Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
[Urdu Article]
کیا’’طہ‘‘ اور ’’یس‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموں میں سے ہیں؟

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/kiya_taha_yaseen_nabi_k_naam_hain.pdf

#Salafi #Urdu #Dawah #Pakistan #India #Kashmir #Muhammad #PBUH

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1063828462362861568
📰 کیا طہ اور یس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ہیں؟ – شیخ محمد بن صالح العثیمین

Are “Taha” and “Yaseen” from among the names of the prophet (SalAllaho alayhi wasallam)? – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
کیا’’طہ‘‘ اور ’’یس‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموں میں سے ہیں؟   
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نظم الورقات
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
کیا ’’طہ‘‘ اسماءِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہے؟
نظم الورقات جو اصول فقہ پر ایک نظم ہے کی شرح (ص 141-142) میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ایک شعر :
أفعال طه صاحب الشريعة  جميعها مرضية بديعة
کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ہمیں یہاں مؤلف (امام جوینی) رحمہ اللہ سے مناقشہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انہوں نے ’’طہ‘‘  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء میں سے شمار کیا ہے۔ حالانکہ یہ نظر واثر دونوں کے اعتبار سے صحیح نہیں۔
’’طہ ‘‘  کا اسمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا احادیث سے ثابت نہیں
جہاں تک اثر (حدیث) کے اعتبار سے عدم صحت کا تعلق ہے تو اس بارے میں کبھی بھی کوئی حدیث نقل نہیں ہوئی نہ صحیح اور نہ ہی ضعیف کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموں میں سے طہ بھی ہے۔
’’طہ ‘‘  کا اسمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا نظری طور پر بھی صحیح نہیں
اس کا اسمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہونا نظر کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں کیونکہ:
1- ’’طہ‘‘ مرکب ہے محض دو مہمل حروفِ تہجی کا’’ط‘‘ اور ’’ہ‘‘، اور یہ بات معلوم ہے کہ حروف ِتہجی کا بذات خود کوئی معنی نہیں ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام (ثابت شدہ) ناموں کا کوئی نہ کوئی اچھا معنی ضرور ہوتا ہے۔
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام محض عَلَم نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تو تمام نام اعلام ہونے کے ساتھ ساتھ القاب بھی ہیں([1])۔ جبکہ ہم لوگوں کے نام تو مجرد عَلَم ہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کے نام عبداللہ رکھ تو لیتے ہیں خواہ وہ اللہ تعالی کا نافرمان ترین بندہ ہی کیوں نہ ہو! اسی وجہ سے یہ نام مجرد عَلَم بن کر رہ گیا گویا کہ پہاڑ کی چوٹی پر کوئی پتھر پڑا ہے جس کا کام محض راستے کی نشاندہی کرنا ہے اور کچھ نہیں۔
3- لیکن جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام ہیں وہ تمام کے تمام اعلام و(حقیقی) اوصاف ہیں اسی طرح سے اللہ تعالی اور قرآن کریم کے جتنے بھی اسماء ہیں وہ سب اعلام واوصاف ہیں۔
پس اس کلمہ ’’طہ‘‘  میں آپ کو کوئی وصف نظر نہیں آئے گا۔ چناچہ نظری اعتبار سے بھی ’’طہ‘‘  کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء میں سے نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔
قرآن مجید سے ’’طہ‘‘ و ’’یس‘‘  وغیرہ ناموں کے استدلال کی حقیقت
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ : آپ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ حالانکہ خود اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ طٰهٰ، مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓي﴾ (طہ: 1-2)
(طہ، ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں)
تو اس میں طہ کو پکار کر کہا گیا ہے کہ آپ پر قرآن اس لئے نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں جو کہ ظاہر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی خطاب ہے۔
ہم اس کا یہ جواب دیں گے کہ اگر یہی دلیل ہے تو پھر آپ کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ’’المص‘‘ بھی رکھ لیں! کیونکہ اللہ تعالی نے یہ بھی تو فرمایا ہے:
﴿ المّص، كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ…﴾ (الاعراف: 1-2)
(المص، یہ ایک کتاب ہے جو آپ  کی طرف نازل کی گئی ہے سو آپ کے سینے میں اس سے کوئی تنگی نہ ہو)
کیا کبھی کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’المص‘‘  کا نام سے موسوم کیا ہے؟
اسی طرح کبھی کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’الر‘‘  کہا ہے اسے دلیل بناتے ہوئے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ الرٰ،  كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ…﴾ (ابراہیم: 1)
(الر،  یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائیں)
پس کیاہم اس نام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موسوم کریں گے؟ جواب ہے ہرگز نہیں، چناچہ ان کا یہ قاعدہ یا دلیل تو ٹوٹ گئی۔
حاصل ِمناقشہ
الغرض یہ ثابت ہوا کہ ’’طہ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموں میں سے نہیں ہے، اور اثر ونظر دونوں اعتبار سے اس کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہونا صحیح نہیں([2])۔

 


[1] عَلَم کا معنی نشانی کے ہیں، عربی میں کسی کا نام بطور علم استعمال ہونے کا مطلب ہے کہ محض وہ اس کا نام ہے اس کے مطلب میں جو معنی پایا جاتا ہے اس سے اس کا کوئی تعلق ہویا نہ ہوجبکہ القاب واوصاف
واقعی کسی شخص میں پائے جاتے ہیں تو وہ نام برمبنی حقیقت ہوتا ہے۔ جیسے کسی کا نام صالح ہو حالانکہ وہ غیرصالح وبرا انسان ہو تو اس صورت میں صالح بس اس کی پہچان کے لئے ایک نام  عَلَم ہے نا یہ کہ واقعی وہ شخص نیک وصالح ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یا اللہ تعالی وقرآن کریم کے جتنے اسماء ہیں وہ واقعی ایسے عظیم اوصاف ہیں کہ جو ان میں پائے جاتے ہیں ناکہ محض عَلَم ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
 


[2] اور یہی حکم ’’یس‘‘  کا بھی ہے۔ واللہ اعلم (توحید خالص ڈاٹ کام)
 ‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/are-taha-and-yaseen-from-among-the-names-of-the-prophet-salallaho-alaihi-wasallam-shaykh-muhammad-bin-saaleh-al-uthaimeen/

11759
📰 نبئ اسلام پر درود وسلام – امام ابن کثیر

 
Sending Salat upon the prophet of Islaam – Imaam ibn Katheer
نبئ اسلام پر درود وسلام   
ابو الفداء عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر  رحمہ اللہ المتوفی سن 774ھ
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تفسير القرآن العظيم، ابن كثير 3/663۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فرمان باری تعالی ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ ۭ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا﴾ (الاحزاب: 56)
(بےشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر صلوٰۃ بھیجو اور خوب سلام بھیجو)
امام ابو الفداء عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر   رحمہ اللہ المتوفی سن 774ھ فرماتے ہیں:
اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنے بندے ونبی کے اس مقام ومرتبے کی خبر دی جو اس کے پاس ملأاعلیٰ میں ان کا ہے۔ وہ یہ کہ بلاشبہ وہ سبحانہ وتعالی مقربین فرشتوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف بیان فرماتا ہے۔ اور فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ پھر اللہ تعالی نے اہل عالم سفلی (زمین والوں) کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا تاکہ  دونوں عالم یعنی علوی (فرشتے) اور سفلی کی تعریف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جمع ہوجائيں۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/نبئ-اسلام-پر-درود-وسلام-امام-ابن-کثیر/

11762
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
[Urdu Article]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام اور ان کے علاوہ مومنین پردرود بھیجنا کیسا ہے؟

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/anbiyah_momineen_durood.pdf

#Salafi #Urdu #Dawah #Pakistan #India #Kashmir #Muhammad #PBUH

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1064198678401953794
tawheedekhaalis.com (@tawheedekhaalis):
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خصوصی کھانا اور کھلانا حرام ہے

#Salafi #Urdu #Dawah #Pakistan #India #Kashmir #miladunnabi #MiladMuhammadiyah #mawlid #Mawlid2018 #MawlidUnNabi https://t.co/R1nGvn9OUK

https://twitter.com/tawheedekhaalis/status/1064497520531963909
📰 س

The reality of the famous Nasheed "Tala'a-al-Badru Alayna" – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
نشید ’’طلع البـدر علينا‘‘  کی حقیقت   
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: یوٹیوب پر موجود ویڈیو کلپ سے ماخوذ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: کیا یہ بات صحیح ہےکہ اہل مدینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال اس نشید کے ساتھ کیا تھا ’’طلع البدر علينا‘‘، کیونکہ بعض ایسے لوگ ہیں جو اناشید کے جائز ہونے پر اس سے استدلال کرتے ہیں؟
جواب: یہ قصہ ثابت نہیں ہے، ساتھ ہی اس میں ایسی باتیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں، کیونکہ اس میں ہے کہ ’’طلع البدر علينا من ثنيات الوداع‘‘!
حالانکہ یہ جگہ ’’ثنيات الوداع‘‘  مکہ کے راستے میں نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنوبی راستے سے مدینہ تشریف لائے تھے ناکہ شمالی راستے سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر  ثنيات الوداع سے ہوتا۔
ثنيات الوداع مدینہ کے شمال میں ہے، تو یہ منطبق ہی نہیں ہوتا!!
 ‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/س/

11766
📰 شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھ شفاعتیں – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

The 6 intercessions of the prophet صلى الله عليه وسلم – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھ شفاعتیں   
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص فى شرح كتاب التوحيد ص 151۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھ شفاعتیں ہيں:
1- شفاعت ِکبریٰ  جو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، جو میدان محشر میں لوگوں کے لیے ہوگی تاکہ اللہ تعالی ان کے مابین فیصلہ فرمائے، اور اس میدان محشر کی ہولناکی سے راحت ملے۔
2- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل جنت کے لیے شفاعت تاکہ وہ اس میں داخل ہوں۔
3- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان گنہگارو ں کے لیے شفاعت کہ جن کے گناہ جہنم میں داخل ہونے کے موجب ہوں گے، تاکہ وہ اس میں داخل نہ ہوں۔
4- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ایسے گنہگاروں کے لیے جو جہنم میں داخل ہوچکے ہوں گے کہ انہیں وہاں سے نکالا جائے۔
5- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت اہل جنت کے لیے تاکہ ان کے ثواب اور درجات میں اضافہ کیا جائے۔
6- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت اپنے چچا ابو طالب کے لیے کہ ان کے جہنم کے عذاب میں کچھ تخفیف کی جائے۔‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/شفیع-المذنبین-صلی-اللہ-علیہ-وآلہ-وسلم-ک/

11770
📰 کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بخشش کی دعاء طلب کی جائے؟ – مختلف علماء کرام

Requesting forgiveness from the prophet? – Various 'Ulamaa
کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بخشش کی دعاء طلب کی جائے؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: میراث الانبیاء ڈاٹ نیٹ


بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس آیت کے متعلق جو کچھ کہا گیا:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾ (النساء: 64)
(اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، آپ کے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے بخشش مانگتے تو وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بعض نے اللہ تعالی کے اس فرمان:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾ (النساء: 64)
کے متعلق کہا کہ اگر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی وفات کے بعد بھی طلب کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے استغفار کریں تو ہم اسی درجے میں ہوں گے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طلب کرتے تھے۔ حالانکہ اس طرح سے وہ  صحابہ کرام اور بطور احسن ان کی اتباع کرنے والوں اور تمام مسلمانوں کے اجماع کے خلاف جاتے ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی طلب نہيں کیا کہ وہ ان کے لیے شفاعت کریں اور نہ ہی کبھی کوئی چیز ان سے طلب کی۔نہ ہی آئمہ مسلمین میں سے کسی نے اسے اپنی کتب میں بیان کیا‘‘([1])۔
اور علامہ ابو الطیب محمد صدیق خان بن حسن بن علی ابن لطف اللہ الحسینی البخاری  القِنَّوجي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ آیت جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے پر دلالت کرتی ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے ساتھ خاص تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کا  یہ مطلب نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر منور کے پاس اس غرض سے آیا جائے۔  اسی لیے اس بعید کے احتمال کی طرف اس امت کے سلف اور آئمہ میں سے کوئی بھی نہيں گیا نہ صحابہ نہ تابعین اور نہ جنہوں نے بطور احسن ان کی اتباع کی([2])۔
3- شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾
یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے جسے اس کا ماقبل ومابعد بھی ظاہر کرتاہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے ساتھ خاص تھا۔ یہ بات صحیح البخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے جب فرمایا کہ ہائے میرا سر! :
’’ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ‘‘([3])
(اگر تو میرے جیتے جی فوت ہوگئی تو میں تمہارے لیے بخشش طلب کروں گا اور دعاء کروں گا )۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات کے بعد بھی کسی کے لیے بخشش طلب کرتے تو پھر اس میں بات سے کوئی فرق نہيں پڑتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے پہلے فوت ہوں یا بعد میں۔اور بعض اہل بدعت تو اس سے بھی بڑھ کر گمان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک قبر سے نکالا اور ان کے کسی پیروکار سے مصافحہ فرمایا! اس بات کے بطلان کو  یہی کافی ہےکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا جبکہ وہ اس امت کے سب سے افضل ترین لوگ تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
’’أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ‘‘([4])
(میں بروز قیامت تمام اولاد آدم کا سید وسردار ہوں، اور وہ سب سے پہلا شخص ہوں جس کی قبر شق ہوگی، اور سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں ، اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی)۔
اور یہ قبر کا پھٹنا مرکر جی اٹھنے کے وقت ہی ہوگا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ﴾ (المؤمنون: 16)
(پھر بےشک تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے)۔
(بطلان قصتي الأعرابي والعتبي عند قبر سيد المرسلين، عبد الرحمن العميسان ص 175-176)
اسی طرح شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
جہاں تک اللہ تعالی کے اس فرمان کا تعلق ہے :
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ
فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾
تو اس کا مطلب یہ نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پاس آیا جائے۔بلکہ اس سے مرادہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ کے پاس آیا جائے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا۔ اسے میں نے اپنے رسالے ’’أهمية توحيد العبادة‘‘  ص 69 میں واضح کیا ہے اپنے اس قول سے کہ:
’’قبر والوں کی زیارت کی جائے اور ان کے لیے دعاء کی جائے ناکہ ان سے دعاء کی جائے۔ اور اللہ تعالی سے ان کے لیے طلب کیا جائے ناکہ خود ان سے کوئی چیز طلب کی جائے، نہ دعاء، نہ شفاعت، نہ نفع کو طلب کرنے یا ضرر کو دور کرنے کامطالبہ کیا جائے۔کیونکہ یہ تو صرف اور صرف اللہ تعالی سے طلب کیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالی اکیلا ہے کہ جس سے دعاء کی جائے اور امیدیں رکھی جائیں، جبکہ اس کے علاوہ جو ہیں ان کے لیے دعاء کی جائے ناکہ ان سے دعاء کی جائے۔ اس کی دلیل یہ ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ آپ سےآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں طلب کرتے کہ وہ ان کے لیے دعاء فرمائيں، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برزخی زندگی میں کبھی ایسا نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی طرف گئے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعاء کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں  قحط سالی ہوئی تھی تو انہوں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو بارش طلب کرنے کی دعاء کے لیے درخواست فرمائی۔ چناچہ امام البخاری نے اپنی صحیح 1010 میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت فرمائی کہ وہ کہتے ہيں کہ :
’’‌‌‌‌‌‏أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، ‌‌‌‌‌‏وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ فَيُسْقَوْنَ‘‘
(جب کبھی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو آپ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے بارش طلبی کی درخواست کرتے اور فرماتے کہ : اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : چنانچہ پھر خوب بارش دیے جاتے)۔
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی وفات کے بعد دعاء کی درخواست کرنا روا ہوتا تو کبھی بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے چھوڑ کر سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔
(كتاب الإيضاح والتبيين في حكم الاستغاثة بالأموات والغائبين ص 33-34)

 


[1] مجموع الفتاوی 1/159۔
 


[2] فتحُ البيان في مقاصد القرآن 3/166۔
 


[3] صحیح بخاری 5666۔
 


[4] صحیح مسلم 2279۔
 ‌.

🔗 http://tawheedekhaalis.com/کیا-نبی-صلی-اللہ-علیہ-وآلہ-وسلم-سے-بخشش/

10627