Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.17K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾
تو اس کا مطلب یہ نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پاس آیا جائے۔بلکہ اس سے مرادہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ کے پاس آیا جائے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا۔ اسے میں نے اپنے رسالے ’’أهمية توحيد العبادة‘‘  ص 69 میں واضح کیا ہے اپنے اس قول سے کہ:
’’قبر والوں کی زیارت کی جائے اور ان کے لیے دعاء کی جائے ناکہ ان سے دعاء کی جائے۔ اور اللہ تعالی سے ان کے لیے طلب کیا جائے ناکہ خود ان سے کوئی چیز طلب کی جائے، نہ دعاء، نہ شفاعت، نہ نفع کو طلب کرنے یا ضرر کو دور کرنے کامطالبہ کیا جائے۔کیونکہ یہ تو صرف اور صرف اللہ تعالی سے طلب کیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالی اکیلا ہے کہ جس سے دعاء کی جائے اور امیدیں رکھی جائیں، جبکہ اس کے علاوہ جو ہیں ان کے لیے دعاء کی جائے ناکہ ان سے دعاء کی جائے۔ اس کی دلیل یہ ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ آپ سےآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں طلب کرتے کہ وہ ان کے لیے دعاء فرمائيں، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برزخی زندگی میں کبھی ایسا نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی طرف گئے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعاء کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں  قحط سالی ہوئی تھی تو انہوں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو بارش طلب کرنے کی دعاء کے لیے درخواست فرمائی۔ چناچہ امام البخاری نے اپنی صحیح 1010 میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت فرمائی کہ وہ کہتے ہيں کہ :
’’‌‌‌‌‌‏أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، ‌‌‌‌‌‏وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ فَيُسْقَوْنَ‘‘
(جب کبھی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو آپ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے بارش طلبی کی درخواست کرتے اور فرماتے کہ : اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : چنانچہ پھر خوب بارش دیے جاتے)۔
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی وفات کے بعد دعاء کی درخواست کرنا روا ہوتا تو کبھی بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے چھوڑ کر سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔
(كتاب الإيضاح والتبيين في حكم الاستغاثة بالأموات والغائبين ص 33-34)

 


[1] مجموع الفتاوی 1/159۔
 


[2] فتحُ البيان في مقاصد القرآن 3/166۔
 


[3] صحیح بخاری 5666۔
 


[4] صحیح مسلم 2279۔
 ‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/کیا-نبی-صلی-اللہ-علیہ-وآلہ-وسلم-سے-بخشش/

10627
📰 Intellect is a limited thing – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee

‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/intellect-is-a-limited-thing-shaykh-muhammad-naasir-ud-deen-al-albaanee/

1291