی سے کس طرح سوال کریں اور اس سے کسی بات کو اختیار کرنے کے بارے میں کس طرح رہنمائی طلب کریں۔ اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں جاہلیت میں استعمال ہونے والے طریقوں جیسے الطِّيَرَة (پرندے اڑا کر قسمت کا حال معلوم کرنااور کام کرنے نہ کرنے کا فیصلہ کرنا) اور الاسْتِقْسَامِ بِالأَزْلَامِ وَالقِدَاحِ (تیروں کے ذریعے یہی کام کرنا) کی جگہ انہیں استخارہ سکھایا۔
اور اس نماز استخارہ کے بارے میں جو روایت آئی ہے وہ یہ ہے:
’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا، كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، يَقُولُ: إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي، قَالَ: وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ‘‘([1])
(سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ہمارے کاموں کے بارے میں اسی طرح سے استخارہ سکھلایا کرتےتھے جیسے قرآن مجید کی کوئی سورۃ سکھاتے تھے،اور فرماتے: اگر تم میں سے کسی کا کوئی کام کرنے کا ارادہ ہو تو دو رکعات نماز فرض کے علاوہ ادا کرے۔ پھر یہ کہے: اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ استخارہ(خیر کو اختیار کرنے میں رہنمائی طلب) کرتا ہوں اور تجھ سے تیری قدرت کے ساتھ ہمت طلب کرتا ہوں، اور میں تیرے فضل عظیم میں سے فضل پالینے کا تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور تو علم رکھتا ہے اور میں علم نہیں رکھتا اور تو تمام غیبوں کاخوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے یا فرمایا جلد یا بادیر (یعنی وقتی طور پر یا انجام کار کے لحاظ سے) بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کردے اور اسے میرے لیے آسان فرمادے، پھر میرے لیے اس میں برکت ڈال دے ۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے جلد یا بادیر برا ہے تو اسے مجھ سے دور کردے اور مجھے اس سے دور کردے اور میرے لیے بھلائی مقدر کردے جہاں کہیں بھی وہ ہو، پھر مجھے اس پر راضی بھی کردے۔ اور اپنی حاجت کا نام لے)۔
میں یہ کہتا ہوں کہ اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں:
1- اس میں نماز استخارہ کی مشروعیت کابیان ہے اور الفاظ ایسے ہیں کہ جن سے اس کے وجوب کا احساس ہوتا ہے([2])۔
2- اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ استخارہ ہر قسم کے کام کے لیے مشروع ہے خواہ کوئی بہت بڑا اور عظیم کام ہو یا معمولی وحقیر نوعیت کا کام ہو۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: استخارہ تمام امور میں کرنا مستحب ہے جیساکہ اس صحیح حدیث کی نص اس بات کی صراحت کرتی ہے([3])۔
میں یہ کہتا ہوں کہ جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ واجبات کی ادائیگی اور محرمات کے ترک اسی طرح سے مستحبات کی ادائیگی اور مکروہات کے ترک کے لیے ایک جہت سے استخارہ نہيں کرناچاہیے۔البتہ ہاں، ایسے واجب یا مستحب میں استخارہ داخل ہوسکتا ہے جس میں اختیار ہو یا پھر جس کی ادائیگی کا زمانہ کچھ وسیع ہو([4])۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ دونوں امور کو شامل ہے خواہ عظیم ہوں یا حقیر بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی حقیر کام کے نتیجے میں کوئی عظیم کام مرتب ہو([5])۔
3- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز استخارہ دو رکعات ہیں فرائض کے علاوہ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ظاہر حدی
ث سے یہ لگتا ہے کہ یہ دو رکعات سنن رواتب یا تحیۃ المسجد وغیرہ جیسے نوافل بھی ہوسکتی ہے([6])۔
میں یہ کہتا ہوں: ان کی مراد (واللہ اعلم) یہ ہے کہ اگر ان نمازوں کو شروع کرنے سے پہلے کسی کام کے ارادے کا سوچ رکھا تو([7])۔ جبکہ امام نووی رحمہ اللہ کے ظاہر کلام سے ایسا لگتا ہے کہ خواہ نماز استخارہ کی یا ان نمازوں کی استخارہ کے بارے میں نیت کرے یا نہ کرے برابر ہے۔ جو کہ حدیث کا ظاہرہے۔
امام عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کسی شخص کا کسی کام کرنے کا ارادہ ہو سنن رواتب یا ان جیسی نمازوں سے پہلے لیکن وہ بغیر استخارہ کی نیت کے انہیں ادا کرلیتا ہے، مگر پھر نماز کے بعد سوچتا ہے کہ دعائے استخارہ پڑھ لوں، تو ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہ حاصل ہوجائے گا([8])۔
4- استخارہ حال ِتردد میں نہیں ہوتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ‘‘ (جب تم کسی کام کا ارادہ کرو) اور اس لیے بھی کیونکہ پوری دعاء کا معنی اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ اگر مسلمان کسی دو باتوں میں متردد ہو اور استخارہ کرنا چاہتا ہو تو اسے چاہیےکہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرلے پھر اس ایک کے بارے میں استخارہ کرے۔ پھر استخارہ کرنے کے بعد اسے کرنا شروع کردے۔ اگر وہ خیر ہوگا تو اللہ تعالی اسے اس کے لیے آسان فرمادے گا اور اس میں برکت دے گا۔ اور اگر اس کے علاوہ ہوا تو اسے اس سے پھیر دے گا اور اپنے حکم سے وہ کام جو بہتر ہوگا وہ اس کے لیے آسان فرمادے گا۔
5- ان دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی خاص سورۃ یا معین آیات پڑھنا متعین نہیں کیا گیا([9])۔
6- کسی چیز کو اختیار کرنا نہ کرنا اس طرح ظاہر ہوگا کہ وہ کام آسان ہوجائے گا اور اس میں برکت ہوجائے گی بصورت دیگر استخارہ کرنے والے کو اس سے پھیر دیا جائے گا اور خیر جہاں کہیں بھی ہوگی اس کے لیے آسان کردی جائے گی۔
7- اس میں یہ بھی ہے کہ جب ایک مسلمان نماز استخارہ پڑھ لے تو جس کا عزم کرلیا ہے اس پرگامزن ہوجائے خواہ اسے شرح صدر حاصل ہو یا نہ ہو([10])۔
ابن الزملکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کوئی انسان دورکعات پڑھ کر استخارہ کرتا ہے کسی کام کے لیے تو اس کے بعد اس کام کو کرگزرے جو کچھ بھی اس پر ظاہر ہو خواہ اسے انشراح صدر حاصل ہو یا نہیں کیونکہ اسی میں خیر ہے اگرچہ بظاہر انشراح صدر حاصل نہ بھی ہو۔ فرمایا: حدیث میں انشراح نفس کی کوئی شرط نہیں ہے([11])۔
8- دعاء استخارہ کا مقام سلام پھیرنے کے بعد ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلِ ۔۔۔‘‘ کیونکہ اس کا ظاہر یہی ہے کہ یہ دو رکعتوں کے بعد ہے یعنی سلام پھیرنے کے بعد۔ البتہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے سلام پھیرنے سے پہلے پڑھنے کو اختیار فرمایا ہے([12])۔
سوال: شیخنا بارک اللہ فیکم، کیا دعاء استخارہ نماز سے پہلے یا بعد میں جائز ہے؟
جواب: جی، جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہی ہے۔ سلام سے پہلے اس کی مشروعیت کا امام ابن تیمیہ کہتے ہیں اور سلام کے بعد اس کی مشروعیت کا امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں۔
[1] حديث صحيح: أخرجه البخاري فِي مواضع منها فِي كتاب التهجد، باب ما جاء فِي التطوع مثنى مثنى، حديث رقم (1166). وانظر: "جامع الأصول" (6/250-251).
[2] "نيل الأوطار" (3/88)، "تحفة الذاكرين" (ص134).
[3] "الأذكار" (3/355-مع شرح ابن علان).
[4] "فتح الباري" (11/184).
[5] ایضاً۔
[6] "الأذكار" (3/354- مع شرح ابن علان).
[7] جو کلام پہلے گزرا اور جو ابھی بیان ہوا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ فتح الباري (11/185) میں فرمایا: کیونکہ خبر کا ظاہر یہ ہے کہ نماز یا دعاء کسی کام کے کرنے کے ارادے وخیال کے بعد ہو۔
[8] اسے نيل الأوطار (3/88)میں نقل فرمایا اور اس بارے میں الحافظ فِي فتح الباري (11/185)سے نزاع فرماتے ہوئے فرمایا: (جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر وہ ان نمازوں کی بعینہ نیت کرتاہے اور ساتھ میں نماز استخارہ کی بھی نیت ملالیتا ہےتو یہ کفایت کرے گی۔ برخلاف اس کے کہ اس نے اس کی نیت نہ کی ہو اور تحیۃ المسجد پڑھ کر فارغ ہوگیا ہو۔ کیونکہ اس سے مراد اس حصے میں دعاء کے ذریعے مشغول رہنا ہے۔ اور نماز استخارہ سے مراد ہے کہ نماز اور دعاء اس کے بعد ہو یا ان کے اندر ہو۔ اور اس شخص کو یہ کفایت نہيں کرے گی جس کے سامنے کوئی معاملہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں سامنے آیا ہو کہ جس پر استخارہ کرناہو کیونکہ خبر کا ظاہر یہی ہے کہ نماز ودعاء کسی کام کے ارادے کے وجود کے بعد ادا کی جائے)۔ میں یہ کہتا ہوں: خبر کے ظاہر میں ان رکعات کے تعین کی شرط نہیں سوائے اس شرط کے کہ یہ فرض نماز کے علاوہ ہوں۔ اگر کوئی مسلمان کسی امر کا ارادہ کرتاہے پھر وہ مثلاً ظہر کے بعد کی دوسنتیں پڑھ لیتا ہے اور ان کے بعد دعاء استخارہ پڑھ لیتا ہے تو مطلوب حاصل ہوجاتا ہے۔ یہی ظاہر ہے۔ اور اسی کو امام نووی اور
میں یہ کہتا ہوں: ان کی مراد (واللہ اعلم) یہ ہے کہ اگر ان نمازوں کو شروع کرنے سے پہلے کسی کام کے ارادے کا سوچ رکھا تو([7])۔ جبکہ امام نووی رحمہ اللہ کے ظاہر کلام سے ایسا لگتا ہے کہ خواہ نماز استخارہ کی یا ان نمازوں کی استخارہ کے بارے میں نیت کرے یا نہ کرے برابر ہے۔ جو کہ حدیث کا ظاہرہے۔
امام عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کسی شخص کا کسی کام کرنے کا ارادہ ہو سنن رواتب یا ان جیسی نمازوں سے پہلے لیکن وہ بغیر استخارہ کی نیت کے انہیں ادا کرلیتا ہے، مگر پھر نماز کے بعد سوچتا ہے کہ دعائے استخارہ پڑھ لوں، تو ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہ حاصل ہوجائے گا([8])۔
4- استخارہ حال ِتردد میں نہیں ہوتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ‘‘ (جب تم کسی کام کا ارادہ کرو) اور اس لیے بھی کیونکہ پوری دعاء کا معنی اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ اگر مسلمان کسی دو باتوں میں متردد ہو اور استخارہ کرنا چاہتا ہو تو اسے چاہیےکہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرلے پھر اس ایک کے بارے میں استخارہ کرے۔ پھر استخارہ کرنے کے بعد اسے کرنا شروع کردے۔ اگر وہ خیر ہوگا تو اللہ تعالی اسے اس کے لیے آسان فرمادے گا اور اس میں برکت دے گا۔ اور اگر اس کے علاوہ ہوا تو اسے اس سے پھیر دے گا اور اپنے حکم سے وہ کام جو بہتر ہوگا وہ اس کے لیے آسان فرمادے گا۔
5- ان دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی خاص سورۃ یا معین آیات پڑھنا متعین نہیں کیا گیا([9])۔
6- کسی چیز کو اختیار کرنا نہ کرنا اس طرح ظاہر ہوگا کہ وہ کام آسان ہوجائے گا اور اس میں برکت ہوجائے گی بصورت دیگر استخارہ کرنے والے کو اس سے پھیر دیا جائے گا اور خیر جہاں کہیں بھی ہوگی اس کے لیے آسان کردی جائے گی۔
7- اس میں یہ بھی ہے کہ جب ایک مسلمان نماز استخارہ پڑھ لے تو جس کا عزم کرلیا ہے اس پرگامزن ہوجائے خواہ اسے شرح صدر حاصل ہو یا نہ ہو([10])۔
ابن الزملکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کوئی انسان دورکعات پڑھ کر استخارہ کرتا ہے کسی کام کے لیے تو اس کے بعد اس کام کو کرگزرے جو کچھ بھی اس پر ظاہر ہو خواہ اسے انشراح صدر حاصل ہو یا نہیں کیونکہ اسی میں خیر ہے اگرچہ بظاہر انشراح صدر حاصل نہ بھی ہو۔ فرمایا: حدیث میں انشراح نفس کی کوئی شرط نہیں ہے([11])۔
8- دعاء استخارہ کا مقام سلام پھیرنے کے بعد ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلِ ۔۔۔‘‘ کیونکہ اس کا ظاہر یہی ہے کہ یہ دو رکعتوں کے بعد ہے یعنی سلام پھیرنے کے بعد۔ البتہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے سلام پھیرنے سے پہلے پڑھنے کو اختیار فرمایا ہے([12])۔
سوال: شیخنا بارک اللہ فیکم، کیا دعاء استخارہ نماز سے پہلے یا بعد میں جائز ہے؟
جواب: جی، جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہی ہے۔ سلام سے پہلے اس کی مشروعیت کا امام ابن تیمیہ کہتے ہیں اور سلام کے بعد اس کی مشروعیت کا امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں۔
[1] حديث صحيح: أخرجه البخاري فِي مواضع منها فِي كتاب التهجد، باب ما جاء فِي التطوع مثنى مثنى، حديث رقم (1166). وانظر: "جامع الأصول" (6/250-251).
[2] "نيل الأوطار" (3/88)، "تحفة الذاكرين" (ص134).
[3] "الأذكار" (3/355-مع شرح ابن علان).
[4] "فتح الباري" (11/184).
[5] ایضاً۔
[6] "الأذكار" (3/354- مع شرح ابن علان).
[7] جو کلام پہلے گزرا اور جو ابھی بیان ہوا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ فتح الباري (11/185) میں فرمایا: کیونکہ خبر کا ظاہر یہ ہے کہ نماز یا دعاء کسی کام کے کرنے کے ارادے وخیال کے بعد ہو۔
[8] اسے نيل الأوطار (3/88)میں نقل فرمایا اور اس بارے میں الحافظ فِي فتح الباري (11/185)سے نزاع فرماتے ہوئے فرمایا: (جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر وہ ان نمازوں کی بعینہ نیت کرتاہے اور ساتھ میں نماز استخارہ کی بھی نیت ملالیتا ہےتو یہ کفایت کرے گی۔ برخلاف اس کے کہ اس نے اس کی نیت نہ کی ہو اور تحیۃ المسجد پڑھ کر فارغ ہوگیا ہو۔ کیونکہ اس سے مراد اس حصے میں دعاء کے ذریعے مشغول رہنا ہے۔ اور نماز استخارہ سے مراد ہے کہ نماز اور دعاء اس کے بعد ہو یا ان کے اندر ہو۔ اور اس شخص کو یہ کفایت نہيں کرے گی جس کے سامنے کوئی معاملہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں سامنے آیا ہو کہ جس پر استخارہ کرناہو کیونکہ خبر کا ظاہر یہی ہے کہ نماز ودعاء کسی کام کے ارادے کے وجود کے بعد ادا کی جائے)۔ میں یہ کہتا ہوں: خبر کے ظاہر میں ان رکعات کے تعین کی شرط نہیں سوائے اس شرط کے کہ یہ فرض نماز کے علاوہ ہوں۔ اگر کوئی مسلمان کسی امر کا ارادہ کرتاہے پھر وہ مثلاً ظہر کے بعد کی دوسنتیں پڑھ لیتا ہے اور ان کے بعد دعاء استخارہ پڑھ لیتا ہے تو مطلوب حاصل ہوجاتا ہے۔ یہی ظاہر ہے۔ اور اسی کو امام نووی اور