Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
📰 کیا قرآن مجید کو زمین پر رکھنا جائز ہے؟ – شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

Is it allowed to place Quran on floor? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
کیا قرآن مجید کو زمین پر رکھنا جائز ہے؟   
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ  المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: برنامج نور على الدرب شريط رقم 7. (مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 9/288).
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:قرآن کریم کو کچھ دیر کے لیے یا طویل مدت کے لیے زمین پر رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ او رکیا اسے زمین سے کم از کم ایک بالشت بلند جگہ پر رکھنا واجب ہے؟
جواب: اسے قدرے اونچی جگہ پر  رکھنا افضل ہے جیسے کرسی یا دیوار میں جو شیلف  یا ریک ہوتے ہیں یا اس جیسی دوسری چیزوں پر کہ جن کے ذریعے وہ زمین سے بلند ہوسکے۔ لیکن اگر کبھی ضرورت و حاجت کی وجہ سے  ناکہ توہین کی نیت سے پاک صاف زمین پر بقدر حاجت رکھ دیا جائے جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے آس پاس کوئی بلند جگہ نہ ہو یا سجدۂ تلاوت کرنا چاہتا ہو تو پھر کوئی حرج نہيں ان شاء اللہ۔ میرے علم میں ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اسے کسی کرسی یا تکیے یا اس جیسی چیزوں یا شیلف  یا ریک وغیرہ میں رکھنا زیادہ محتاط طریقہ ہے۔
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ جب آپ نے توارۃ کو مراجع کے لیے طلب کیا اس وقت جب  یہودی رجم کی حد کا انکار کررہے تھے،  چناچہ  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توراۃ کو طلب کیا اور ساتھ میں کوئی کرسی بھی منگوائی اور توراۃ کو اس پر رکھا۔ اور حکم دیا کہ توراۃ کا مراجع کیا جائے یہاں تک کہ وہ آیت مل گئی کہ جو رجم کی حد پر اور یہودیوں کے جھوٹ پر دلالت کرتی تھی۔
جب توراۃ کو کرسی پر رکھنا مشروع تھا اس وجہ سے کہ اس میں کلام اللہ میں سے بھی کچھ موجود تھا، پھر  تو قرآن مجید کو تو بالاولی ٰ کرسی پر رکھنا چاہیے کیونکہ وہ بلاشبہ توراۃ سے افضل ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بے شک قرآن مجید کو کسی اونچی جگہ پر جیسے کرسی یا اپنے لپٹے ہوئے گاؤن کپڑے وغیرہ کے اوپر رکھ لینا یا پھر دیوار میں لگے شیلف یا ریک میں  یا دیوار میں بنے کسی شگاف میں رکھنا اولیٰ ہے اور ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس میں قرآن کی رفعت و  تعظیم اور کلام اللہ کا احترام ہے۔ البتہ ہم کوئی دلیل نہيں جانتے کہ جو قرآن مجید کو پاک صاف زمین پر ضرورت کے وقت رکھنے سے منع کرتی ہو۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/کیا-قرآن-مجید-کو-زمین-پر-رکھنا-جائز-ہے؟/

11787
📰 مسجد میں موبائل استعمال کرنے کے بعض احکام – شیخ محمد بن صالح العثیمین

Few rulings regarding using mobile phones in Masjid – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
مسجد میں موبائل استعمال کرنے کے بعض احکام   
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ  المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: دروس و فتاوى في المسجد الحرام – المساجد۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:سائل پوچھتا ہے فضیلۃ الشیخ مسجد الحرام کے اندر سے کسی معتکف کا موبائل کے ذریعے رابطہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور اسی طرح سے اپنے موبائل کو چارج کرنے کے لیے کیا مسجد الحرام کی بجلی استعمال کی جاسکتی ہے؟
جواب: جہاں تک بات ہے حرم میں موبائل کے ذریعے بات کرنے کی تو اس میں کوئی حرج نہيں۔جیسا کہ حرم میں جو آپ کے ساتھ بیٹھا ہو اس کے ساتھ بات کرنا جائز ہے، کیونکہ  دراصل یہ بھی آپ کسی سے بات ہی کررہے ہيں لیکن موبائل کے ذریعے سے، لہذا یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ساتھ بیٹھے ہوئے سے بات کرنا۔ بشرطیکہ کہ موبائل کے آنے اور جانے والے سگنل اتنے کمزور نہ ہوں  کہ جن کی وجہ سے بہت بلند آواز میں بات کرنی پڑے جو لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرے۔چناچہ اگر آنے جانے والے سگنل مضبوط ہوں تو کوئی حرج نہيں کہ جو آپ سے موبائل پر بات کرنا چاہتا ہے اس سے ایسی بات کریں  جو تشویش کا سبب نہ بنے،  اس میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن موبائل فون میں ایک اور تشویش بھی ہوتی ہے  اور وہ اس موبائل فون کی رِنگ ٹون ہوتی ہے جو کہ گھنٹی (بیل) ہوتی ہے۔ لہذا ایک انسان کو چاہیے کہ وہ اس کی رِنگ ٹو  ن کیو آواز کو جس قدر کم کرسکتا ہے کرے، تاکہ لوگوں کی تشویش کا سبب نہ بنے۔
اسی طرح سے یہ بھی ٹھیک نہیں کہ موبائل کو لوگوں کے سامنے صف میں اسکرین کا منہ اوپر کی طرف کرکے رکھا جائے ۔ کیونکہ اگر وہ اس طرح سے رکھے گا تو کال آنے پر موبائل کی لائٹس آن ہوجائيں گے(اسکرین پر ڈسپلے ہونے لگے گا) اور آجکل لوگوں کا خشوع بہت کم ہوتا ہے تو آپ پائیں گے کہ جس کے سامنے یہ موبائل پڑا ہوگا کال آنے پر اس کی ساری توجہ ادھر چلے جائے گی اور وہ نماز سے غافل ہوجائے گا۔چناچہ اگر آپ کے پاس موبائل ہو تو آپ یا تو اسے اپنی جیب میں رکھیں اور اگر چاہیں تو اپنے سامنے رکھ لیں لیکن  اس کی اسکرین والا حصہ نیچے کی طرف کرکے ناکہ اوپر کی طرف۔
اب جہاں تک سوال ہے حرم کی بجلی کو موبائل چارجنگ کے لیے استعمال کرنا  تو یہ ایک بہت ہی بہترین اور اہم سوال ہے۔ لیکن اس کے مخاطب  حرم کے مسئولین ہونے چاہیے۔ حرم کے مسئولین سے پوچھیں کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں  کہ حرم کی بجلی سے میں موبائل چارجنگ کرسکتا ہوں یا نہيں؟ ا س کا جواب انہی کے پاس ہے۔
۔۔۔یہ عام طور پر بتایا گیا ہے کہ کوئی شخص  حرم میں موبائل پر بات کرسکتا ہے کہ نہيں۔ البتہ جو معتکف ہے تو اسے چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اللہ کی قرب دلانے والے اعمال، اطاعت و  عبادات میں مصروف رہے، زیادہ باتیں نہ کرے  نہ موبائل پر نہ موبائل کے علاوہ۔
سائل: اثابکم اللہ۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/مسجد-میں-موبائل-استعمال-کرنے-کے-بعض-احک/

11790
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
[Urdu Article]
مسجد میں موبائل استعمال کرنے کے بعض احکام
Few rulings regarding using mobile phones in Masjid

شیخ محمد بن صالح العثیمین

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/11/masjid_mobile_ahkam.pdf

#Salafi #Urdu #Dawah #Pakistan #India #Kashmir #masjid #mobile

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1067379837235589122
📰 اللہ تعالی کے لیے جمع کے صیغے کا استعمال – مختلف علماء کرام

Using the plural pronuns for Allaah – Various 'Ulamaa
اللہ تعالی کے لیے جمع کے صیغے کا استعمال   
مختلف علماء کرام
ترجمہ، جمع و ترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بعض لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کے لیے جمع کا صیغہ استعمال نہیں ہوسکتا  کیونکہ اس سے تعدد لازم آتا ہے یعنی ایک سے زیادہ ذات۔ حالانکہ عربی لغت میں جمع کا صیغہ صرف تعدد کے لیے نہیں بلکہ عظمت والی ذات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جس کی کئی مثالیں عرب جاہلیت کے اشعار میں بھی ملتی ہے اور خود قرآن کریم میں بھی جو اس عربی فصیح وواضح زبان میں نازل ہوا جو  لوگ استعمال کرتے تھے، جیسے اللہ تعالی اپنے متعلق فرماتا ہے:
﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر: 9)
(بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں)
یا فرمایا:
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ﴾ (ق: 16)
(اور بلا شبہ یقیناً ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے)
اور اس کے علاوہ بھی کئی ساری آیات  ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ بھی اپنے کلام میں اس شبہہ کا جواب دیتے ہیں:
ان (نصاریٰ) کے شبہات میں سے (ان کے مطابق ان کی  کتاب میں) یوں فرمانا بھی تھا کہ:
’’ منا“([1])
(ہم میں سے)۔
کیونکہ اس کی تعبیر جمع کے صیغے سے کی گئی ہے۔ اسی طرح سے اگر ان کی مراد اس قول سے کہ:
’’نخلق بشرا على صورتنا وشبهنا“
(ہم بناتے ہیں ایک بشر ہماری اپنی صورت اور شبہات پر)۔
تو یہاں یہ جمع کے صیغے کو تثلیث کے لیے دلیل بناتے ہیں۔
یہ ان باتوں میں سے تھا جن کے ذریعے نجران کے نصاریٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر حجت پکڑنا چاہی تھی کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿اِنَّا﴾ اور ﴿نَحْنُ﴾
یعنی ’’ہم “ جمع کا صیغہ۔
انہوں نے کہا کہ:
یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ تین تھے۔ حالانکہ یہ ان متشابہہ میں سے ہے کہ جن کی وہ پیروی کرتے ہیں فتنہ مچانے اور باطل تاویل کی غرض سے، جبکہ ان واضح و محکم  آیات کو چھوڑ دیتے ہيں کہ جن میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال نہیں ہوتا۔ کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی نے تمام کتب الہیہ میں  واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ وہ اکیلا معبود حقیقی ہے، اور یہ کہ بے شک اس کا کوئی شریک نہيں نہ ہی کوئی اس کی مثل ہے۔
اور اللہ کا یہ فرمانا:
﴿اِنَّا﴾ اور ﴿نَحْنُ﴾
ایسے  الفاظ تمام زبانوں میں نہ صرف ایسی ذات کےلیے آتے ہيں  کہ جس کے شریک اور مثل ہوں،بلکہ  ساتھ ہی ایسی ذات کے لیے بھی آتے ہیں جو ایسی واحد و اکیلی ہو کہ اس عظیم ذات کی اطاعت   کی جاتی ہو اور اس کے تابع دار موجود ہوں جو اس کے حکم کی بجاآوری کرتے ہوں، اگرچہ وہ اس کے شریک یا نظیر نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالی اپنے سوا ہر چیز کا خالق ہے، لہذا ناممکن ہے کہ اس کا کوئی شریک و مثل ہو۔ البتہ فرشتے اور ساری کائنات اس کا لشکر ہیں۔
﴿وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ﴾ (المدثر: 31)
(اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا)
اور فرمایا:
﴿وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا﴾  (الفتح: 7)
(اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں اور اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے)
اگر بادشاہوں میں سے کوئی ایک کہے:  إنا اور   نحن (ہم) تو  اس سے اس کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ ہم تین بادشاہ ہیں۔ پس جو مالک الملک رب العالمین ہے ہر چیز کا رب اور بادشاہ ہے وہ تو سب سے بڑھ کر حقدار ہے کہ وہ کہے: ﴿اِنَّا﴾ اور ﴿نَحْنُ﴾ باوجودیکہ اس کا کوئی شریک و مثیل نہیں بلکہ اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں([2])۔
چناچہ اس سے نصاریٰ  کے شبہے کا بھی رد ہوتا ہے جو تثلیث کے قائل ہیں اور کہتے ہيں قرآن میں اللہ تعالی نے اپنے لیے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے اور عربی میں کم از کم جمع تین افراد کی ہوتی ہے، حالانکہ یہ استدلال باطل ہے کیونکہ عربی زبان میں جمع کا صیغہ تعداد کے لیے استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ تعظیم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
لہذایہ  ادب میں سے ہے کہ اپنے سے بڑے کو مخاطب کرتے ہوئے آپ جناب وغیرہ بولا جاتا ہے جیسے عربی میں كيف حالك (تمہارا کیا حال ہے) کی  جگہ حالكم (آپ کا کیا حال ہے) اور أنت (تم) کی جگہ أنتم (آپ)  وغیرہ استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن اللہ تعالی کو پکارتے وقت اور دعاء کے وقت کیا ہم اسی طرح سے کرسکتے ہيں جیسے:
”اغفروا لي يا رب“،”ارحموني يا رحمن“،”ارزقوني يا رب“
علامہ محمد تقی الدین الہلالی مراکشی  رحمہ اللہ  اپنی کتاب ” سبيل الرشاد في هدي خير العباد“   میں  نجران کے نصاریٰ کا جو وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے آیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ان کے شبہات کا رد فرمایا تھا، اور یہ کہ ان کا عقیدہ عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام  خود اللہ ہیں یا تین میں سے ایک خدا ہیں  کو باطل قرار دیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے مباہلے کا مطالبہ بھی فرمایا تھا۔۔۔ اور آخر تک جو قصہ ہے۔ اس کے بعد آپ  رحمہ اللہ  فرماتے  ہیں:
پانچواں فائدہ:
نجران کے وفد نے اپنے تثلیث (تین خداؤں) کے عقیدے کے بارے میں یہ حجت پکڑی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
” فعلنا“(ہم نے کیا)” أمرنا “(ہم نے حکم دیا)” خلقنا “(ہم نے پیدا کیا)” قضينا“(ہم نے فیصلہ کیا) ۔
یعنی جمع کے صیغے استعمال فرماتا ہے۔ حالانکہ یہ ان کی عربی لغت سے جہالت کی دلیل ہے یا وہ تجاہل عارفانہ برتتے ہیں(یعنی جان بوجھ کر انجان بنتے  ہیں) ۔ کیونکہ ” فعلنا“ اور ” نفعل“ میں ضمیر محض اس پر منحصر نہیں کہ ایک مخاطب ہو اور اس کے ساتھ اور بھی ہوں، بلکہ ایک عظمت والی ذات بھی اپنے لیے اسے استعمال کرتی ہے۔
اللہ تعالی عظیم ہے اور اپنی عظمت بیان کرتا ہے اور اس کی مخلوق میں سے جو صالحین ہیں وہ بھی اس کی تعظیم بیان کرتے ہیں۔ ہاں یہ ہے کہ وہ اسے جمع کے صیغے سے مخاطب نہیں کرتے توحید کے پہلو کی وجہ سے۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے۔

 


[1] ها آدم قد صار كواحد منا۔


[2] الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح – ج 3 ص 447-448۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/اللہ-تعالی-کے-لیے-جمع-کے-صیغے-کا-استعمال/

11793
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
[Urdu Article]
اللہ تعالی کے لیے جمع کے صیغے کا استعمال
Using the plural pronuns for Allaah
مختلف علماء کرام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/11/Allaah_jama_segha_istemal.pdf

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1067741141796298752
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
[Urdu Article]
اللہ تعالی کے لیے جمع کے صیغے کا استعمال
Using the plural pronouns for Allaah
مختلف علماء کرام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/11/Allaah_jama_segha_istemal.pdf

#Salafi #Urdu #Dawah #Pakistan #India #Kashmir #Allah

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1067742407708614656
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
بدعت کی تعریف، تبدیع کا حکم، اہل بدعت سے سلوک اور بدعت کی انواع – شیخ صالح الفوزان
[Urdu Article] Definition of Bida'ah, declaring someone an Innovator, dealing with them and the types of Bida'ah – Shaykh Saaleh Al-Fawzaan

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/03/bidat_tareef_tabdee_sulook_bidati_aqsaam.pdf

#Salafi #Urdu #Dawah #Pakistan

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1068053199507075073
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
کسی شخص کو کب اہل بدعت میں سے شمار کیا جائے گا؟

فضیلۃ الشیخ عبید الجابری

[Urdu Article] When is a person counted among people of innovation? – Shaykh Ubaid Al-Jabiree

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/09/kisi_shakhs_ko_kab_bidati_gina_jaye_ga.pdf

#Salafi #Urdu #Dawah #Pakistan #India #Kashmir #bidah #bidat #bidati

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1068116950231015424
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی کتاب "مرحباً ياطالب العلم" کا ہفتہ وار درس ہر ہفتے صبح 11 بجے پاکستان وقت کے مطابق۔
http://mixlr.com/tawheedekhaalis
سے براہ راست نشر ہوگا۔ ان شاء اللہ

#Salafi #Urdu #Dawah #Pakistan #India #Kashmir #ilm #aalim #student https://t.co/5GNXnbtrBF

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1068474991996559360
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
ہفتہ وار درس: شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے رسالے "نواقض الاسلام" کی شرح از شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کا اردو ترجمہ ہر اتوار شام 4 بجے (پاکستان وقت کے مطابق) http://mixlr.com/tawheedekhaalis پر براہ راست سنیں۔
#Salafi #Urdu #Dawah #Pakistan #India #Kashmir #Islam https://t.co/Ti77NUShHa

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1069143130497269760
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
Magnificent trip to @MasjidSalafSind. May Allah grow them in strength. https://t.co/56oLBo7yQG

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1069631909288923138
📰 بلند آواز میں اجتماعی درود کی مجالس بدعت ہیں – شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

Sending Salat upon Rasoolullaah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم out loud in unison is a Bid'ah – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
بلند آواز میں اجتماعی درود کی مجالس بدعت ہیں   
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ  المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: حكم الاجتماع للصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بصوت مرتفع۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:طائف سے ایک مستمع نے یہ خط بھیجا ہے جس میں کچھ سوالات ہیں، کہتا ہے: میں اللہ کے دین میں آپ کا بھائی صالح الحاج جسار الریمی الیمانی ہوں، ہمارا یہ بھائی اپنے ایک سوال میں پوچھتا ہے: ہمارے یہاں کچھ ایسی عادات و تقالید ہيں جو ہماری روشن اسلامی شریعت  کے مخالف ہيں، انہی عادات میں سے بعض یہ ہیں:
لوگ جمعہ کے روز نماز جمعہ سے پہلے جمع ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بآواز بلند اور اجتماعی طور پر درود پڑھتےہیں ۔ پھر یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فریادیں کرتے ہيں  اور صالحین اولیاء اللہ سے بھی ان الفاظ کے ساتھ کہ: یا رسول اللہ! اللہ کے لیے ہمیں عطاء کیجئے، اے صالحین اولیاء اللہ!  اللہ کے لیے ہمیں عطاء کیجئے، اے اللہ کے مومنین بندوں! ہمیں عطاء کیجئ، ! ہماری فریاد رسی اور امداد کریں۔۔۔اور اس جیسے دوسرے الفاظ۔ ہم اس بارے آپ سے رہنمائی چاہتے ہیں؟ جزاکم اللہ خیراً
جواب: جہاں تک سوال ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اجتماعی طور پربآواز بلند درود پڑھنے کا تو یہ بدعت ہے۔ مسلمانوں کے لیے جو چیز مشروع ہے وہ یہ ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود  بھیجا کریں لیکن عجیب طرح سے آوازیں بلند کرکے نہيں اور نہ ہی اجتماعی طور پر۔ بس ہر کوئی اپنے اپنے طور پر درود پڑھے اور کہے:
اللهم صل على رسول الله، اللهم صل وسلم على رسول الله، اللهم صل على محمد وعلى آل محمد اور آخر تک جو درود پڑھے جاتے ہیں۔لیکن اسے اپنے تک رکھے۔۔۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/بلند-آواز-میں-اجتماعی-درود-کی-مجالس-بدع/

11807