Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.27K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Article] The Fitnah of photography and try to justify it by Shaykh Ibn Uthaimeen's (rahimaullaah) viewpoint
تصویر کشی کا فتنہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے کلام سے استدلال کرنا
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ الآجری۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/tasweer_kashi_fitnah_ibn_uthaimeen_istadlaal.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آجکل جو فتنے عام ہیں ان ہی میں تصویر کشی کا فتنہ اور اس کی کثرت ہے۔ ان لوگوں میں بعض شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے تصویر کشی کے جواز والے فتوے کو دلیل بنارہے ہوتے ہیں، حالانکہ فی الواقع شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس حکم کو معلق رکھا ہے اس طور پر کہ اگر اس سے غرض مباح وجائز ہو تو یہ مباح ہوگا بصورت دیگر اگر اس سے غرض حرام اور فضولیات ہو تو اس کا حکم بھی حرام اور ممنوع ہوگا جو کہ وسائل کی تحریم کے باب میں سے ہے۔ چناچہ آپ رحمہ اللہ ریاض الصالحین کی شرح 1/1789 میں فرماتے ہیں:
یہ مباح ہے لیکن اگر اس سے غرض حرام ہو تو یہ جائز نہیں وسائل کی تحریم کے باب میں سے۔ البتہ اگر کوئی مباح غرض ہو جیسے ڈرائیونگ لائسنس کے لیے یا شناختی کارڈ یا ان جیسی ضروریات کے لیے اگر تصویر لی جائے تو جائز ہوگی۔ یہ ہے ہماری رائے اس مسئلے کے تعلق سے، لیکن فی زمانہ لوگ اس تصویر کے فتنے میں بہت زیادہ مبتلا ہيں اور یہ ہرچیز میں ہی موجود ہے۔لیکن انسان پر واجب ہے کہ وہ جانے، تحقیق کرے اور تمیز کرے اس میں جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور اس میں جس کی حرمت نہيں آئی۔ ہم اللہ کے بندوں پر بلاوجہ تنگی نہيں ڈالنا چاہتے اور ساتھ ہی انہيں اس چیز میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے جو اللہ تعالی نے حرام قرار دی ہے، جیسا کہ ذی روح کی تصویر کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مَنْ صَوَّرَ صُورَةً فِي الدُّنْيَا كُلِّفَ أَنْ يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَيْسَ بِنَافِخٍ‘‘([1])
(جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی تو بروز قیامت اسے اس میں روح پھونکنے کا پابند بنایا جائے گا، حالانکہ وہ کبھی بھی اس میں روح نہيں پھونک سکے گا)۔
اسی طرح سے اپنے جریدے ’’المسلمون‘‘ کو بروز جمعہ 29/11/1410ھ شمارہ 281 میں دیے گئے انٹرویو میں کیمرے کی تصویر پر بات کرنے کے بعد واضح طور پر فرمایا کہ:
لیکن یہ بات مدنظر رکھنا بے حد ضروری ہے کہ اس تصویر سے مقصود کیا ہے؟
اگر اس سے کوئی مباح چیز مقصود ہے تو یہ عمل مباح ہوگا اس مقصود کے مباح ہونے کی وجہ سے، اور اگر اس سے مقصود کوئی غیرمباح (ناجائز) عمل ہو تو یہ حرام ہوگی۔ اس لیے نہيں کہ یہ محض تصویر ہے بلکہ اس لیے کہ اس سے مقصود حرام چیز ہے۔
سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ تصویر کے تعلق سے کون سے مباح اغراض ومقاصد ہیں اور کون سے حرام؟
جواب: مباح اغراض یہ ہيں کہ کسی چیز کے ثبوت کے لیے تصویر درکار ہو جیسے کسی کی شناخت کے لیے، یا ٹریفک حادثات وجرائم، یا کسی کام کی نگرانی وانتظام کے لیے کہ کسی سے یہ طلب کیا جائے اور اسے ثابت کرنے کے لیے اسے تصویر کا سہارا لینا پڑے۔
ناجائز اغراض کی مثال یادگار کے لیے تصاویر لینا جیسے دوستوں کی، شادی بیاہ کی تقریبات کی یا اس جیسی کیونکہ اس صورت میں تصویروں کو بلاضرورت رکھا جانا لازم آئے گا جو کہ حرام ہے۔ کیونکہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ بے شک فرشتے اس گھر میں داخل نہيں ہوتے جس میں تصویر ہو۔ اور انہی ناجائز تصویروں میں سے کسی کی فوت شدہ محبوب ہستی کی تصویر جیسے ماں باپ کی یا بھائی کی جسے وہ وقتاً فوقتاً دیکھا رہتا ہے، کیونکہ اس طور پر تو اس کا اس پر غم تازہ ہوجاتا ہے، اور اس کی وجہ سے میت کے ساتھ دل بہت زیادہ جڑا رہتا ہے۔
اسی طرح سے ناجائز تصاویر کی مثال نفسانی اور جنسی لذت کی خاطر تصاویر دیکھنا، کیونکہ یہ انسان کو فحاشی کی طرف لے جاتی ہیں۔
یہ کچھ مثالیں ہیں اس قاعدے کی جو ابھی ہم نے ذکر کیا، یہ بطور حصر نہيں (کہ ہم نے ساری جائز وناجائز صورتیں بیان کردی ہوں بلکہ بطور مثال ہے جس پر باقی کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے) لیکن جسے اللہ تعالی نے فہم دیا ہے تو وہ عنقریب باقی تصاویر پر بھی یہ قاعدہ منطبق کرسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہم اللہ تعالی سے تمام لوگوں کے لیے ہدایت اور اس کام کی توفیق طلب کرتے ہيں جسے وہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔
شیخ رحمہ اللہ کا کلام ختم ہوا۔
لہذا ہم شیخ رحمہ اللہ کے سابقہ کلام میں یہ بات پاتے ہيں کہ شیخ نے اس لیے ہرگز اجازت نہيں دی ہے کہ بلاوجہ یاددگار وغیرہ کے لیے ان تصاویر کو رکھا جائے حالانکہ آجکل سب سے زیادہ اسی غرض ومقصود کے لیے یہ تصاویر عام ہیں۔ واللہ المستعان۔
(تیار کردہ: ابو عبداللہ وائل اللیبی)
[1] صحیح مسلم 2113۔
[Urdu Article] Tawheed is the base of Deen and creed of Islaam – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
توحید دین کی بنیاد اور ملت اسلامیہ کی اساس ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع فتاوى ومقالات متنوعة ج 28۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/tawheed_deen_o_millat_ki_bunyad.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سماحۃ الشیخ ہم چاہتے ہیں کہ آپ توحید کی فضیلت بیان کیجئے اور خصوصاً اس تناظر میں کہ بہت سے نوجوان اس سے بے اعتنائی برتتے ہیں، اللہ تعالی آپ کو توفیق عنایت فرمائے؟
جواب: توحید کی معرفت اصل الاصول اور دین کی بنیاد ہے۔ دین کی بنیاد یہی ہے کہ آپ شہادتِ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کے معنی کو جانیں۔ یہ سب سے اولین وبڑا واجب ہے۔ اور یہ وہ اولین چیز ہے کہ جس کی جانب تمام رسولوں علیہم الصلاۃ والسلام اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت دی۔ لوگوں کو شہادتین کا معنی ومفہوم سمجھایا اور بتایا کہ تمام اوثان واصنام کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے۔
یہ وہ پہلی چیز تھی کہ جس کی جانب انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام نے دعوت دی۔ اور یہی ہر مکلف مسلمان پر ہر چیز سے پہلے واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کو ایک قرار دے اور عبادت کو اس کے لیے خاص کردے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ﴾ (محمد: 19)
(جان لیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور اپنے گناہ کی بخشش طلب کریں)
اور فرمایا:
﴿وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا﴾ (الاسراء: 23)
(اور فیصلہ کرلیا آپ کے رب نے کہ نہيں کرو عبادت مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ احسان وبھلائی کرو)
اور فرمایا:
﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا﴾ (النساء: 36)
(اور اللہ تعالی کی عبادت کرو اور کسی کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ احسان وبھلائی کرو)
اور فرمایا:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36)
(اور تحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ صرف اللہ تعالی کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو)
لہذا ہر مکلف پر یہ واجب ہے کہ وہ دین کا تفقہ حاصل کرے، عبادت کو اللہ تعالی کے لیے خاص کردے اور لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کے معنی کو اچھی طرح سے سمجھ لے۔ پہلے حصے کا معنی ہے کہ اللہ تعالی کی توحید اور اس کے لیے اخلاص، اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت کی نفی کرتے ہوئے صرف اس کی عبادت کرنا، اور ایمان لانا کہ اللہ تعالی ہی حق ہے اور یہی دین کی بنیاد اور ملت اسلامیہ کی اساس ہے، جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُ﴾ (لقمان: 30)
(یہ ا س لیے کیونکہ بے شک اللہ تعالی ہی حق ہے اور بے شک جنہیں یہ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہیں)
ساتھ ہی (دوسرے حصے کا معنی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا کہ وہ برحق رسول ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب اور یہ کہ ان کی اتباع کرنا اور ان کے منہج پر چلنا واجب ہے۔ اور اعمال ان دو بنیادی شرائط کے بغیر قبول نہیں ہوتے: 1- اللہ تعالی کے لیے اخلاص، 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت۔
(ان سوالات کے تحت جو جامعۃ الامام محمد بن سعود، ریاض میں ایک تقریر کے بعد شیخ رحمہ اللہ کے سامنے پیش کیے گئے)
[Urdu Book] Correct Salafee stance regarding Ahl-ul-Bida’ah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
اہلِ بدعت کے بارے میں صحیح سلفی مؤقف
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المؤقف الصحيح من أهل البدع۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فضيلة شيخنا العلامة / الشيخ ربيع بن هادي المدخلي حفظه الله .
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته …………. وبعد
شیخ صاحب اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے، یہ بات یقیناً آپ پر مخفی نہیں ہے کہ کسی کی صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے صحبت اختیار کرنے والے پر خواہ اچھے ہوں یا برےکیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آجکل ہمارے بعض سلفی بھائی بعض ایسے لوگوں سے میل جول رکھنے میں واقع ہوگئے ہیں جو سلفی منہج کی مخالفت کرتے ہیں بطورِ صحبت یا موافقتِ طبع کی بنیاد پر؛ چناچہ کم از کم بھی جو چیز آپ اس قسم کے میل ملاپ رکھنے والے بھائی میں پائیں گے وہ یہ کہ وہ سلفی عقیدے کے مخالف افکار سے نابلد ہوگا، اور منہجی مسائل پر بات کرنے سے بھاگے گا۔
پس ہم آپ حفظہ اللہ سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ کوئی سلفی تربیتی باتیں ہمیں نصیحت فرمائیں؛ اور ایسوں کے ساتھ میل جول رکھنے کے خطرے سے آگاہ فرمائیں، اور آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہ اور آثارِ سلفیہ اس کی خطرناکی واضح کرنے کے سلسلے میں بیان فرمائیں، اور تاریخ میں سے ایسی مثالیں بیان فرمائیں کہ محض اہلِ اہوا کے ساتھ چلنے پھرنے کی وجہ سےکس طرح سے اہلسنت میں سے بعض بدعت کی طرف مائل ہوگئے ۔
اللہ تعالی آپ کی عمر وعلم میں برکت عطاء فرمائے، اور جزائے خیر سے نوازے۔
جواب کے لیے مکمل کتاب کا مطالعہ کیجئے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/ahlebidat_khilaf_sahih_salafi_moaqqaf.pdf
[Urdu Pamphlet] Suicide attacks are Haraam (Unlawful) (Pamphlet) – Various 'Ulamaa

خود کش اور فدائی حملے حرام ہیں (پمفلٹ)

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/khudkash_fidai_hamlay_haram_hain_pamphlet.pdf
[Urdu Video] #ahlebidat kay baray may saheeh #salafi_moaqqaf
https://safeshare.tv/x/NxHTugKuXr4

[Urdu Audio] Correct Salafee stance regarding Ahl-ul-Bida’ah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
اہلِ بدعت کے بارے میں صحیح سلفی مؤقف – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/10/ahlebidat_khilaf_sahih_salafi_moaqqaf.mp3
[Urdu Article] Abul 'Alaa Maududee and his exaggeration in the meaning of Shirk in rulership and obedience – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
ابو الاعلیٰ مودودی اور حاکمیت واطاعت میں شرک کے معنی میں غلو
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ وترتیب وفوائد: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/mawdudee_hakimiyyat_shirk_mana_ghulo.pdf
[Urdu Article] The correct meaning of testimony and its false Interpretations – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
شہادتین کا صحیح مطلب اور اس کی باطل تفسیرات
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/shahadatain_sahi_mana_batil_tafseer.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
1- ’’شھادۃ ان لا الہ الا اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ :
’’الاعتقاد والإقرار أنه لا يستحقُّ العبادةَ إلا الله ، والتزام ذلك والعمل به ‘‘
(اس بات کا اقرار کرنا اور اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کا التزام کرنا اوراس پرعمل کرنا)۔
چناچہ ’’لا الہ ‘‘ اس بات کی نفی ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کا مستحق ہو خواہ کوئی بھی ہو ، ’’الا اللہ‘‘ اس بات کا اثبات ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالی ہے ، اور اس کلمہ کا اجمالی مطلب یہ ہے کہ: ’’لا معبودَ بحقٍّ إلا الله‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں) ، اور ’’لا‘‘ کی خبر کو ’’بحقٍّ‘‘ (برحق) سے ہی تعبیر کیا جائے گا ، اس کو موجود سے تعبیر کرنا درست نہیں ([1])، کیونکہ یہ حقیقتِ حال کے خلاف ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کے سوا معبودات تو باکثرت موجود ہیں اور اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ ان معبودات کی عبادت کرنا بھی گویا اللہ تعالی کی ہی عبادت ہے ،جبکہ یہ باطل ترین بات ہوگی۔ اور یہ وحدة الوجود کے قائل لوگوں کا مذہب ہے جوکہ اس زمین کے سب سے بڑے کافر لوگ ہیں ۔
اس کلمہ کی بہت سی باطل تفسیرات بھی کی گئیں ، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
1. اس کا مطلب ہے : ’’لا معبودَ إلا الله‘‘ (کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالی کے )۔
جبکہ یہ باطل تفسیر ہے ، اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ : ہر معبودخواہ حق ہو یا باطل وہ اللہ ہے ، جیسا کہ ہم نے پہلے کچھ اس کا بیان کیا ہے۔
2. اس کا مطلب ہے :’’لا خالقَ إلا الله‘‘ (کوئی پیدا کرنے والا نہیں سوائے اللہ تعالی کے)۔
یہ اس کلمہ کے معنی کا صرف ایک جزء ہے ،حالانکہ یہ اصل مقصود نہیں ، کیونکہ اس سے صرف توحیدِ ربوبیت ثابت ہوتی ہے ، اور محض یہ توحید کافی نہیں یہ تو مشرکین کی بھی توحید ہے۔
3- اس کا مطلب ہے :’’لا حاكميّةَ إلا لله‘‘ (کسی کی حاکمیتِ اعلیٰ نہیں سوائے اللہ تعالی کے)۔
یہ بھی در حقیقت اس کلمہ کے معنی کا صرف ایک جزء ہے ، اصل مقصود نہیں ، اور نا ہی یہ کافی ہے ،کیونکہ اگر کوئی اللہ تعالی کو صرف حاکمیتِ اعلی میں اکیلا تسلیم بھی کرلے لیکن ساتھ ہی اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارے، اس سے دعاء کرے یا کچھ عبادت اس کے لیے ادا کرے تو وہ موحد نہیں ہوگا۔ پس اس قسم کی تمام تفسیرات باطل یا ناقص ہیں ، ہم نے اس پر اس لئے تنبیہ کی ہےکیونکہ یہ بعض عام طور پر پڑھی جانے والی کتابوں میں موجود ہے ۔
چناچہ اس کلمے کی صحیح تفسیر سلف صالحین اور محققین کی نظر میں یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے : ’’لا معبود بحق إلا الله ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں) جیسا کہ اس کاپہلے ذکر ہوچکا ہے([2]) ۔
2- ’’شھادۃ ان محمدا رسول اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے: اس بات کا اعتراف باطن اور ظاہر میں کیا جائے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں ، اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جائے اس طرح کہ:
’’طاعته فيما أمر ، وتصديقه فيما أخبر ، واجتناب ما نهى عنه وزجر ، وألا يُعبدَ الله إلا بما شرع‘‘
(جن باتوں کا وہ حکم فرمائیں ان کی اطاعت کی جائے، جن باتوں کی وہ خبر فرمائیں ان کی تصدیق کی جائے، جن باتوں سے منع اور خبردار فرمائیں ان سے اجتناب کیا جائے اور اللہ تعالی کی عبادت نہ کی جائے مگر صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق)۔
[1]یعنی ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کا معنی ’’لامعبود بحق الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں) کیا جائے گا نہ کہ ’’لامعبودالااللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں) یا پھر ’’لامعبود موجود الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود موجود نہیں)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اسکی تفصیل جاننے کے لیے پڑھیں کتاب ’’فتح الملک الوھاب فی رد شبہ المرتاب‘‘ از شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوہابs ، ’’دروس من القرآن الکریم‘‘ از شیخ صالح الفوزان﷾، ’’دینی سیاسی جماعتوں کا انبیاء کرام کے منہج سے انحراف‘‘ از شیخ ربیع المدخلی ﷾وغیرہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Refuting the deviant groups and organizations – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
منحرف جماعتوں کا رد کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/03/munharif_jamato_ka_rad_karna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: میں بعض گمراہ جماعتوں کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں اور ان سے خبردار کرنا چاہتا ہوں، لیکن یہ جماعتیں اپنی گمراہی کے باوجود ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہیں، اور بعض علماء نے ان کی مدح وتعریف بھی کی ہوئی ہے۔ لہذا میں ڈرتا ہوں کہیں یہ مجھ پر بددعاء نہ کرلیں۔ آپ اس بارے میں کیا رہنمائی فرمائیں گے یہ بات علم میں رہے کہ یہ یقیناً ایک گمراہ جماعت ہےجس کا رد مقصود ہے؟
الشیخ: آپ پر حق بات بیان کرنا واجب ہے۔ اگر آپ کو ان کے پاس موجود غلطیوں اور گمراہیوں کے بارے میں سو فیصد یقین ہے اور آپ کے پاس اس کی قدرت وصلاحیت اور ایسا علم ہے جس سے اسے بیان کرسکیں تو آپ پر واجب ہے کہ بیان کریں۔
فرمان الہی ہے:
﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ﴾ (آل عمران: 187)
(اور یا د کرو اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں)
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ، اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ﴾ (البقرۃ: 159-160)
(بے شک جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں)
کتمانِ علم (علم کو چھپانا) جائز نہیں۔ اگر آپ کے پاس علم ہے اور آپ کسی جماعتوں کی گمراہی کے بارے میں متیقن ہیں تو ضرور اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں تاکہ وہ ان سے خبردار رہیں اور یہ تو مسلمانوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے باب میں سے ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ ‘‘([1])
(دین تو نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے؟ ہم نے کہا: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور ان کی عوام کے لیے)۔
لوگوں سے نہ ڈریں۔ آپ پر واجب ہے کہ صرف اللہ تعالی سے ڈریں اور حق کو بیان کریں ،باطل کا رد کریں، اورلوگوں سے نہ ڈریں۔

[1] صحیح مسلم 55۔
[Urdu Article] Tafseer of Ayat-ul-Kursee – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تفسیر آیۃ الکرسی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تفسير العلامة محمد بن صالح العثيمين
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾ (البقرۃ: 255)
(اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبودحقیقی نہیں، زندہ ہے، خود قائم ہے اور ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر وسیع ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے عظیم ہے)
تفسیر کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/tafseer_ayat_ul_kursi.pdf
[Urdu Article] Can Salafi Dawa'ah not spread without making Jamiat? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا بغیر جمعیت بنائے سلفی دعوت نہیں پھیل سکتی؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ: سلفيتنا أقوى من سلفية الألباني : شبة والرد عليها۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/02/bina_jamiat_salafi_dawat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سلفی دعوت کے مقدر میں پھیلنااور منتشر ہونا سوائے جمعیات بنانے کے رقم نہیں ہوسکتا۔ جبکہ دوسرے ساتھی ان سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جمعیات تو سلفیوں کے درمیان تفرقہ کا سبب ہيں، پس آپ کی اس قسم کی عبارت کے بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اللہ کی قسم ہم تو یہی کہتے ہيں کہ: ’’وكل خير في اتباع من سلف، وكل شر في ابتداع من خلف‘‘ (ہر خیر سلف کی اتباع میں ہے اور ہر شر خلف کی ایجاد کردہ بدعتوں میں ہے)۔ کیونکہ سلف نے اس دین کی نشر واشاعت کی اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کے ذریعہ پوری دنیا فتح کرلی۔ پس وہ جہاد میں جان ومال کے ساتھ تعاون کرتے۔ لیکن اس منظم اور تنظیمی طریقے سے نہیں جو مغرب سے ہماری طرف آئے ہیں۔ تم اپنا جان اور مال پیش کرو کوئی دوسرا بھی پیش کرے تو میری جدوجہد تمہاری جدوجہد سے مل جائے اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کی شکل بن جائے۔ اور کلمۃ اللہ کو آگے پہنچاتے گئے۔ اِس ملک کو فتح کیا اُس ملک کو فتح کیا۔ پھر علماء نے ان کے نقش قدم پرچل کر ایک دنیا کو فتح کرلیا۔ پس علماء کرام نے علم کا جھنڈا لہرایا اور پورے عالم میں اسے نشر کیا۔ یہ اِس مسجد میں پڑھا رہا ہے اور وہ اُس مسجد میں پڑھا رہا ہے۔ اور ان سب کی جدوجہد باہم یکجا ہوجاتی ہیں۔ پس فلاں طالبعلم اور فلاں طالبعلم ایک ہی منہج کتاب وسنت پر پروان چڑھتے ہیں۔ لہذا اس کا نتیجہ، آثار اور ثمر ان جمعیات سے کئی گنا افضل ہوتا ہےجوکسی طالبعلم کو صحیح پروان چڑھانے تک سے عاجز ہیں علماء بنانا تو دور کی بات رہی۔
میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں شیخ مقبل رحمہ اللہ ان جمعیات اور ان کے اسلوب کا انکار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا ایک علمی مرکز بنایا اور طلبہ کو علم دیا۔ تو وہاں سے طلبہ سے بڑھ کر علماء تک پیدا ہوئے اور ہرکوئی اپنے اپنے وطن لوٹ گیا۔ اور وہا ں کسی مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ جس کی وجہ سےانہوں نے ایک نئی نسل کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پروان چڑھائی۔ جبکہ دوسری طرف دنیا کے مشرق ومغرب میں پھیلی ان جمعیات کے بارے میں آپ مجھے بتائیں کتنے عالم انہوں نے پیدا کیے۔ کچھ نہیں! اور اس کمزور شخص نے کہ جس کے پاس نہ مال تھا نہ کچھ اپنے اخلاص اور محنت سے اللہ کی قسم یہ سب کچھ کیا جس سے یہ جمعیات عاجزہیں۔ بلکہ اس کے عشر عشیر تک کرنے سے عاجز ہیں کہ کسی عالم کو پیدا نہ کرسکیں۔ پھر ان پر حزبیت کا غلبہ ہوتا ہے اور اپنی جمعیت کی بنیاد پر الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کرتے ہیں۔، اور تفرقہ ہوتا ہے اور انہی کے سبب سے کئی مسلم ممالک میں سلفیوں کے درمیان پھوٹ پڑی ہے۔ میرے سامنے کسی بھی جمعیت کا نام پیش کریں سوائے جمعیت البر کے جو ابھی تک محفوظ ہے اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائے انہیں بھی ہم نصیحت کرتے ہیں کہ جمعیت والا مسلک چھوڑدیں جس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ ان جمعیات نے اسلام اور سلفی منہج کا صفایا کردیا ہے، اور سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ اور مسلمانوں کی جیبوں میں سے ان کا مال ہتھیا کر اپنی جیبیں بھر لی ہیں جسے وہ یہاں اور وہاں سلفیت کے خاتمے کے لیے استعمال کرتے ہیں چاہے یہ سوڈان میں ہو یا صومالیہ، اریٹیریا، پاکستان، ہندوستان یا افغانستان میں۔ یہ مال (فنڈز) کو جمع کرتے ہیں اور غایت درجے مکر سے کام لیتے ہوئے اسے سلفی منہج کے خاتمے کے لیے استعمال کرتےہیں۔ اور اس بات میں یہ ماہر ہیں۔ پھر کیسے یہ توقع کی جائے کہ یہ جمعیات سلف صالحین کےمنہج کی تعلیم دیں گی جبکہ یہ خود اس میں ناکام ہيں اور سلفی منہج کے ذریعے ترقی کرنے سے عاجز ہیں۔ پس ہم ہر اس شخص کو نصیحت کرتے ہیں کہ جسے اللہ تعالی نے کچھ علم دیا ہے کہ وہ ایک مسجد لے اور اچھے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرے جنہیں وہ جانتا ہے پھر انہیں تعلیم دے۔ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ اگر میں اپنی مسجد سے دس علماء فارغ کروں اور آپ اپنے مسجد سے دس علماء فارغ کریں اور وہ بھی دس کرے وغیرہ جبکہ ہم ایک ہی شہر یا ملک میں ہیں تو ہم چالیس پچاس علماء پیدا کرسکتے ہيں۔ اللہ کی قسم جو ایسی ہزار جمعیت سے بہتر ہے اور ان جمعیت کے قائم کردہ معاہد سے بہتر ہے۔
[Urdu Article] Can the Jamiat Ahlehadees be dissolved after its formation? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا جمعیت اہلحدیث کے قیام کے بعد اسے تحلیل کیا جاسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی
مصدر: مكالمة هاتفية ویب سائٹ منابر النور (تفریغ: خمیس بن ابراہیم المالکی)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/jamiat_ahlehadees_qiyam_baad_tehleel.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا حکومت کے مخالف نہیں بلکہ اس کے تابع ہونا جمعیت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے؟
کیا سعودی مشایخ کو دیگر ممالک کے نظام اور جمعیات کا علم نہیں؟([1])
یہ ٹیلی فونک مکالمہ ہے جو ابو عبدالاعلیٰ خالد عثمان المصری اور علامہ شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ کے مابین ہوئی،چونکہ یہ مکالمہ خصوصی طور پر جمعیات اور اس کے نتیجے میں مرتب ہونے والے معاملات کے متعلق تھا اسی لیے اسے من وعن نقل کیا جارہا ہے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آپ کے ساتھ محمود بھائی بات کریں گے بارک اللہ فیکم یا شیخ۔
محمود: السلام علیکم فضیلۃ الشیخ۔
شیخ ربیع: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محمود: شیخ آپ کی جمعیت اہلحدیث والاثر وغیرہ جمعیات جو کہ مصر میں وزارت سماجی یکجہتی اور اجتماعی امورکے تابع ہے کا کیا حکم ہے؟
شیخ ربیع: بارک اللہ فیک، میرے پاس مکمل معرفت ہے ان جمعیات کے تعلق سے اس ملک کے اندر ہو یا دیگر ممالک میں کوئی بھی سلفی (اہلحدیث) جمعیت نہیں بنتی مگر وہ منحرف ہوہی جاتی ہے چاہے مصر میں ہو یا سوڈان، یمن یا دیگر ممالک میں۔ ان کا اہم ترین ہدف پھر جمعیت کے عہدوں،امارت اور مال(چندہ وفنڈنگ) کے لیے لڑنا جھگڑنا رہ جاتا ہے اور نتیجتاً سب کچھ ضائع ہوجاتا ہے۔۔۔اور بہت دور کے انحراف میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سلف کی دعوت جمعیات کے ذریعے نہيں پھیلی
شیخ ربیع فرماتے ہیں کہ:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب: 21)
(یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں ہمیشہ سے(او رہر زمان ومکان کے لیے) عمدہ نمونہ (موجود) ہے)
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت جمعیات کے ذریعے نہیں چلی تھی!! بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت مسجد کے ذریعے چلی تھی، پھر دیگر مساجد تک پھیلتی گئی پھر اس نے پوری دنیا کو بھر دیا اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالی نے پوری دنیا کو فتح کروادیا۔
پھر سلف صالحین میں سے آئمہ حدیث وفقہ وتفسیر نے بھی علم انہی مساجد یا اپنے گھروں کے ذریعے پھیلایا اور ان کے ذریعے سے اللہ تعالی نے لوگوں کو نفع پہنچایا۔ ان کے ہاتھوں ہی سلفی دعوت پھیلی یہاں تک کہ ہم تک پہنچی جو کہ اپنی بہترین حالت میں تھی۔پھر جب ان کی جگہ ان جمعیات نے لے لی تو یہ ضائع ہوگئی اور پھوٹ کا شکار ہوگئی۔
اور مجھ سے ابوعبدالاعلی بھائی نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ ہم کوئی جمعیت کھولتے ہیں وغیرہ۔ تو میں نے ان سے کہا: آپ نے پہلے بھی مجھ سے مشورہ لیا تھا تو میں نے نہیں کہا تھا یا جو بھی میں نے اس وقت کہا تھا۔
محمود: جی۔
اگر کوئی سلفی عالم نیک نیتی سے جمعیت قائم کرے اور اس کے فوائد بھی ہوں مگر جب آگے چل کر وہ حزبیت کی صورت اختیار کرلے تو اسے ختم کردینا چاہیے
جمعیت کا قدیم ہونا بھی اس کے صحیح ہونے یا چلتے رہنے کی دلیل نہیں
شیخ ربیع: (تمہاری جمعیت) ابھی شروع ہوئی۔۔۔ اور تم اس سے محبت کرتے ہو! اور برائی کی نشانیاں دِکھنا شروع ہوگئی!! پھر آخر تم چاہتے کیا ہو؟!! یہ کیا بات ہے۔۔۔؟ بارک اللہ فیک۔ جمعیت میں جمعیت انصار السنۃ کو ہی لےلو جو شیخ محمد حامد الفقی رحمہ اللہ اور ان جیسے اشخاص کے ہاتھوں (سن1926ع میں) قائم ہوئی اور اللہ تعالی نے اس کے ذریعے بہت نفع پہنچایا، بارک اللہ فیک۔ پھروہ لوگ اس سے تجاوز کر گئے۔۔۔۔! اللہ کی قسم میں انصار السنۃ کے مرکز میں داخل ہوا تو پھر چیخ وپکار، لڑائی جھگڑے، مشاکل وفتنے ہی سننے کو ملے!! سب کے سب مال اور دنیا کے متعلق تھے! اور یہ تو بہت پرانی بات ہے تیس سال پرانی، اس سے اندازہ لگائیں اب اس کا کیا حال ہوگا؟۔۔۔!! میرے بھائی۔
محمود: جی۔
دعویٰ: جمعیت کے بغیر تو دعوتی کام ہو ہی نہیں سکتا!([2])
ہماری جمعیت میں دیگر جمعیت جیسی حزبی خرابیاں نہ ہوں تو؟
اگر جمعیت نہیں تو پھر کیا کیا جائے؟
شیخ ربیع: جس کے پاس علم ہو اسے ایک مسجد لے دو۔ وہ اس مسجد سے جڑا رہے اور اس میں تدریس کرتا رہےجتنا میسر ہو دس کو بیس کو، تیس کو غرض جتنا ہوسکے، انہیں تعلیم دو انہیں علمی متون یاد کرواؤ۔ انہیں کتاب وسنت کے نصوص یاد کرواؤ اور انہیں فقہ، حدیث، تفسیر اور لغت وغیرہ کی تعلیم دو۔ انہی میں سے علماء پیدا ہوں گے۔ اور ایسے دس علماء ان سینکڑوں جمعیتوں سے بہتر ہیں۔ یہ جمعیات محض تخریبکاری وضیاع کاری کے لیے آلۂ کار پیدا کرتی ہیں اور کچھ نہیں۔
محمود: شیخ اگر ہمارے لیے ممکن ہی نہیں د
عوت دینا سوائے ان جمعیات کے طریقے سے؟ اور اگر ۔۔۔ہم ایسے امور جن میں دیگر جمعیات مبتلا ہیں (نہ پڑیں)؟ اس صورت میں آخر حل کیا ہے؟
شیخ ربیع: اللہ کی قسم! اس کا حل یہی ہے کہ مساجد حاصل کرو اور اس میں تعلیم دو۔ شیخ مقبل رحمہ اللہ نے کوئی جمعیت نہيں بنائی! بلکہ وہ تو جمعیات کے خلاف لڑتے تھے! کیا آپ کو شیخ مقبل رحمہ اللہ یاد ہیں؟ انہوں نے کوئی جمعیت نہیں بنائی بس مسجد بنائی اور اللہ تعالی نے ان کے ذریعے سے نفع پہنچایا۔ پھر پورے یمن میں مساجد بننا شروع ہوگئی۔ جو سب کی سب مراکز کے نام سے عبارت تھیں، بارک اللہ فیک۔ جو کہ مدارس تھے جمعیت نہیں بارک اللہ فیک!۔ اور یہ اب نبردآزما ہیں۔۔۔جمعیات سے اور اللہ تعالی نے ان کے ذریعے نفع پہنچایا اور جمعیات کو تہس نہس کیا، بارک اللہ فیکم۔ آپ لوگ کوشش کریں کہ عقیدہ ومنہج اور صحیح علم کی نشرواشاعت کے لیے سلفی طریقے کو اپنائیں، بارک اللہ فیکم۔ آج نوجوانوں میں علماء موجود نہیں! جمعیات کھڑی کرتے ہیں! پھر ان میں سے کیا پیدا ہوتا ہے؟! ان میں سے کون نکلتے ہیں؟! وہ ابھی تک جاہل لوگ ہیں!! پھر لوگوں کو کیسے پروان چڑھائیں گے؟!! کیا انہیں بطور علماء پروان چڑھائیں گے اور ان میں سے علماء متخرج ہوں گے؟
محمود: جی بالکل فضیلۃ الشیخ ۔
شیخ ربیع: یا شیخ کیا اس طرح علماء کی تخریج ہوتی ہے؟!
محمود: نہیں نہیں ظاہر بات ہے۔ لیکن اگر ہم کوئی علمی مرکز قائم کریں گے تو دوسرے مسائل یہاں درپیش ہوجاتےہیں کہ جن میں واقع ہونا ممکن ہے جیسے ٹیکس اور انشورنس اور اس قسم کی دیگر چیزیں جو مصر کے وضعی قانون میں موجود ہیں۔
شیخ ربیع: صحیح ہے، تو کیا جمعیات میں ٹیکس نہیں؟
محمود: نہیں، جمعیات پر ٹیکس اور انشورنس منع ہے لیکن فنڈز بینک میں رکھنے ہوتے ہیں۔
شیخ ربیع: تم میں سے ہر کوئی ایک مسجد بنالے بس۔ نہ مرکز بنائے اور نہ جمعیات۔ ہر کوئی ایک مسجد پکڑے اور اس میں تدریس کرے بس۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: کوشش کرو ساتھیوں کی جماعت کے ساتھ کسی بات پر اتفاق کرلو، بارک اللہ فیک، اور جسے ان میں سے کچھ علم ہے تو وہ تدریس کے فرائض انجام دے۔ اور اللہ تعالی اس کوشش یا ان کوششوں میں برکت دے گا۔ اور آپ کے ہاتھوں علماء متخرج ہوں گے ان شاء اللہ جو خالص سلفیت کے حامل ہوں گے۔
جمعیت کے امراء کونصیحت کرنا
کیا شیخ ربیع جمعیت اہلحدیث اور ان کے امراء کو نصیحت نہیں کرچکے؟
کیا وہ ان کی نصیحت سنتے بھی ہیں؟!
محمود: جی بالکل اچھی بات ہے۔ یا شیخ مصر کی ان جمعیات کے امراء کو کوئی عمومی نصیحت فرمائیں جسے ہم ابھی ریکارڈ کرسکیں؟
شیخ ربیع: اللہ کی قسم! جمعیت کے امیر میری نصیحتیں نہیں سنتے!! اگر وہ میری نصیحتیں سنتے ہوتے تو ان جمعیات کے بغیر علم کو نشر کرتے! یا شیخ ہم انہیں نصیحت کرچکے ہیں۔
محمود: یعنی اب ہم یہ کرتے ہیں کہ۔۔۔
شیخ ربیع:۔۔۔ہم نے انہیں نصیحت کی ہے! دین کے تعلق سے نصیحت کی ہے۔۔۔! اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی نصیحت کی ہے! انصار السنۃ کو سوڈان میں بھی نصیحت کی ہے! لیکن ان کا انجام یہی خسارہ رہا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔
کیا جمعیت کو ختم کردینا چاہیے؟
اگر جمعیت کو علماء کرام نے قائم کیا ہو پھر بھی؟
جمعیات کے اثرات
محمود: ابھی ہم اس جمعیت اہلحدیث والاثر کی تحلیل کا عمل شروع کریں گے۔
شیخ ربیع: اللہ کی قسم!اگر آپ ابھی سے فساد وشر کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں جیسا کہ بتایا (۔۔۔ابھی تک محبت ہے)؛ تو اس سے جان چھڑا کر راحت پائیں، بارک اللہ فیک۔ یعنی ایک عالم ایسی دسیوں جمعیات سے بہتر ہے یا شیخ۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: ایک عالم جو بہت معمولی تعداد میں علماء فارغ کرے ایسی سینکڑوں جمعیات سے بہتر ہے۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: ایسی جمعیات جودنیا پر اور اس کے مال ومتاع پر لڑمرتی ہیں پھر دعوت کو ضائع کردیتی ہیں!
محمود: جی۔
شیخ ربیع: یعنی اب ایسی جمعیات موجود ہیں کہ جن کی مالی حالت بہت قوی ہے لہذا جب کبھی اہل سنت کوئی جمعیت بناتےہیں تو وہ اس پر حاوی ہوجاتے ہیں اور انہیں جادۂ حق سے منحرف کردیتے ہیں! کیسے!پس ایسوں کے ہاتھوں دعوت ضائع ہوکر رہ جاتی ہے!! جیسا کہ انصار السنۃ کے ساتھ ہوا مصر اور سوڈان میں اور یمن میں بھی شیخ مقبل رحمہ اللہ کی دعوت کے علاوہ ہوا۔
محمود: جی رحمہ اللہ۔
شیخ ربیع: بارک اللہ فیک۔
محمود: وفیکم بارک اللہ۔
شیخ ربیع:اس مسئلہ میں یہ بھی ہوتا ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ،جیسے انصار السنۃ کہ اب انہوں نے بھی سیاسی رخ اختیار کرلیا ہے۔
محمود: ہمم۔۔۔
شیخ ربیع: انصار السنۃ جو آپ کے یہاں ہے یعنی جو انصار السنۃ کہلاتے ہیں آپ کے ملک میں ان کا اب سیاسی رخ ہوگیا ہے؟
محمود: جی اس میں بھی حزبیت آچکی ہے۔۔۔
شیخ ربیع: ان کااخوان المسلمین کے متعلق کیا مؤقف ہے؟! اور قطبیوں کے تعلق سے کیا مؤقف ہے؟! اور کیا۔۔۔؟
محمود: جی، ان میں حزبیت آچکی ہے حتی کہ فروع میں بھی یا شیخ!
شیخ ربیع: ان میں کیا آچکی ہے!! یہ سب ایسی ہی بن چکی ہیں۔
محمود: جی بالکل۔
شیخ ربیع: جی، بارک اللہ فیک۔۔۔بارک اللہ فیک، اگر ان جمعیات ک
و علماء نے قائم کیا۔۔۔اور آپ نے اس کی تصدیق کی لیکن عنقریب ان کے بعد وہ لوگ جانشین بنیں گے۔۔۔جو اس قسم کی (مذموم) جمعیت (بن جائے گی)۔۔۔علم، حجت، برہان اور طریقۂ سلف پر ہو تو یہ واللہ اعلم میرے رائے میں خیر سے قریب تر اور سلامت ترین ہے۔(ریکارڈنگ خراب ہونے کی وجہ سے کچھ کلام غیر مفہوم ہے)۔
بارک اللہ فیک، میرے نزدیک ۔۔۔یہ جو جمعیات ہیں ان کے بہت ہی منفی اثرات ہیں! نہ صرف خود ان پر بلکہ ان کے ساتھ ساتھ جو بھی جڑتا ہے اس پر بھی۔۔۔
حکومتی اجازت تو درکنار اگر اس کی تائید وتعریف تک جمعیت کوحاصل ہو پھر بھی؟
اگر ہم جمعیت ختم کردیں گے تو لوگوں کو کیا جواب دیں گے؟!
اگر جمعیت میں کچھ جانی پہچانی علمی شخصیات بھی ہوں؟
فی زمانہ جمعیات کا انجام کار شر ہی دیکھا ہے
محمود: ٹھیک ہے مگر ایک اور بھی مسئلہ ہے حکمرانوں کے تعلق سے یہاں مصرمیں انہوں نے اس جمعیت اہلحدیث والاثر کی قدر کو بہت چڑھایا ہے اور طالبعلموں کو نصیحت کی کہ وہ اس جمعیت کے گرد جمع ہوجائیں، اب ہم ان سے کیا کہیں؟
شیخ ربیع: آپ کی اس جمعیت میں کتنے علماء ہیں؟
محمود: ہمارے ساتھ شیخ خالد ابو عبدالاعلی، شیخ محمود لطفی عامر، شیخ حسن بن عبدالوہاب البنا ہیں۔
شیخ ربیع: ۔۔۔۔
محمود: نہیں، وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں اس جمعیت اہلحدیث والاثر میں۔
شیخ ربیع: ممکن ہے وہاں کوئی مستقل جمعیت ہو اور وہ آپ کے ساتھ اس میں مشارکت کرتی ہو۔
محمود: جی۔
شیخ ربیع: ہمم بارک اللہ فیک۔
محمود: شیخ ہم پھر حکمرانوں کو اس مسئلے کے بارے میں اب کیا کہیں؟
شیخ ربیع: یہ مسئلہ تو آپ لوگوں کی طرف ہی لوٹتا ہے آپس میں مشاورت کریں اور اس کے حل کے بارے میں سوچیں۔
محمود: جی بالکل۔
شیخ ربیع: میری جو رائے تھی وہ میں نے بتادی ہے آپ کو۔
محمود: جی بالکل، ٹھیک فرمایا آپ نے۔
شیخ ربیع: یہاں آپ جانتے بھی ہیں کہ ۔۔۔ان جمعیات کا آخر انجام کار کیا ہوتا ہے۔ اگر اس کا انجام کار اچھا ہوتا تو ٹھیک ہے ہم بہت کثیر مصالح کی خاطر کچھ مفاسد کو برداشت کرلیتے لیکن ان کی تو بنیاد اور قیام ہی شر سے ہوتا ہے اور انتہاء بھی شر پر ہوتی ہے!
محمود: جی یا شیخ جزاکم اللہ خیراً! ابھی آپ کے ساتھ ابو عبدالاعلی بات کریں گے۔
شیخ ربیع: حیاکم اللہ اور مجھے بات کرنے میں کچھ تکلیف ہورہی ہے۔
جمعیت کو نصیحت
اگرچہ جمعیت کو نیک نیتی سے شروع کیا گیا ہو۔۔۔
جمعیات کا آخر انجام کیا ہوتا ہے؟
ان جمعیات سے مساجد بہتر ہیں
شیخ ابو عبدالاعلی: جزاک اللہ خیراً یا شیخ وبارک اللہ فیکم اور اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ اس نصیحت کے ذریعے ہمیں نفع پہنچائے اور۔۔۔
شیخ ربیع:۔۔۔علماء لوگوں کی تربیت کرنے میں محنت کر تے ہیں اور ایسے علماء فارغ کرتے ہیں جو اس خلاء کو پر کرتے ہیں۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی بالکل۔
شیخ ربیع: بارک اللہ فیکم، جبکہ یہ جمعیات ان مطلوبہ خلاء کو پر نہیں کرپاتیں!۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی، اللہ اکبر! واللہ ! یا شیخ یہ جو کچھ آپ نے وضاحت فرمائی ہماری بھی شروع میں یہی نیت تھی کہ ہماری جمعیت ان جمعیات کی طرح نہیں ہوگی! لیکن میرا گمان تھا کہ وہ ایک علمی مرکز ہوگا جیسا کہ شیخ مقبل رحمہ اللہ کا تھا لیکن یہ بات واضح ہوگئی کہ واقعی یہ جمعیات ان سے متعلق جو قانون ہے اس سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کو موقع ملتا ہے کہ ان کی تربیت صدارت وامارت کی چاہت پر ہو!
شیخ ربیع: شیخ مقبل رحمہ اللہ تو یہ بھی قبول نہيں کرتے تھے کہ ان کی مسجد کو مرکز کہا جائے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: ہمم۔
شیخ ربیع: لوگو ں نے اسے مرکز کہنا شروع کردیا! ورنہ تو ایک مسجد ہی تھی۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی جی۔
شیخ ربیع: جب دور آیا ۔۔۔ ان جمعیات اور مراکز کا، تو انہوں نے معذرت چاہی کہ بھائی ہمارے پاس مسجد ہے کوئی مرکز نہیں اور۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: واللہ! شیخ صاحب میں نے آخر میں یہی نصیحت کی تھی اپنے بھائیوں ساتھیو ں کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت مسجد سے شروع ہوئی، اسی لیے تمہارے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنے جدوجہد کو طالبعلم بنانے میں مرکوز رکھو نہ کہ۔۔۔
شیخ ربیع: تمہارے لیے تین یا چار ہوں مسجد میں تو صبح درس ہو، ظہر میں درس ہو، اور مغرب میں درس دو، علم علم اور صرف علم، کیا یہ ان جمعیات سے بہتر نہیں؟! اور۔۔۔ آخر تک جو ہے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جی بالکل، واللہ! یا شیخ یعنی اللہ تعالی کی ہی حمد ہے کہ اس نے ہمیں توفیق دی آپ کی اس گرانقدر نصیحت کو سننے کی اور وہ ہمارے لیے آپ میں برکت دے اور ہمیں آپ کے علم سے نفع حاصل کرنے کی توفیق دے یا شیخ۔
شیخ ربیع: الحمدللہ رب العالمین۔
شیخ ابو عبدالاعلی: اور ہم ان شاء اللہ آپ کو خیر کی بشارت دیتے ہیں ان شاء اللہ۔
شیخ ربیع: اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کے قدموں کو سیدھی راہ پر جمائے رکھے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آمین آمین۔
شیخ ربیع: اور آپ کی جدوجہد میں برکت دے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آمین آمین۔
شیخ ربیع: اور۔۔اس کے ثمرات بہت عمدہ ہوں گے۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آمین، آمین۔
شیخ ربیع: وحیا
ں اور سلفی منہج کے ذریعے ترقی کرنے سے عاجز ہیں۔ پس ہم ہر اس شخص کو نصیحت کرتے ہیں کہ جسے اللہ تعالی نے کچھ علم دیا ہے کہ وہ ایک مسجد لے اور اچھے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرے جنہیں وہ جانتا ہے پھر انہیں تعلیم دے۔ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ اگر میں اپنی مسجد سے دس علماء فارغ کروں اور آپ اپنی مسجد سے دس علماء فارغ کریں اور وہ بھی دس کرے وغیرہ جبکہ ہم ایک ہی شہر یا ملک میں ہیں تو ہم چالیس پچاس علماء تیار کرسکتے ہيں۔ اللہ کی قسم! جو ایسی ہزار جمعیت سے بہتر ہے اور ان جمعیت کے قائم کردہ معاہد سے بہتر ہے۔ (کیسٹ: سلفيتنا أقوى من سلفية الألباني : شبة والرد عليها) (توحید خالص ڈاٹ کام)
کم اللہ۔
شیخ ابو عبدالاعلی: اللہ یبارک فیکم یا شیخ۔
شیخ ربیع: اب مجھے اجازت دیجئے بارک اللہ فیک۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جزاکم اللہ خیرا ًیا شیخ، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کی مدد کرے، اللہ تعالی آپ کو مزید عزت سے نوازے یا شیخ۔
شیخ ربیع: اللہ آپ کی حفاظت فرمائے، حیاکم اللہ۔
شیخ ابو عبدالاعلی: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یا شیخ بس آج کی تاریخ کے ساتھ اسے ریکارڈ کرلیں۔
شیخ ربیع: جی۔
شیخ ابو عبدالاعلی: آج کی تاریخ رمضان المبارک کی دسویں رات سن 1429ھ (ستمبر 2008ع)۔
شیخ ربیع: بارک اللہ فیک، جی۔
شیخ ابو عبدالاعلی: جزاک اللہ خیراً یا شیخ۔
شیخ ربیع: حیاکم اللہ۔
شیخ ابو عبدالاعلی: ہم آپ سے اس ریکارڈنگ کے نشر کرنے کی اجازت چاہتے ہیں، اللہ یبارک فیکم۔
شیخ ربیع: حیاکم اللہ۔۔۔
شیخ ابو عبدالاعلی: ان شاء اللہ، جزاکم اللہ خیراً یا شیخ، اللہ یحفظکم، بارک اللہ فیکم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
[1] ان عناوین کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات شیخ کے کلام میں ثابت کی گئی ہے یا ان مذکورہ سوالات کے جوابات شیخ کے مندرجہ ذیل کلام میں موجود ہیں، جو جمعیت سازی کے قائلین کے بہت سے مشہور ومعروف عذر واستدلالات کا شافی جواب بن جاتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اس شبہہ کے جواب میں شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
سوال: بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سلفی دعوت کے مقدر میں پھیلنااور منتشر ہونا سوائے جمعیات بنانے کے رقم نہیں ہوسکتا۔ جبکہ دوسرے ساتھی ان سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جمعیات تو سلفیوں کے درمیان تفرقہ کا سبب ہيں، پس آپ کی اس قسم کی عبارت کے بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اللہ کی قسم ! ہم تو یہی کہتے ہيں کہ: ’’وكل خير في اتباع من سلف، وكل شر في ابتداع من خلف‘‘ (ہر خیر سلف کی اتباع میں ہے اور ہر شر خلف کی ایجاد کردہ بدعتوں میں ہے)۔ کیونکہ سلف نے اس دین کی نشر واشاعت کی اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کے ذریعہ پوری دنیا فتح کرلی۔ پس وہ جہاد میں جان ومال کے ساتھ تعاون کرتے۔ لیکن اس منظم اور تنظیمی طریقے سے نہیں جو مغرب سے ہماری طرف آئے ہیں۔ تم اپنا جان اور مال پیش کرو کوئی دوسرا بھی پیش کرے تو میری جدوجہد تمہاری جدوجہد سے مل جائے اور نیکی اور بھلائی میں تعاون کی شکل بن جائے۔ اور کلمۃ اللہ کو آگے پہنچاتے گئے۔ اِس ملک کو فتح کیا اُس ملک کو فتح کیا۔ پھر علماء نے ان کے نقش قدم پرچل کر ایک دنیا کو فتح کرلیا۔ پس علماء کرام نے علم کا جھنڈا لہرایا اور پورے عالم میں اسے نشر کیا۔ یہ اِس مسجد میں پڑھا رہا ہے اور وہ اُس مسجد میں پڑھا رہا ہے۔ اور ان سب کی جدوجہد باہم یکجا ہوجاتی ہیں۔ پس فلاں طالبعلم اور فلاں طالبعلم ایک ہی منہج کتاب وسنت پر پروان چڑھتے ہیں۔ لہذا اس کا نتیجہ، آثار اور ثمر ان جمعیات سے کئی گنا افضل ہوتا ہےجوکسی طالبعلم کو صحیح پروان چڑھانے تک سے عاجز ہیں علماء بنانا تو دور کی بات رہی۔
میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں شیخ مقبل رحمہ اللہ ان جمعیات اور ان کے اسلوب کا انکار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا ایک علمی مرکز بنایا اور طلبہ کو علم دیا۔ تو وہاں سے طلبہ سے بڑھ کر علماء تک پیدا ہوئے اور ہرکوئی اپنے اپنے وطن لوٹ گیا۔ اور وہا ں کسی مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ جس کی وجہ سےانہوں نے ایک نئی نسل کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروان چڑھائی۔ جبکہ دوسری طرف دنیا کے مشرق ومغرب میں پھیلی ان جمعیات کے بارے میں آپ مجھے بتائیں کتنے عالم انہوں نے پیدا کیے۔ کچھ نہیں! اور اس کمزور شخص نے کہ جس کے پاس نہ مال تھا نہ کچھ اپنے اخلاص اور محنت سے اللہ کی قسم! یہ سب کچھ کیا جس سے یہ جمعیات عاجزہیں (اسی طرح سے شیخ البانی رحمہ اللہ کی مثال بھی لی جاسکتی ہے)۔ بلکہ اس کے عشر عشیر تک کرنے سے عاجز ہیں کہ کسی عالم کو پیدا نہ کرسکیں۔ پھر ان پر حزبیت کا غلبہ ہوتا ہے اور اپنی جمعیت کی بنیاد پر الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کرتے ہیں۔، اور تفرقہ ہوتا ہے اور انہی کے سبب سے کئی مسلم ممالک میں سلفیوں کے درمیان پھوٹ پڑی ہے۔ میرے سامنے کسی بھی جمعیت کا نام پیش کریں سوائے جمعیت البر کے جو ابھی تک محفوظ ہے اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائے انہیں بھی ہم نصیحت کرتے ہیں کہ جمعیت والا مسلک چھوڑدیں جس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ ان جمعیات نے اسلام اور سلفی منہج کا صفایا کردیا ہے، اور سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ اور مسلمانوں کی جیبوں میں سے ان کا مال ہتھیا کر اپنی جیبیں بھر لی ہیں جسے وہ یہاں اور وہاں سلفیت کے خاتمے کے لیے استعمال کرتے ہیں چاہے یہ سوڈان میں ہو یا صومالیہ، اریٹیریا، پاکستان، ہندوستان یا افغانستان میں۔ یہ مال (فنڈز) کو جمع کرتے ہیں اور غایت درجے مکر سے کام لیتے ہوئے اسے سلفی منہج کے خاتمے کے لیے استعمال کرتےہیں۔ اور اس بات میں یہ ماہر ہیں۔ پھر کیسے یہ توقع کی جائے کہ یہ جمعیات سلف صالحین کےمنہج کی تعلیم دیں گی جبکہ یہ خود اس میں ناکام ہي