[Urdu Article] Refutation of misleading Fatawaa of #Ahmad_bin_Qasim_Al_Ghamadee - Various 'Ulamaa
#احمد_بن_قاسم_الغامدی کے گمراہ کن فتاویٰ کا رد
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/ahmad_bin_qasim_ghamadi_fatawaa_gumrahkun.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:عبداللہ کہتے ہیں کہ سماحۃ الشیخ: بعض بہنیں ملتی ہيں جو اپنے چہرے کا پردہ نہیں کرتیں اور استدلال کرتی ہیں کہ یہ بات شافعی اور حنفی مذہب میں موجود ہے؟
جواب از مفتئ اعظم سعودی عرب، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ:
میری بہنوں اور بھائیوں میں اللہ تعالی سے اپنے اور آپ کے لیے توفیق اور راست بازی کی دعاء کرتا ہوں۔میرے بھائیوں حجاب ایک اسلامی اخلاق ہے جس پر امہات المؤمنین اور عہد نبوی کی صحابیات رضی اللہ عنہن عمل کرتی رہيں، اور خلفائےراشدین کے دور میں بھی اور اس کے بعد سے لے کر آج تک، یہاں تک کہ گھٹیا مغربی ثقافت نے یلغار شروع کردی۔ ورنہ تو تمام مسلمانوں کی خواتین حجاب کرتی رہی ہيں اور اس حجاب کو وہ ایک ضروری عمل اور اسلامی اخلاق میں سے سمجھتی ہيں۔ جو یہ دعویٰ کرتے ہيں کہ حجاب کی کوئی اصل نہيں ، اس کے خلاف لڑتے ہيں، اس کی مذمت کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہيں یہ لوگ ہدایت پر نہيں ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے ثابت قدمی کی دعاء کرتے ہيں۔
آجکل بعض چینلز پر ایسے لوگ نمودار ہوئے ہیں جو یہ تک کہتے ہیں کہ باجماعت مسجد میں نماز پڑھنے کی کوئی اہمیت نہیں نہ قدر ومنزلت ہے، بس اپنے گھروں پر نماز پڑھو([1])۔ وہ باجماعت نماز اور گھر کی نماز کو برابر قرار دیتے ہيں۔ اپنے اس قول میں وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہيں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں باجماعت نماز گھر پر انفرادی پڑھی گئی نماز سے پچیس گنا افضل ہے۔ لیکن یہ کہتے ہيں نہیں! اپنے گھر پر نماز پڑھو، یا جہاں چاہے پڑھو دونوں میں فرق نہیں۔ بلکہ بعض تو یہ کہتے ہیں نماز باجماعت کا حکم کرنا لوگوں کی شخصی زندگی میں مداخلت ہے۔ اور بعض یوم عرفہ کی تعلق سے یہ غلط باتیں پھیلاتے ہیں کہ غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی کوئی فضیلت نہیں، نہ ہی ا س کی کوئی اصل ہے اور نہ ہی یہ ہے وہ ہے۔۔۔اور مختلف (شاذ ومنفرد ) آراء کو نشر کرتے ہيں کہ ہم ان کے اور لوگوں کے مابین آڑ نہیں رکھنا چاہتے (یعنی انہیں تمام مسائل سے نکلنے کے حیلے اور جواز کا علم ہو!)۔ یہ سب باتیں خیر سے روکنے والی ہیں۔
حالانکہ اس منہج (نماز باجماعت و حجاب وغیرہ) پر سلف صالحین اور آئمہ ہدایت چلتے آئے ہیں۔تمام چینلز کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈریں ، میں چینلز والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں اور معاشرے کے سامنے وہ چیز پیش نہ کریں جو ان کے دین، اخلاق اور تہذیب کو بگاڑ دیں۔ صرف اس چیز کو نشر کریں جس کا علم ہو، جس کے خیر اور دین کی نصرت ہونے کے بارے میں یقین ہو۔ جبکہ ایسے لوگوں کو علم کی میز پر بٹھا دیا جائے اور وہ اصول اسلام پر بھی قدح کرنے اور واجبات اسلام پر نقب زنی کرنے لگیں اور اسلام کے جو فضائل وامتیازات ہیں ان کی تنقیص شان کریں اور حقیر باور کروائيں، تو یہ سب غلط ہے۔ لہذا میں چینلز کے مالکان کو خبردار کرتا ہوں کہ کہیں وہ باطل کے داعیان نہ بن جائیں۔
یہ چینلز تو فقط لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہونے چاہیے۔ جبکہ حال یہ ہو کہ ہر روز کوئی چینل آرہا ہے اور اسے چلانے والے ایسے لوگ ہوں کہ جو اللہ تعالی سے نہيں ڈرتے اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے([2])۔
پس میں بھائیوں سے چاہتا ہوں کہ اس پر متنبہ ہوں اور اللہ تعالی دیکھ رہا ہے اس کا خیال کریں، اور اس فرمان باری تعالی کو یاد کریں کہ:
﴿لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ﴾
(النحل: 25)
(تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائیں اور کچھ ان کے بوجھ میں سے بھی جنہیں وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے رہے۔ سن لو ! برا ہے وہ بوجھ جو وہ اٹھا رہے ہیں)
اور حدیث میں بھی ہے کہ جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے اس کا گناہ ہوگا اور اس کی پیروی کرنے والو ں کا گناہ بھی اسے ملے گا، جبکہ ان کے گناہوں میں سے کچھ کم نہيں کیا جائے گا۔
#احمد_بن_قاسم_الغامدی کے گمراہ کن فتاویٰ کا رد
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/ahmad_bin_qasim_ghamadi_fatawaa_gumrahkun.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:عبداللہ کہتے ہیں کہ سماحۃ الشیخ: بعض بہنیں ملتی ہيں جو اپنے چہرے کا پردہ نہیں کرتیں اور استدلال کرتی ہیں کہ یہ بات شافعی اور حنفی مذہب میں موجود ہے؟
جواب از مفتئ اعظم سعودی عرب، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ:
میری بہنوں اور بھائیوں میں اللہ تعالی سے اپنے اور آپ کے لیے توفیق اور راست بازی کی دعاء کرتا ہوں۔میرے بھائیوں حجاب ایک اسلامی اخلاق ہے جس پر امہات المؤمنین اور عہد نبوی کی صحابیات رضی اللہ عنہن عمل کرتی رہيں، اور خلفائےراشدین کے دور میں بھی اور اس کے بعد سے لے کر آج تک، یہاں تک کہ گھٹیا مغربی ثقافت نے یلغار شروع کردی۔ ورنہ تو تمام مسلمانوں کی خواتین حجاب کرتی رہی ہيں اور اس حجاب کو وہ ایک ضروری عمل اور اسلامی اخلاق میں سے سمجھتی ہيں۔ جو یہ دعویٰ کرتے ہيں کہ حجاب کی کوئی اصل نہيں ، اس کے خلاف لڑتے ہيں، اس کی مذمت کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہيں یہ لوگ ہدایت پر نہيں ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے ثابت قدمی کی دعاء کرتے ہيں۔
آجکل بعض چینلز پر ایسے لوگ نمودار ہوئے ہیں جو یہ تک کہتے ہیں کہ باجماعت مسجد میں نماز پڑھنے کی کوئی اہمیت نہیں نہ قدر ومنزلت ہے، بس اپنے گھروں پر نماز پڑھو([1])۔ وہ باجماعت نماز اور گھر کی نماز کو برابر قرار دیتے ہيں۔ اپنے اس قول میں وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہيں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں باجماعت نماز گھر پر انفرادی پڑھی گئی نماز سے پچیس گنا افضل ہے۔ لیکن یہ کہتے ہيں نہیں! اپنے گھر پر نماز پڑھو، یا جہاں چاہے پڑھو دونوں میں فرق نہیں۔ بلکہ بعض تو یہ کہتے ہیں نماز باجماعت کا حکم کرنا لوگوں کی شخصی زندگی میں مداخلت ہے۔ اور بعض یوم عرفہ کی تعلق سے یہ غلط باتیں پھیلاتے ہیں کہ غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی کوئی فضیلت نہیں، نہ ہی ا س کی کوئی اصل ہے اور نہ ہی یہ ہے وہ ہے۔۔۔اور مختلف (شاذ ومنفرد ) آراء کو نشر کرتے ہيں کہ ہم ان کے اور لوگوں کے مابین آڑ نہیں رکھنا چاہتے (یعنی انہیں تمام مسائل سے نکلنے کے حیلے اور جواز کا علم ہو!)۔ یہ سب باتیں خیر سے روکنے والی ہیں۔
حالانکہ اس منہج (نماز باجماعت و حجاب وغیرہ) پر سلف صالحین اور آئمہ ہدایت چلتے آئے ہیں۔تمام چینلز کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈریں ، میں چینلز والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں اور معاشرے کے سامنے وہ چیز پیش نہ کریں جو ان کے دین، اخلاق اور تہذیب کو بگاڑ دیں۔ صرف اس چیز کو نشر کریں جس کا علم ہو، جس کے خیر اور دین کی نصرت ہونے کے بارے میں یقین ہو۔ جبکہ ایسے لوگوں کو علم کی میز پر بٹھا دیا جائے اور وہ اصول اسلام پر بھی قدح کرنے اور واجبات اسلام پر نقب زنی کرنے لگیں اور اسلام کے جو فضائل وامتیازات ہیں ان کی تنقیص شان کریں اور حقیر باور کروائيں، تو یہ سب غلط ہے۔ لہذا میں چینلز کے مالکان کو خبردار کرتا ہوں کہ کہیں وہ باطل کے داعیان نہ بن جائیں۔
یہ چینلز تو فقط لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہونے چاہیے۔ جبکہ حال یہ ہو کہ ہر روز کوئی چینل آرہا ہے اور اسے چلانے والے ایسے لوگ ہوں کہ جو اللہ تعالی سے نہيں ڈرتے اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے([2])۔
پس میں بھائیوں سے چاہتا ہوں کہ اس پر متنبہ ہوں اور اللہ تعالی دیکھ رہا ہے اس کا خیال کریں، اور اس فرمان باری تعالی کو یاد کریں کہ:
﴿لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ﴾
(النحل: 25)
(تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائیں اور کچھ ان کے بوجھ میں سے بھی جنہیں وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے رہے۔ سن لو ! برا ہے وہ بوجھ جو وہ اٹھا رہے ہیں)
اور حدیث میں بھی ہے کہ جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے اس کا گناہ ہوگا اور اس کی پیروی کرنے والو ں کا گناہ بھی اسے ملے گا، جبکہ ان کے گناہوں میں سے کچھ کم نہيں کیا جائے گا۔
میزبان: شیخ جیسا کہ آپ جانتے ہیں پچھلے کچھ سالوں سے بعض ایسی آراء ظاہر ہوئی ہیں جو لوگوں کو بہت تشویش کا شکار کرتے ہيں اور ایسی باتوں کو جو لوگوں کے نزدیک دین میں مسلمہ ہیں اور شک کی گنجائش نہيں اسے متزلزل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور آپ کی طرف سے اور کبار علماء کمیٹی کی طرف سے بھی کچھ ماہ پہلے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ اس قسم کے امور کا سدباب کیا جائے۔ اور ایسے لوگوں کو جو صحیح علم کے حاملین نہيں اجازت نہ دی جائے کہ وہ اس قسم کے انوکھے فتاویٰ کے ذریعے لوگوں میں افراتفری پھیلائیں، لہذا آپ سماحۃ الشیخ اور کبار علماء کمیٹی اس تعلق سے کیا پیش کرنا چاہتے ہیں؟
جواب: اللہ انہیں ہوش دے اور وہ اپنی اس غلطی کو جان لیں۔ ایسے لوگ ہیں کہ جو علم کی طرف منسوب ہوتے ہیں لیکن علماء نہيں ہوتے، اور علم کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ اس سے محروم ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے دل میں مرض ہوتا ہے، اور مشہوری چاہتے ہیں، تو وہ ایسے امور جو مسلمانوں کے یہاں بالکل دلوں میں راسخ اور مسلمہ ہيں اس کے درپے ہوتے ہیں۔ جیسے نماز باجماعت کا مسئلہ ہی لے لیں، آخر یہ مساجد پھر کیوں بنائی جاتی ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ، رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوةِ ۽ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ﴾
(النور: 36-37)
(ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ بلند کیے جائیں اور ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے، اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ان میں صبح و شام، وہ مرد جنہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خریدو فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی)
اور فرمایا:
﴿اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ﴾
(التوبۃ: 18)
(اللہ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتا اور نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے، اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا)
لہذا اگر ہم جماعت کو معطل کردیں گے اور کہیں گے گھر پر پڑھنا یا جماعت میں برابر ہے تو ہم اپنے درمیان سے ایک عظیم دینی شعیرے سے محروم ہوجائيں گے۔یہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے۔ کوئی ایسا غلط شخص آئے اور کہے یہ اختلاف لوگوں سے مخفی تھا میں اس کی تجدید کے لیے آیا ہوں، اس ملک میں ہم جس فطرت اور صحیح عقیدے پر ہیں اسے بدلنا چاہے ۔ یہ ملک ایک صالح دعوت پر قائم ہے جسے مصلح شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے قائم فرمایا۔ اور اسلامی بادشاہوں کی سرپرستی میں اللہ ان کے فوت شدگان کی مغفرت فرمائے اور جو باقی ہيں ان کی اصلاح فرمائے۔ یہ سب کے سب سیدھے منہج اور صراط مستقیم پر ہیں، ا س پر چلنے کی کوشش کرتے ہيں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور اچھے طور پر ان کی پیروی کرنے والے چلے تھے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم اسے مضبوطی سے تھامے رہیں۔ اور ان کے ہاتھوں کو روکیں جو شذوذ (انوکھے منفرد مسائل و آراء) اختیار کرنا اور سیدھے منہج سے نکلنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالی سے توفیق اور راست بازی کا سوال ہے۔
(مفہوم: برنامج : مع سماحة المفتي ، الجمعة 26-2-1433 هـ , رد المفتي على احمد الغامدي)
اسی طرح سعودی ٹی وی فتاویٰ کے پروگرام میں ایک دوسرے فتویٰ میں فرماتے ہیں:
حجاب اسلامی اخلاق میں سے ہے اور امہات المؤمنین اور ان کے بعد کے تمام مسلمان خواتین کرتی آئی ہيں۔ پھر یہ آیت پڑھی:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ﴾ (الاحزاب: 59)
(اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں تکلیف نہ پہنچائی جائے)
اسی طرح اللہ تعالی نے جو شریعت میں اس عورت کے چہرے کو دیکھنے کی اجازت دی ہے جس کے پاس رشتے کا پیغام بھیجا ہو، جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں اجازت کا ملنا دلیل ہے کہ اصل حکم چہرے چھپانے کا ہے، لہذا اس صورت میں اجازت الگ سے دی گئی ہے۔
جواب: اللہ انہیں ہوش دے اور وہ اپنی اس غلطی کو جان لیں۔ ایسے لوگ ہیں کہ جو علم کی طرف منسوب ہوتے ہیں لیکن علماء نہيں ہوتے، اور علم کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ اس سے محروم ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے دل میں مرض ہوتا ہے، اور مشہوری چاہتے ہیں، تو وہ ایسے امور جو مسلمانوں کے یہاں بالکل دلوں میں راسخ اور مسلمہ ہيں اس کے درپے ہوتے ہیں۔ جیسے نماز باجماعت کا مسئلہ ہی لے لیں، آخر یہ مساجد پھر کیوں بنائی جاتی ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ، رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوةِ ۽ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ﴾
(النور: 36-37)
(ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ بلند کیے جائیں اور ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے، اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ان میں صبح و شام، وہ مرد جنہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خریدو فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی)
اور فرمایا:
﴿اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ﴾
(التوبۃ: 18)
(اللہ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتا اور نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے، اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا)
لہذا اگر ہم جماعت کو معطل کردیں گے اور کہیں گے گھر پر پڑھنا یا جماعت میں برابر ہے تو ہم اپنے درمیان سے ایک عظیم دینی شعیرے سے محروم ہوجائيں گے۔یہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے۔ کوئی ایسا غلط شخص آئے اور کہے یہ اختلاف لوگوں سے مخفی تھا میں اس کی تجدید کے لیے آیا ہوں، اس ملک میں ہم جس فطرت اور صحیح عقیدے پر ہیں اسے بدلنا چاہے ۔ یہ ملک ایک صالح دعوت پر قائم ہے جسے مصلح شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے قائم فرمایا۔ اور اسلامی بادشاہوں کی سرپرستی میں اللہ ان کے فوت شدگان کی مغفرت فرمائے اور جو باقی ہيں ان کی اصلاح فرمائے۔ یہ سب کے سب سیدھے منہج اور صراط مستقیم پر ہیں، ا س پر چلنے کی کوشش کرتے ہيں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور اچھے طور پر ان کی پیروی کرنے والے چلے تھے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم اسے مضبوطی سے تھامے رہیں۔ اور ان کے ہاتھوں کو روکیں جو شذوذ (انوکھے منفرد مسائل و آراء) اختیار کرنا اور سیدھے منہج سے نکلنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالی سے توفیق اور راست بازی کا سوال ہے۔
(مفہوم: برنامج : مع سماحة المفتي ، الجمعة 26-2-1433 هـ , رد المفتي على احمد الغامدي)
اسی طرح سعودی ٹی وی فتاویٰ کے پروگرام میں ایک دوسرے فتویٰ میں فرماتے ہیں:
حجاب اسلامی اخلاق میں سے ہے اور امہات المؤمنین اور ان کے بعد کے تمام مسلمان خواتین کرتی آئی ہيں۔ پھر یہ آیت پڑھی:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ﴾ (الاحزاب: 59)
(اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں تکلیف نہ پہنچائی جائے)
اسی طرح اللہ تعالی نے جو شریعت میں اس عورت کے چہرے کو دیکھنے کی اجازت دی ہے جس کے پاس رشتے کا پیغام بھیجا ہو، جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں اجازت کا ملنا دلیل ہے کہ اصل حکم چہرے چھپانے کا ہے، لہذا اس صورت میں اجازت الگ سے دی گئی ہے۔
سوال: آج کی مجلس کا تیسرا سوال، شیخ ہمارے یہاں ایک شخص نمودار ہوا ہے جس کا نام احمد بن قاسم الغامدی ہے جو سوشل میڈیا اور ٹی وی پر حجاب کو اتار دینے کی دعوت دیتا ہے اس حجت کے ساتھ کہ اس بارے میں کتاب و سنت میں کوئی نص نہیں۔ اور یہ گمان کرتا ہے کہ یہ صرف امہات المؤمنین کے ساتھ خاص تھا۔ بلکہ وہ باقاعدہ ایک چینل پر اپنی بیوی کو ننگے چہرے اور میک اپ کے ساتھ لایا اور کہا دیکھو میں اپنے فتویٰ کو اپنی گھر والی پر لاگو بھی کرتا ہوں۔ اور اس کے پیروکار ہيں جو اسی چیز کی طرف بلاتے ہيں جس کی طرف یہ بلاتا ہے اور ہمارے علماء پر تشدد کی تہمت لگاتے ہیں جبکہ غامدی ان کے نزدیک عدل وانصاف والا علامہ ہے جو دین میں میانہ روی پر چلتا ہے۔ پس ہم آپ سے اس شخص کی ان بکواسوں کا رد چاہتے ہیں کیونکہ یقینا ً اس کی وجہ سے عوام کے مابین فتنہ ہورہا ہے؟
جواب از شیخ عبید الجابری حفظہ اللہ:
اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔ یہ شخص سب سے پہلے تو مرد وزن میں اختلاط کا فتویٰ دیتا رہا یعنی بالکل مطلق فتویٰ یا ایسے مطلق دعوے کیے جو آزاد خیالی کی تحریک والے کرتے ہيں۔ پس جس نے رد کیا اس کا سو کیا۔ ہم نے سوچا شاید کہ معاملہ یہاں تک ہی رہے۔
لیکن اب تو یہ داعی اپنی اس حرکت سے فسق وفجور کی طرف کھلی دعوت دینے والا بن گیا، برائی کا داعی۔ لہذا واجب ہے کہ اس سے تحذیر (خبردار) کیا اور اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ وہ اپنے اس فتویٰ میں جھوٹا ہے کیونکہ محققین اہل علم و تقویٰ و تحقیق کا اس بات پر اجماع ہے کہ بے شک حجاب ہر مسلمان عورت پر عام فرض ہے ، اور جو امہات المؤمنین کا ذکر کیا گیا ہے تو وہ اس عام میں سے کہ جس کے بارے میں اہل علم کہتے ہیں:
”العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب “
(اصل اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے ناکہ سبب کے خصوص کا)۔
تو وہ کہتے ہيں امہات المؤمنین کو حجاب کا حکم دراصل تمام مسلمان عورتوں کو حکم ہے۔
اور جب امہات المؤمنین جیسی عظیم اور پارسا شخصیات کو اس کا حکم ہے جبکہ ان کی اس زمانے میں پاکبازی و عفت مشہور و معروف تھی، تو پھر جو ان سے کم تر خواتین ہیں انہیں تو باالاولیٰ منع ہوناچاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ شخص جھوٹا اور فتنےمیں مبتلا ہے، برائی کی طرف دعوت دینے والا ہے جس سے غیرت ختم ہوچکی ہے۔ اگر وہ فتویٰ دے بھی دیتا اور اپنے اس فتویٰ کو ہی بس ظاہر کرتا تو بھی معاملہ کچھ ہلکا ہوتا، لیکن بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ وہ باقاعدہ اپنی بیوی کو بے حجاب و میک اپ میں لے کر (ٹی وی پر) آگیا، کیا ایسا وہ شخص کرسکتا ہے جو اپنے محارم کے لیے غیرت رکھتا ہو؟!
اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔
(ویب سائٹ میراث الانبیاء: اللقاء السادس عشر من لقاءات الجمعة مع فضيلة الشيخ عبيد الجابري والذي كان 27 صفر 1436هـ)
[1] یہ فتویٰ اور اس سے پہلے حجاب والا اسی شخص احمد بن قاسم الغامدی کا ہے، اس کے علاوہ حال ہی میں ویلنٹائن ڈے کے حق میں بھی فتویٰ دے چکا ہے کہ یہ ثقافتی تہوار ہے لہذا منانے میں کوئی حرج نہيں۔ اس جیسے فتنہ باز اور بھی ابھرتے رہتے ہيں جیسے عادل الکلبانی وغیرہ۔ اور سعودی کبار علماء کمیٹی اور دیگر علماء حق ایسوں کا رد فرماتے رہتے ہيں۔ اللہ تعالی امت کو ان سے محفوظ رکھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] ہمارے یہاں بھی چینلز پر خودساختہ علماء بناکر ظاہر کیا جاتا ہے، پھر عوام ان سے رہنمائی لینے کی کوشش کرتی ہے نتیجۃ ًگمراہی میں جاپڑتی ہے، ایسے فتنہ باز لوگوں کو جو منکرین حدیث اور بہت سے دینی احکام کے خلاف اسی طرح کی تاویلات و حیلے کرکے انتشارو گمراہی پھیلاتے ہیں لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے غامدی ، عامر لیاقت حسین و مفتی عبدالقوی اور آن لائن استخارہ والے عامل، نجوی و فنکار وغیرہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
جواب از شیخ عبید الجابری حفظہ اللہ:
اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔ یہ شخص سب سے پہلے تو مرد وزن میں اختلاط کا فتویٰ دیتا رہا یعنی بالکل مطلق فتویٰ یا ایسے مطلق دعوے کیے جو آزاد خیالی کی تحریک والے کرتے ہيں۔ پس جس نے رد کیا اس کا سو کیا۔ ہم نے سوچا شاید کہ معاملہ یہاں تک ہی رہے۔
لیکن اب تو یہ داعی اپنی اس حرکت سے فسق وفجور کی طرف کھلی دعوت دینے والا بن گیا، برائی کا داعی۔ لہذا واجب ہے کہ اس سے تحذیر (خبردار) کیا اور اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ وہ اپنے اس فتویٰ میں جھوٹا ہے کیونکہ محققین اہل علم و تقویٰ و تحقیق کا اس بات پر اجماع ہے کہ بے شک حجاب ہر مسلمان عورت پر عام فرض ہے ، اور جو امہات المؤمنین کا ذکر کیا گیا ہے تو وہ اس عام میں سے کہ جس کے بارے میں اہل علم کہتے ہیں:
”العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب “
(اصل اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے ناکہ سبب کے خصوص کا)۔
تو وہ کہتے ہيں امہات المؤمنین کو حجاب کا حکم دراصل تمام مسلمان عورتوں کو حکم ہے۔
اور جب امہات المؤمنین جیسی عظیم اور پارسا شخصیات کو اس کا حکم ہے جبکہ ان کی اس زمانے میں پاکبازی و عفت مشہور و معروف تھی، تو پھر جو ان سے کم تر خواتین ہیں انہیں تو باالاولیٰ منع ہوناچاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ شخص جھوٹا اور فتنےمیں مبتلا ہے، برائی کی طرف دعوت دینے والا ہے جس سے غیرت ختم ہوچکی ہے۔ اگر وہ فتویٰ دے بھی دیتا اور اپنے اس فتویٰ کو ہی بس ظاہر کرتا تو بھی معاملہ کچھ ہلکا ہوتا، لیکن بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ وہ باقاعدہ اپنی بیوی کو بے حجاب و میک اپ میں لے کر (ٹی وی پر) آگیا، کیا ایسا وہ شخص کرسکتا ہے جو اپنے محارم کے لیے غیرت رکھتا ہو؟!
اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔
(ویب سائٹ میراث الانبیاء: اللقاء السادس عشر من لقاءات الجمعة مع فضيلة الشيخ عبيد الجابري والذي كان 27 صفر 1436هـ)
[1] یہ فتویٰ اور اس سے پہلے حجاب والا اسی شخص احمد بن قاسم الغامدی کا ہے، اس کے علاوہ حال ہی میں ویلنٹائن ڈے کے حق میں بھی فتویٰ دے چکا ہے کہ یہ ثقافتی تہوار ہے لہذا منانے میں کوئی حرج نہيں۔ اس جیسے فتنہ باز اور بھی ابھرتے رہتے ہيں جیسے عادل الکلبانی وغیرہ۔ اور سعودی کبار علماء کمیٹی اور دیگر علماء حق ایسوں کا رد فرماتے رہتے ہيں۔ اللہ تعالی امت کو ان سے محفوظ رکھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] ہمارے یہاں بھی چینلز پر خودساختہ علماء بناکر ظاہر کیا جاتا ہے، پھر عوام ان سے رہنمائی لینے کی کوشش کرتی ہے نتیجۃ ًگمراہی میں جاپڑتی ہے، ایسے فتنہ باز لوگوں کو جو منکرین حدیث اور بہت سے دینی احکام کے خلاف اسی طرح کی تاویلات و حیلے کرکے انتشارو گمراہی پھیلاتے ہیں لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے غامدی ، عامر لیاقت حسین و مفتی عبدالقوی اور آن لائن استخارہ والے عامل، نجوی و فنکار وغیرہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Book] The concept of #Tawheed in the current times and its reality- Shaykh Ahmed bin Muhammad Al-Feefee
عصر حاضر میں #توحید کی تصور اور اس کی حقیقت - شیخ احمد بن محمد الفیفی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/asr_e_hazir_tawheed_tassawur_aur_haqeeqat.pdf
عصر حاضر میں #توحید کی تصور اور اس کی حقیقت - شیخ احمد بن محمد الفیفی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/asr_e_hazir_tawheed_tassawur_aur_haqeeqat.pdf
[Urdu Article] Accepting invitations and gifts from those whose #income is Haraam (Unlawful)? - Various 'Ulamaa
جن کی #کمائی حرام کی ہو ان کی دعوت اور تحائف قبول کرنے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
۔۔۔اس وجہ سے ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ آپ کے بھائی جب تک سودخوری میں معاونت کرتے ہیں، اسے لکھتے اور اس کے گواہ بنتے ہیں تو وہ گنہگار ہیں اور ان پر واجب ہے کہ وہ اس سے جان چھڑائيں۔ لیکن اگر وہ اصرار کرتے ہیں اور اسی پر باقی رہتے ہیں اور آپ اس کے پاس جاتے ہیں اور اس کے کھانے میں سے کھاتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ آپ کے سر کوئی گناہ نہیں۔ اگرچہ آپ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ حرام ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے یہودیوں کا کھانا کھایا اور یہود جیسا کہ آپ جانتے ہیں سودخور تھے۔ ربا لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے یہ تفتیش نہیں فرمائی کہ: کیا تم سود کا معاملہ کرتے ہو یا نہیں؟ جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا ایسے کی دعوت کھانا جس کی کمائی حرام ہو جائز ہے اور اس پر کوئی گناہ نہیں۔
لیکن اپنے بھائی کو بار بار نصیحت کرنے سے مایوس نہ ہوں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے دے۔ اسے خوشخبری بھی سنائیں کہ اگر وہ توبہ کرلے گا تو جو ہوگزرا وہ اس کا ہے۔۔۔
(دیگر تفصیلی احکام پر مزید علماء کرام جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن باز، ابن عثیمین، فتوی کمیٹی سعودی عرب، صالح الفوزان و صالح آل الشیخ کے کلام کو جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں)
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/04/haram_kamae_dawat_qubool_karna.pdf
جن کی #کمائی حرام کی ہو ان کی دعوت اور تحائف قبول کرنے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
۔۔۔اس وجہ سے ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ آپ کے بھائی جب تک سودخوری میں معاونت کرتے ہیں، اسے لکھتے اور اس کے گواہ بنتے ہیں تو وہ گنہگار ہیں اور ان پر واجب ہے کہ وہ اس سے جان چھڑائيں۔ لیکن اگر وہ اصرار کرتے ہیں اور اسی پر باقی رہتے ہیں اور آپ اس کے پاس جاتے ہیں اور اس کے کھانے میں سے کھاتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ آپ کے سر کوئی گناہ نہیں۔ اگرچہ آپ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ حرام ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے یہودیوں کا کھانا کھایا اور یہود جیسا کہ آپ جانتے ہیں سودخور تھے۔ ربا لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے یہ تفتیش نہیں فرمائی کہ: کیا تم سود کا معاملہ کرتے ہو یا نہیں؟ جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا ایسے کی دعوت کھانا جس کی کمائی حرام ہو جائز ہے اور اس پر کوئی گناہ نہیں۔
لیکن اپنے بھائی کو بار بار نصیحت کرنے سے مایوس نہ ہوں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے دے۔ اسے خوشخبری بھی سنائیں کہ اگر وہ توبہ کرلے گا تو جو ہوگزرا وہ اس کا ہے۔۔۔
(دیگر تفصیلی احکام پر مزید علماء کرام جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن باز، ابن عثیمین، فتوی کمیٹی سعودی عرب، صالح الفوزان و صالح آل الشیخ کے کلام کو جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں)
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/04/haram_kamae_dawat_qubool_karna.pdf
علماء کرام کم غلط قرار دینے میں جلدبازی نہ کریں - شیخ محمد بازمول#
#ulamaa kiraam ko ghalat qarar dayne may jaldbazi na kare - shaykh muhammad bazmool
#ulamaa kiraam ko ghalat qarar dayne may jaldbazi na kare - shaykh muhammad bazmool
[Urdu Article] Reaction upon the #disparagement of a Salafee scholar - Shaykh Muhammad bin Umar Bazmool
کسی سلفی شیخ کی #جرح ہوجانے پر رد عمل
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سؤال و جواب 39-41 - على جدران الفيسبوك، الأصدار الأول۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/salafi_shaykh_jarh_hojanay_pr_raddemal.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:آجکل ایک خطرناک شبہہ سلفیوں کے مابین عام ہوگیا ہے، کہتے ہیں: جب کبھی بھی ہم کسی سلفی شیخ پر اعتماد کرتے ہیں کہ اسے علماء نے تزکیہ دیا ہوتا ہے، وجہ اعتماد کی یہ ہوتی ہے کہ ہم اس کے علم پر اعتماد کرتے ہيں ناکہ شخصیت پرستی، مگر اچانک ہی اسے ساقط قرار دے دیا جاتا ہے، ہمیں سبب بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کہ آخر ہم اس کی غلطی سے احتیاط کریں، اور ہمارے گھروں میں ذاتی مکتبات کا یہ حال ہوتا ہے جب کبھی کچھ مشایخ کے کلام سے اسے بھرتے ہيں پھر دوبارہ سے ان کے کلام سے اسے خالی کرنا پڑتا ہے۔ اس شبہہ کا ہم کس طرح رد کریں گے کہ جو اب ایک ایسی متعدی بیماری کی صورت اختیار کرگیا ہے کہ جس نے سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان پر شیطان مسلط ہوگیا ہے۔ آپ کی اپنے سلفی فرزندوں کے لیے کیا نصیحت ہے ؟
جواب: یہ بات واقعی موجود ہے اور ہم نے بھی محسوس کی ہے۔ اور شاید کہ سائل کی مراد کو صحیح طور پر مندرجہ ذیل امور واضح کریں گے:
1- سلفیت کا معنی اور اس کی طرف انتساب کرنے کا معنی یہ نہيں کہ خود سلفی غلطی میں نہيں پڑ سکتا۔ برابر ہے کہ چھوٹا طالبعلم ہو یا بہت بڑا عالم ہو، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ‘‘([1])
(ہر بنی آدم خطاءکار ہے، اور بہترین خطاءکار وہ ہیں جو توبہ کرتے رہتے ہیں)۔
2- ہر غلطی کے سبب اس غلطی کرنے والے سے اہل بدعت والا معاملہ نہيں کیا جاتا، اور یہ بہت اہم مسئلہ ہے، اور سلفیوں اور اس باب میں متشدد لوگو ں کے مابین فرق کا مقام ہے، جن متشدد لوگوں میں سے حدادی لوگ بھی ہیں۔ کیونکہ جن باتوں پر ا ن (حدادیوں) کا انکار کیا جاتا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ایسی غلطی جس میں سلفی مبتلا ہوا اس میں اور ایسی غلطی جس میں صاحب بدعت و ہویٰ مبتلا ہوفرق نہیں کرتے، اور ان کے نزدیک ان دونوں سے یکساں معاملہ کیا جاتا ہے! حالانکہ بے شک صاحب سنت کو تو نصیحت و رہنمائی کی جاتی ہے، اور اس کے بارے میں یہ گمان رکھا جاتا ہے کہ وہ ضرور حق کو قبول کرے گا اور اس کی طرف رجوع کرے گا۔ اور یہ کوئی کمزوری یا بزدلی نہيں بلکہ یہ ایک ادبی شجاعت و بہادری ہے کہ جس کا اعتقاد ایک مسلمان اپنے رب کے لیے رکھتا ہے۔کیونکہ حق سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اتباع و پیروی کی جائے!
3- سلفیت کا معنی یہ نہیں ہے کہ سلفیوں کے مابین اجتہادی علمی مسائل میں اختلاف واقع نہیں ہوسکتا ۔ اور سلفی کا کتاب و سنت کی فہم سلف صالحین کے مطابق اتباع کرنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اجتہادی مسائل میں ان میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ آپ آئمہ اربعہ کو دیکھ لیں وہ سلف صالحین کے متبعین میں سے تھے لیکن ان کے مابین علمی اجتہادی مسائل میں وہ اختلافات ہوئے جو معلوم و معروف ہیں!
4- سلفیت کا یہ معنی نہيں ہے کہ کوئی سلفی دل کے امراض جیسے خفیہ شہوات میں مبتلا نہيں ہوسکتا مثلًا شہرت پسندی، اپنے بھائیوں کے ساتھ سختی کا معاملہ۔ جب حقیقت حال یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کا آئینہ ہوتا ہے، تو چاہیے کہ آپس میں نصیحت و رہنمائی کرتے رہيں۔ واللہ المستعان۔
5- سلف صالحین کے منہج میں سے نہيں کہ کسی کے قول کی اتباع کو لازم قرار دیا جائے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، خصوصا ً اجتہادی مسائل میں۔
6- ہوسکتا ہے ایک سلفی عالم کسی دوسرے سلفی پر کلام کرے اور کسی قصور وکوتاہی کے سبب اس پر زیادتی بھی کر بیٹھے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ساقط کردیا جائے۔ اس بارے میں مؤقف حسن ظن کا ہوتا ہے۔ تو ہم یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس عالم کا کلام اس کے اجتہاد کا نتیجہ ہے جو اسے صحیح لگتا ہے۔ لہذا وہ دو اجروں کے درمیان ہی ہے اگر صواب کو پایا تو دوہرا اجر، اور اگر غلطی کرگیا تو ایک اجر۔
7- اگر کسی ایسے پر کلام کیا گیا جس کی عدالت و ثقاہت کو آپ جانتے تھے تو ان کے بارے میں کلام اس وقت تک قبول نہ کریں جب تک اس کا سبب اور جرح کی تفسیر بیان نہ کی جائے۔ ان کے ساتھ وہ معاملہ نہيں کیا جائے گا جو اصلاً ہی متکلم فیہ ہو، یا ان جیسا جن کی عدالت و ثقاہت کو آپ جانتے ہی نہيں۔
8- حسن ظن کو مقدم رکھا جائے گا، اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں سوء ظن نہ رکھیں جب تک خیر پر محمول رکھنے کے کوئی نہ کوئی مواقع آپ کو میسر ہوں۔
کسی سلفی شیخ کی #جرح ہوجانے پر رد عمل
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سؤال و جواب 39-41 - على جدران الفيسبوك، الأصدار الأول۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/salafi_shaykh_jarh_hojanay_pr_raddemal.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:آجکل ایک خطرناک شبہہ سلفیوں کے مابین عام ہوگیا ہے، کہتے ہیں: جب کبھی بھی ہم کسی سلفی شیخ پر اعتماد کرتے ہیں کہ اسے علماء نے تزکیہ دیا ہوتا ہے، وجہ اعتماد کی یہ ہوتی ہے کہ ہم اس کے علم پر اعتماد کرتے ہيں ناکہ شخصیت پرستی، مگر اچانک ہی اسے ساقط قرار دے دیا جاتا ہے، ہمیں سبب بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کہ آخر ہم اس کی غلطی سے احتیاط کریں، اور ہمارے گھروں میں ذاتی مکتبات کا یہ حال ہوتا ہے جب کبھی کچھ مشایخ کے کلام سے اسے بھرتے ہيں پھر دوبارہ سے ان کے کلام سے اسے خالی کرنا پڑتا ہے۔ اس شبہہ کا ہم کس طرح رد کریں گے کہ جو اب ایک ایسی متعدی بیماری کی صورت اختیار کرگیا ہے کہ جس نے سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان پر شیطان مسلط ہوگیا ہے۔ آپ کی اپنے سلفی فرزندوں کے لیے کیا نصیحت ہے ؟
جواب: یہ بات واقعی موجود ہے اور ہم نے بھی محسوس کی ہے۔ اور شاید کہ سائل کی مراد کو صحیح طور پر مندرجہ ذیل امور واضح کریں گے:
1- سلفیت کا معنی اور اس کی طرف انتساب کرنے کا معنی یہ نہيں کہ خود سلفی غلطی میں نہيں پڑ سکتا۔ برابر ہے کہ چھوٹا طالبعلم ہو یا بہت بڑا عالم ہو، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ‘‘([1])
(ہر بنی آدم خطاءکار ہے، اور بہترین خطاءکار وہ ہیں جو توبہ کرتے رہتے ہیں)۔
2- ہر غلطی کے سبب اس غلطی کرنے والے سے اہل بدعت والا معاملہ نہيں کیا جاتا، اور یہ بہت اہم مسئلہ ہے، اور سلفیوں اور اس باب میں متشدد لوگو ں کے مابین فرق کا مقام ہے، جن متشدد لوگوں میں سے حدادی لوگ بھی ہیں۔ کیونکہ جن باتوں پر ا ن (حدادیوں) کا انکار کیا جاتا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ایسی غلطی جس میں سلفی مبتلا ہوا اس میں اور ایسی غلطی جس میں صاحب بدعت و ہویٰ مبتلا ہوفرق نہیں کرتے، اور ان کے نزدیک ان دونوں سے یکساں معاملہ کیا جاتا ہے! حالانکہ بے شک صاحب سنت کو تو نصیحت و رہنمائی کی جاتی ہے، اور اس کے بارے میں یہ گمان رکھا جاتا ہے کہ وہ ضرور حق کو قبول کرے گا اور اس کی طرف رجوع کرے گا۔ اور یہ کوئی کمزوری یا بزدلی نہيں بلکہ یہ ایک ادبی شجاعت و بہادری ہے کہ جس کا اعتقاد ایک مسلمان اپنے رب کے لیے رکھتا ہے۔کیونکہ حق سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اتباع و پیروی کی جائے!
3- سلفیت کا معنی یہ نہیں ہے کہ سلفیوں کے مابین اجتہادی علمی مسائل میں اختلاف واقع نہیں ہوسکتا ۔ اور سلفی کا کتاب و سنت کی فہم سلف صالحین کے مطابق اتباع کرنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اجتہادی مسائل میں ان میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ آپ آئمہ اربعہ کو دیکھ لیں وہ سلف صالحین کے متبعین میں سے تھے لیکن ان کے مابین علمی اجتہادی مسائل میں وہ اختلافات ہوئے جو معلوم و معروف ہیں!
4- سلفیت کا یہ معنی نہيں ہے کہ کوئی سلفی دل کے امراض جیسے خفیہ شہوات میں مبتلا نہيں ہوسکتا مثلًا شہرت پسندی، اپنے بھائیوں کے ساتھ سختی کا معاملہ۔ جب حقیقت حال یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کا آئینہ ہوتا ہے، تو چاہیے کہ آپس میں نصیحت و رہنمائی کرتے رہيں۔ واللہ المستعان۔
5- سلف صالحین کے منہج میں سے نہيں کہ کسی کے قول کی اتباع کو لازم قرار دیا جائے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، خصوصا ً اجتہادی مسائل میں۔
6- ہوسکتا ہے ایک سلفی عالم کسی دوسرے سلفی پر کلام کرے اور کسی قصور وکوتاہی کے سبب اس پر زیادتی بھی کر بیٹھے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ساقط کردیا جائے۔ اس بارے میں مؤقف حسن ظن کا ہوتا ہے۔ تو ہم یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس عالم کا کلام اس کے اجتہاد کا نتیجہ ہے جو اسے صحیح لگتا ہے۔ لہذا وہ دو اجروں کے درمیان ہی ہے اگر صواب کو پایا تو دوہرا اجر، اور اگر غلطی کرگیا تو ایک اجر۔
7- اگر کسی ایسے پر کلام کیا گیا جس کی عدالت و ثقاہت کو آپ جانتے تھے تو ان کے بارے میں کلام اس وقت تک قبول نہ کریں جب تک اس کا سبب اور جرح کی تفسیر بیان نہ کی جائے۔ ان کے ساتھ وہ معاملہ نہيں کیا جائے گا جو اصلاً ہی متکلم فیہ ہو، یا ان جیسا جن کی عدالت و ثقاہت کو آپ جانتے ہی نہيں۔
8- حسن ظن کو مقدم رکھا جائے گا، اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں سوء ظن نہ رکھیں جب تک خیر پر محمول رکھنے کے کوئی نہ کوئی مواقع آپ کو میسر ہوں۔
9- شخصیات کا تقدس (شخصیت پرستی ) نہيں۔ اور سائل نے (جزاہ اللہ خیراً) اپنے سوال میں ہی اس پر تنبیہ کردی تھی اپنے اس قول سے کہ: اس کی شخصیت پرستی کی وجہ سے نہیں۔
10- ہر وہ جس کے بارے میں کلام کردیا گیا ہو ساقط نہیں ہوتا، اور نہ ہی ہر کلام کسی کے حق میں جرح ہی ہوتا ہے۔
11- (جہاں تک تزکیو ں کا حوالہ ہے تو) یہ سلفیت میں سے نہیں کہ علماء سے تزکیات حاصل کرنے کے لیے الحاح و زاری کی جائے اور ان کے پیچھے پڑا جائے۔ ایک مسلمان کا اپنا علم و عمل ہر چیز سے قبل اس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ چناچہ کوئی مقدس سرزمین کسی کو مقدس نہيں بنادیتی نہ ہی کسی کا نسب اس کو مقدس بناتا ہے، اسی طرح سے لوگوں کی جرح سے متعلق کلام بھی کسی کو مقدس نہيں بنادیتا۔
12- سلفیت میں سے نہيں کہ لوگوں کے عیوب پر اور ان کی جرح ہوجانے پر خوش ہوا جائے، اور بلاضرورت اس کے لیے دوڑ دھوپ کی جائے۔ ایک طالبعلم کو چاہیےکہ اس میں منہمک ہونے سے پرہیز کرے ، اور اس معاملے کو اہل علم کے ہاتھوں میں ہی چھوڑ دے، کسی فتنے کی آگ کو بھڑکانے اور اس کے شعلے اڑانے کا سبب نہ بنے، بلکہ فتنے کو بجھانے کا سبب بنے اس کی آگ سے دوری اختیار کرکے، صبر اور حسن ظن کے ذریعے، اور اس معاملے کو اہل علم کے سپرد کرنے کے ذریعے۔ واللہ الموفق۔
سوال: کیا جرح و تعدیل اجتہادی یا اختلافی مسائل میں سے ہے ؟
جواب: جرح وتعدیل کے بارے میں جو اصل ہے وہ یہ کہ بے شک یہ ایک خبر ہے، جسے کوئی عالم آپ کے لیے نقل کرتا ہے۔ یا وہ مجروح (جس کی جرح کی گئی) یا معدل (جس کی تعدیل کی گئی) کے متعلق خبر دیتا ہے۔ اس میں اجتہاد دو پہلوؤں سے داخل ہوتا ہے:
ایک پہلو: اسے ا س (شخص) پر مرتب ہونے والے اس کے مناسب ِحال اس پر فٹ کرنا ۔
دوسرا پہلو: ایک عالم کی اس کی عبارت سے مراد کا فہم۔
واللہ اعلم
سوال: کوئی شخص کب سلفیت سے خارج ہوتا ہے؟
جواب: سلفیت سے خروج یا تو کلی طور پر ہوتا ہے اگر وہ سلفیت کے اصول کی مخالفت کرتا ہے۔
اور اس سے خروج جزئی بھی ہوتا ہے اگر وہ سلفی منہج کے بعض جزئی مسائل کی مخالفت کرتا ہے۔
اور اگر یہ جزئی مسائل بھی باکثرت ہوتے جائيں کہ جس میں وہ سلف کی مخالفت کرتا ہے ، تو وہ کثرت مخالفت کے سبب سلفیت سے خارج ہوجاتا ہے۔
واللہ اعلم۔
[1] الترمذي صفة القيامة والرقائق والورع 2499, إبن ماجه الزهد 4251, أحمد 3/198, الدارمي برقم 2727 كلهم من حديث أنس.
10- ہر وہ جس کے بارے میں کلام کردیا گیا ہو ساقط نہیں ہوتا، اور نہ ہی ہر کلام کسی کے حق میں جرح ہی ہوتا ہے۔
11- (جہاں تک تزکیو ں کا حوالہ ہے تو) یہ سلفیت میں سے نہیں کہ علماء سے تزکیات حاصل کرنے کے لیے الحاح و زاری کی جائے اور ان کے پیچھے پڑا جائے۔ ایک مسلمان کا اپنا علم و عمل ہر چیز سے قبل اس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ چناچہ کوئی مقدس سرزمین کسی کو مقدس نہيں بنادیتی نہ ہی کسی کا نسب اس کو مقدس بناتا ہے، اسی طرح سے لوگوں کی جرح سے متعلق کلام بھی کسی کو مقدس نہيں بنادیتا۔
12- سلفیت میں سے نہيں کہ لوگوں کے عیوب پر اور ان کی جرح ہوجانے پر خوش ہوا جائے، اور بلاضرورت اس کے لیے دوڑ دھوپ کی جائے۔ ایک طالبعلم کو چاہیےکہ اس میں منہمک ہونے سے پرہیز کرے ، اور اس معاملے کو اہل علم کے ہاتھوں میں ہی چھوڑ دے، کسی فتنے کی آگ کو بھڑکانے اور اس کے شعلے اڑانے کا سبب نہ بنے، بلکہ فتنے کو بجھانے کا سبب بنے اس کی آگ سے دوری اختیار کرکے، صبر اور حسن ظن کے ذریعے، اور اس معاملے کو اہل علم کے سپرد کرنے کے ذریعے۔ واللہ الموفق۔
سوال: کیا جرح و تعدیل اجتہادی یا اختلافی مسائل میں سے ہے ؟
جواب: جرح وتعدیل کے بارے میں جو اصل ہے وہ یہ کہ بے شک یہ ایک خبر ہے، جسے کوئی عالم آپ کے لیے نقل کرتا ہے۔ یا وہ مجروح (جس کی جرح کی گئی) یا معدل (جس کی تعدیل کی گئی) کے متعلق خبر دیتا ہے۔ اس میں اجتہاد دو پہلوؤں سے داخل ہوتا ہے:
ایک پہلو: اسے ا س (شخص) پر مرتب ہونے والے اس کے مناسب ِحال اس پر فٹ کرنا ۔
دوسرا پہلو: ایک عالم کی اس کی عبارت سے مراد کا فہم۔
واللہ اعلم
سوال: کوئی شخص کب سلفیت سے خارج ہوتا ہے؟
جواب: سلفیت سے خروج یا تو کلی طور پر ہوتا ہے اگر وہ سلفیت کے اصول کی مخالفت کرتا ہے۔
اور اس سے خروج جزئی بھی ہوتا ہے اگر وہ سلفی منہج کے بعض جزئی مسائل کی مخالفت کرتا ہے۔
اور اگر یہ جزئی مسائل بھی باکثرت ہوتے جائيں کہ جس میں وہ سلف کی مخالفت کرتا ہے ، تو وہ کثرت مخالفت کے سبب سلفیت سے خارج ہوجاتا ہے۔
واللہ اعلم۔
[1] الترمذي صفة القيامة والرقائق والورع 2499, إبن ماجه الزهد 4251, أحمد 3/198, الدارمي برقم 2727 كلهم من حديث أنس.
[Urdu Article] An explicit speech falsifying the accusation against Salafees as "#Ghulat_ut_Tajreeh" – Shaykh Muhammad bin Hadee Al-Madkhalee
کھلامقال برائے سلفیوں پر سے ’’#غلاۃ_التجریح‘‘ کی تہمت کا ابطال
فضیلۃ الشیخ محمد بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(رکن تعلیمی کمیٹی، کلیۃ حدیث شریف ودراسات اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: القول الصريح في إبطال نبز أهل السنة بغلاة التجريح.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/ghulaat_ut_tajreeh_tohmat_izalah.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمين، والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسانٍ ألى يوم الدين، أما بعد:
احباب کرام! ایک ایسی بات ہے جس پر تنبیہ کرنا ضروری ہے، جس کی وجہ اس بارے میں التباس (حق وباطل میں خلط ملط) کا واقع ہونا ہے، اور ناقابل ستائش اغراض ومقاصد رکھنے والے اوراہواء پرستی میں مبتلا لوگ اس کو لے کر لوگوں پر تلبیس (حق وباطل میں خلط ملط) کرتے ہيں۔اور یہ مسئلہ ہے بعض طعن کرنے والوں کا طعنہ زنی کرنا ان علماء سنت اور اہل سنت پر جو کہ امت کے خیرخواہ ہیں، اسے بدعات اور اہل بدعت سے خبردار کرتے ہيں، کہ یہ علماء سنت اور اہل سنت متشدد ہیں۔ پھر اس سے یہ اصول مقرر کردیا انہوں نے کہ علماء سنت میں سے بعض معتدل ہیں، بعض متشدد اور بعض متساہل ہیں، اور اس بات کو انہوں نے اصل اصول ہی بنالیا۔پھر وہ اس بنیاد پر متشدد کہنے پر بھی بس نہیں کرتے بلکہ اس لفظ سے آگے منتقل ہوکر غلاۃ التجریح (جرح کرنے میں غلو سے کام لینے والے) کہتے ہیں۔ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہے جس نے ان کے اس جھوٹ کا بھانڈا واضح طور پر پھوڑ دیا۔ اور ہم اللہ تعالی سے دعاء کرتے ہيں کہ وہ ہمیں اور آپ کو حق وہدایت پر قائم رکھے یہاں تک کہ ہماری اس سے ملاقات ہو۔
میں یہ کہتا ہوں کہ: بلاشبہ جو لوگ یہ کہتے ہيں اور علماء جرح وتعدیل کی تقسیم بطور معتدل، متساہل اور متشدد کرتے ہیں تو یہ بات صحیح ہے۔ اور اس بارے میں علماء کرا م کا کلام بھی معروف ہے لیکن اس کا باب ہے روایت پر طعن کا باب جو کہ حفظ اور ضبط سے متعلق ہوتا ہے۔ لیکن جو بدعت ہے تو اس کا باب علیحدہ باب ہے۔ اُس کا باب تو باب ضبط ہے جیسا کہ ہم کہتے ہيں کہ صحیح حدیث وہ ہے جسے عادل وضابط روایت کریں، کیا ایسا نہیں؟ تو یہاں مروی سےمتعلق ضبط پر جو کلام کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہوتا ہے جیسے ثقةٌ، ثقةٌ ثقة، ثقةٌ ثقةٌ ثقةٌ ثقة، جبل، ثقةٌ حافظ، ضعيف، صدوق يخطىءُ، صدوق يخطىءُ كثيراً، صدوق سيء الحفظ، صدوق له أوهام، فاحش الغلط … الخ. تو یہ راوی پر طعن کے دس اسباب ہيں۔ پس ہمارے پاس ضبط سے متعلق جو کچھ ہے یہ اس کا باب ہے۔ لہذا اس باب میں جو علماء جرح وتعدیل متشدد ہیں وہ راوی کے ادنیٰ سے غلط پربھی رد کردیتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ، بعض آئمہ جرح فرماتے ہیں: میں تمام لوگوں کا کلام قبول کرسکتا ہوں سوائے امام عفان بن مسلم اور ابو نُعیم رحمہما اللہ کے کلام کے، میں اسے قبول نہيں کرتا، (پوچھا گیا) کیوں؟ فرمایا: انہوں نے تو کسی کو بھی نہيں چھوڑا مگر یہ کہ اس پر طعن ضرور کیا ہے۔ کیونکہ دراصل وہ خود حفظ کے بڑے اعلیٰ درجے پر تھے تو چاہتے تھے کہ سب لوگ بھی اسی درجے پر ہوں، حالانکہ یہ ناممکن بات ہے۔ اب فلاں کے پاس بہت کم غلطی ہے، فلاں کے پاس وہم ہے لیکن بے ضرر سا، یعنی خفیف وہم جس کی وجہ سے اس کا ضبط کچھ کم ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے وہ اتر کر کس درجے پر پہنچ جاتاہے؟ حسن کے درجے پر۔ تو اس کی حدیث قبول کی جاتی ہے۔ اور اسی طرح سلسلہ چلتا ہے یہاں تک کہ اس باب میں متساہل تک پہنچتا ہے۔ ہمارے پاس اس میں متساہل بھی ہیں کہ جن کا گزر کسی مجہول راوی پر سے ہو تو اس کی بھی توثیق کردیتے ہیں۔ اور کبھی آپ ان کو پائیں گے کہ وہ کہہ رہے ہوں گے: میں اسے نہيں جانتا، نہ اس کی باپ کو جانتا ہوں، نہ اس کے دادا کو جانتا ہوں لیکن پھر بھی اسے اپنی اس کتاب میں ذکر کردیں گے جس کا نام انہوں نے ’’کتاب الثقات‘‘ رکھا ہے۔ وہ کیسے ثقہ ہوسکتا ہے جبکہ آپ اسے جانتے ہی نہيں، نہ اس کے باپ کو نہ دادا کو؟! یہ تو مجہول ہوا۔ تو پھر کیا یہ تساہل نہیں؟ جی ہاں یہ تساہل میں شمار ہوگا۔
کھلامقال برائے سلفیوں پر سے ’’#غلاۃ_التجریح‘‘ کی تہمت کا ابطال
فضیلۃ الشیخ محمد بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(رکن تعلیمی کمیٹی، کلیۃ حدیث شریف ودراسات اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: القول الصريح في إبطال نبز أهل السنة بغلاة التجريح.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/ghulaat_ut_tajreeh_tohmat_izalah.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمين، والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسانٍ ألى يوم الدين، أما بعد:
احباب کرام! ایک ایسی بات ہے جس پر تنبیہ کرنا ضروری ہے، جس کی وجہ اس بارے میں التباس (حق وباطل میں خلط ملط) کا واقع ہونا ہے، اور ناقابل ستائش اغراض ومقاصد رکھنے والے اوراہواء پرستی میں مبتلا لوگ اس کو لے کر لوگوں پر تلبیس (حق وباطل میں خلط ملط) کرتے ہيں۔اور یہ مسئلہ ہے بعض طعن کرنے والوں کا طعنہ زنی کرنا ان علماء سنت اور اہل سنت پر جو کہ امت کے خیرخواہ ہیں، اسے بدعات اور اہل بدعت سے خبردار کرتے ہيں، کہ یہ علماء سنت اور اہل سنت متشدد ہیں۔ پھر اس سے یہ اصول مقرر کردیا انہوں نے کہ علماء سنت میں سے بعض معتدل ہیں، بعض متشدد اور بعض متساہل ہیں، اور اس بات کو انہوں نے اصل اصول ہی بنالیا۔پھر وہ اس بنیاد پر متشدد کہنے پر بھی بس نہیں کرتے بلکہ اس لفظ سے آگے منتقل ہوکر غلاۃ التجریح (جرح کرنے میں غلو سے کام لینے والے) کہتے ہیں۔ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہے جس نے ان کے اس جھوٹ کا بھانڈا واضح طور پر پھوڑ دیا۔ اور ہم اللہ تعالی سے دعاء کرتے ہيں کہ وہ ہمیں اور آپ کو حق وہدایت پر قائم رکھے یہاں تک کہ ہماری اس سے ملاقات ہو۔
میں یہ کہتا ہوں کہ: بلاشبہ جو لوگ یہ کہتے ہيں اور علماء جرح وتعدیل کی تقسیم بطور معتدل، متساہل اور متشدد کرتے ہیں تو یہ بات صحیح ہے۔ اور اس بارے میں علماء کرا م کا کلام بھی معروف ہے لیکن اس کا باب ہے روایت پر طعن کا باب جو کہ حفظ اور ضبط سے متعلق ہوتا ہے۔ لیکن جو بدعت ہے تو اس کا باب علیحدہ باب ہے۔ اُس کا باب تو باب ضبط ہے جیسا کہ ہم کہتے ہيں کہ صحیح حدیث وہ ہے جسے عادل وضابط روایت کریں، کیا ایسا نہیں؟ تو یہاں مروی سےمتعلق ضبط پر جو کلام کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہوتا ہے جیسے ثقةٌ، ثقةٌ ثقة، ثقةٌ ثقةٌ ثقةٌ ثقة، جبل، ثقةٌ حافظ، ضعيف، صدوق يخطىءُ، صدوق يخطىءُ كثيراً، صدوق سيء الحفظ، صدوق له أوهام، فاحش الغلط … الخ. تو یہ راوی پر طعن کے دس اسباب ہيں۔ پس ہمارے پاس ضبط سے متعلق جو کچھ ہے یہ اس کا باب ہے۔ لہذا اس باب میں جو علماء جرح وتعدیل متشدد ہیں وہ راوی کے ادنیٰ سے غلط پربھی رد کردیتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ، بعض آئمہ جرح فرماتے ہیں: میں تمام لوگوں کا کلام قبول کرسکتا ہوں سوائے امام عفان بن مسلم اور ابو نُعیم رحمہما اللہ کے کلام کے، میں اسے قبول نہيں کرتا، (پوچھا گیا) کیوں؟ فرمایا: انہوں نے تو کسی کو بھی نہيں چھوڑا مگر یہ کہ اس پر طعن ضرور کیا ہے۔ کیونکہ دراصل وہ خود حفظ کے بڑے اعلیٰ درجے پر تھے تو چاہتے تھے کہ سب لوگ بھی اسی درجے پر ہوں، حالانکہ یہ ناممکن بات ہے۔ اب فلاں کے پاس بہت کم غلطی ہے، فلاں کے پاس وہم ہے لیکن بے ضرر سا، یعنی خفیف وہم جس کی وجہ سے اس کا ضبط کچھ کم ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے وہ اتر کر کس درجے پر پہنچ جاتاہے؟ حسن کے درجے پر۔ تو اس کی حدیث قبول کی جاتی ہے۔ اور اسی طرح سلسلہ چلتا ہے یہاں تک کہ اس باب میں متساہل تک پہنچتا ہے۔ ہمارے پاس اس میں متساہل بھی ہیں کہ جن کا گزر کسی مجہول راوی پر سے ہو تو اس کی بھی توثیق کردیتے ہیں۔ اور کبھی آپ ان کو پائیں گے کہ وہ کہہ رہے ہوں گے: میں اسے نہيں جانتا، نہ اس کی باپ کو جانتا ہوں، نہ اس کے دادا کو جانتا ہوں لیکن پھر بھی اسے اپنی اس کتاب میں ذکر کردیں گے جس کا نام انہوں نے ’’کتاب الثقات‘‘ رکھا ہے۔ وہ کیسے ثقہ ہوسکتا ہے جبکہ آپ اسے جانتے ہی نہيں، نہ اس کے باپ کو نہ دادا کو؟! یہ تو مجہول ہوا۔ تو پھر کیا یہ تساہل نہیں؟ جی ہاں یہ تساہل میں شمار ہوگا۔
پہلی نوع ہم نے ذکرکردی ان میں سے امام ابن حبان رحمہ اللہ ہیں۔ اور یہ بات ان کے ان تراجم (سوانح) میں پائی جاتی ہے جو ان کی کتاب الثقات میں ہیں۔ جس وجہ سے ان کی توثیق کو ان کے تساہل کی وجہ سے محل نظر بنا دیا گیا۔ اور دوسری طرف یہ آئمہ عفان وابو نعیم رحمہما اللہ اور ان جیسے ہیں۔ جبکہ امام احمد رحمہ اللہ اور ان جیسے معتدلین میں سے ہیں۔ تو یہ باب ہے ضبط وحفظ کا باب۔ اس میں کہا جاتا ہےکہ فلاں معتدل ہے، متساہل ہے اور متشدد ہے۔ ہم نے ان میں سے کسی سے نہیں سنا کہ جس نے کبھی کہا ہو: فلاں جرح میں غلاۃ ہيں! یہ تو اس پندرہویں صدی کا گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔کسی نے نہیں کہا: غلاۃ التجریح۔ البتہ یہ کہا کہ: متشددین ہيں، اور یہ حق بات ہے۔جبکہ غلو تو مذموم ہے، یہ لفظ تو شرعا ًہی مذموم ہے۔چناچہ یہ لوگ ایک مذمت خود سے گڑھ کر اسے اہل سنت پر چسپاں کرنا چاہتے ہیں، لیکن ھیہات ھیہات(بہت بعید ہے یہ بات)! اللہ سبحانہ وتعالی ان کا پردہ چاک فرماتا رہے گا۔
جبکہ جو دوسری نوع ہے:وہ ہے جو ضبط روایت کے بارے میں حفظ سے متعلق معاملہ ہے اسے وہ ان پر لاگو کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو اس میں سے نہيں۔ اور یہ وہ بات ہے جس پر رجال کے متعلق جرح وتعدیل کے مکمل ہوجانے پر علماء سنت گامزن ہیں کہ انہی کی جرح وتعدیل کو لیتے ہيں۔
تو ہم آج جرح اور تعدیل کرتے ہيں لیکن اولین کے کلام ہی سے، اس بارے میں ہم ان سے الگ خود مستقل طور پر یہ نہیں کرسکتے، بلکہ انہی کا کلام جمع کرتے ہيں اگر اختلاف ہو ان میں اور پھر راجح قرار دیتے ہیں۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ آکر کسی کو ضعیف قرار دیں اور آپ آج آکر اپنی طرف سے اس کی توثیق کرلیں؟ نہیں۔ اگر آپ ان کی مخالفت کریں تو لازم ہےکہ اس کی بنیاد ان قواعد پر ہو اور آپ اس کی طرف رجوع کریں جس نے امام احمد کی اس میں مخالفت کی ہو۔ لہذا درحقیقت جرح وتعدیل باقی ہيں اس زاویے سے کہ ہم اسے استعمال کرتے ہيں جس کے ذریعے ہم روایات کو ضعیف قرار دیتے ہيں اور کہتے ہيں کہ فلاں معتدل ہے، فلاں متوسط ہے اور فلاں متشدد ہے۔ لیکن اس کی اصل ابتداء ہماری طرف سے نہیں ہوتی بلکہ ہم تو صرف ان اقوال ہی کی طرف دیکھتے ہيں جو اس بارے میں مدون کیے گئے۔ اور ان راویوں اور ان کے احوال کی تدوین تو ختم ہوچکی ہے۔ ہم تو بس ان کے اقوال ہی نقل کرتے ہيں، پھر اگر ان میں اختلاف ہوجائے توہم ان میں ترجیح دیتے ہيں ، جیسا کہ فقہی مسائل میں بھی ایسا کرتے ہيں کہ اگر علماء کرام میں اختلاف ہوجائے تو ہم معروف قواعد اور دلائل کی روشنی میں ان میں ترجیح دیتے ہیں۔
لیکن جہاں تک معاملہ ہے بدعت پر طعن کرنے کا تو وہ آج تک باقی ہے۔ اور یہی وہ ہے کہ جس کی وجہ سے علماء سنت امت کی خیرخواہی چاہتے ہوئے اور انہیں خبردار کرتے ہوئے اہل اہواء کے خلاف کلام کرتے ہیں۔ تو انہوں نے ضبط سے متعلق جو یہ کلام تھا اسے اٹھا کر بدعت سے متعلق طعن پر فٹ کردیا۔ راوی پر طعن کے کتنے اسباب ہیں، دس؟ پانچ کس سے متعلق ہیں؟ جواب دیں؟ پانچ ضبط سے متعلق ہيں ، اور پانچ عدالت سے متعلق ہیں۔ اور یہ جو انسان پر اس کی بدعت کی وجہ طعن کیا جاتا ہے وہ اس کی دینداری اور عدالت سے متعلق ہوتا ہے، پس یہ تاقیامت باقی رہے گا۔ (علماء کرام)عصر ِروایت سے ہی کہتے چلے آئے ہیں فلاں ثقہ ناصبی ہے، ثقہ خارجی ہے، ثقہ مرجئی ہے، ثقہ قدری ہے تو آپ ملاحظہ کریں ان کی توثیق ضبط کے زاویے سے ہے جبکہ طعن عدالت کے زاویے سے ہے۔ تو انہوں نے دونوں کو جمع کردیا۔ اس کے ضبط وحفظ میں تزکیہ دیا لیکن اس کی عدالت پر طعن کیا۔ کیونکہ بدعت کے باب میں ان کے یہاں وہ مخدوش تھا۔اور یہ اس لیے کیا گیا تاکہ راویوں کے اختلاف کی صورت میں اس روایت کے بارے میں جس کا راوی بدعت میں ملوث ہواستفادہ کیا جائے۔ اور اس بارے میں اختلاف معروف ہے کہ کیا اس سے مطلقاً روایت کی جائے گی یا مطلقاً نہیں کی جائے گی، یا پھر تفصیل کی جائے گی، اور یہ کلام تو معروف ہے۔ پس جو تفصیل کے قائل ہيں وہ کہتے ہيں اگر اس کی مروی روایت ایسی آئے جو اس کی بدعت کی موافقت میں ہو تو ہم اسے رد کردیں گے، لیکن اگر ایسی آئے جو اس کی بدعت کی موافقت میں نہ ہو، یا پھر ایسی آئے جو اس کی بدعت کی تائید میں نہ ہو تو ہم اسے قبول کرلیں گے۔ یعنی تہمت رفع ہوجائے گی تو بدعت ہونے کے باوجود اس کی اس جانب سے استفادہ کیا جائے گا۔ اسی لیے وہ کہتے تھے کہ ثقہ ناصبی ہے، ثقہ قدری ہے، ثقہ خارجی ہے اور اسی طرح باقی دوسرے۔
جبکہ جو دوسری نوع ہے:وہ ہے جو ضبط روایت کے بارے میں حفظ سے متعلق معاملہ ہے اسے وہ ان پر لاگو کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو اس میں سے نہيں۔ اور یہ وہ بات ہے جس پر رجال کے متعلق جرح وتعدیل کے مکمل ہوجانے پر علماء سنت گامزن ہیں کہ انہی کی جرح وتعدیل کو لیتے ہيں۔
تو ہم آج جرح اور تعدیل کرتے ہيں لیکن اولین کے کلام ہی سے، اس بارے میں ہم ان سے الگ خود مستقل طور پر یہ نہیں کرسکتے، بلکہ انہی کا کلام جمع کرتے ہيں اگر اختلاف ہو ان میں اور پھر راجح قرار دیتے ہیں۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ آکر کسی کو ضعیف قرار دیں اور آپ آج آکر اپنی طرف سے اس کی توثیق کرلیں؟ نہیں۔ اگر آپ ان کی مخالفت کریں تو لازم ہےکہ اس کی بنیاد ان قواعد پر ہو اور آپ اس کی طرف رجوع کریں جس نے امام احمد کی اس میں مخالفت کی ہو۔ لہذا درحقیقت جرح وتعدیل باقی ہيں اس زاویے سے کہ ہم اسے استعمال کرتے ہيں جس کے ذریعے ہم روایات کو ضعیف قرار دیتے ہيں اور کہتے ہيں کہ فلاں معتدل ہے، فلاں متوسط ہے اور فلاں متشدد ہے۔ لیکن اس کی اصل ابتداء ہماری طرف سے نہیں ہوتی بلکہ ہم تو صرف ان اقوال ہی کی طرف دیکھتے ہيں جو اس بارے میں مدون کیے گئے۔ اور ان راویوں اور ان کے احوال کی تدوین تو ختم ہوچکی ہے۔ ہم تو بس ان کے اقوال ہی نقل کرتے ہيں، پھر اگر ان میں اختلاف ہوجائے توہم ان میں ترجیح دیتے ہيں ، جیسا کہ فقہی مسائل میں بھی ایسا کرتے ہيں کہ اگر علماء کرام میں اختلاف ہوجائے تو ہم معروف قواعد اور دلائل کی روشنی میں ان میں ترجیح دیتے ہیں۔
لیکن جہاں تک معاملہ ہے بدعت پر طعن کرنے کا تو وہ آج تک باقی ہے۔ اور یہی وہ ہے کہ جس کی وجہ سے علماء سنت امت کی خیرخواہی چاہتے ہوئے اور انہیں خبردار کرتے ہوئے اہل اہواء کے خلاف کلام کرتے ہیں۔ تو انہوں نے ضبط سے متعلق جو یہ کلام تھا اسے اٹھا کر بدعت سے متعلق طعن پر فٹ کردیا۔ راوی پر طعن کے کتنے اسباب ہیں، دس؟ پانچ کس سے متعلق ہیں؟ جواب دیں؟ پانچ ضبط سے متعلق ہيں ، اور پانچ عدالت سے متعلق ہیں۔ اور یہ جو انسان پر اس کی بدعت کی وجہ طعن کیا جاتا ہے وہ اس کی دینداری اور عدالت سے متعلق ہوتا ہے، پس یہ تاقیامت باقی رہے گا۔ (علماء کرام)عصر ِروایت سے ہی کہتے چلے آئے ہیں فلاں ثقہ ناصبی ہے، ثقہ خارجی ہے، ثقہ مرجئی ہے، ثقہ قدری ہے تو آپ ملاحظہ کریں ان کی توثیق ضبط کے زاویے سے ہے جبکہ طعن عدالت کے زاویے سے ہے۔ تو انہوں نے دونوں کو جمع کردیا۔ اس کے ضبط وحفظ میں تزکیہ دیا لیکن اس کی عدالت پر طعن کیا۔ کیونکہ بدعت کے باب میں ان کے یہاں وہ مخدوش تھا۔اور یہ اس لیے کیا گیا تاکہ راویوں کے اختلاف کی صورت میں اس روایت کے بارے میں جس کا راوی بدعت میں ملوث ہواستفادہ کیا جائے۔ اور اس بارے میں اختلاف معروف ہے کہ کیا اس سے مطلقاً روایت کی جائے گی یا مطلقاً نہیں کی جائے گی، یا پھر تفصیل کی جائے گی، اور یہ کلام تو معروف ہے۔ پس جو تفصیل کے قائل ہيں وہ کہتے ہيں اگر اس کی مروی روایت ایسی آئے جو اس کی بدعت کی موافقت میں ہو تو ہم اسے رد کردیں گے، لیکن اگر ایسی آئے جو اس کی بدعت کی موافقت میں نہ ہو، یا پھر ایسی آئے جو اس کی بدعت کی تائید میں نہ ہو تو ہم اسے قبول کرلیں گے۔ یعنی تہمت رفع ہوجائے گی تو بدعت ہونے کے باوجود اس کی اس جانب سے استفادہ کیا جائے گا۔ اسی لیے وہ کہتے تھے کہ ثقہ ناصبی ہے، ثقہ قدری ہے، ثقہ خارجی ہے اور اسی طرح باقی دوسرے۔
شاہد یہ ہے کہ یہ ایک عظیم مصیبت ہے اس طرح کہ اس کی وجہ سے نوجوانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کیا جاتا ہے، طالبعلموں کی بھی اور عوام الناس کی بھی۔ یہ جو خبیث مقولہ ہےجو اس زمانے میں ظاہر ہوا ہے، جس کے منبع وایجاد کرنے والے یہی اہل اہواء وبدعت ہيں کہ جنہوں نے اسے موجودہ جدید احزاب میں پائے جانے والے بدعتیوں کے دفاع کےلیے کھڑا کیا ہے، تاکہ اس کے ذریعے سے نظروں کو ان کی عیب دیکھنے سے روک دیا جائے۔ لیکن الحمدللہ اہل حدیث وسنت واثر تمام لوگوں سے بڑھ کر ذہین وفطین ہيں، اور سب سے سچے بھی، اور سب سے شجاع وبہادر بھی، ساتھ ہی تمام لوگوں سے بڑھ کر لوگوں کے خیرخواہ ہیں لہذا ان میں یہ زہر سرایت نہیں ہوا۔ میرے عزیز نوجوانوں آپ کے اندر بھی یہ خبیث مقولہ سرایت نہ کرجائے۔ ان لوگوں کی جو اس سے مراد ہے اسے اچھی طرح سے سمجھ جاؤ ،اور انہوں نے صرف اسی لیے اسے کھڑا کیا ہے اور اس کا علم بلند کیا ہے تاکہ ان اہل بدعت کا دفاع کیا جاسکے جن کے ساتھ یہ لوگ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور صحبت اختیار کرتے ہیں، پھر اس کے بعد وہ اور یہ دونوں ایک ہی چیز بن کر رہ جاتےہيں اور یہ انہیں اٹھا کر سنت میں داخل کردیتے ہيں، اور ان پر اپنے اس خبیث مقولے سے تہمت لگاتے اور طعن کرتے ہیں جو ان سے تحذیر کرتے ہيں یہ کہتے ہوئے کہ یہ غلاۃ التجریح ہيں۔ ان سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہتا۔ ہم ان سے کہتے ہیں: ٹھیک ہے، لاؤ جس جس پر ہم نے طعن کیا ہے یا علماء سنت نے طعن کیا ہے، پھر لوگوں کو بیان کرو ہمارے طعن کرنے کا سبب؟ اگر تم واقعی سچے ہو، تو وضاحت کرو بیان کرو، کہو ان سے کہ فلاں پر طعن کیا ہے، مگر کیوں؟ کیونکہ بلاشبہ اس نے ایسا ایسا کہا تھا اس لیے۔ طعن کا سبب تو ذرا بیان کرو۔ اب یہ لوگ کیوں یہاں مطالبہ نہیں کرتے جرحِ مفسر کا؟ تفصیل کرو اب لوگوں کے لیے کہ ہم نے کیوں کہا ہے فلاں میں یہ یہ اور یہ بات ہے؟ کچھ اس کی رسوا کن باتیں تو بیان کریں کہ جنہیں اگر لوگ جان لیں تو ان پر کہنے والے کی یہ بات صادق آئے کہ:
مساوٍ لو قسمن على الغواني لما أمهرن إلا بالطلاق
(ایسی برائیاں ہيں کہ اگر انہیں خوبرو حسینائوں میں بھی تقسیم کردیا جائے، تو ان کا مہر سوائے طلاق کے کچھ نہ ہو)
اگر ان کی رسوا کن باتیں علماء سنت کی طرف سے امت کی عام عوام کے سامنے پڑھی جائیں ، صرف طالبعلم نہيں بلکہ عام عوام تک ان سے ایسے بھاگيں گے جیسے صحیح سالم شخص خارش زدہ سے بھاگتا ہے، اہل اہواء کا ناسور خارشی ناسور کی طرح ہی ہوتا ہے:
وما ينفع الجرباء قُربُ صحيحةٍ إليها ولكنَّ الصحيحة تُجْرَبُ.
(خارش زدہ کو صحیح سالم لوگوں کا قرب کوئی فائدہ نہيں دیتا، بلکہ صحیح لوگ بھی خارشی ہوجاتے ہیں)
ہم اللہ تعالی سے اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ کے وسیلے سے دعاء کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو ان اہل سنت اور ان کے داعیان میں سے کردے کہ جو اس پر ثابت قدم رہتے ہیں، اس کا دفاع کرتے ہيں، اس کی راہ میں جہاد کرتے ہيں، بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
وصلى الله وسلم وبارك على عبده ورسوله نبينا محمد، وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان.
مساوٍ لو قسمن على الغواني لما أمهرن إلا بالطلاق
(ایسی برائیاں ہيں کہ اگر انہیں خوبرو حسینائوں میں بھی تقسیم کردیا جائے، تو ان کا مہر سوائے طلاق کے کچھ نہ ہو)
اگر ان کی رسوا کن باتیں علماء سنت کی طرف سے امت کی عام عوام کے سامنے پڑھی جائیں ، صرف طالبعلم نہيں بلکہ عام عوام تک ان سے ایسے بھاگيں گے جیسے صحیح سالم شخص خارش زدہ سے بھاگتا ہے، اہل اہواء کا ناسور خارشی ناسور کی طرح ہی ہوتا ہے:
وما ينفع الجرباء قُربُ صحيحةٍ إليها ولكنَّ الصحيحة تُجْرَبُ.
(خارش زدہ کو صحیح سالم لوگوں کا قرب کوئی فائدہ نہيں دیتا، بلکہ صحیح لوگ بھی خارشی ہوجاتے ہیں)
ہم اللہ تعالی سے اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ کے وسیلے سے دعاء کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو ان اہل سنت اور ان کے داعیان میں سے کردے کہ جو اس پر ثابت قدم رہتے ہیں، اس کا دفاع کرتے ہيں، اس کی راہ میں جہاد کرتے ہيں، بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
وصلى الله وسلم وبارك على عبده ورسوله نبينا محمد، وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان.
لیکن آج یہ چاہتے ہيں اِس بات کو اٹھا کر اُس بات پر فٹ کردیں۔ اللہ کی قسم! یہ جھوٹ بولتے ہیں، ہمارے اور ان کے درمیان کتب سنت وکتب تاریخ ہیں، ہمارے اور ان کے درمیان کتب اعتقاد ہیں، اگر وہ ایک حرف بھی پالیں ان میں کہ آئمہ ہدایت نے اِس والی جانب کو اُس والی جانب پر لاگو کردیا ہو تو ہمارے سامنے پیش کریں۔تمام اہل سنت کا بدعت کے زاویے سے جو طعن ہوتا ہے اس بارے میں اتفاق ہے کہ اہل بدعت سےہجر (بائیکاٹ) کیا جائے، ان سے دور رہا جائے، ان سے تحذیر(خبردار) کیا جائے، ان کو معیوب وحقیر سمجھا جائے، انہیں چھوڑ دیا جائے، اور ان کی مجالس سے متنفر کیا جائے، وہ سب کے سب اس بارے میں متفق تھے۔ کسی نے بھی کبھی اس میں اختلاف نہيں کیا۔ لیکن آج اس خبیث، بے تکے، ظالمانہ ومجرمانہ مقولے کے ذریعے یہ چاہتے ہيں کہ ان علماء سنت سے لوگوں کو متنفر کریں جو امت کے اہل اہواء وبدعت کے مقابلے میں خیرخواہ ہيں۔ میں ان کو کہتا ہوں کہ بہت بعید ہے باذن اللہ کے تم اس غرض کو پاسکو۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھیں، جب صبیغ کو ان کے پاس لایا گیا تو انہوں نے اسے خوب مارا پیٹا، کیا آپ رضی اللہ عنہ غلاۃ میں سے تھے؟! اور جب اسے جلاوطن کردیا اور وہ بصرہ، عراق چلا گیا ، تب بھی اپنے گورنر کو وہاں لکھا، کون تھے؟ سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ، ان سے فرمایا کہ: لوگ اس کے ساتھ نہ بیٹھیں، پس کیا ان لوگوں کے مذہب کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ بھی غلاۃ التجریح تھے؟! ہاں، پھر یہاں تک کہ اس نے توبہ کی اور اس کی سچی توبہ رہی، تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو سب لکھ بھیجا ، پھر کہیں جاکر انہوں نے لوگوں کو اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی اجازت دی۔
امام سفیان الثوری رحمہ اللہ اہل بصرہ کے پاس آئے اور ان سے الربیع بن صبیح کے متعلق دریافت کیا اور پوچھا کہ وہ کن کے ساتھ بیٹھتا ہے؟ لوگوں نے کہا: اس کا معاملہ تو سوائے سنت کے کچھ نہیں (یعنی ہم تو اسے سنت پر ہی جانتے ہیں) آپ نے پھر فرمایا: بس یہ بتاؤ کہ وہ بیٹھتا کس کے ساتھ ہے؟ لوگوں نے کہا: قدریہ کے ساتھ۔ آپ نے فرمایا: تو وہ بھی قدری ہے۔ تو کیا امام سفیان الثوری غلاۃ التجریح میں سے تھے! چلیں آگے بڑھتے ہيں کیونکہ یہ بتانے کا مقصد بعض مثالیں ہيں ناکہ سب کو جمع کرنا (ورنہ تو اتنی مثالیں ہیں کہ بات طویل ہوجائے گی)۔
امام احمد رحمہ اللہ کو دیکھیں، (پوچھا گیا):
’’اے ابا عبداللہ! میں اہل سنت میں سے کسی شخص کو دیکھوں کہ وہ اہل بدعت میں سے کسی کے ساتھ چل رہا ہے، کیا میں اس سے ہجر کروں؟ فرمایا: یا ایسا کرو کہ پہلے اسے خبردار کردو، پھر اس کے بعد بھی اگر اسے اس کے ساتھ چلتا دیکھو، تو اسے بھی اسی کے ساتھ ملا لو (یعنی وہ بھی انہی میں سے ہے)‘‘۔
کیا امام احمد رحمہ اللہ غلاۃ التجریح میں سے تھے؟! ماشاء اللہ۔
تمام اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ اہل بدعت سے تحذیر کی جائے اور ان سے متنفر کیا جائے، ان کو معیوب وحقیر سمجھا جائے، ان کی مجالس سے تحذیر کرنا بلکہ ان سے بھی جو ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں، تو پھر اس کا کیا کہنا کہ جو الٹا ان کے لیے عذر تراشے، اور اس کا کیا کہنا کہ جو ان کا دفاع کرتا پھرے، اور اس سے بھی بڑھ کر اس کا کیا کہنا کہ جو اس کی وجہ سے علماء سنت پر طعن کرے! وہ انہی میں سے اگرچہ اعتراض کرنے والے کتنا ہی برا کیوں نہ مانیں(یہی حقیقت ہے)۔ ہمارے اور ان کے درمیان سنن وعقائد کی کتب ہيں، کتب رجال ہیں اور یہ رہا گھوڑا اور وہ رہا میدان(آجاؤ)۔
چناچہ احباب کرام کہیں یہ آپ پر معاملہ ملتبس نہ کرلیں کہ اہل سنت پر ان تہمتوں کے ساتھ زبان طعن دراز کریں، جو کہ بالکل گھٹیا اور ایسا طعن ہے کہ جس کا باطل ہونا واضح ہے۔ لیکن صد افسوس یہ بعض ان لوگوں تک میں سرایت کرگیا ہے جو سنت کی طرف منسوب ہوتے ہيں، تو ان کی حالت طوطوں جیسی ہوکر رہ گئی ہے کہ جو کہا جاتا ہے بس اسے بلاسوچے سمجھے رٹے چلے جاتے ہيں، لیکن پھر بھی کوئی طویل جملہ کہنے کی سکت نہيں، بس اکا دکا کلمات، تو وہ اسی کلمے کو طوطوں کی طرح رٹے جاتا ہے، لیکن اس میدان میں وہ اس کے ساتھ نہيں چل سکتا (مقابلہ نہيں کرسکتا) کیونکہ یہ اس کا میدان ہی نہيں، اسے صحیح طور پر سمجھنے سے ہی قاصر ہے اس کی پوری معرفت تو دور کی بات رہی۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھیں، جب صبیغ کو ان کے پاس لایا گیا تو انہوں نے اسے خوب مارا پیٹا، کیا آپ رضی اللہ عنہ غلاۃ میں سے تھے؟! اور جب اسے جلاوطن کردیا اور وہ بصرہ، عراق چلا گیا ، تب بھی اپنے گورنر کو وہاں لکھا، کون تھے؟ سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ، ان سے فرمایا کہ: لوگ اس کے ساتھ نہ بیٹھیں، پس کیا ان لوگوں کے مذہب کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ بھی غلاۃ التجریح تھے؟! ہاں، پھر یہاں تک کہ اس نے توبہ کی اور اس کی سچی توبہ رہی، تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو سب لکھ بھیجا ، پھر کہیں جاکر انہوں نے لوگوں کو اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی اجازت دی۔
امام سفیان الثوری رحمہ اللہ اہل بصرہ کے پاس آئے اور ان سے الربیع بن صبیح کے متعلق دریافت کیا اور پوچھا کہ وہ کن کے ساتھ بیٹھتا ہے؟ لوگوں نے کہا: اس کا معاملہ تو سوائے سنت کے کچھ نہیں (یعنی ہم تو اسے سنت پر ہی جانتے ہیں) آپ نے پھر فرمایا: بس یہ بتاؤ کہ وہ بیٹھتا کس کے ساتھ ہے؟ لوگوں نے کہا: قدریہ کے ساتھ۔ آپ نے فرمایا: تو وہ بھی قدری ہے۔ تو کیا امام سفیان الثوری غلاۃ التجریح میں سے تھے! چلیں آگے بڑھتے ہيں کیونکہ یہ بتانے کا مقصد بعض مثالیں ہيں ناکہ سب کو جمع کرنا (ورنہ تو اتنی مثالیں ہیں کہ بات طویل ہوجائے گی)۔
امام احمد رحمہ اللہ کو دیکھیں، (پوچھا گیا):
’’اے ابا عبداللہ! میں اہل سنت میں سے کسی شخص کو دیکھوں کہ وہ اہل بدعت میں سے کسی کے ساتھ چل رہا ہے، کیا میں اس سے ہجر کروں؟ فرمایا: یا ایسا کرو کہ پہلے اسے خبردار کردو، پھر اس کے بعد بھی اگر اسے اس کے ساتھ چلتا دیکھو، تو اسے بھی اسی کے ساتھ ملا لو (یعنی وہ بھی انہی میں سے ہے)‘‘۔
کیا امام احمد رحمہ اللہ غلاۃ التجریح میں سے تھے؟! ماشاء اللہ۔
تمام اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ اہل بدعت سے تحذیر کی جائے اور ان سے متنفر کیا جائے، ان کو معیوب وحقیر سمجھا جائے، ان کی مجالس سے تحذیر کرنا بلکہ ان سے بھی جو ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں، تو پھر اس کا کیا کہنا کہ جو الٹا ان کے لیے عذر تراشے، اور اس کا کیا کہنا کہ جو ان کا دفاع کرتا پھرے، اور اس سے بھی بڑھ کر اس کا کیا کہنا کہ جو اس کی وجہ سے علماء سنت پر طعن کرے! وہ انہی میں سے اگرچہ اعتراض کرنے والے کتنا ہی برا کیوں نہ مانیں(یہی حقیقت ہے)۔ ہمارے اور ان کے درمیان سنن وعقائد کی کتب ہيں، کتب رجال ہیں اور یہ رہا گھوڑا اور وہ رہا میدان(آجاؤ)۔
چناچہ احباب کرام کہیں یہ آپ پر معاملہ ملتبس نہ کرلیں کہ اہل سنت پر ان تہمتوں کے ساتھ زبان طعن دراز کریں، جو کہ بالکل گھٹیا اور ایسا طعن ہے کہ جس کا باطل ہونا واضح ہے۔ لیکن صد افسوس یہ بعض ان لوگوں تک میں سرایت کرگیا ہے جو سنت کی طرف منسوب ہوتے ہيں، تو ان کی حالت طوطوں جیسی ہوکر رہ گئی ہے کہ جو کہا جاتا ہے بس اسے بلاسوچے سمجھے رٹے چلے جاتے ہيں، لیکن پھر بھی کوئی طویل جملہ کہنے کی سکت نہيں، بس اکا دکا کلمات، تو وہ اسی کلمے کو طوطوں کی طرح رٹے جاتا ہے، لیکن اس میدان میں وہ اس کے ساتھ نہيں چل سکتا (مقابلہ نہيں کرسکتا) کیونکہ یہ اس کا میدان ہی نہيں، اسے صحیح طور پر سمجھنے سے ہی قاصر ہے اس کی پوری معرفت تو دور کی بات رہی۔
[Urdu Article] Doesn't Shaykh Saaleh #Al_Fawzaan (hafidaullaah) hold that misguided individuals and groups should be disparaged and refuted?
کیا شیخ صالح #الفوزان حفظہ اللہ گمراہ لوگوں کی جرح ونقد وردکے قائل نہیں؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وجۂ نشر
بعض حزبیات اور سلفی منہج سے منحرف مناہج کے حاملین اور ان کا دفاع کرنے والے کچھ عرصے سے شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بعض فتاویٰ سے یہ باور کروانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ فی زمانہ جرح وتعدیل کے قائل نہيں اور جو علماء، طلبہ اور داعیان خصوصاً شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ وغیرہ یہ کام کرتے ہيں ان کے اس عمل کو محض غیبت اور چغلی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جو شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بہت سے منہجی فتاویٰ جس میں ان کی حزبیات اور شخصیات کا رد ہوتا ہے نہیں لیتے، مگر چونکہ اہواء پرستی کا شکار ہيں تو اپنے مطلب کے فتاویٰ نشر کرتے ہیں، مگر وہ بھی اپنے غلط مفہوم کے مطابق۔ لہذا ہم یہ ثابت کریں گے شیخ حفظہ اللہ اور دیگر علماء کرام کے کلام سے جس مقصد کے لیے اس قسم کے افراد ایسی باتيں نکالتے ہیں کہ ’’غلطیوں اور غلط مناہج اور شخصیات کا رد نہ کیا جائے‘‘ اس کے تو شیخ الفوزان حفظہ اللہ نہ صرف قائل ہيں بلکہ فاعل ہيں۔لہذا ان حزبیوں کا جو مقصود تھا وہ تو پھر بھی حاصل نہ ہوا!
ان شاء اللہ ہم خود شیخ کے اور دیگر علماء کرام کے کلام سے ان فتاویٰ کی بہترین توجیہ ووضاحت کریں گے جو اس ضمن میں پیش کیے جاتے ہیں، اللہ تعالی ہی سے توفیق اور راست بازی کا سوال ہے۔
فی زمانہ جرح وتعدیل کے بارے میں شیخ حفظہ اللہ کے بعض وہ فتاوی ٰجس سے مخالفین استدلال کرتے ہیں
ان فتاویٰ سے ثابت ہونے والے بعض نکات اور وضاحت
شیخ حفظہ اللہ کا جائز وناجائز تجسس میں فرق کرنا
کیا جرح وتعدیل کا زمانہ ختم ہوچکا ہے؟
مختلف علماء کرام کا مختصر کلام
کلمۂ حق سے کہیں باطل مراد نہ لے لی جائے، اس وجہ سے بھی علماء کرام فتاویٰ میں احتیاط کرتے ہيں
جس عالم نے کہا جرح وتعدیل اس دور میں ختم ہوچکا ہے، ان کے کلام کی صحیح تشریح ایک عالم کی زبانی
منہج جرح وتعدیل تاقیامت ختم نہيں ہوسکتا!
خود علم الاسناد اور روایت ِحدیث کے ماہرین علماء کا قول اس بارے میں دیکھا جائے
جرح وتعدیل کے بارے میں حزبیوں کا عجیب تضاد!
اگر محض بات ’’جرح ‘‘ کے بجائے ’’نقد ‘‘ کا لفظ استعمال کرنے ہی کی ہے تو ۔۔ ۔!
شیخ صالح الفوزا نحفظہ اللہ کے کلام کو غلط مفہوم دے کر شیخ ربیع حفظہ اللہ کے خلاف استعمال کرنا
حزبیوں کے لیے ایک اور لمحۂ فکریہ!
شیخ فوزان حفظہ اللہ ہر قسم کے گمراہ داعیان کے رد وتحذیر کے قائل ہیں
ردود اہل علم ومعرفت کی طرف سے ہوں اور اسے عوام تک میں نشر کرنا ضروری ہے
شیخ حفظہ اللہ حرام اور جائز غیبت میں فرق کرتے ہیں
صحیح سلفی ردود سے بیزاری دکھانے والے جھوٹی پرہیزگاری میں مبتلا ہیں
جرح اور مخالفین پر رد کے مقاصد مشترکہ ہیں
زیادہ مشہور اور عوام میں مقبول شخصیات کی غلطی کا رد اور بھی زیادہ ضروری ہے
اگر حالات متقاضی ہوں تو نام لے کر بھی رد کیا جاسکتا ہے
کیا منہج سلف کے مخالف مناہج اور ان کے داعیان سے خبردار کرنا مسلمانوں میں تفرقہ مچانے میں شمار ہوگا؟
کیا حزبیت کے خلاف خبردار کرنا ضروری ہے؟
کیا بدعتیوں اور حزبیوں سے خبردار کرنے میں کوئی حرج ہے؟
منہج موازنات کا رد
بہت سے حزبی بھی سلفیت کے جھوٹے دعویدار ہوسکتے ہیں
اہل بدعت اور گمراہوں کی کیسٹیں سننا یا کتب پڑھنا جائز نہيں
حزبی کتابوں اور جماعتوں کی غلطیوں کا رد کرنا داعیان کی عزت اچھالنا شمار نہیں ہوگا
اور شیخ حفظہ اللہ کی کتاب میں مشہور داعیان کا نام لے کر رد ہے
شیخ خود محدثین کا راویوں پر نام لے کر جرح کرنے کو دلیل بناتے ہيں کہ مخالفین کا رد کرنا چاہیے، اور یہ شخصیات سے ذاتی دشمنی نہيں بلکہ دین کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے
مخالف مناہج اور ان کے داعیان سے تحذیر امت میں تفرقے کا نہيں بلکہ کلمے کے جمع ہونے کا سبب ہے
جو کوئی سلفی منہج کے اصول کی مخالفت کرتے ہيں اور اپنی جماعتوں کے بڑوں اور بانیوں کی تعریف وحمایت کرتے ہيں وہ انہی میں سے ہیں نصیحت قبول نہ کرنےکی صورت میں ان کا بائیکاٹ کیا جائے
معتبر اور غیر معتبر علماء میں عقیدہ ومنہج کے اعتبار سے فرق وامتیاز کرنا
علماء کا کسی جماعت پر رد کردینے پر ان کے حامیان کا یہ کہنا کہ ہم نے یہ باتیں ان میں نہيں دیکھیں!
ایسے مدرس کا رد جو سید قطب کی کتب پڑھنے کا کہتا ہے اور اس پر رد کرنے والوں کو برا کہتا ہے
یوسف قرضاوی وغیرہ کا نام لے کر رد، یہ حجت کے ان سے نفع بھی ہوا ہے ان کے رد میں مانع نہیں
محمد عبدہ مصری کا رد
کیا شیخ صالح #الفوزان حفظہ اللہ گمراہ لوگوں کی جرح ونقد وردکے قائل نہیں؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وجۂ نشر
بعض حزبیات اور سلفی منہج سے منحرف مناہج کے حاملین اور ان کا دفاع کرنے والے کچھ عرصے سے شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بعض فتاویٰ سے یہ باور کروانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ فی زمانہ جرح وتعدیل کے قائل نہيں اور جو علماء، طلبہ اور داعیان خصوصاً شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ وغیرہ یہ کام کرتے ہيں ان کے اس عمل کو محض غیبت اور چغلی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جو شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بہت سے منہجی فتاویٰ جس میں ان کی حزبیات اور شخصیات کا رد ہوتا ہے نہیں لیتے، مگر چونکہ اہواء پرستی کا شکار ہيں تو اپنے مطلب کے فتاویٰ نشر کرتے ہیں، مگر وہ بھی اپنے غلط مفہوم کے مطابق۔ لہذا ہم یہ ثابت کریں گے شیخ حفظہ اللہ اور دیگر علماء کرام کے کلام سے جس مقصد کے لیے اس قسم کے افراد ایسی باتيں نکالتے ہیں کہ ’’غلطیوں اور غلط مناہج اور شخصیات کا رد نہ کیا جائے‘‘ اس کے تو شیخ الفوزان حفظہ اللہ نہ صرف قائل ہيں بلکہ فاعل ہيں۔لہذا ان حزبیوں کا جو مقصود تھا وہ تو پھر بھی حاصل نہ ہوا!
ان شاء اللہ ہم خود شیخ کے اور دیگر علماء کرام کے کلام سے ان فتاویٰ کی بہترین توجیہ ووضاحت کریں گے جو اس ضمن میں پیش کیے جاتے ہیں، اللہ تعالی ہی سے توفیق اور راست بازی کا سوال ہے۔
فی زمانہ جرح وتعدیل کے بارے میں شیخ حفظہ اللہ کے بعض وہ فتاوی ٰجس سے مخالفین استدلال کرتے ہیں
ان فتاویٰ سے ثابت ہونے والے بعض نکات اور وضاحت
شیخ حفظہ اللہ کا جائز وناجائز تجسس میں فرق کرنا
کیا جرح وتعدیل کا زمانہ ختم ہوچکا ہے؟
مختلف علماء کرام کا مختصر کلام
کلمۂ حق سے کہیں باطل مراد نہ لے لی جائے، اس وجہ سے بھی علماء کرام فتاویٰ میں احتیاط کرتے ہيں
جس عالم نے کہا جرح وتعدیل اس دور میں ختم ہوچکا ہے، ان کے کلام کی صحیح تشریح ایک عالم کی زبانی
منہج جرح وتعدیل تاقیامت ختم نہيں ہوسکتا!
خود علم الاسناد اور روایت ِحدیث کے ماہرین علماء کا قول اس بارے میں دیکھا جائے
جرح وتعدیل کے بارے میں حزبیوں کا عجیب تضاد!
اگر محض بات ’’جرح ‘‘ کے بجائے ’’نقد ‘‘ کا لفظ استعمال کرنے ہی کی ہے تو ۔۔ ۔!
شیخ صالح الفوزا نحفظہ اللہ کے کلام کو غلط مفہوم دے کر شیخ ربیع حفظہ اللہ کے خلاف استعمال کرنا
حزبیوں کے لیے ایک اور لمحۂ فکریہ!
شیخ فوزان حفظہ اللہ ہر قسم کے گمراہ داعیان کے رد وتحذیر کے قائل ہیں
ردود اہل علم ومعرفت کی طرف سے ہوں اور اسے عوام تک میں نشر کرنا ضروری ہے
شیخ حفظہ اللہ حرام اور جائز غیبت میں فرق کرتے ہیں
صحیح سلفی ردود سے بیزاری دکھانے والے جھوٹی پرہیزگاری میں مبتلا ہیں
جرح اور مخالفین پر رد کے مقاصد مشترکہ ہیں
زیادہ مشہور اور عوام میں مقبول شخصیات کی غلطی کا رد اور بھی زیادہ ضروری ہے
اگر حالات متقاضی ہوں تو نام لے کر بھی رد کیا جاسکتا ہے
کیا منہج سلف کے مخالف مناہج اور ان کے داعیان سے خبردار کرنا مسلمانوں میں تفرقہ مچانے میں شمار ہوگا؟
کیا حزبیت کے خلاف خبردار کرنا ضروری ہے؟
کیا بدعتیوں اور حزبیوں سے خبردار کرنے میں کوئی حرج ہے؟
منہج موازنات کا رد
بہت سے حزبی بھی سلفیت کے جھوٹے دعویدار ہوسکتے ہیں
اہل بدعت اور گمراہوں کی کیسٹیں سننا یا کتب پڑھنا جائز نہيں
حزبی کتابوں اور جماعتوں کی غلطیوں کا رد کرنا داعیان کی عزت اچھالنا شمار نہیں ہوگا
اور شیخ حفظہ اللہ کی کتاب میں مشہور داعیان کا نام لے کر رد ہے
شیخ خود محدثین کا راویوں پر نام لے کر جرح کرنے کو دلیل بناتے ہيں کہ مخالفین کا رد کرنا چاہیے، اور یہ شخصیات سے ذاتی دشمنی نہيں بلکہ دین کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے
مخالف مناہج اور ان کے داعیان سے تحذیر امت میں تفرقے کا نہيں بلکہ کلمے کے جمع ہونے کا سبب ہے
جو کوئی سلفی منہج کے اصول کی مخالفت کرتے ہيں اور اپنی جماعتوں کے بڑوں اور بانیوں کی تعریف وحمایت کرتے ہيں وہ انہی میں سے ہیں نصیحت قبول نہ کرنےکی صورت میں ان کا بائیکاٹ کیا جائے
معتبر اور غیر معتبر علماء میں عقیدہ ومنہج کے اعتبار سے فرق وامتیاز کرنا
علماء کا کسی جماعت پر رد کردینے پر ان کے حامیان کا یہ کہنا کہ ہم نے یہ باتیں ان میں نہيں دیکھیں!
ایسے مدرس کا رد جو سید قطب کی کتب پڑھنے کا کہتا ہے اور اس پر رد کرنے والوں کو برا کہتا ہے
یوسف قرضاوی وغیرہ کا نام لے کر رد، یہ حجت کے ان سے نفع بھی ہوا ہے ان کے رد میں مانع نہیں
محمد عبدہ مصری کا رد
عقیدہ ومنہج میں گمراہ لوگوں کا ان کی بھلائیوں کے ساتھ بلاموازنہ رد کرنا
اہل بدعت اور گمراہ مناہج والوں سے اور ان کی کتب وکیسٹوں سے دور رہا جائے اور ایسوں کے پاس نہ پڑھا جائے
بیان میں تاثیر ہونے کے باوجود گمراہ مناہج والوں سے اجتناب کیا جائے
علماء کی بھی غلطی پر اسے باہمی چشمک قرار دے کر خاموش رہنا جائز نہيں
کس قسم کے ردود کی شیخ حوصلہ شکنی کرتے ہيں اور کس قسم کے ردود کی حمایت کرتے ہیں
اہل باطل کا رد کرتے رہنے سے دل سخت نہیں ہوتے بلکہ ان کا رد نہ کرنے سے دل سخت ہوجاتے ہیں!
افکار اور صاحب افکار دونوں کا رد مطلوب ہے
اہل باطل کا رد نہ کرنا مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑی دھوکہ بازی ہے
عوامی جذبات کا خیال رکھنے کے بہانے غلطی اور باطل کا رد نہیں چھوڑا جاسکتا
اپنی پسندیدہ شخصیات کے رد ہونے سے راضی نہ ہونا ایک معیوب منہج ہے
ضرورت کے تحت نام لے کر رد کرنے کی تائید فرمانا
منحرف داعیان کا رد ان کی عزت اچھالنا یا شخصیت کو مسخ کرنا وتجریح نہیں بلکہ امت کی خیرخواہی ہے
یہ باطل فکر ہےکہ تمام افکار وفرقوں کا احترام کیا جائے کسی کا رد نہ ہو
شخصیات اور جماعتوں کی غلطیوں کا رد کرنے سے فتنہ نہیں ہوتا بلکہ رد نہ کرنے سے ہوتا ہے
بدعات جس کے پاس ہوں گی اس کا رد ہوگا، اگرچہ وہ کافروں کو ہی کیوں نہ دعوت دیتا ہو
اہل اہواء کا رد کرنے کو وقت کا ضیاع کہنے والا شخص خود ایک ضیاع ہے!
بلکہ شیخ جن علماء کے بارے میں کلام کرنے سے منع کرتے ہیں وہ وہی ہیں جنہیں حزبی لوگ شیخ حفظہ اللہ کے رد کا مصداق باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں!
کیا شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ مشایخ ِمدینہ کے منہج ِرد کی تائید نہیں فرماتے؟
شیخ حفظہ اللہ مشہور گمراہ داعیان کے نام لے کر رد کی تائید فرماتے ہیں
آپ کسی داعی کی غلطیاں جمع کرکے ان پررد کرنے کے منہج کو اگر حق بیان کرنا اور باطل سے تحذیر مقصود ہو سراہتے ہيں
علمی ردود کے فوائد اور ترک کرنے کے نقصانات
تفصیل جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/kiya_sh_fawzaan_gumrah_logo_jarh_qail_nahi.pdf
اہل بدعت اور گمراہ مناہج والوں سے اور ان کی کتب وکیسٹوں سے دور رہا جائے اور ایسوں کے پاس نہ پڑھا جائے
بیان میں تاثیر ہونے کے باوجود گمراہ مناہج والوں سے اجتناب کیا جائے
علماء کی بھی غلطی پر اسے باہمی چشمک قرار دے کر خاموش رہنا جائز نہيں
کس قسم کے ردود کی شیخ حوصلہ شکنی کرتے ہيں اور کس قسم کے ردود کی حمایت کرتے ہیں
اہل باطل کا رد کرتے رہنے سے دل سخت نہیں ہوتے بلکہ ان کا رد نہ کرنے سے دل سخت ہوجاتے ہیں!
افکار اور صاحب افکار دونوں کا رد مطلوب ہے
اہل باطل کا رد نہ کرنا مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑی دھوکہ بازی ہے
عوامی جذبات کا خیال رکھنے کے بہانے غلطی اور باطل کا رد نہیں چھوڑا جاسکتا
اپنی پسندیدہ شخصیات کے رد ہونے سے راضی نہ ہونا ایک معیوب منہج ہے
ضرورت کے تحت نام لے کر رد کرنے کی تائید فرمانا
منحرف داعیان کا رد ان کی عزت اچھالنا یا شخصیت کو مسخ کرنا وتجریح نہیں بلکہ امت کی خیرخواہی ہے
یہ باطل فکر ہےکہ تمام افکار وفرقوں کا احترام کیا جائے کسی کا رد نہ ہو
شخصیات اور جماعتوں کی غلطیوں کا رد کرنے سے فتنہ نہیں ہوتا بلکہ رد نہ کرنے سے ہوتا ہے
بدعات جس کے پاس ہوں گی اس کا رد ہوگا، اگرچہ وہ کافروں کو ہی کیوں نہ دعوت دیتا ہو
اہل اہواء کا رد کرنے کو وقت کا ضیاع کہنے والا شخص خود ایک ضیاع ہے!
بلکہ شیخ جن علماء کے بارے میں کلام کرنے سے منع کرتے ہیں وہ وہی ہیں جنہیں حزبی لوگ شیخ حفظہ اللہ کے رد کا مصداق باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں!
کیا شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ مشایخ ِمدینہ کے منہج ِرد کی تائید نہیں فرماتے؟
شیخ حفظہ اللہ مشہور گمراہ داعیان کے نام لے کر رد کی تائید فرماتے ہیں
آپ کسی داعی کی غلطیاں جمع کرکے ان پررد کرنے کے منہج کو اگر حق بیان کرنا اور باطل سے تحذیر مقصود ہو سراہتے ہيں
علمی ردود کے فوائد اور ترک کرنے کے نقصانات
تفصیل جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/kiya_sh_fawzaan_gumrah_logo_jarh_qail_nahi.pdf
[Urdu Article] Does Shaykh Al-Fawzaan (hafidaullaah) not support the scholars of Madeenah in their Manhaj of refuting?
کیا شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ مشایخ ِمدینہ کے منہج ِرد کی تائید نہیں فرماتے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة س 101.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/fawzaan_madeenah_ulamaa_manhaj_radd_taeed.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ہم امید کرتے ہيں کہ آپ ہمارے لیے مدینہ کے علماء کے تعلق سےاپنے قول کی وضاحت فرمائیں ، یعنی ان (علماء) کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو سلفی کہلاتے ہیں، کیا وہ جو کررہے ہيں اس میں صواب راہ پر ہیں، ہمارے لیے اس مسئلے میں حق کی وضاحت فرمائيں؟
جواب: مدینہ کے علماء ([1])کے بارے میں میں خیر کے سوا کچھ نہيں جانتا۔اور ان کا ارادہ محض نصیحت وخیرخواہی کی غرض سے لوگوں کے سامنے بعض مؤلفین یا بعض اشخاص کی ان غلطیوں کا ذکر ہوتا ہے جس میں وہ واقع ہوئے۔ وہ کسی پر جھوٹ نہيں بولتے، بلکہ وہ تو صرف انہی کا کلام باقاعدہ تصدیق شدہ منصوص ذکر کرتے ہيں فلاں صفحہ، فلاں جزء اور فلاں سطر پر، آپ جاکر اس حوالے کو چیک کرسکتے ہيں۔ اگر وہ جھوٹ بولتے ہيں اس میں تو ہمارے سامنے آپ اس کو ثابت کریں جزاکم اللہ خیراً، ہم تو کبھی بھی جھوٹ سے راضی نہیں ہوتے۔ آپ جائیں ان کتابوں کی طرف مراجع کریں جن پر انہوں نے تنقید کی ہے، میرے سامنے ایک بھی نقل لے کر آئیں کہ جس میں انہوں نے جھوٹ بہتان لگایا ہو یا کوئی تقصیر کی ہو تو پھر میں بھی اس میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔
لیکن یہ چاہنا کہ لوگوں سے کہیں: بس چپ ہوجاؤ، باطل کو یونہی چھوڑ دو، اس پر رد نہ کرو، وضاحت وبیان نہ کرو، تو یہ بات صحیح نہیں ہے۔ یہ تو کتمانِ حق ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی تو فرماتے ہیں:
﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ﴾ (آل عمران: 187)
(اور جب اللہ تعالی نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے)
اور فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 159)
(بےشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے نازل فرمایا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ تعالی لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں)
ہم غلطیاں دیکھیں اور چپ بیٹھے رہیں، اور لوگوں کو یونہی سرگرداں چھوڑ دیں؟ نہيں، ایسا کبھی بھی جائز نہيں ہوسکتا۔ بلکہ واجب ہے کہ باطل سے حق کو علیحدہ کرکے بیان کیا جائے، خواہ جو راضی ہو سو ہو، ناراض ہو سو ہو۔
[1] اس سے مقصود یہ تمام مشایخ ہیں: شیخ محمد امان الجامی رحمہ اللہ، ربیع بن ہادی المدخلی، عبید الجابری، علی الفقہی، صالح السحیمی اور محمد بن ہادی حفظہم اللہ، جن کا اللہ تعالی کے بعد بہت بڑا احسان ہے کہ وہ سبب بنے بہت سے طلاب علم کو فرقہ اخوان المسلمین کے بارے میں بصیرت دینے کا، اور ان کے بڑوں پر یہاں وہاں رد کرنے کا۔ (الحارثی)
کیا شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ مشایخ ِمدینہ کے منہج ِرد کی تائید نہیں فرماتے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة س 101.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/fawzaan_madeenah_ulamaa_manhaj_radd_taeed.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ہم امید کرتے ہيں کہ آپ ہمارے لیے مدینہ کے علماء کے تعلق سےاپنے قول کی وضاحت فرمائیں ، یعنی ان (علماء) کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو سلفی کہلاتے ہیں، کیا وہ جو کررہے ہيں اس میں صواب راہ پر ہیں، ہمارے لیے اس مسئلے میں حق کی وضاحت فرمائيں؟
جواب: مدینہ کے علماء ([1])کے بارے میں میں خیر کے سوا کچھ نہيں جانتا۔اور ان کا ارادہ محض نصیحت وخیرخواہی کی غرض سے لوگوں کے سامنے بعض مؤلفین یا بعض اشخاص کی ان غلطیوں کا ذکر ہوتا ہے جس میں وہ واقع ہوئے۔ وہ کسی پر جھوٹ نہيں بولتے، بلکہ وہ تو صرف انہی کا کلام باقاعدہ تصدیق شدہ منصوص ذکر کرتے ہيں فلاں صفحہ، فلاں جزء اور فلاں سطر پر، آپ جاکر اس حوالے کو چیک کرسکتے ہيں۔ اگر وہ جھوٹ بولتے ہيں اس میں تو ہمارے سامنے آپ اس کو ثابت کریں جزاکم اللہ خیراً، ہم تو کبھی بھی جھوٹ سے راضی نہیں ہوتے۔ آپ جائیں ان کتابوں کی طرف مراجع کریں جن پر انہوں نے تنقید کی ہے، میرے سامنے ایک بھی نقل لے کر آئیں کہ جس میں انہوں نے جھوٹ بہتان لگایا ہو یا کوئی تقصیر کی ہو تو پھر میں بھی اس میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔
لیکن یہ چاہنا کہ لوگوں سے کہیں: بس چپ ہوجاؤ، باطل کو یونہی چھوڑ دو، اس پر رد نہ کرو، وضاحت وبیان نہ کرو، تو یہ بات صحیح نہیں ہے۔ یہ تو کتمانِ حق ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی تو فرماتے ہیں:
﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ﴾ (آل عمران: 187)
(اور جب اللہ تعالی نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے)
اور فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 159)
(بےشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے نازل فرمایا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ تعالی لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں)
ہم غلطیاں دیکھیں اور چپ بیٹھے رہیں، اور لوگوں کو یونہی سرگرداں چھوڑ دیں؟ نہيں، ایسا کبھی بھی جائز نہيں ہوسکتا۔ بلکہ واجب ہے کہ باطل سے حق کو علیحدہ کرکے بیان کیا جائے، خواہ جو راضی ہو سو ہو، ناراض ہو سو ہو۔
[1] اس سے مقصود یہ تمام مشایخ ہیں: شیخ محمد امان الجامی رحمہ اللہ، ربیع بن ہادی المدخلی، عبید الجابری، علی الفقہی، صالح السحیمی اور محمد بن ہادی حفظہم اللہ، جن کا اللہ تعالی کے بعد بہت بڑا احسان ہے کہ وہ سبب بنے بہت سے طلاب علم کو فرقہ اخوان المسلمین کے بارے میں بصیرت دینے کا، اور ان کے بڑوں پر یہاں وہاں رد کرنے کا۔ (الحارثی)